ہندو صحیفے خواتین کے حوالے سے مختلف النّوع اور متضاد نظریات پیش کرتے ہیں جو بہ حیثیت دیوی اور نسوانی قیادت سے لے کر بہ حیثیت فرماں بردار بیٹی، گھریلو عورت اور ماں ایسے محدود کرداروں پر مشتمل ہے۔ ہندو مت کے صحیفہ رگ وید کا دیوی سُکتا بھجن اعلان کرتا ہے کہ نسوانی توانائی کائنات کا ایسا نچوڑ ہے جو تمام مادّے اور شعور، لافانی اور لا محدود، مابعد الطبیعیاتی اور تجربے پر مبنی حقیقت (برہمن)، ہر چیز کی روح (شعورِ اعلیٰ) پر مشتمل ہے۔[1][2] بعض ہندو اُپنیشدوں، شاستروں اور پرانوں میں خاص طور پر دیوی اُپنیشد، دیوی مہاتمیا اور دیوی بھاگوت پران میں عورت کو سب سے زیادہ طاقت ور اور توانائی بخش قوّت کے طور پر جانا جاتا ہے۔[3][4][5]

اسمرتیوں جیسے منواسمرتی میں ہندو مت میں خواتین کا کردار ملا جلا اور متضاد ہے۔ منواسمرتی کے بیان کے مطابق "بہ حیثیت ایک بچّی، عورت کو باپ کا، بہ حیثیت ایک نوجوان عورت شوہرکا اور بہ حیثیت ایک بیوہ، اپنے بیٹے کا فرماں برداراور اس کے تحفظ کا متلاشی ہونا چاہیے"۔و6و درحقیقت بہوؤں کو سسرال میں اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک وہ بیٹا پیدا نہ کریں۔ بیٹے خاندان کی نسل کو برقرار رکھتے ہیں۔ تاہم دیگر حصّوں میں بعض تحریریں کہتی ہیں کہ "خواتین کا لازمی طور پر احترام کیا جانا چاہیے اور ان کی قدر کی جانی چاہیے" اور "جہاں خواتین کا احترام کیا جاتا، وہاں دیوتا خوش ہوتے ہیں؛ لیکن جہاں پر خواتین کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کسی بھی مقدّس عبادت کا کوئی بھی نتیجہ یا پھل نہیں ملتا"۔[6] وہ خواتین جو بیٹوں کی ماں ہوتی ہیں ان کے اگر خاوند زندہ ہوں تو وہ معاشرے کی باعزّت رکن تصوّر کی جاتی ہیں۔ جب ان کے خاوند کا انتقال ہو جاتا ہے تو ایسی خواتین معاشرے میں اپنا مقام کھو دیتی ہیں۔ تاہم محققین نے اس تحریر کے مستند ہونے پر سوال اٹھایا اور تحریف کا شبہ ظاہر کیا ہے، کیونکہ اسمرتی کے دریافت ہونے والے متعدد قلمی نسخوں کے نمونے آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔[7]

قدیم اور قرون وسطیٰ کی ہندو تحریریں ہندو مت میں خواتین کے فرائض اور حقوق کی مختلف النّوع انداز میں منظر کشی کرتی ہیں۔ یہ تحریریں آٹھ اقسام کی شادیوں کو تسلیم کرتی ہیں، جو باپ کا بیٹی کی مرضی سے اس کی شادی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرنے (برہما شادی) سے لے کر دولہا اور دلہن کا والدین کی شرکت کے بغیر شادی (گندھاروا شادی) کرنا ہے۔ [8][9] محققین بیان کرتے ہیں کہ ویدی دور کے ہندو متون اور قدیم اور قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں آنے والے مسافروں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم اور قرون وسطیٰ کے ہندو معاشرے میں جہیز دینے یا ستی ہونے کا رواج نہیں تھا۔ [10][11] غالباً ان رسموں کا رواج دوسرے ہزارے کے دوران میں وجود میں آیا، جس کی وجہ برصغیر ہندوستان کی سیاسی و سماجی ترقیّاں تھیں۔[12][13]

برائنٹ کے مطابق، زمانہ قدیم سے عصر حاضر تک ہندو مت میں الوہی نسوانیت کی موجودگی دنیا کے دیگر اہم مذاہب کے مقابلے میں سب سے زیادہ توانا ہے۔ [14] چنانچہ شکتی اور شیو کی ہندو روایات میں دیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔[15][16]

قدیم تحریریں ترمیم

ویدی صحیفوں میں تذکرہ ترمیم

 
رگ وید

ہندو مت کی قدیم تحریریں نسوانیت کی اہمیت اور احترام کو اجاگر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر رگ وید کا دسواں باب مندرجہ ذیل بھجن جس کا نام دیوی سُکتا ہے، میں بیان کرتا ہے کہ تمام کائنات کے پیچھے نسوانیت کا اعلیٰ ترین اصول کارفرما ہے:[1][2] "میں ملکہ ہوں، خزانوں کو جمع کرنے والی سب سے زیادہ غور و فکر کرنے والی ان میں سے سب پہلی جو پوجا کی قدر کرتے ہیں۔ اس لیے دیوتاؤں نے میرا وجود بہت سارے مقامات پربہت سارے گھروں میں قائم کیا ہے تاکہ میں وہاں داخل ہو کر رہ سکوں۔ میرے وسیلے سے تمام لوگ وہ غذا کھاتے ہیں، جو ان کو ملتی ہے ہر شخص جو دیکھتا ہے، سانس لیتا ہے، دلیری سے کہے گئے لفظ کو سنتا ہے۔ گو کہ وہ نہیں جانتے ہیں، پھر بھی میں کائنات کے نچوڑ میں قیام پزیر ہوں۔ ہر ایک اور تمام لوگ سن لیں اس سچ کو، جیسا میں نے اس کا اعلان کیا ہے۔ میں، بہ ذات خود اعلان کرتی ہوں اور وہ الفاظ دہراتی ہوں، جس کو دیوتا اور انسان لازمی طور پر خوش آمدید کہیں گے۔ میں جس انسان سے محبّت کرتی ہوں، میں اس کو انتہائی طاقت ور بنادیتی ہوں فلاح پایا ہوا، ایک دانش ور اور ایک ایسا شخص جو برہمن کو جانتا ہے۔ میں رُدرا کے لیے کمان کھینچتی ہوں کہ اس کا تیر حملہ کرے اور عقیدت مند سے نفرت کرنے والے کو قتل کر دے۔ میں لوگوں کے لیے جنگ کا آغاز کرتی ہوں اور اس کا حکم دیتی ہوں؛ میں نے ہی زمین اور سورگ (جنت) تخلیق کیے؛ اور میں ان کے ناظم کے طور پر رہتی ہوں۔ دنیا کے اجتماع کے موقع پر میں باپ منظر عام پر لاتی ہوں: میرا بسیرا پانیوں میں ہے سمندر میں۔ پھر میں تمام مخلوقات میں سرایت کیے ہوئے (سمائی ہوئی) ہوں ان کے سب سے اعلیٰ ترین شعور کے طور پر اور ان کو اپنے جسم کے ذریعے وجود میں لاتی ہوں۔ میں نے تمام دنیائیں اپنی مرضی سے تخلیق کی ہیں کسی اعلیٰ ترین ذات کے بغیر اور میں ان دنیاؤں میں سرایت کیے ہوئے ہوں اور ان میں بسیرا کرتی ہوں۔ لافانی اور لامحدود شعور میں ہوں؛ یہ میری عظمت ہے کہ میں ہر چیز میں بسیرا کیے ہوئے ہوں۔

رِگ وید 10.125.8 10.125.3 ، [1][17]

اُپنیشدوں میں تذکرہ ترمیم

مک ڈینیئل بیان کرتے ہیں کہ رِگ وید کے دیوی سُکتا خیالات کو مزید ترقی دے کر اور متعلقہ طور پر بعد میں شکتا اپنیشدوں میں تحریر کیا گیا، جہاں دیوی اعلان کرتی ہیں کہ وہ برہمن ہیں ان سے مادّہ (پراکِرِتی) اور پُرُش (شعور) وجود میں آئے؛ وہ مسرّت اور عدم مسرّت ہیں؛ ویدوں کا حاصل اور ویدوں کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ ہیں وجود اور عدم وجود اور لہٰذا نسوانیت تمام کائنات کا نچوڑ ہے۔[3] انھیں تمام پانچوں عناصر کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛ جو کچھ باہر ہے؛ جو کچھ اندر ہے؛ جو کچھ ارد گرد ہے؛ اور لہٰذا تمام کائنات کا کُلّی احاطہ کیا گیا ہے۔ [18] یہ فلسفہ تریپور تاپانی اُپنیشداور باہ وریچ اُپنیشد میں بھی پایا گیا ہے۔ [1]

تاہم ابتدائی اپنیشدیں عام طور پر عورتوں اور مردوں کے بارے میں خاموش ہیں؛ اور ان کی توجّہ زیادہ تر صنف سے ماورا برہمن اور اس کے روح (آتما، شعور) سے تعلق پر مرکوز ہیں۔ اس حوالے سے کبھی کبھار استثنیٰ بھی دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر برہدآرن یک اُپنیشد ، جس 800 قبلِ مسیح میں تحریر کیا گیا اس کے آخری باب میں شاگرد کی تعلیم کے حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جس میں اس کی گرہستی (گھریلو زندگی) کے دور کے بارے میں اسباق شامل کیے گئے ہیں۔ [19] وہاں پر شاگرد کو تعلیم دی جاتی ہے کہ بہ حیثیت ایک شوہر (پتی)، اس کو اپنی زوجہ (پتنی) کے لیے چاول پکانے چاہئیں؛ اور ان کو کھانا مل جُل کر ایک خاص انداز میں کھانا چاہیے؛ جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا ان کو بیٹی کی خواہش ہے یا بیٹے کی، جس کو ذیل میں بیان کیا گیا ہے، [19]

اور اگر ایک شخص کو خواہش ہو کہ اس سے پیدا ہونے والی بیٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور یہ کہ وہ اپنی طبعی عمر گزارے تو تِلوں اور مکھن کے ساتھ ابلے ہوئے چاول تیار کرے؛ دونوں میاں بیوی اسے کھانے کے بعد اس قابل ہو جائیں گے کہ ان سے ایسی بیٹی پیدا ہو۔

اور اگر ایک شخص کو خواہش ہو کہ اس سے پیدا ہونے والی بیٹا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور یہ کہ وہ اپنی طبعی عمر گزارے تو گوشت اور مکھن کے ساتھ ابلے ہوئے چاول تیار کرے؛ دونوں میاں بیوی اسے کھانے کے بعد اس قابل ہو جائیں گے کہ ان سے ایسا بیٹا پیدا ہو۔

برہدآرن یک اُپنیشد 6.4.18 6.4.17، مترجم: میکس ملر[20]

اپنیشدوں کے فلسفیانہ مباحثوں میں خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے؛ اور خواتین ان مباحثوں میں شراکت کار بھی ہیں؛ اس کے ساتھ ساتھ ان کو ویدی دور اور ابتدائی بدھ دور میں علما، اساتذہ اور راہباؤں کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ [21] اُپنیشدوں میں جن خواتین کو تسلیم کیا گیا ہے، ان میں گارگی اور میتروی شامل ہیں۔ [21] سنسکرت میں لفظ اچاریہ کے معنی ہیں "خاتون استاذ" (اچاریہ کے معنی ہیں "استاذ")؛ اور اچاریِنی استاذ کی زوجہ کو کہا جاتا ہے؛ جو اس بات کی نشان دہی ہے کہ بعض خواتین گرو (استاذ) کے طور پر جانی جاتی تھیں۔

خواتین کردار کھیلوں اور داستانوں پر مبنی نظموں میں بھی نمودار ہوئے ہیں۔ آٹھویں صدی کے شاعر بھاگَو بھوتی اپنے کھیل، اتر رام چریتا (اشلوک 2 3 ) میں بیان کرتے ہیں کہ کیسے ایک کردار آترے یی نے جنوبی ہندوستان کا سفر کیا ؛ جہاں انھوں نے ویدوں اور ہندوستانی فلسفے کا مطالعہ کیا۔ مہا دیو کے شنکر دگ وجیا میں شنکر خاتون فلسفی، اوبھے یا بھارتی سے مباحثہ کرتے ہیں؛ اور اشلوک ( 9 63) میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خاتون ویدوں کی ماہر تھیں۔ پندرہویں صدی کے ایک عالم تریکونیری ڈیسائی نے نمّل ور کے تیرووایامولی پر تبصرے میں ویدی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا ہے جیسے تیتریا یجر وید۔

داستانوں میں تذکرہ ترمیم

 
مہابھارت
 
شیو اور پاروتی

دو ہندو داستانوں، راماین اور مہابھارت میں خواتین کا کردار ملا جُلا ہے۔ مہابھارت میں مرکزی نسوانی کردار، دروپدی کا ہے؛ جن کی شادی پانچ پانڈوؤں سے ہوئی ہے؛ اس طرح ان کے پانچ شوہر ہیں۔ وہ دُریودھنا کی بے عزّتی کرتی ہیں، جو ایک عظیم جنگ کو شہ دینے والے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔ قبلِ مسیح کے پہلے ہزاریے کے دوسرے نصف میں رامائن تحریر کی گئی ہے؛ جس میں سیتا کو عزّت و احترام دیا گیا ہے؛ ان کو ایک نہ جُدا ہونے والی محبوبہ، بلکہ امور خانہ داری پر عبور رکھنے والی خاتون اور رام کی کامل زوجہ اور شراکت دار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہندو روایت میں خواتین کے بارے میں زبانی طور پر بار بار بیان کی جانے والی رامائن ان کی خود مختاری استثنیٰ کے بہ جائے اصول کے طور پر بیان کرتی ہے لیکن سوگیرتھا راجا بیان کرتے ہیں کہ یہ نمونے حالیہ ماخذوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ [22]

داستانیں، کہانیاں ہیں لیکن ان کے اندر دھرم کے راہ نما اصول موجود ہیں؛ جو ہندو مت میں خواتین کے بارے میں ان رائج ادراک کو بیان کرتے ہیں، جو ان داستانوں کو تحریر کرنے وقت موجود تھے۔ مثال کے طور پر مہابھارت، کتاب 1 بیان کرتی ہے کہ،

کسی بھی مرد کو غصے میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس سے اس کی پتنی (زوجہ) اتّفاق نہ کرے؛ کیونکہ خوشی، مسرّت، نیکی اور ہر چیز کا انحصار پتنی (زوجہ) پر ہے۔ پتنی (زوجہ) وہ مٹّی ہے، جس میں اس کے پتی (شوہر) کا دوبارہ جنم ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ رِشی بھی عورت کے بغیر انسان کو تخلیق نہیں کر سکتے۔

آدی پرب، مہابھارت کتاب ، 1.74.50 1.74.51 [23]

ہندو داستان مہابھارت کے انوشاسن پرب کے متعدد ابواب خواتین کے فرائض اور حقوق کے بارے میں گفتگو کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ ایک ملی جُلی تصویر کی پیش کرتی ہے۔ باب 11 میں دولت اور مادّی ترقّی کی دیوی، لکشمی کہتی ہیں کہ وہ ان خواتین میں بسیرا کرتی ہیں جو ایمان دار، سچی، مخلص، انکسار پسند، منظّم، شوہر اور بچّوں کی بھلائی کے لیے کوشاں، صحت کے بارے میں باشعور، صبر کرنے والی اور مہمانوں کی خاطر مدارات کرنے والی ہیں۔ [24] لکشمی دیوی کہتی ہیں کہ وہ ان خواتین میں بسیرا نہیں کرتی ہیں جو گناہ گار، غیر صاف ستھری، ہمیشہ شوہر سے اختلاف کرنے والی، بے صبری یا غیر مستقل مزاج، کاہل، اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے جھگڑنے والی ہیں۔ [24]

