بلوچستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صوبے
(بلوچستان (پاکستان) سے رجوع مکرر)

بلوچستان (بلوچی: بلۏچستان) رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو یکم جولائی 1971 میں قائم ہوا۔ ۔صوبہ بلوچستان کی آبادی مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء کے مطابق ایک کروڑ پینتالیس لاکھ باسٹھ ہزار 14,562,011 افراد پر مشتمل ہے۔


بلوچستان
صوبہ
سرکاری نام
بلوچستان
پرچم
بلوچستان
مہر
بلوچستان کا محل وقوع
بلوچستان کا محل وقوع
متناسقات: 27°42′N 65°42′E / 27.7°N 65.7°E / 27.7; 65.7
ملک پاکستان
قیامیکم جولائی 1971
صوبائی دار الحکومتکوئٹہ
سب سے بڑا شہرکوئٹہ
ڈویژن
حکومت
 • قسمصوبہ
 • مجلسصوبائی اسمبلی
 • گورنرشیخ جعفر خان مندوخیل
 • وزیر اعلیٰسرفراز بگٹی
 • چیف سیکریٹریشکیل قادر خان
 • انسپیکٹر جنرلمعظم جاہ انصاری
 • مقننہیک ایوانیت (65 نشستیں)
رقبہ
 • کل347,190 کلومیٹر2 (134,050 میل مربع)
بلندی753 میل (2,470 فٹ)
آبادی (2023)
 • کل14,562,011
 • کثافت42/کلومیٹر2 (110/میل مربع)
نام آبادیبلوچی
منطقۂ وقتPKT (UTC+5)
آیزو 3166 رمزPK-BA
صوبائی اسمبلی کی نشستیں65
ویب سائٹwww.balochistan.gov.pk

ایران میں بلوچوں کا علاقہ جو ایرانی بلوچستان کہلاتا ہے اور جس کا دار الحکومت زاہدان ہے، ستر ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے - بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے - اس کے علاوہ افغانستان میں زابل کے علاقہ میں بھی بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے -

تاریخ

ترمیم

قدیم تاریخ

ترمیم

آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی تھی اور قدیم دستاویزات کے مطابق یہ علاقہ ُ ماکا، کہلاتا تھا۔ تین سو پچیس سال قبل مسیح میں سکندر اعظم جب سندھو کی مہم کے بعد عراق میں بابل پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو یہیں مکران کے ریگستان سے گذرا تھا۔ اس زمانہ میں یہاں براہوی آباد تھے جن کا تعلق ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں، دراوڑوں سے تھا-

اسلامی تاریخ

ترمیم

654ء میں عبد الرحمان بن سمرہ نے زمراج نامے علاقے (جو اب جنوبی افغانستان میں ہے) میں مسلم فوج بھیجی، زمراج کو فتح کرنے کے بعد مسلم فوج کا ایک دستہ افغانستان کے مشرقی حصے میں بھیجا گیا جہاں انھوں نے کابل ،غزنی وغیرہ فتح کیے اور ایک دستہ کوئٹہ کی طرف بھیجا گیا جس نے قندبیل (جودہ بولان) تک کے علاقے فتح کیے۔

موجودہ پاکستانی بلوچستان امیر المومنین عثمان ابن عفان کے دور میں فتح ہوا تھا اور یہ مکمل طور پر خلافت راشدہ کے زیر اقتدار تھا۔ پورے بلوچستان میں صرف قیقن نام کا ایک قصبہ تھا جو عمر بن خطاب کی دور میں فتح نہیں ہوا تھا تاہم یہ قصبہ بھی بعد میں علی ابن ابو طالب کی دور میں فتح ہوا۔ عبد الرحمان بن سمرہ نے زمراج کو اپنا صوبائی دار الخلافہ بنایا اور وہ 654ء سے لے کر 656ء تک ان علاقوں کے گورنر رہے۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب کے دور میں بلوچستان کے جنوبی حصوں میں ایک بغاوت برپا ہونے لگی لیکن خانہ جنگی کے باعث 660ء تک خلیفہِ وقت علی بن ابی طالب نے ان علاقوں میں باغیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ 660ء میں علی بن ابی طالب نے حارث ابن مرہ کی قیادت میں فوج بھیجی انھوں نے بلوچستان کے شمالی علاقوں سے شروع کرتے ہوئے شمال مشرقی علاقوں تک بلوچستان فتح کیا اس کے بعد بلوچستان کے جنوبی علاقے بھی فتح کیے گئے۔

