خطبۂ غدیر
خطبہ غدیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس خطبے کو کہا جاتا ہے جس میں آپؐ نے حضرت امام علی کو مسلمانوں کا ولی اور اپنا جانشین پہچنوایا۔ پیغمبر اکرم ؐ نے اس خطبے کو 18 ذوالحجہ سنہ 10ہجری قمری کو حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا۔ بہت سارے شیعہ اور سنی علما نے اس خطبے کو نقل کیا ہے۔
یہ خطبہ شیعوں کے یہاں پیغمبر اسلام کے امام علیؑ کی امامت اور ولایت کے دلائل میں سے ایک ہے۔شیعہ اپنے اس مدعا کو مختلف قرائن و شواہد کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔
حدیث غدیر اس خطبے کا ایک حصہ ہے جس میں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ چونکہ اس خطبے کا یہ حصہ 110 افراد سے زیادہ صحابہ اور 84 تابعین نے نقل کیا ہے اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث تواتر کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔
علامہ امینی نے اس خطبے کے سلسلہ سند کو اہل سنت کے منابع سے جمع کیا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ واقعہ غدیر کو ثابت کرنے کی خاطر 11 جلدوں پر مشتمل کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب کی تألیف کی ہے۔
واقعہ غدیر
ترمیمہجرت کے دسویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اس لیے اسے بعد میں حجۃ الوداع کا نام دیا گیا۔[1] تمام مسلمانوں کو اطلاع دی گئی کہ پیغمبر اس سال حج پر تشریف لے جا رہے ہیں [2] اس لیے تمام مسلمانوں سے بھی حج پر جانے کے لیے کہا گیا۔[3] بہت سارے مسلمانوں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس حج میں شریک ہونے کے لیے مدینہ جمع ہوئے۔[4] یوں آپؐ 25 ذوالقعدہ کو مدینے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[5]
امام علیؑ بھی اسی سال رمضان کو کفار کے ساتھ جنگ کے لیے یمن میں مذحج نامی مقام کی طرف روانہ ہوئے۔[6] دشمن کو شکست دینے اور جنگی غنائم اکھٹا کرنے کے بعد آپؑ بھی رسول اکرمؐ کے حکم سے اعمال حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ [7]
روز عرفہ کو پیغمبر اکرمؐ نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانت داری، ربا کی حرمت، عورتوں کے حقوق اور شیطان کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔[8]
حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہونے لگے۔ حاجیوں کے یہ قافلے 18 ذوالحجہ کو غدیر خم نامی جگہے پر پہنچے۔ [9] غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو جُحفہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔[10] جب رسول اکرمؑ کا قافلہ غدیر خم پہنچا تو فرشتہ وحی سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67 یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً آج کفار تمھارے دین سے مایوس ہو گئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ لے کر رسول اکرم ؐ پر نازل ہوا اور آپؐ کو حضرت علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان کرنے پر مامور کیا۔[11] اس موقع پر رسول اکرمؐ نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرمؐ کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کے لیے ایک منبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپؐ نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمھارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔[12] اس کے بعد حضرت علیؑ کو اپنے پاس منبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ [13] اس کے بعد حضرت علیؑ کے دوستوں کے حق میں دعا اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائی۔[14] اس وقت حسان بن ثابت نے آپؐ کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔[15] اس کے بعد خلیفہ دثانی نے اس مسئلے پر امام علیؑ کو مبارک باد دیا۔[16]
خطبہ غدیر کا خلاصہ
ترمیم- خطبے کے آغاز میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد خدا کی صفات پر نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تفصیلی بحث فرمایا۔
- آیت تبلیغ کا نزول اور ایک اہم کام کی ابلاغ کا حکم۔
- پیغمبر اکرمؐ کا منافقین کے فتنے کے خوف سے اس آیت کی تبلیغ میں تردید کا اظہار اور جبرئیل کی کئی بار اس آیت کی تبلیغ پر تاکید اور خدا کی طرف سے پیغمبر کو منافقین کے فتنے سے بچانے کا وعدہ۔
- ایسے محافل میں پیغمبر اکرمؐ کی شرکت کا یہ آخری بار ہونا اور امت کی امامت قیامت تک حضرت علی علیہ السلام اور آپؑ کی فرزندوں کے ذمے ہونے کا اعلان۔
- حرام محمد کا قیامت تک حرام رہنے اور حلال محمد کا قیامت تک حلال رہنے کا اعلان۔
- حضرت علی کا علمی مقام اور آپ کی فضیلت کا بیان۔
- علیؑکی ولایت کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔
- پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمانہ جاہلیت کے کافروں کی طرح ہے۔
- اس تاریخی جلمے کا بیان: مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ
- حدیث ثقلین کا بیان اور قرآن و اہل بیت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔
- حضرت علیؑ کی وصایت، خلافت اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان
- حضرت علیؑ کے دوستوں کے حق میں دعا اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ
- جبرئیل اور اکمال دین کا نزول۔
- حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ حسد کرنا۔
- منافقین کی کار شکنی کی طرف اشارہ۔
- حضرت علیؑ کے ذریت میں سے امام مہدی(عج) کے اوپر امامت کی اختتام کا اعلان۔
- لوگوں کو اپنے خود ساختہ جھوٹے اماموں کی بیعت اور پیروی سے ممانعت۔
- حاضرین کو اس پیغام کو غائبین تک پہنچانے کا حکم۔
- لوگوں کو اہل بیتؑ کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کی سفارش ۔
- امام مہدیؑ اور آپ کی حکومت کے بارے میں تقریبا 20 جملے۔
- سب سے بڑی نیکی غدیر میں آپ کے کلام کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔
- امام علیؑ کے دیگر اوصاف کا بیان اور لوگوں سے باقاعدہ آپ کی بعنوان امام و جانشین پیغمبر بیعت کرنے کا حکم ۔
ٍٍ
منابع خطبہ غدیر
ترمیماس خطبے کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ ان منابع میں یہ خطبہ پیغمبر اسلامؐ سے کئی طریقوں سے نقل ہوا ہے: روایت امام باقرؑ،[17]حذیفۃ بن یمان،[18]زید بن ارقم.[19]
متن خطبہ غدیر ان کتابوں میں آیا ہے: روضۃ الواعظین، الاحتجاج، الیقین، نزہۃ الکرام، الاقبال، العُدَدُ القَویۃ، التحصین، الصراط المستقیم و نہج الایمان.
حدیث غدیر
ترمیمخطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ حضرت علیؑ کی ولایت اور امامت کا اعلان ہے: مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔
اس حدیث کا براہ راست نقل
ترمیمعلامہ امینی کے مطابق اس حدیث کو احمد بن حنبل نے 40، ابن جریر طبری نے 72، جزری مقری نے 80، ابن عقدہ نے 105، ابوسعید سجستانی نے 120، ابوبکر جعابی نے 125 اور [20] حافظ ابوالعلاء العطار ہمدانی نے 250 راویوں سے نقل کیا ہے۔[21]۔
اہل سنت کے رجال اور حدیث کے ماہرین کے مطابق اس حدیث کی سند بہت زیادہ ہیں جسے اکثر علما نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ [22] اس حدیث کے راویوں میں تقریبا 90 صحابہ اور 84 تابعین شامل ہیں۔
اس حدیث کا غیر مستقیم نقل
ترمیمدرج بالا افراد کے ذریعے اس حدیث کی براہ راست نقل ہونے کے علاوہ بہت سارے افراد نے اسے غیر مستقیم طور پر بھی نقل کیا ہے، یعنی وہ افراد جو خود غدیر خم میں نہیں تھے لیکن ان افراد سے جو وہاں موجود تھے، سے سنے کے بعد پھر انھوں نے نقل کیا ہے۔ ان میں ابی الطفیل نے 30، [23] عامر بن لیلی الغفاری نے 17،[24] عمیرۃ بن سعد نے 12، [25] زید بن ارقم نے 16،[26] زیاد بن ابی زیاد نے 12، [27] زاذان ابی عمر نے 13،[28] عبدالرحمن بن ابی لیلی نے 12،[29] عبد خیر، عمرو ذی مرہ اور حبہ العرنی نے 12،[30] ابوہریرہ، أنس اور أبی سعید نے 9، [31] ابی قلابہ نے 9،[32] زید بن یثیغ نے 12،[33] اور سعید بن وہب نے 5 یا 6 افراد سے اس حدیث کو سن کر نقل کیا ہے۔[34]۔
حدیث غدیر کے راوی
ترمیمخطبہ غدیر بعض جزئیات اور تعابیر میں اختلاف کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوا ہے۔ بہت سے منابع میں خطبے کا پورا متن نہیں آیا ہے اور مؤلفین نے صرف اس حصے کو بعنوان حدیث غدیر نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے جس میں امام علیؑ کو بعنوان امام اور ولی معرفی فرمایا ہے۔
علامہ امینی نے الغدیر میں 110 صحابہ، 84 تابعین اور اہل سنت کے دوسری صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری تک کے 360 علما کا کا نام لیتے ہیں۔ [35] بعض مشہور اصحاب، تابعین اور راویوں کے نام درج ذیل ہیں:
اہل بیت | صحابہ | تابعین | متاخرین |
---|---|---|---|
امام علیؑ[36] | ابوبکر بن ابوقحافہ | ابوسلیمان مؤذن | محمد بن اسماعیل بخاری[37] |
حضرت فاطمہ(س)[38] | عمر بن خطاب | ابوصالح سمّان ذکوان مدنی | احمدبن یحیی بلاذری[39] |
امام حسنؑ[40] | عایشہ بنت ابی بکر | اصبغ بن نباتہ کوفی | احمدبن شعیب نسائی[41] |
امام حسینؑ[42] | عثمان بن عفّان | سلیم بن قیس ہلالی | حسکانی حنفی[43] |
امام باقرؑ[44] | ام سلمہ (زوجہ پیغمبر) | طاووس بن کیسان | ابن عساکر دمشقی[45] |
زید بن ارقم[46] | عمر بن عبدالعزیز، خلیفہ اموی[47] | فخر الدین رازی شافعی[48] | |
انس بن مالک | ابوراشد حبرانی | ابن ابی الحدید معتزلی[49] | |
خزیمۃ بن ثابت انصاری | ابولیلی کندی | ابن کثیر شافعی[50] | |
جابر بن عبداللہ انصاری | ایاس بن نُذیر | ابن صباغ مالکی[51] | |
حذیفۃ بن یمان[52] | حبیب بن ابی ثابت اسدی | متقی ہندی[53] | |
عبداللہ بن عباس | حبیب بن عتیبہ کوفی | ابن حمزہ حسینی حنفی[54] | |
سلمان فارسی | ابو عبیدہ بن ابی حمید البصری | شہاب الدین آلوسی[55] | |
حسان بن ثابت | ابو مریم زر ابن حبیش الاسدی | شیخ محمد عبدہ مصری[56] | |
سعدبن ابی وقّاص | سالم بن عبد اللہ بن عمر | ابومحمد بن داوود حلی[57] | |
قیس بن ثابت بن شمّاس[58] | سعید بن جُبیر أسدی[59] | صفی الدین حلی[60] |
خطبہ غدیر کی سند کا مطالعاتی منابع
ترمیم- الطرائف[61]
- عبقات الانوار[62]
- بحار الانوار[63]
- اثبات الہداۃ[64]
- الغدیر[65]
- کشف المہم فی طریق خبر غدیرخم[66]
- عوالم العلوم[67]
- نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار[68]
واقعہ غدیر کی سند پر ہونے والی اعتراضات
ترمیمبعض افراد نے اس واقعے کی سند پر اعتراضات اور اشکالات کرنے کی کوشش کی ہیں جن میں سے اہم ترین اعراضات درج ذیل ہیں:
حدیث غدیر کے ضعیف ہونے کا دعوا
ترمیمحدیث غدیر کی سند کا مختلف طریقوں سے تواتر کے ساتھ ذکر ہونے کے باوجود بعض اہل سنت علما کہتے ہیں کہ اسے متواتر اور صحیح نہیں قرار دے سکتے۔[69] ان افراد کی دلیل یہ ہے کہ اکثر محدّثین جیسے بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا جبکہ بعض جیسے ابی داود اور ابی حاتم رازی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[70]
اس ادعا کے جواب میں اہل سنت ہی کے بہت سارے علما جیسے تِرمِذی(279ق)،[71] طَحاوی(279ق)،[72] حاکم نیشابوری(405ق)،[73] ابن کثیر(774ق)،[74] ابن حجر عسقلانی(852ق)،[75] ابن حجر ہیتمی(974ق)[76] نے اس حدیث کی سند کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اس کے علاوہ اصحاب اور تابعین کے توسط سے مختلف کتابوں میں براہ راست یا با واسطہ اس حدیث کو نقل کرنا خود اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن مسلم اور بخاری جیسے محدثین کا اس حدیث کو ذکر نہ کرنے اور اس کی سند میں شک و تردی کرنے کی علت کو کسی اور زاویے سے تحقیق اور بررسی کرنی چاہیے۔
خطبے کی صحت پر اعتراض
ترمیماس حدیث کے مخالفین کی جانب سے اٹھائے جانے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ علیؑ اس وقت مکے میں نہیں تھے جس وقت غدیر خم میں یہ واقعہ پیش آیا بلکہ آپؑ اس وقت یمن کسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔[77] اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علیؑ اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرمؐ کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔[78]
حدیث کی دلالت
