وزیر اعظم بھارت

جمہوریہ ہند کے سربراہ
(بھارتی وزیر اعظم سے رجوع مکرر)

بھارتی وزیر اعظم حکومت ہند کے انتظامی امور اور کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ صدر بھارت کا مشیر بھی ہوتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں; لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سے کسی کا بھی رکن ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم کی جماعت کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہوتی ہے اور وہاں سے اکثریتی رائے سے منتخب ہوتا ہے۔ کسی بھی پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم حکومت کی مققنہ کابینہ کا سب سے سینئر رکن ہوتا ہے۔ وہی کابینہ کے ارکان کو منتخب کرتا ہے اور انھیں برخاست کرسکتا ہے، وہ کابینہ کا صدر ہوتا ہے اور چیئرمین بھی۔ مرکزی کابینہ وزیر اعظم کی زیر صدارت کام کرتی ہے جس کا انتخاب صدر بھارت کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ مابعد الذکر کو انتظامی اور قانونی امور میں مدد کرسکے۔ مرکزی کابینہ بحیثیت مجموعی آئین ہند کی دفعہ 75 (3) کے تحت لوک سبھا کو جواب دہ ہے۔ وزیر اعظم کو لوک سبھا میں اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے جس میں ناکامی استعفی کا سبب بنتی ہے۔

وزیر اعظم بھارت
بھارت کی ریاستی علامت
موجودہ
نریندر مودی

26 مئی 2014ء (2014ء-05-26) سے
خطابقابل احترام (رسمی)
عزت مآب (سفارتی دستاویزات میں)
حیثیتسربراہ حکومت
مخففپی ایم
رکنوزرا کی مرکزی کونسل
بھارتی پارلیمان
جواب دہ
رہائش7، لوک کلیان مارگ، نئی دہلی
نشستدفتر وزیر اعظم، نئی دہلی
تقرر کُننِدہصدر بھارت
لوک سبھا کے ارکان
مدت عہدہصدر کی مرضی
لوک سبھا کی مدت پانچ سال ہے
کوئی حد مقرر نہیں
تاسیس کنندہجواہر لعل نہرو (1947–1964)
تشکیل15 اگست 1947؛ 77 سال قبل (1947-08-15)
نائبنائب وزیر اعظم بھارت (اگر کوئی ہو)
تنخواہ20 لاکھ (امریکی $28,000) (سالانہ، بشمول 960,000 (امریکی $13,000) رکن پارلیمان کی حیثیت)
ویب سائٹpmindia.gov.in

تاسیس و تاریخ

ترمیم

بھارت میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس کی رو سے وزیر اعظم سربراہ حکومت ہوتا ہے اور وہی مقننہ کی بھی سربراہی کرتا ہے۔ اس طرح کی حکومتوں میں صدر جمہوریہ سربراہ ریاست ہوتا ہے اور وہ عام طور پر تقاریبی عہدوں کا مالک ہوتا ہے اور زیادہ تر امور میں وزیر اعظم کے مشوروں کا محتاج ہوتا ہے۔ وزیر اعظم -اگر پہلے سے ہی پارلیمان کا رکن نہیں ہے تو - حلف لینے کے بعد چھ ماہ کے اندر پارلیمان کا رکن ہونا لازمی ہے۔ پارلیمان میں کسی بھی کو پاس کروانے کے لیے اور دوسرے وزرا کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

تاریخ

ترمیم

1947ء-1984ء

ترمیم

1974ء سے اب تک 14 مختلف وزرائے اعظم ہوئے ہیں،[ا] پہلی دو دہائی تقریباً انڈین نیشنل کانگریس کے قبضہ میں رہی ہے ۔ پہلا وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھا جس نے 15 اگست 1947ء کو حلف لیا۔ نہرو نے لگاتار 17 برسوں تک اس عہدہ پر رہ کر اپنے فرائض انجام دیے کیونکہ اس دوران میں وہ انتخابات جیت تے رہے۔ ان کا دور مئی 1964ء میں ان کی وفات پر ختم ہوا۔ [1][2] نہرو کی موت کے بعد سابق وزیر داخلہ لال بہادر شاستری وزیر اعظم بنے۔ انھی کے دور میں پاک بھارت جنگ 1965ء ہوئی۔ شاستری کی موت اعلامیہ تاشقند پر دستخط کرنے کے بعد تاشقند میں ہی دل کے دورہ کی وجہ سے ہوئی۔ [3] شاستری کے بعد اندرا گاندھی بحیثیت اول خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کا پہلا دور 11 سال تک چلا جس میں انھوں نے بینکوں کا قومیانہ کیا، [4] بھارت میں صرف خاص اور سیاسی عہدہ کا خاتمہ کیا۔ ان سے قبل برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے کی نوابی ریاست کے شاہی خاندانوں کے افراد سیاسی عہدے اور صرف خاص کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ۔[5] ان کے علاوہ پاک بھارت جنگ 1971ء اور آزاد بنگلہ دیش کا قیام بھی انھی کے دور میں واقع ہوا۔ [6][7] انھی کے دور میں 1975ء میں ریفرینڈم کے ذریعے سکم کو بھارت میں شامل کیا گیا۔ [8] بھارت کاپہلا ایٹمی تجربہ پوکھرن میں انھی کے دور میں ہوا۔ 1975ء میں صدر فخر الدین علی احمد اندرا گاندھی کے مشورہ پر ہنگامی صورت حال نافذ کر دیا، ایک ایسا دور جسے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لیے جانا جاتا ہے۔[9][10] ملک گیر احتجاجات کے بعد 1977ء میں ایمرجنسی ختم کر دی گئی اور 1977ء کے بھارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ ایمرجنسی کے بعد حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے ایک ساتھ جنتا پارٹی کیa زیر قیادت 1977ء کے بھارتی عام انتخابات میں کانگریس کے خلاف انتخابات میں قدم رکھا اور کانگریس کو شکست دی۔ سابق ڈپٹی وزیر اعظم مورار جی دیسائی وزیر اعظم متخب ہوئے۔ وہ پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے۔ دیسائی کی حکومت مختلف پارٹیوں کا مجموعہ تھی جن کے نظریات میں خاصا اختلاف تھا لہذا اتحاد بنائے رکھنا ان کے لیے ایک چیلینج تھا۔ بالآخر ڈھائی سال سے زیادہ مدت مکمل کرنے کے بعد 28 جولائی 1979ء کو دیسائی کو استعفی دینا پڑا اور حکومت گر گئی۔ اس کے بعد دیسائی کی حکومت میں رہے ڈپٹی وزیر اعظم چرن سنگھ نے کانگریس کی تائید کے بعد لوک سبھا میں اکثریت ثابت کر دی اور وزارت عظمی کا حلف لے لیا۔ [11][12] حالانکہ اس کے فوراً بعد کانگریس نے اپنی حمایت واپس لے لی اور چرن سنگھ کو استعفی دینا پڑا۔ انھوں نے صرف پانچ ماہ بحیثیت وزیر اعظم اپنی خدمات انجام دیں۔ یہ کسی بھی وزیر اعظم کا سب سے مختصر دور ہے۔ ا980ء میں3 سال کے وقفہ کے بعد کانگریس پھر حکومت میں آئی اور اس مرتبہ اسے مکمل اکثریت حاصل تھی۔ اندرا گاندھی پھر وزیر اعظم بنیں اور یہ ان کا دوسرا دور تھا۔ [13] ان کے اس دور میں سکھ مت کی سب سے مقدس جائے عبادت ہرمندر صاحب میں بھارتی فوج کے ذریعے آپریشن بلیو اسٹار انجام دیا گیاجس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ [14] اس کے معا بعد 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا جی کا 1، صدفر جنگ روڈ ،،نئی دہلی پر واقع ان کے رہائشی گھر کے باغ میں گولی مارکر ان کا قتل کر دیا گیا۔ ان کے قاتلین ان کے ہی دو جسمانی محافظ ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ تھے۔ [15]