663ء میں خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان کے دور میں ایک بار پھر شمال مشرقی بلوچستان اور قلات خلافت امویہ کے ہاتھوں سے چلا گیا جب حارث بن مرہ اور ان کی فوج کی ایک بڑی تعداد ایک جنگ میں شہید ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں نے بلوچستان کے ان علاقوں کو دوبارہ فتح کیا اور خلافت عباسیہ میں بھی بلوچستان مسلم خلافت کا باقاعدہ حصہ رہا۔

جدید تاریخ

ترمیم

پاكستان كے ساحل كا ذيادہ تر بلوچستان كا ساحلی علاقہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خيبر پختونخوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 تک پاکستان کا موجودہ بلوچستان کا صوبہ پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ پانچ میں سے چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جن کے نام قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔ قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر برطانوی ایجنٹ بھی نگران تھے۔ قلات، لسبیلہ،خاران اور مکران کا علاقے وہی تھے جو آج بھی اسی نام کی ڈویژن کی صورت میں موجود ہیں۔ برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی(لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، ژوب، چمن) کے علاوہ کوئٹہ اور بلوچ علاقہ ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی (کوہلو) کے علاقہ شامل تھے۔ اس وقت گوادر خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔ مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی جبکہ باقی تین علاقہ قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی ميں گھرے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تین جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین نے کرناتھا۔ اور انھوں نے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دی جبکہ باقی چاروں علاقوں لسبیلہ، خاران، قلات اور مکران کے حکمرانوں نے بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا جبکہ قلات نے ایسا نہیں کیا۔ قلات میں گو کہ خان آف قلات حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تھی۔ تاہم ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی اصل فیصلہ خان آف قلات نے ہی کرنا تھا۔ جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948 میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ خان آف قلات میراحمد یار خانکے اس فیصلے کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انھیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلا۔ یہ فوجی کارروائی صرف قلات تک محدود تھی۔ کارروائی کے نتیجے میں شہزادہ میر عبدالکریم افغانستان فرار ہو گیا۔ بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام کے وقت برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن کر دیا گیا اور بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام قلات ڈویژن کر دیا گیا اور یہ دونوں علاقے مغربی پاکستان صوبے کا حصہ بن گئے۔ 1958 میں اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروزخان نون جن کا تعلق پنجاب سے تھا، نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقہ کی ملکیت بھی حاصل کر لی۔ 1969 میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبے بنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔ سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔ سن 1973 تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا۔

حکومت

ترمیم
حکومت
جانور  
پرندہ  
درخت  
پھول  
کھیل

بلوچستان کے اضلاع

ترمیم

بلوچستان کے 34 اضلاع درج ذیل ہیں۔

 
  1. ضلع قلات
  2. ضلع خضدار
  3. ضلع لسبیلہ
  4. ضلع مستونگ
  5. ضلع اواران
  6. ضلع پنجگور
  7. ضلع کیچ
  8. ضلع گوادر
  9. ضلع نصیر آباد
  10. ضلع کچھی
  11. ضلع جعفر آباد
  12. ضلع صحبت پور
  13. ضلع اوستہ محمد
  14. ضلع جھل مگسی
  15. ضلع کوئٹہ
  16. ضلع قلعہ عبداللہ
  17. ضلع چمن
  18. ضلع پشین
  19. ضلع سبی
  20. ضلع ہرنائی
  21. ضلع ڈیرہ بگٹی
  22. ضلع کوہلو
  23. ضلع زیارت
  24. ضلع ژوب
  25. ضلع قلعہ سیف اللہ
  26. ضلع شیرانی
  27. ضلع لورالائی
  28. ضلع موسیٰ خیل
  29. ضلع بارکھان
  30. ضلع دوکی
  31. ضلع چاغی
  32. ضلع واشک
  33. نوشکی
  34. ضلع خاران

