سیرت نبوی
سیرت یا سیرۃ، موجودہ دور میں سیرت نبویہ یا سیرت نبوی یا سیرت النبی کی اصطلاح مسلمانوں کے ہاں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح کے لیے خاص ہے۔ سیرت کے لغوی معنی طریقہ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے ہیں۔[1]
مقالات بسلسلۂ محمد | |
---|---|
محمد | |
باب محمد | |
ادوار
اہل بیت
|
سیرت کا لغوی مفہوم
ترمیماردو اور فارسی سیرت، عربی سیرۃ کا لفظ عربی زبان کے جس مادے اور فعل سے بنا ہے اس کے لفظی معنی ہیں چل پھرنا، راستہ لینا، رویہ یا طریقہ اختیار کرنا، روانہ ہونا، عمل پیرا ہونا وغیرہ۔ اس طرح سیرت کے معنی حالت، رویہ، طریقہ، چال، کردار، خصلت اور عادت کے ہیں۔ اس سے اردو میں تعمیر سیرت، سیرت سازی، پختگی سیرت، نیک سیرت، بد سیرت اور حسن سیرت وغیرہ کے الفاظ مستعمل ہیں۔
لفظ سیرت واحد کے طور پر اور بعض دفعہ اپنی جمع سیر کے ساتھ اہم شخصیات کی سوانح حیات اور اہم تاریخی واقعات کے بیان کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثلاً کتابوں کے نام سیرت عائشہ یا سیرت المتاخرین وغیرہ۔
کتب فقہ میں السیر جنگ اور قتال سے متعلق احکام کے لیے مستعمل ہے۔
چونکہ آنحضرت کی سیرت کے بیان میں غزوات کا ذکر خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے ابتدائی دور میں کتب سیرت کو عموماً مغازی و سیر کی کتابیں کہا جاتا تھا جبکہ لفظ مغازی مغزی کی جمع ہے جس کے معنی جنگ(غزوہ) کی جگہ یا وقت کے ہیں لیکن اب سیرت کی ترکیب ہی مستعمل ہے۔
لفظ سیرۃ قرآن میں
ترمیمقرآن کریم میں لفظ سیرۃ صرف ایک جگہ آیا ہے۔
سَنُعِيدُھَا سِيرَتَھَا الْاُولَیO سورۃ طہ:آیت نمبر 21
ہم اسے ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گےo ترجمہ از عرفان القرآن
اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا (لاٹھی) کے سانپ بن جانے کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں آجانے کی طرف اشارہ ہے لہذا یہاں لفظ سیرۃ حالت اور کیفیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
سیرت کا اصطلاحی مفہوم
ترمیملفظ سیرت اب بطور اصطلاح صرف آنحضرت کی مبارک زندگی کے جملہ حالات کے بیان کے لیے مستعمل ہے جبکہ کسی اور منتخب شخصیت کے حالات کے لیے لفظ سیرت کا استعمال قریباً متروک ہو چکا ہے۔ اب اگر مطالعہ سیرت یا کتب سیرت جیسے الفاظ کے ساتھ رسول، نبی، پیغمبر یا مصطفی کے الفاط نہ بھی استعمال کیے جائیں تو ہر قاری سمجھ جاتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت کی سیرت ہی ہے بلکہ بعض دفعہ لفظ سیرت کو کتاب کے مصنف کی طرف مضاف کر کے بھی یہی اصطلاحی معنی مراد لیے جاتے ہیں جیسے سیرت ابن ہشام کہ اس کا مطلب ابن ہشام کے حالات زندگی نہیں بلکہ آنحضرت کے حالات ہیں جو کتاب کے مصنف ابن ہشام نے جمع کیے ہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں جلسہ سیرت، سیرت کانفرنس، مقالات سیرت، اخبارات و رسائل کے سیرت نمبر وغیرہ بکثرت الفاظ مستعمل ہیں۔ ان تمام تراکیب میں لفظ سیرت کے معنی ہمیشہ سیرت النبی ہی ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس لفط کے ساتھ کسی صفت کا اظہار کر دیتے ہیں جیسے سیرت طیبہ، سیرت مطہرہ اور سیرت پاک وغیرہ۔
سیرت طیبہ کے مآخذ و مصادر
ترمیمکسی علم خصوصاً جس کا تعلق تاریخ سے ہو، اس کے مآخذ سے مراد وہ کتابیں، روایات اور آثار وغیرہ ہیں جن میں اس علم کے متعلق سب سے پہلے بات کی گئی ہو یا جن میں اس علم کے متعلق معلومات سب سے پہلے جمع کی گئی ہوں۔ کسی تاریخی شخصیت کے بارے میں معلومات کا اہم مآخذ وہ کتاب یا کتابیں ہوں گی جو اس کی زندگی میں اِرقام کی گئی ہوں یا اس کے بعد قریب ترین زمانے میں اِرقام کی گئی ہوں اور جن میں زیادہ سے زیادہ مواد یکجا جمع کیا گیا ہو یا اس مواد کے جمع کرنے میں علمی تگ و دو اور تحقیقی چھان بین سے کام لیا گیا ہو۔ اس لحاظ سے سیرت طیبہ کے اہم بنیادی مآخذ حسب ذیل بنتے ہیں۔
قرآن مجید
ترمیمسیرت طیبہ کا اصل اور سب سے زیادہ صحیح اور مستند مآخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید دو طرح سے سیرت کے مآخذ کا کام دیتا ہی۔ الف۔ اس میں آنحضرت کی مبارک زندگی کے متعدد واقعات، غزوات اور بعض دیگر پیش آمدہ حالات کا ذکر ہے۔ کہیں تفصیل اور کہیں اجمالی اشارات موجود ہیں۔ بعض لوگوں نے صرف قرآن کریم میں صراحتہً یا کنایتہً بیان کردہ واقعات سیرت کی ترتیب و جمع سے سیرت پر کتابیں تالیف کی ہیں۔ مثلاً محمد عزت دروازہ کی کتاب [[سیرۃ الرسول (صورۃ مقتبسہ من القرآن) جو دو جلدوں میں ہے۔
ب۔ قرآن کریم میں وہ تمام تعلیمات ہیں جن کو آحضرت نے عملاً نافذ کیا۔ اسی طرح معاصر کفار کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی اس قسم کی آیات کی تفصیل اور زمانہ یا موضع نزول کے بارے میں سیرت طیبہ کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہی۔ گویا قرآن کریم سیرت طیبہ کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات بھی دیتا ہے اور اجمالی اشارات کے ذریعے سے واقعات سیرت کی اصل کی نشان دہی کر کے اس کی تفصیلات جاننے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔
کتب حدیث
ترمیمقرآن کریم کو رسول اللہ نے کس طرح سمجھا اور اسے کس طرح نافذ کیا، اس کی تفصیلات ہی کتب حدیث کا اصل موضوع ہے ۔ حدیث پاک کے مجموعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے احکام، تعلیمات، خطبات، مواعظ اور قضایا یعنی قانونی فیصلے وغیرہ ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض نہایت اہم واقعات سیرت بھی بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ حدیث کی روایت و نقل میں عام کتب تاریخ کی نسبت زیادہ تحقیق و چھان بین سے کام لیا جاتا ہے، اس لیے کتب حدیث میں بیان کردہ واقعات سیرت قرآن کے بعد باقی تمام مآخذ سیرت سے زیادہ مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہیں۔
تواریخ حرمین
ترمیمحرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ اسلام میں ان دونوں شہروں کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی بنا پر بعض علما نے خاص ان شہروں کی تاریخ اور ان کے اہم تاریخی مقامات سے متعلق معلومات کو مستقل تالیفات کا موضوع بنایا ہی۔ اس قسم کی کتابوں میں بعض مقامات کے ذکر کی مناسبت سے سیرت طیبہ کے بعض اہم واقعات بھی ملتے ہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تواریخ حرمین پر اِرقام کی گئی کتابوں میں سیرت نبوی سے متعلق ایسی معلومات بھی مل جاتی ہیں جو عام کتب تاریخ و سیرت میں مذکور نہیں ہوتیں۔
ہرچند کہ اس قسم کی کتابیں اب بھی اِرقام کی جا رہی ہیں تاہم اس فن کی اہم بنیادی کتابیں حسب ذیل ہیں۔
- اخبار مکۃ المشرفۃ۔ مولف ابن الارزق
- مدینہ منورہ کی تاریخ پر سب سے پہلی کتاب ابن زبالہ 199ھ میں اِرقام کی گئی۔
- وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی۔ سمہودی
- تاریخ الحرمین(سفر نامہ)۔ ابراہیم رفعت پاشا
- فی منزل الوحی(سفر نامہ)۔ محمد حسین ہیکل
- آثار المدینۃ المنورہ۔ عبد القدوس انصاری
- تاریخ مدینہ منورہ۔ مولانا عبد المعبود کی اردو کتاب
- تاریخ مکہ مکرمہ۔ مولانا عبد المعبود کی اردو کتاب
تاریخ اسلام یا تاریخ عالم پر کتابیں
ترمیممسلمانوں نے فن تاریخ نویسی کو بڑی ترقی دی اور عالمی تاریخ کو عموماً اور تاریخ اسلام کو خصوصاً بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔ اس قسم کی کتابوں میں سیرت طیبہ کا مذکور ہونا لازمی تھا۔ اس قسم کی چند نمایاں اور بنیادی کتابیں، جو سیرت طیبہ کے لیے بھی اہم مآخذ و مصدر ہیں، درج ذیل ہیں۔
- تاریخ الرسل والملوک۔ امام ابن جریر طبری۔ اس کتاب کا معروف نام تاریخ طبری ہے۔ مکمل کتاب آٹھ جلدوں میں ہے جن میں سے دوسری جلد سیرت کے متعلق ہے۔
- الکامل فی التاریخ۔ ابن الاثیر۔ یہ کتاب 9 جلدوں میں ہے اور اس کی دوسری جلد سیرت سے متعلق ہے۔
- البدایہ والنہایہ۔ حافظ ابن کثیر۔ یہ کتاب 9 جلدوں میں ہے۔ اس کتاب کی دوسری سے چھٹی تک کی پانچ جلدیں سیرت سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کا یہ مخصوص حصہ سیرت ابن کثیر کے نام سے الگ سے 4 جلدوں میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
- تاریخ الخمیس۔ دیار بکرمی۔ یہ کتاب 5 جلدوں میں ہے۔ اس کی جلد اول اور دوم کا بڑا حصہ سیرت طیبہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا سال تالیف 946ھ ہے۔
طبقات مشاہیر
ترمیمعام اور مسلسل تاریخ اسلام (سن وار) اِرقام کرنے کے علاوہ بعض مسلمان اہل علم نے مشہور شخصیتوں کی اقسام الگ الگ کر کے ہر گروہ یا طبقے کے مشاہیر کے حالات الگ الگ کتابوں میں جمع کیے مثلاً صحابہ، حفاظ و قراء، شعراء، علمائے لغت و نحو، اطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابیں عموماً طبقات کے نام سے اِرقام کی گئی ہیں مثلاً طبقات ابن سعد، طبقات القراء، طبقات الاطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابوں، جن کا تعلق بالخصوص صحابہ کرام سے ہے، ان میں سیرت طیبہ پر بھی بہت کچھ مواد ملتا ہے۔
- انساب الاشراف۔ ابو الحسن احمد بن یحٰیی بن جابر بن داؤد البلازری متوفی 279ھ۔ 892ء کی تصنیف جو عربوں کی ایک ضخیم تاریخ اور جامع تاریخ ہے۔ اس کی ترتیب ان کے نامور خاندانوں کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔ سب سے پہلے بنو ہاشم کا ذکر ہے جس کے ضمن میں پوری سیرت آگئی ہے۔
- الطبقات الکبیر المعروف طبقات ابن سعد۔ محمد ابن سعد کی تصنیف جو صحابہ کرام اور تابعین کے حالات پر ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی حصے میں سیرت طیبہ کا بیان ہے۔ مکمل کتاب کی آٹھ حصوں میں سے پہلے دو حصے سیرت پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سیرت نبوی کے نہایت قدیم اور قیمتی مصادر و مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔
- تاریخ الاسلام و الطبقات المشاہیر و الاعلام۔ ذہبی۔ اس کتاب کی متعدد جلدوں میں سے پہلی جلد سیرت سے متعلق ہے۔
اولین کتب سیرت
ترمیماولین کتب سیرت جو یا تو آنحضرت کے قریب ترین دور میں اِرقام کی گئیں اور آنے والوں کے لیے مآخذ و مصادر بنیں یا اِن اولین کتب سیرت کی بنیاد پر تالیف کی جانے والی اولین ضخیم اور جامع کتب سیرت جن میں شامل مواد متعدد کتب سے جمع کیا گیا۔ ان میں سے بہت سی کتب سیرت ناپید ہو چکی ہیں تاہم ان کا ذکر اور ان سے اخذ کردہ مواد کے حوالے بعد کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی ایسی ابتدائی کتب سیرت ہیں کہ جن کے قلمی نسخے بعض بڑے کتب خانوں میں ملتے ہیں لیکن تاحال وہ شائع نہیں ہو سکیں۔
ایسی اولین کتب سیرت جو زمانے کی دست برد سے محفوظ ہیں اور چھپی ہوئی مل جاتی ہیں یا چھپ ضرور چکی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت
ترمیممسلم و غیر مسلم ہر اس شخص کے لیے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے جو دین اسلام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہے۔
اہل اسلام کے حوالے سے مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت کے نکات حسب ذیل ہیں:
- اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے لہذا سیرت نبوی کو جانے بغیر آنحضرت کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں۔
- اللہ تعالٰیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول اور اطاعت رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ از حد ضروری ہے تاکہ آنحضرت کے احکامات اور دیگر اوامر و نواہی کے ساتھ ساتھ آپ کی پسند و ناپسند کا علم بھی ہو سکے۔
- دین اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ ایک تو ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہو کر آنحضرت نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعہ کے ذریعے مخاطب کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات سُنا کر اسے متاثر کیا جا سکے۔
- قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر نا ممکن ہے کیونکہ آ پ ہی قرآن کی عملی تصویر اور کامل تفسیر ہیں۔
مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کے لیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے۔
- غیر مسلم کا سیرت کے مطالعہ کا مقصد ان حالات اور اسباب سے آگاہی ہو سکتا ہے جس کے ماتحت آنحضرت نے تئیس سال کے قلیل عرصہ میں دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا اور عرب کی جاہل اور اجڈ قوم سے ایک ایسی امت تیار کر دی جس کے کارنامے مورخین عالم کے لیے انتہائی دلچسپ اور موجب صد حیرت ہیں۔
- وہ غیر مسلم جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بغض و عناد رکھتے ہیں، ان کے مطالعہ سیرت کا مقصد اصل حقائق سے آگاہی حاصل کر کے انہی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور حقیقت کے برعکس ان واقعات کو اپنے رنگ میں پیش کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
جمع و تدوین سیرت کی مختصر تاریخ
ترمیممحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات، آپ کی تعلیمات اور آپ کی حیات طیبہ کی جملہ معلومات آپ کے اصحاب، آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت کے پاس منتشر صورت میں موجود تھیں۔ چونکہ آپ بطور رسول اللہ ان سب کی توجہ کا مرکز تھے اس لیے یہ تمام اصحاب باہمی میل ملاپ اور گفت و شنید سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سے متعلقہ مختلف قسم کی معلومات کا تبادلہ بھی کرتے جیسے کسی تازہ ترین وحی، کسی واقعہ یا کسی فرمان کا باہمی تبادلہ وغیرہ۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد آپ کے پیروکاروں کے دل میں اپنے ہادی و پیشوا کی ذاتِ مبارک، آپ کے اخلاق و عادات اور آپ کی زندگی سے متعلق باتیں دریافت کرنے کا شوق بڑھتا چلا گیا۔ اس شوق و جستجو سے رفتہ رفتہ روایات کا ایک وسیع ذخیرہ ہونا شروع ہو گیا۔ صحابہ کے بعد تابعین کے دور نہ صرف روایات جمع کرنے کا کام ہوا بلکہ ان روایات کو مختلف طریقوں سے منظم کرنے کا کام بھی شروع ہو گیا مثلاً ایک تابعی مختلف صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وعظ، تقریر اور نصائح کے حوالے سے عام روایات کو یاد کرتا یا اِرقام کر لیتا تو دوسرا تابعی اپنے ملنے والے صحابہ کرام سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات اور دیگر واقعات دریافت کر کے اِرقام کر لیتا۔ اس طرح ایک ایک تابعی کے پاس دس بیس یا پچاس صحابہ کرام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات جمع ہوتی گئیں۔ فتوحات کے نتیجہ میں جب صحابہ کرام ایران، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں پھیلے تو ان سے معلومات جمع کرنے کا کام ان علاقوں میں بھی جاری رہا۔
تابعین کے بعد تبع تابعین کے دور میں صحابہ کرام اور تابعین سے جمع شدہ روایات اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی کتابوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کو مناسب تقسیم اور ترتیب دے کر بڑی اور جامع کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسی نسل کے زمانے میں قرآن، حدیث اور فقہ کے بنیادی علوم کے ماتحت ان کے ذیلی علوم اور ان علوم میں مہارت کے حامل مخصوص افراد سامنے آئے۔ ان افراد نے جب تفسیر، حدیث، تاریخ، مغازی و سیرت کے بڑے بڑے مجموعات مرتب کیے تو ان کی مقبولیت کے باعث ماقبل کے چھوٹے چھوٹے مجموعے متروک ہوتے چلے گئے تاہم ان چھوٹے مجموعوں کے حوالے بڑے مجموعوں اور جامع کتب میں بکثرت ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جامع کتب کی تدوین کے زمانے تک یہ چھوٹے، مختصر مگر اصل مآخذ موجود تھے اور پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
- اسی پسِ منظر میں تدوین سیرت کا کام بھی یوں شروع ہوا کہ جب مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کے اقوال و افعال اور احوال کو اختیار کیا اور تفصیل سے جمع و محفوظ کرنا شروع کیا تو بعض بزرگوں نے صرف واقعات سیرت سے متعلق مواد جمع کرنے کو ہی اپنا دینی و علمی مشغلہ اور میدانِ اختصاص بنا لیا اور اس فن میں خاصی شہرت پائی۔
تابعین اور تبع تابعین میں سے جن لوگوں نے سیرت و مغازی پر مواد جمع کیا اور ابتدائی کتابیں اِرقام کیے جن کا ذکر بعد کی اِرقام کی ہوئی کتابوں میں ملتا ہے، ان میں سے مشہور لوگوں کے نام سنین وفات کی ترتیب سے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ کس طرح سیرت نگاری کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہا اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کی طرح تیسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہوا۔
نام | مؤلف | سنہ وفات | کیفیت |
---|---|---|---|
صحف | عروہ بن زبیر | 92ھ | لاپتہ |
صحف | ابان بن عثمان | 105ھ | لاپتہ |
السیرۃ | ابن شہاب زہری | 120ھ | لاپتہ |
مغازي | موسیٰ بن عقبہ | 141ھ | |
سیرت ابن اسحاق | ابن اسحاق | 151ھ | ابن ہشام نے جمع کی |
سیرت ابن ہشام | ابن ہشام | 218ھ | سیرت ابن اسحاق کا مواد |
مغازی | الواقدی | 208ھ | |
تاریخ الرسل والملوک | محمد بن جریر طبری | 310ھ | |
مروج الذہب و معادن الجوہر | مسعودی | 346ھ | |
السيرة النبويہ واخبار الخلفاء | محمد ابن حبان التمیمی | 354ھ | |
اسماء رسول الله اور ان کے معانی | احمد بن فارس | 395ھ | |
الدرر فی اختصار المغازی والسير | ابن عبد البر | 463ھ | |
جوامع السيرة | ابن حزم اندلسی | 456ھ | |
الروض الانف | امام سہیلی | 581ھ |
اس کے بعد سے تاحال سیرت کے انہی بنیادی مآخذ و مصادر اور دیگر علوم کی کتب سے استفادہ کرکے زیادہ بڑی، مفصل اور جامع کتب اِرقام کرنے کا کام مسلسل جاری و ساری ہے۔ نئی تالیفات اِرقام کرنے کے ساتھ ساتھ نایاب قلمی نسخوں کی اشاعت، سیرت کی بنیادی کتب یا مشہور کتب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم، اہم ترین کتب سیرت کی شروحات یا خلاصے اِرقام کرنے کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔
سیرت پر کام
ترمیمآکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگو لیوتھ (S. Margoluth) نے 1905ء میں آنحضور کے حالات پر مبنی ایک کتاب Muhammad and The First Rise of Islam میں اعتراف کیا کہ
” | حضرت محمد کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف ہے۔ | “ |
اقوام متحدہ کے ثقافت و تہذیب اور تعلیم و تمدن سے متعلق ایک ذیلی ادارے یونیسکو UNESCO کے چند سال پہلے کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق:
” | جس قدر کتب نبی اسلام کے بارے میں اِرقام کی گئی ہیں اس کا عشرِ عشیر بھی کسی ایک شخصیت کے بارے میں نہیں اِرقام کیا گیا۔ | “ |
کتب سیرت کی کثرت
ترمیم1963ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں کتب سیرت کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں پیش کردہ کتب کی فہرست کالج نے شائع کی تھی۔ اس میں دنیا کی گیارہ زبانوں کی آٹھ سو سے زائد کتابیں مذکور ہیں۔
سال 1974ء-1975ء میں حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں سیرت کانفرنس کے موقع پر ایک نمائش کتب سیرت منعقد کرائی جس میں موجود کتابوں کی تعداد تین ہزار سے متجاوز تھی۔
ایک اور بین الاقوامی نمائش کتب سیرت میں صرف چودھویں صدی ہجری میں اِرقام کی جانے والی کتب سیرت رکھی گئی تھیں جن کی تعداد چار ہزار سے متجاوز تھی۔
بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے ارمغان حق کے نام سے دو جلدوں میں کتب سیرت کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں پندرہ زبانوں کی دو ہزار سے زائد کتابیں مذکور ہیں۔
سیرت پر ہونیوالا یہ کام نظم اور نثر دونوں میں دستیاب ہے۔ اگرچہ زیادہ کتب سیرت نثر میں ہی ہیں تاہم مختلف زبانوں میں منظوم کتب سیرت بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں اور اگر صرف نعت کی کتابوں کو ہی لیا جائے تو ان کی فہرست پر بھی ایک رسالہ یا کتابچہ تیار ہو سکتا ہے۔
سیرت نگار
ترمیمسیرت نگار سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے سیرت کے موضوع پر اِرقام کیا ہے۔
شہرہ آفاق سیرت نگار
ترمیم- خلفاء راشدین بلکہ خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبد العزیزاموی کے دورخلافت سے کچھ قبل تک چونکہ حدیثوں کی ترقیم ممنوع قرار دے دیا گیا تھا تاکہ قرآن وحدیث میں خلط ملط نہ ہونے پائے اس لیے سیرت نبویہ کے موضوع پر حضرات صحابہ کرام کی کوئی تصنیف عالم وجود میں نہ آسکی مگر حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور خلافت میں جب احادیث نبویہ کی کتابت کا عام طور پر چرچا ہوا تو دور تابعین میں محدثین کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مصنفین کابھی ایک طبقہ پیداہو گیا۔
- حضرات صحابہ کرام سیرت نبویہ کے موضو ع پر کتابیں تو تصنیف نہ کرسکے مگر وہ اپنی یادداشت سے زبانی طور پر اپنی مجالس، اپنی درسگاہوں، اپنے خطبات میں احادیث احکام کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مضامین بھی بیان کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے احادیث کی طرح مضامین سیرت کی روایتوں کا سرچشمہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کی مقدس شخصیتیں ہیں۔