1984ء-1999ء

ترمیم

اندرا جی کے بعد ان کے 40 سالہ بیٹے راجیو گاندھی نے 3 اکتوبر 1984ء کو بحیثیت وزیر اعظم حلف لیا اور وہ سب سے کم عمر وزیر اعظم بن گئے۔ راجیو نے فوراً انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔ ان انتخابات میں کانگریس کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس نے لوک سبھا کی 552 نششتوں میں سے 401 نششتوں پر جیت حاصل کی۔ یہ بھارت کی تاریخ میں کسی بھی پارٹی کی طرف کی سب سے بڑی جیت تھی۔ [16][17] وی پی سنگھ - پہلے وزیر خزانہ اورراجیو گاندھی کابینہ کے وزیر دفاع نے ایک بد عنوانی کا پردہ فاش کیا جسے بعد میں بوفورس اسکینڈل کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں سنگھ کو کانگریس سے نکال باہر کیا گیا اور انھوں نے جنتا دل کی بنیاد رکھی اور متعدد کانگریس مخالف جماعتوں کی مدد سے نیشنل فرنٹ بنایا۔ [18] 1989ء کے بھارتی عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور بایاں فرنٹ کی خارجی حمایت سے نیشنل فرنٹ نے حکومت بنا لی۔ [19] وی پی سنگھ ۔[19] ایک سال سے کم کی مدت کے دوران میں ہی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو قبول کر لیا۔ [20] وی پی سنگھ دور اس وقت ختم ہو گیا اور ان کو استعفی دینا پڑا جب انھوں نے بی جے پی کے رکن لال کرشن اڈوانی کی حراست کے حکم دے دیا۔ [21] نتیجتا بی جے پی اپنی حمایت واپس لے لی اور وی پی سنگھ تحریک عدم اعتماد میں 146-320 سے ناکام رہے اور ان کو استعفی دینا پڑا۔ [22] وی پی سنگھ کے بعد ان کی کابینہ کے وزیر داخلہ بھارت چندر شیکھر نے سماجوادی جنتا پارٹی کی مدد سے لوک سبھا میں اکثریت ثابت کر دی اور انھیں کانگریس کی بھی حمایت حاصل تھی۔ [23][24] لیکن ان کا دور زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا اور کانگریس نے حمایت واپس لے لی، شیکھر کی حکومت گرگئی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ [25] 1991ء کے بھارتی عام انتخابات میں نرسمہا راؤ کی زیر قیادت کانگریس نے اقلیتی حکومت بنائی۔ راو جنوبی ہند کے پہلے وزیر اعظم بنے ۔ [26] سوویت اتحاد کی تحلیل کے بعد بھارت دیوالیہ پن کے دہانے ہر کھڑی تھی، لہذا راو نے معاشیات میں ڈھیل دینے کا عہد کیا اور منموہن سنگھ -ایک ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر برائے بھارت ریزرو بینک- کو وزیر مالیات بنا دیا۔ [26] تب منموہن سنگھ نے اکانومی کو لبرلائز کرنے کی خاطر کئی اقدامات کیے [26] اور اس طرح بھارت نے اچانک اور غیر یقینی طور پر اقتصادی ترقی کی۔ [27] ان کی وزارت عظمی بابری مسجد کا انہدام کے لیے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس کی وجہ سے تقریباً 2000 افراد جاں بحق ہوئے۔ [28] راؤ نے اپنا پانچ سالا دور مکمل کیا حالانکہ اس سے قبل صرف نہرو گاندھی خاندان ہی پانچ سالہ میعاد مکمل کرپایا تھا۔ [26]

مئی 1996ء میں راؤ کا عہد ختم ہونے کے بعد بھارت نے تین سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم بنائے۔ جن میں دو مرتبہ اٹل بہاری واجپائی، ایک مرتبہ ایچ ڈی دیوے گوڑا ( 1 جون 1996ء سے 21 اپریل 1998ء) اور ایک مرتبہ اندر کمار گجرال ( 21 اپریل 1997ء سے مارچ 1998ء)۔ 1998ء میں منتخب اٹل جی کی حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات کیے جن میں پوکرن میں پانچ زیر زمین ایٹمی دھماکے شامل تھے۔ [29] ان دھماکوں کے جواب میں متعدد مغربی ممالک بشمول ریاستہائے متحدہ امریکا نے بھارت پر اقتصادی پابندی لگا دی، [30] لیکن لیکن روس، فرانس، خلیجی ممالک اور دیگر ممالک کی تائید کی وجہ سے یہ پابندی کامیاب نہ ہو سکی ۔[31][32] ان دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی تجربات کیے۔ [33]