ترمیمحدیث غدیر ابتدا ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ حضرت علیؑ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتا ہے۔ شیعہ متکلمین نیز خلافت پر حضرت علیؑ اپنی حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ متکلمین میں شیخ مفید پہلے شخص تھے جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔[79][80] شیخ طوسی[81] اور علامہ حلی[82] نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں فخر رازی،[83] قاضی ایجی،[84] تَفتازانی،[85] جُرجانی[86] وغیرہ نے شیعہ علما کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم بحثیں کی ہیں۔
اہل سنت کا نظریہ
ترمیماہل سنت کے مشہور علما اس بات کے معتقد ہیں کہ "ولی" کا لفظ جو اس حدیث میں استعمال ہوا ہے وہ "صاحب اختیار" اور "اولی بالتصرف" کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ دوست اور ناصر و مددگار کے معنی میں ہے۔ تفتازانی،[87] فخر رازی،[88] قاضی ایجی اور جرجانی[89] وغیرہ اس بات کے مدعی ہیں کہ "مولا" کا لفظ "صاحب اختیار" اور "اولی بالتصرف" کے معنی میں نہیں آسکتا۔ یہ افراد یوں استدلال کرتے ہیں:
اولا: عرب زبان میں "مَفعَل" کا صیغہ اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔[90]
ثانیا: اگر مولا "اولی بالتصرف" کے معنی میں ہو تو ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا صحیح ہونا چاہیے۔ حالنکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مثلا اسی حدیث میں "من کنت مولا" کی جگہ "من کنت اولی بالتصرف" کہنا صحیح نہیں ہے۔ [91]
شیعہ علما نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے شیعوں کے مطابق:
پہلا: خود اہل سنت علما نے تصریح کیا ہے کہ "مولی" کا لفظ "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔[92] لغت ماہرین جیسے غیاث برغوث التغلبی اخطل(90ق)،[93] أبو الشعثاء بن رؤبہ السعدی عجاج(90ق)،[94] أبو زکریا یحیی بن زیاد فراء(207ق)،[95] ابو عبیدہ(209ق)، اخفش(215ق) اور زجاج(311ق)[96] وغیرہ نے اس بات کو بیان کیا ہے۔
دوسرا: مذکورہ دوسرا اشکال بھی درست نہیں ہے کیونکہ ایک لفظ کا دوسرے لفظ کی جگہ استعمال نہ ہونا یا استعمال صحیح نہ ہونا ان دونوں کے مترادف اور ہم معنی نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ مثلا خود انہی علما کے بقول لفظ "ناصر" لفظ "مولا" کے معنی میں سے ہے پس ان کے استدلال کے مطابق ان دونوں الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا صحیح ہونا چاہیے حالنکہ ایسا نہیں ہے پس "ناصر" بھی مولا کے ہم معنی نہیں ہے۔
تیسرا: دو مترادف الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا اس وقت صحیح ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو، یہاں مانع کی وجہ سے ان کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے پہلا لفظ فقط حرف اضافہ "من" کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جبکہ "مولا" ایسا نہیں ہے اسی وجہ سے یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں ہو سکتے۔[97] ٍٍٍٍ
شیعہ نقطہ نظر
ترمیمشیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس حدیث میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرمؐ مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علیؑ بھی تمام مسلمانوں کے مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کے لیے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:
الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛
ب. اولی بالتصرف ہونے اور امامت و خلافت کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ [98]
شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کے لیے معتبر اور مورد قبول ہو۔ [99] جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی اولویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔[100]
اس مطلب کو ثابت کرنے کے لیے شیعہ حضرات اس حدیث کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ [101][102] یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔[103] اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔[104] اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ[105] اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں [106][107][108]
شیعہ استدلال کے شواہد
ترمیمشیعہ اعتقادات کے مطابق اس لفظ کے متعدد معانی میں استعمال ہونے کے باوجود اس حدیث کے متن کے داخل اور خارج میں بعض قرائن و شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ مولی اس حدیث میں صرف اور صرف اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ قرائن و شواہد درج ذیل ہیں:
قرائن داخلی
ترمیم- جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:
اس حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم [109] اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور اولویت حاصل ہے تو ہم پر اس کے حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔[110] بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔[111][112]کیونکہ پیغمبر اکرمؐ مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتے ہیں۔[113]
پس اس جملے کا حضرت علیؑ کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علیؑ کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ [114]
- اس خطبے کے ابتدائی جملات:
پیغمبر اکرمؐ اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد توحید کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی رسالت اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ [115] یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امت کے لیے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرمؐ نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ اپنا جانشین تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ [116] اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔
قرائن خارجی
ترمیم- پیغمبر اکرمؐ کا مسلمانوں سے اقرار لینا:
پیغمبر اکرمؐ نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟
سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپؐ ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمھیں چاہیے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنو۔
اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے دعا فرمائی کہ خدایا! علیؑ کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔
- عمر بن خطاب اور ابوبکر کا حضرت علیؑ کو مبارک باد دینا:
اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں ابوبکر بن ابی قحافہ اور عمر بن خطاب نے امام علیؑ کے پاس آکر انھیں ولایت اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔[117] عمر بن خطاب نے آپؑ سے کہا:
بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ:اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔[118][119]
اصحاب کا اس طرح حضرت علیؑ کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے خلافت اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔[120]
- صدر اسلام کے شعرا کے اشعار:
متعدد مسلمانوں نے اس واقعے کی اشعار کے ذریعے منظر کشی کی ہے جن میں سے پہلا شخص حسان بن ثابت تھا۔ حسان بن ثابت وہاں موجود تھا اور پیغمبر اکرمؐ سے اجازت لے کر اس واقعے کی توصیف میں چند اشعار کہے۔ ان اشعار میں اس نے اس واقعے میں حضرت علیؑ کا بعنوان امام و ہادی امت نصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[121][122]
واقعہ غدیر کے متعلق حسان بن ثابت کے اشعار:
|
اس واقعے کے کئی سال بعد عمرو عاص، قیس بن سعد بن عبادہ،[123][124] کمیت بن زید اسدی،[125] محمد بن عبداللہ حمیری،[126] سید بن محمد بن حمیری،[127] وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔
حضرت علیؑ نے نیز اس واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔[128]
|
یعنی پیغمبر خدا نے غدیر خم میں خدا کے حکم سے میری امامت اور ولایت کو کو تمھاری اوپر واجب کیا۔
پس وای ہو اس شخص پر جو قیامت کے دن خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ میرے اوپر ظلم کی ہو۔
علامہ امینی نے صحابہ، تابعین اور نوی صدی ہجری تک کے دیگر مسلمان شعرا کا نام ذکر کیا ہے جنھوں نے اس واقعے کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔[129] ان اشعار کے مضامین اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شعرا اس واقعے اور لفظ "مولا" سے اولا بالتصرف اور خلافت کے معنی سمجھتے تھے۔
- اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال:
امام علیؑ نے کئی مواقع پر اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے خلافت اور امامت کے لیے سب سے زیادہ اپنے آپ کا سزاوار ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلا جنگ جمل میں طلحہ کے ساتھ اسی حدیث کے ذریعے استدلال فرمایا،[130] اسی طرح مسجد کوفہ میں معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں چند اشعار کے ضمن میں اس حدیث کے ساتھ استدلال فرمایا [131] [132] اسی طرح جنگ صفین میں آ پ احتجاج اور استدلال فرمایا[133] حضرت فاطمہ زہرا نے بھی مخالفین کے مقابلے میں حضرت علیؑ کی خلافت اور امامت پر اس حدیث کے ذریعے استدلال فرمائی ہے۔ [134]
- اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:
بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر اہل بیت کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر انس بن مالک برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گیا۔[135][136] زید بن ارقم[137] اور اشعث بن قیس [138] نابینا ہو گیا۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علیؑ سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لیے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کے مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔[139]
- آیت تبلیغ کا نزول:'
بعض احادیث [140][141] اور مفسرین کے مطابق [142][143] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67،حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ اور مدینہ نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرمؐ کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبرؐ کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہوں گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبرؐ کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدیں اور سفارشیں بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور صرف حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔[144][145] ابن عباس، براء بن عاذب و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔[146]
اگرچہ بعض یہ مانتے ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے قصاص،رجم، رسول کے لے پالے گئے بیٹے زید کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب جہاد کا حکم یا یہودیوں اور قریش اور مشرکین کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔[147] لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا غلط اور باطل ہونا واضح ہے۔
- آیت اکمال دین کا نزول :
خطبہ غدیر جن کتابوں میں مذکور ہیں
ترمیمشیعی کتابیں
ترمیماہل سنت کی کتابیں
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ بخاری، تاریخ الکبیر، ج4، ص1599؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص152؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج3، ص360.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص149.