جب باب 47 میں یودھیشتھر دھرم کے معاملے پر بھیشم سے راہ نمائی لیتے ہیں، تو انوشاسن پرب بیٹی کی قدر کا بیٹے سے موازنہ کرتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہے،

اے راجا! صحیفوں میں بیٹی کا مرتبہ بیٹے کے برابر تصوّر کیا گیا ہے۔

بھیشم، انوشاسن پرب، مہابھارت 13.47.26 [25]

مہابھارت کے اُدیوگ پرب میں عورتوں سے بیزاری رکھنے والوں اور منافقین (جس میں مردانہ بالا دستی کا راگ الاپنے والے بھی شامل ہیں) کوگناہ گار قرار دیا گیا ہے۔

" اپنی بالا دستی پر فخر کرنے والے خود غرض ہیں؛ وہ ایسے لوگ ہیں جو ذراسی ہتک بھی برداشت نہیں کرتے ہیں؛ جو غصیلے ہیں؛ جوچالاک ہیں؛ وہ جو ان لوگوں کا تحفظ کرنے کو نظر انداز کرتے ہیں جنہیں تحفّظ کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو صرف اپنی جنسی تسکین کے بارے میں سوچتا ہے؛ وہ جو منافق ہے؛ وہ جو تکبّر کرتا ہے؛وہ جو کوئی چیز دینے کے بعد اس پر افسوس کرتا ہے؛ وہ شخص جو کنجوس ہے؛ وہ شخص جو قوّت\دولت اور آسائشوں کا پجاری ہے؛ اور وہ شخص جو عورتوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے؛ یہ افراد گناہ گاروں کی 13 اقسام ہیں۔" (ایم۔بی۔ اُدیوگ پرب43:18, 19)

خواتین کے فرائض دوبارہ باب 146 میں بیان کیے گئے ہیں؛ جو شیو دیوتا اور ان کی زوجہ اوما دیوی کے مابین گفتگو کی شکل میں ہیں؛ جہاں شیو دیوتا پوچھتے ہیں کہ خواتین کے فرائض کیا ہیں۔ اوما (پاروتی) جواب میں تمام دریاؤں کو دیویوں سے تشبیہ دیتی ہیں، جو فرحت بخشتے ہیں اور زرخیز وادیاں تشکیل دیتے ہیں۔ [26] اوما دیوی بتاتی ہیں کہ خواتین کے فرائض میں خوش مزاجی، خوش کلامی، اچّھا برتاؤ اور اچھی شخصی خصوصیات شامل ہیں۔اوما دیوی کہتی ہیں کہ ایک عورت کے لیے اس کا شوہر اس کا دیوتا ہے؛ اس کا شوہر اس کا دوست ہے؛ اور اس کا شوہر اس کی پناہ ہے۔ عورت کے فرائض میں اپنے شوہر اور اپنے بچوں کی جسمانی اور جذباتی فرحت بخشی، پرستش اور ان کی خواہشات کا پورا کرنا شامل ہے۔ ان کی خوشی میں عورت کی خوشی ہے؛ عورت بھی ویسے ہی عہد نباہتی ہے، جیسے اس کا شوہر اور اس کے بچّے نباہتے ہیں۔ عورت کو اس وقت بھی خوش رہنا چاہیے، جب اس کا شوہر یا اس کے بچّے غصّے میں ہوں؛ جب ان کی مخالفت ہو رہی ہو یا وہ بیمار ہوں تو ان کا ساتھ دے؛ جو اس کی جانب سے کیے جانے والے برتاؤ کے حوالے سے بہت زیادہ پسندیدہ اعمال ہیں۔ [26] شوہر اور خاندان کے بعد ایک عورت کا فرض یہ ہے کہ وہ دوستوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ مہربانی اور اچھے دل سے ملے؛ دوستوں اور مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے بہترین طریقے سے انتظام کرے۔ پاروتی دیوی نے شیو دیوتا کو بتایا کہ ایک عورت کی خاندانی زندگی اور اس کا گھر اس کے لیے سورگ (جنّت) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ [26]

انوشاسن پرب ہندو مت میں خواتین پر جدید دور کی تحریروں کے ذرائع کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔مثال کے طور پر تنجاور کے ترائی امباکایاجوان نے اٹھارہویں صدی میں "استری دھرم پڑھتی "(جس کو بعض اوقات" دھارمِک عورت کے لیے راہ نما کتاب" بھی کہا جاتا ہے) شائع کی۔ جولیا لیزلی [27] کے مطابق ترائی امباکا نے انوشاسن پرب کے بہت سارے منتخب ابواب سے منتخب اشلوک لیے ہیں۔ انھوں نے مہابھارت کی کتابوں سے بھی اور دیگر قدیم ہندوستانی تحریروں سے بھی "استری دھرم پڑھتی" کے لیے منتخب اشلوک لیے ہیں۔ انھوں نے مہابھارت سے ایسے اشلوکوں کا انتخاب کرنے سے گریز کیا جو ایک سے زیادہ نکات ہائے نظر اور بحث برائے بحث پر مشتمل ہیں۔ [28]

شاستروں اور اسمرتیوں میں تذکرہ ترمیم

 
شاستروں اور اسمرتیوں میں برہماچارنی کا تذکرہ ملتا ہے

ہندو مت کے شاستروں اور اسمرتیوں کی تحریروں میں خواتین کی کردار سازی اور ان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ملے جُلے رجحانات کی عکّاسی کرتا ہے۔ علما نے ایسی تحریروں کی تحریف اور ان کے مستند ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں، کیونکہ اسمرتی تحریروں کے درجنوں مختلف نمونے حاصل ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر پیٹرک اولیویل ، جنھوں نے منواسمرتی کا 2005ء میں ترجمہ کیا جس کو اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا، جدید دور کے بعد کی علمی بحث پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جس میں منواسمرتی کے نسخوں پر مستند ہونے اور باوثوق ہونے کا مفروضہ لگایا گیا ہے۔ [7] وہ تحریر کرتے ہیں (مختصراً)،

منواسمرتی پہلی ہندوستانی قانونی دستاویز تھی جس کو مغربی دنیا میں 1794ء میں سر ولیم جونز کیے جانے والے ترجمے کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ منواسمرتی کے تمام ایڈیشن سوائے جولی کے، دستاویز کو اسی طرح دوبارہ شائع کرتے ہیں جیسا کہ کلکتہ کے قلمی نسخے میں پائی گئی تھی جس میں کولوکا کا تبصرہ شامل ہے۔ میں نے اس کو کلیدی نمونے (“ولگاتا”) کا نام دیا ہے۔ یہ کولوکا کا نمونہ تھا ، جس کا بار بار ترجمہ ہو چکا ہے: جونز (1794ء)، برنیل (1884ء)، بوہلر (1886ء) اور ڈونگر (1991ء)۔

برنیل (1884، xxix) کی جانب سے کولوکا کی دستاویز کے مستند ہونے پر اعتقاد رکھنے کا کھل کر اظہار کیا گیا ہے: "اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کولوکا بھٹّا کا منقولہ نسخہ (textus receptus)، جس کو ہندوستان میں یورپی علما نے اختیار کیا مجموعی طور پر اصل دستاویز کے بہت قریب ہے۔"یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ یقیناً ، میرا تدوین کاری کا کام یہی رہا ہے کہ یہ دریافت کیا جائے کہ پچاس سے زیادہ قلمی نسخوں میں سے چند جو میں نے حاصل کیے ہیں مرکزی مطالعے کے لحاظ سے کیسے کلیدی نسخے سے مطابقت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔

پیٹرک اولیویل، منو کا ضابطہء قانون (2005) [7]

باب 1.21 میں ارتھ شاستر ایسی خواتین کے بارے میں بیان کرتی ہے، جنھوں نے عسکری تعلیم حاصل کی اور راجا کی محافظ کے طور پر خدمات انجام دیں؛ یہ تحریر خاتون فن کاروں، فقیروں اور ایسی پرہیز گار عورتوں کا تذکرہ کرتی ہے ، جن کا کوئی گھر نہ تھا اور وہ دیس بہ دیس پھرتی تھیں۔ [29][30]

قرون وسطیٰ کے ہندو معاشرے میں عورتوں کے مقام کے حوالے سے منواسمرتی کا سب سے زیادہ زیر مطالعہ نسخہ کلکتہ کا قلمی نسخہ ہے۔ یہ دستاویز تبلیغ کرتی ہے کہ بیواوں کو پرہیز گار ہونا چاہیے، جیسا کہ اشلوک 5.158 5.160 میں بیان کیا گیا۔ [31] اشلوک 2.67 2.69 اور 5.148 5.155 میں منواسمرتی یہ تبلیغ کرتی ہے کہ بہ حیثیت ایک لڑکی، عور ت کو اپنے والد کا بہ حیثیت ایک نوجوان عورت اپنے شوہر کا اور بہ حیثیت ایک بیوہ اپنے بیٹے کا فرماں بردار اور ان سے تحفّط کا متلاشی ہونا چاہیے؛ اور یہ کہ عورت کو ہمیشہ اپنے شوہر کی ایک دیوتا کی طرح پوجا کرنی چاہیے۔ [32][33]

دیگر اشلوکوں میں منواسمرتی خواتین کے حقوق کا احترام اور ان کے تحفّظ پر زور دیتی ہے۔ مثال کے طور پر منواسمرتی کے اشلوک 3.55 3.56 اعلان کرتے ہیں کہ "خواتین کا لازمی طور پر احترام اور ان کی آرائش کی جانی چاہیے" اور "جہاں خواتین کی قدر کی جاتی وہاں دیوتا خوش ہوتے ہیں؛ لیکن جہاں خواتین کی قدر نہیں کی جاتی، وہاں کسی پوجا یا عبادت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا"۔ [6][34] ایک اور جگہ اشلوک 5.147 5.148 میں اولیویل بیان کرتے ہیں کہ دستاویز اعلان کرتی ہے کہ "ایک عورت کو کبھی خود مختار زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے"۔ [35]

طلاق ترمیم

اشلوک 8.101 8.102 میں دستاویز اعلان کرتی ہے کہ شادی کا خاتمہ عورت یا مرد کی جانب سے نہیں کیا جا سکتاہے۔ [36] پھر بھی دستاویز کے دیگر حصے شادی کے خاتمے کی اجازت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پراشلوک 9.72 9.81 مرد یا عورت کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جعل سازی پر مبنی یا پر تشدد شادی سے آزادی حاصل کر لیں اور دوبارہ کہیں اور شادی کر لیں؛ یہ دستاویز ان قانونی ذرائع کا بھی احاطہ کرتی ہے ، جن کا عورت کو دوبارہ شادی کرنے کے دوران میں واسطہ پڑتا ہے اس صورت میں جبکہ اس کا شوہر گم شدہ ہو یا اس سے دست بردار ہو چکا ہو۔ [37]

وارن (سماجی مرتبہ) ترمیم

ایک حصے میں تحریرکے مطابق عورت کے اپنے سماجی مرتبے (وارن) سے باہر کسی مرد سے شادی کرنے کی مخالفت کی گئی ہے، جیسا کہ اشلوک 3.13 3.14 میں بیان کیا گیا ہے۔ [31] اس کے ساتھ ہی ساتھ اولیویل بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ دستاویز پہلے سے مختلف رواج ، جیسے وارن سے باہر شادی فرض کر لیتی ہے جیسے برہمن مرد اور شودر عورت کے مابین شادی کے حوالے سے اشلوک 9.149 9.157 ؛ بیوہ عورت کا ایسے مرد سے حاملہ ہونا، جس سے اس نے شادی نہیں کی کے بارے میں اشلوک 9.57 9.62؛ایسی شادی جس میں ایک عورت نے بھاگ کر کسی مرد سے شادی کی اور پھر قانونی حقوق فراہم ایسے مقدموں میں فراہم کرنا جیسے جائداد کی وراثت کے حقوق کا اشلوک 8.31 8.56 میں تذکرہ اور ایسی شادی پیدا ہونے والے بچّوں کے قانونی حقوق۔ [38] دستاویز یہ بھی پہلے سے فرض کر لیتی ہے کہ شادی شدہ عورت کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر مرد سے حاملہ ہوجاتی ہے اس کے لیے اشلوک 8.31 8.56 مختص ہیں جو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایسے پیدا ہونے والے بچّے کفالت عورت اور اس کے قانونی شوہر کے ذمہ ہے اس شخص کے ذمہ نہیں، جس سے وہ عورت حاملہ ہوئی ہے۔ [39][40]

جائداد کے حقوق ترمیم

منواسمرتی عورت کو جائداد کے حقوق چھ اقسام کی جائدادوں میں فراہم کرتی ہے، جس کا تذکرہ 9.192 9.200 میں کیا گیا ہے۔اس میں شامل ہیں وہ جائیدادیں جو عورت نے شادی کے موقع پر وصول کیں یا تحفے کے طور پر جب وہ کسی مرد کے ساتھ فرار ہو گئی یا جب اسے چھین لیا گیا یا شادی سے پہلے محبّت کی نشانی کے طور پر جائداد یا اس کے سگے خاندان کی جانب سے تحائف کی شکل میں ملنے والی جائداد یا شادی کے بعد شوہر کی جانب سے وصول کی جانے والی جائداد اور کسی مردہ رشتے دار کی وراثت سے ملنے والی جائداد۔ [41]

عدم مطابقت اور مستند ہونے کے حوالے سے مسائل ترمیم

علما بیان کرتے ہیں کہ منواسمرتی میں نصف سے بھی کم یا 2685 اشلوکوں میں سے صرف 1214 اشلوک مستند ہو سکتے ہیں۔ [42] مزید یہ کہ اشلوک اندرونی طور پر بے ربطی اور عدم مطابقت کا شکار ہیں۔ [43] جیسے کہ منواسمرتی کے اشلوک 3.55 3.62 ، مثال کے طور پر خواتین کے مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، جبکہ اشلوک 9.3 اور 9.17 ان کے بالکل برعکس اور مخالف ہیں۔ [42] جب مہاتما گاندھی سے اسمرتی کے بارے میں رائے لی گئی تو انھوں نے کہا کہ "تحریری مجموعے میں بہت سارے تضادات ہیں؛ کہ اگر آپ ایک حصہ قبول کرتے ہیں تو آپ لازمی طور پر ان حصوں کو مسترد کرنے پر مجبور ہیں کہ مکمل طور پر اس سے عدم مطابقت رکھتے ہیں۔ کسی کے پاس (منواسمرتی کا) اصلی نسخہ نہیں ہے"۔ [44]

فلاویا ایگنس کے بیان کے مطابق منواسمرتی کا تبصرہ خواتین کے حقوق کے پس منظر کے حوالے سے پیچیدہ ہے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے برطانوی نو آبادیاتی دور کی ضابطہ بندی اس کی بنیاد پر ہے اور اسلامی دستاویزات کی مسلمانوں کے لیے ضابطہ بندی منواسمرتی کے لیے مخصوص پہلوؤں کو چُنا گیا اور ان پر زور دیا گیاجبکہ اس نے دیگر شعبوں کو نظر انداز کیا۔ [45] نو آبادیاتی دور کے دوران میں اس عائلی قانون کی تشکیل نے منواسمرتی کے تاریخی کردار کے ارد گرد ایک ایسے صحیفے کے طور پر قانونی افسانہ تخلیق کیا، جس کے معاملات کا تعلق جنوبی ایشیا میں رہنے والی خواتین سے ہے۔ [45][46]

پُران ترمیم

 
دیوی مہاتمیا کے بطابق خالق مؤنث ہے، لیکن نہ تو نسائی اور نہ مذکر، بلکہ روحانی خدا کی قوت ہے۔ [47]

پران میں خاس طور پر مارکنڈیا پران اور دیوی بھاگوت پران میں پائی جانے والی دیوی مہاتمیا میں قدیم اور ابتدائی قرون وسطیٰ دور کے ہندو مت میں دیوی اور مقدّس نسوانیت کے حوالے سے پوری ایک گفتگو مختص ہے۔ [3][4][5] تاہم، یہ گفتگو ہندو دیوی سے متعلق ان دو صحیفوں تک محدود نہیں ہے۔ خواتین کا تذکرہ متعدد دیگر پُرانوں اور قدیم دور کے صحیفوں میں فلسفیانہ مذاکروں کی شکل میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر شیو دیوتا سے مکالمے کے دوران میں پاروتی دیوی کہتی ہیں:

"آپ کو غور کرنا چاہیے کہ آپ کون ہیں اور فطرت کون ہے۔۔۔ آپ فطرت سے کیسے فرار حاصل کر سکتے ہیں؟ آپ جو سنتے ہیں آپ جو کھاتے ہیں آپ جو دیکھتے ہیں ، یہ سب فطرت ہے۔ آپ فطرت سے ماورا کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ فطرت میں لپٹے ہوئے ہیں، گو کہ آپ یہ نہیں جانتے ہیں۔

اسکند پران 1.1.21.22، مترجم: نکولس گائیر [48]

نسوانی اظہاریے بطور مقدس استعارے اور پرستش قدیم ہندو صحیفوں میں موجود تھے، لیکن براؤن بیان کرتے ہیں کہ وہ بکھرے ہوئے تھے؛ اور چھٹی صدی کے آس پاس، [49] ممکنہ طور پر شمال مشرقی ہندوستان میں مہا دیوی کا تصوّر بہ حیثیت عظیم دیوی کے شامل ہوا جو مارکنڈیا پران کے دیوی مہاتمیا کے صحیفے میں نمودار ہوا۔ [50] براؤن کے مطابق الوہی عورت کا یہ ارتقا نظری یا تصوّراتی نہیں تھا، لیکن اس نے "موجودہ دور کے ہندوؤں کی شعوری سمجھ" کو متاثر کیا ہے؛ اور یہ کہ "ایسی کائنات میں انسان کے ہونے کا کیا مطلب ہے، جو لامحدود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کائنات عورتوں والی نگہداشت کرنے اور غضب ناک ہونے پر مشتمل خصوصیات کی بھی حامل ہے"۔ [50] وکوبرن کے مطابق، دیوی مہاتمیا جنہیں دُرگا سپتا ستی (یا دُرگا سے منسوب 700 اشلوک) بھی کہا جاتا ہے صدیوں سے ہندوؤں میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ [51] دیوی مہاتمیا یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں کہ عورت برتر ہے، بلکہ یہ فرض کرتی ہیں عورت کی برتری فطری امر ہے اور یہ برتری عورت کی جائداد ہے۔ پُران کے صحیفوں میں یہ تصوّر عورت کے کردار پر اثر انداز ہوا، جو صدیوں پر محیط رہا؛ جہاں مساوی طور پر مردانہ برتری اور نسوانی برتری پر مشتمل جوڑے مختلف روایتوں میں اسی مذہبی صحیفے میں اور ہندو تخیّل میں نمودار ہوتے ہیں۔ [52]

مِک ڈینیئل بیان کرتے ہیں کہ دیوی مہاتمیا ایک ایسے الوہی نسوانی وجود کا تصوّر پیش کرتی ہیں، جنھوں نے اس کائنات کو تخلیق کیاہے؛ یہ نسوانی وجود اعلیٰ ترین علم ہے، جو خود اپنی اور انسانوں کی مکمل نجات (مُکتی یا موکشا) کے لیے مدد کرتا ہے؛ اس نسوانی وجود کے متعدد روپ ہیں، جو فلاح اور کشادگی کے دور میں لکشمی کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں اور انسانی گھروں میں خوشیوں اور دولت کی ریل پیل کردیتی ہیں؛ لیکن مخالفت کے دور میں ایک غضب ناک عورت کا روپ دھار لیتی ہیں؛ اور بہ حیثیت دُرگا، چندیکا، امبیکا، بھدر کلی، ایشوری، بھاگ وتی شری یا دیوی کے طور پر جنگوں کو ہوا دیتی ہیں اور جنگیں لڑتی ہیں کائنات میں شیطانوں اور بدی تباہ کر کے ہی دم لیتی ہیں۔ [53][54] تاہم براؤن نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ دیوی مہاتمیا میں اعلیٰ ترین دیوی کے جشن کا تصور پہلے ہزاریے کے ہندو صحیفوں میں عمومی یا قدرِ مشترک کے طور پر نہیں پایا جاتا ہے؛ اور پُران کے دیگر صحیفے دیوتا کا اعلیٰ ترین خُدا کے طور پر جشن مناتے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ہی مختلف ابواب میں اعلیٰ ترین دیوی کا وجود بھی تسلیم کرتے ہیں اور عورت کو "مرد کی پشت پرایک مؤثر قوّت " کے طور پر تسلیم کرتے ہیں چاہے وہ دیومالائی تصوّر میں ہو یا مذہبی تصوّر کے طور پر ہو یا دونوں لحاظ سے ہو۔ [52]

چھٹی صدی کی دیوی مہاتمیا کے تصوّرات کو گیارہویں صدی کے دیوی بھگوَت پُران کے صحیفے میں اختیار کیا گیا ہے۔ [49] تاہم یہ صحیفہ خدمت اور محبّت پر زور دیتا ہے، جو دیوی مہاتمیا کی اعلیٰ ترین فطرت تک پہنچنے کے راستے ہیں۔ [55] بعد کے صحیفے میں دیوی ایک جنگ جُو دیوی کے طور پر نمودار ہوتی ہیں ، جو شیطانوں کو برباد کرنے والی ہیں؛ بہ حیثیت ایک خالق، اچّھائی کی نگہداشت کرنے والی دنیا کی ماں ہیں؛ نگہداشت اور بربادی دیوی مہاتمیا کے دو مختلف پہلو ہیں، جو اعلیٰ ترین ہستی ہیں۔ [56]

خدا کی صنف ترمیم

ہندومت میں دیویاں بہت عام ہیں۔ [57]

ہندو مت میں تمام وابستگیوں سے ماورا حقیقی خدا (برہمن) صنف سے عاری ہیں۔ ہندو مت میں دونوں مردانہ خُدا (دیو) اور نسوانی خُدا (دیوی) پائے جاتے ہیں۔ بعض ہندو روایتیں خدا کا تصور ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہیں جن میں دونوں صنفوں کی یعنی مردانہ اور نسوانی دونوں خصوصیات ہیں ، جبکہ نسوانیت کی پرستش کی بھی پزیرائی کی جاتی ہے؛ جو دیگر خداؤں کی دونوں صنفوں میں موجودگی کو جھٹلائے بغیر کی جاتی ہے۔ [58][59]

ہندو مت کی بھکتی روایات میں دیو اور دیویاں دونوں موجود ہیں۔ قدیم اور قرونِ وسطیٰ کی ہندوستانی دیومالائی داستانوں میں ہندو مت کے ہر دیوتا (مردانہ خُدا) کا ایک دیوی (نسوانی خُدا) کے ساتھ جوڑا یا شراکت داری ہے۔ [60] شکتی مت کے ماننے والے دیوی کی پوجا یا پرستش شکتی (نسوانی قوّت یا توانائی) کے اظہار یا وجود کے طور پر کرتے ہیں۔ [61]

ایک مقبول تصوّر یہ ہے کہ پرستش کرنے کے لیے لاکھوں ہندو معبود ہیں۔ [62] تاہم فولسٹن اور ایبٹ کے مطابق ان خُداؤں میں زیادہ تر دیویاں (نسوانی خُدا، شکتی، دیوی ، ماں) ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہندو ثقافت میں "دیویاں کتنی مقبول اور اہم ہیں"۔ گو کہ عام طور پر ان کو کمتر تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن دیوتاؤں کے مقابلے میں دیویوں کے نام پر بنائے مندروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اکثر و بیشتر دیویوں کو طاقت ور دکھایا جاتا ہے؛ اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں تو انھیں خطرناک تصوّر کیا جاتا ہے۔ ہندو معاشرے کی پدر سری فطرت ہونے کے با وجود عورتوں کو خداؤں کے شانہ بہ شانہ طاقت ور شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے؛ اور بعض اوقات انھیں خطرناک بھی تصوّر کیا جاتا ہے۔ [63] کسی کے پاس لاکھوں دیویوں اور دیوتاؤں کی فہرست نہیں ہے، لیکن علما بیان کرتے ہیں کہ ہندو مت میں تمام خدا "صنف سے ماورا اعلیٰ ترین خدا برہمن کی ذات کا پرتو یا عکس ہیں؛ جو حتمی حقیقت کے مختلف چہروں یا پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں"۔ [63][62][64] ہندو مت میں "خدا، کائنات، تمام انسان(مرد، عورت) اور دیگر تمام موجودات حقیقت میں ایک ہی شے ہیں یا وحدانیت کی نمائندگی کرتے ہیں" اور ہر شے ایک مربوط واحدانیت ہے، وہی ایک واحد خدا ہر انسان میں روح (آتما) یا لافانی شعور کی شکل میں موجود ہے۔ [64][65]

محققین کے مطابق قدیم اور قرونِ وسطیٰ کا ہندو ادب دیوتاؤں، دیویوں اور صنف سے ماورا خداؤں کی بہ حیثیت خدا نمائندگی سے بھرا پڑا ہے۔ [66] گروس کے بیان کے مطابق یہ ایک خدا کو ماننے والے متعدد مذاہب کے بالکل برعکس صورتِ حال ہے، جہاں خدا کی صنف "مردانہ" ہے؛ اور خدا کو ماننے کے لیے خدا کی خصوصیات کو انسانوں میں مردانہ خصوصیات سے جوڑا گیا ہے۔ [66] ہندو مت میں دیوی کے تصوّر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردانہ خُدا موجود نہیں ہے؛ اس کے بہ جائے قدیم ہندو ادب دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کو توازن دینے یا معاونت فراہم کرنے والی قوّتوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔ گروس کہتے ہیں کہ ہندو مت میں دیویاں مضبوط ہیں، خوب صورت ہیں اور پُراعتماد ہیں جو زندگی کے چکّر یا گردش میں ان کی قوّت کا اظہار ہے۔جبکہ مردانہ دیوتا ایسے اظہاریے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں جو عمل کر گزرتے ہیں، تو نسوانی دیویاں ایسے اظہاریے کے طور پر پیش کی گئی ہیں جو عمل کے لیے اُکساتی ہیں۔ [66] ہندو مت میں دیویاں فنون، ثقافت، نگہداشت، تعلیم، خوشی و مسرّت، روحانیت اور آزادی یا نجات کی نگہبان یا سرپرست تصوّر کی جاتی ہیں۔ [66][67]

خواتین کی عظمت ترمیم

ہندو مت میں خواتین کے بارے میں یہ تصوّر نہیں ہے کہ ان کی کوئی عظمت نہیں ہے؛ اس لیے خواتین کی عظمت کے حوالے سے مخصوص زیادہ اقتباسات نہیں ہیں۔ تاہم ابتدائی اور ثانوی ہندو صحیفوں میں خواتین کی عظمت کو تسلیم کیے جانے متعلق بہت سارے حوالے ہیں۔ اُپنیشدوں میں خواتین علما کے حوالے سے بہت ساری کہانیاں ہیں جیسے جبالا کی کہانی، میترئی، گارگی، لوپامدرا، ہیماوتی اوما اس بات کا اظہار ہیں کہ خواتین کو عظمت کا مقام حاصل ہے۔ بریہا دارن یکا اُپنیشد کے اشلوک 6.4.17 کے مطابق ایسی بیٹی جو عالمہ بنے، اس کی خواہش کی جانی چاہیے۔ یہ اقتباس مخصوص پوجا یا عبادت تجویز کرتا ہے تاکہ عالمہ بیٹی پیدا ہوا۔

اشلوک6.4.17 برہدآرن یک اُپنیشد

अथ य इच्छेद्दुहिता मे पण्डिता जायेत، सर्वमायुरियादिति، तिलौदनं पाचयित्वा सर्पिष्मन्तमश्नीयाताम्; ईश्वरौ जनयितवै ॥ १७ ॥

اتھا یااِچّید دوہیتامی پنڈیتاجئیتا، سر وامایوریادِتی، تِلا اودانم پکا یت وا سرپِس منتماسنی یَتَم؛ اِسواراؤجنایِتاوائی ||17||

ترجمہ: "وہ شخص جو چاہتا ہے کہ اس سے ایسی بیٹی پیدا ہو جو عالمہ بنے اور پوری طبعی عمر گزارے، تو اس کو تِلوں کے ساتھ چاول پکانے چاہئیں اور دونوں میاں بیوی کو اس کھانے کو صاف مکھن کے ساتھ کھانا چاہیے، تو تخلیق کار (ہونے والے والدین) اس قابل ہوں گے کہ ایسی عالمہ بیٹی کو جنم دے سکیں۔" [68]

امریکی مؤرخ، ول ڈیورانٹ (1885–1981) اپنی کتاب "تہذیب کی کہانی (Story of Civilization)" میں کہتے ہیں:

"بعد کے ہندوستان کے دور کے مقابلے میں ویدی دور میں خواتین کو زیادہ آزادی حاصل تھی۔شادی کی مجوّزہ اقسام کے مقابلے میں اسے اپنا جیون ساتھی چننے کا حق حاصل تھا۔ وہ تہواروں اور رقص میں نمودار ہوتی تھی اور مذہبی قربانیوں میں مردوں کے ساتھ شرکت کرتی تھی۔ وہ گارگی کی طرح تعلیم حاصل کر سکتی تھی، فلسفیانہ مباحثوں میں شریک ہو سکتی تھی۔ اگر وہ بیوہ ہوجاتی تو اس کے دوبارہ شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔" [69][70]

رواج ترمیم

شادی ترمیم

شادی
 
روایتی ہندو شادی
 
روایتی ہندو بارات

ہندو مت کا آسوالاینا گرہستورا صحیفہ ویواہ (شادی) کی آٹھ اقسام کی شناخت کرتا ہے۔ان میں سے چار براہما، دیوا، ارشا اور پرجاپتیا کے مناسب ہونے اور تجویز کردہ ہونے کا صحیفے کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے؛ اگلی دو اقسام گندھاروااور اشورا کے غیر مناسب ، لیکن قابل ِ قبول ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے؛ اور آخری دو اقسام راکشس اور پیشاچ کے شیطانی اور ناقابلِ قبول ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے (لیکن ان شادیوں سے پیدا ہونے والی اولاد کو قانونی حقوق دیے جاتے ہیں)۔ [9][71]

  1. براہما ویواہ کو مذہبی طور پر سب سے مناسب شادی تصوّر کیا جاتا ہے، جس میں باپ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے تعلیم یافتہ لڑکا تلاش کرتا ہے، اس کو رشتہ بھیجتا ہے۔ لڑکا، لڑکی ،اور خاندان والوں کی رضامندی سے رشتہ طے پاجاتا ہے۔ دونوں خاندان اور رشتے دار آپس میں ملتے ہیں؛ لڑکی کی تقریب کے لیے آرائش و سجاوٹ کی جاتی ہے؛ معاہدے میں باپ اپنی بیٹی حوالے کر دیتا ہے؛ اور ویدی رواجوں پر مبنی شادی کی رسم انجام پاتی ہے۔ جدید ہندوستان میں اس قسم کی شادی کا سب سے زیادہ رواج ہے۔ [9]
  2. دیوا ویواہ اس قسم کی شادی میں باپ اپنی بیٹی زیورات کے ساتھ راہب یا پجاری کے حوالے کر دیتا ہے۔
  3. ارشا ویواہ اس قسم کی شادی میں دولہا ایک گائے اور ایک بیل، دلہن کے بدلے میں دلہن کے باپ کے حوالے کر دیتا ہے؛ دولہا عہد کرتا ہے کہ وہ دلہن کے اور خاندانی زندگی (گرہست آشرم) کے فرائض پورے کرے گا۔
  4. پرجاپیتیا ویواہ اس قسم کی شادی میں ایک جوڑا کچھ سنسکرت منتر پڑھ کر شادی کرنے پر اتفاق کرتا ہے۔ اسے "سول میرج" کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔
  5. گندھاروا ویواہ اس قسم کی شادی میں جوڑا صرف محبّت کی بنیاد پر باہمی رضامندی سے ساتھ رہتا ہے۔ شادی کے وظائف انجام دیتا ہے۔ اس شادی میں کوئی مذہبی رسومات انجام نہیں دی جاتی ہیں اور یہ مغربی طریقے کے مطابقعرف عام شادی (Common-law marriage} سے ملتی جُلتی تھی۔ مہابھارت میں کاما سترا ور ساتھ ہی ساتھ رِشی کانوابھی شکنتلا کے سرپرست باپ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس قسم کی شادی بہترین ہے۔ [71]
  6. اسر ویواہ اس قسم کی شادی میں دولہا، دلہن کے باپ اور دلہن کو جہیز کی پیش کش کرتا ہے؛ دونوں اپنی مرضی سے جہیز قبول کرتے تھے؛ اس کے بدلے میں دولہا کو دلہن مل جاتی تھی۔ اس قسم میں دولت کے لیے بیٹی کی شادی کی جاتی تھی۔ ہندو اسمرتی مصنفین کے نزدیک ایسی شادی نامناسب تصوّر کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں لڑکی کی بہتری اور بھلائی کی بجائے لالچ کو ترجیح دی جاتی ہے جو انتخاب کے عمل کو خراب کر سکتا ہے۔ .[71] مثال کے طور پر منو اسمرتی کے اشلوک 3.51 اور 3.52 بیان کرتے ہیں کہ باپ یا رشتے داروں کو دلہن کے بدلے میں لازمی طور پر کوئی بھی قیمت وصول نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہ تو بیٹی کے بیچنے کا عمل بن گیا۔ [72]
  7. راکشس ویواہ اس شادی میں دولہا زبردستی لڑکی کو لڑکی اور لڑکی کے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اغوا کر لیتا ہے۔ راکشس کا مطلب ہے "شیطان
  8. پیشاچ ویواہ اس قسم کی شادی میں مرد عورت کے ساتھ مدہوشی کے عالم میں صحبت کر لیتا ہے، جبکہ اس کو کوئی نشہ آور شے کھلائی یا پلائی گئی ہو یا وہ بے ہوش ہو۔

جیمس لوچٹے فیلڈ نے پتا لگایا ہے کہ قدیم ہندو معاشروں میں آخری دو اقسام کی شادیوں پر پابندی تھی، لیکن پھر بھی انھیں تسلیم کیا جاتا تھا؛ تسلیم کرنے کا مقصد حوصلہ افزائی کرنا نہ تھا، بلکہ معاشرے میں عورت اور اس کی اولاد کا قانونی تحفّظ کرنا مقصود تھا۔ [9]

"بالغ ہونے کے بعد عورت خود اپنے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے۔ اگر عورت کے والدین مناسب شوہر تلاش نہ کر سکیں تو وہ عورت خود اپنے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے۔" (منو اسمرتی IX 90 91 ) [73]

جہیز ترمیم

 
شادی کے موقع پر جہیز کی نمائش
 
دور حاضر میں جہیز کی مخالفت

قدیم اور قرونِ وسطیٰ کے ہندو معاشرے میں جہیز کا تصوّر اور رواج غیر واضح ہے۔بعض علما کے خیال میں تاریخی ہندو معاشرے میں جہیز کا رواج تھا، لیکن بعض اس خیال سے اختلاف کرتے ہیں۔ [10][74] تاریخی شہادتیں بیان کرتی ہیں (جن کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے) کہ 11ویں صدی سنہ مشترکہ سے قبل ہندو معاشرے میں جہیز کا تصوّر ناپید تھا؛ اور بیٹیوں کو وراثت کے حقوق حاصل تھے؛ جن کا رواج کے مطابق لڑکی کی شادی کے وقت اطلاق ہوتا تھا۔

اسٹانلی جے۔ ٹامبیا بیان کرتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں قدیم منو کے ضابطے نے جہیز اور لڑکی کی دولت کی اجازت دی، لیکن جہیز زیادہ باعزّت قسم تھی اوراس کا تعلق اعلیٰ برہمن ذات کے لوگوں سے تھا۔ لڑکی کی دولت کا رواج صرف نچلی ذاتوں تک محدود تھا، جنہیں جہیز دینے کی اجازت نہیں تھی۔ انھوں نے ابتدائی بیسویں صدی سے ایسی دو تحقیقات بیان کی ہیں جو بتاتی ہیں کہ اونچی ذاتوں میں جہیز کا رواج اور نچلی ذاتوں میں لڑکی کی دولت کا رواج بیسویں صدی ابتدائی نصف تک برقرار رہا ہے۔ [74]

اس کے برعکس مائیکل وٹزیل بیان کرتے ہیں کہ قدیم ہندوستانی ادب کے مطابق ویدی دور کے دوران میں جہیز کا رواج زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ [10] وٹزیل نے اس بات کی بھی نشان دہی کی ہے کہ قدیم ہندوستان میں عورتوں کو وراثت کے حقوق حاصل تھے؛ یا ایسا انتخاب کے ذریعے ہوتا یا پھر جب ان کے کوئی بھائی نہ ہوتے۔ [10] کین بیان کرتے ہیں کہ قدیم تحریروں کے مطابق صرف اشورا قسم کی شادیوں میں لڑکی کی جانب سے دولت ادا کی جاتی تھی، جس منو اور دیگر قدیم ہندوستانی تحریروں میں شرم ناک اور ناجائز تصوّر کیا گیا ہے۔ لوچتے فیلڈ کا کہنا ہے کہ منو اور دیگر کی جانب سے مذہبی فرائض کی فہرست، جیسے "شادی کا جشن منانے کے لیے دلہن کی بہت زیادہ آرائش اور سجاوٹ کیے جانے" میں رسم کے مطابق لباس اور زیورات شامل تھے؛ جن کے ساتھ دیے جانے والے تحائف میں لڑکی کی جائداد بھی تھی؛ یہ ایسی جائداد نہیں تھی جس کا تقاضا دولہا کی جانب سے کیا جاتا یا جو دولہا کے لیے مختص ہوتی؛ لوچتے فیلڈ مزید نشان دہی کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں دلہن کا آرائش اور سجاوٹ کے لیے تیّار ہونا بہت سارے لوگوں کے ذہن میں جہیز تصوّر نہیں کیا جاتا ہے۔ [75]

قدیم ہندوستان کی تاریخی اور داستانوی شہادتیں بیان کرتی ہیں کہ قدیم ہندو معاشرے میں جہیز دینا کوئی معیار کے طور پر قائم رواج نہیں تھا۔ سکندر اعظم کی فتوحات کے دور کے آرریان، اپنی پہلی کتاب میں جہیز کے رواج کے ناپید ہونے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ؛ یا یہ رواج اتنا کم تھا کہ آریان نے اس پر توجّہ ہی نہ دی۔ [76]

وہ (قدیم ہندوستانی لوگ) شادیاں اس اصول کے ساتھ کرتے تھے کہ لڑکی کا انتخاب کرنے میں ان کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی تھی کہ اس پاس جہیز یا دولت ہے یا نہیں، بلکہ وہ صرف لڑکی کی خوب صورتی اور دیگر ظاہری شخصی خصوصیات دیکھتے تھے۔ [77]

آرریان، سکندر اعظم کا ہندوستان پر حملہ (The Invasion of India by Alexander the Great) تیسری صدی قبلِ مسیح [78]

آرریان کی دوسری کتاب بھی اسی طرح کی نشان دہی کرتی ہے،

وہ (ہندوستانی) جہیز دیے یا لیے بغیر شادیاں کرتے تھے، لیکن عورتیں جیسے ہی شادی کی عمر کو پہنچتیں، ان کے باپ ان کو عوام میں لے آتے جہاں ان کا انتخاب وہ فاتح کرتا جس نے کُشتی یا باکسنگ یا دوڑ میں کسی کو شکست دی ہو یا کوئی ایسا شخص نے مردانہ مشقّت کے کام میں کمال حآصل کیا ہو۔

آرریان ، اِندیکا، مگاستھنیزاور آرریان، تیسری صدی قبلِ مسیح [79]

آرریان کے دورے کے تقریباً 1200 سال بعد فارسی عالم البیرونی جنھوں نے گیارہویں صدی میں 16 سال گزارے، لکھتے ہیں،

شادی کا جشن منانے کے عناصر کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کوئی تحفہ (جہیز) ان کے درمیان میں لیا یا دیا نہیں جاتا۔ شوہر بیوی کو تحفہ دیتا ہے، جیسا وہ مناسب سمجھتا ہے تو پیشگی شادی کاتحفہ دیتا ہے جس پر بعد میں اس کا کوئی دعویٰ وصول کرنے کے حوالے سے نہیں ہوتا، لیکن اگر (منتخب کی جانے والی) بیوی چاہے تو وہ اپنی مرضی سے شوہر کو تحفہ واپس کر سکتی ہے(اگر وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہے)۔

البیرونی، ہندوستان میں شادی پر باب، اندازہً 1035ء [80]

بیوگی اور دوبارہ شادی ترمیم

 
سفید ساڑی میں ملبوس بیوہ خواتین

روایتی طور پر بیواؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ روحانی اور راہبانہ زندگی گزاریں خصوصاً اعلیٰ ذات کے برہمنوں میں۔ [81] اس کے ساتھ ساتھ دوبارہ شادی کرنے پر پابندیاں بھی تھیں۔ [82] ایسی پابندیوں پر اب ایک قلیل سی اقلیت کی جانب سے عمل کیا جاتا ہے، پھر بھی یہ عقیدہ جاری ہے کہ "ایک اچّہی بیوی کا انتقال اس کے شوہر سے پہلے ہوتا ہے۔ [81][82]

ہندو بیواؤں کی دوبارہ شادی کے مجریہ 1856ء کے نافذ ہونے سے پہلے ایک بحث کے دوران میں بعض برادریوں نے یہ دلیل پیش کی کہ یہ ان کی قدیم رواج ہے جو بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے سے روکتی ہے۔ لوسی کیرول بیان کرتی ہیں کہ ہندو علما اور نوآبادیاتی برطانوی حکام نے اس دلیل کو رد کر دیا ، کیونکہ بیوہ کی دوبارہ شادی پر پابندی کا مبیّنہ رواج "قدیم ہندوستانی معاشرے کے بالکل برعکس تھا"؛ اور وہ پہلے ہی سے ہندو برادریوں جیسے راج بنسی جس کے اراکین نے بیواؤں کی دوبارہ شادی پر پابندی کی درخواست دی تھی، میں رائج تھا۔ لہٰذا یہ "رواجی قانون" کے تحفّظات پر پورا نہیں اترتا تھا ، جو برطانوی نو آبادیاتی دور کے قوانین کے تحت تھے۔ [83][84] تاہم یہ معاملہ نوآبادیاتی عدالتوں میں عشروں تک لٹکا رہا؛ کیونکہ آنجہانی شوہر کی جانب سے چھوڑی گئی جائدادکا متعلقہ معاملہ اور آیا یہ کہ بیوہ اس جائداد کو اپنے پاس رکھے یا نئے شوہر کو وہ جائداد منتقل کرنے کے لیے اس سے دست بردار ہو جائے، ہنوز برقرار تھا۔ جبکہ ہندو برادری بیوہ کی دوبارہ شادی پر اعتراض نہیں کرتی ہے، لیکن جائداد کے حقوق کے لیے اور جائداد کے پرانے شوہر کے خاندان سے نئے شوہر کے خاندان کو منتقل کرنے کے معاملے پر مقابلے کے لیے اتر آتی ہے دوبارہ شادی کرنے والی بیوہ کی موت کے بعد خاص طور پر بیسویں صدی میں۔[85]

ایڈگر تھرسٹن کے مطابق تمل ناڈو میں پلی یا ونّیار ذاتوں میں بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت ہے [86]؛ اور ذاتی سطح پر اس کا رواج تھا۔ بیوہ کی دوبارہ شادی کو "ندُو ویتّو تالی" کے طور پر جانا جاتا ہے، کیونکہ ت"تالی" باندھنے کی رسم مکان کے اندر انجام پاتی تھی۔

ستی ہونا ترمیم

 
ستی (رسم)

ستی ہونا جنازے کی رسومات کے حوالے سے ایک متروک رواج ہے، جس میں بیوہ، آنجہانی شوہر کے جنازے (چتا) میں جل کر خود کو ختم کر لیتی تھی یا شوہر کی موت کے تھوڑی دیر بعد خود کُشی کر لیتی تھی ۔ [87][88][89] مائیکل وٹزیل بیان کرتے ہیں کہ قدیم ہندوستانی تحریروں میں ویدی دور کے دوران میں ستی ہونے کے رواج کے حوالے سے کوئی شہادت نہیں ملی۔ [10]

2010ء میں قدیم ہندوستانی ادب پر اپنے تبصرے میں ڈیوڈ برِک بیان کرتے ہیں، [11]

یا تو ویدی ادب میں یا کسی بھی ابتدائی دھرم سُتروں میں یا دھرم شاستروں "سہاگ منا" یا "ستی ہونے" کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ "ابتدائی دھرم سُتروں یا دھرم شاستروں" سے میری مراد خاص طور پر اپستمبا کے دھرم سُتر، ہیرانیاکیسِن ، گوتم، باؤدھیان اور ویشیستا اور منو، نرادا اور یوجنا والکیا کے بعد کے دھرم سُتر ہیں۔

ڈیوڈ برِک، ییل یونیورسٹی [11]

ستی ہونے کے حوالے سے سب سے ابتدائی عالمانہ گفتگو چاہے غلط ہو یا صحیح دسویں سے بارہویں صدی سنسکرت ادب میں پائی گئی ہے۔ [90] ستی ہونے پر سب سے ابتدائی منظرِ عام پر آنے والے تبصرے میں کشمیر کے میدھاٹیتھی دلیل پیش کرتے ہیں ستی ہونا ایک قسم کی خود کشُی ہے، جس پر ویدی روایت کے لحاظ سے پابندی ہے۔[11] بارہویں صدی کی چالوکیہ عدالت کے وگیانیشور اور تیرہویں صدی کے مدھو اچاریہ بحث کرتے ہیں کہ ستی ہونے کو خود کُشی تصوّر نہیں کیا جانا چاہیے جس کی صحیفوں میں مختلف مقامات پر پابندی ہے یا جس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ [91] وہ وجوہات کا ایک آمیزہ پیش کرتے ہیں، جو ستی ہونے کی موافقت اور مخالفت دونوں پر مبنی ہے۔ [92] تاہم کتاب "جدید دنیا میں مذاہب" کے مطابق 1987ء میں شوہر کی چتا کی آگ میں جل کر روپ کنور کی موت کے بعد ہزاروں لوگو ں اس واقعے کو ایک بھیانک قتل کے طور پر دیکھا۔ اس کے بعد ستی ہونے کو جرم قرار دے دیا گیا، جس کے نتائج موت سے بھی بدتر ہیں۔ [93]