آبادیات

ترمیم

پہاڑی نوعیت اور پانی کی کمی کی وجہ سے بلوچستان کی آبادی کی کثافت کم ہے۔ مارچ 2012 کی مردم شماری کے ابتدائی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خضدار، کوچی اور پنجگور اضلاع کو چھوڑ کر بلوچستان کی آبادی 13,162,222 تھی۔ یہ 1998 میں 5,501,164 سے 139.3 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا 6.85 فیصد ہے۔ اس عرصے کے دوران تمام پاکستانی صوبوں میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ بلوچستان کی سرکاری آبادی سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی آبادی 2003 میں تقریباً 7.45 ملین سے بڑھ کر 2005 میں 7.8 ملین ہو گئی ہے۔

تاریخی آبادی
مردم شماری آبادی شہری آبادی کا تناسب

1951 1,167,167 12.38%
1961 1,353,484 16.87%
1972 2,428,678 16.45%
1981 4,332,376 15.62%
1998 6,565,885 23.89%

تاریخی آبادی

ترمیم
بلوچستان میں دوسری قومیں
قومیت نسبت
بلوچ
  
64%
پشتون
  
25%
سرائیکی
  
11%
السنديين
  
10%
پنجابی
  
4%
ہزارہ
  
1%

1998 کی مردم شماری میں، بلوچی 54.8٪ کے ساتھ بلوچستان کی مرکزی زبان تھی، اس کے بعد پشتو 29.6٪، سندھی 5.6٪، پنجابی 2.5٪، سرائے 2.4٪، اردو 1. اور دیگر زبانیں 4.1٪ تھیں۔ تمام مقررین.

تعلیمی ادارے

ترمیم

رپورٹ کے مطابق بلوچستان بھر میں کل 14 ہزار 979 سرکاری اسکول ہیں، جن میں 10 ہزار 55 لڑکوں، چار ہزار 238 لڑکیوں جبکہ 686 اسکول لڑکوں اور لڑکیوں کے مشترکہ ہیں۔

محکمہ تعلیم کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں 11 ہزار 786 اسکول فعال جبکہ تین ہزار 193 اسکول غیر فعال ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 13 ہزار 21 اسکولز عمارت جبکہ 1958 اسکول بغیر عمارت کے ہیں

نو ہزار اسکول ایسے بھی ہیں جہاں واش رومز کی سہولیات میسر نہیں جبکہ 12 ہزار 680 اسکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں۔

صوبے میں آٹھ ہزار 14 اسکولوں کی چاردیواری نہیں ہے، جبکہ 11 ہزار 865 اسکول بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔

ادبی تنظیمیں

ترمیم

1* سید ظہورشاہ ہاشمی اکیڈمی

2۔ بلوچی اکیڈیمی کوئٹہ

3۔ زند اکیڈیمی نوشکی

4۔ عزت اکیڈیمی پنجگور

5* سنگت اکیڈمی آف سائینسز بلوچستان

6۔ بلوچستان اکیڈمی تربت کیچ

7* سالار ادبی کاروان اینڈ ڈویلپمنٹ سوسائٹی 2012

8* سخاوت ادبی کاروان بلوچستان ۔

9* سوز ادبی دیوان کانک بلوچستان ۔

10* ساتو ادبی کاروان احمد وال نوشکی بلوچستان

8* سپین غر پشتو ادبی تنظیم مسلم باغ بلوچستان ۔

9* سرائیکی ادبی سنگت بلوچستان۔ 1980۔

10* پاکستان سرائیکی ادبی سنگت بلوچستان

11* شمشاد رائٹرز فورم پاکستان 2000۔

121* شون ادبی دیوان بلوچستان ۔

13* شاشان انجمن شعرا بلوچستان ۔

14* شہوان ادبی کاروان بلوچستان ۔

15*شال براہوئی ادبی سوسائٹی بلوچستان ۔

16* شاد ادبی انجمن صحبت پور بلوچستان 12 اکتوبر2008 [1]

ایوان عکس

ترمیم

شخصیات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تحریر* ڈاکٹر عبد الرشید آزاد ۔

بیرونی روابط

ترمیم