دونوں ملکوں مابین حالات مزید خراب ہونے کے بعد دونون نے اپنے تعلقات سدھارنے کی کوششیں کیں۔ فروری 1999ء میں بھارت اور پاکستان نے لاہور اعلامیہ پر دستخط کیا جس میں دونوں نے اعلان کیا کہ وہ آپسی شمنی ختم کریں گے اور اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار پرامن مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔ [34]1999ء میں آل انڈیا اننا دراویڈا مونیترا کازگم نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے اپنی حمایت واپس لے لی ۔ [35] اس کے بعد واجپائی حکومت تحریک عدم اعتماد 269-270 سے ہار گئی اور ستم بالائے ستم یہ کہ کارگل جنگ بھی اسی دوران میں واقع ہوئی۔[36] اس کے معا بعد ہوئے 1999ء کے بھارتی عام انتخابات میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو ایوان زیریں کی 545 میں 299 نششتیں حاصل ہوئیں اور مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔ [37]

2000 تا حال

ترمیم

واجپائی نے اکانومک لبرالائیزیشن کو برقرار رکھا جس سے اقتصادی حالت دن بہ دن بہتر ہورہی تھی۔ [38] ان کے عہد حکومت میں تعمیرات بنیادی سہولتیں میں ترقی دیکھنے کو ملی اور ساتھ ہی سڑکوں کی حالت سدھارنے کے لیے نیشنل ہائیوے ڈولپمینٹ پروجیکٹ اور پردھان منتری گرام سڑک یوجنا جیسی اسکیموں کی شروعات کی۔ [39] لیکن ان کے ہی دور حکومت میں گجرات فسادات (2002ء) رونما ہوئے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس میں 2000 افراد جاں بحق ہوئے۔[40] بھارت کے عام انتخابات، 2004ء میں ان کو شکست ملی مگر وہ پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم بن گئے جنھوں نے 5 سال کی میعاد مکمل کی۔[38]

 
منموہن سنگھ 2004ء میں وزیر اعظم بنے۔

2004ء کے بھارتی عام انتخابات میں کانگریسی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، بایاں بازو اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر یو پی اے کی بنیاد رکھی اور لوک سبھا میں اکثریت ثابت کی۔ [41] اس مرتبہ کانگریس نے منموہن سنگھ کو وزارت عظمی کا عہدہ سونپا اور یہ کئی معنوں میں اہم تھا۔ وہ پہلے سکھ وزیر اعظم تھے اور کانگریس کی طرف سے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم بھی بنے۔ [41] ان کے دور حکومت میں واجپائی کے دور حکومت کی اقتصادی ترقی برقرار رہی۔ [42] اس کے علاوہ حکومت نے قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء اور قانون حق معلومات 2005ء جیسے اہم بل پارلیمان میں منظور کروائے۔ [43][44] مزید برآں حکومت نے افغانستان، روس، [45][46][47] خلیجی ممالک اور امریکا سے اپنے تعلقات استوار کیے۔ انھوں نے اپنے پہلے دور کے اختتام کے قبل ہی بھارت امریکہ سول نیوکلیر معاہدہ پر بھی دستخط کیے۔ [48][49][50] انھی کے دور حکومت میں ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں، 26 نومبر 2008ء جیسا جانکاہ حادثہ ہوا۔ [51][52] 2009ء کے بھارتی عام انتخابات میں یو پی اے کا مینڈیٹ بڑھ گیا۔ [53][54] وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے دوسرے دور کا حلف لیا۔ حالانکہ اس مرتبہ ان کو سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ [55][56] انھوں نے 17 مئی 2014ء میں 2014ء کے بھارتی عام انتخابات میں یو پی اے کی شکست کے بعد وزارت عظمی سے استعفی دے دیا۔ [57][58][59]

2014ء کے بھارتی عام انتخابات میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی، اس نے 543 میں 336 نشستیں حاصل کیں، اکیلے بی جے پی 1984ء کے بعد پہلی مکمل اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بنی۔ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے وزارت عظمی کا حلف لیا اور وہ آزاد ہندوستان میں پیدا ہوئے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔ [60]

آئینی ڈھانچہ اور وزارت عظمی کا عہدہ

ترمیم

آئین ہند نے حکومت بھارت کا ڈھارت کا ڈھانچہ کچھ اس طرح تیار کیا ہے جس کی رو سے صدر بھارت ریاست کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے: دفعہ 53 کے تحت وزیر اعظم کا دفتر وزرا کی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے جو صدر کو مشورہ دیتا ہے اور قانونی فیصلوں میں اس کی مدد بھی کرتا ہے۔ دفعہ 53، 74 اور 75 مندرجہ ذیل ہیں؛

یونین کا عاملانہ اختیار صدر میں مرکوز ہوگا اور وہ اس کو اس آئین کے مطابق بلا واسطہ یا اپنےما تحت عہدیداروں کی وساطت سے استعمال کرے گا
وزرا کی ایک کونسل، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوگا، صدر جمہوریہ کی معاون و مشیر ہو گی جب کہ صدر جمہوریہ اپنے کارہائے منصبی انجام دیتے وقت اس کے مشورے کے مطابق عمل کریں گے
وزیر اعظم کا تقرر صدر کرے گا اور دوسرے وزیروں کا تقرر صدر وزیر اعظم کے مزورہ سے کرے گا

دیگر تمام پارلیمانی نظام کی طرح صدر کے فرائض زیادہ تر رسمی ہیں جب تک کابینہ اور مقننہ کہ دستور اور قانون کے پا بند ہیں اور ان پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت کا وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہے اور اس کے پاس ہی سب سے زیادہ انتظامی اختیارات ہیں۔ صدر کی قانونہ ذمہ داری ، دفعہ 60 کے مطابق دستور اور قانون کی حفاظت کرنا اور اس کا بچاو کرنا ہے۔ آئین ہند میں وزیر اعظم کا تذکرہ صرف چار مقامات ( دفعہ 74، 75، 78 اور 366) پر کیا گیا ہے، حالانکہ وزیر اعظم کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہوتی ہے اور وہ حکومت ہند میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

تقرر، مدت اور برطرفی

ترمیم

اہلیت

ترمیم

دستور ہند کی دفعہ 84 رکن پارلیمان کی بنیادی اہلیت کو بتاتا ہے اور دفعہ 75 وزرا کی کونسل کی اہلیت کو بتاتا ہے، ان دونوں دفعات کے مطابق بھارت کا وزیر اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ :

اگر امیدوار وزیر اعظم منتخب ہوجا ہے تو اسے تمام حکومتی اور غیر حکومتی عہدہ سے استعفی دینا لازمی ہوگا، ایسا دستور کے تیسرے فہرست بند میں مذکور ہے۔

دفتر اور راز داری کا حلف

ترمیم

وزیر اعظم کو دفتر سنبھالنے سے قبل صدر بھارت کے سامنے دفتر اور رازداری کا حلف لینا ضروری ہے، ایسا تیسرے فحرست بند میں مذکور ہے۔

میں (نام) خدا کے نام سے حلف اٹھاتا ہوں/ اقرار صالح کرتا ہوں کہ میں بھارت کے آئین پر جو قانون کے بموجب طے پایا ہے اعتقاد رکھوں گا اور اس کا وفا دار رہوں گا، میں بھارت کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت کو برقرار رکھوں گا، میں و یونین کے وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض وفاداری اور دیانتداری سے انجام دوں گا اور میں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ آئین اور قانون کے بموجب بلا خوب یا رعایت، عناد یا شفقت انصاف کروں گا۔

رازداری کا حلف:

میں (نام) خدا کے نام سے حلف اٹھاتا ہوں/ اقرار صالح کرتا ہوں کہ کسی امر کی جو یونین کے وزیر کی حیثیت سے میرے زیر غور لایا جائے یا میرے علم میں آئےکسی شخص یا اشخاص کو سوائے اس کے کہ ایسے وزیر کی حیثیت سے میرے فرائض کی مناسب انجام دہی کے لئے ضروری ہو براہ راست یا بلاواسطہ نہ اطلاع دونگا اور نہ ظاہر کرونگا۔

مدت اور برطرفی

ترمیم

وزیر اعظم صدر کی مرضی سے مطابق کام کرتا ہے، لہذا، ایک وزیر اعظم غیر معینہ مدت تک برقرار رہ سکتا ہے جب تک کہ اسے صدر کا اعتماد حاصل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو لوک سبھا کا اعتماد حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔ وزیر اعظم کا دور لوک سبھا کے دور سے پہلے بھی ختم ہو سکتا ہے اگر اس کے ارکان کی آسان اکثریت کا اعتماد اسے حاصل نہ ہو، اسے تحریک عدم اعتماد کہا جاتا ہے۔ [61] وزرائے اعظم جیسے اندر کمار گجرال، [22] ایچ ڈی دیوے گوڑا اور اٹل بہاری واجپائی اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے عہدہ سے استعفی بھی دے سکتا ہے۔ مورار جی دیسائی اپنے عہدہ سے استعفی دینے والے پہلے وزیر اعظم ہیں۔

وزیر اعظم کا کردار اور اختیارات

ترمیم

انتظامی اختیارات

ترمیم

وزیر اعظم حکومت ہند کے اختیارات اور عاملہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر بھارت -اہلیت کی بنا پر- اس شخص کو قومی سطح پر حکومت ہند - مرکزی حکومت یا یونین حکومت بھی کہا جاتا ہے- کی تشکیل اور اختیارات کے استعمال کی دعوت دیتا ہے جو لوک سبھا میں اکثریت ثابت کردیتا ہے۔ [62] وزیر اعظم وزرا کی کونسل کے لیے صدر کے سامنے ارکان کی نامزدگی کرتا ہے۔ [63][64][65] وہ وزرا کا ایک گروپ بھی بناتے ہیں جسے کابینہ کہا جاتا ہے۔ کابینہ ہی حکومت ہند کے تمام اہم کارہائے نمایاں کو انجام دیتی ہے۔ [63]

وزیر اعظم کابینہ کے ساتھ مل کر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس منعقد کرتا ہے اور ارکان پارلیمان کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ [66] کچھ اہم شعبہ اور وزارت کسی بھی وزیر کو نہیں دی جاتی ہے بلکہ خود وزیر اعظم اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔ جیسے:

وزیر اعظم کئی وفود، اعلیٰ درجہ کی میٹنگ اور بین الاقوامی تنظیموں میں ملک نمائندگی کرتا ہے۔ [67] اور متعدد موقعوں پر قوم سے خطاب بھی کرتا ہے۔[68] دفعہ 78 کے تحت صدر اور کابینہ کے درمیان میں رسمی گفتگو وزیر اعظم کے وسطے سے کی جاتی ہے۔

انتظامی اور تقرری اختیارات

ترمیم

دوسرے لوگوں کے ساتھ وزیر اعظم مندرجہ ذیل عہدوں کے لیے صدر کے سامنے تجاویز پیش کرتا ہے:

بحیثیت وزیر برائے عملہ، عوامی شکایات اور پنشن، وزیر اعظم کو بھارت کے پریمیئر دیوانی ملازمت [73] بھارتی انتظامی خدمات (آئی اے ایس) پر بھی اختیار حاصل ہے۔ [74][75] آئی اے ایس کا عملہ ہی زیادہ تر سینئر سول عہدوں پر فائز ہوتا ہے؛ [74][75] جیسے پبلک انٹرپرائزز سیلیکشن بورڈ (پی ای ایس بی)، [76][77] اورسینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) [76][77] سوائے اس کے ڈائریکٹر کے کہ اس کا انتخاب ایک کمیٹی کرتی ہے جس میں (الف) وزیر اعظم بحیثیت چیئر پرسن، (ب) لوک سبھا کر حزب مخالف کا لیڈر اور (ج) چیف جسٹس ہوتے ہیں۔ [78] دوسرے ممالک کے برخلاف بھارت کے وزیر اعظم کو ججوں کے انتخاب اور تقرری میں زیادہ اختیار نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی تقرری ججوں کی کالیجیم کرتی ہے جو بھارت کا چیف جسٹس، عدالت عظمی کے چار سب سے سینئر جج اور بھارتی عدالت ہائے عالیہ کی فہرست کے کے چیف جسٹس یا سب سے سینئر ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ [79][80]

قانون سازی کے اختیارات

ترمیم

وزیر اعظم پارلیمان کا لیر ہوتا ہے، زیادہ تر معاملوں میں وزیر اعظم لوک سبھا کا رکن ہوتا ہے۔ وہ جس ایوان کا رکن ہوتا ہے اسی کا لیڈر بھی ہوتا ہے۔ اپنے اس کردار کے تحت وہ مقننہ میں عاملہ کی نمائندگی کرتا ہے، وہی ایم اعلانات کرتا ہے اور مخالفین کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ [81] آئین ہند کی دفعہ 85 صدر کو پارلیمان کے غیر معمولی اجلاس کو ختم کرنے کا آکتیار دیتا ہے لیکن یہ اختیار صر وزیر اعظم کے مشورہ سے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے عملی طور پو وزیر اعظم کو پارلیمان کے کچھ امور پر اختیار حاصل ہے۔

معاوضہ اور دوسرے منافع

ترمیم

آئین کی دفعہ 75 پارلیمان کو وزیر اعظم اور دوسرے وزرا کا محنتانہ اور دوسرے منافع پر فیصلہ کرنے کو اختیار دیتی ہے۔ [82] اور یہ کہ یہ وقتا فوقتا بدلتے رہیں گے۔ وزیر اعظم اور دوسرے وزرا کا محنتانہ دراصل آئین درجہ بند فہرست کے کے حصہ (ب) میں مذکور تھا جسے بعد میں ترمیم کر کے حذف کر دیا گیا۔ 2010ء میں وزیر اعظم کے دفتر نے یہ اطلاع دی کہ وزیر اعظم کو کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی ہے بلکہ محض چند ماہانہ الاؤنس

ملتے ہیں۔ [83] اسی سال دی اکنامسٹ نے یہ خبر دی کہ مساوی قوت خرید کی بنیاد پر وزیر اعظم کو سالانہ $4106 کے برابر معاوضہ ملتا ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کے حساب سے کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کا یہ سب سے کم معاوضہ ہے۔
وزیر اعظم کا ماہانہ معاوضہ اور الاؤنس'
تنخواہ اکتوبر 2009ء تنخواہ اکتوبر 2010 تنخواہ جولائی 2012ء
100,000 (امریکی $1,400) 135,000 (امریکی $1,900) 160,000 (امریکی $2,200)
حوالہ جات [84]

رہائش اور سفر

ترمیم

نئی دہلی میں 7، لوک کلیان مارگ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے، اس جگہ کو پہلے 7، ریس کورس روڈ کہا جاتا تھا۔ زمینی سفر کے لیے وزیر اعظم رینج روور کی یتھیار سے لیس انتہائی ماڈرن گاڑی استعمال کرتے ہیں [85] جبکہ ہوائی سفر کے لیے بوئنگ 777-300 ای آر کا استعمال کرتے ہیں جسے ایئر انڈیا ون نے نامزد کیا ہے اور بھارتی فضائیہ دیکھ ریکھ کرتی ہے۔ [86][87] اسپیشل پروٹیکشن گروپ ( ایس پی جی) وزیر اعظم اور اس کے خاندان کے حفاظت کے مامور ہے۔ [88][89]

دفتر

ترمیم

وزیر اعظم کا دفتر (پی ایم او) وزیر اعظم بحارت کو سرکاری جائے عمل ہے۔ یہ دفتر ساؤتھ بلاک پر واقع ہے اور 20 کمروں پر مشتمل ہے۔ اس میں کیبینیٹ سکرٹیریٹ، وزارت دفاع ، حکومت ہند اور وزارت خارجی امور، حکومت ہند اس کے پڑوس میں واقع ہیں۔ یہ دفتر وزیر اعظم بھارت کا پرنسپل سکریٹری کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ عام طور پر سابق سول سروینٹ ہی اس عہدہ پر فائز ہوتا ہت۔

پنشن اور دیگر بعد از استعفی منافع

ترمیم

سابق وزیر اعظم کو ایک بنگلہ ملتا ہے، [90][91] ان کو کابینہ کے وزرا جیسی سہولیات ملتی ہیں [90] جیسے پانچ سال کی مدت کے لیے 14 ارکان پر مشتمل سکریٹری اسٹاف،دفتر کے اخراجات کی ادائیگی، سالانہ 6 ایگزیکیوٹیو کلاس ٹکٹ اور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کا تحفظ۔ [90][91] اس کے علاوہ بھارت کی ترتیب ترتیب میں اس کا پانچواں مقام ہے۔ یہ مقام صوبہ کے وزراء اعلیٰ اور کابینہ کے وزراء کا بھی ہے۔ [92][93][94] پارلیمان کے سابق رکن ہونے کی حیثیت سے اس کو 20,000 بھارتی روپیہ پاہانہ ملتا ہے اور اس کے ساتھ اگر اس نے بطور ایم پی پانچ سال خدمت کی ہے تو 15000 بھارتی روپیہ ہر سال کے لیے ملتا ہے۔

وزیر اعظم فنڈ

ترمیم

نیشنل ڈیفینس فنڈ

ترمیم

نیشنل ڈیفینس فنڈ ( این ڈی ایف) کا آغاز چین بھارت جنگ کے بعد 1962ء میں کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم فند کمیٹی کی سربراہی کرتا ہے جبکہ وزیر دفاع، وزیر مالیات اور وزیر داخلہ اس کمیٹی کے ارکان میں شامل ہیں۔ وزیر مالیات اس کمیٹی کا خزانچی ہوتا ہے۔ دفتر وزیر اعظم کا سکریٹری ہی اس کا بھی سکریٹری ہوتا ہے۔ [95] ویب گاہ کے مطابق یہ فنڈ رضاکارانہ مدد پر منحصر ہے اور اس کا کائی باقاعدہ بجٹ نہیں ہے۔ اس میں دیا جانے والا چندہ انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کی دفعہ 80G کے تحت 100 فیصد ٹیکس سے مبرا ہے۔ [96][97]

وزیر اعظم نیشنل ریلیف فنڈ

ترمیم

وزیر اعظم نیشنل ریلیف فنڈ کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 1948ء میں پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے لیے شروع کیا تھا۔ اب یہ فنڈ قدرتی آفات جیسے زلزلہ، طوفان وغیرہ میں میں مارے گئے لوگوں کے خاندان والوں کو دیا جاتا ہے۔ [98] اس میں دیا جانے والا چندہ انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کی دفعہ 80G کے تحت 100 فیصد ٹیکس سے مبرا ہے۔[96]

نائب وزیر اعظم

ترمیم

نائب وزیر اعظم بھارت کوئی قانونی عہدہ نہیں ہے اور نہ پارلیمان کی کسی دفعہ میں اس کا کوئی تذکرہ ہے۔[99] لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو مختلف موقعوں پر وزرا اعظم نے اپنے کسی سینئر وزیر کو نائب وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ واضح ہو کہ آئین میں اس طرح کے کسی عہدہ کی ضرورت نہیں بتائی گئی ہے اور نہ کوئی خاص اختیار اس کو دیا گیا ہے۔ [99] عام طور پر سینئر کابینہ وزیر جیسے وزیر داخلہ یا وزیر مالیات ہی نائب وزیر اعظم نامزد ہوتا ہے۔ یہ عہدہ وزیر اعظم کے بعد سب سے بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ اور وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں حکومت سنبھالتا ہے۔ عام طور پر اتحادی حکومت میں یہ عہدہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عہدہ پر فائز ہونے کا شرف سب سے پہلے ولبھ بھائی پٹیل کو ہے جو نہرو کی کابینہ میں ڈپٹی وزیر اعظم تھے۔

حواشی

ترمیم
  1. اس میں گلزاری لال نندا شامل نہیں ہیں جنہوں نے در مرتبہ وزارت عظمی کی کرسی سنبھالی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "'A Man Who, with All His Mind and Heart, Loved India'"۔ Life Magazine (بزبان انگریزی)۔ Time Inc۔ 5 جون 1964۔ صفحہ: 32۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  2. "India Mourning Nehru, 74, Dead of a Heart Attack; World Leaders Honor Him"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ 27 مئی 1964۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  3. Soutik Biswas (27 اگست 2009)۔ "Was Mr Shastri murdered?"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  4. Austin Granville (2003)۔ Working a democratic constitution: A history of the Indian experience۔ دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 215۔ ISBN 978-0-19-565610-7۔ OCLC 52992056۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  5. Jaffrelot Christophe (2003)۔ India's silent revolution: The rise of the lower castes in North India۔ لندن: C. Hurst & Co.۔ صفحہ: 131–142۔ ISBN 978-1-85065-398-1۔ OCLC 54023168۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  6. Kulke Hermann، Dietmar Rothermund (2004)۔ A History of India (4th ایڈیشن)۔ نیو یارک شہر: روٹلیج۔ صفحہ: 359۔ ISBN 978-0-415-32919-4۔ OCLC 57054139۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  7. Reynolds David (2001)۔ One world divisible: a global history since 1945۔ نیو یارک شہر: W. W. Norton۔ صفحہ: 244–247۔ ISBN 978-0-393-32108-1۔ OCLC 46977934۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  8. James F. Fisher، مدیر (1978)۔ Himalayan Anthropology: The Indo-Tibetan Interface۔ ہیگ: Mouton۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-3-11-080649-6۔ OCLC 561996779۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  9. Tarlo Emma (2001)۔ Unsettling memories: narratives of the emergency in Delhi۔ برکلے، کیلیفورنیا: University of California Press۔ ISBN 978-0-520-23120-7۔ OCLC 46421940۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  10. Arun Jaitley (5 نومبر 2007)۔ "A tale of three Emergencies: real reason always different"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ OCLC 70274541۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  11. Bruce Bueno de Mesquita (2009)۔ Predictioneer's game: Using the logic of brazen self-interest to see and shape the future (1st ایڈیشن)۔ نیو یارک شہر: Random House۔ صفحہ: xxiii۔ ISBN 978-0-8129-7977-0۔ OCLC 290470064۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  12. Vijay Sanghvi (2006)۔ The Congress, Indira to Sonia Gandhi۔ دہلی: Kalpaz Publications۔ صفحہ: 114–122۔ ISBN 978-8178353401۔ OCLC 74972515۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  13. "Indira Gandhi becomes Indian prime minister – Jan 19, 1966"۔ ہسٹری (امریکی ٹی وی نیٹ ورک)۔ A&E Networks۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  14. John A. Guidry، Michael D. Kennedy، Mayer N. Zald (2000)۔ Globalizations and social movements: Culture, power, and the transnational public sphere۔ این آربر، مشی گن: University of Michigan Press۔ صفحہ: 319۔ ISBN 978-0-472-06721-3۔ OCLC 593248991۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  15. Barbara Crossette (6 جنوری 1989)۔ "India Hangs Two Sikhs Convicted In Assassination of Indira Gandhi"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  16. "1984: Rajiv Gandhi wins landslide election victory"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  17. "Rajiv Gandhi takes oath as India's prime minister"۔ Deseret News۔ نئی دہلی۔ Associated Press۔ 31 دسمبر 1984۔ ISSN 0745-4724۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  18. Barbara Crossette (18 ستمبر 1988)۔ "New Opposition Front in India Stages Lively Rally"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  19. ^ ا ب Barbara Crossette (2 دسمبر 1989)۔ "Indian opposition chooses a premier"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  20. Inder Malhotra (23 مارچ 2015)۔ "Mandal vs Mandir"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ Indian Express Group۔ OCLC 70274541۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  21. Barbara Crossette (30 اکتوبر 1990)۔ "India ready to bar Hindu move today"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  22. ^ ا ب Barbara Crossette (8 نومبر 1990)۔ "India's Cabinet Falls as Premier Loses Confidence Vote, by 142-346, and Quits"۔ نیو یارک ٹائمز۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  23. Barbara Crossette (6 نومبر 1990)۔ "Dissidents Split Indian Prime Minister's Party"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  24. Sanjoy Hazarika (10 نومبر 1990)۔ "Rival of Singh Becomes India Premier"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  25. "Chandra Shekhar critical"۔ دی ہندو۔ نئی دہلی: The Hindu Group۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 8 جولائی 2007۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  26. ^ ا ب پ ت "Narasimha Rao – a reforming PM"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 23 دسمبر 2004۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  27. J. Bradford DeLong (جولائی 2001)۔ "India Since Independence: An Analytic Growth Narrative"۔ In Search of Prosperity: Analytic Narratives on Economic Growth۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 – Research Gate سے 
  28. "Timeline: Ayodhya holy site crisis"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 6 دسمبر 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  29. "India releases pictures of nuclear tests"۔ سی این این۔ نئی دہلی: Turner Broadcasting System۔ CNN۔ 17 مئی 1998۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  30. "US imposes sanctions on India"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 13 مئی 1999۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  31. Daniel Morrow، Michael Carriere (1 جنوری 1999)۔ "The economic impacts of the 1998 sanctions on India and Pakistan"۔ The Nonproliferation Review۔ روٹلیج۔ 6 (4): 1–16۔ ISSN 1073-6700۔ doi:10.1080/10736709908436775۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018Taylor & Francis سے 
  32. Ajai K. Rai (2009)۔ India's nuclear diplomacy after Pokhran II۔ Foreword by Ved Prakash Malik۔ دہلی: Longman۔ ISBN 978-8131726686۔ OCLC 313061697۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  33. Feroz Hassan Khan (2012)۔ Eating grass: The making of the Pakistani bomb۔ Stanford: Stanford University Press۔ صفحہ: 281۔ ISBN 978-0-8047-8480-1۔ OCLC 816041307۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  34. George Iype (21 فروری 1999)۔ "Vajpayee, Sharief sign Lahore Declaration"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ لاہور۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  35. "Jayalalitha: Actress-turned-politician"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 14 اپریل 1999۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  36. "India was ready to cross LoC, use nuclear weapons in Kargil war"۔ Business Standard۔ BS Web Team۔ نئی دہلی: Business Standard Ltd۔ 3 دسمبر 2015۔ OCLC 496280002۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  37. "Indian election: What they said"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 8 اکتوبر 1999۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  38. ^ ا ب "Atal Bihari Vajpayee's five steps that changed India forever"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ ET Online۔ نئی دہلی: The Times Group۔ 27 دسمبر 2017۔ OCLC 61311680۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  39. Arvind Panagariya (25 دسمبر 2012)۔ "A leader of substance: Along with Narasimha Rao, Atal Bihari Vajpayee laid the foundation of new India"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ The Times Group۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  40. Gilinskiy Yakov، Thomas Albert Gilly، Vladimir Sergevnin (2009)۔ The ethics of terrorism: Innovative approaches from an international perspective (17 lectures)۔ اسپرنگ فیلڈ، الینوائے: Charles C. Thomas Publishers۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-0-398-07995-6۔ OCLC 731209878۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  41. ^ ا ب "India swears in its first Sikh PM"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 22 مئی 2004۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  42. Damian Grammaticas (24 جنوری 2007)۔ "Indian economy 'to overtake UK'"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ دہلی۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  43. Jean Drèze (23 اگست 2008)۔ "Learning from NREGA"۔ دی ہندو۔ The Hindu Group۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  44. "President gives assent to law on right to information"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ نئی دہلی: The Times Group۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 25 جون 2005۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  45. Jayshree Bajoria (22 جولائی 2009)۔ "India-Afghanistan Relations"۔ Council on Foreign Relations۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  46. "India announces more Afghan aid"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 4 اگست 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  47. Amitabh Roychowdhury (6 دسمبر 2005)۔ "India, Russia sign agreements to strengthen ties"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ ماسکو۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  48. Chidanand Rajghatta (2 اکتوبر 2008)۔ "Finally, it's done: India back on the nuclear train"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ واشنگٹن ڈی سی: The Times Group۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  49. Seema Sirohi (9 اکتوبر 2008)۔ "A win-win situation for India"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ آؤٹ لک۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  50. "Senate approves nuclear deal with India"۔ سی این این۔ واشنگٹن ڈی سی: Turner Broadcasting Network۔ 1 اکتوبر 2008۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  51. Thomas L. Friedman (17 فروری 2009)۔ "No Way, No How, Not Here"۔ نیو یارک ٹائمز۔ نئی دہلی: A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  52. Nick Schifrin (25 نومبر 2009)۔ "Mumbai Terror Suspects Charged a Year After Attacks"۔ اے بی سی نیوز۔ Disney–ABC Television Group۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  53. "More Congress, less UPA"۔ Business Standard۔ B. S. Reporter۔ نئی دہلی: Business Standard Ltd۔ 17 مئی 2009۔ OCLC 496280002۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  54. "Manmohan gets presidential invite to form govt"۔ این ڈی ٹی وی۔ نئی دہلی۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 21 مئی 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  55. "Prime Minister Manmohan Singh directly responsible for coal scam: Arun Jaitley"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ اندور: The Times Group۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 19 اگست 2012۔ OCLC 61311680۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  56. "2G scam: Disappointed over Manmohan Singh's refusal to appear before JPC, says Yashwant Sinha | Latest News & Updates at Daily News & Analysis"۔ زی نیوز۔ Diligent Media Corporation۔ Asian News International۔ 9 اپریل 2013۔ OCLC 801791672۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  57. Deepshikha Ghosh، مدیر (17 مئی 2014)۔ "Prime Minister Manmohan Singh Resigns After 10 Years in Office"۔ این ڈی ٹی وی۔ نئی دہلی۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  58. "Manmohan Singh to continue as PM till Modi assumes office"۔ انڈیا ٹوڈے۔ نئی دہلی: ارون پوری۔ 17 مئی 2014۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  59. "Manmohan Singh resigns bringing to an end his 10-year tenure"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ نئی دہلی: The Times Group۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 17 مئی 2014۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  60. "Narendra Modi appointed Prime Minister, swearing in on مئی 26"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ نئی دہلی: The Times Group۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 20 مئی 2014۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اپریل 2018 
  61. Surajeet Das Gupta، Inderjit Badhwar (15 مئی 1987)۔ "Under the Constitution, does the President have the right to remove the Prime Minister?"۔ انڈیا ٹوڈے۔ ارون پوری۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  62. "Archived copy" (PDF)۔ 16 اپریل 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016 
  63. ^ ا ب "Prime Minister and the Cabinet Ministers"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  64. "Ministers of State (Independent Charge)"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  65. "Ministers of State (without Independent Charge)"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  66. "PM's answers to Parliamentary Questions"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  67. "Recent Visit of the Prime Minister"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  68. "Recent National Messages of the PM"۔ pmindia.nic.in۔ 20 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جون 2008 
  69. M. Laxmikanth (2014)۔ Governance in India (2nd ایڈیشن)۔ نوئیڈا: McGraw-Hill Education (شائع 25 اگست 2014)۔ صفحہ: 3.16–3.17۔ ISBN 978-9339204785 
  70. George Iype (31 مئی 2006)۔ "What does the Cabinet Secretary do?"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2017 
  71. "The Current System"۔ Department of Personnel and Training, حکومت ہند۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2018 
  72. Sandeep Unnithan (22 دسمبر 2016)۔ "New chief on the block"۔ انڈیا ٹوڈے۔ ارون پوری۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2018 
  73. M. Laxmikanth (2014)۔ Governance in India (2nd ایڈیشن)۔ نوئیڈا: McGraw-Hill Education (شائع 25 اگست 2014)۔ صفحہ: 7.6۔ ISBN 978-9339204785 
  74. ^ ا ب "Service Profile for the Indian Administrative Service" (PDF) (بزبان انگریزی)۔ Department of Personnel and Training, حکومت ہند۔ 09 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2017 
  75. ^ ا ب Krishna Kumar Tummala (1996)۔ Public Administration in India۔ ممبئی: Allied Publishers۔ صفحہ: 154–159۔ ISBN 978-8170235903۔ OCLC 313439426 
  76. ^ ا ب M. Laxmikanth (2014)۔ Governance in India (2nd ایڈیشن)۔ نوئیڈا: McGraw-Hill Education (شائع 25 اگست 2014)۔ صفحہ: 7.37۔ ISBN 978-9339204785 
  77. ^ ا ب "Organisation Under DOPT"۔ Department of Personnel and Training, حکومت ہند۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2018 
  78. "All about CBI director's appointment as PM Modi, CJI Kehar, Kharge meet to vet names"۔ انڈیا ٹوڈے۔ نئی دہلی: ارون پوری۔ 16 جنوری 2017۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2018 
  79. Bhupinder N. Kirpal، مدیر (2013)۔ Supreme but not infallible: Essays in honour of the Supreme Court of India (6th impr. ایڈیشن)۔ نئی دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 97–106۔ ISBN 978-0-19-567226-8۔ OCLC 882928525۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018 
  80. V. R. Krishna Iyer (7 اگست 2001)۔ "Higher judicial appointments – II"۔ دی ہندو۔ The Hindu Group۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2018 
  81. "Rajya Sabha – Role of The Leader of The House, Leader of the Opposition and Whips Brief History"۔ راجیہ سبھا۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2018 
  82. آئین ہند دفعہ 75-6
  83. "A Raise for Prime Minister Manmohan Singh?"۔ Wall Street Journal۔ 23 جولائی 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2012 
  84. "Pay & Allowances of the Prime Minister" (PDF)۔ pmindia.nic.in/۔ 18 جولائی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2013 
  85. "Modi ditches BMW, opts for a Range Rover"۔ دی ہندو۔ Special Correspondent۔ نئی دہلی: The Hindu Group۔ 15 اگست 2017۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  86. Saurabh Sinha (8 جنوری 2018)۔ "New VVIP planes: Replacements for aged Air India One to arrive this month – Times of India"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ نئی دہلی: The Times Group۔ OCLC 23379369۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  87. Dhiraj Nayyar (26 ستمبر 2010)۔ "Air India One, Seat No 59G – Indian Express"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ Indian Express Group۔ OCLC 70274541۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  88. "The men who protect PM Narendra Modi"۔ انڈیا ٹوڈے۔ نئی دہلی: ارون پوری۔ Mail Today Bureau۔ 16 اگست 2014۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  89. S. Prasad (22 فروری 2018)۔ "SPG takes over security arrangements for Modi"۔ دی ہندو۔ پدوچیری: N. Ram۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  90. ^ ا ب پ Priya Sahgal (7 جون 2004)۔ "Former presidents, prime ministers enjoy benefits at taxpayers expense"۔ انڈیا ٹوڈے۔ ارون پوری۔ ISSN 0254-8399۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اپریل 2018 
  91. ^ ا ب "Perks for life"۔ دی ہندو۔ The Hindu Group۔ 1 مئی 2012۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اپریل 2018 
  92. "Order of Precedence" (PDF)۔ راجیہ سبھا۔ President's Secretariat۔ 26 جولائی 1979۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2017 
  93. "Table of Precedence" (PDF)۔ وزارت داخلی امور، حکومت ہند، حکومت ہند۔ President's Secretariat۔ 26 جولائی 1979۔ 27 مئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2017 
  94. "Table of Precedence"۔ وزارت داخلی امور، حکومت ہند، حکومت ہند۔ President's Secretariat۔ 28 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2017 
  95. "National Defence Fund"۔ Prime Minister of India, حکومت ہند۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  96. ^ ا ب "Here's how you can avail tax deduction under Section 80G"۔ زی نیوز۔ Zee Media Corporation Ltd۔ 10 جنوری 2018۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  97. Hansa Malhotra (12 جون 2018)۔ "The Army Welfare Fund That You Might Think is a Hoax, But Isn't"۔ دی کوینٹ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  98. "PM National Relief Fund"۔ Prime Minister of India, حکومت ہند۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2018 
  99. ^ ا ب S. Rajendran (13 جولائی 2012)۔ "Of Deputy Chief Ministers and the Constitution"۔ دی ہندو۔ بنگلور: The Hindu Group۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 

بیرونی روابط

ترمیم