 
جوہر، رنتمبھور میں خواتین کا زہر کھا کر مرنا۔

ایک اور تاریخی رواج جس پر ہندو مت میں خواتین عمل کرتی تھیں، وہ راجپوت قوم کا رواج جوہر تھا؛ اس پر خاص طور پر راجستھان اور مدھیہ پردیش میں عمل کیا جاتا تھا، جہاں جنگ کے دوران میں خواتین اجتماعی طور پر خود کُشی کرتی تھیں۔ جنگ میں فاتح مسلمان فوجیوں کے ہاتھوں زندہ پکڑے جانے اور بے حرمتی ہونے کے بہ جائے وہ موت کو ترجیح دیتی تھیں۔ [94] بوس کے مطابق جوہر کا رواج چودہویں اور پندرہویں صدی میں پروان چڑھا، جب شمال مغربی ہندوستان میں ہندو-مسلم جنگیں ہوا کرتی تھیں؛ جہاں ہندو خواتین پکڑے جانے کی صورت میں غلامی یا آبرو ریزی کے بہ جائے موت کو ترجیح دیتی تھیں۔ [95][96] ہندو خواتین کے ستی ہونے کے جوہر کا رواج صرف قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں ہندو-مسلم جنگوں کے دوران میں پڑا تھا راجپوتوں کی آپس میں ہندو-ہندو جنگوں کے دوران میں نہیں۔ [97]

ستی ہونے کے رواج کا آغاز ہندو معاشرے کی جنگی قوموں کے شاہی خاندانوں میں ہوا تھا جس نے بتدریج مقبولیت دسویں صدی سے حاصل کی اور بارہویں سے اٹھارہویں صدی تک یہ رواج دیگر قوموں تک بھی پھیل گیا۔ [98] جنوبی ایشیا پر سب سے ابتدائی اسلامی حملوں کا پتا آٹھویں صدی کی ابتدا سے ملتا ہے جیسے محمد بن قاسم کے چھاپے اور دسویں صدی کے بعد اسلامی توسیع پسندانہ عزائم پر مبنی اہم جنگیں۔ [99] یہ نظام الاوقات اس نظریے کو جِلا بخشتا ہے کہ ہندوستان میں ستی ہونے کے رواج کا تعلق جنوبی ایشیا میں اسلامی حملہ آوروں کے حملوں اور ان توسیع پسندانہ عزائم سے بنتا ہے، جو صدیوں پر محیط تھے۔ [12][13] ڈینیئل گرے بیان کرتے ہیں کہ ستی ہونے کے ماخذوں اور اس کے پھیلاؤ کے سمجھنے کو برطانوی نو آبادیاتی دور میں جان بوجھ کر دھندلایا گیا ہے، کیونکہ انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں "ہندوایک مسئلہ" کے نظریات کو پروان چڑھانے کی شدید اور شعوری کو کوشش کی گئی۔ [100]

تعلیم ترمیم

 
اتھرو وید کا ایک صفحہ

وید اور اپنیشد بیان کرتے ہیں کہ لڑکیاں برہما چارینی ہو سکتی ہیں، یعنی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ [101] مثال کے طور پر اتھر وید کے بیان کے مطابق [101][102]

ब्रह्मचर्येण कन्या युवानं विन्दते पतिम्

ایک نوجوان کنّیا (لڑکی) جو برہما چاریہ کی تعلیم حاصل کرتی ہے، اس کو مناسب شوہر ملتا ہے۔

اتھرو وید، 11.5.18 [102]

ایک بعد کے دور کا ہندو صحیفہ ہریتا دھرم سُتر بیان کرتا ہے کہ عورتیں دو اقسام کی ہوتی ہیں: سَدھیا وَدھُو جو مدرسہ یا اسکول جائے بغیر شادی کرتی ہیں؛ اور براہما ویدینی جو پہلے مدرسے یا اسکول جاکر ویدوں کی تعلیم حاصل کرے اور براہمن کی بات کرے۔ ہندو شاستر اور اسمرتیاں ، سنسکاروں (زندگی گزارنے کے طریقوں) کی مختلف تعداد بیان کرتے ہیں۔ اُپایان سنسکار تعلیم شروع کرنے کے عمل کے بارے میں بیان کرتا ہے۔ ویدوں کی طرح قدیم سُتروں اور شاستروں کی سنسکرت تحریریں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دینے کے بارے میں بات کرتی ہیں اور جو لڑکیا ں اس سنسکار (زندگی گزارنے کے مرحلے) سے گزرتی تھیں اور تعلیم حاصل کرتی تھیں انھیں براہما وادینی کہا جاتا تھا۔ [103][104] جو ایسا نہیں کرتی تھیں، وہ اپنی شادی کے موقع پر اُپایان کی رسم انجام دیتی تھیں۔ مقدس دھاگے کے بہ جائے لڑکیا ں اس سے بنا لباس پہنتیں(جسے اب ساڑی کہا جاتا ہے)، بالکل مقدّس دھاگے کے انداز میں، جس کو لڑکی کے بائیں بازو کے اوپر اس سنسکار (زندگی گزارنے کے مرحلے) کے دوران میں پہنایا جاتا۔ [103][105]

جنس اور تعلقّات ترمیم

ہندو مت کے اسمرتی صحیفے شادی کے علاوہ جنسی تعلّق پر متضاد نکتہء نظر فراہم کرتے ہیں۔ زیادہ تر صحیفے جنسی معاملات کو عورت اور مرد کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن ایسے جنسی ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچّوں کے حقوق پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ [106][107][108] مثال کے طور پر،

اگر کوئی مرد کسی ایسی غیر شادی شدہ عورت کے ساتھ ہم بستری کرتا ہو، جو اس عمل کے لیے رضامند ہو تو یہ کوئی جُرم نہیں ہے؛ لیکن اس مرد کو لازمی طور پر زیورات اور اشیا اس عورت کو پیش کرنا ہوں گی؛ اس عورت کی پرستش یا پوجا کرنی ہو گی؛ اورلہٰذا اس عورت کو اپنے گھر میں اپنی دلہن (بیوی) کے طور پر لانا ہو گا۔

نراد اسمرتی13.71 13.72، [107][108]

ہندو صحیفوں میں شادی شدہ مرد کے زنا کرنے کی مذمّت کی جاتی ہے (لیکن اس کی سزا نہیں ہے) ، لیکن صحیفے استثنیٰ (قابلِ سزا نہیں)دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر،

اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے جُڑی عورت کے ساتھ اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور ہم بستری کرتا ہے، تو ماہرین کے نزدیک یہ زنا ہے؛ لیکن یہ اس صورت میں زنا نہیں ہے، جبکہ وہ عورت اس مرد کے گھر میں اپنی مرضی سے چل کر آئی ہو۔ یہ قابل سزا جرم نہیں ہے، جب کوئی شخص ایسے مرد کی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے، جو اس سے دست بردار ہو گیا ہو، کیونکہ وہ عورت نیک نہیں ہے یا کسی خواجہ سرا کی بیوی کے ساتھ یا ایسے مرد کی بیوی کے ساتھ جو اس کی فکر نہیں کرتا اور صورت حال ایسی ہو کہ بیوی کی جانب سے بیوی کی اپنی چاہت سے پیش قدمی یا پہل کی گئی ہو۔

نراد نراد اسمرتی 13.60 13.61، [107]

رچرڈ لاری ویئر بیان کرتے ہیں کہ اوپر بیان کیے گئے اشلوک میں "کسی مرد سے جُڑی ہوئی عورت" سے مراد وہ عورت ہے، جو یا شادی شدہ ہو یا اس کے شوہر کی جانب سے اس کا تحفّظ کیا جاتا ہو یا ایسی عورت جو شادی شدہ نہیں ہے اور اپنے والد کی امان میں ہے۔ [107] منواسمرتی کے بیان کے مطابق زنا کاری تمام متاثرین کے لیے پریشانی اور انتشار کا باعث ہے، لیکن اس میں کئی ایسے اشلوک اس بات کے لیے مختص ہیں کہ شادی کے علاوہ جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچّوں کے باقاعدہ حقوق کیا ہوں۔ [109] تیرہویں صدی کے ہندوستان میں ہندو بادشاہتوں کا دورہ کرنے کے بعد مارکو پولو اپنی سوانح میں تحریر کرتے ہیں (رونالڈ لیتھم کے ترجمے کے مطابق) کہ "وہ(ہندو) شادی کے اندر رہتے ہوئے جنسی تعلّق کو باقاعدہ اور نیک عمل تصوّر کرتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ دیگر اقسام کی جنسی تسکین بھی گناہ تصوّر نہیں کرتے ہیں"۔ [110]

لباس ترمیم

 
لباس
 
ایک ہندو خاتون کا بندیا اور سیندور کا استعمال

ہندو مت میں قدیم اور قرون وسطیٰ کے دور میں عورتوں کے ملبوسات کے بارے میں معلومات غیر واضح ہیں۔ عمومی طور پر قدیم ہندو تحریروں میں کپڑوں کا تذکرہ آیا ہے۔ [111] ارتھ شاستر (200 قبلِ مسیح تا 300 سنہ عیسوی) کے مطابق مختلف لباسوں کا تذکرہ ہے، جو پودوں، ململ اور روئی پر مشتمل تھے جن کی جزوی یا مکمل طور پر رنگت بدلی گئی، بُنا گیااور تیار کیا گیا۔ [112][113] یہ تاہم کہنا غیر یقینی ہے کہ خواتین ان لباسوں کو کیسے پہنتی تھیں؛ اور علما نے لباس کا اندازہ پتّھر کی مورتیوں، دیواروں پر نقّاشی اور قدیم ادب سے لگایا ہے۔ [114] قدیم اور قرونِ وسطیٰ کی ہندو روایات میں سر اور چہرا ڈھانکنا نہ تو ضروری تھا نہ ہی عام تھا؛ لیکن اوشنیش کے موقع پر جو ایک علاقائی رسمی تقریب ہے سر کے ڈھانکنے کا تذکرہ کیا گیا ہے، جیسے برصغیر ہندوستان کے سرد اور خشک علاقوں میں دوپٹہ پہنا جاتا ہے۔[113]

تحریروں کے مطابق سماجی مرتبے سے قطع نظر قدیم ہندو خواتین کا لباس کپڑے کی دو الگ الگ چادروں سے مل کر بنتا تھا؛ ایک ٹکڑا جسم کے زیریں حصے کو ڈھانپتا کمر کے نیچے؛ اور دوسرا بڑا ٹکڑا جسے دھوتی (جدید دور کی ساڑی) کہا جاتا ہے، وہ جسم کو ڈھانکتا۔ [113] بعض مورتیوں اور نقاشی پر مبنی تصویروں سے پتا چلتا ہے کہ لباس میں پلیٹیں یا کریز بھی دی جاتیں، تاکہ جسم کی ساخت نمایاں ہو۔ تاہم پلیٹوں اور کریز کا استعمال ہر علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتا۔ [115] قدیم صحیفوں اور فنّی کام سے پتا چلتا ہے کہ ویدی اُپایان انداز میں دھوتی کمر کے دائیں حصے سے بائیں کندھے تک جاتی۔ [103][115] چھاتیوں کو سلائی کیے گئے جسم پر کسے ہوئے کپڑے سے ڈھانکا جاتا اور اس کو "کرپاسک" (سنسکرت: कूर्पासक) کہا جاتا [116] یا "ستانم سُکا" (سنسکرت: स्तनांशुक ) کہا جاتا [117]؛ لیکن یہ لباس انتہائی جنوبی ہندوستان یا مشرقی ریاستوں جیسے اڑیسہ اور بنگال میں عام نہیں تھا۔ [118] علاقائی تنوّع بہت زیادہ تھا، جو مقامی موسم اور روایات کے مطابق تھا لباس کی لمبائی، پلیٹوں کی تعداد، پلیٹوں کے مقام اور دھوتی کے اوپری حصے کی اضافی لمبائی کی صورت میں۔ [118] یونانی حوالے بتاتے ہیں کہ کانوں کے بُندے، کلائیوں اور ٹخنوں پر پہنے جانے والے زیورات عورتوں میں عام تھے۔ [119]

عام طور پر ساڑی کپڑے کے ایسے ٹکڑے پر مشتمل ہوتی ہے جو 6 گز لمبا ہوتا ہے اور پہلے بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ [120] کپڑے کے معیار اور نزاکت کا انحصار آمدنی اور استطاعت پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی نو آبادیاتی دور میں مختلف معاشی طبقات سے تعلّق رکھنے والی خواتین گرم اور مرطوب بنگال میں کپڑے کا ایک ٹکڑا پہنتی تھیں۔ [121] اسے "کپوڑ" کہا جاتا تھا، جو غریب خواتین پہنتی تھیں۔ جب اس لباس کے زیادہ پُر آسائش نمونے کو ساڑی کہا جاتا تھا۔ [121] استعمال ہونے والا کپڑا اور لاگت مختلف تھے، لیکن ان کا انداز اور فطرت ہندو خواتین کے مختلف آمدنی والے اور سماجی طبقات (ذاتوں \ طبقات) میں یکساں تھے۔ [121]

سیندور یا کُم کُم ابتدائی ادوار سے ہندو مت میں عورتوں کی علامت کا نمایاں اظہاریہ رہا ہے۔ [122] ایک شادی شدہ ہندو عورت سرخ رنگ کا سندور اپنے بالوں کی مانگ میں لگاتی ہے، جبکہ کنواری، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت سیندور نہیں لگاتی ہیں۔ [122][123] ہندو عورتیں ماتھے پر بندیا (بندی یا بوٹّو) لگاتی ہیں ۔[124] پیشانی یا ماتھے کا یہ مقام باطنی آنکھ کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ روحانی و باطنی طور پر بیدار ہے۔ [124] ماضی میں شادی شدہ عورتیں بندیا لگایا کرتی تھیں، لیکن جدید دور میں یہ اب فیشن اور رواج میں شامل ہو گیا ہے؛ اور اس کا تعلّق ہندو مت میں عورتوں کی ازدواجی حیثیت سے نہیں رہا۔ [124]

ثقافتی رواج جیسے سیندور ایسا ہی ہے جیسے دیگر ثقافتوں میں شادی کی انگوٹھی۔ علاقائی طور پر ہندو خواتین تہواروں کے موقع پر، مندر کے دورے کے موقع پر یا دیگر رسمی مواقع پر اپنے بالوں میں تازہ پھول سجا سکتی ہیں۔ سفید رنگ کی ساڑی عمر رسیدہ بیواؤں سے منسوب ہے، جبکہ سرخ یا دیگر جشن کے رنگ کڑھائی کے ساتھ تہواروں اور سماجی تقریبات جیسے شادیوں کے لیے ہیں۔ [125] ہندو مت زندگی کا ایک راستہ ہے؛ یہ متنوّع ہے؛ ا س کے عقائد کتاب میں لکھے گئے اصولوں کی طرح مجبور کردینے والے نہیں ہیں، [126] نہ ہی ہندو خواتین پر لباس زیب تن کرنے کے حوالے سے کسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ انتخاب کا یہ اختیار ذاتی پسند ناپسند پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ [126]

 
سولہ سنگھار

ہندو خواتین کی جانب سے پہنے جانے والے زیورات کو سولہ سنگھار (16 آرائشیں) کہا جاتا ہے؛ جو مندرجہ ذیل ہیں: [127]