- بہر حال دور تابعین سے گیارہویں صدی تک چند مقتدر محدثین ومصنفین سیرت کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائيے ۔
- (1)حضرت عروہ بن زبیر تابعی (متوفی 92ھ)
- (2)حضرت عامر بن شراحیل امام شعبی (متوفی 104ھ)
- (3)حضرت ابان بن امیر المومنین حضر ت عثمان (متوفی 105ھ)
- (4)حضرت وہب بن منبہ یمنی(متوفی 110ھ)
- (5)حضر ت عاصم بن عمر بن قتادہ (متوفی 120ھ)
- (6)حضرت شرجیل بن سعد(متوفی 123ھ)
- (7)حضرت محمد بن شہاب زہری(متوفی 124ھ)
- (8)حضرت اسمٰعیل بن عبد الرحمن سدی (متوفی 127ھ)
- (9)حضرت عبد اللہ بن ابوبکر بن حزم(متوفی 135ھ)
- (10)حضرت موسیٰ بن عقبہ(صاحب المغازی)(متوفی 141ھ)
- (11)حضرت معمر بن راشد(متوفی 150ھ)
- (12)حضرت محمد بن اسحاق (صاحب المغازی)(متوفی 150ھ)
- (13)حضرت زیاد بکائی (متوفی 183ھ)
- (14)حضرت محمد بن عمر واقدی (صاحب المغازی)(متوفی 207ھ)
- (15)حضرت محمد بن سعد(صاحب الطبقات)(متوفی 230ھ)
- (16)حضرت ابو عبد اللہ محمدبن اسمٰعیل بخاری(مصنف بخاری شریف)(متوفی256ھ)
- (17)حضرت مسلم بن حجاج قشیری (مصنف مسلم شریف)(متوفی 261ھ)
- (18)حضرت ابو محمد عبد للہ بن مسلم بن قتیبہ(متوفی 267ھ)
- (19)حضرت ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی صاحب السنن(متوفی 275ھ)
- (20)حضرت ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی(متوفی 279ھ)(مصنف جامع ترمذی)
- (21)حضرت ابو عبد اللہ محمد یزید بن ما جہ قزوینی(متوفی 273ھ)(صاحب السنن)
- (22)حضرت ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی(متوفی 303ھ)(مصنف سنن نسائی)
- (23)حضرت محمد بن جریر طبری (صاحب التاریخ)(متوفی 310ھ)
- (24)حضرت حافظ عبد الغنی بن سعید امام النسب (متوفی 332ھ)
- (25)حضرت ابو نعیم احمد بن عبد اللہ (صاحب الحلیہ)(متوفی 430ھ)
- (26)حضرت شیخ الاسلام ابو عمر حافظ ابن عبد البر (متوفی 463ھ)
- (27)حضرت ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (متوفی 458ھ)
- (28)حضرت علامہ قاضی عیاض (صاحب الشفاء)(متوفی 544ھ)
- (29)حضرت عبد الرحمن بن عبد اللہ سہیلی(صاحب الروض الانف)(متوفی 581ھ)
- (30)حضرت علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی(صاحب شرف المصطفیٰ)(متوفی 597ھ)
- (31)حضرت احمد بن محمد بن ابوبکر قسطلانی(متوفی 923ھ)(صاحب مواہب لدنیہ)
- (32)حضرت امام شرف الدین عبد المومن دمیاطی(متوفی 705ھ)(صاحب سیرت دمیاطی )
- (33)حضرت ابن سید الناس بصری(صاحب عیون الاثر)(متوفی 734ھ)
- (34)حضرت حافظ علاء الدین مغلطائی(صاحب الاشارۃ الی سیرۃ المصطفیٰ )(متوفی 762ھ)
- (35)حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ)(شارح بخاری)
- (36)حضرت علامہ بدرالدین محمود عینی (شارح بخاری)(متوفی 855ھ)
- (37)حضرت ابو الحسن علی بن عبد اللہ بن احمد سمہودی(صاحب وفاء الوفاء)(متوفی 911ھ)
- (38)حضرت محمد بن یوسف صالحی(صاحب السیرۃ الشامیہ)(متوفی 942ھ)
- (39)حضرت علی بن ب رہان الدین(صاحب السیرۃ الحلبیہ)(متوفی 1044ھ)
- (40)حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی(صاحب مدارج النبوۃ)(متوفی 1052ھ)[2]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات سیرت، ستمبر 2012ء (طبع چہارم)، صفحہ 16، الفیصل ناشران، لاہور
- ↑ سیرتِ مصطفی مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی صفحہ36 ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی