پاکستان قومی کرکٹ ٹیم
پاکستان کرکٹ ٹیم کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے جس کا انتظامیہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہے۔ پاکستان کوبین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت بین الاقوامی کرکٹ انجمن (International Cricket Council) نے 1952ء میں دی۔ پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ 16 اکتوبر، 1952ء میں بھارت کے خلاف دہلی میں کھیلا۔[12] پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں میں شامل ہے۔ پاکستان نے اپنا پہلا عالمی کرکٹ کپ عمران خان کی قیادت میں 1992ء میں برطانیہ کے خلاف جیتا۔ پاکستان نے کئی مایہ ناز گیند باز وبلے باز پیدا کیے ہیں جن میں عمران خان، وسیم اکرم، عبدالقادر، سرفراز نواز، وقار یونس، شعیب اختر، انضمام الحق، یونس خان ،شاہد آفریدی اور جاوید میانداد کا نام آتا ہے 18 اکتوبر 2016 ء تک پاکستان نے 400 ٹیسٹ کھیلے ہیں جن میں سے 129 جیتے اور 113 ہارے اور 158 بلا نتیجہ رہے۔ پاکستانی ٹیم اس وقت ایشیائی ٹیموں میں سب سے زیادہ ٹیسٹ جیتنے والی ٹیم ہے[13] آئی سی سی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان ٹیسٹ میچوں میں دوسری(2) ایک روزہ میچوں میں آٹھویں (8) اور ٹی ٹونٹی میں ساتویں (7) پوزیشن پر موجود ہے۔
![]() پاکستان قومی کرکٹ ٹیم | |||||||||||||
عرف | شاہین، گرین شرٹس | ||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ایسوسی ایشن | پاکستان کرکٹ بورڈ | ||||||||||||
افراد کار | |||||||||||||
کپتان | سرفراز احمد | ||||||||||||
کوچ | مکی آرتھر | ||||||||||||
تاریخ | |||||||||||||
ٹیسٹ درجہ ملا | 1952ء | ||||||||||||
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل | |||||||||||||
آئی سی سی حیثیت | مکمل رکن (1952ء) | ||||||||||||
آئی سی سی جزو | ایشیائی کرکٹ کونسل | ||||||||||||
| |||||||||||||
ٹیسٹ | |||||||||||||
پہلا ٹیسٹ | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
آخری ٹیسٹ | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
| |||||||||||||
ایک روزہ بین الاقوامی | |||||||||||||
پہلا ایک روزہ | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
آخری ایک روزہ | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
| |||||||||||||
عالمی کپ کھیلے | 11 (پہلا 1975 میں) | ||||||||||||
بہترین نتیجہ | فاتحین (1992) | ||||||||||||
ٹی 20 بین الاقوامی | |||||||||||||
پہلا ٹی 20 آئی | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
آخری ٹی 20 آئی | بمقابلہ ![]() | ||||||||||||
| |||||||||||||
عالمی ٹوئنٹی20 کھیلے | 6 (پہلا 2007ء میں) | ||||||||||||
بہترین نتیجہ | فاتحین (2009ء) | ||||||||||||
| |||||||||||||
آخری مرتبہ تجدید 23 ستمبر 2018 کو کی گئی تھی |
ابتدائی دور
قیام پاکستان کے فوراً بعد کرکٹ ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی نظر آئی، نامساعد حالات ہونے کے باوجود کرکٹ کا شوق غیرمعمولی تھا، فرسٹ کلاس کا ڈھانچہ مناسب خطوط پر استوار نہیں تھا لیکن نوتشکیل شدہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارادے بلند دکھائی دیتے تھے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو ایسے کرکٹرز کی خدمات حاصل ہوئی تھیں جنہوں نے ہندوستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی تھی اور ان کا تجربہ پاکستان کرکٹ کے بہت کام آیا
پاکستان میں پہلا فرسٹ کلاس میچ دسمبر 1947 میں سندھ اور مغربی پنجاب کے درمیان باغ جناح لاہور میں کھیلا گیا اور ان دونوں ٹیموں میں شامل کرکٹرز کی اکثریت نے آگے چل کر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ یہ مشہور کرکٹر وزیرعلی کا الوداعی فرسٹ کلاس میچ بھی تھا۔ شہرہ آفاق فضل محمود بھی اس میچ میں کھیلے حالانکہ انہیں آسٹریلیا جانے والی ہندوستانی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان کو ترجیح دیتے ہوئے دورے پر جانے سے انکار کر دیا تھا۔
آنے والے سیزن میں ویسٹ انڈیز سیلون اور ایم سی سی کی ٹیمیں غیرسرکاری ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئیں۔ نیل ہاورڈ کی قیادت میں یہاں آنے والی ایم سی سی ٹیم کے خلاف کراچی کے غیرسرکاری ٹیسٹ میں 4 وکٹوں کی جیت نے پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ تک رسائی کو ممکن بنا دیا۔ اس غیرسرکاری ٹیسٹ میں پاکستان کی جیت کے مرکزی کردار عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، فضل محمود اور خان محمد تھے۔
ٹیسٹ کرکٹ کا پہلا دورہ بھارت 53-1952
ٹیسٹ کرکٹ کا استحقاق ملنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے سرکاری دورے کے لئے پڑوسی ملک بھارت کا انتخاب کیا۔ عبدالحفیظ کاردار کو پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ان کی قیادت میں بھارت کے دورے کے لئے منتخب کی جانے والی 17 رکنی ٹیم میں نذر محمد، حنیف محمد، وزیر محمد، وقار حسن، امتیاز احمد، مقصود احمد، انورحسین، امیر الٰہی، محمود حسین، خان محمد، فضل محمود، اسرار علی، خورشید شیخ، خالد قریشی، ذوالفقار احمد اور روسی ڈنشا شامل تھے۔ بعد ازاں خان محمد کے ان فٹ ہوجانے کے نتیجے میں نوجوان خالد عباداللہ کو بھارت طلب کیا گیا تاہم انہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع 12 سال بعد ملا۔ انہوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی۔ پاکستان ٹیم میں شامل عبدالحفیظ کاردار اور امیرالٰہی ٹیسٹ کرکٹ میں غیرمنقسم ہندوستان کی نمائندگی کر چکے تھے۔
حنیف محمد ٹیم کے سب سے کم عمر کھلاڑی تھے اور اسوقت وہ 18 سال کے بھی نہیں ہوئے تھے۔ جبکہ 44 سالہ امیر الٰہی سب سے سینئر کھلاڑی تھے۔ عام خیال یہ تھا کہ پاکستانی کھلاڑی اپنی ناتجربہ کاری کے سبب بھارتی ٹیم کے لئے ترنوالہ ثابت ہوں گے لیکن ’بے بی آف ٹیسٹ کرکٹ‘ نے شائقین اور مبصرین کے اندازے غلط ثابت کردیئے۔ سات ہفتے کے اس دورے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو اگرچہ ٹیسٹ سیریز میں دو ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں خصوصاً حنیف محمد، فضل محمود، نذر محمد، وقار حسن، عبدالحفیظ کاردار، امتیاز احمد اور محمود حسین سخت جاں حریف کے طور پر سامنے آئے۔
پاکستان نے دورے کی ابتدا امرتسر میں نارتھ زون کے خلاف حنیف محمد کی دونوں اننگز کی سنچریوں کے ساتھ کی۔ 16 اکتوبر1952 پاکستان کرکٹ کی یادگار تاریخ ہے۔ اس روز دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں پاکستان کے ٹیسٹ سفر کی ابتدا ہوئی۔ خان محمد نے پنکج رائے کو آؤٹ کر کے پاکستان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ نذر محمد پاکستان کی جانب سے پہلی گیند کھیلنے، پہلا رن بنانے اور پہلا کیچ لینے والے کرکٹر بنے۔ حنیف محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی نصف سنچری بنائی۔ وہ 17 سال اور 300 دن کی عمر میں اسوقت ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کم عمر کرکٹر تھے۔
تاہم چند انفرادی اعزازات کے باوجود پاکستان کو اپنے اولین ٹیسٹ میں اننگز اور 70 رنز سے شکست سے دوچار ہونا پڑا جس کا بڑا سبب لیفٹ آرم اسپنر ونومنکڈ کی تباہ کن بولنگ تھی جس نے لالہ امرناتھ کی بھارتی ٹیم کو سرخرو کردیا۔
ونومنکڈ نے پہلی اننگز میں صرف 52 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں اور دوسری اننگز میں 79 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے صرف تین روز بعد لکھنؤ میں شروع ہونے والے دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میں اننگز اور 43 رنز سے حساب بے باق کر کے دنیائے کرکٹ کو حیران کردیا۔
ایسی ٹیم کی طرف سے کہ جس کا یہ محض دوسرا ٹیسٹ تھا یہ ایک شاندار کارکردگی تھی۔ لکھنؤ کی یونیورسٹی گراؤنڈ میں پاکستان کی اس یادگار جیت کے مرکزی کردار فضل محمود اور نذر محمد تھے۔
نذر محمد نے بیٹنگ میں اپنی ثابت قدمی سے جیت کی بنیاد رکھی تو فضل محمود نے اپنی خطرناک سوئنگ بولنگ سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ نذر محمد نے پاکستان کی پہلی ٹیسٹ سنچری اسکور کی جو اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ وہ اننگز کے آغاز سے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے۔ ایک اوراعزاز نذر محمد نے یہ بھی حاصل کیا کہ وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کر کے ٹیسٹ میچ کے تمام دن میدان میں موجود رہنے والے دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے۔
بھارتی بلے بازوں کو پہلی مرتبہ فضل محمود کے غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے یونیورسٹی گراؤنڈ پر بچھی میٹنگ وکٹ پر اپنی سوئنگ بولنگ کا ایسا جادو جگایا کہ پہلی اننگز میں 52 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں اور دوسری اننگز میں 42 رنز کے عوض 7 وکٹوں کی شاندار کارکردگی سے پاکستان کی جیت پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
تماشائی بھارت کی شکست پر اس قدر دلبرداشتہ تھے کہ انہوں نے نعرہ بازی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ پاکستانی بیٹسمین سینٹرل زون، ویسٹ زون اور ممبئی کے خلاف سائیڈ میچز میں عمدہ پرفارمنس کے بعد برابورن اسٹیڈیم ممبئی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں حیران کن طور پر ایک بار پھر ونومنکڈ اور سبھاش گپتے کی مؤثر اسپن بولنگ کے سامنے بے بسی کی تصویر بن گئے۔
وقار حسن اور حنیف محمد کے علاوہ کوئی بھی بیٹسمین انہیں اعتماد سے نہ کھیل سکا۔ حنیف محمد صرف چار رنز کی کمی سے سنچری مکمل نہ کر سکے اور وقارحسن نے پہلی اننگز میں 81 اور دوسری اننگز میں 65 رنز کی خوبصورت بیٹنگ سے قابل اعتماد بیٹسمین ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔
پاکستانی بولنگ وجے ہزارے اور پولی امریگر کی سنچریوں تلے دب کر رہ گئی۔ بھارت نے 10 وکٹوں کی جیت سے سیریز میں دو ایک کی برتری حاصل کر لی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی کیونکہ مدراس اور کلکتہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ برابری پر ختم ہوگئے تھے۔
مدراس میں بارش نے پاکستان کی جیت کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ کپتان کاردار، ذوالفقار احمد اور وقار حسن کی عمدہ بیٹنگ کے بل پر پاکستان نے 344 بنائے تھے جس کے جواب میں بھارت کی پوزیشن 30 رنز پر 3 وکٹیں گرجانے سے بہت خراب ہو گئی تھی، جسے پولی امریگر اور ایم ایل آپٹے نے ذمہ دارانہ بیٹنگ سے بہتر بنایا۔
175 رنز 6 وکٹ کے اسکور پر بارش میزبان ٹیم کی مدد کو آگئی۔ کلکتہ ٹیسٹ وقارحسن کی 97 رنز کی عمدہ اننگز اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے دیپک شودھن کی سنچری کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔
دوسری اننگز میں وقارحسن اور فضل محمود کی پارٹنرشپ نے پاکستان کو مشکل سے نکالا جو صرف 12 رنز کی سبقت کے ساتھ 6 وکٹوں سے محروم ہوچکی تھی۔
سیریز ہارنے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے بہت عمدہ پرفارمنس دی جس نے مستقبل کے لئے پاکستان کی امیدوں اور حوصلوں کو بڑھا دیا۔ اس سیریز میں وقار حسن نے 3 نصف سنچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ یعنی 357 رنز بنائے۔
بولنگ میں فضل محمود صرف 60ء25 کی اوسط سے 20 وکٹیں حاصل کر کے نمایاں رہے۔ دورے کے تمام فرسٹ کلاس میچوں میں حنیف محمد نے 4 سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے 917 رنز بنا کر یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ کوتاہ قامت لیکن قد آور کھلاڑی ہیں۔ فضل محمود نے 25 اور محمود حسین نے 26 وکٹوں کے ساتھ اپنی دھاک بٹھائی۔حنیف محمد کو اسی دورے میں وکٹ پر انہماک اور ثابت قدمی سے متاثر ہو کر مشہور کرکٹ کمنٹیٹرز ڈاکٹر وجے آنند ( مہاراج کمار آف وزیانگرم ) اور طالع یار خان نے ’لٹل ماسٹر‘ کے خطاب سے پکارا جو ان کی زندگی کا حصہ بن گیا۔
پاکستان میں کرکٹ کی نگرانی کا ادارہ،پاکستان کرکٹ بورڑ PCB
بین الاقوامی مقابلوں میں کارکردگی
عالمی کپ
عالمی کپ ریکارڈ | ||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سال | راؤنڈ | درجہ | کھیلے | جیتے | ہارے | برابر | بلا نتیجہ | |
انگلینڈ1975 | پہلا مرحلہ | 5/8 | 3 | 1 | 2 | 0 | 0 | |
انگلینڈ 1979 | سیمی فائنل | 4/8 | 4 | 2 | 2 | 0 | 0 | |
انگلینڈ 1983 | سیمی فائنل | 4/8 | 7 | 3 | 4 | 0 | 0 | |
بھارت اور پاکستان 1987 | سیمی فائنل | 3/8 | 7 | 5 | 2 | 0 | 0 | |
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 1992 | فاتح | 1/9 | 10 | 6 | 3 | 0 | 1 | |
بھارت، پاکستان اور سری لنکا 1996 | کوائٹر فائنل | 6/12 | 6 | 4 | 2 | 0 | 0 | |
انگلینڈ اور نیدرلینڈز 1999 | فائنل ہارا | 2/12 | 10 | 7 | 3 | 0 | 0 | |
جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا 2003 | پہلا مرحلہ | 10/14 | 6 | 2 | 3 | 0 | 1 | |
ویسٹ انڈیز 2007 | پہلا مرحلہ | 10/16 | 3 | 1 | 2 | 0 | 0 | |
بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش 2011 | سیمی فائنل | 3/14 | 8 | 6 | 2 | 0 | 0 | |
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 2015 | کوارٹر فائنل | 5/14 | 7 | 4 | 3 | 0 | – | |
انگلینڈ 2019 | - | – | – | – | – | – | – | |
بھارت 2023 | - | – | – | – | – | – | – | |
کل | 10/10 | 1 اعزاز | 64 | 37 | 25 | 0 | 2 |
ٹی 20 عالمی کپ
ورلڈ ٹوئنٹی 20 ریکارڈ | ||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سال | مرحلہ | درجہ | کھیلے | جیتے | ہارے | برابر | بلا نتیجہ | |
جنوبی افریقہ 2007 | دوسرا مقام | 2/12 | 7 | 5 | 1 | 1 | 0 | |
انگلستان 2009 | فاتح | 1/12 | 7 | 5 | 2 | 0 | 0 | |
ویسٹ انڈیز 2010 | سیمی فائنل | 4/12 | 6 | 2 | 4 | 0 | 0 | |
سری لنکا 2012 | سیمی فائنل | 3/12 | 6 | 4 | 2 | 0 | 0 | |
بنگلہ دیش 2014 | سپر 10 | 5/16 | 4 | 2 | 2 | 0 | 0 | |
بھارت 2016 | سپر 10 | 7/16 | 4 | 1 | 3 | 0 | 0 | |
کل | 4/4 | 1 ٹائٹل | 34 | 19 | 14 | 1 | 0 |
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی | ||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سال | راونڈ | مقام | GP | جیت | ہار | ٹائی | بلا نتیجہ | |