  1. مانگ کا ٹیکا
  2. مانگ میں سیندور کی دھار
  3. بندیا
  4. آنکھ کا کاجل
  5. جھمکا یا بالی
  6. ناک کی نتھنی
  7. کلائی کی چوڑیاں
  8. ہاتھ کی انگوٹھیاں
  9. ہتھیلی اور دوسرے حصوں پر مہندی کی نقاشی
  10. کمر بند
  11. بازو بند
  12. عطر یا خوشبو
  13. گجرا
  14. پائل / پازیب
  15. بچھیا (پیر کی انگوٹھی)
  16. ہار

برنارڈ کوہن (2001ء) بیان کرتے ہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کے دوران میں ہندوستان میں لباس سے اقتدار کی سطح، زیر نگیں ہونے اور مقتدر تعلّقات کا اندازہ ہوتا تھا۔ ہندوؤں دیگر مذہبی طبقوں کے زیر نگیں رہے اور اس کے باعث اس صورت حال نے ان کے لباس کے انتخاب پر اثر ڈالا۔ اس مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ مغلیہ دور کے زیرِ اثر لباس کا انداز کچھ اور تھا اور برطانوی ملکہ کے دور میں لباس پر یورپی اثرات نمایاں رہے۔ [128]

فنونِ لطیفہ: رقص، ڈراما، موسیقی ترمیم

فنونِ لطیفہ: رقص، ڈراما، موسیقی
 
ایک ہندو خاتون رقص کرتے ہوئے
 
دیوداسی
 
ناچ

ہندو مذہبی فن کارکردگی دکھانے والے فن اور فنِ مصوّری دونوں پر مشتمل ہے؛ اور خواتین ہندو فنون میں اسی طرح نمایاں ہیں، جس طرح کہ مرد۔ [129] سنسکرت ادب میں خواتین کے کا مذہبی اور روحانی تذکرہ موجود ہے، جس میں ان کو دیویوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہندو روایت میں فنون، دولت، موسیقی، شاعری، تقریر، ثقافت اور علم کی دیوی سرسوتی ہیں۔ [130] باؤمار بیان کرتے ہیں کہ نتیجتاً وجود میں آنے والا سنسکرت تھیٹر اور اس کے ماخذ ویدوں سے جا ملتے ہیں؛ جن کی بنیاد تین اصولوں پر ہے: کائناتی مرد (پُرُش)، شعور (آتما یا روح) اور کائناتی شخصیت (براہمن)"۔ [131] خواتین سے متعلّق جو ابتدائی حوالے ہندو صحیفوں میں ملتے ہیں، ان کے مطابق وہ رقص، موسیقی اور فنّی کارکردگی میں فعال تھیں؛ اس کا پتا قبل مسیح کے پہلے ہزاریے کی کتاب تائیتیریا سنہتا کے باب 6.1 اور آٹھویں صدی قبل مسیح کی شتھ پاتھا براہمنا کے باب 3.2.4 میں ملتا ہے۔ [132] پانینی، پتنجلی، گوبھیلا کی تحریروں کے مطابق مذہبی رسومات میں، جیسے قدیم شراؤتا اور گریہیا ستروں کی رسومات میں یگیہ کے دوران میں خواتین، مردوں کے ساتھ بھجن گاتیں یا منتر پڑھتیں۔ [132]

ٹریسی پِنچ مین کے مطابق موسیقی اور رقص "ہندو روایات میں رچے بسے" ہیں؛ اوراس روایت میں ہندو مت میں خواتین کا تخلیقی اور کارکردگی کے لحاظ سے کردار فعال ہے۔ [133] جہاں ہندو مت کے بعض پہلو خواتین کی آزادی کو محدود کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ ساتھ وہ فن کی تخلیق اور اس کے اظہار کے مواقع خواتین کو فراہم کرتے ہیں۔ [133] پِنچ مین کے بیان کے مطابق تاریخی شہادتیں بتاتی ہیں فنونِ لطیفہ میں خواتین کو دیے جانے والے تخلیق اور شرکت کے مواقع ان کی ذات اور سماجی مرتبے کے قطع نظر فراہم کیے جاتے تھے۔ [133] اونچی ذات کی ہندو خواتین میں کلاسیکی گلوکاری و موسیقی کا رجحان زیادہ تھا ، جبکہ عوامی سطح پر فنون کے مظاہروں جیسے رقص کا رجحان ایک سے زیادہ جنسی ساتھی رکھنے والی خواتین مادرانہ نسب سے کی روایات، جیسے دیوداسیوں میں زیادہ تھا۔ [134][135]

دیوداسی کی روایت رکھنے والی خواتین اپنے فنون کا مظاہرہ مذہبی پس منظر کے لحاظ سے کرتی تھیں۔ [134] نوجوان دیو داسی خواتین کو فنون لطیفہ، جیسے موسیقی، تھیٹر اور رقص کی تربیت دی جاتی تھی؛ اور ان کی زندگیاں ہندو مندروں کے گرد گھومتی تھیں۔ جنوبی ہندوستان میں بعض ایسی خواتین کسبی (طوائف) ہوتی تھیں، جبکہ دیگر پرہیز گار تھیں۔[134] 1909ء میں برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے پہلا قانون منظور کیا، جس کے تحت ریاست میسور میں دیوداسیوں کے رواج پر پابندی عائد کر دی گئی؛ تاہم دیوداسیوں کی روایت پر پابندی عائد کرنے کی ایک کوشش تمل ناڈو کے ہندو مندروں میں کی گئی، لیکن 1927ء میں مدراس پریزیڈنسی میں یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ [136] 1947ء میں مدراس کی حکومت نے قانون سازی منظور کرکے دیوداسی کے رواج پر پابندی عائد کر دی، جو اس دباؤ کا نتیجہ تھی جو سماجی کارکنوں کی جانب سے ڈالا گیا تھا کہ یہ رواج "جسم فروشی" کی ایک روایت ہے۔ [137] تاہم اس روایت کا ان لوگوں کی جانب سے احیاء کیا گیا ، جو سمجھتے تھے یہ ایک "راہبانہ" روایت ہے؛ جس میں دیوداسی ایک پارسا عورت ہے جو سمجھتی ہے کہ اس کی شادی دیوتا سے ہو چکی ہے؛ اور وہ مندر میں رقص کی روایت کو استعمال کر کے چندہ اکٹّھا کرتی ہے اور ساتھ ہی فن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ [137]

پِنچ مین کے بیان کے مطابق شاعری میں نویں صدی کی اندال بھکتی تحریک کی نام ور شاعرہ بنیں؛ اور تاریخی دستاویزات بتاتی ہیں کہ بارہویں صدی تک وہ اور ان کے خیالات جنوبی ہندوستان اور دیگر علاقوں میں ہندو خواتین کے لیے متاثر ہونے کا استعارہ تھے۔ [134][138] اندال اب بھی جدید دور کی سیکڑوں رقّاصاؤں کو رقص کی ہدایت کاری اور اندال کے نغموں پر رقص کے لیے متاثر کرتی چلی آرہی ہیں۔ [138] اندال کو گوڑ بھی کہا جاتا ہے اور فنونِ لطیفہ کے لیے ان کی شراکت کاریوں نے ویشناؤ روایت میں گوڑ منڈلی (حلقہء اندال) تشکیل دی ہے۔ [138] پِنچ مین کے بیان کے مطابق دیگر دوسری خواتین، جیسے ناگ آتنمّل ، بالا سرسوتی اور رکمنی نے بارہویں صدی تک " کرناٹک رقص اور بھرت ناٹیم کو عوامی اسٹیج پر لانے اور فنونِ لطیفہ کو عوام تک پہنچانے "میں اہم کردار ادا کیا۔ [138] "گاتھا سپتا ستی" سنہ مشترکہ کے پہلے ہزاریے کے ابتدائی نصف دور سے تعلق رکھنے والا سُبھاشِت قسم کی شاعری کا ایک مجموعہ ہے، جس میں وسطی مغربی ہندوستان کی بہت سے خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ [139]

پس منظر: تاریخی اور جدید ارتقائی منازل ترمیم

پیچیلیس کے بیان کے مطابق ہندو مت میں خواتین کے کردار کا تذکرہ 3000 سالہ تاریخ پر محیط ہے جو ہندو فلسفے کے ان خیالات کو شامل کرتا ہے جن کے مطابق پراکرتی (مادّہ، نسوانیت) اور پُرُش (شعور، مردانگی) کے اجتماع کے نتیجے میں موجودہ کائنات کی تخلیق ہوئی۔ [140] ہندو مت کے تصوّرات کے مطابق ان دو قوّتوں یا نظریات کے تعلّق، باہمی انحصار اور باہمی مفاہمت کی فطرت یعنی پراکِرِتی اور پُرُش ، نسوانیت اور مردانگی اصل میں تمام موجودات کی بنیاد ہے، جس سے ہندو روایات میں خواتین کے مقام کا آغاز ہوتا ہے۔ [140]

گو کہ یہ قدیم صحیفے اس بات کی بنیاد ہیں، جن کے تحت ہندو مت میں خواتین کے مقام کی تشکیل ہوئی اس کے ساتھ ساتھ ہندو خواتین نے ثقافتی روایتوں اور جشن میں بھی شراکت کاری کی اور ان سے متاثر بھی ہوئیں جیسے تہوار، رقص، فنون لطیفہ، موسیقی اور روز مرّہ زندگی کے دیگر پہلو۔ سوگیرتھا راجا بیان کرتے ہیں کہ ان آزاد رویّوں کے تاریخی پس منظر کے با وجود "نظریہ نسوانیت" کی اصطلاح کو استعمال کرنے کے حوالے سے کچھ بے دلی پائی جاتی ہے، جس میں ہندو مت کی تاریخی ارتقائی منازل کو بیان کیا جا سکے۔ [22]

برطانوی نو آبادیاتی دور کی اٹھارہویں صدی میں یورپی علما دیگر دوسری خواتین کے مقابلے میں ہندو خواتین کو "فطری طور پر پرہیزگار" اور "زیادہ نیک" بیان کرتے تھے۔ [141]

بیسویں صدی کے تاریخی تناظر کے لحاظ سے ہندو مت میں خواتین کا مقام اور مزید عمومی طور پر ہندوستان زیادہ متضاد پہلوؤں کے حامل ہیں۔ [142] علاقائی ہندو روایات کو مادر سری معاشروں کے طور پر منظّم کیا گیا ہے (جیسے کہ جنوبی ہندوستان اور شمال مشرقی ہندوستان میں)؛ جہاں عورت گھر کی سربراہ ہوتی ہے اور وراثت میں دولت وصول کرتی ہے؛ پھر بھی دیگر ہندو روایات پدر سری ہیں۔ [143] ہندو مت میں خدا کو عورت ماننے کا تصوّر اور دیوی ماتا (ماں، مادر) کے تصوّرات ہیں، پھر بھی ایسی رسمیں ہیں جن میں عورت کے زیر کفالت ہونے کا تصوّر ملتا ہے۔ [144]

شرما کے بیان کے مطابق ہندوستان میں تحاریکِ حقوقِ نسواں دو بنیادی ہندو تصوّرات پر چلائی گئی ہیں لوک سان گرہ اور ستیا گرہ۔و149و لوک سان گرہ کی تعریف کے مطابق "دنیا کی بھلائی کے لیے عمل کرنا" اور ستیاگرہ کی تعریف کے مطابق "سچّائی پر زور دینا"۔ یہ تصوّرات خواتین کے حقوق کی تحریک اور سماجی تبدیلی کا جواز سیاسی اور قانونی عمل کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ [145] 1975 میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں فین تبصرہ کرتی ہیں کہ "عورتوں کا احترام کرنے، ذمہ داری کے قابل سمجھنے، مضبوط" ہونے کے یہ بنیادی ہندو عقائد ہی ہیں، جن کی بنیاد پر اندرا گاندھی کو ثقافتی طور پر ہندوستان کی وزیر اعظم کے طور پر قبول کیا گی، [145] اس کے ساتھ ہی ملک میں حالیہ صدیوں کے دوران میں ایسے ہندو اور غیر ہندو متنوّع نظریات پروان چڑھنے کی شہادت ملتی ہے، جو ہندوستان میں خواتین کے مقام پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ [146] ینگ کے بیان کے مطابق تحریکِ حقوقِ نسواں کی کوششوں کو "مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جداگانہ سیاست "، مذہب اور خواتین کے حقوق کو جدا کرنے کے حوالے سے ہندوستانی ہندو خواتین کے مختلف النّوع مؤقف، لادینیت پر مبنی مشترکہ قوانین (مشترکہ شہری ضابطہ) جن کا اطلاق مذہب کے بغیر ہو سے دھچکا لگا ہے جبکہ ہندو ستان کی مسلم برادری عائلی، خاندانی اور دیگر شعبوں میں شرعی قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ [147]

مغرب کی عالمانہ رائے ترمیم

کیتھلین ارنڈل کے نزدیک جدید دور کے مغربی علما میں یہ نظریہ اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ "ہندو مت میں خواتین کو مجموعی طور پر مفتوحہ شے سمجھا جاتا ہے اور حقوقِ نسواں کا نظریہ تاہم، اس کی تعریف ایسے کی جا سکتی ہے کہ یہ مغرب کی جانب سے تھوپی گئی سوچ ہے"۔ [148][149] جدید دور کے بعد کے علما یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا انھوں نے نوآبادیاتی دور کے خیالات اور طویل عرصے سے قائم مؤقف کو "بلا چوں چراں قبول" کر لیا ہے، [148][150] خاص طور ہندو شکتی کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی سمجھ بوجھ سے متعلق تحریروں اور دیہی ہندوستان میں خواتین پر ہونے والی عملی تحقیق، جنہیں مغربی خیالات یا تعلیم سے کوئی آگاہی حاصل نہیں ہے لیکن وہ ہندو (یا بُدھ) دیوی سے متاثرہ نسوانیت کا اظہار کرتی ہیں۔ [148][151]

واسودھا نارائن بیان کرتے ہیں کہ مغرب کے حقوقِ نسواں کے نظریے نے "اطاعت گزاری اور قوّت کے معاملات" کے مابین مکالمے پر توجّہ مرکوز کی ہے"جب وہ مواقع کے مساوی ہونے کا متلاشی ہوتا ہے" اور "حقوق" کی زبان استعمال کرتا ہے۔و156و ہندو مت میں پس منظر اور ثقافتی حوالے سے لفظ "دھرم" ہے، جو کسی کے اپنے ذمہ ، دوسروں کے ذمہ، دیگر دوسری چیزوں کے مابین فرائض ہیں۔ [152] مغربی کتابوں اورہندو روایات کے مابین خلا ء ہے۔ مغربی کتابیں ہندو روایات کے ساتھ خواتین کی جدّو جہد کو بیان کرتی ہیں، جو ان تحریروں کی بنیاد پ رہے، جن کو برطانوی نوآبدیاتی دور نے بدنام کیا؛ اس کے برعکس حقیقی ہندو رسم و رواج ان تحریروں بالکل بھی سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ [150][153] نارائن بیان کرتے ہیں (مختصراً)،