- ↑ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص601.
- ↑ واقدی، المغازی، ج3 ص1089؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج5 ص110.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص149.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص132؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2 ص؛ حلبی، السیره الحلبیه، ج3، ص289.
- ↑ واقدی، المغازی، ج3، ص10791080؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج3، ص289.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج3، ص150-152؛ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص603604.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص118.
- ↑ یاقوت، معجم البلدان، ج2، ص103.
- ↑ مفید، تفسیر القرآن، ج1، ص184؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، ج1، ص332.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص1ب12.
- ↑ ابن اثیر، أُسدالغابۃ،ج5، ص253؛ کلینی، الکافی، ج2، ص27.
- ↑ بلاذری،انساب الاشراف، ج2، ص111؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج7، ص349؛ نسائی، ج5، ص45.
- ↑ صدوق، الامالی، ص575؛ مفید، اقسام المولی، ص35؛ طوسی، الاقتصاد، ص351؛ طوسی، الرسائل، ص138.
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج7، ص349.
- ↑ ابن فتال، روضۃالواعظین، ج1، ص9؛ طبرسی، ج1، ص66؛ ابن طاووس، الیقین، ص343؛ علم الہدی، نزہۃالکرام، ج1، ص186.
- ↑ ابن طاووس، الاقبال، ص454 و 456
- ↑ حلی، العُدَدُ القَویۃ، ص169؛ ابن طاووس، التحصین، ص578؛ بیاضی، الصراط المستقیم، ج1، ص301؛ حسین بن جبور، نہج الایمان، ورقہ 2634.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص40.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص158.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج7، ص61.
- ↑ بن حنبل، ج4، ص 370
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، ج3، ص 484.
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ج1، ص66
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج5، ص370.
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص88.
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص84
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص119؛ خطیب، ج16، ص348.
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ج1، ص54
- ↑ ہیثمی، ج9، ص136
- ↑ دولابی، ج3، ص928
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج1، ص118.
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج5، ص366.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص14-15.
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ص112، ح 155؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج3، ص307؛ ہیثمی، ج9، ص107
- ↑ بخاری، ج1، ص375
- ↑ ابن جزری، أسنی المطالب، ص49.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ص108
- ↑ قندوزی، ج3، ص369
- ↑ نسائی، ص132 _104 _103 _101 _100 _96 _93
- ↑ سلیم بن قیس، ص321
- ↑ حاکم حسکانی، ج1، ص201، ح 211
- ↑ ابن فتال، روضۃالواعظین، ج1، ص89؛ طبرسی، ج1، ص66؛ ابن طاووس، الیقین، ص343؛ علم الہدی، نزہۃالکرام، ج1، ص186
- ↑ ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، ج2، ص70.
- ↑ حلی، العُدَدُ القَویۃ، ص169؛ ابن طاووس، التحصین، ص578؛ بیاضی، الصراط المستقیم، ج1، ص301؛ حسین بن جبور، نہج الایمان، ورقہ26 34
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص14-15
- ↑ فخر رازی، ج12، ص49
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص13.
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج5، ص209.
- ↑ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ج1ص 235.
- ↑ ابن طاووس، الاقبال، ص454456.
- ↑ متقی ہندی، ج13، ص158 _157 _138 _131 _105 _104 و 168
- ↑ ابن حمزہ، البیان و التعریف، ص593.
- ↑ آلوسی، ج6، ص194
- ↑ رشیدرضا، ج6، ص384
- ↑ الغدیر، ج6، ص11
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص14-15
- ↑ الغدیر، ج1، ص145
- ↑ الغدیر، ج6، ص59
- ↑ ابن طاووس، الطرائف، ص33.
- ↑ ہندی، میرحامدحسین
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج37، ص181 - 182
- ↑ حر عاملی، ج2، ص200 - 250
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، صفحات 12، 151، 294 - 322
- ↑ بحرانی، سیدهاشم
- ↑ بحرانی، عبد اللہ، ج15/3، صفحات 307 - 327
- ↑ سید علی میلانی، ج6 - 9
- ↑ تفتازانی، ج5، ص272
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص361.
- ↑ ترمذی، ج5، ص563
- ↑ طحاوی، ج4 ص212
- ↑ حاکم نیشابوری،ج 3، ص 118
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج5، ص209.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج7، ص74.
- ↑ ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ،ج1، ص106.
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص361؛ طحاوی، ج4، ص212.
- ↑ واقدی، المغازی، ج3، ص10791080؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج3، ص289.
- ↑ مفید، اقسام المولی، ص28بہ بعد
- ↑ مفید، الافصاح، ص32.
- ↑ طوسی، الاقتصاد، ص345
- ↑ حلی، کشف المراد، ص369.
- ↑ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج2، ص283
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص360-365.
- ↑ تفتازانی، ج5، ص273-275
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص360-365
- ↑ تفتازانی، ج5، ص273-275
- ↑ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج2، ص283
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص360-365
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص361.
- ↑ فخر رازی، التفسیر، ج29، ص459
- ↑ تفتازانی، ج5، ص273
- ↑ شریف مرتضی، ج2، ص270
- ↑ شریف مرتضی، ج2، ص270
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج29، ص227
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج29، ص227
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص624.
- ↑ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج2، ص283.
- ↑ شریف مرتضی، الشافی، ج2 ص277
- ↑ سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔
- ↑ ابن منظور، ج15، ص407، مادہ ولی
- ↑ ازہری، ج15، ص324-327
- ↑ فیومی، ج1- 2، ص672
- ↑ ابن فارس، معجم مقاییس اللغہ، ج6، ص141.
- ↑ طریحی، ج1، ص462؛ بستانی، ص985؛ فیروز آبادی، ص1209
- ↑ ابن منظور، ج15، ص411
- ↑ ازهری، ج15، ص322
- ↑ طریحی، ج1، ص464- 465
- ↑ سورہ احزاب، آیت نمبر 6
- ↑ طوسی، التبیان، ج8، ص317
- ↑ بیضاوی، ج4، ص225
- ↑ زمخشری، ج3، ص523
- ↑ زمخشری، ج3، ص225
- ↑ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج2، ص283
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج1، ص439؛ یعقوب، ج2، ص118؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج7، ص348349؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص108.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص657
- ↑ مناوی، ج6، ص217
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، ج4، ص281.
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ج1، ص46؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج7، ص349.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص667.
- ↑ طوسی، الاقتصاد، ص351
- ↑ سید رضی، ص43
- ↑ سید رضی، ص43
- ↑ دلائل الصدق، ج4، ص340
- ↑ سید رضی، ص43
- ↑ مجلسی، ج3، ص270
- ↑ سید رضی، ص43
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص181.
- ↑ امینی، الغدیر، ج2، ص51-495.
- ↑ حاکم نیشابوری، ج3، ص419
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج5، ص211.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص181؛
- ↑ مجلسی، ج33، ص41
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج7، ص304.
- ↑ صدوق، امالی، ص22
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج1، ص580
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ج1، ص62.
- ↑ صدوق، امالی، ص162.
- ↑ امینی، الغدیر، ج1، ص664.
- ↑ قمی، ج1، ص171
- ↑ طبرسی، جوامع الجامع، ج1، ص343
- ↑ سیوطی، ج2، ص298
- ↑ عیاشی، ج1، ص332
- ↑ عیاشی، ج1، ص331
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج1، ص334.
- ↑ فخر رازی، ج12، ص401
- ↑ فخر رازی، ج12، ص400-402
- ↑ حرعاملی، ج3، ص311، 476، 584، 601؛ ج4، ص166، 472
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص66، 84
- ↑ شوشتری، ج2، ص415- 501؛ ج3، ص320؛ ج6، ص225، 368 و ج12، ص1– 93
- ↑ مفید، الاختصاص، ص74.
- ↑ بحرانی، ج1، ص711؛ ج2، ص145
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص224، 226، 227، 228، 236؛ ج3، ص38، 42، 43.
- ↑ مجلسی، ج37
- ↑ صدوق، ص66
- ↑ ابن بطریق، العمدۃ، ص90 -103، 448.
- ↑ صدوق، الامالی، ص12، 106، 107، 284.
- ↑ صدوق، الشرائع، ص143.
- ↑ صدوق، ج2، ص47
- ↑ ابن ابی الفتح اربلی، ج1، ص318، 323؛ ج2، ص213، 222؛ ج3، ص47
- ↑ نوری، ج3، ص250؛ ج6، ص277؛ ج7، ص120
- ↑ طوسی، ج1، ص243، 253، 278؛ ج2، ص159، 174
- ↑ طوسی، ج1، ص113
- ↑ عیاشی، ج1، ص292، 293، 332- 334
- ↑ علی بن ابراہیم قمی، ص150، 277، 474، 538
- ↑ حرعاملی، ص227
- ↑ ابوالفرج، الأغانی، ج8، ص307.
- ↑ ابونعیم، أخبار اصفہان، ج1، ص107، 235 و ج2، ص227
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج2، ص460.
- ↑ ابن اثیر، أُسد الغابہ، ج1، ص308، 367 و ج2، ص233 و ج3، ص92، 93، 274، 307، 321 و ج4، ص28 و ج5، ص6، 205، 208
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج1، ص372، 550 و ج2، ص257، 382، 408، 509 و ج3، ص512 و ج4، ص80
- ↑ بیہقی، ص182
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص156.
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج5، ص208، 209، 211، 212، 213، 210، 227، 228 و ج7، ص338، 344، 346، 347، 348، 349
- ↑ ذہبی، ج2، ص196، 197
- ↑ خطیب بغدادی، ج8، ص290 و ج7، ص377 و ج12، ص343 و ج14، ص236
- ↑ ابن قلانسی، تاریخ دمشق، ج1، ص370 و ج2، ص5، 85، 345 و ج5، ص321.
- ↑ بخاری، ج1، ص375 و ج2، قسم 2، رقم 194
- ↑ زرندی حنفی، ص79، 109، 112
- ↑ ابن الأثیر، ج4،1 ص346
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج1، ص60 و ج2، ص223.
- ↑ قندوزی، 29 - 40، 53-55،81، 120، 129، 134، 154، 155، 179-187، 206، 234، 284
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج1، ص109.
- ↑ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص30، 33.
- ↑ احمد حنبل، ج1، ص84، 119، 180 و ج4، ص241، 281، 368، 370، 372 و ج5، ص347، 366، 370، 419 - 494 و ج6 ص476
- ↑ ابن مغازلی، مناقب، ص16، 18، 20، 22، 23، 24، 25، 224، 229
- ↑ خوارزمی، المناقب، ص23، 79، 80، 92، 94، 95، 115، 129، 134
- ↑ حاکم نیشابوری، ج3، ص109، 110، 118، 371، 631
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج3، ص335.
- ↑ ابن ماجہ، سنن، ج1، ص43.
- ↑ ابن عبد ربہ، عقد الفرید، ج5، ص317.
- ↑ شوکانی، ج3، ص57
- ↑ حموینی، ج1، ص56، 64، 65، 67، 68، 69، 72، 75، 76، 77
- ↑ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص23، 24، 25، 27، 74.
- ↑ متقی ہندی، ج1، ص48 و ج6، ص397-405 و ج8، ص60 و ج12، ص210 و ج15، ص209
- ↑ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج1، ص337 و ج2، ص57 و ج7، ص283، 498. 46
- ↑ نسائی، سنن، ج5، ص45.
- ↑ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج3، ص274، 283، 369.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص317-362 و ج2، ص288 و ج3، ص208 و ج4، ص221 و ج9، ص217.
- ↑ حاکم حسکانی، ج1، ص158، 190
- ↑ مسلم، ج4، ص1873
- ↑ فخررازی، ج3، ص636
- ↑ نسائی، خصائص امیر المومنین، ص21، 40، 86، 88، 93، 94، 95، 100، 104، 124
- ↑ مقریزی، 220
- ↑ احمد بن عبد اللہ طبری، ص67، 68
- ↑ آلوسی، ج6، ص55
- ↑ ترمذی، ج5، ص591
مراجع
ترمیم- ابن ابن الحدید، شرح نہج البلاغہ، بہ تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم، قاہرہ:دار احیاء الکتب العربیہ.
- ابن اثیر، اسد الغابہ، بہ تحقیق محمد ابراہیم بنا، بیروت: دارالشعب.
- ابن اثیر، النہایۃ، بہ تحقیق طاہر أحمد الزاوی، بیروت: المکتبہ العلمیہ.
- ابن بطریق، العمدۃ، قم، جامعہ مدرسین.
- ابن جزری شافعی، أسنی المطالب، بیروت: دارالکتب العلمیہ.
- ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، بیروت، مؤسسہ اہل البیت.
- ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، بہ تحقیق عادل احمد عبدالموجود، بیروت: دارالکتب العلمیہ.
- ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت: دارصادر.
- ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1427ق.
- ابن حجر ہیتمی، الصوائق المحرقہ،
- ابن حمزہ حسینی حنفی، البیان و التعریف، بیروت، مکتبہ علمیہ؛
- ابن حنبل، احمد، مسند احمد، بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1414ق.
- ابن خلکان، وفیات الاعیان، تحقیق احسان عباس، بیروت، دارالثقافہ.
- ابن سعد، طبقات الکبری،دار صادر، بیروت.
- ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف، مکتبہ حیدریہ.
- ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تحقیق سامی الغریری، قم، درالحدیث.
- ابن طاووس، الاقبال، تہران، دارالکتب اسلامیہ.
- ابن طاووس، التحصین، قم، دارالکتاب.
- ابن طاووس، الطرائف، قم، مطبعہ خیام.
- ابن طاووس، الیقین، تحقیق محمدباقر انصاری، قم، دارالکتاب.
- ابن عبد ربہ، عقد الفرید، بیروت،دار و مکتبہ الہلال.
- ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل.
- ابن عساکر دمشقی، ترجمۃ الامام الحسین من تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، مؤسسۃ المحمودی.
- ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغہ، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1404ق، چاپ اول.
- ابن فتال نیشابوری، روضۃالواعظین، قم، شریف رضی.
- ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، قم، انتشارات شریف رضی.
- ابن قلانسی، تاریخ دمشق، تحقیق سہیل زکار، دمشق،دار حسان.
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، تحقیق علی شیری، بیروت،دار احیاء التراث.
- ابن ماجہ، سنن ابن ماجۃ، بیروت:دار احیاء کتب العربیہ.
- ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، تہران: مکتبہ اسلامیہ.
- ابن ہشام، عبد الملک، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،دار المعرفۃ، بیتا.
- ابونعیم اصفہانی، أخبار اصفہان، لیدن، مطبعہ بریل.
- ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، بیروت، دارالفکر.
- ابی فوارس، اربعین، مخطوط.
- احمد بن عبد اللہ طبری، ذخائر العقبی، قاہرہ، مکتبہ القدسی.
- احمد حنبل شیبانی، مسند احمد بن حنبل، بیروت،دار احیاء التراث العربی.
- اربلی، ابن ابی الفتح، کشف الغمہ، بیروت:دار الاضواء.
- امینی، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی.
- انصاری، محمدباقر، خطابہ غدیر، قم، انتشارات دلیل ما.
- آلوسی، روح المعانی، بیروت، دارالکتب العلمیہ.
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ بعثت.
- بحرانی، سیدہاشم، کشف المہم فی طریق خبر غدیرخم، قم، انتشارات ہمای غدیر.
- بحرانی، عبد اللہ، عوالم العلوم، قم، مؤسسہ امام مہدی.
- بخاری، تاریخ الکبیر، تحقیق سید ہاشم ندوی، بیروت، دارالفکر.
- بَلاذُری، انساب الاشراف، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسہ اعلمی.
- بیاضی، علی بن یوسف، الصراط المستقیم، نجف، مطبعہ حیدریہ.
- بیرونی، محمد بن احمد، الاثار الباقیہ فی القرون الخالیہ، تہران، نشر میراث مکتوب، 1422ق.
- بیضاوی، عبد اللہ، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1418ق.
- بیہقی، الإعتقاد، بیروت، دارالآفاق الجدیدہ.
- ترمذی، سنن ترمذی، بیروت، دارالمعرفہ.
- تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، افست قم، مکتبہ الشریف الرضی، 1409ق.
- ثعلبی، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1422ق.
- جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، چاپ: شرح المواقف، افست قم، مکتبہ الشریف الرضی، 1325ق.
- حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت ارشاد اسلامی.
- حاکم نیشابوری، المستدرک، تحقیق یوسف عبد الرحمن مرعشلی.
- حر عاملی، جواہر السنیۃ، ابو القاسم محمدصادق حسینی، بمبئی.
- حر عاملی، اثبات الہداۃ، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات.
- حسین بن جبور، نہج الایمان، مشہد، نسخہ خطی کتابخانہ امام ہادیؑ.
- حلبی، السیرہ الحلبیہ، بیروت، دارالمعرفہ.
- حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، قم، نشر اسلامی، 1413ق، چاپ چہارم.
- حلی، علی بن یوسف، العُدَدُ القَویۃ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی.
- حموینی جوینی، فرائد السِمطین، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسہ محمودی.
- خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبد القادر، بیروت، دارالکتب العلمیہ.
- خوارزمی، المناقب، مشہد، انتشارات برہان.
- دولابی، الکنی و الاسماء، بیروت،دار ابن حزم.
- ذہبی، تاریخ الإسلام، بیروت، دارالکتاب العربی.
- رشیدرضا، المنار، بیروت، دارالمعرفہ.
- زرندی حنفی، نظم درر السمطین، محقق سید علی عاشور، بیروت،دار احیاء التراث.
- زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت،دار الکتاب العربی، 1407ق، چاپ سوم.
- سلیم بن قیس، کتاب سلیم، تحقیق محمدباقر انصاری، قم، الہادی.
- سیدرضی، محمد بن حسین، خصائص الائمہ، مشہد، آستان قدس، 1406ق.
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر الماثور، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ق.
- شریف مرتضی، علم الہدی، الشافی فی الامامہ، تہران، مؤسسہ الصادق، 1410ق، چاپ دوم.
- شوشتری، احقاق الحق، قم: مکتبہ آیت اللہ مرعشی.
- شوکانی، فتح القدیر، دمشق،دار ابن کثیر.
- صدوق، الامالی، تہران، کتابخانہ اسلامیہ.
- صدوق، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1362ش.
- صدوق، علل الشرائع،دار الحجہ للثقافہ.
- صدوق، عیون اخبار الرضا، شیراز، انتشارات اسلامیہ.
- صدوق، معانی الاخبار، تہران، دارالکتاب الاسلامیہ.
- طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسلامی، 1417ق، چاپ پنجم.
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تصحیح: محمد باقر خراسانی، مشہد، نشر مرتضی.
- طبرسی، فضل بن حسن، جوامع الجامع، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران و مدیریت حوزہ علمیہ قم، 1377ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، 1372ش، چاپ سوم.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ق، چاپ دوم.
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ق.
- طحاوی، احمد بن محمد، بیان مشکل الاثار،دار النشر.
- طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تہران، مرتضوی، 1375ش، چاپ سوم.
- طوسی، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد،بیروت،دار الاضواء، 1406ق، چاپ دوم.
- طوسی، الامالی، قم، دارالثقافہ.
- طوسی، التبیان، بیروت، چاپ احمد حبیب قصیر.
- طوسی، الرسائل العشر، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1414ق، چاپ دوم.
- علم الہدی، نزہۃالکرام، تحقیق محمد شیروانی، تہران، انتشارات ترقی.
- عیاشی، تفسیر عیاشی، تحقیق رسولی محلاتی، تہران، مکتبہ علمیہ اسلامیہ.
- فخر رازی، تفسیر الرازی، بیروت،دار احیاء التراث.
- فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین،
- فیروز آبادی، محمد بن بعقوب، القاموس المحیط، بیروت،دار الکتب العلمیہ.
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، قم، مؤسسہ دارالہجرہ، 1414ق، چاپ دوم.
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1364ش.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، تحقیق موسوی جزایری، قم، دارالکتاب.
- قندوزی، ینابیع المودۃ، تحقیق سید علی جمال اشرف، تہران،دار الاسوہ.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم: دارالحدیث، 1429.
- متقی ہندی، کنز العمال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ.
- مجلسی، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء.
- مسعودی، مُرُوج الذہب و معادن الجواہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
- مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر.
- مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، 1422ق.
- مفید، محمد بن محمد، اقسام المولی، قم، الموتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ق.
- مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی.
- مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی الامامۃ، قم، الموتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ق.
- مفید، محمد بن محمد، تفسیر القرآن المجید، تحقیق سید محمد ایازی، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلام، 1422ق.
- مقریزی، الخطط و الآثار، بیروت: دارالکتب العلمیہ.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، 1374ش.
- مناوی، زین الدین محمد، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، مصر، المکتبہ الفکریہ الکبری، 1356ق.
- میلانی، نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار، قم، انتشارات آلاء.
- نسائی، خصائص امیر المومنین، قاہرہ، طبع حیدریہ.
- نسائی، سنن الکبری، تحقیق عبد الغفار سلیمان، بیروت، دارالکتب العلمیہ.
- نوری، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسہ آل البیت.
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم،، 1409ق.
- ہندی، عبقات الانوار، بیروت، دارالکتاب الاسلامی.
- ہیثمی، مجمع الزوائدو منبع الفوائد، بیروت، دارالفکر.
- یاقوت، شہاب الدین ابو عبد اللہ، معجم البلدان، بیروت،دار صادر، چاپ دوم، 1995م.
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،دار صادر.