1998 | کوارٹر فائنل | 5/9 | 1 | 0 | 1 | 0 | 0 | |
2000 | سیمی فائنل | 4/11 | 2 | 1 | 1 | 0 | 0 | |
2002 | گروپ مرحلہ | 5/12 | 2 | 1 | 1 | 0 | 0 | |
2004 | سیمی فائنل | 4/12 | 3 | 2 | 1 | 0 | 0 | |
2006 | گروپ مرحلہ | 6/10 | 3 | 1 | 2 | 0 | 0 | |
2009 | سیمی فائنل | 3/8 | 4 | 2 | 2 | 0 | 0 | |
2013 | گروپ مرحلہ | 8/8 | 3 | 0 | 3 | 0 | 0 | |
2017ء | فاتح | 1/8 | 5 | 4 | 1 | 0 | 0 | |
کل | 8/8 | 1 Title | 23 | 11 | 12 | 0 | 0 |
ایشیا کپ
ایشیا کپ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سال | راونڈ | مقام | GP | جات | ہار | ٹائی | بلا نتیجہ |
1984 | گروپ مرحلہ | 3/3 | 2 | 0 | 2 | 0 | 0 |
1986 | دوسرا مقام | 2/3 | 3 | 2 | 1 | 0 | 0 |
1988 | گروپ مرحلہ | 3/4 | 3 | 1 | 2 | 0 | 0 |
1990–91 | حصہ نہیں لیا | ||||||
1995 | گروپ مرحلہ | 3/4 | 3 | 2 | 1 | 0 | 0 |
1997 | 3 | 1 | 1 | 0 | 1 | ||
2000 | فاتح | 1/4 | 4 | 4 | 0 | 0 | 0 |
2004 | سپر فور | 3/6 | 5 | 4 | 1 | 0 | 0 |
2008 | 5 | 3 | 2 | 0 | 0 | ||
2010 | گروپ مرحلہ | 3/4 | 3 | 1 | 2 | 0 | 0 |
2012 | فاتح | 1/4 | 4 | 3 | 1 | 0 | 0 |
2014 | دوسرا مقام | 2/5 | 5 | 3 | 2 | 0 | 0 |
2016ء | گروپ مرحلہ | 3/5 | 4 | 2 | 2 | 0 | 0 |
2018ء ایشیا کپ | - | - | - | - | - | - | - |
کل | 12/13 | 2 Titles | 44 | 26 | 17 | 0 | 1 |
کالعدم ٹورنامنٹ | ||
---|---|---|
کامن ویلتھ گیمز | ایشیائی ٹیسٹ چیمپئن شپ | آسٹرل-ایشیاء کپ |
|
کھیل کے میدان
میدان | شہر | ٹیسٹ میچ | ایک روزہ میچ |
---|---|---|---|
نیشنل اسٹیڈیم | کراچی | 40 | 33 |
قذافی اسٹیڈیم | لاہور | 38 | 49 |
اقبال اسٹیڈیم | فیصل آباد | 24 | 12 |
راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم | راولپنڈی | 8 | 21 |
ارباب نیاز اسٹیڈیم | پشاور | 6 | 15 |
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم | ملتان | 5 | 4 |
نیاز اسٹیڈیم | حیدرآباد | 5 | 6 |
جناح اسٹیڈیم | سیالکوٹ | 4 | 9 |
شیخوپورہ اسٹیڈیم | شیخوپورہ | 2 | 1 |
جناح اسٹیڈیم | گوجرانوالہ | 1 | 11 |
ابن قاسم باغ اسٹیڈیم | ملتان | 1 | 6 |
پنڈی کلب گرائونڈ | راولپنڈی | 1 | 2 |
ظفر علی اسٹیڈیم | ساہیوال | 0 | 2 |
ایوب نیشنل اسٹیڈیم | کوئٹہ | 0 | 2 |
سرگودھا اسٹیڈیم | سرگودھا | 0 | 1 |
بگٹی اسٹیڈیم | کوئٹہ | 0 | 1 |
موجودہ ٹیم کے کھلاڑی
نام | بلے بازی کا طریقہ | گیند بازی کا طریقہ | علاقائی ٹیم | |
---|---|---|---|---|
کپتان | ||||
مصباح الحق | دائیں ہاتھ سے | – | میانوالی | |
سابق کپتان | ||||
شاہدآفریدی | دائیں ہاتھ سے | لیگ بریک | کراچی | |
وکٹ کیپر | ||||
محمد رضوان | دائیں ہاتھ سے | – | پشاور | |
سرفراز احمد | دائیں ہاتھ سے | – | کراچی | |
اننگ کھو لنے والے بلے باز | ||||
سمیع اسلم | بائیں ہاتھ سے | رائٹ آرم میڈیم فاسٹ | لاہور | |
محمد حفیظ | دائیں ہاتھ سے | آف بریک | لاہور | |
خرم منظور | دائیں ہاتھ سے | آف بریک | کراچی | |
احمد شہزاد | دائیں ہاتھ سے | لیگ بریک | لاہور | |
شان مسعود | بائیں ہاتھ سے | رائٹ آرم میڈیم فاسٹ | کراچی | |
مڈل آرڈر بلے باز | ||||
اظہر علی | دائیں ہاتھ سے | آف بریک | کراچی | |
عمر اکمل | دائیں ہاتھ سے | – | کراچی | |
یونس خان | دائیں ہاتھ سے | آف بریک | کراچی | |
اسد شفیق | دائیں ہاتھ سے | – | کراچی | |
مصباح الحق | دائیں ہاتھ سے | – | کراچی | |
آل راؤنڈر | ||||
شاہد آفریدی | دائیں ہاتھ سے | میڈیم ، لیگ بریک گوگلی | کراچی | |
عبدالرزاق | دائیں ہاتھ سے | فاسٹ میڈیم | لاہور | |
سہیل تنویر | بائیں ہاتھ سے | بائیں ہاتھ میڈیم فاسٹ | راولپنڈی | |
حماد اعظم | دائیں ہاتھ سے | میڈیم فاسٹ | اٹک | |
فاسٹ گیند باز | ||||
محمد عامر | بائیں ہاتھ سے | فاسٹ میڈیم | راولپنڈی | |
راحت علی | بائیں ہاتھ سے | فاسٹ میڈیم | ملتان | |
محمد عرفان | بائیں ہاتھ سے | فاسٹ | گگو منڈی | |
عمران خان | دائیں ہاتھ سے | فاسٹ میڈیم | پشاور | |
جنید خان | بائیں ہاتھ سے | میڈیم | پشاور | |
احسان عادل | دائیں ہاتھ سے | فاسٹ میڈیم | فیصل آباد | |
سپن گیند باز | ||||
سعید اجمل | دائیں ہاتھ سے | آف بریک | فیصل آباد | |
عبدالرحمان | بائیں ہاتھ سے | سلو لیفٹ آرم آرتهاڈاکس | سیالکوٹ | |
ذوالفقار بابر | بائیں ہاتھ سے | سلو لیفٹ آرم آرتهاڈاکس | ||
یاسر شاہ | دائیں ہاتھ سے | لیگ بریک | صوابی |
ٹیم کے شیدائی فین
عبد الجلیل جو پاکستان میں چاچا کرکٹ کے نام سے مشہور ہیں، ہر جگہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افضائی کے لیے میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ان کو ماہانہ دس ہزار روپیہ دیتا ہے۔ وہ سال 1969 سے ٹیم کے ساتھ ہیں۔
عملہ
تربیتی عملہ
- مرکزی تربیت کار: مکی آرتھر
- تربیت کار بلے بازی: گرانٹ فلاور
- تربیت کار گیند بازی: مشتاق احمد
- تربیت کار فیلڈنگ: جولین فاؤنٹین
- معالج طبیعی: اینڈریو لیپس
انتظامی عملہ
- ٹیم مینیجر: نوید اکرم چیمہ
- سیکورٹی مینیجر: کرنل (ر) وسیم احمد
- تجزیہ کار: عمر فاروق
ریکارڈز
مزید دیکھیے
بیرونی روابط
- کرکٹ کی آواز
- پاکستانی کرکٹ ٹیم کے شیدائی
- پاکستان کرکٹ بورڈ
- پاکستان میں کرکٹ کے میدانوں کی فہرست
- کرک انفو پاکستان
- BBC کرکٹ
- پاکستان میں کرکٹآرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ cricketviewer.com [Error: unknown archive URL]
- کرکٹ کے بارے میں خبریںآرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ urdudailynews.com [Error: unknown archive URL]
- پاکستان کرکٹ میگزین آن لائنآرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ pakistancricketzone.com [Error: unknown archive URL]
حوالہ جات
- ↑ "Pakistan make history by becoming No. 1 Test team in the world". Dawn. 22 اگست 2016. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018.
- ↑ "1990 ODI RANKINGS". ICC. 11 نومبر 2011. مؤرشف من الأصل في 20 مارچ 2013. اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018.
- ↑ "1991 ODI RANKINGS". ICC. 11 نومبر 2011. مؤرشف من الأصل في 20 مارچ 2013. اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018.
- ↑ "Pakistan climb to top spot in ICC T20 rankings". Dawn. 1 نومبر 2017. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018.
- ↑ "ICC Rankings". icc-cricket.com.
- ↑ "Test matches - Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ "Test matches - 2018 Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ "ODI matches - Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ "ODI matches - 2018 Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ "T20I matches - Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ "T20I matches - 2018 Team records". ESPNcricinfo.
- ↑ 1st Test, Pakistan tour of India at Delhi, Oct 16-18 1952 | Match Summary | ESPNCricinfo
- ↑ Overall Result Summary – Test Cricket – ESPNcricinfo۔ Retrieved 6 فروری 2012.