بہت سارے (مغربی) علما یہ درست نشان دہی کرتے ہیں کہ ان ہندو صحیفوں میں خواتین کا مرتبہ کافی نیچے ہے، جو قانون اور اخلاق سے متعلّق ہیں(دھرم شاستر)؛ عام طور پر جو بیان کیاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تحریریں زیادہ نام ور نہیں تھیں اور ان کا اطلاق ہندو ہندوستان کے بہت سارے حصوں میں نہیں کیا گیا تھا۔ ان تحریروں سے زیادہ رسم و رواج اہمیت حامل تھے۔ بہت ساری ایسی قانونی دستاویزات تھیں جو ایک دوسرے کی حریف نہیں تھیں؛ انھیں مختلف ادوار میں ملک کے مختلف حصوں میں تحریر کیا گیا، لیکن ان سب پر ترجیح مقامی رسم و رواج کو دی گئی۔ دھرم کے کچھ شعبوں میں صحیفوں اور رواجوں میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور خواتین کے کردار اور سُدرا بعض اوقات اسی زمرے میں آتے ہیں۔ منو خواتین کی خریداری کو جھٹلا سکتے ہیں، لیکن بعض ذاتوں اور معاشی طبقوں کی خواتین ایسی تھیں جو مندروں چندے کے طور پر رقم دیتی تھیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس میں کوئی براہِ راست نسبت نہیں ہے کہ کوئی ان تحریروں اور خواتین کے مرتبے، حقوق یا رویّے کے مابین کوئی عمومی رائے قائم کر سکے۔

واسودھانارائنن، نظریہ حقوقِ نسواں اور مذاہبِ عالَم [153]

قدیم اور قرونِ وسطیٰ دور کے ہندو صحیفے اور داستانیں معاشرے میں عورت کے مقام اور کردار پر مختلف بحثیں کرتے نظر آتے ہیں؛ جیسے کہ ایک ایسی عورت کے طور پر جس کا خودپر انحصار ہے؛ شادی سے اجتناب کرنے والی طاقت ور دیوی ہے؛ ایک ایسی شخصیت ہے جو زیرِ کفالت ہے اور جس کی شناخت اس کی اپنی ہونے کے بہ جائے مرد سے ہے؛ اور ایک ایسی فرد جو خود کو روحانی شخصیت کے طور پر دیکھتی ہے، جو نہ تو نسوانیت پر مبنی ہے نہ مردانگی پر مبنی ہے۔ [154][155] سینتھیا ہیومز بیان کرتی ہیں کہ مثال کے طور پر چھٹی صدی کا دیوی مہاتمیا کا صحیفہ اصل میں جدید دور کے بعد کے شرف یافتہ ہونے کو مادّی شکل بخشتا ہے؛ اور اس کو ویسا ہی الوہی رنگ دیتا ہے جیسا رنگ مغربی تحاریکِ حقوقِ نسواں کا ہے"۔ [156] یہ تحریریں نظری نہیں ہیں نہ ہی تاریخی ہندو معاشرے کی خواتین کی زندگیوں سے تعلّق توڑتی ہیں، بلکہ ہیومز کے بیان کے مطابق اشلوک اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ تمام "خواتین الوہی دیوی کا حصہ ہیں"۔ [157] پِنچ مین کے بیان کے مطابق ہندو دیوی کی روایت انہی تحریروں سے جُڑی ہے، دنیا بھر کی زرخیز روایات میں سے ہے؛ اور اس کے ماننے والے ہندوستان کے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں رہتے ہیں۔ [158] اس کے ساتھ ہی ہیومز کی جانب سے یہ اضافہ کیا جاتا ہے کہ دیگر تحریریں عورت کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیان کرتی ہیں عورت ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مرد کی طرح قوت کے اظہار پر مبنی؛ جو ممکنہ طور پر بہادر عورتوں کی حوصلہ افزائی ہے کہ وہ اپنی نسوانی روپ سے دست بردار ہو کر مردانہ روپ اپنا لیں ۔ [157]

ریٹا گروس کے بیان کے مطابق ہندو معاشرے کے بارے میں جدید دور کے بعد کے تحقیقی مقالے ایک سوال اٹھاتے ہیں آیا پدرسری کس حد تک ہندو مت میں موجود ہے۔[159] پدر سری کمان حقیقی ہے؛ اور گروس کے بیان کے مطابق ہندو معاشرہ اس کا بہ ذاتِ خود اعتراف کرتا ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ہندو ثقافت اختیار (جو مرد کے پاس ہے) اور قوّت (جو عورت کے پاس ہے) کے مابین امتیاز کرتی ہے۔ [159] ہندو روایت میں عورتوں کے پاس قوّت ہے اور وہ کسی صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے جو ان کے لیے اہمیت رکھتی ہے اپنی قوّت کا اظہار کرتی ہیں۔ [159] ان اقدار کی بنیاد دیوی کی مذہبی حیثیت اور ہندو صحیفوں میں انسانیت کا پرچار ہے، جو حقوقِ نسواں کے مغربی نظریے پر پورا نہیں اترتا ہے لیکن اس نظریے کا عَلَم بردار بھی ہے؛ جس میں عورت قوت بخشنے والے اور روح کو آزاد کرانے والے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ روحانی جہت بھی ہے جو ہندو (بُدھ) دیویوں کو تواناکردار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ [159][160]

کیتھلین ارنڈل کے بیان کے مطابق صحیفے جیسے منواسمرتی وغیرہ ضروری نہیں کہ خواتین کو ایسے پیش کریں کہ وہ کیا تھیں یا ہیں، لیکن یہ ایک نظریہ پیش کرتے ہیں؛ اور وہ کام یہ ہے کہ "ہندو حقوقِ نسواں کے نظریے کے حامیوں کو شکتی کو پدر سری جیل سے بچانا ہے۔ [161] ارنڈل کے بیان کے مطابق اس استعارے کا مطلب ایسا نہیں ہے شکتی کبھی بھی آزاد نہیں تھی نہ ہی وہ اب تالہ بند ہے، کیونکہ ہندو ثقافت میں پدر سری نہ تو مضبوط ہے اور نہ ہی مستحکم ۔ [161] شکتی کا تصوّر ہندو صحیفوں میں ایک وسیع فلسفے سے جُڑا ہے، جو روحانی اور سماجی آزادی کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ [162]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت McDaniel 2004, p. 90.
  2. ^ ا ب Brown 1998, p. 26.
  3. ^ ا ب پ McDaniel 2004, pp. 90–92.
  4. ^ ا ب C. Mackenzie Brown (1990)، The Triumph of the Goddess, State University of New York Press, ISBN ، page 77
  5. ^ ا ب Thomas Coburn (2002)، Devī Māhātmya: The Crystallization of the Goddess Tradition, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120805576، pages 138, 303-309
  6. ^ ا ب Patrick Olivelle (2005)، Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464، page 111
  7. ^ ا ب پ Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 353-354, 356-382
  8. Rajbali Pandey (1969), Hindu Saṁskāras: Socio-religious Study of the Hindu Sacraments, آئی ایس بی این 978-8120803961, pages 158-170 and Chapter VIII
  9. ^ ا ب پ ت The Illustrated Encyclopedia of Hinduism: A-M, James G. Lochtefeld (2001), آئی ایس بی این 978-0823931798, Page 427
  10. ^ ا ب پ ت ٹ Michael Witzel (1996), "Little Dowry, No Sati: The Lot of Women in the Vedic Period." Journal of South Asia Women Studies 2, no. 4 (1996)
  11. ^ ا ب پ ت David Brick (April–June 2010)۔ "The Dharmasastric Debate on Widow Burning"۔ Journal of the American Oriental Society۔ 130 (2): 203–223۔ JSTOR 23044515 
  12. ^ ا ب Anand A. Yang، Sumit (ed.) Sarkar، Tanika (ed.) Sarkar (2008)۔ "Whose Sati?Widow-Burning in early Nineteenth Century India"۔ Women and Social Reform in Modern India: A Reader۔ Bloomington, Indiana: Indiana University Press۔ صفحہ: 21–23۔ ISBN 9780253352699 
  13. ^ ا ب S.S. Sashi (1996)۔ Encyclopaedia Indica: India, Pakistan, Bangladesh۔ 100۔ Anmol Publications۔ صفحہ: 115۔ ISBN 9788170418597 
  14. Edwin Bryant (2007)، Krishna: A Sourcebook، Oxford University Press، صفحہ: 441 
  15. David Kinsley (2005), Hindu Goddesses: Vision of the Divine Feminine in the Hindu Religious Traditions, University of California Press, آئی ایس بی این 978-8120803947, pages 6-17, 55-64
  16. Flood, Gavin, ed. (2003), The Blackwell Companion to Hinduism, Blackwell Publishing Ltd., آئی ایس بی این 1-4051-3251-5, pages 200-203
  17. The Rig Veda/Mandala 10/Hymn 125 Ralph T.H. Griffith (Translator); for Sanskrit original see: ऋग्वेद: सूक्तं १०.१२५
  18. McDaniel 2004, p. 91.
  19. ^ ا ب Paul Deussen, Sixty Upanishads of the Veda, Volume 1, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120814684, pages 534-539
  20. Brihadaranyaka Upanishad VI Adhyaya 4 Brahmana 17 and 18 Max Muller (translator), Oxford University Press, pages 219-220
  21. ^ ا ب Ellison Findly (2004), Women, Religion, and Social Change (Editors: Yvonne Yazbeck Haddad, Ellison Banks Findly), State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0887060687, pages 37-58
  22. ^ ا ب Sharada Sugirtharajah (2002)۔ "Hinduism and Feminism"۔ Journal of Feminist Studies in Religion۔ 18 (2): 97–104 
  23. Adi Parva, Mahabharata, Translated by Manmatha Nath Dutt (Translator), page 108
  24. ^ ا ب Anushasana Parva The Mahabharata, Translated by Kisari Mohan Ganguli, Chapter XI, pages 41-43
  25. Anushasana Parva The Mahabharata, Translated by KM Ganguli, page 264
  26. ^ ا ب پ Anushasana Parva The Mahabharata, Translated by Kisari Mohan Ganguli, Chapter CXLVI, pages 667-672
  27. Tryambakayajvan (trans. Julia Leslie 1989), The Perfect Wife - Strīdharmapaddhati, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195621075
  28. Leslie, J. (1992), The significance of dress for the orthodox Hindu woman, in Dress and Gender: Making and Meaning (Editors: Ruth Barnes, Joanne B. Eicher), pages 198-213; Quote - "Strīdharmapaddhati represents a bizarre mixture of reality and utopia."
  29. Kautilya (3rd century BCE), Kautiliya Arthasastra Vol 2 (Translator: RP Kangle, 2014), Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120800427, page 51
  30. Patrick Olivelle (2013), King, Governance, and Law in Ancient India: Kautilya's Arthasastra, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0199891825, pages 77-79, 96, 254-262, 392-396, 477-479
  31. ^ ا ب Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 31-32, 108-123, 138-147
  32. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 98, 146-147
  33. Susan Wadley (1977)۔ "Women and the Hindu Tradition"۔ Signs۔ 3 (1): 113–125۔ doi:10.1086/493444 
  34. Mācave P. "Hinduism, its contribution to science and civilisation." 1979. آئی ایس بی این 978-0-7069-0805-3. "Yatra ... Where women are worshipped, there the Gods are delighted. But where they are not worshipped, all religious ceremonies become futile." Mahabharata 13 - 45.5 and منواسمرتی 3 - 56.
  35. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, page 146
  36. Robert Lingat (1973), The Classical Law of India, University of California Press, آئی ایس بی این 978-0520018983, page 84
  37. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 190-207, 746-809
  38. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 31-32, 194-207, 755-809
  39. Robert Lingat (1973), The Classical Law of India, University of California Press, آئی ایس بی این 978-0520018983, pages 83-84
  40. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 182-193, 659-706
  41. Patrick Olivelle (2005), Manu's Code of Law, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195171464, pages 200-201, 746-809
  42. ^ ا ب J Sinha (2014), Psycho-Social Analysis of the Indian Mindset, Springer Academic, آئی ایس بی این 978-8132218036, page 5
  43. Arun Kumbhare (2009), Women of India: Their Status Since the Vedic Times, آئی ایس بی این 978-1440156007, page 56
  44. Mahatma Gandhi, Hinduism According to Gandhi, Orient Paperbacks (2013 Reprint Edition), آئی ایس بی این 978-8122205589, page 129
  45. ^ ا ب Flavia Agnes (2001), Law and Gender Inequality: The Politics of Women's Rights in India, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195655247, pages 41-45
  46. Abdullahi Ahmed An-Na'im (2010), Islam and the Secular State, Harvard University Press, آئی ایس بی این 978-0674034563, pages 149, 289
  47. Alf Hiltebeitel and Kathleen Erndl (2000)، Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses, New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197، pages 133-134
  48. Nicholas Gier (1997), The yogī and the Goddess, International Journal of Hindu Studies, Volume 1, Issue 2, pages 265-287
  49. ^ ا ب Brown 1998, p. 7.
  50. ^ ا ب Brown 1990, p. 2.
  51. Coburn 1991, pp. 1–7.
  52. ^ ا ب Brown 1990, pp. 6–7.
  53. McDaniel 2004, pp. 215–217.
  54. Coburn 1991, pp. 17–21.
  55. Brown 1990, p. 215.
  56. Brown 1998, p. 8.
  57. آئی ایس بی این 0-791453251، pages 1-4
  58. John Renard (1999), Responses to 101 Questions on Hinduism, Paulist, آئی ایس بی این 978-0809138456, pages 74-76
  59. What is Hinduism?، ص PR17، گوگل کتب پر, Hinduism Today, Hawaii
  60. The Concept of Shakti: Hinduism as a Liberating Force for Women
  61. Prabhati Mukherjee (1983)۔ "The Image of women in Hinduism"۔ Women's Studies International Forum۔ 6 (4) 
  62. ^ ا ب David Lawrence (2012), The Routledge Companion to Theism (Editors: Charles Taliaferro, Victoria S. Harrison and Stewart Goetz), Routledge, آئی ایس بی این 978-0415881647, pages 78-79
  63. ^ ا ب Lynn Foulston, Stuart Abbott (2009)۔ Hindu goddesses: beliefs and practices۔ Sussex Academic Press۔ صفحہ: 1–3, 40–41۔ ISBN 9781902210438 
  64. ^ ا ب Jeffrey Brodd (2003), World Religions: A Voyage of Discovery, Saint Mary's Press, آئی ایس بی این 978-0884897255, page 43
  65. Christopher John Fuller (2004), The Camphor Flame: Popular Hinduism and Society in India, Princeton University Press, آئی ایس بی این 978-0691120485, pages 30-31, اقتباس: "ہندومت کی کثرت پرستی میں الوہی وجودوں اور انسان کے باہمی تعلق کو قطعی حیثیت حاصل ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے وحدانی پیغام، جو خدا کے مخلوق سے تنوع، اس کے انسان سے یکسر الگ ہونے اور اس کی وحدانی تجسیم کے برخلاف ہندومت کے امر مسلمہ کے مطابق انسان اور الوہیت کے درمیان کوئی واضح انفرادیت نہیں ہے۔ ہندومت کے بنیادی فلسفے میں تمام الوہی وجودوں کے ایک ہونے کے تصور کو بہت آسانی سے اس دعوے تک وسعت دے دی جاتی ہے کہ درحقیقت تمام انسان ایک وجود مطلق یعنی برہما کے مختلف روپ ہیں۔ گو کہ عملاً یہ مبہم وحدانی نظریہ ایک عام ہندو کے بیانات سے نہیں جھلکتا لیکن خدا اور انسان کی باہمی نفوذ پذیری کی مثالیں متعدد سیاق و سباق میں مقبول ہندومت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔"
  66. ^ ا ب پ ت RM Gross (1978), Hindu Female Deities as a Resource for the Contemporary Rediscovery of the Goddess, Journal of the American Academy of Religion, Vol. 46, No. 3 (Sep., 1978), pages 269-291
  67. David R. Kinsley (1986), Hindu Goddesses: Visions of the Divine Feminine in the Hindu Religious Tradition, University of California Press, آئی ایس بی این 978-0520053939
  68. Wisdom Library: The Bṛhadāraṇyaka Upaniṣad (with the Commentary of Śaṅkarācārya)https://www.wisdomlib.org/hinduism/book/the-brihadaranyaka-upanishad/d/doc122237.html
  69. "Hindu Wisdom - Women in Hinduism"۔ www.hinduwisdom.info۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2018 
  70. M. Kumar R. Kumar (2009)۔ Women Health, Empowerment and Economic Development: Their Contribution to National Economy۔ Deep and Deep Publications۔ صفحہ: 124۔ ISBN 9788184501346 
  71. ^ ا ب پ Hindu Saṁskāras: Socio-religious Study of the Hindu Sacraments, Rajbali Pandey (1969), see Chapter VIII, آئی ایس بی این 978-8120803961, pages 158-170
  72. Patrick Olivelle (2004), The Law Code of Manu, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0192802712, page 47
  73. Majumdar R. C. and Pusalker A. D. (ed.) "The History and Culture of the Indian People." Bharatiya Vidya Bhavan, Bombay 1951. Volume 1 The Vedic age p394.
  74. ^ ا ب Stanley Tambiah، Goody, Jack (1973)۔ Bridewealth and Dowry۔ Cambridge UK: Cambridge University Press۔ صفحہ: 68–9 
  75. James G. Lochtefeld, The Illustrated Encyclopedia of Hinduism: A-M, Rosen Publishing, آئی ایس بی این 9780823931798; 203 ページ出版
  76. CV Vaidya, Epic India, Or, India as Described in the Mahabharata and the Ramayana, آئی ایس بی این 978-8120615649
  77. CV Vaidya, Epic India, Or, India as Described in the Mahabharata and the Ramayana, آئی ایس بی این 978-8120615649
  78. CV Vaidya, Epic India, Or, India as Described in the Mahabharata and the Ramayana, آئی ایس بی این 978-8120615649
  79. John Watson McCrindle (Translator), The Invasion of India by Alexander the Great as described by Arrian, Archibald Constable & Co. (Westminster, UK): 280
  80. Edward Sachau (Translator), Bīrūnī, Muḥammad ibn Aḥmad, Alberuni's India (Vol. 2), Kegan Paul, Trench, Trübner & Co. (London, 1910.) Chapter LXIX: 154
  81. ^ ا ب Bowker J. H and Holm J. "Women in religion." Continuum, London 1994 p79 آئی ایس بی این 0-8264-5304-X.
  82. ^ ا ب Fuller C. J. "The camphor flame: popular Hinduism and society in India." Princeton University Press, Princeton, New Jersey 2004 p.23 آئی ایس بی این 0-691-12048-X
  83. Lucy Carroll (1983)۔ "Law, Custom, and Statutory Social Reform: The Hindu Widows' Remarriage Act of 1856"۔ Indian Economic and Social History Review۔ 20 (4): 363–388۔ doi:10.1177/001946468302000401 
  84. Lucy Carroll (2008), Women and Social Reform in Modern India: A Reader, Indiana University Press, آئی ایس بی این 978-0253352699, pages 92-93
  85. Lucy Carroll (2008), Women and Social Reform in Modern India: A Reader, Indiana University Press, آئی ایس بی این 978-0253352699, pages 93-96
  86. "Castes and tribes of southern India"۔ archive.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2017 
  87. Wendy Doniger (2013), Suttee, Encyclopedia Britannica
  88. Arvind Sharma (2001), Sati: Historical and Phenomenological Essays, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120804647, pages 19-21
  89. On attested Rajput practice of sati during wars, see, for example Julia Leslie، David (ed.) Arnold، Peter (ed.) Robb (1993)۔ "Suttee or Sati: Victim or Victor?"۔ Institutions and Ideologies: A SOAS South Asia Reader۔ 10۔ London: Routledge۔ صفحہ: 46۔ ISBN 9780700702848 
  90. David Brick (April–June 2010)۔ "The Dharmasastric Debate on Widow Burning"۔ Journal of the American Oriental Society۔ 130 (2): 206–211۔ JSTOR 23044515 
  91. Arvind Sharma (1988)۔ Sati: Historical and Phenomenological Essays۔ Delhi: Motilal Banarsidass Publ۔ صفحہ: 102, footnote 206۔ ISBN 9788120804647 
  92. David Brick (April–June 2010)۔ "The Dharmasastric Debate on Widow Burning"۔ Journal of the American Oriental Society۔ 130 (2): 212–213۔ JSTOR 23044515 
  93. David Smith (2016)۔ مدیران: Linda Woodhead، Christopher Partridge، Hiroko Kawanami۔ Hinduism۔ New York: Routledge۔ صفحہ: 61۔ ISBN 978-0-415-85880-9 
  94. Arvind Sharma (1988), Sati: Historical and Phenomenological Essays, Motilal Banarsidass Publ, آئی ایس بی این 9788120804647, page xi, 86
  95. Mandakranta Bose (2014), Faces of the Feminine in Ancient, Medieval, and Modern India, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195352771, page 26
  96. Malise Ruthven (2007), Fundamentalism: A Very Short Introduction, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0199212705, page 63
  97. Kaushik Roy (2012), Hinduism and the Ethics of Warfare in South Asia: From Antiquity to the Present, Cambridge University Press, آئی ایس بی این 978-1107017368, pages 182-184
  98. John Stratton Hawley (1994), Sati, the Blessing and the Curse, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195077742, pages 51-53
  99. Andre Wink (1996), Early Medieval India and the Expansion of Islam: 7th-11th Centuries, Brill Academic Publishers, آئی ایس بی این 978-9004092495
  100. Daniel Grey (2013), Creating the ‘Problem Hindu’: Sati, Thuggee and Female Infanticide in India: 1800–60, Gender & History, 25(3), pages 498-510, doi:10.1111/1468-0424.12035
  101. ^ ا ب S Jain (2003), The Right to Family Planning, in Sacred Rights: The Case for Contraception and Abortion in World Religions (Editor: Daniel C. Maguire), Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195160017, page 134, Quote - "The Atharva Veda confirms... a brahmacharini has better prospects of marriage than a girl who is uneducated"; "The Vedic period.... girls, like boys, are also expected to go through the brahmacharya..."
  102. ^ ا ب For source in Sanskrit: Atharva Veda Wikisource, Hymns 11.5[7].1 - 11.5[7].26;
    For English translation: Stephen N Hay and William Theodore De Bary (1988), Sources of Indian Tradition, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120804678, pages 18-19
  103. ^ ا ب پ PV Kane, History of Dharmasastra Volume 2.1, 1st Edition, pages 290-295
  104. Ram Chandra Prasad (1997), The Upanayana: The Hindu Ceremonies of the Sacred Thread, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120812406, pages 119-131
  105. Grihya sutra of Gobhila Verse 2.1.19, Herman Oldenberg & Max Muller (Translator), The Sacred Books of the East, Vol. 30, Part 2, Oxford University Press, page 44
  106. Ramanathan and Weerakoon, The Cultural Context of Sexual Pleasure and Problems: Psychotherapy with Diverse Clients, p. 173-174, Editors: Cynthia A. Graham and Kathryn Hall, Routledge; Quote - "In this (Hinduism smritis) doctrine, sexual matters are not to be legislated but are left to the judgement of those involved."
  107. ^ ا ب پ ت Richard Lariviere (2001), The Nāradasmṛti, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120818040, pages 391–393
  108. ^ ا ب Julius Jolly, Naradiya Dharmasastra, Trubner, pages 87–88
  109. Patrick Olivelle (2004)۔ Manu's Code of Law۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 32, 325–329۔ ISBN 978-0195171464 
  110. Marco Polo (Translator: Ronald Latham, 2007 Reprint), The Customs of the Kingdoms of India, Penguin Classics, آئی ایس بی این 978-0141025407, Quote: "They eat no meat and drink no wine. They live very virtuous lives according to their own usage. They have no sexual intercourse except with their own wives. They take nothing that belongs to another. They would never kill a living creature. (...) On the other hand you should know that they do not regard any form of sexual indulgence as a sin".
  111. L Gopal, Textiles in Ancient India, Journal of the Economic and Social History of the Orient, Vol. 4, No. 1, BRILL, pages 53-69
  112. Patrick Olivelle (2013), King, Governance, and Law in Ancient India: Kautilya's Arthashastra, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0199891825, pages 125-126, 533-534
  113. ^ ا ب پ GS Ghurye (1967), Indian Costume, 2nd Edition, Luzac, آئی ایس بی این 978-0718922801, pages 65-68, 76
  114. Kax Wilson (1979), History of Textiles, Westview, آئی ایس بی این 978-0865313682, pages 164-165
  115. ^ ا ب GS Ghurye (1967), Indian Costume, 2nd Edition, Luzac, آئی ایس بی این 978-0718922801, pages 76-77
  116. कूर्पासक Sanskrit-English Dictionary, Koeln University, Germany (2012)
  117. स्तनांशुक Sanskrit-English Dictionary, Koeln University, Germany (2012)
  118. ^ ا ب GS Ghurye (1967), Indian Costume, 2nd Edition, Luzac, آئی ایس بی این 978-0718922801, pages 15, 76-79
  119. GS Ghurye (1967), Indian Costume, 2nd Edition, Luzac, آئی ایس بی این 978-0718922801, pages 16-22, 68, 73-74
  120. Nandini Bhatia (2003)۔ "Fashioning women in colonial India"۔ Fashion Theory۔ 7 (3-4): 331 
  121. ^ ا ب پ SM Channa (2013), Gender in South Asia: Social Imagination and Constructed Realities, Cambridge University Press, آئی ایس بی این 978-1107043619, pages 57-58
  122. ^ ا ب A Eraly (2011), The First Spring: The Golden Age of India, Penguin, آئی ایس بی این 978-0670084784, pages 433-434
  123. June McDaniel (2002), Making Virtuous Daughters and Wives, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791455661, page 117 note 52
  124. ^ ا ب پ James B. Robinson (2004), Hinduism, Chelsea, آئی ایس بی این 978-0791078587, page 86
  125. Susan Bean (2002), South Asian Folklore: An Encyclopedia (Editors: Peter Claus et al), Routledge, آئی ایس بی این 978-0415939195, page 170
  126. ^ ا ب Tom Axworthy (2008), Bridging the divide: Religious dialogue and Universal ethics, Queen's University Press, آئی ایس بی این 978-1553392200, pages 153-154
  127. "The Heart of Hinduism Project"۔ ISCKON Educational Services۔ 01 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2015 
  128. Bernard Cohn (2001)۔ Cloth, Clothes, and Colonialism,Consumption: The history and regional development of consumption (2 ایڈیشن)۔ صفحہ: 405–418۔ ISBN 9780415242684۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2015 
  129. Heather Elgood (2000)۔ Hinduism and the Religious Arts۔ A&C Black 
  130. Mandakranta Bose (2011)، Women in the Hindu Tradition: Rules, Roles and Exceptions, Routledge, آئی ایس بی این 978-0415620765، page 26
  131. Rachel Baumer (1993)۔ Sanskrit Drama in Performance۔ Motilal Banarsidass Publication۔ صفحہ: 46 
  132. ^ ا ب Mandakranta Bose (2011)، Women in the Hindu Tradition: Rules, Roles and Exceptions, Routledge, آئی ایس بی این 978-0415620765، pages 64-65
  133. ^ ا ب پ Tracy Pintchman (2007)، Women's Lives, Women's Rituals in the Hindu Tradition, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195177077، pages 180-182
  134. ^ ا ب پ ت Tracy Pintchman (2007)، Women's Lives, Women's Rituals in the Hindu Tradition, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195177077، pages 181-185
  135. Julia Leslie (1992)۔ Roles and Rituals for Hindu Women۔ Motilal Banarsidass Publications 
  136. DE Smith (1963)، India as a Secular State, Princeton University Press, آئی ایس بی این 978-0691030272، pages 238-240
  137. ^ ا ب Amrit Srinivasan (1985)۔ "Reform and Revival: The Devadasi and her dance"۔ Economic and Political Weekly: 1869–1876 
  138. ^ ا ب پ ت Tracy Pintchman (2007)، Women's Lives, Women's Rituals in the Hindu Tradition, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195177077، pages 185-187
  139. MA Selby (2001)، Grow Long, Blessed Night: Love Poems from Classical India, Oxford University Press, آئی ایس بی این 978-0195127348، pages 81-91, 169-170, 172-230
  140. ^ ا ب Karen Pechilis (2013)۔ Women in Hinduism۔ Encyclopedia of Psychology and Religion۔ Springer۔ صفحہ: 1922–1925۔ ISBN 9781461460855 
  141. Jean A. and Dubois A. Beauchamp H. K. (trans.) Hindu manners, customs, and ceremonies.] Clarendon Press, Oxford 1897.
  142. Hannah Fane (1975)۔ "The Female Element in Indian Culture"۔ Asian Folklore Studies: 51–112 
  143. Hannah Fane (1975)۔ "The Female Element in Indian Culture"۔ Asian Folklore Studies: 57–60 
  144. Hannah Fane (1975)۔ "The Female Element in Indian Culture"۔ Asian Folklore Studies: 74–83 
  145. ^ ا ب Katherine Young (1994)۔ Today's Women in World Religions (Editor: Arvind Sharma)۔ State Univ of New York Press۔ صفحہ: 77–92۔ ISBN 978-0791416877 
  146. Hannah Fane (1975)۔ "The Female Element in Indian Culture"۔ Asian Folklore Studies: 60–73, 83–109 
  147. Katherine Young (1994)۔ Today's Women in World Religions (Editor: Arvind Sharma)۔ State Univ of New York Press۔ صفحہ: 83–86۔ ISBN 978-0791416877 
  148. ^ ا ب پ Kathleen Erndl (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 91-92, 95
  149. Arti Dhand (2009), Woman as Fire, Woman as Sage, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791471401, pages 3-7
  150. ^ ا ب Arti Dhand (2009), Woman as Fire, Woman as Sage, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791471401, pages 4-5; Quote: "The unfortunate result of such scholarship was the creation of a monumental stereotype of the Hindu woman from which a critical reader could derive little substantive knowledge of the particular values undergirding Hindu women's lives in different eras and locales, or the historical, social, political, and legal strictures under which they labors at different periods of history. (...) These works however still condition the questions that scholars raise of Hinduism, and the categories by which women's experience is analyzed and assessed. Perhaps the biggest problem with many works on women in Hinduism is that they presuppose a general category of womanhood, thus creating an essence where none exists".
  151. Rita Gross (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 108-111
  152. Vasudha Narayanan (1999), Feminism and World Religions (Editors: Arvind Sharma, Katherine K. Young), State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791440230, pages 25-26
  153. ^ ا ب Vasudha Narayanan (1999), Feminism and World Religions (Editors: Arvind Sharma, Katherine K. Young), State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791440230, pages 34-35
  154. Rita Gross (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 104-111
  155. Cynthia Humes (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, pages 132-134, for context see 129-138
  156. Cynthia Humes (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 132
  157. ^ ا ب Cynthia Humes (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, pages 137-139
  158. Tracy Pintchman (2001), Seeking Mahadevi: Constructing the Identities of the Hindu Great Goddess, State University of New York Press, آئی ایس بی این 978-0791450086, pages 1-3
  159. ^ ا ب پ ت Rita Gross (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 108-110
  160. Rachel McDermott (1998), Devi: Goddesses of India (Editors: John Stratton Hawley, Donna Marie Wulff), Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120814912, pages 296-305
  161. ^ ا ب Kathleen Erndl (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, page 96
  162. Kathleen Erndl (2000), Is the Goddess a Feminist?: The Politics of South Asian Goddesses (Editors: Alf Hiltebeitel, Kathleen M. Erndl), New York University Press, آئی ایس بی این 978-0814736197, pages 97, 100-101

کتابیات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم