حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

کمیشن رپورٹ

تعارف ترمیم

  1. حکومت پاکستان نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیا گیا
  2. پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔

1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن

کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔

٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکشن میں درج ذیل ہدایات بھی شامل تھیں؛۔

١) کمیشن اپنے طریقہء عمل کے مطابق کام کرے گا اور اس کے تمام کارروائی خفیہ رکھی جائے گی۔

٢) کمیشن کو اپنی کارروائی کے دوران میں تنیوں مسلح افواج کے نمائندوں کی معاونت حاصل رہے گی۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے ہر فرد کا یہ فرض ہوگا کہ وہ کمیشن کو جب کبھی ضرورت پڑے مطلوبہ تعاون فراہم کرے گا۔

٣) کمیشن اپنی طے کردہ تاریخ اور مقام پر تحقیقات کا آغاز کرے گا اور تین ماہ کی مدت کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے بعداپنی مکمل رپورٹ صدر کو پیش کر دے گا۔

٤) کمیشن کا ایک غیر رسمی اجلاس31دسمبر1971ء کو لاہور میں منعقد ہوا تاکہ تحقیقات کے دائرہ کار اور دیگر ضروری امور و معاملات کا تعین کیا جاسکے۔ اس اجلاس میں کمیشن کے طریقہ کار اور رہنما خطوط بھی طے کیے گئے۔ انتظامی اور مالیاتی امورو مسائل پر بھی غور کیا گیا اور ایک تفصیلی خط وزارت انتظامی امور کو ارسال کیا گیا تاکہ ضروری ساز و سامان، مطلوبہ اسٹاف اور رقم کمیشن کو کام شروع کرنے سے قبل فراہم کی جاسکے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ روالپنڈی میں یہ تحقیقات کی جائیں تاکہ کمیشن کو جنرل ہیڈ کوارٹر اور دیگر وزارتوں سے مطلوبہ ریکارڈ بآسانی دستیاب ہو سکے۔

٥) چونکہ اس انکوائری کمیشن کی تمام تر کارروائی خفیہ رکھی جانی تھی جس کا کوئی سابقہ تجربہ موجود نہ تھا چنانچہ سوال یہ پیدا ہوا کہ اسے کس طرح شروع کیا جائے؟ فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں پہلے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔ یکم جنوری 1972ء کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے عوام اور مسلح افواج سے درخواست کی گئی کہ وہ 10جنوری 1972ء تک کشمن کے موضوع کے حوالے سے وہ تمام تر متعلقہ معلومات اور اطلاعات فراہم کریں جو ان کے علم میں ہیں۔

٦) اس کے علاوہ کشمن نے ان تمام افراد کو جو اس واقعے کے رونما ہونے کے ذمے داریوں پر فائز تھے خطوط اور سوال نامے ارسال کیے تاکہ وہ اس سلسلے میں پوری تفصیل اوروضاحت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ مطلوبہ کاغذات معلومات اور دستاویزات کی ایک فہرست بھی مرکزی حکومت کی متعدد وزارتوں کے سیکرٹریوں کو روانہ کی گئی۔ ان اقدامات کا بڑا مثبت اور حوصلہ افزا جواب موصول ہوا اور جلد ہی بہت بڑی پیمانے پر کمیشن سے مختلف رابطوں کا آغاز ہو گیا۔

٧) 20 جنوری1972ء کو کمیشن نے ملک کی سترہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو خطوط ارسال کیے جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تحقیقاتی کمیشن کوزیر غور معاملات کے حوالے سے اپنے خیالات، نظریات اور رائے سے آگاہ کریں۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھاکہ وہ ذاتی طور پر یا کسی نمائندے کے ذریعے اس کمیشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اور مثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی نمائندے کے ذریعے اس کمیشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اورمثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی رہنماؤں نے کشمن کو آگاہ کیا کہ چونکہ انکوائری کا دائرہ کار محض فوجی پہلوؤں تک ہی محدود رہے گااور تمام تر کارروائی خفیہ طور پر مکمل کی جائے گی لٰہذا وہ کمیشن کی معاونت سے معذور ہیں۔ تاہم انھیں بتایا گیا کہ کشمن کے دائرہ کار کو اس قدر محدود بھی نہیں رکھا جائے گا کہ ان دیگر تمام پہلوؤں کو سرے سے نظر انداز اور خارج کر دیا جائے جو کسی نہ کسی طرح اس انکوائری کمیشن پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ وضاحت سننے کے بعد وہ معاملے کے سیاسی پہلوؤں پر اس کمیشن سے ضروری تعاون پررضامند ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں 23 سیاسی رہنماؤں نے اپنی قیمتی آرا سے اس کمیشن کو مستفید کیا۔

٨) اسی اثناء میں کمیشن کے علم میں یہ بات آئی کی دفاعی افواج سے تعلق رکھنے والے بیشتر افسران کمیشن کے روبرو پیش ہو کر شہادتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں خدشہ ہے کہ ایسا کرنے پر انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ کمیشن نے صدر پاکستان سے رجوع کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ اس امر کی عوامی سطح پر ضمانت دیں کی کمیشن کے روبر شہادت دینے والے کسی بھی فرد کو اس سلسلے میں انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ 11 جنوری1972ء کے اخبارات میں یہ سرکاری اعلان شائع کر دیا گیا کہ کشمن کی تمام تر کارروائی مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی اور اس کے روبرو پیش کیے جانے والے تمام بیانات اور گواہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایسے افراد کو کسی قسم کی دیوانی یا فوجداری مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاوقتیکہ ایسے بیانات یا شہادتیں، جھوٹی اور غلط ثابت نہ ہوں۔

٩) کمیشن کی سفارش پر جنرل ہیڈ کوارٹر نے بھی ایک سرکلر کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو مطلع کر دیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر تحریری بیانات کے ذریعے یا ذاتی طور پر پیش ہو کر کمیشن کے روبرو شہادت دے سکتے ہیں تاہم بعد میں کمیشن نے اس سرکلر کو ناکافی سمجھتے ہوئے مسلح افواج کے سربراہان سے درخواست کی کہ وہ ایسے خطوط جاری کر دیں جن میں اس بات کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہو کہ دفاعی اہلکاروں کو کمیشن کے روبرو پیش ہو کر بیان یا شہادت دینے کے عوص کسی صورت بھی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ محسوس نہ ہو چنانچہ مسلح افواج کے سربراہوں کی جانب سے باقاعدہ یقین دہانی کے بعد دفاعی اور فوجی اہلکاروں نے پہلے کے مقالبے میں نسبتاَ َ زیادہ آزادی کے ساتھ کمیشن کو اپنی معلومات سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں، گواہوں پر جرح کے دوران یا اس کے بعد ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ کسی بھی اہلکار کو انتقام کا نشانہ بنایا گیاہو۔ ماسوائے ایک نیول آفیسر کی مبینہ شکایت کے جس کی تحقیق نیوی کے حکام کر رہے تھے۔ کمیشن نے بالخصوص اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس سے تعاون کرنے والے کسی بھی فرد کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔

١٠) 15جنوری 1972ء کو کمیشن نے اپنے ملٹری ایڈوائزر کے ہمراہ قصور کے حسینی والا سیکٹر کا دورہ کیا اور کور اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سے بات چیت کی۔ اس کے علاہو محاذ جنگ پر موجود جوانوں سے بھی ملاقات کی جو اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ جنگ کے دوران میں فوجی آپریشن کیسے کیا جاتا ہے؟ کمیشن دیگر سیکٹرز کا دورہ بھی کرنا چاہتا تھا تاہم وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

١١) وزارت صدارتی امور نے اپنے 12 جنوری 1972ء کے خط میں راولپنڈی میں کیے گئے کمیشن کے بیٹھنے کے انتظامات سے مطلع کیا۔ دفتری جگہ اور دیگر سازوسامان نیشنل ڈیفنس کالج میں فراہم کیا گیا تھا جہاں اسٹاف اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ وزارت خزانہ اب تک بجٹ تجاویز پر غور کرنے میں مشغول تھی تاہم امید تھی کی کچھ رقم بہت جلد فراہم کردی جائے گی۔

١٢) 12 جنوری1972ء کو کمیشن کی معاونت کرنے والے مسلح افواج کے تینوں نمائندوں کے ناموں سے مطلع کیا گیا جو یہ تھے۔

i) ائیر کموڈور ظفر محمود (پاکستان ائیر فورس) ii)کرنل صابر حسین قریشی(آرمی) iii) کپٹن اے ولی اللہ (نیوی)

کمیشن نے دیگر رسمی کارروائیوں کی تکمیل سے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ17 جنوری1972کو روالپنڈی پہنچ کر بلا کسی مزید تاخیر کے اپنے دفاتر کی تنظیم کا عمل شروع کر دیاجائے ۔

١٣) 17 جنوری1972ء کو کمیشن کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں ہوا۔ اس وقت تک تین سو پچاس سے زائد افراد سے جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا اس کشمن کو مختلف نوعیت کی معلومات اور اطلاعات فراہم ہو چکی تھیں۔ ان تمام کی ضروری جانچ پڑتال کی گئی تاکہ ان گواہوں کا ابتدائی انتخاب کیا جاسکے۔ جنہیں اس کمیشن کے روبر طلب کیا جائے گا۔ وہ افراد جن کے بیانات محض افواہوں پر مبنی تھے جن کا ذریعہ اخباری رپورٹیں تھیں انھیں طلب نہیں کیا گیا، تاہم اس نوعیت کی اطلاعات مزید تحقیق اور جانچ پڑتال کی غرض سے متعلقہ وزارت کو ارسال کردی گئیں۔ اس سلسلے میں سیکرٹری دفاع اور اس وقت کے قائم مقام آرمی کمانڈر انچیف سے طریقہء کار سے متعلقہ امور کے حوالے سے ضروری صلاح مشورہ بھی کیا گیا۔

١٤) کمیشن کی کارروائی کے آغاز سے قبل صحافیوں کی درخواست پر کمیشن کے سربراہ نے ایک پریس کانفرس سے خطاب کیا جس کے دوران میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ ایسے تمام گواہان جو کمیشن کے روبرو شہادت دیں گے انھیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ سے مستثنی سمجھا جائے گا اور انھیں انتقام یا خوف و ہراس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کمیشن کے سربراہ نے جو کچھ کہا ان میں سے چند نکات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں؛

الف) کمیشن کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان کے کسی بھی شہری کو معلومات حاصل کرنے کے کی غرض سے طلب کر سکتا ہے۔ ضرورت پیش آنے پر کمیشن کسی بھی فرد کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے وارنٹ بھی جاری کر سکتا ہے۔ تاوقتیکہ قانون اسے ذاتی طور پر کمیشن کے روبرو حاضری سے مستثنی قرار نہ دے۔

ب) چندافسران جو مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر یہاں پہنچ چکے تھے، ہتھیار ڈالے جانے کے مروجہ حالات و واقعات کے بارے میں شہادتیں دینے کے لیے دستیاب ہیں۔ اگر ان کے بیانات اور شہادتیں تسلی بخش نہ پائی گئیں تو ایسی صورت میں کمیشن حکومت سے کہے گا کہ وہ بھارت سے جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہونے تک کمیشن کو دیے گئے وقت کی میعاد بڑھا دے۔

ج) کمیشن کی کارروائی کو خفیہ رکھنا قومی مفاد کے عین مطابق ہے کیونکہ کمیشن کے روبر و پیش کی جانے والی تمام اطلاعات و معلومات نہایت حساس نوعیت کی ہوں گی جنہیں اس وقت عام کرنا، شائع کرنا یا نشر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ جب کہ مغربی سرحدوں پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہوئی ہیں، تاہم یہ کمیشن وقتاَ َ فوقتاَ َ عوام کی اطلاع کے لیے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر ہینڈ آؤٹ جاری کرتا رہے گا۔

د) ضرورت پڑنے پر یہ کمیشن مسلح افواج کے تکنیکی ماہرین کی خدمات سے بھی ضروری استفادہ کرتا رہے گا۔ تاکہ وہ ان امور کے سلسلے میں کمیشن کی معاونت کر سکیں تاہم وہ کسی بھی صورت میں کمیشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے مجاز نہیں ہوں گے۔

١٥) 25 جنوری1972ء کو عید کی تعطیلات شروع ہونے سے قبل یہ کمیشن ان تمام دستیاب مواد کو ضروری جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان افراد کا انتخاب کرچکا تھا جنہیں اس کے روبرو پیش ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بے حد اہم شخصیت کی شہادت بھی ریکارڈ کر لی گئی تھی جو 24 دسمبر1972کو روالپنڈی میں موجودتھی۔ مسلسل دو دنوں تک اس کمیشن نے جنرل ہیڈ کوارٹر کا بھی دورہ کیا تھا تاکہ وہ اس کے مختلف شعبہ جات اور ان کی کارگردگی سے آگاہی حاصل کر سکے۔ کمیشن نے ائر آپریشن سنٹر کا بھی دورہ کیا۔ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں نے نقشہ جات چارٹ اور تقاریر کی مدد سے کمیشن کو بریفنگ بھی دی۔ اس موقع پر مشرقی پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی اس کمیشن کو دکھائی گئی۔

١٦) 31جنوری میں کمیشن نے دوبارہ اپنی کارروائی شروع کی اور اس وقت سے اب تک مسلسل کام میں مصروف رہا ماسوائے ان مختصر وقفوں کے جب کمیشن کے سربراہ یا کسی اور رکن کو اپنی دیگر ذمے داریوں کے سلسلے میں کوئی مصروفیت درپیش ہوئی ہو۔ 17مارچ سے 26 مارچ تک کمیشن کو اپنی کارروائی ملتوی کرنا پڑی کیوں کہ کمیشن کے سربراہ کو ایک اہم مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں لاہور سپریم کورٹ بینچ میں بیٹھنا تھا۔ علاوہ دیگر اراکین کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمیشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمیشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی اور کامل توجہ کی ضرورت تھی جبکہ کمیشن کے سربراہ اور دیگر اراکین کو اپنے متعلقہ دفاتر کے اضافی اُمور بھی دیکھنے پڑتے تھے تاہم کام کی تکمیل کے پروگرام اور کشمن کے روبرو موجود تمامتر مواد کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی غرض سے مخصوص اوقاتِ کار کے علاوہ بھی کام کرنا پڑا یہاں تک کہ اتوار اور عام تعطیلات کے دوران میں بھی کشمن برابر کام کرتا رہا اس کے باوجود بھی یہ کام تین ماہ کی مدت میں مکمل نہ ہو سکا۔ اپریل کے شروع میں اٹارنی جنرل نے کشمن کو مطلع کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ چند اہم گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا بھی باقی تھی چنانچہ صدر پاکستان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ مقرر کردہ میعاد کو 31 مئی1972ء تک بڑھا دیں۔ جس کی انھوں نے اجازت دے دی۔ مئی 1972ء کے پہلے ہفتے میں کمیشن کے سربراہ کو امریکا جاناپڑا جہاں انھیں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ 5مئی سے 21مئی تک اُن کی عدم موجودگی کے دوران میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی تکمیل کے لیے ان کا انتظار کرنا ضروری تھا اور جب 22مئی 1972ء کو واپسی کے بعد انھوں نے رپورٹ کی تکمیل کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ 31 مئی تک بھی اُسے تیار کرنا ممکن نہیں چنانچہ ایک بار پھر صدر پاکستان سے درخواست کردہ تاریخ میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا گیا!

١٧) کمیشن نے شہادتوں کی قلم بندی کا کام یکم فروری 1972ء سے شروع کیا تھا جو26 اپریل 1972ء بیانات کی ضروری جانچ پڑتال اور معائنے کی غرض سے کمیشن کو مجموعی طور پر (٥٧) مرتبہ بیٹھنا پڑا یعنی کل ملا کر کمیشن نے 213 افراد کے بیانات قلم بند کیے جن کی درجہ وار تفصیل مندرجہ ذیل ہے؛

1) آرمی i)ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔61 ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔27

2) ائیر فورس i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔39 ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔6

3) نیوی؛ i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔14 ii)ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔7

4) سیاسی لیڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔23

5) سول ملازمین؛ i)ملازم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔17 ii) ریٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔6

6) صحافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3

7) عوامی نمائندے۔۔۔۔۔۔۔۔۔10

١٨) ان گواہوں کے بیانات چار ہزار صفحات پر ٹائپ کیے گئے جب کہ ان بیانات کے سلسلے میں پیش کی جانے والی تین سو چوہتر دستاویزات بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں ٹائپ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کمیشن کے مختلف محکمہ جات اور شعبوں کے اُن کاغذات اور دستاویزات کی بھی ضروری جانچ پڑتال کرنا پڑی جو اس سلسلے میں اس کے روبر پیش کیے گئے تھے۔ کمیشن نے متعدد سرکاری ایجنیسیوں سے بہت بڑی تعداد میں ایسی رپورٹس حاصل کیں جن کا تعلق زیر غور اُمور و معاملات کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ کمیشن کی معلومات کے لیے کچھ تجزیاتی مطالعے بھی مرتب کیے گئے۔ کمیشن نے ایسے امور اور معاملات کی پولیس کے ذرائع سے تحقیقات کی ہدایات بھی جاری کیں جو گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا ل اور معائنے کے درران اُس کے علم میں آئے تھے۔ کارروائی کے آخری مراحل تک عوام کی جانت سے تجاویز اور مشورے بھی موصول ہوتے رہے جن کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ کمیشن نے بذاتِ خود تمام گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتال اور جرح کے فرائض ادا کیے۔

١٩) 21 جنوری1972ء کو کمیشن نے وزارتِ صدارتی امور کو ایک خط ارسال کیا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا گیا تھا کہ حکومت اس کشمن کے روبرو اپنی نمائندگی کی خواہش مند ہے یا اس سلسلے میں کوئی خاص نقطہ نظر یا کوئی گواہ پیش کرنا چاہتی ہے؟ وزارت نے کمیشن کو مطلع کیا کہ مسٹر یحٰیی بختیار اٹارنی جنرل حکومت پاکستان حکومت کی نمائندگی کریں گے اور ضروری دستاویزات اور گواہان کو پیش کرتے ہوئے کمیشن کی معاونت کریں گے۔ جبکہ صدر پاکستان کے اسپیشل اسسٹنٹ مستر رفیع رضا ایسے بیانات داخل کریں گے جو اُن کے علم میں موجود حقائق و واقعات پر مشتمل ہوں گے جن میں وہ موجودہ صدر کے 20دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے خیالات اور آراء بھی پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل یحٰیی بختیار اور مسٹر رفیع رضا نے کمیشن سے چند ملاقاتیں بھی کیں۔ بعد میں مسٹر رفیع رضا رسمی طور پر ایک گواہ کی حیثیت سے کمیشن کے روبرو پیش ہوئے تاکہ پیپلز پارٹی کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی ترجمانی کرسکیں۔ چند گواہوں کے دوران میں اٹارنی جنرل خود بھی تھے اور انھوں نے کچھ گواہاں پر خود بھی جرح کی تاہم انھوں نے حکومت کی جانت سے کسی قسم کی شہادت پیش نہیں کی۔

٢٠) آرمی ائیر فورس اور نیوی کے اُن متعدد افسران کے بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد جو ہتھیار ڈالنے سے کچھ قبل یا بعد مشرقی پاکستانی سے واپس آئے تھے کمیشن نے محسوس کیا کہ مشرقی کمان کے افسران سے مناسب انصاف کا اولین تقاضا یہ ہے کہ کلیدی عہدوں پر فائز اُن افسروں کے بیانات اور شہادتین بھی قلم بند کی جانی چاہئیں جو بھارت کی جنگی قید میں تھے۔ چنانچہ اس خیال کے مدِ نظر حکومت سے معلوم کیا گیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انٹر نیشنل ریڈ کراس کے توسط سے ضروری اقدامات کرتے ہوئے پاکستانی فوجی افسران کے بیانات کمیشن کے لیے حاصل کیے جاسکیں۔ جن میں سے چند یہ تھے!

١) لفٹننٹ جنرل اے اے کے نیازی ٢) مجیر جنرل راؤ فرمان علی ٣) رئیر ایڈ مرل ایم شریف ٤) ائیر کموڈور انعام الحق

آرمی کے دو لفٹننٹ کرنل اور نیوی کے دو کمانڈوروں نے جو اُس وقت جنگی قیدی کی حیثیت سے بھارت میں تھے۔ اس کمیشن کو تحریری پیغامات ارسال کرتے ہوئے یہ دراخواست کی کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے تک انکوائری کمیشن کی کارروائی مکمل نہ کی جائے کیوں کہ ان کے بیانات اور گواہیاں بھی قلم بند کی جانی بہت ضروری ہیں۔ ایک لفٹننٹ کرنل نے اس کمیشن کو اپنے پیغام کے ذریعے مطلع کیا کہ اُن کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے جو اس کمیشن کو ایک مصنفانہ فیصلے تک پہنچنے میں کافی مدد دے گا!۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ کسی سرحدی چوکی پر اُن کی شہادتیں قلم بند کرنے کا انتظام کیاجائے۔ یہ تمام پیغامات حکومت کو ارسال کر دیے گئے جس کے جواب میں وزارتِ صدارتی امور نے کہا کہ حکومت نے اس پورے معاملے کا بڑے غور سے جائزہ لیا ہے تاہم انٹرنشنل ریڈ کراس کے ذریعے اس قسم کے بیانات اور شہادتوں کو فی الحال قلم بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں خطوط رپورٹ کے اس باب سے منسلکہ ہیں۔

٢١) کمیشن کو حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون اور مدد فراہم کی گئی اور اس کی تمام ضروریات اور مطالبات کو وزارتِ صدارتی اُمور اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے فوری طور پر نہایت مستعدی کے ساتھ پورا کر دیا گیا۔ کمیشن کو نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی سے بھی ضرورت کے مطابق ہر ممکن تعاون فراہم کیا گیا جس کے احاطے میں کمیشن کے دفاتر قائم تھے

٢٢) یہ کمیشن اُن تمام افراد اور اداروں کا شکر گزار ہے جنھوں نے اس مشکل کام کی تکمیل میں اسے ہر ممکن تعاون اور امداد فراہم کی اس سلسلے میں کمیشن خصوصی طور پر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) الطاف قادری، ملٹری ایڈوائزر اور تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کا ممنون ہے جنھوں نے مشنری جذبے سے کام لیتے ہوئے اس کمیشن سے ضروری تعاون کیا۔ ان حضرات نے انکوائری کے فوجی پہلوؤں سے نہ صرف قابلِ قدر امداد فراہم کی بلکہ اطلاعات اور اسٹاف اسٹڈیز کی ترتیب میں بھی اس کمیشن کا ہاتھ بٹایا۔ ہم ائیر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان اور وائس ایڈمرل ( ریٹائرڈ) ایک ایم ایس چوہدری کے بھی بطورِ خاص ممنون اور شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ائیر فورس اور نیوی کے امور و معاملات پر ہمیں اپنی ماہرانہ رائے اور مشوروں سے نوازا۔

٢٣) کمیشن اُس تعاون کے لیے بھی ممنون ہے جو اسے اپنے تمام دفتری اسٹاف کی جانت سے سیکرٹری ایم اے لطیف کی سربراہی میں فراہم کیا گیا۔ اس کے علاوہ نیشنل ڈیفنس کالج کی جانب سے ہمیں فراہم کیے گئے وہ تمام اسٹینو گرافراز اور ٹائپسٹ حضرات بھی کمیشن کے شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے ان تھک محنت کا ثبوت دیا۔

باب دوم ترمیم

١) لفٹننٹ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی نے شیخی بگھارتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ بھارتی افواج اُن کی لاش پر سے گذر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہو سکتی ہے۔ اس اعلان کے دوسرے ہی دن پوری قوم غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے یہ وحشت ناک خبر سن کر سکتے میں آگئی کہ انھوں نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے شرم ناک انداز میں 16 دسمبر1971ء کو ڈھاکا ریس کورس کی ایک تقریب میں دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شکست تسلیم کرلی! اُسی شام پاکستانی افواج کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف اور خود ساختہ صدر پاکستان نے قوم کے نام اپنے ایک نشری پیغام میں اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی! ایک مرتبہ پھر قوم کو ایک شدید دھچکے کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب اس اعلان عزم کے دوسرے ہی دن انھوں نے قلابازی کھائی اور اعتراف شکست کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کو تسلیم کر لیا اور وہ بھی ایک ایسے مرحلے پر جب سرکاری اخباری رپورٹس کے مطابق مغربی محاذ پر پاکستانی افواج ہر سمت میں پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں برابر آگے بڑھ رہی تھی اور انھیں بہت کم جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ پوری قوم ان واقعات پر شدید احساس زیاں سے دوچار تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس شرم ناک انداز میں شکست تسلیم کرتے ہوئے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے گئے اور جنگ بندی کی پیش کش کو تسلیم کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ آخر کس لیے کیا گیا؟ ان تمام واقعات نے اس وقت کی فوجی حکومت کے حوالے سے قوم کے ذہن میں ان شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ یہ سب کچھ قوم اور وطن کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بے آبرو اور تباہ کرنے کی ایک مجرمانہ سازش تھی چنانچہ انھوں نے اس شکست کے ذمے داروں پر سر عام مقدمہ چلا کر انھیں قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ کر دیا۔ اس احتجاج نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ اس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر، مسٹر ذو الفقار علی بھٹو کو بڑی عجلت میں نیوریاک سے واپس آنے کے لیے کہا گیا جہاں وہ سیکورٹی کونسل میں پاکستان وفد کی قیادت کر رہے تھے اور 20 دسمبر1971ء کو جنرل آغا محمد یحیٰی خان نے انھیں اقتدار منتقل کر دیا۔

٢) ان حالات کے پس منظر میں موجودہ صدر نے بر سر اقتدار آنے کے بعد فوراَ َ بعد اس کمیشن کا تقرر کیا جس کا دائرہ کار میں (26 دسمبر 1971ء کے صدارتی نوٹیفکیشن کے مطابق) اس امر کی تحقیقات کرنا شامل تھا کہ کن حالات میں کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے اور بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں نیز وادئی جموں و کشمیر میں جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے۔

٣) اس کمیشن کے تمام اراکین پاکستانی عدلیہ کے رکن ہونے کے ناطے فوجی ہتھکنڈوں، فوجی حکمت عملیوں اور فن حرب سے ناآشنا ہیں تاہم یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے قیام اور وسیع دائرہ کار کا تعین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شخصیات کو ملوث کیے بغیر صداقت کو اس کے تمامتر پہلوؤں کے ساتھ اجاگر کیا جائے تاکہ عوام کے ذہنوں میں اُن اسباب اور وجوہات کی ایک صاف اور واضح تصویر آسکے جو اس تباہ کن واقعے کا موجب تھے۔ اور وہ یہ جان سکیں کہ عوام اور پریس کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی حقیقی نوعیت اور بنیاد کیا ہے؟ اگر یہ الزامات درست ہیں تو کون کون سے افراد اس میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ اور اگر یہ تباہی ان اسباب اور وجوہات کے نتیجے میں نہیں ہوئی تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا خامیاں اور نقائص تھے جو اس واقعے کا سبب بنے!

٤) مسلح افواج کی جانب سے چند افرادنے اس عدالتی کمیشن کے قیام پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کا عدالتی کمیشن ایک خالصتاَ َ تکنیکی اور فوجی معاملے پر تحقیقات کے لیے قطعاَ َ موزوں نہیں ہے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کی صدماتی فوجی شکست کے نتیجے میں اس نوعیت کی تحقیقات کو خلاف معمول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت میں بھی ایسے ہی ایک کمیشن کے قیام پر اعتراضات کیے گئے تھے اور اُس کی کارگردگی پر شبہات کا اظہار کیا گیا تھا جسے ایک فوجی افسر میجر جنرل ہنڈرسن بروکس کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وہ 1962ء کی چین، بھارت جنگ کی تحقیقات کرے، اس کے بعد اس موضوع پر لکھنے والے بہت سے مصنفین کا خیال ہے کہ ایک نسبتاََ َ زیادہ اعلیٰ اختیاراتی صدارتی کمیشن کے بہتر نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

٥) کمیشن کو اپنی محدودات کا مکمل احساس ہے اسے اس کام کے پھیلاؤ اور اس ضمن میں عائد ہونے والے ذمے داریوں کا بھی بھرپور ادراک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنانچہ سب سے پہلے کوشش یہی رہی کہ جہاں تک عملی طور پر ممکن ہو ہم ایک مختصر سے وقت میں فن حرب کے طور پر طریقوں اور تیکنیک سے آشنائی پیدا کر لیں، اس کی بلند تر سمتوں کے اصولوں کو سمجھیں، اس کی منصوبہ بندی کے عمل اور اس کے نفاذ کے طریقوں کو ذہن نشین کر لیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ملٹری ایڈوائزر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) قادر کی ماہرانہ اور قابل قدر معاونت کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور جنرل ہیڈکوارٹر کے متعدد سینئر افسران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ جنھوں نے دفاعی اور فوجی ٹیکنالوجی اور ان پر عمل درآمد کے بارے میں کمیشن کو اپنی قیمتی معلومات سے آگاہ کیا۔

٦) ہمیں یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے ہم اس شعبے میں بھرپور مہارت حاصل کرلی تاہم پہلا سبق ہم نے یہ سیکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں شکست کے اسباب تلاش کرنے سے بیشتر یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جنگ آخر ہوئی کیوں؟ جدید جنگیں اب الگ تھلگ انداز سے نہیں لڑی جاتیں نہ ہی اب ان میں ہتھیاروں یا جنرل شب کا کوئی مقابلہ ہوتا! کہا جاتا ہے کہ فوجی ہتھکنڈوں کا براہ راست تعلق سیاسی اور سفارتی حکمت عملی سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی، سماجی، معاشی اور جغرافیائی عوامل بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

٧) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے ہمارا ایک قومی، سیاسی نصب العین ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ جنگ کا بنیادی مقصد اور مطمح نظر، مربوط منصبوبہ بندی، جنگ کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لیے مناسب مشینری اور ان سب سے ماورا جنگی کوششوں میں قوم کی بھرپور شمولیت اور شرکت بے حد ضروری ہے۔ ان عوامل میں سے کیس ایک کی بھی عدم موجودگی تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ ان اسباب اور وجوہات کے صحیح طور پر سمجھنے کے لیے جن کی بنا پر قوم کی اس تباہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ہمیں لازمی طور پر ان تمام عوامل کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔

٨) چنانچہ انہی حقائق کے پیش نظر ہم نے اس رپورٹ کو چار جلدوں میں تقسیم کرنے فیصلہ کیا ہے پہلی جلد اصل رپورٹ پر مشتمل ہوگی۔ دوسری جلد میں اسٹاف کے جائزے شامل ہوں گے، تیسری جلد تحریری بیانات اور دیگر دستاویزات اور چوتھی جلد زبانی شہادتوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ اصل رپورٹ بھی پانچ حصوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے حصے میں تعارفی اور عام نوعیت کے، فقط دو ابواب شامل کیے جائیں گے۔ دوسرے حصے میں ہم مختصراَ َ اس سیاسی پس منظر کا ایک جائزہ پیش کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی اختصار کے ساتھ بیان کی جائے گی۔ جس میں اُن تمام حالات کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جائے گا جو مشرقی پاکستان میں بے چینی کا سبب بنے جس کے بعد ملک کے اُس حصے کے لیے مکمل خود مختاری کے مطالبے نے زور پکڑا۔ اس حصے کو بھی ہم مزید چار خاص ادوار کے حوالے سے تقسیم کریں گے۔ جو درجِ ذیل ہیں؛

الف) پہلا آئینی دور۔۔۔۔۔۔ اگست1947ء سے اکتوبر1958ء تک ب) پہلے مارشل لا کا زمانہ۔۔۔۔۔7 اکتوبر 1958 سے 6 جون 1962ء تک ج) دوسرا آئنی دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7 جون1962ء سے 24مارچ 1969ءتک د) دوسرے مارشل لا کازمانہ۔۔۔۔۔i) پچیس مارچ 1971ء تک اور ii) پچیس مارچ 1971ء سے 20 دسمبر1971 ء تک

یہ حصہ بھی سات ابواب پر مشتمل ہوگا جن میں سے آخری باب، آخری مارشل لا حکومت کے اداروں اور فیصلوں کے تجزئیے کے لیے مخصوص ہوگا۔ اسی باب میں ہم اس سوال کا بھی جائزہ لیں گے کہ ملک کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش تو نہیں کی گئی؟ اور اگر ایسا ہے تو، اس سازش کی اصل نوعیت کیا تھی اور کون کون اس میں شریک تھا؟

٩) اس آخری باب میں مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات اور وہاں کیے گئے فوجی ایکشن کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ دوسرے حصے میں بارہ ابواب کے تحت، ملک کے بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوئے، ہم مشرقی پاکستان پر بھارت کی کھلی جارحیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

١٠) اسی حصے میں ہم اُں بین الاقوامی تاثرات کے جائزے کو بھی شامل کریں گے جو مشرقی پاکستان میں کیے گئے، فوجی ایکشن کے نتیجے میں مرتب ہوئے تھے اور اُن نتائج پر بھی غور کریں گے جو ہمارے غیر ملکی سفارتی تعلقات پر، اثر انداز ہوئے۔

١١) بعد ازاں، ہم جنگ کے فوجی پہلوؤں، اس کے مقاصد، نظریے،منصوبہ بندی اور عمل درآمد پر غور کریں گے، جس کے بعد، مشرقی پاکستان، آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان کے جنگی محاذوں کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم مختلف ابواب میں، فضائی اور بحری آپریشنز کا ایک جائزہ لیتے ہوئے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے لیے حالات، مغربی پاکستان میں، بھارت کے یک طرفہ، اعلان جنگ بندی کی پیش کش اور اس کی منظوری اور آزاد کشمیر کے حوالے سے بات کریں گے۔

١٢) جنگ کی بلند تر سمت اور جنگی منصوبہ بندی کے سوال پر بھی علاحدہ سے گفتگو کی جائے گی کیوں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سب کچھ، ایک المناک لاتعلقی کا نتیجہ تھا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک بھی کہا کہ ہماری جنگی حکمت عملی، اس قدر مبہم، ہماری فوجی منصوبہ بندی اتنی ناقص اور ہمارے فیصلے اس درجہ تذبذب اور خامیوں سے پُر تھے کہ اس ساری تباہی کے نتیجے میں جو شرم ناک رسوائی ہمارے حصے میں اس کا اہم اور بنیادی سبب، جنگ کے آخری مرحلوں میں، سپاہیوں اور اسلحی سازو سامان کی کمی نہیں بلکہ اس نوعیت کی غیر منظم کارروائیوں اور غیر مربوط جنگی منصوبہ بندی میں پوشیدہ تھا۔

١٣) اس کمیشن کے روبرو، کچھ ایسے الزامات بھی آئے جن کا تعلق نہ صرف متعدد اعلیٰ فوجی افسران کے، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ خاص طور پر ان افسران سے بھی ہے جو دوسری مارشل لا حکومت کے دوران، مارشل لا ڈیوٹی کی انجام دہی پر مامور تھے۔ پانچویں حصے میں، معاملے کے اس پہلو پر بھی، گفتگو ہو گی۔

١٤) ایک علاحدہ باب میں ہم ان امور و معاملات کا بھی جائزہ لیں گے جو ہمارے علم میں لائے گئے ہیں جن کا تعلق، افسران کی شخصی اور ذاتی کوتاہیوں، تربیتی نقائص، فوجی ساز وسامان کی خامیوں کی غلط تعیناتی، نظم و ضبط کے اختیارات اور بھرتی اور ترقی کے اُس طریقہ کار سے ہے جس کے نتیجے میں سپاہیوں کا مورال اور کارکردگی، بری طرح متاثر ہوئی۔

١٥) ہم نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے ہم اپنی رپورٹ کو اُس طے شدہ دائرہ کار کی حدود ہی میں رکھیں تاہم تحقیقات کے دوران میں ہمارے دفاعی سیٹ آپ کے حوالے سے سنگین نقائص اور خامیاں، سامنے آئی ہیں جن کی طرف سے، ہم کسی صورت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس نوعیت کے اعلیٰ اختیارات کمیشن کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں اپنی خامیوں اور نقائص سے آگاہ کرے تاکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے، مستقبل میں اُن کا اعادہ نہ کریں۔ چنانچہ ہم اس رپورٹ کی طوالت کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی معذرت ضروری نہیں سمجھتے۔

١٧) جہاں کہیں ضروری تھا، رپورٹ کے ہمراہ ضمیمہ جات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تاہم شہادتوں اور دستاویزی ثبوت جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ علحیدہ جلدوں میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ بہر کیف، خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات اور دستاویزات،ان جلدوں میں شامل نہیں ہیں یہ معلومات، اصل شہادتوں اور دستاویزات کے ہمراہ، اُن فولڈرز میں دستیاب ہیں جو ایک مہر بند صندوق میں وزارت صدارتی امور کو پیش کر دیے جائیں گے۔

حصہ دوم (سیاسی پس منظر) پہلا باب ترمیم

١) پاک بھارت تنازع پر اپنی ایک کتاب میں برطانوی مصنف رسل برائینز نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ “ پرٹش انڈین ایمپائر کی1947ء میں دو علاحدہ ہندو اور مسلم ریاستوں کی شکل میں تقسیم ہی اس پر تشدد خطے کے مسائل کا آخری حل تھا۔“ کسی حد تک یہ بات درست ہے تاہم فاضل مصنف نے، جس اہم چیز کو نظر انداز کر دیا، وہ خود برطانوی سرکار کا اپنا کردار تھاجس کے نتیجے میں گذشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران میں برصغیر کی تاریخ، خون آشامیوں سے پُر رہی ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے، اس خطے پر ایک ہزار برس سے زیادہ حکومت کی تھی اور اُن کے خلاف اس الزام کے باوجود کہ انھوں نے تلوار کے زور پر اسلام کی اشاعت کی، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ہندو، بدھسٹ، سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے، ان کی غیر متعصبانہ اور منصفانہ حکومتوں میں، بڑے اطمینان اور فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ عہد مغلیہ میں تو خاص طور پر اعلیٰ ترین رواداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ اکبر اعظم تو اس حد تک آگے چلا گیا کہ اس نے ہندوؤں کو اپنے نورتنوں میں شامل کر لیا تھا۔ اس نے ایک ہندو کو، اپنے فوجی لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا اور ایک ہندورانی سے شادی بھی کرلی تاکہ آبادی کے اکثریتی حصے سے مطابقت کا اظہار کیاجاسکے۔ اس نے مسلم قدامت پرست طبقے کی شدید مخالفت کے باوجود، ایک نئے مذہب کی تشکیل اور تبلیغ کی جسے اس نے دینِ الہٰی کا نام دیا تھا تاکہ ہندوستان کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ اُس نے ملک کے عدالتی نظام محصولات اور کوتوالی کو، ازسرنومنظم کیا۔ اس کی ان کوششوں کے نتیجے میں رعایا، امن و امان اور چین کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگی اور اس کی اصلاحی کوششوں کے نتیجے میں ہندوستان کی خوش حالی کی داستانیں، سمندرپار پہنچنے لگیں اور یورپین ممالک کے سفراء کو اس کے دربار تک رسائل حاصل ہوئی۔

٢) اکبر کی انہی پالیسیوں پر، اُس کا بیٹا جہانگیر بھی عمل پیرا رہا جو اپنی رعایاسے مساویانہ برتاؤ اور انصاف پسندی کے حوالے سے امتیازی شہرت کا حامل ہے اُس کا جانشین، شاہ جہاں، امن اور ثقافت کا دلدادہ تھا۔ اس نے اپنی سلطنت کے امن و امان اور خوش حالی کو، فنونِ لطیفہ، فنِ تعمیر اور ثقافت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ بنایا۔ اسی شاہ جہاں نے اپنی خوابوں کو، تاج محل کی شکل دی جس کا شمار عجائبات عالم میں کیا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کے بعد، اس کا بیٹا اورنگزیب، تخت نشین ہوا جو ایک پکا مسلمان اور پاکیزہ عادات کا مالک تھا! وہ نمود و آرائش کا سخت مخالف تھا اور چاہتا تھا کہ، اُس کا رعایا مین بھی، اُس کی ذاتی زندگی کی سادگی اور پرہیز گاری کا عکس نظر آئے۔ اُس نے قانون کے عملی نفاذ کو ممکن بنانے کی غرض سے اصلاحات کاایک سلسلہ شروع کیا تاکہ بدعنوانیوں، رشوت ستانی اور کاسہ لیسی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اُسی کے عہدِ حکومت کے دوران، اسلامی قوانین کا یادگار مجموعہ(فتاویٰ عالمگیری) کی تالیف عمل میں آئی تاہم اُن نے مغلوں کی، روایتی رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوؤں اور دیگر مذہبی فرقوں کے پرسنل لاز کو قطعاَ َ نہیں چھڑا۔ قوانین کے نفاذ میں، اُس کی سخت گیر پالیسیوں کا کچھ طبقات میں شدید ردِ عمل ہوا چنانچہ شیوا جی کی سربراہی میں، جنوب میں آباد مرہٹوں نے، اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش شروع کر دیں، اورنگ زیب، پیرانہ سالی کے باوجود خود اس بغاوت اور سرکشی کو کچلنے کی غرض سے روانہ ہوا جس میں اُسے کامیابی حاصل ہوئی تاہم وہ ابھی جنوبی ہندوستان ہی میں تھا کہ 1707ء میں موت نے اُسے آلیا۔

٣) اورنگ زیب کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں میں تخت نشینی کی جنگ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں اُن مغربی عناصر نے جو ہندوستان سے تجارتی تعلقات قائم کرچکے تھے، صوبے داروں اور ہندو مہاراجوں کے ساتھ مل کر سازشیں شروع کر دیں جو خود بھی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند تھے۔ چنانچہ فرانسیسی پرتگیزی اور انگریز، کسی نہ کسی، ہندو مہاراجا سے، ساز باز کرتے ہوئے اپنی طاقت اور اقتدار کی اس جنگ کو برصغیر تک کھینچ لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس مرحلے پر نپولین کو بھی خیال آیا کہ بحیرہ احمر کو، دریائے نیل سے ملاتے ہوئے، ہندوستان تک پہنچنے کا مختصر ترین بحری راستہ، دریافت کرکے، میسور کے حکمران کی مدد کو پہنچ جائے جو انگریز کو نکال باہر کرنے کی جنگ میں مصروف تھا۔ اس کا یہ خیال اُس زمانے میں قابل عمل نہ تھا تاہم بعد میں، نہر سوئز کی تعمیر بھی ایک فرانسیسی کے ہاتھوں ہی عمل میں آئی جو خاصی تعجب انگیز بات ہے۔

٤) اسی دوران میں ہندوستان میں انگریز کی سیاست کامیاب ہو گئی، سترہویں صدی کے اواخر تک، ایسٹ انڈیا کمپنی کو کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں قدم جمانے کا موقع مل چکا تھا، کلکتے میں، جو اُس زمانے میں تین محلقہ دیہات پر مشتمل تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی نے، اورنگزیب کے پوتے، شہزادہ عظیم الشان سے زمیں داری کے حقوق حاصل کرلے جو اُس وقت بنگال کا صوبے دار تھا۔ اس زمینداری میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا کیونکہ کمپنی نے مزید زمینیں بھی حاصل کر لیں تھیں جس کے نتیجے میں 1757 میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کا کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر، انگریزوں کا کنٹرول ہو گیا۔ مغلیہ سلطنت کے مزید زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مشرقی صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی چھبیس لاکھ کے عوص حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ، اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کر لیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کارروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹول حاصل ہو گیا۔

٥) انہی حالات میں مسلمانوں نے چند وفادار ہندو عناصر کے ساتھ مل کر 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے اختیارات کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ یہ ہماری پہلی جنگ آزادی تھی جسے انگریزوں نے بغاوت کا نام دیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ناکام ہو گئی۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو حراست میں لے کر رنگون بھیج دیا گیا جہاں بالآخر ان کا انتقال ہو گیا۔ اس دن کے بعدانگریزوں نے خود کو ہندوستان کا فاتح قرار دیتے ہوئے ملکی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

٦) چونکہ انگریزوں کو یہ یقین تھا کہ 1857ء کی جنگ آزادی مسلمانوں کی جانب سے مغلیہ سلطنت کو بحال کرنے کی ایک کوشش تھی، لہذا اُن سے ایسا بے رحمانہ امتیازی سلوک کیا جانے لگا کہ، رفتہ رفتہ مسلمان، اپنے ماضی کی شان و شوکت کے مقابلے میں ایک درماندہ اور حقیر اقلیت کی حیثیت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انگریزوں نے (لڑاؤ اور حکومت کرو) کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے، ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابل، آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے۔ انھوں نے اراضی کی ملکیت کے نظام کو ازسرنو منظم کیا اور مسلمانوں سے چھینی گئی اراضی کو ہندوؤں میں تقسیم کر دیا جو رفتہ رفتہ بڑی زمین داریوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ہندو انگریز کے ایجنٹ کی حیثیت سے، اسی فیصد کاروبار اور تجارت کا کنٹرول اُن کے ہاتھ میں آ گیا۔ انھوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی جس کے نتیجے میں نوے فیصد سرکاری ملازمتیں انھیں حاصل ہوگئیں، پیشہ ورانہ امور میں بھی انھیں مسلمانوں پر سبقت حاصل تھی۔ چنانچہ معاشرے کے تمام طبقات میں انھیں انگریز کے بعد دوسری اہم حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔

٧) اپنی اسی نئی بالا دست حیثیت کے پیش نظر ان کا رویہ غریب مسلمانوں سے یکسر تبدیل ہونے لگا، انھیں اچھوت قرار دے کر، نفرت کا نشانہ بنایا گیا، اب ان کی حیثیت فقط غیر ملکی حملہ آوروں کی رہ گئی تھی، جنھوں نے ایک ہزار برس تک اس ملک پر حکومت کی تھی۔

٨) ان حالات کا فطری تقاضا تھا کہ رد عمل کے طور پر، مسلمان ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوں خود کو منظم کریں اور ایک علاحدہ قوم کی حیثیت سے ازسرنو اپنی شناخت کا تعین کریں۔ شروع شروع میں، شاہ ولی اللہ اور سید احمد بریلوی شہید کی سربراہی میں احیائی تحریکوں نے نہایت سخت موقف اختیار کرتے ہوئے، انگریزی علوم و فنون سیکھنے سے بھی انکار کر دیا تاہم سرسید احمد خان، سید امیر علی اور بنگال میں نواب عبد الطیف کی کوششوں کے نتیجے میں، اس موقف میں قدرے لچک پیدا ہو گئی۔ اس وقت تک 1857ء کے ملی برطانیہ کے اعلان کی رو سے انگریزوں نے مقامی آبادی کی سیاسی تعلیم اور تربیت کا عمل بھی شروع کر دیاتھا تاکہ انھیں ملک کی حکومت کے امور میں شریک کیا جاسکے۔ 1885ء میں انڈین نشنل کانگرس کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا صدر ایک انگریز تھا ۔۔۔۔۔۔ انگریز چاہتا تھا کہ ہندوستان کی مقامی آبادی کو سیاسی عمل اور سیاسی طریقوں سے آشنا کیاجائے لیکن ہندو نے اس معاملے میں انگریز کو بھی مات دے دی اور انڈین نشنل کانگریس پر، کٹر مذہبی ہندو عناصر نے غلبہ حاصل کر لیا۔ ہندو راج اور ہندو تسلط کا خواب اُ ن کے ذہنوں میں پروان چڑھ رہا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں طبقات میں، چھوٹے چھوٹے اور بعض اوقات غیر اہم معاملات پر، تصادم اور جھگڑوں کی نوبت آنے لگی تاہم ان جھگڑوں اور تصادم کا بنیادی سبب سیاسی اورمذہبی اختلاف ہی تھا۔

٩) 1905ء میں لارڈ کرزن کی جانب سے تقسیم بنگال کی اسکیم اگرچہ خالصتاَ َ انتظامی وجوہات کی بنا پر پیش کی گئی تھی لیکن ہندوؤں کی جانب سے اس کے خلاف، غیر معمولی احتجاج کیا گیا۔ کیوں کہ ایسی صورت میں، مشرقی بنگال او رآسام میں، مسلمانوں کی اکثریت ہوجاتی( یہی مشرقی بنگال آگے چل کر مشرقی پاکستان کہلایا) کانگریس نے اس معاملے کو ایک ملک گیر مسئلے میں تبدیل کر دیا اور ہندو قوم پستی اپنی برہنہ شکل میں سامنے آنے لگی۔ آخر کار انگریز کو ان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا اور بنگال کی تقسیم کا منصوبہ، منسوخ کر دیا گیا۔

١٠) اس واقعے کے رد عمل میں مسلمانوں نے بھی اپنی علاحدہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم کرلی۔ 1909ء میں ہندوؤں کے دباؤ کے نتیجے میں مورلے منٹو اصلاحات کا اعلان کیا گیا جس کی رو سے مقامی باشندوں کو صوبائی قانون ساز اداروں میں محدود پیمانے پر نمائندگی کا حق دیا گیا تھا۔ تاہم جوابی اقدام کے طور پر انگریز حکومت نے مسلمانوں کی جانب سے ( محفوظ نشستوں) اور (جدگانہ انتخابی حلقوں) کا مطالبہ بھی تسلیم کر لیا اس اقدام کو ہندوؤں نے پورے ہندوستان پر واحد ہندو تسط کے خلاف سمجھتے ہوئے شدید احتجاج شروع کر دیا۔ حتی کہ انھوں نے قانون ساز اداروں کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دے دی۔ فضا میں تلخی او رکشیدگی اور گہری ہو گئی۔ اور باہم رویوں میں دن بدن سختی آتی چلی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسٹر جواہر لال نہرو نے بھی جو بعد میں بھارت کے وزیر اعظم مقرر ہوئے 1951ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس واقعے کو( پاکستان کی پرچھائیں) سے تعبیر کیا تھا۔

١١) ہندوؤں کی اس شدید نفرت اور مخالفت کے باوجود مسلمان کافی عرصے تک ہندو کانگرس سے تعاون کرتے رہے۔ پہلے تحریک خلاف کے ذریعے اور بعد میں 1916ء میں قائد اعظم کے اصرار پر (میثاق لکھنؤ) میں شامل ہو کر، جو آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس کے مابین طے پایا تھا۔ میثاق لکھنؤ میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی توثیق کرتے ہوئے آبادی کے تناسب سے ماورا اسمبلیوں میں نیابت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ لیکن 1928ء میں مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر دھوکے اور فریب کا تجربہ ہوا جب جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو نے آل پارٹیز کانفرس کی درخواست پر تیارکیے جانے والے آئینی مسودے میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی مکمل منسوخی کی سفارش کرتے ہوئے ایسے اقدامات تجویز کر دیے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بقاء اور وجود کے سراسر خلاف جاتے تھے۔ دسمبر1928میں آل پارٹیز کانفرس کے اجلاس منعقدہ کلکتہ میں مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں ان سفارشات اور تجاویز کی پر زور مخالفت کی تام انھیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ قائد اعظم اس واقعے سے انتہائی دل برداشتہ ہوئے اور اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے اور یہ تاریخی اعلان فرمایا کہ( آج سے ان کے اور ہمارے راستے الگ ہوں گے۔) اس رپورٹ کے جواب میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ1929ء میں قائد کی قیادت میں چودہ نکات پیش کے جو آزادی کی جدوجہد میں کانگرس کا ساتھ دینے کے لیے کم از کم شرائط تھیں! یہ بات بے حد اہم ہے کہ مسلم لیگ اس معاملے میں کانگرس پر سبقت لے گئی اور انگریز حکومت سے (مکمل آزادی) کا مطالبہ پیش کر دیا۔ جبکہ کانگرس ( ڈومینین اسٹیٹس ) کے مطالبے سے ابھی آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔

١٢) کانگریس کے اس مخالفانہ اور غیر مصالحانہ رویے کے باوجود مسلمانوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور تعاون کے جذبے سے کام لیتے ہوئے کانگریس کے ساتھ ایک اور معاہدے میں شریک ہو گئے جس کی رو سے گورنمنٹ آف انڈیا ایک مجریہ 1935ء کے تحت یوپی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ اور کانگریس کو مشترکہ طور پر حصہ لینا تھا۔ جس میں کامیابی کی صورت میں دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آتا۔ ان انتخات میں کانگریس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی لیکن فتح کے نشے میں (چور) اس نے اپنی سابقہ حرکات کا اعادہ کرتے ہوئے ایک بار پھر فریب دہی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں سے وعدہ خلافی کی اور مخلوط حکومت میں ان کی شمولیت سے منکر ہو گئی۔ مخلوط حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت کو اس نے اس بات سے مشروط کر دیا کہ وہ پہلے انڈین نشینل کانگریس میں شامل ہوجائیں تب ہی انھیں یوپی کی مخلوط حکومت میں لینے پر غور کیا جائے گا۔ کانگریس اور ہندوؤں کی اس دہری فریب دہی کے تجربے نے مسلمانوں میں تلخی کا زہر گھول دیا اور ان کا خدشہ یقین میں تبدیل ہو گیا کہ ہندو ذہنیت ان کی مکمل سیاسی تباہی کے درپے ہے۔ اس یقین کو مزید تقویت اس وقت حاصل ہوئی جب ہندوستان کے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں بالخصوص بہار میں جہاں کانگریسی حکومت قائم تھی مسلمانوں کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں زبردستی ہندی زبان سیکھنے پر مجبور کیا گیا۔ تاکہ وہ اپنی زبان اور کلچر سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی جانے لگیں۔ کانگریس کی حکومت مسلمانوں کے لیے انگریز راج سے بھی بدتر ہوئی اور اکتوبر 1937ء کے بعد دو برسوں کے دوران میں ہندوستان بھر میں سنگین فرقہ وارنہ فسادات کے پچاسی واقعات ہوئے۔

١٤) یہ تمام واقعات فرضی اور خیالی نہیں تھے اور نہ ہی یہ کوئی سیاسی پروپیگنڈہ تھا۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں، قائد اعظم نے مسلمانوں پر ڈھانے جانے والے ظلم و ستم کی دانستانیں سن کر فرمایا۔( فرقہ ورانہ امن اور ہم آہنگی کی تمام امیدیں کانگریسی فاشزم کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہیں۔) انھوں نے مسلم لیگ کونسل کی ایک کمیٹی قائم کردی تاکہ وہ ان تکالیف اور مصائب کی تحقیقات کرے جن سے مسلمان دوچار ہو رہے تھے۔ کمیٹی نے مارچ 1939میں اپنی مرتب کردہ رپورٹ پیش کردی جو (پیر پور رپورٹ) کے نام سے مشہور ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ( ہندی کے مقابلے میں اردو کا گلا گھونٹا جا رہا ہے) مسلمانوں کو کانگریسی پرچم لہرانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ گاؤں اور دیہات کے تمام اسکولوں میں (ودھیا مندر اسکیم) کے تحت تعلیم حاصل کرنے کو لازمی قرار دیدیا گیا ہے۔ اور مسلمانوں سے زبرستی کانگریس کا قومی ترانا( بندے ماترم) گانے کا اصرار کیاجاتا ہے۔ اس قسم کی ایسی ہی ایک رپورٹ دوسری انکوائری کمیٹی نے مرتب کی تھی جو ( شریف رپورٹ) کے نام سے معروف ہے جس میں صوبہ بہار کے مسلمانوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی تحقیقات شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اس اے کے فضل الحق مرحوم نے دسمبر 1939ء میں بنگال کی قانون ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کانگریسی حکومت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مصائب کا ذکر بڑے تلخ انداز میں کیا تھا۔ ایچ وی ہوڈسن نے اپنی کتاب( دی گریٹ ڈیوائڈ) میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے ( اس بات میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ 1937ء اور 1939کے دوران میں صوبائی حکومت کے کردار اور دو قومی نظریے کی اشاعت اور تحریک پاکستان کا اہم ترین سبب تھا)

١٥) کانگریس کی جانب سے بار بار کیا جانے والا معاندانہ سلوک ہی تھا جس نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر بالآخر مجبور کر دیا کہ علیحدگی ہی اس صورت حال کا واحد حل ہے یہ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے فروری 1940ء میں اپنے اجلاس منعقدہ دہلی میں یہ فیصلہ کیا کہ مسلم لیگ کے مارچ1940ء کے لاہور کے اجلاس میں اس مطالبے کو قرارداد کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔

١٦) یہ قرارداد 23مارچ 1940ء کو جناب فضل احق نے پیش کی جو اس وقت بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 24 مارچ 1940 کو یہ قرارداد متفقہ طور پر منطور کرلی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ؛

( آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ملک کا کوئی آئینی منصوبہ اس وقت تک قابل عمل یا قابلِ قبول نہیں ہوگا تاوقتیکہ اسے مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں کے مطابق وضع نہ کیا جائے۔ جغرافیائی اعتبار سے محلقہ و حدوتوں کی علاقائی ردوبدل کرتے ہوئے اس طرح حد بندی کی جائے کہ وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ( آزاد ریاستوں کے ایک گروپ کی شکل اختیار کر لیں جس میں تمام تشکیلی وحدتیں آزادی اور خود مختیاری کے ساتھ کام کرسکیں)

١٧) آپ نے غور کیا ہوگا کہ اس قرارداد میں لفظ (پاکستان) کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ ( وہ علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، آزاد ریاستوں کی حیثیت سے تشکیل دیے جائیں۔) تاہم اپریل 1946ء کو دہلی میں منعقدہ ہونے والے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کے اجلاس میں اس قرارداد میں درج ذیل ترمیم کردی گئی تھی۔

( شمال مشرق اور واقع بنگال اورآسام، نیز پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان ایک ایسے (پاکستان) علاقے ہیں، جہاں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں چنانچہ اس تمام علاقے کو آزاد اورخود مختار ریاست کی حیثیت سے تشکیل دیتے ہوئے اس امر کی واضح یقین دہانی کرائی جائے کہ مزید کسی تاخیر کے پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے)

١٨) ہرچہ بادا باد کے مصداق، حصول پاکستان کی حمایت ہی اب وہ واحد شرط تھی جس پر مسلم لیگ آزادی کی جدوجہد میں کانگریس سے تعاون اور شرکت پر رضا مند ہو سکتی تھی! اس مطالبے کی نامنظوری کی صورت میں مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ یا متبادل نہیں تھا کہ وہ اپنی بقا اور قومی وجود کے تحفظ کے لیے ہر اس آئین کے نفاذ کی پر زور مخالفت اور مزاحمت کریں جسے ( متحدہ ہندوستان) کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔

١٩) بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلمان ارکان اسمبلی نے قرارداد میں اس ترمیم کی پر زور حمایت کی جس کے بعد یہ مسلم لیگ کا بنیادی مؤقت اور نعرہ بن گیا۔ یعنی ( مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہء وطن۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔)

٢٠) اگر اس مؤقف کو کسی مزید جواز کی ضرورت تھی تو وہ بھی ہندوؤں نے 1942ء کے اوائل میں فراہم کر دیا جب انھوں نے عیدالاضحٰی کے دوران میں گائے کے ذبیحے کے سوال پر صوبہ بہار میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی جس میں ہزاروں مسلمان قتل کر دیے گئے۔ عورتوں نے اپنی آبرو بچانے کی خاطر کنوؤں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی جبکہ بے شمار لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر بہار سے ہجرت کر گئے۔

٢١) خوش قسمتی سے کانگریس کے زیر حکومت دوسرے صوبوں کے مسلمان اس خوں ریزی اور تباہی سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ کانگریس نے اگست 1942ء میں ہندوستان پر متوقع جاپانی حملوں کے تناظر میں انگریز حکومت کے خلاف( ہندوستان چھوڑ دو) تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کانگریسی رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آئی جس کے بعد صوبوں میں کانگریسی حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا۔ قائد اعظم نے اس واقعے پر ( یوم نجات) منانے کا اعلان کیا اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کے بعد چھوڑ دے۔

٢٢) دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے اور برطانیہ میں لیبر گورنمنٹ کے بر سر اقتدار آنے کے نتیجے میں انگریز سرکار کی پالیسی میں بھی تبدیلی آگئی۔ کانگریسی رہنماؤں کو قید سے آزاد کر دیا گیا اورسیاسی تصفیئے کی کوشش شروع ہوگئیں۔ سرا سیفرڈکرپس نئی تجاویز کے ہمراہ ہندوستان آئے جن سے اس برصغیر میں دو آزاد ممالک کے قیام کی امیدوں کو تقویت ملی تاہم کانگریس نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا جس کے بعد ( ویول پلان) سامنے آیا جس کی رو سے فوری طور پر ایک عارضی حکومت کا قیام اور تشکیل عمل میں لائی جانی تھی چنانچہ 1945ء میں انتخابات منعقد ہوئے اور مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی تمام مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی تاہم اس کے باوجود کانگریس کا یہ دعویٰ بدستور موجود تھا کہ وہ ہندو اور مسلمانوں، دونوں کی نمائندگی کرتی ہے جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک کی صورت حال پیداہوگئی۔

٢٣) ان حالات کے پیش نظر برطانوی سرکار نے (کیبنٹ مشن) کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی غرض سے ہندوستان بھیجا جس نے فوری عارضی حکومت کے قیام کی اسکیم پیش کردی جس میں ہندو اور مسلمان مساوی تعداد میں شریک ہوتے اور ایک طویل المعیاد منصوبے کے مطابق ایک ایسی سہ وحدتی اور مربوط فیڈریشن کا قیام عمل میں آتا جس میں مرکز کے پاس صرف تین شعبے ہوتے یعنی امور خارنہ، دفاع اور موصلات، دفاع اور موصلات اور تین گروپوں پرمشتمل یہ صوبے جنہیں ریاستوں کا درجہ دیا جاتا ہندو اور مسلم اکثریتی بنیادوں پر قائم کیے جانے تھے۔ یہ منصوبہ اپنی بعض خامیوں اور نقائص کے باوجود مسلم لیگ کونسل نے 6 جون1946 کو منظور کر لیا جبکہ کانگریس نے ایک ماہ طویل المعیاد تجاویز کی منظوری کا اشارہ دیتے ہوئے حسب عادت ذہنی تحفظات کا اظہار کیا اور عارضی حکومت کی تشکیل کا منصوبہ مسترد کر دیا۔ کانگریس کی جانب سے انحراف اور حیلہ جوئی کا یہ رویہ بعض ایسے شکوک کا سبب بنا جس کی تصدیق بہت جلد کانگریس کی اس تعبیر و تشریح سے ہو گئی جو اس اسکیم کے حوالے سے کی گئی تھی جس میں عارضی حکومت کی تشکیل کو مسترد کیاجانا بھی شامل تھا۔

٢٤) ہندوستان کو ایک وفاقی صورت میں متحد رکھنے کی یہ آخری امید تھی جسے انڈین نیشنل کانگریس نے خاک میں ملا دیا حالانکہ انگریز سرکار نے مرکز میں ایک عارضی حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی تھی چنانچہ رد عمل کے طور پر مسلم لیگ نے حصول پاکستان کے لیے راست اقدام کا مطالبہ کر دیا۔

٢٥) اس راست اقدام کے لیے 14 اگست 1946 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ یوم ِ راست اقدام منانے کے لیے جلسے جلوسوں کے ذریعے مسلم لیگ کے مؤقف کی بھرپور ترجمانی کا پروگرام بنایا گیا تھا جسے ناکام کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ کے جلوسوں پر حملے کیے گئے اور ان کے جلسوں میں گربڑ کی گئی تاکہ اس راست اقدام کو ہر ممکن طریقے سے کچل دیا جائے۔ مسلسل چار دنوں تک بلوے اور فسادات ہوتے رہے پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اگر کہیں اس نے کوئی ایکشن لیا بھی تو وہ قطعاً غیر مؤ ثر ثابت ہوا۔ مسلح ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے۔ ہندو علاقے میں رہنے والے کسی بھی مسلمان کو نہیں چھوڑا گیا۔ گلیاں اور محلے انسانی لاشوں سے پٹ چکے تھے۔ راست اقدام کے نتیجے میں شروع ہونے والے ان ہندو مسلم بلوؤں اور فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیس ہزار انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔ اس کے باوجود قتل و غارت کے یہ واقعات کسی نہ کسی طور پر قیام پاکستان تک مسلسل جاری رہے۔ فرقہ ورانہ فسادات کا ایک سلسلہ تھا جو کسی طور پر ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ ان ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات میں مزید سیکڑوں، ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہوئیں ان بہیمانہ اور وحشنت ناک خون آشاموں کے بعد اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا کہ ہندوستان کو ہر صورت تقسیم کر دیا جائے۔ انگریز اور ہندو دونوں برصغیر کی تقسیم کے مخالف تھے۔ برطانوی مصنف رسل برائنز نے پاک بھارت تنازع پر اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ ( آخر کار کلکتہ میں ہجوم کی طاقت نے برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ کر دیا۔) بہر حال جوبات وہ لکھنا بھول گئے وہ یہ تھی کہ یہ ہجوم مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوؤں کا تھا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ ترمیم

7 اکتوبر1947ء سے 1958ء تک7اکتوبر1947ء سے 1958ء تک

پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ پُر تشدد تھی جو بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پر تشدد ہوتی گئی۔ فرقہ ورانہ فسادات کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے انگریزوں کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ واقعات ختم ہونے والے نہیں ہیں ان کے حل ہونے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بھی وہ تھک چکے تھے اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی عبور ی انتظام کے تحت ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے حوالے کرکے یہاں سے چلے جائیں اورہندو ستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

اس وقت کے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویویل نے اکتوبر1946 میں ایک مجلس آئین ساز قائم کی اور کوشش کی کہ ایک عبوری حکومت قائم ہو جائے لیکن ان کی کوشش ناکام ہوئی اور ایک سیاسی تعطل پیدا ہوتا نظر آنے لگا۔ انگریزوں نے اندازہ لگایا تھا کہ سیاسی تعطل کے نتیجے میں ملک میں سول وار شروع ہو جائے گی اور انگریزوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہ رہے گا کہ وہ یہاں سے واپس چلے جائیں۔ انھوں نے خفیہ طور پر برطانوی حکومت کی مرضی سے مارچ 1948ء میں واپس جانے کامنصوبہ بنا لیا تھا (دی گریڈ ڈیوائڈ ایچ وی ہد سن )

٢) 18 دسمبر 1946 کوبرطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ لارڈ ویویل کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھیج دیں اسے توقی تھی کہ وہ اپنی پر کشش شخصیت کی وجہ سے اس کام میں کامیاب ہوجائیں گے جس میں ویویل ناکام رہے تھے۔ نامزد وائسرائے نے بھی سوچا کہ جب تک برطانیہ ہندوستان میں برطانوی راج ختم کرنے کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتا اس وقت تک وہ بھی کوئی مفید کام نہیں کرسکتے۔ پہلے تو وزیر اعظم نے کچھ پس و پیش کی لیکن نامزد وزیر اعظم کے زور دینے پر انھوں نے 20 فروری 1947 ء کو دار العلوم میں مندرجہ ذیل اعلان کیا؛

i) ہز مجسٹی کی حکومت یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس کا ارادہ ہے کہ وہ برصغیر کی حکومت جون1948 سے پہلے ہندوستان کے ذمہ دار لوگوں کے ہاتھوں منتقل کر دے۔

ii) اگر یہ ظاہر ہوا کہ مقررہ تاریخ تک نمائندہ اسمبلی ایسا دستور ( جس کی کیبنٹ مشن نے تجویز پیش کی تھی) نہیں بنا سکے گی توپھر ہز مجسٹی کی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ برطانوی ہند کی مرکزی حکومت کے اختیارات اس تاریخ تک کس کے حوالے کیے جائیں اور آیا یہ مرکزی حکومت کی شکل میں دیے جائیں یا کچھ علاقوں میں موجودہ صوبوں کو اختیارات دیے جائیں یا کسی اور ایسے طریقے سے اختیارات حوالے کیے جائیں جو سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوا اور برصغیر کے لوگوں کے مفاد میں ہو۔“

٣) اس اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن 22 مارچ 1947 ء کو نئی دہلی آ گئے اور انھوں نے پورے خلوص کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیا۔ اپنے پیشرو کی طرح ان کی بھی پہلی ترجیح یہ تھی کہ ہندوستان متحد رہے اس لیے انھوں نے یہ کوشش کی کہ قائد اعظم اپنے مؤقف میں تبدیلی کر لیں۔ وائسرے کی حیثیت سے وہ جانتے تھے کہ اس صورت حال کا حل ان (قائد) ہی کے پاس ہے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ بحث مباحثے سے قائد کو قائل نہیں کاجاسکتا تو وہ عاجز آ گئے اور اس طرح دونوں شخصیات میں محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ دونوں کے طرز عمل میں سختی آگئی اور ماؤنٹ بیٹن نے محسوس کیاکہ قائد مناسب بات نہیں کر رہے۔ اس طرح ان کے اور جواہر لال نہرو کے درمیان میں قربت پیدا ہو گئی جو بڑھ کر ذاتی تعلقات میں تبدیل ہو گئی۔

٤) قائد کی طرف اس طرح کا طرز عمل اختیار کرنے میں انھوں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ ان کے اور جواہر لال نہرو کے خیالات میں کوئی تضاد نہیں تھا مگر وہ تمام رعایتیں قائد ہی سے چاہتے تھے۔ قائد اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔ کیونکہ انھیں کانگریس کے راج کا تلخ تجربہ ہو چکاتھا اور مسلمان ہندوؤں کی دائمی غلامی پر راضی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے تقسیم ناگزیر تھی مگر سوال یہ تھا تقسیم کس طرح کی جائے اور اسی معاملے میں ماؤنٹ بیٹن نے اپنا انتقام لیا۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم کے لیے جو دلیل دی جا رہی ہے وہی دلیل بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ قائد نے ان سے گزارش کی کہ انھیں کٹا پھٹا پاکستان نہ دیا جائے۔ مگر وائسرائے اپنی ضد پر اڑے رہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کانگریس کا پنجاب اور بنگال کا مطالبہ ایک دھوکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے خوفزدہ ہو کر قائد پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس سے قائد کا طرز عمل مزید سخت ہو جائے گا کیونکہ ایسا شخص ان دھمکیوں سے مرغوب نہیں ہو سکتا تھا افسوس وائسرائے کے طرز عمل میں آخر وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ انھوں دھمکی دی کہ اگر اسے قبول نہ کیا گیا تو کانگریس کو ہندوستان کا اقتدار سونپ دیں گے کیونکہ برطانیہ کو ہر صورت میں اقتدار چھوڑنا ہے اس طرح مسلمانوں کو ایک کٹا پھٹا پاکستان مل سکا جس میں ریڈ کلف اوارڈ کے ذریعے مزید کمی کر دی گئی اور میں مسلم اکثرت کے دو ضلع پنجاب میں گرداس پور اور بنگال میں مرشد آباد جو شروع میں پاکستان کو دیے تھے اس سے لے لیے گئے ۔

٥) برصغیر کی تقسیم کے منصوبے کا فریقین کی طرف سے قبول کیے جانے کی شرط کے ساتھ 3 جون 1947ء کو دار العوام میں اعلان کر دیا گیا لیکن وائسرائے نے کانگریس کا یہ مطالبہ مان کر کہ دونوں مملکتوں کے قیام کی تاریخ جون 1948 سے پہلے کر دی جائے قائد کے ساتھ اپنی دشمنی کا دوبارہ اظہار کیا۔ یہ تاریخ 20 فروری 1947 کے اعلان میں بتائی جا چکی تھی مگر اس تاریخ کو 1947ء کی کسی تاریخ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگر یہ تاریخ دسمبر 1947ء میں رکھی جاتی جب بھی کانگریس مطمئن ہوجاتی لیکن وائسرے کا 15 اگست 1947 کی تاریخ کا انتخاب اپنی مرضی کا تھا مسلم لیگ سے بھی کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان مشکلات کا کوئی خیال کیا گیا جو پاکستان کو صرف 72 دن میں نئی حکومت قائم کرنے میں پیش آئیں گی۔ اس غیر مناسب جلد بازی کی نہ وائسرائے اور نہ ہی کسی اور نے کوئی وجہ بتائی ہو سکتا ہے کہ انھوں نے یہ سوچا ہو کہ حکومت قائم کرنے میں کوئی مشکل پیش آئے گی کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں ان کو اپنا مشترکہ گورنر جنرل بنائیں گے اور وہ آئین سازی کی سپریم اتھارٹی ہوں گے جنہیں تقسیم کے نتیجے میں پیش آنے والے اختلافات کو حل کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔ انڈیا کی حکومت کے اثاثوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور پاکستان کی نئی ڈومینین کے قیام کے سلسلے میں ان اختلافات کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ لیکن جب قائد نے انھیں پاکستان کا گورنر جنرل قبول کرنے سے انکار کر دیا اور تجویز دی کی وائسرائے یا برطانیہ کا نمائندہ رہ کر دونوں ڈومینیوں کے گورنر جنرلوں کے درمیان میں ثالثی کی ذمہ داری ادا کریں تو ماؤنٹ بیٹن کے غرور کو ٹھیس پہنچی اور وہ یکایک کمرے سے باہر چلے گئے اور یہ کہتے ہوئے گئے ( اس کی قیمت تمھارے تمام اثاثے اور پاکستان کا مستقبل ہوگا۔) ( ایچ وی ہڈسن کی کتاب دی گریٹ ڈوائڈ صفحہ 331)

٦) بعد میں پیش آنے والے واقعات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی اس دھمکی کو بڑی خوبی سے عملی جامہ پہنایا، اس نئی قوم کو صرف اسی وجہ سے ہی انتظامی اور مالیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ بھارت کی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا کے قابلِ منتقلی اثاثوں میں سے کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا اور وہ بیس کروڑ کی رقم بھی ادا نہیں کی جو موجودہ کیش بیلنس سے عبوری طور پر دینے کا فیصلہ ہوا تھا بلکہ اس وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ بنگال اور پنجاب میں جنونی ہندوؤں نے قتل و غارت کا بازار گرم کررکھا تھا تاکہ وہ ان صوبوں کے ان علاقوں سے مسلمانوں کو نکال سکیں جو تقسیم کے نتیجے میں بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے علاقوں میں بھی فسادات شروع ہو گئے اس طرح لاکھوں پناہ گزین دونوں طرف سے سرحد عبور کرنے لگے۔ قائد اعظم اور جواہر لال نہرو دونوں نے اپیل کی کہ مارشل لا لگا دیا جائے یا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو بھیج دیا جائے مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور جولائی سے فسادات جاری رہے۔ گڑ گاؤں اور دہلی میں تو فسادات وائسرائے سے بالکل قریب ہو رہے تھے، وائسرائے سے لے کر ڈپٹی کمیشنر تک تمام برطانوی افسران دخل دینے سے بچ رہے تھے انھوں نے کوئی سخت اقدام نہیں اٹھایا اور وجہ یہ بتائی کہ اتنے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس کافی فوج موجود نہیں ہے انھوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی معمولی سیاسی یا فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہیں جنھیں امن و امان قائم کرنے کے لیے معمولی ذرائع سے روکا جا سکتے کیونکہ دونوں فرقے ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے پر مصر ہیں۔ اس موقع پر پنجاب کے گورنر نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا( بادشاہ کے تمام گھوڑے اور تمام سپاہی بھی ان فسادات کے نہیں روک سکتے اگرچہ وہ سزا دینے کی اہلیت تو رکھتے ہیں۔ ان فسادات میں ملک کے گاؤں گاؤں میں دونوں فرقوں کے افراد ایک دوسرے کے مقابلے کھڑے ہیں۔( ایچ وی ہڈسن کی کتاب دی گریٹ دیوائڈ صحفہ۔ 342)

٧) اس پریشانی میں پارٹیشن کونسل نے جو 22 جولائی 1947 ء کو تقسیم پر عمل درآمد کرانے کے لیے قائم کی گئی تھی، پنجاب باؤنڈری فورس قائم کی جس میں 55000 افسران اور جوان شامل تھے جو میجیر جنرل ٹی ڈبلیورٹیس کے ماتحت تھے اگرچہ اس کے عملے میں کچھ انگریز افسران بھی شامل تھے مگر ان میں کوی برطانوی یونٹ شامل نہیں تھا کیونکہ ہندوستان میں جو بھی برطانوی فوج موجود تھی اسے کسی بھی کارروائی سے علاحدہ رکھا گیا تھا کیونکہ انھیں بتدریج وطن واپس بھیجا جا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انگریزوں کو ان فسادات کی کوئی فکر نہیں تھی جو وہ چھوڑ کر جا رہے تھے کیوں کہ وہ یہاں سے جانا طے کر چکے تھے، بانڈری فورس بالکل بے اثر رہی کیونکہ یہ خود بھی فرقہ ورانہ تعصب سے پاک نہیں تھی اور 15 اگست 1947ء کو اسے ختم کر دیا گیا۔

٨) 15 اگست سے پہلے ہی لاکھوں آدمی قتل ہو چکے تھے اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے وہ پناہ گزیں بن کر ہجرت کر رہے تھے اس کے بعد ہر دن مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، پاکستان کو خوفناک قربانی دینی پڑی، اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اسے آبادی کی منتقلی کے سنگین مسئلے کی ذمہ داری سے دوچار ہونا پڑا جو اس پر ہندوؤں نے نہ صرف پنجاب بلکہ بنگال میں بھی مسلط کر دی تھی۔ رقم کے بغیر اثاثوی اور بغیر کسی حکومتی نظام کے پاکستان نے اس طوفان کاکس طرح مقابلہ کیا یہ ایک معجزہ ہے۔

٩) انڈین انڈ پینڈس ایکٹ کو15 جولائی 1947ء کو شاہی منظوری حاصل ہوئی اور 19جولائی کو نئی دہلی میں دونوں ڈومینین کی عبوری حکومتیں قائم کی گئیں۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم ہوئے اور بھارت کے گورنر جنرل ماونٹ بیٹن بنے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے وزیر اعظم بنے حکومت میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی صرف دو حضرات تک محدود رہی جو دہلی میں آسانی سے دستیاب تھے۔ یہ فضل الرحمٰن اور جوگیش چند منڈل تھے جو شیڈولڈ کاست کے رکن تھے۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ بھارت عبوری حکومت دہلی میں قائم کی گئی تھی اس میں بھی بنگال سے ایک مسلمان نمائندہ لیا گیا تھا، بنگال میں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کی اصل شکل تو ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان کے بعد سامنے آنی تھی۔

١٠) پاکستان کے لیے نئی آئین ساز اسمبلی قائم کی گئی تھی پہلے والی آئین ساز اسمبلی میں سندھ اور صوبہ سرحد سے جو مسلم اراکین منتخب ہوئے تھے انھیں برقرار رکھا گیا لیکن بنگال اور پنجاب سے نئے اراکین منتخب ہونا تھے تاکہ وہ ان علاقوں کی نمائندگی کرسکیں جو پاکستان میں آتے ہیں۔ بلوچستان، قبائلی علاقوں اور پاکستان میں شامل ہونے والے رجواڑوں کی نمائندگی کا بھی کچھ انتظام کرنا تھا، اس وقت پاکستانیت کا جذبہ اس قدرزیادہ تھا کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں، اشتیاق حسین قریشی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو جن کا پاکستان میں کوئی حلقہ انتخاب نہیں تھا، نہایت خوشی کے ساتھ مشرقی پاکستان سے نشستیں پیش کردی گئیں اور وہاں کے مسلمانوں کے تعاون سے وہ مجلس قانون ساز کے اراکین منتخب ہو گئے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی ( گواہ نمبر 106) نے کہا ( تمام مسلمانوں میں اسلام اور اتحاد کا جذبہ اتنا مضبوط تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کس شخص کا کہاں سے تعلق ہے) بنگالیوں نے خوشی کے ساتھ اپنی نشستوں کی قربانی دی اور غیر بنگالیوں کے حق میں اپنے ووٹ ڈالے۔

١١) یہ اسمبلی 26 جولائی 1947 کو وجود میں آئی، اسے دو فرائض انجام دینے تھے ایک آئین ساز اسمبلی کا اور دوسرا وفاقی قانون ساز ادارے کا۔ عبور حکومت کراچی منتقل ہو گئی اور 69 اراکین پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کا اجلاس کراچی میں پہلی بار 10 اگست 1947 کو منعقد ہوا۔ 11 اگست کو اس کے اجلاس میں قائد اعظم کو صدر او رمولوی تمیز الدین کو وفاقی قانون ساز اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا اس وقت کسی اسمبلی کے لیے بھی زیادہ کام نہیں تھاکیونکہ اس وقت نئی حکومت قائم کرنے کا اور بھارت سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری کا کام اتنا زیادہ تھا کہ دوسرا کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کراچی میں اگرچہ سندھ حکومت کی کچھ عمارتیں موجود تھیں جنہیں انتظامیہ کا مرکز بنایا جا سکتا تھا مگر مشرقی پاکستان ان سہولتوں سے بھی محروم تھا۔ وہاں نہ صرف یہ کہ عمارتیں نہیں تھیں بلکہ فرنیچر ،کاغذ اور پنسلیں بھی دستیاب نہیں تھیں اگرچہ اس کا مہاجرین کامسئلہ اتنا سنگین نہیں تھا جتنا مغربی پاکستان کے دوسرے صوبوں کا تھالیکن بہاریوں کی بہت بڑی تعداد مشرقی پاکستان منتقل ہو گئی اور تعلیم یافتہ درمیانہ طبقے کے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اور ہندو سرکاری عملہ مشرقی پاکستان سے چلا گیا تھا۔ ان غیر معمولی مسائل سے حکومت کے معمول کے اختیارات کے ساتھ نہیں نمٹا جا سکتا تھا اس لیے ایمر جنسی کا اعلان کیا گیا اور کابینہ ایمر جنسی کمیٹی قائم کر دی گئی تاکہ ان ہنگامی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو قائد اعظم اور ان کے دست راست نواب زادہ لیاقت علی خاں کی قیادت کا موقع تھا ملک کو ان دونوں کے مشوروں سے ہی چلایا جا رہا تھا اور گورنر جنرل کو 1947 کے انڈین انڈپینڈنس ایکٹ کے تحت وسیع اختیارات حاصل تھے۔ ان کی لائقانہ رہنمائی میں سرکاری مشنری رفتہ رفتہ حرکت میں آگئی۔ صوبوں میں وزارتیں قائم کی گئیں اور ایک طرح کا نطام قائم ہونا شروع ہو گیا تھا ملک کو ایک دھچکے سے دوچار ہونا پڑا یہ کشمیر کے مہاراجا کا بھارت میں شامل ہونے کا 27 اکتوبر1947ء کا اقدام تھا جو اس سے پہلے پاکستان سے کیے گئے اسٹینڈ اسٹل، معاہدے کی خلاف ورزی تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی اس پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے کام کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کا چھپا ہوا ہاتھ تھا یہ سیبوں کی ٹوکری کے 560 سیبوں میں سے ایک تھا جسے انھوں نے تقسیم کا منصوبہ قبول کرنے کے عوص سردار پٹیل کو فروخت کرنے کاوعدہ کیا تھا، بھارت نے اسے بہانہ بنا کر اپنی افواج کشمیر میں اتار دیں کہ مہاراجا کی مدد کی جاسکے جسے اپنی مسلم رعایا کی بغاوت کا سامنا تھا جن کی ریاست میں بھاری اکثریت تھی اس مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان میں 1948 میں پہلی جنگ ہوئی، دونوں فوجوں میں جھڑپیں ہوئیں اور صورت حال نہایت سنگین ہو گئی لیکن جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اس کی وجہ سے کشمیر کا ایک حصہ جنگ بندی لائن کے اس طرف باقی بچ گیا لیکن کشمیر کاجھگڑااب بھی بھاررت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم ابھی تک 1949ء کی جنگ بندی لائن پر قائم ہیں۔

١٢) ان اہم واقعات کے دباؤ کے نتیجے میں ملک کی سیاسی سرگرمیوں کو عارضی طور پر دھچکا پہنچا تاہم قائد اعظم نے15ستمبر1948 کو یہ فیصلہ کیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو ختم کرکے، آل پاکستان مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا جائے چنانچہ اگلے سال اپریل میں نئی مسلم لیگ کی کونسل کا پہلا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا، بد قسمتی سے مشرقی پاکستان میں پہلا سیاسی اختلاف اسی مسلم کونسل کی تشکیل پررونما ہوا۔ پنجاب سے منتخب ہونے والے کونسلروں کا تعلق پنجاب کے مختلف ضلعوں سے تھا جو اب پاکستان میں شامل تھے جنھوں نے ( پنجاب پراونشل مسلم لیگ کونسل) قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا تاہم مشرقی بنگال میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ صوبہ پہلے ہی اپنے نام سے جانا پہچانا تھا۔ پرانی کونسل کو تحلیل کرکے نئی کونسل کا انتخاب کیا گیا۔ جس کے سربراہ خواجہ ناظم الدین تھے جو مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰٰ مقرر ہوئے، حسین شہید سہروردی کو کونسل سے برطرف کر دیا گیا جس پر پرانی کونسل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کا نام اختیار کر لیا اور سہروردی کو اُن کی عدم موجود گی میں اس کا سربراہ منتخب کیا گیا جو اس وقت صوبہ سرحد میں مرحوم پیر صاحب مانکی شریف کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ مولانا عبد الحمید خان بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمٰن دونوں اس نئی سیاسی جماعت کے اہم رکن تھے بعد میں جب پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تو بائیں بازو کے عناصر مولانا بھاشانی کے گرد جمع ہو گئے جو پہلے تو عوامی مسلم لیگ کے اندر ہی بائیں بازو کے ایک سیل کے طور پر شامل رہے تاہم بعد میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے اپنی ایک علاحدہ سیاسی جماعت قائم کرلی۔ عوامی لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ کے پروگراموں میں کوئی بنیادی فرق نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ عوامی مسلم لیگ نے اپوزیشن پارٹی کی حیثیت اختیار کرلی اور حکومت سے تصادم کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس طرح مشرقی بنگال میں خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کے درمیان محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔

١٣) پنجاب میں بھی سیاسی صورت حال کسی طور اطمینان بخش نہیں تھی! نواب آف ممدوٹ جنہیں قائد اعظم نے کابینہ کی تشکیل کی دعوت دی تھی بہت جلد اپنی کابینہ کے اُن اراکین کی مخالفت کا نشانہ بن گئے جن کی سربراہی ممتازمحمد خان دولتانہ اور سردار شوکت حیات خان کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم کی تمام مصالحانہ کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور پنجاب مسلم لیگ کے صوبائی انتخاب میں، پنجاب کے وزیراعلٰی نواب آف ممدوٹ بھی شکست کھا گئے۔ میاں ممتاز دولتانہ اب پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے منتخب صدر تھے، نواب آف ممدوٹ کی سیاسی حیثیت بے حد کمزور ہو چکی تھی جسے دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 93a کے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان کی وزارت کو برطرف کرکے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دے۔

١٤) سندھ میں بھی سیاسی صورت حال کم وبیش ایسی ہی تھی١ کرپشن کے الزامات کے تحت سندھ کے وزیر اعلیٰٰ محمد ایوب کھوڑو کو برطرف کر دیا گیا تھا اُن کی جگہ مئی 1948ء میں پیر الہٰی بخش کو صوبے کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔۔۔ بہرحال صوبائی مسلم لیگ پر کھوڑو کا اثر رسوخ بدستور قائم تھا چنانچہ وہ اس کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے اور مسلم لیگ کونسل میں اپنی اکثریت کی بنا پر انھوں نے کراچی کو وفاقی دار الحکومت بنائے جانے کے سوال پر سندھ حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا کیوں کہ اس طرح کراچی وفاقی حکومت کی تحویل مین چلا جاتا۔۔۔۔ انھوں نے ایک (ایکشن کمیٹی) بھی قائم کی جس کا مقصد صوبائی حکومت کے خلاف اقدام کرنا تھا تاہم قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے سے واپسی پر محمد ایوب کھوڑو کو اس احتجاج سے روک دیا۔ اس کے باوجود حکومت سندھ اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ 1946ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں بداعنوانیوں کی تحقیقات کرنے والے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کی رو سے پیر الہٰی بخش اپنی نشست سے محروم ہوچکتے تھے اُن کے جانشین مسٹر یوسف ہارون زیادہ عرصے تک اس عہدے پر کام نہ کر سکے جس کے بعد قاضی فضل اللہ کوسندھ کا وزیر اعلیٰٰ مقرر کیا گیا لیکن انھیں بھی محمد ایوب کھوڑو نے بہت جلد اقتدار سے محروم کر دیا جن کی کرپشن کے الزامات میں نااہلی کو چند تکنیکی وجوہات کی بنا پر چیف کورٹ آف سندھ کے ایک فیصلے کے مطابق نظر انداز کر دیاگھا تھا وہ دوبارہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب گئے لیکن انھیں ایک مرتبہ پھر کرپشن کے الزامات میں برطرف کر دیا گیا اور سندھ میں گورنرراج قائم کر دیا گیا۔ ١٥) شمال مغربی سرحدی صوبے میں آزادی سے پہلے کانگریسی حکومت قائم تھی جس کے سربراہ ڈاکٹر خان صاحب تھے۔ صوبے میں پاکستان سے الحاق کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں بہت بڑی اکثریت کے اس فیصلے کے باوجود کہ وہ پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں ڈاکٹر خان صاحب نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفٰی دینے سے انکار کر دیا انھوں نے اب تک قیام پاکستان کی بھر پور مخالفت کی تھی چنانچہ 14 اگست 1947ء کو انھوں نے پرچم کشائی کی تقریب میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے پختو نستان تحریک بھی شروع کردی، جس کے نتیجے میں قائد اعظم کے احکام پر اُن کی وزارت برطرف کردی گئی اور صوبائی مسلم لیگ کے لیڈر خان عبد القیوم خان کو صوبے کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا، اُن کا طرزِ حکومت اس قدر امرانہ تھا کہ ان کے سیاسی مخالفین ان پر جمہوریت کی تباہی کے الزامات عائد کرنے لگے تھے۔

١٦) مرکز میں بھی قائد اعظم کی تشکیل کردہ پہلی کابینہ کے قیام کے بعد سے ہی بے اطمینانی کا احساس پیدا ہوچلا تھا اپنی کابینہ میں باصلاحیت افراد کی شمولیت کے پیش نظر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ سر ظفر اللہ خان، نواب مشتاق احمد خان گورمانی اور غلام محمد جیسے لوگوں کو بھی حکومت میں شامل کر لیں جو کبھی مسلم لیگ کے رُکن نہیں رہے۔ مغربی صوبے میں ہر کوئی چاہتا تھا کہ معاملات اسی طرح چلتے رہیں، انھیں اس صورت حال پر کسی قسم کی تشویش نہیں تھی کیوں کہ انھیں قائد اعظم اور قائد ملت کی قیادت اور فراست پر مکمل یقین تھا

١٧) مشرقی پاکستان میں جہاں صورت حال زیادہ تشویش ناک نہیں تھی، مسلم لیگ حکومت کے خلاف تحریک رفتہ رفتہ زور پکڑتی جا رہی تھی، اپوزیشن پارٹیوں نے زبان کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے، قائد اعظم کو علالت اور بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود اپریل 1948ء میں مشرقی پاکستان کا دشوار گزار سفر اختیار کرنا پڑا جہاں پہنچ کر انھوں نے اس تنازع کے حوالے سے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ ( بنگالی زبان، مشرقی پاکستان کی زبان رہے گی تاہم پاکستان کی قومی زبان کا درجہ اردو کو حاصل رہے گا کیوں کہ ایک قومی زبان کے بغیر کوئی قوم باہمی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو کر ترقی نہیں کرسکتی) ۔۔۔۔ وقتی طور پر اُن کی اس بات کا مثبت اثر ہوا۔

١٨) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقسیم کے بعد مغربی صوبے میں بڑے وسیع پیمانے پر آبادی کا تبادلہ عمل میں آیا تھا جب کہ مشرقی صوبے میں اب بھی ڈیڑھ کروڑ کی تعداد میں ہندو موجود تھے جس سے اس شبے کو تقویت ملی کی زبان کے مسئلے کو ابھارنے میں اُن کے اثر ورسوخ کوبھی کافی دخل ہے۔ درحقیقت وہ اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینے والے سینئر سرکاری اہلکار اور حکام کو ایک بڑی تعداد کا تعلق یا تو پنجاب سے تھا یا پھر یوپی سے جن کی اکثریت بنگالی زبان سے ناآشنا تھی۔

١٩) مشرقی پاکستان میں آباد ہندو آبادی سیاسی طور پر بھی سرگرم ہو چکی تھی اور اس نے حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں میں شمولیت شروع کردی تھی۔ بالخصوص عوامی مسلم لیگ میں جس کا نام اس وقت تک بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا گیا تھا تاکہ ہندوؤں کو بھی اس جماعت میں شامل کرنے کی طرف راغب کیا جاسکے تاہم بڑھتی ہوئی مخالفت کے باوجود مشرقی پاکستان میں مسلم لیگی حکومت اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی اسی دوران میں پوری قوم کو شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا اور 11 ستمبر1948 کو قائد اعظم اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ خواجہ ناظم الدین کو اُن کی جگہ گورنر جنرل مقرر کیا گیا جو کراچی روانہ ہو گئے اور ان کی بجائے نورالامین کو مشرقی پاکستان کا وزیر اعلیٰٰ بنا دیا گیا اگرچہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے تاہم وہ عوام سے خاطر خواہ رابطہ برقرار نہ رکھ سکے اور دن بدن اس میں مزید کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ ان کی اصل مشکلات کا آغاز 1950ء میں اس وقت ہوا جب مغربی بنگال میں ہونے والے مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں مسلمان مہاجرین مشرقی پاکستان میں داخل ہونا شروع ہوئے اُس وقت فضل الحق کلکتہ کا دورہ کر رہے تھے کہ اچانک یہ افواہ پھیل گئی کہ فسادیوں نے انھیں ہلاک کر دیا ہے اس واقعے کے رد عمل میں مشرقی پاکستان کے عوام کے جذبات بھڑک اٹھے جس کے نتیجے میں ڈھاکا، کھلنا اور نواکھالی میں تشدد آمیز واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے بعد ہندوؤں نے مغربی بنگال کی طرف نقل مکانی شروع کردی تاہم وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی بروقت مداخلت نے صورتِ حال کو مزید بگڑنے سے بچا لیا جنھوں نے بھارت پہنچ کر پنڈت جواہر لال نہرو سے اس مسئلے کے بارے میں گفت و شنید کی تاکہ اس کا فوری اور دیرپا حل تلاش کیاجاسکے، ان مذکرات کے نتیجے میں نہرو، لیاقت پیکٹ وجود میں آیا جس کے سبب کشیدگی کا خاتمہ ہو گیا۔

٢٠) اس سے قبل 7 مارچ 1949ء کو ( قراردادِ مقاصد) منظور کی جاچکی تھی،( پروڈا) کے تحت لیاقت علی خان نے سیاست کو بدعنوان عناصر سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومتوں نے اس ایکٹ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں محمد ایوب کھوڑو، نواب آف ممدوٹ، قاضی فضل اللہ اور حمید الحق چوہدری کو پروڈا کے تحت کئی برسوں تک سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ۔

٢١) مارچ 1951ء میں ایک خطرناک سازش کا انکشاف ہوا جس کے ذریعے چند فوجی افسران حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے تاہم اس سازش کوفوری طور پر ناکام بناتے ہوئے اس کے ملزمان پر ایک اسپیشل ٹریبونل کے ذریعے مقدمہ ( روالپنڈی سازش کیس) کے نام سے مشہور ہوا اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد اکتوبر 1951ء میں وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان، اُس وقت شہید کردیے گئے جب وہ روالپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے والے تھے، اُن کی شہادت کا یہ واقعہ آج تک ایک سربستہ راز ہے۔ لیاقت علی خان کی وفات قوم کے لیے ایک عظیم صدمے اور المیے سے کم نہ تھی۔ اُن کے انتقال سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا اُسے پُر کرنا ناممکن تھا! بہر حال کسی نہ کسی کو تو یہ خلا پُر کرنا ہی تھا چنانچہ خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کے عہدے سے ہٹا کر وزارت عظمیٰ اور غلام محمد کو اُن کی بجائے گورنر جنرل کے عہدے پرفائز کر دیا گیا۔ بعد میں پیش آنے والے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کے اصل مصائب اور مشکلات کا آغاز اس واقعے سے ہوتا ہے، جب پاکستان میں بیوروکریٹس کی حکومت کی داغ بیل پڑی! سیاست دان باہمی اختلافات کا شکار تھے اور یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے کہ ملک میں کس قسم کا آئین ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ملک کی اقتصادی صورتِ حال بھی روز بروز بگڑتی چلی جا رہی تھی اور بالخصوص مشرقی پاکستان میں روزمرہ استعمال کی جانے والی اشیاء کی شدید قلت تھی، خواجہ ناظم الدین اُن بیورو کریٹس کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے جن کی پوزیشن غلام محمد جیسے بیورکریٹ کے گورنر جنرل بننے کے نتیجے میں اب خاصی مضبوط ہو چکی تھی۔

٢٢) پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے دسمبر 1952 میں دوسرا آئینی مسودہ تیار کیا جسے پنجاب نے نامنظور کر دیا، کیوں کہ اس کی رو سے ایوان بالا میں دونوں ( بازوؤں) کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی۔ پنجاب کا دعویٰ یہ تھا کہ وفاقی طرز حکومت میں ہر ( وحدت) کو مساوی نمائندگی دی جانی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ اُس کی آبادی اور رقبہ کتنا ہے؟ اس کا مطلب یہ تھا کہ وفاقی ایوان بالا میں شرقی پاکستان بحیثیت ایک صوبے کے ہمیشہ اقلیت میں رہتا حالانکہ آبادی کے تناسب سے وہ بقیہ پاکستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ اکثریت کا حامل تھا۔ درحقیقت یہیں سے مشرقی اور مغربی صوبوں کے درمیان میں اختلافات کا آغاز ہوتا ہے چنانچہ مشرقی پاکستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ اکثریت کا حامل تھا۔ درحقیقت یہیں سے مشرقی اور مغربی صوبوں کے درمیان میں اختلافات کا آغاز ہوتا ہے! چنانچہ مشرقی پاکستان کی جانب سے آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا مطالبہ غیر فطری نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں مکمل تعطل پیدا ہو گیا کیوں کہ دونوں بازوؤں کے درمیان میں ایسی خلیج حائل ہو چکی تھی جسے پاٹنا ناممکن نظرآتا تھا۔ خواجہ ناظم الدین نے بھی ضرورت اور مصلحت کے تحت مشرقی پاکستان کے اس نقطہ نظر کی حمایت کی جس کی بنا پر وہ غیر مقبول ہوتے چلے گئے، ان کی مقبولیت میں اس وقت اور بھی کمی واقع ہوئی جب قادیاینوں کے خلاف لاہور میں پر تشدد تحریک شروع ہو گئی جسے کچلنے کی غرض سے پاکستان میں پہلی بار مارشل لا کا نفاذ کرنا پڑا۔ کچھ گواہوں کے بیان کے مطابق یہ تحریک خود خواجہ ناظم الدین کے خلاف چلائی گئی تھی تاہم چند دیگر حضرات کا خیال ہے کہ مذہبی لیڈروں کے حوالے سے خواجہ صاحب کے رواداری اور صبرو برداشت کے رویے کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ خواجہ صاحب نے بیرون ملک قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہ حنفی فقہ کے پیروکار اور ایک عملی مسلمان تھے، وہ ہمیشہ اپنا قومی لباس زیب تن کیا کرتے تھے اور پابندی کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ان خصوصیات کے باوجود وہ ملک کوایسی مؤثر لیڈر شپ فراہم نہ کرسکے جس کی ملک کو ضرورت تھی اور جس کے نتیجے میں اُن کی اپنی پارٹی کے لوگ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان رہنے لگتے تھے۔ چنانچہ بیورکریسی کو بہانہ مل گیا اور اُس نے ان کے خلاف سازشوں اور سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر دیا۔

٢٣) اسی اثنا میں مشرقی پاکستان کا سیاسی موسم بھی کافی گرم ہو گیا اور اپوزیشن پارٹیاں، مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات اور بے اطمینانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مضبوط ہوتی چلی گئیں، روزمرہ ضرورت کی اشیاء میں قلت تھی، نمک، سرسوں کا تیل، کپڑے اور اناج جیسی اہم اور بنیادی ضرورت کی اشیاء ناپیدا ہو چکی تھیں، دانشوروں،بالخصوص ماہرینِ معاشیات نے وہاں مروجہ حالات کے پیش نظردونوں بازوؤں میں ہونے والی تعمیر و ترقی کے نمایاں فرق کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان سے کی جانے والی برآمدات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا غیر ملکی زر مبادلہ مغربی پاکستان کی تعمیر اور ترقی پر صرف کیا جا رہا ہے۔ جب کہ بنگالی بھوکوں مر رہے ہیں۔ چند سیاست دانوں نے دونوں بازوؤں کے درمیان میں پیرٹی کے اصول کی بھی شدید مخالفت شروع کردی، بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت سے منوانے کے لیے طلبہ نے ایجی ٹیشن شروع کر دیا اور تمام اپوزیشن پارٹیاں باہم متفق ہو کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے لگیں کیوں کہ دسمبر 1951ء میں پنجاب میں انتخابات ہو چکے تھے۔ مشرقی پاکستان کی حکمراں جماعت کو چونکہ اپنی کامیابی کا یقین نہیں تھا لٰہذا وہ انتخابات کو ملتوی کرتی رہی احتجاجی عناصر اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی اس کمزوری کے مدنظر بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیے جانے کے حق میں پرتشدد تحریک اور مظاہروں کا آغاز کر دیا اور مطالبہ کیا کہ 1952ء کے اوائل میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے پر قرارداد منظور کی جائے۔ طلبہ نے اس روز ہڑتال کا اعلان کر دیا اور جلوس نکالے اور اسمبلی ہال پر جمع ہو گئے جو ان دنوں کیمپس کے درمیان یونیورسٹی بلڈنگ میں واقع تھا، پولیس اور احتجاجی طلبہ کے درمیان میں پرتشدد چھڑپیں شروع ہوگئیں پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چند طلبہ ہلاک ہو گئے اس واقعے کے بعد احتجاجی مظاہروں نے انتہائی سنگین صورت اختیار کرلی اور اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں نے ان طلبہ کے ساتھ مل کر صوبے کے وزیر اعلیٰٰ مسٹر نورالامین سے استعفا کا مطالبہ کر دیا، ان حالات کے دباؤ میں آکر صوبائی اسمبلی بالآخر مجبور ہو گئی اور اس نے یہ قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکزی قانون ساز اسمبلی سے سفارش کی کہ بنگالی کو دوسری قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے تاہم اس احتجاج کو کچلنے کی غرض سے مسٹر نورالامین کی حکومت نے اپنے ایمر جنسی اخیتارات کا بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا۔ مسٹر حیسن شہید سہروردی کو جو پہلے بھی مشرقی پاکستان جا چکے تھے اور ان حالات پرقابو پاسکتے تھے کو نارائن گنج کے اسٹیمر گھاٹ پر اترتے ہی بے دخلی کے احکامات تھما دیے گئے، شیخ مجیب الرحمن، مولاناعبدالحمید بھاشانی اور متعدد دیگر مخالف سیاسی رہ نما، پبلک سیفٹی آرڈیننس کے تحت نظر بند کر دیے گئے اس واقعے کے رد عمل میں مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پر تشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں ہندوؤں نے کھل کر اپوزیشن کا ساتھ دیا۔

٢٤) شمال مغربی سرحدی صوبے میں خان عبد القیوم خان نے مرکز کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں نامزد کردہ امیدواروں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے امیدوار کھڑے کر دیے جس میں انھیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان مسلم لیگ نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اُن کی کامیابی کا اعتراف کر لیا، خان قیوم نے نئی کابینہ کی تشکیل کی اور اس کامیابی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بھرپور قوت اور اختیارات کے ساتھ صوبے پر حکومت کرتے رہے۔

٢٥) صوبہ سندھ میں محمد ایوب کھوڑو کی برطرفی کے بعد کوئی حکومت تشکیل نہیں دی جاسکی تھی گورنر راج اس قدر غیر مقبول ہو چکا تھا کہ بالآخر گورنر دین محمدکو نومبر 1952ء میں خود ہی استعفا دے کرجانا پڑا۔ 1953ء کے صوبائی انتخابات میں محمد ایوب کھوڑو نے خان عبد القیوم خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے نامزد کردہ امیدوارں کے مقابلے میں اپنے امیدواروں کو منتخب کرالیا تاہم صوبہ سرحد کے برعکس اس مرتبہ پاکستان مسلم لیگ نے اُن کی پارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انھیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی پارٹی کا دفتر اور تمام فنڈز مسٹر غیاث الدین پٹھان کے حوالے کر دیں۔ مسٹر کھوڑو نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

٢٦) غذائی اشیاء کی کم یابی اور گرانی، مشرقی پاکستان میں چلنے والی لسانی تحریک صوبوں میں بر سر اقتدار حکومتوں کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف سخت گیر اقدامات اور پروڈا کے تحت پرانے مسلم لیگیوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا، جس نے گورنر جنرل غلام محمد کو بالآخر وہ موقع فراہم ک رہی دیا، جس کا انھیں بڑی بے تابی سے انتظار تھا کہ وہ تمام طاقت اور اختیار اپنی ذات میں مرکوز کر لیں۔ چنانچہ اپریل1953ء میں انھوں نے خواجہ ناظم الدین کو حکومت سے برطرف کر دیا حالانکہ ایک ماہ قبل ہی وہ مطلوبہ اکثریت کے ساتھ اسمبلی سے ملکی بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہوچکتے تھے اور اب بھی انھیں اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا۔ ظاہر ہے ایسا انھوں نے اس مقصد سے کیا تھا کہ اپنی مرضی کا وزیر اعظم مقرر کرکے اُس کی مدد اور حمایت سے ایسا آئین مرتب کیاجاسکے جواُن کے بیوروکریٹس مشیروں پر مشتمل حلقے کی خواہشات کے عین مطابق ہو اور جس کے ذریعے وہ مطلق العنانی کے ساتھ اس ملک پر حکومت کرسکیں۔ جمہوریت پر کیا جانے والا یہ پہلا بڑا حملہ تھا جس نے باقاعدہ ایک روایت کی شکل اختیار کر لی جس نے بالآخر اس ملک سے جمہوریت کا جنازہ نکال کر ہی دم لیا۔

٢٧) محمد علی بوگرا اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے لیکن انھیں نہایت عجلت میں امریکا سے واپس بلایا گیا اور ائیر پورٹ سے سیدھے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا گیا انھوں نے اسی دن وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا ان کی کابینہ پہلے سے تیار تھی اس نے بھی اسی دن حلف اٹھایا۔ اس کابینہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ تمام پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو کابینہ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔

٢٨) مسلم لیگ کا زوال اخلاقی پستی کی اس حد تک پہنچ گیا تھاکہ اس نے نئے وزیر اعظم کو پارلیمانی لیڈر منتخب کرکے اس تبدیلی کوقبول کر لیا، 1950ء میں پنجاب میں غیر معمولی سیلاب آنے اور 1951ء میں مشرقی پاکستان میں سیقلون سے تباہی ہونے کے بعد خواجہ ناظم الدین نے اناج کی درآمد کے لیے جو مذکرات شروع کیے تھے اس دورِ حکومت میں ان کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ امریکا کی طرف سے کئی لاکھ ٹن اناج مہیا کرنے سے قحط کا خطرہ ٹل گیا مگر امریکا نے اس اناج کا کچھ حصہ مفت اور کچھ کم قیمت پر اس شرط کے ساتھ مہیا کیاتھا کہ پاکستان اپنی غیر وابستگی کی پالیسی کو خیرباد کہہ کہ دے۔ مئی 1954ء میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ میوچل ڈیفینس اسٹینس ایگریمنٹ کیا اور بعد میں بغداد پیکٹ( سینٹو) اور سیٹو پیکٹ میں شامل ہو گیا۔

٢٩) دستور ساز اسمبلی کی بیسک پرنسپلز کمیٹی نے ایک اور ڈرافت( تھرڈ ڈرافٹ کانسٹی ٹیوشن) تیار کر لیا تھا جس میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں پیرٹی کے اصول کو جیسے دوسرے ڈرافٹ میں کیا گیا اور جس کی خواجہ ناظم الدین نے تائید کی تھی ایک تبدیل شدہ شکل میں برقرار رکھا گیاتھا۔ نشستوں کی اس طرح تقسیم کی گئی تھی کہ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان میں پیرٹی قائم رہے۔ تجویز یہ تھی کہ دونوں ایوانوں کو برابر کے اختیارات دیے جائیں گے لیکن اختلاف کی صورت میں مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا، مزید کہا گیا تھا کہ کسی بازو کے بارے میں کسی معامل کے لیے اس بازو کی اسمبلی کے موجود اور ووٹ دینے والے اراکین کی ایک تہائی تعداد کی حمایت حاصل ہونی چاہیے یہ تجویز اس خطرے کے پیش بندی کے لیے رکھی گئی تھی کہ کہیں مشرقی پاکستان کے اراکین سرحد یا سندھ کے اراکین کے ساتھ مل کر ایسا دستور اخیتار نہ کر لیں جو دوسرے لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو، خیال تھا کہ بنیادی اصول کو جسے محمد علی فارمولا کہا گیا تھا قبول کرنے کے بعد ایک سال میں دستور تیار ہو جائے گا لیکن صوبوں کی مرضی کچھ اور تھی کیونکہ اس دوران ملک کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا تھا 1954ء میں ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو مشترکہ حزب اختلاف (جگنوفرنٹ) کے ہاتھوں بھاری شکست ہوئی اس مشترکہ فرنٹ کے رہنما فضل الحق، سہروردی اور بھاشانی تھے اس میں سے پہلے رہنما کرشک سرامک پارٹی رہنما، دوسرے عوامی لیگ کے اور تیسرے عوامی لیگ کے بائیں بازو کے رہنما تھے یہ تینوں بنگال کے نہایت مقبول اور با اعتماد رہنما تھے۔ مسلم لیگ، محترمہ فاطمہ جناح کی آخری وقت کی کوششوں کے باوجود صرف 15 نشستیں بھی حاصل نہ کرسکی۔

٣٠) وفاقی اسمبلی نے جب دیکھا کہ صورتِ حال اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے تو اس نے خود کو منوانے کی کوشش کی، 20 ستمبر1954ء کو اس نے بدنام پبلک اینڈری پریز نٹیٹو آفیسز (ڈس کوالیفکیشن) ایکٹ 1949ء منسوخ کر دیا اس ایکٹ کو گورنر جنرل اپنے مخالفین کے خلاف ڈموکلس کی تلوار کے طور پر استعمال کرتے تھے اس کے بعد مشرقی پاکستان کے فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اور کچھ لوگوں کے خیال میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی حمایت سے بڑی عجلت کے ساتھ صرف 18 گھنٹوں مں جب کہ گورنر جنرل صوبہ سرحد کے دورے پر گئے ہوئے تھے، مندرجہ ذیل قواعد منظور کرلیے۔

a) ۔.۔.۔ کابینہ کی ذمہ داری مشترکہ ہوگی b) ۔.۔.۔ کسی وزیر کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پوری کابینہ کے خلاف ووٹ سمجھا جائے گا۔ c) ۔.۔.۔ گورنر جنرل کا بینہ کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔

٣١) دورے سے واپس آنے پر گورنر جنرل بہت غضبناک ہوئے، انھوں نے اپنے غیر معمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پبلک اینڈری پریزنٹیٹو افیسز ( ڈس کوالیفکیشن) ایکٹ 1949ء سابقہ مدت سے ختم کر دیا مسلم لیگ کے اس وقت کے تمام اراکین کی مخالفین کو آزاد چھوڑ دیا اور 24 اکتوبر 1954ء کو خود دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا، انھوں نے کراؤن کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس بہانے پر عمل کیا کہ اسمبلی عوام کا اعتماد کھوچکی ہے۔ اسمبلی کی عمارت کو فوج نے گھیرے میں لے لیا اور اسپیکر مولوی تمیز الدین خان کو اس میں داخل ہونے سے روک دیا انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی دفعہ 223A کے تحت رٹ داخل کی اس دفعہ کو دستور ساز اسمبلی نے ایک ترمیم کے ذریعہ 6 جولائی1954ء کو ایکٹ میں شامل کیا تھا اور خود اسپیکر نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اس کی منظوری دی تھی۔ یہ روایت قائد اعظم کے انتقال کے بعد بھی جاری تھی، اس روایت کے مطابق آئینی نوعیت کے معاملات گورنر جنرل کے سامنے ان کی منظوری کے لیے نہیں رکھے جاتے بلکہ یہ اسپیکر کے دستخطوں سے ہی قانونی شکل اختیار کر لیتے تھے کیونکہ اسپیکر دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی عمل کرتے تھے لیکن قانون سازی کے دوسرے معاملات میں گورنر جنرل کی منظوری لینا ضروری تھا۔

٣٢) ہائی کورٹ نے ایک رٹ جاری کر دی جس میں حکومت کو اسمبلی کے معاملات میں دخل اندازی کرنے سے منع کیا گیا تھا، حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی اپیل کے زیر سماعت رہنے کے دوران میں گورنر جنرل اور اسپیکر کے درمیان میں اپیل واپس لینے کے بارے میں مذکرات ہوتے رہے مگر یہ کامیاب نہیں ہوئے، فیڈریل کورٹ نے بغیر اس سوال پر غور کیے ہوئے کہ کیا دستور ساز اسمبلی توڑنا جائز تھا، اس بنیاد پر اپیل منظور کر لی کہ ہر قسم کے قانون منظور کرنے کے لیے چاہے یہ معمول کے ہوں یا آئینی نوعیت کے گورنر جنرل کی منظوری ضروری ہے (فیڈریشن آف پاکستان بنام مولوی تمیز الدین خاں پی ایل ڈی 1955ء ایف سی۔240) لٰہذا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں ترمیم کے ذریعے شامل کی گئی، دفعہ 223A جس پر گورنر جنرل سے دستخط نہیں لیے گئے تھے درست قانون نہیں ہے اس لیے اس دفعہ کے تحت مولوی تمیز الدین خان کو ریلیف نہیں دی جا سکتی، رٹ خارج کردی گئی اور اس طرح گورنر جنرل کی جیت ہوئی مگر اس سے جمہوریت کو ایک سخت دھچکا لگا۔

٣٣) یہ فیصلہ اگرچہ گورنر جنرل کے حق میں تھا مگر اس نے ان کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے اس فیصلے سے قائد اعظم کے انتقال کے بعد جو بھی قوانین بنائے گئے تھے وہ کالعدم قرار پائے، گورنر جنرل نے اس مشکل پر قابو پانے کے لیے ایسے تمام قوانین کو جنہیں وہ رکھنا چاہتے تھے جائز قرار دینے کے لیے ایک آرڈینس کے ذریعہ انھیں گذشتہ مدت سے جائز قرار دے دیا۔ اس آرڈینس کا نام ایمر جنسی پاورز آرڈیننس ( نمبر 9آف1955ء) قرار دیا لیکن ایک اور مقدمے یوسف پٹیل (پی ایل ڈی 1955ء ایف سی 387) میں فیڈرل کورٹ نے اس آرڈیننس کو بھی کالعدم قرار دے دیا کیونکہ گورنر جنرل فیڈرل اسمبلی کی غیر موجودگی میں تو آرڈیننس کے ذریعے قوانین تو بنا سکتا ہے لیکن آئینی معاملات میں وہ یہ اختیارات استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ یہ صرف دستور ساز اسمبلی کا کام ہے، گورنر جنرل اپنے تیر کا خود ہی شکار ہو گئے اپنے غیر آئینی اقدام سے انھوں نے ایک سیاسی مصیبت پیدا کرلی، اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا اس لیے انھوں نے گیند واپس فیڈرل کورٹ کے کورٹ میں پھینک دی اور اس کے مشورہ دینے کے فرائض کو استعمال کرتے ہوئے مشورہ طلب کیا( گورنر جنرل کاریفرنس1یا1955ء پی ایل ڈی 1955ء ایف سی 435) کیونکہ اس نکتے پر کوئی قانون نہیں تھا اس لیے مدد کے لیے ضرورت کا اصول وضع کیا گیا اور (سیفٹی آف دی پیپل ازسپرلا) کے اصول کے تحت عدالت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اس کے ہدایات کے مطابق نئی اسمبلی بنائی جائے اور پھر تمام ان قوانین کو جائز قرار دینے کے لیے ایک قانون منظور کرایا جائے جنہیں وہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

٣٤) چنانچہ ایک نئی مجلس قانون ساز کا انتخاب عمل میں آیا۔ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں میں کم و بیش وہی افراد دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے جو حکمران جماعت، مسلم لیگ کے حامی تھے جبکہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں منتخب ہو کر آنے والے سب ہی لوگ بالکل نئے تھے۔ دوسری مجلس قانون ساز کا اجلاس 1955ء میں مری کے مقام پر ہوا۔ جس میں مسلم لیگ اسی نشستوں کی مجموعی تعداد میں سے صرف بیس نشستیں ہی حاصل کرسکی۔ مسٹر فضل الحق کی کریشک سرامک پارٹی نے سولہ جبکہ حسین شہید سہروردی کی قیادت عوامی لیگ کو تیرہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ بقیہ نشستوں پر دیگر مختلف گروپوں کے لوگ منتخب ہوکر آئے تھے۔ چنانچہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایوان میں واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں مخلوط حکومت کی تشکیل اور قیام ناگزیر ہو چکا تھا۔ فیڈریل کورٹ کی ہدایت کے بموجب آئینی حکم بحال کر دیا گیا تھا تاہم مرکزی کابینہ کی تشکیل میں کافی دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ گورنر جنرل غلام محمد کی جسمانی صحت اور حالت، فالج کے حملے کے بعد مزید بگڑتی چلی جا رہی تھی جس کے سبب وہ کام کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں، کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا حتٰی کہ وہ ضروری سرکاری کاغذات اوردستاویزات پر دستخط کرنے کے بھی قابل نہ رہے تھے۔ ان حالات میں انھیں رخصت پر روانہ کر دیا گیا اور ایک دوسرے بیوروکریٹ یعنی جنرل اسکندر مرزا اس وقت کے وزیر خزانہ، چوہدری محمد علی کی مدد اور تعاون سے قائم مقام گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ مسٹر اے کے فضل الحق کی پارٹی کے تعان سے مسلم لیگ نے حکومت تشکیل دی، مسٹر محمد علی بوگرا وزیر اعظم مقرر ہو گئے اور حزب اختلاف کی قیادت سہروردی نے سنبھال لی، کچھ ہی عرصے بعد محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمٰی سے ہٹا کر دوبارہ سفیر کی حیثیت سے امریکا بھیج دیا گیا اور ان کی بجائے چوہدری محمد علی مسلم لیگ پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم مقرر کر دیے گئے۔ اسی اثنا میں گورنر جنرل غلام محمد شدید علالت اور خرابی صحت کے بنا پر اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے اور اس طرح میجر جنرل اسکندر مرزا اگست 1955میں مستقل طور پر گورنر جنرل بننے میں کامیاب ہو گئے۔

٣٥) اسی دوران مشرقی پاکستان میں بھی نئی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں تھیں۔ 1954ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست سے دوچار کرنے ولے جگتو فرنٹ کو 3اپریل 1954 ء کو مسٹر فضل الحق کی زیر قیادت حکومت بنانے کی دعوت دی گئی لیکن قبال اس کے کہ یہ حکومت عمل میں آتی ڈھاکہ، نارائن گنج اور کھلنا میں بہاریوں کے خلاف ہونے والے سنگین فسادات کے نتیجے میں امن و امان کی صورت حال تشویش ناک حد تک بگڑ گئی۔ حالات کسی طور پر قابو میں نہیں آ رہے تھے چنانچہ گورنر جنرل کا احکامات کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور اس وقت کے گورنر چوہدری خلیق الزمان کی بجائے میجر جنرل اسکندر مرزا مشرقی پاکستان کے گورنر بنا دیے گئے جنھوں نے 20 مئی1954 کو ڈھاکہ پہنچتے ہی فوج کو طلب کر لیا۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی اور مسٹر فضل الحق کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ان کی کابینہ کے چند وزرا کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ گورنر راج پورے ایک برس تک نافذ رہا۔ 6 جون 1955ء کو جب صورت حال کچھ بہتر ہو گئی تھی مسٹر فضل الحق کے نمائندے مسٹر ابوحسین سرکار کی قیادت میں ایک حکومت تشکیل دی گئی تاہم یہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکی چنانچہ میجر جنرل اسکندر مرزا کو مرکز میں واپس بلا لیا گیا اور جگتو فرنٹ سے سیاسی تصفیہ کرتے ہوئے مسٹر فضل الحق کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ عوامی لیگ کے مسٹر عطاالرحمن کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی گئی جن کی کابینہ میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔

٣٦) صوبہ سندھ میں 1953ء کے انتخابات کے بعد نافذ کیے گئے گورنر راج کے خاتمے کے بعد مسٹر عبد الستار پیرزادہ کی سربراہی میں حکومت کا قیام عمل میں آیا تاہم یہ حکومت بھی مرکزی حکومت سے عدم تعاون کے نتیجے میں زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اورانہیں برطرف کیے جانے کے بعد نومبر 1954ء میں محمد ایوب کھوڑو تیسری مرتبہ سندھ کے وزیر اعلیٰٰ بن گئے۔

٣٧) صوبہ پنجاب میں سر فیروز خان نون کی وزارت اعلیٰ کا مئی 1955ء میں خاتمہ ہو گیا، ادھر نواب آف ممدوٹ کی نئی تشکیل کردہ جماعت جناح عوامی لیگ، صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں 14نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ دوسری مجلس قانون ساز کے لیے اراکین کے انتخاب کے مسئلے پر مرکزی اور حکومت اور گورنر پنجاب مشتاق احمد گورمانی کی ملی بھگت کے نتیجے میں فیروز خان نون کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور ان کی بجائے سردار عبد الحمید خان دستی کا انتخاب عمل میں آچکاتھا۔

٣٨) اپریل 1953 میں خان عبد القیوم خان کی مرکزی حکومت میں شمولیت کے بعد سردارعبدالرشید کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا جوانسپکٹر جنرل آف پولیس تھے اور سیاست سے ان کا کوئی علاقہ نہ تھا۔ تاہم اپنی عقل مندی اور آزاد پالیسیوں کی مدد سے نہ صرف وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ اپوزیشن کو بھی دم دلاسہ دے دیا۔ انھوں نے عام معافی معافی کا اعلان کرتے ہوئے ان تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جنہیں خان عبد القیوم کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی ضبط شدہ جائیدادیں انھیں واپس کردی گئیں اور ڈاکٹر خان صاحب کی نقل و حرکت پر عائد کردہ پابندیاں بھی ہٹالی گئیں۔

٣٩) مرکز میں بھی تیزی کے ساتھ سیاسی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ مسٹر غلام محمد مغربی پاکستان کے صوبائی اسمبلیوں سے ون یونٹ اسکیم کی حمایت میں قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہو چکے تھے جس کے قیام کے لیے قانون تشکیل دیا جاچکاتھا اسی دوران میں 1955ء میں چوہدری محمد علی وزیر اعظم مقرر ہو گئے جنھوں نے اس قانون کو عملی شکل دیتے ہوئے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ضم کرتے ہوئے ون یونٹ کی شکل دے دی اور مغربی پاکستان کے قیام کا ایکٹ مجریہ اکتوبر1955ء منظور کر لیا گیا چنانچہ مغربی پاکستان کے نام سے ایک نیاصوبہ وجود میں آ گیا اور ڈاکٹر خان صاحب کو اس کا پہلا وزیر اعلیٰٰ مقرر کر دیا گیا۔ نئی مجلس قانون ساز بھی متحرک ہو چکی تھی جس نے فروری 1956ء کو دونوں بازوؤں کے درمیان میں پیرٹی کے اصولوں کی بنیاد پر وضع کردہ نئے آئین کی منظوری دے دی تھی۔ اسکندر مرزا اپنی چالبازیوں سے ملک کے پہلے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے اور آزادی کے 9 برس بعد23 مارچ1956ء کو ملک کا پہلا آئین نافذ العمل ہو گیا۔

٤٠) اس آئین میں موجود خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر ایک بڑے طبقے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بالآخر ساڑھے نو برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس ملک کو ایسا آئین میسر آ گیا ہے جس کی موجودگی میں مکمل آئینی حکومت اور جمہوری عمل کا راستہ کھل گیا ہے جس پر پوری دیانت داری سے عمل پیرا ہوکر جمہوریت اور جمہوری اداروں کو استحکام حاصل ہو سکے گا۔ آئین کے حوالے سے مشرقی پاکسان سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور انتہا پسند اراکین پر مشتمل ایک گروپ کے عدم اطمینان کے باوجود جس کی قیادت شیخ مجیب الرحمٰن کر رہے تھے نسبتاَ َ عمر رسیدہ سیاست دانوں نے جن میں خواجہ ناظم الدین، اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، نورالامین، مسٹر فضل الرحمن اور مولوی تمیز الدین خان جیسے حضرات شامل تھے نے پیرٹی ( مساوات) کے اصول کو موجودہ حالات کے تناظر میں مسئلے کا بہترین مصالحانہ حل قرار دیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ملکی حکومت میں ایک مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے پالیسی ساز فیصلوں کی تشکیل میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکتا تھا جس کے لیے صحت مندانہ روایت قائم کرتے ہوئے دونوں صوبوں کے درمیان میں اہم وزارتوں کی مساوی طور پر تقسیم ضروری تھی تاہم یہ امیدیں بھی بہت جلد دم توڑ گئیں جیسا کہ آئندہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے۔

٤١) نیا آئین صدر اسکندر مرزا کی آرزو کی بھرپور طریقے سے تسلی و تشفی نہ کرسکا۔ وہ محض ملک کاایک آئینی سربراہ بنے رہنے پر ہی اکتفا نہیں کرسکتے تھے چنانچہ انھوں نے ڈاکٹر خان صاحب کے کندھوں پر بندوق رکھتے ہوئے مسلم لیگ کو کمزور کرنے کی ساز باز شروع کردی جن کی قیادت میں خفیہ طور پر ایک نئی سیاسی پارٹی (ریپبلکن پارٹی) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس پارٹی کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی غرض سے صدر اسکندر مرزا نے عوامی لیگ سے بھی ایک سمجھوتہ کر لیا اور اس کے قائد مسٹر سہرورردی 12 ستمبر 1956ء کو عوامی لیگ اور ریپبلکن پارٹی کی مخلوط حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ بات بہر طور بڑی افسوس ناک اور تکلیف دہ تھی کہ ہوس اقتدار اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے مسلم لیگی اراکین کی بھی ایک بڑی تعداد ریپبلکن پارٹی میں شامل ہونے لگی جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کے پاس صرف دس نشستیں ہی باقی رہ گئیں۔ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں بھی اسے اپنے وزیر اعلیٰٰ کے انتخاب کے سوال پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اس حقیقت کے باوجود کہ اسے ایوان میں واضح اکثریت حاصل تھی۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں تو 1954ء کے انتخابات کے بعد ہی وہ ایک غیر اہم اقلیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔

٤٢) سہروردی ایک لائق اور تجربہ کار منتظم تھے۔ انھوں نے کوشش کی کہ انتظامیہ کی تعمیر نو کریں اور اس میں نئی زندگی پیدا کر دیں مگر وہ ایسا نہیں کرسکے کیونکہ وہ کوالیشن کے ایک چھوٹے سے حصے کے رہنما تھے اور کرشک سرامک پارٹی ان کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی تھی۔ ان کے یورپ اور امریکا کے دورے کے دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ریپبلکن پارٹی سے اتحاد کر لیا جسے اب پیلس پارٹی کہا جاتا ہے۔

٤٣) اس اتحاد نے مضبوط ہوکر ریپبلکن پارٹی سہروردی پر حکم چلانے لگی۔ پہلے اس نے سہروری سے کہا کہ مغربی پاکستان کے گورنر گرمانی کو ہٹا دیا جائے جو صدر کی نظروں سے گر گئے تھے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ ون یونٹ کو توڑنے اور مغربی پاکستان کا صوبہ ختم کرنے میں رپیبلکن پارٹی کی مدد کرے۔ سہروردی نے پہلی درخواست تو منظور کرلی مگر دوسری درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پنجاب کے دولتانہ نے خفیہ طور پر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس پر بھروسا کرتے ہوئے انھوں نے علی الاعلان ون یونٹ تورنے سے انکار کر دیا۔ ریپبلکن پارٹی کے رہنمائی ڈاکٹر خان صاحب کر رہے تھے جنھوں نے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے پاکستان کی کبھی حمایت نہیں کی تھی انھوں نے اس بات پر اپنی حمایت واپس لے لی اور دولتانہ نے بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اس طرح سہروردی کی وزارت عظمٰئ 17 اکتوبر1957ء کو ختم ہو گئی کیونکہ صدر نے انھیں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیے بغیر ان سے استعفا دینے کو کہا۔

٤٤) سیاسی خلفشار اور سیاسی رہنماؤں کی آپس کی ذاتی رقابت کے اس پس منظر میں گورنر جنرل نے ملک میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت کی حیثیت اختیار کرلی۔ وہ جس کا چاہتا تقرر کرتا اور جسے چاہتا ملازمت سے برطرف کر دیتا تھا۔ اس کے دن میں سیاست دانوں کے لیے کوئی احترام نہیں تھا اور وہ اپنے اس خیال کا برملا اظہار کرتا کہ پاکستان میں جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہ کنٹر ولڈ جمہوریت اور سیاست کی مذہب سے علیحدگی پر یقین رکھتے تھے۔ ان دونوں نظریات نے پاکستان کی بنیاد پر سخت ضرب لگائی۔ ڈاکٹر خان صاحب نے یہ اعلان کرکے کہ صرف اسکندر مرزا ہی وہ شخص ہے جو ملک پر حکومت کرسکتے ہیں اور آئین کومعطل کرکے ایک انقلابی کونسل قائم کردی جائے، اپنے آقا کے جذبات کی عکاسی کی۔ مرکز میں حکومت قائم ہونا اور ٹوٹنا میوزیکل چیئر کا کھیل بن گیا۔ وزرا ان کی مرضی سے آتے اور چلے جاتے تھے۔ صوبوں میں بھی یہ ہی کہانی دہرائی جا رہی تھی مگر اس کے اسباب مختلف تھے۔

٤٥) سہروردی کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں مشرقی پاکستان میں گورنر فضل الحق کوبرطرف کر دیا گیا۔ ابو حسین سرکار کی وزارت کو بھی ختم کر دیا گیا۔ عطاء الرحمن خان اور ان کی پوری کابینہ پھر اقتدار میں آگئی۔ پھر 20 جون 1958 ء کوابوحسین سرکار دوبارہ وزیر اعلیٰٰ بن گئے لیکن 23جون کو ہی اس کے خلاف عوامی لیگ اور مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی متحد ہو کر عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اسے حکومت سے ہٹا دیا۔ یہاں گورنر راج نافذ کر دیا گیا مگر دو ماہ بعد پھر عطاالرحمن کو بلایا گیا اور ان سے حکومت بنانے کے لیے کہا گیا۔ اسمبلی کا اجلاس 20 ستمبر1958ء کو منعقد ہوا مگر اجلاس میں لڑائی شروع ہو گئی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس دوران میں اسمبلی کے اسپیکر چلے گئے اور ان کی نشست ڈپٹی اسپیکر شاہد علی نے سنبھال لی جو عوامی لیگ کے رکن تھے۔ حکومت کی ایک قرارداد منظور کر لی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسپیکر کی ذہنی کیفیت درست نہیں ہے۔ تین روز بعد جب اسپیکر نے اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے انھیں روک لیا۔ ڈپٹی اسپیکر شاہد علی اجلاسوں کی صدارت کرتے رہے مگر ان پر حزب ِ اختلاف نے حملہ کر دیا اور ایوان میں دوبارہ لڑائی شروع ہو گئی۔ اس افراتفری میں کسی نے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کے سر پر مائیکرو فون اسٹینڈ دے مارا جس سے اسپتال جا کر وہ انتقال کر گئے۔ پولیس نے قتل کی کوشش کے الزام میں ابوحسین سرکار اور کرشک سرامک پارٹی کے دوسرے اراکین کو گرفتار کر لیا۔ ٤٦) اب مغربی پاکستان کے صوبے میں ون یونٹ کے خلاف جدوجہد نے شدت اختیار کر لی۔ خود ریپبلکن پارٹی بھی ون یونٹ توڑنا چاہتی تھی۔ اس نے جی ایم سید کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اس سلسلے میں ایک معاہدہ کیا اور 17 اگست1957ء کو مغربی پاکستان کی اسمبلی نے حقیقتاَ َ یون یونٹ توڑنے کی قرارداد منظور کرلی۔ لیکن گٹھ جوڑ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ جی ایم سید کے گروپ نے ریپبلکن پارتی کے ساتھ اپنی حمایت واپس لے لی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰٰ سردار عبد الرشید کی حکومت کو 17 مارچ1958ء کو مستعفی ہونا پڑا۔ نواب مظفر علی قزلباش ان کے جانشین بنے۔ وہ زیادہ ہوشیار ثابت ہوئے اور شکست کھانے سے بچ گئے۔

٤٧) صدر اورریپبلکن پارٹی کی ریشہ دوانیوں سے عوام تنگ آ گئے تھے اور جب 29 مارچ 1958ء کو عبد القیوم خان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو ان کی مایوسی انتہا کو پہنچ چکی تھی انھوں نے صدر اسکندر مرزا کے خلاف تحریک شروع کردی اور اعلان کیا کہ وہ صدر کے عہدے کے لیے نااہل ہیں۔ وہ جمہوریت کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں ایک جمہوری اور آئینی نظام کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ حکومت اس وقت مسلم لیگ نیشنل گارڈز پر پابندی عائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ عبد القیوم خان نے یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ خود یونیفارم پہن کر احتجاجی مظاہرے کی قیادت کریں گے۔ نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا، لوگ سیاسی سازشوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ دونوں صوبوں میں کرپشن عام ہو گئی تھی۔ قومی اسملبی کے انتخابات کے بار بار ملتوی ہونے سے جمہوری ذرائع سے کسی تبدیلی آنے کی امیدیں تیزی سے ختم ہوتی جا رہی تھیں۔ یہ سب کچھ بے مقصد نہیں ہو رہا تھا۔ اس دوران میں اسکندر مرزا آرمی کے کمانڈر انچیف کے ساتھ مل کر ایک خفیہ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جسے ( آپریشن اوورلارڈ) کہا گیا تھا تاکہ آئین کو معطل کر دیا جائے۔ وہ قومی اسمبلی اور کابینہ کو توڑنے اور سیاسی عمل پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

٤٨) 7 اکتوبر 1958کو فوج نے تمام اہم مقامات پر قبضہ کر لیا اور مارشل لا کا اعلان کر دیا۔ لوگ 1953ء کے مارشل لا کا تجربہ کر چکے تھے۔ لٰہذا سب نے سعادت مندی کے ساتھ یہ سوچ کر اسے قبول کر لیا کہ تھوڑے عرصے قائم رہنے والے مارشل لا ہے۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کا ایک اور دور صرف دو سال سات ماہ جاری رہ کر ختم ہو گیا۔

٤٩) اس عرصے میں خود غرض سیاست دانوں کی سازشوں، حکومت کے لالچی سربراہوں کی ریشہ دوانیوں اور آئینی دفعات کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود یہ امید قائم تھی کہ کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت ظاہر ہوگی او اس ذریعے ہمارے وہ مسائل حل ہوجائیں گے جو دونوں حصوں کے درمیان میں ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کی وجہ سے پیش آ رہے ہیں۔ جب تک اس بات کا امکان تھا کہ حکومت کی تبدیلی آئینی ذرائع سے لائی جاکستی ہے یہ بھی توقع کی جا سکتی تھی کہ ملک پر حکومت کرنے کے سلسلے میں دونوں صوبوں میں شرکت کے بارے میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔ حکومت میں شرکت کا احساس بالکل ختم نہیں ہوا تھا۔ تین بنگالی وزرائے اعظم رہ چکے تھے اور ایک بنگالی گورنر جنرل بھی رہا تھا اس کے علاوہ کئی دوسرے لوگ کابینہ میں اہم عہدوں پر رہے تھے۔ یہ بھی امکان تھا کہ قومی سطح پر سیاسی پارٹیوں کی تشکیل سے ملک کے معاملات میں بنگالیوں کو زیادہ اختیارات مل جائیں۔ مایوسیوں کے باوجود ایک دوسرے سے علیحدگی کا احساس نہیں تھا۔ نہ حکومت کے اس وفاقی ڈھانچے سے نکلنے کا کوئی تصور تھا جسے 1954 کی قرارداد مقاصد میں منظور کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان اب بھی ایک پاکستان میں یقین رکھتے تھے، اگرچہ اپنے صوبے پر حکومت کرنے کے لیے مرکز سے زیادہ اختیارات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پہلی جمہوریت کے خاتمے نے ایک نئے نظریے کو جنم دیا جس نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی سیاسی امنگوں کو ایک نیا رخ دیے دیا۔

٥٠) ان سیاسی ریشہ داونیوں کاایک نقصان دہ پہلو یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان میں ہندو کانگریس پارتی پیدا ہو گئی جس کے سربراہ سلہٹ کے بسنت کمار دا تھے۔ جگتو فرنٹ میں مسلمان پارٹیوں یعنی عوامی لیگ اور کرشک سرامک پارٹیوں میں اختلافات کی وجہ سے اس کانگریس پارٹی نے ایک ایسی بیلیسنگ حیثیت حاصل کر لی کہ وہ کسی بھی پارٹی کو اپنی حمایت دینے کے لیے اپنی حاکمانہ شرائط پیش کرتی تھی۔ اس کا اثر یہاں تک بڑھ گیا کہ جب 1957ء میں عطا الرحمن خان نے مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد سے اسمگلنگ روکنے کی کوشش کی تو ہندو کمیونٹی نے جس کی حمایت سے ان کی حکومت قائم تھی ان پر دباؤ ڈالا تو انھیں اپنا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ 1961ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے وضع کردہ آئین کی رپورٹ کے پیراگراف اکیس میں درج ذیل عبارت دی گئی ہے۔

( 1957ء میں، مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰٰ نے فوجی حکام سے تعاون کی درخواست کی تاکہ ایسی اسکیم کا آغاز کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کیا جائے جو پاکستان سے اشیاء کی بیرون ملک اسمگلنگ کی مؤثر روک تھام کر سکے۔ اس اسکیم پر بڑی کامیابی سے عمل درآمد کیا گیا اور ایک ماہ ہی میں ایک کروڑ روپے مالیت کی اشیاء ضبط کرلی گئیں تاہم ہندوؤں کے ایک طبقے کی جانب سے ڈالے گئے دباؤ کے نتیجے میں، جس پر صوبائی وزیر اعلیٰ کی تماتر سیاسی حمایت کا دارومدار تھا، اس اسکیم کو ترک کر دیا گیا ایسے ہی ایک اور دباؤ کے تحت ان افراد کے خلاف قائم کیے گئے فوجداری مقدمات بھی واپس لے لیے گئے جو ہمسایہ ملک کو مبینہ طور پر مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی نقل و حرکت کی اطلاعات فراہم کرنے میں ملوث تھے)

== باب سوم پاکستان کی سیاسی تاریخ == 7 اکتوبر1958ء تا 6جون 1962ء

7 اکتوبر1958کو صدر اسکندر مرزا نے اپنے جاری کردہ اعلان میں کہا۔۔۔۔۔،

اعلان کا متن ۔۔۔۔۔۔۔ ترمیم

( گذشتہ دو برسوں کے دوران میں نے گہری تشویش کے ساتھ حصولِ اقتدار کے لیے جانے والی بے رحمانہ تگ و دو، بدعنوانیوں، اپنے سادہ، ایمان دار اور محب وطن عوام کے شرم ناک استحصال، نظم و ضبط کے فقدان اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اسلام کے غلط استعمال کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے تاہم اس میں چند مستثنیات بھی ہیں جو اقلیت میں ہونے کے سبب اس حیثیت میں نہیں تھیں کہ ان ملکی معاملات اور امور کے حوالے سے اپنا مؤثر اثر و رسوخ استعمال کر سکتیں۔ اس قسم کی حقیر اور قابل نفرت سرگرمیوں نے انتہائی گھٹیا درجے کی آمریت کو جنم دیا ہے، موقع پرستوں اور ابن الوقتوں نے غریب عوام کا خون چوس کر اپنے خزانے بھر لیے ہیں اور اپنی استحصالی حرکتوں کے طفیل دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ میری بار بار کی کوششوں کے باوجود خوراک کے بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیا۔ خوراک کا مسئلہ ایک ایسے ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے جسے اس معاملے میں مکمل طور پر خود کفیل ہونا چاہیے تھا اور جو فاضل غذائی پیداوار کی صلاحیت سے مالا مال ہے، زراعت اور اراضی کے انتظام کو ان حالاوں تک پہنچا دیا گیا ہے کہ ہمارے مروجہ حکومتی نظام کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے مثبت اقدمات اور عمل سے معذور ہو چکی ہے جو پیداوار میں اضافے کا موجب بن سکیں۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں منظم پیمانے پر غذائی اشیاء، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی اسمگلنگ بڑے دھڑلے سے جاری ہے جس کی قلت کے سبب عوام مصائب اور پریشانیوں کا شکار ہیں اور ان اشیاء کی ہوشربا گرانی نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران میں اناج کی درآمد پر ہمارے غیر ملکی زرِ مبادلہ کا خاصا بڑا حصہ صرف ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت کو ملک کے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر اور تکمیل میں سنگین دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہمارے چند سیاست دانوں نے حال ہی میں خونیں انقلاب کے باتیں کی ہیں، ان میں کچھ ایسے مہم جو بھی ہیں جو غیر ممالک سے براہ راست رابطے کی کوششوں میں مصروف ہیں جسے صرف غداری کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

شرم ناک منظر ترمیم

حال ہی میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ہونے والے شرم ناک واقعات سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے، میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ اس نوعیت کے واقعات تقسیم سے بیشتر بالعموم بنگال میں ہوا کرتے تھے تاہم اس بات میں کتنی صداقت ہے اس سے قطع نظر یہ یقیناَ َ کوئی مہذبانہ طرزِ عمل نہیں ہے! اسمبلی کے اسپیکر کو زدوکوب کرنا، اُس کے ڈپٹی اسپیکر کو ہلاکر کردینا اور قومی پرچم کو آگ لگا دینا۔ یقیناَ َ ایسے اعمال ہیں جو کسی صورت ملک کی عزت اور وقار میں اضافہ نہیں کرتے۔

سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس قدر پست ہو چکی ہے کہ میں ہرگز یہ مانے اور یقین کرنے پر تیار نہیں کہ انتخابات موجودہ بحرانی صورت حال میں بہتری کا ذریعہ بن کر ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی تشکیل اور قیام میں کوئی مدد دے سکتے ہیں جو ہمیں درپیش بے شمار پیچیدہ مسائل پر قابو حاصل کرنے کے لیے قابل بناسکے، ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے اب چاند سے تو کوئی آنے سے رہا۔ لوگوں کا یہی ٹولہ جس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے انتخابات میں بھی دھونس اور دھاندلی کا مظاہرہ کرے گا اور پہلے کی نسبت زیادہ انتقام پسندی سے کام لے گا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ انتخابات بنیادی طور پر ذاتی، شخصی، علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہی لڑے جائیں گے چنانچہ واپسی کی صورت میں یہ وہی پرانے ہتھکنڈے دوبارہ استعمال کریں گے جنھوں نے جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں ملک آج وسیع پیمانے پر محرومی اور افراتفری میں مبتلاہے۔

وفاداریوں کی تبدیلی؛۔ ترمیم

بہرحال انتظامیہ اپنی سی کوشش کرکے آزمالے تاہم بدلتی ہوئی وفاداریوں اور اقتدار کی لامتناہی ہوس کو دیکھتے ہوئے میں پوری طرح قائل ہو چکا ہوں کہ انتخابات نہ آزاد ہوں گے اور نہ ہی منصفانہ! یہ کسی بھی طور ہماری مشکلات کا حل نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس اس بات کا قوی امکان ہے کہ غم اور مایوسی کے بادل اور بھی گہرے ہوجائیں جن کا لازمی نتیجہ خونیں انقلاب کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے! حال ہی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات منعقد ہوئے جن میں فقط انتیس فیصد ووٹروں نے ووٹ ڈالے، ان میں سے پچاس فیصد ووٹ جعلی نکلے، اس پر مستزاد سول نافرمانی کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں تاکہ پرائیوٹ رضاکار تنظمیوں کی مدد سے ون یونٹ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس قسم کے انتشار انگیز اور تشدد پسند رجحانات ان کے جذبہء حُب الوطنی کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ اُس انتہا کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں جہاں تک یہ سیاسی مہم جُو اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کی خاطر جا سکتے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران میری بہترین کوشش یہی رہی ہے کہ آئین پر جمہوری طریقوں سے عمل درآمد کو ممکن بنایا جائے۔ ایک کے بعد ایک، مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے میں نے سخت محنت کرتے ہوئے اس امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ شاید اس طرح حکومت اور انتظامیہ مضبوط اور مستحکم ہو کر اُمور مملکت کو عوامی مفاد میں احسن طریقے سے چلاسکتی ہے۔ میرے مخالفین اور ناقدین نے بددیانتی سے کام لیتے ہوئے مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور میری ان کوششوں کو محلاتی سازشوں سے تعبیر کیا۔۔۔۔ تمامتر الزامات کا ملبہ صدر کے سر ڈالنا اب ایک فیشن بن چکا ہے! کل کسی نے ایک لطیفہ سنایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر موسلادھار بارش ہو رہی ہے تو اس میں بھی صدر کا ہاتھ ہوتا ہے اور بالکل ہی بارش نہ ہو، تب بھی اس کی ذمہ داری صدر پر عائد ہوتی ہے! اگر بات، میری اپنی ذات تک ہی محدود ہوتی تو میں خاموشی سے اسے برداشت کرلیتا یہ غیر محب وطن اور غدار عناصر صدرِ پاکستان اور حکومت پر حملے کرکے پاکستان کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں جس میں یہ بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور اگر یہ صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو وہ اپنے مقصد کے حصول میں بھی کامیاب ہوجائیں گے!

ملک کے اندرونی حالات و واقعات کا تفصیلی اور تجزیاتی اعتبار سے جائزہ لینے کے بعد میں اس نتجے پر پہنچا ہوں کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو حکومت کے موجودہ نظام پر اب کوئی اعتماد نہیں رہا۔ اب وہ بڑی تیزی کے ساتھ اس دامِ فریب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور یہ حقیقت اچھی طرح جان چکے ہیں کہ انھیں بے رحمی کے ساتھ استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے، اُن کی مایوسیوں اور تلخیوں کا باقاعدہ جواز موجود ہے، ہمارے سیاسی لیڈر اس قابل نہیں تھے کہ اُن کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے انھیں وہ خدمات مہیا کرتے جن کے وہ بجا طور پرمستحق تھے چنانچہ اس طرح وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام ہو گئے ۔

23مارچ 1956ء کو نافذ العمل ہونے والے آئین میں جسے بڑی تگ و دو اور کدو کاوش کے بعد تیار کیا گیا تھا، ناقابل عمل ثابت ہوا، یہ آئین ایسے خطرناک سمجھوتوں پر مشتمل ہے جس کے نتیجے میں یہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے! آئین میں موجود ان خامیوں کی اصلاح کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ پرامن انقلاب کے ذریعے ملک کو عقل و ہوش کی راہ پر لایا جائے۔ اس کے بعد میں چاہتا ہوں کی تمام محب وطن افراد کو جمع کرکے اپنے موجودہ سیاسی مسائل پر غور و خوص کے بعد ایک ایسا آئین تشکیل دیا جائے جو ہمارے مسلمان عوام کی موروثی اور تاریخی رویات سے بھر پور مطابقت رکھتا ہو اور جب یہ تیار ہو جائے تو مناسب وقت پر اُسے عوام کی رائے اور منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے۔)

(اسکندر مرزا کے اعلان کا متن ختم)

چنانچہ ان اسباب اور وجوہات کی بنا پر خود کو خدا اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنا اولین فرض یہ سمجھا کہ درج ذیل اقدامات اور احکام کے ذریعے پاکستان کو مکمل انتشار اور تباہی سے بچایا جائے۔۔۔۔۔۔ جو اقدمات کیے گئے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الف) 1956ء کے آئین کی منسوخی ب) فوری طور پرمرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کی برطرفی ج) قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل د) تمام سیاسی جماعتوں کا خاتمہ اور ہ) کسی متبادل انتظام تک پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ

پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف، جنرل محمد ایوب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا اور مسلح افواج کو اُن کی کمان میں دے دیا گیا، جنھوں نے دوسرے دن قوم سے اپنے نشری خطاب میں اسی قسم کی باتیں دُہرائیں اور اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،

( یہ انقلابی اور انتہا پسندانہ اقدام بڑے تذبذب اور سوچ بچار کے بعد اُٹھایا گیا ہے تاہم ہمیں کامل یقین ہے کہ اگر یہ اقدام نہ کیاجاتا تو ملک کو بھرپور انتشار اور مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا)

انھوں نے بھی اس صورت حال کے لیے سیاست دانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ان پر الزام عائد کیا کہ اپنے باہمی اختلافات، دشمنیوں اور تنازعات کی اس لامتناہی جنگ کے دوران میں انھوں نے یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ ملک اور قوم پر اس کے کیسے مضر اثرات مرتبہ ہو رہے ہیں، انھیں صرف اپنے مفادات سے ہی غرض تھی۔ اس سلسلے میں وہ تمام حدیں عبور کر چکے تھے چونکہ ان کے پاس قوم کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا چنانچہ انھوں نے صوبائی تعصب اور مذہبی، نسلی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو ہوا دے کر ایک پاکستانی کو دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا انھیں کسی میں کوئی اچھائی نظر نہیں آتی تھی۔ اقتدار اور اختیارات کی اس دوڑ میں جس چیز کو اولیت حاصل تھی وہ تھا ذاتی مفاد! ملک اورقوم جائے بھاڑ میں، ان کی بلا سے ! فیلڈ مارشل ایوب خان نے پنی نشری تقریر میں یہ انکشاف بھی کیا کہ مرحوم غلام محمد اُن سے کئی مواقع پر کہہ چکے تھے کہ وہ ملک پر قبضہ کر لیں تاہم انھوں نے ایسا کرنے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کیوں کہ انھیں بہرحال امید تھی کہ کوئی نہ کوئی سیاست دان اس موقع پر اٹھے گا جو قوم کی رہنمائی کرے گاتاہم بعد میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات نے ان امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ایک مضبوط اور مستحکم ملک، رفتہ رفتہ تضحیک اور تمسخر کا گڑھ بن گر رہ گیا، یہ سب کچھ بہت افسوس ناک تھا تاہم اس صورت حال کا کوئی نہ کوئی حل اورعلاج بھی ضروری تھا۔۔۔۔ اپنے فوری مقاصد کی نشان دہی کرتے ہوئے انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ

(ہم جمہوریت بحال کر دیں گے لیکن وہ جمہوریت ایسی ہوگی جسے لوگ سمجھ سکیں اور جو قابل عمل بھی ہو)

اگرچہ دونوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ آئین ناقابل عمل ہے مگر تین دن کے بعد 10 اکتوبر1958 کو ایک قانون CONTINUANCEIN FORCE آرڈر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ آئین معطل کر دیا ہے مگر ملک پر اس کے دفعات کے تحت حکومت کی جاتی رہے گی سوائے اس صورت کے کہ صدر یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے کوئی حکم یا قانون جاری کیا ہو۔ اس آرڈر میں دوسری اہم دفعہ یہ تھی کہ کوئی بھی عدالت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے خلاف یا کسی دوسرے شخص کے خلاف جسے ان کے اختیارات حاصل ہوں، کوئی رٹ جاری نہیں کر سکتی اور کوئی بھی عدالت پرو کلیمیشن یا اس کے تحت بنائے گئے کسی قانون پریا کسی مارشل لا آرڈر یا مارشل لا قانون یا کسی فوجی عدالت کے حکم یا فیصلے یا نتیجے پر نہ اعتراض کرسکتی ہے نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتی ہے۔

٥) تین روز کے بعد 13 اکتوبر1958ء کو سپریم کورٹ میں اس آرڈر پر اسٹیٹ بنام ڈوسو( پی ایل ڈی 1958ء ایس سی 533) کے سلسلے میں غور کیا گیا۔ اس مقدمے میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم جو ڈوسو کے مقدمے میں عدالت عالیہ نے جاری کیا تھا،1958ء کے اس آرڈر کی دفعات سے کالعدم ہوجاتا ہے۔ 14 اکتوبر 1958ء کو عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ رٹ معطل ہو گئی۔ اس فیصلے کی وجوہات 23 اکتوبر1958 کو بیان کی گئیں اور ان وجوہات میں کہا گیا کہ آئین کا کالعدم ہونا اور صدر اسکندر مرزا کی طرف سے مارشل لا کا نفاذ کسی انقلاب کے کامیاب عمل ہیں جنھوں نے بذات خود ایک نیا قانونی نظام تشکیل کر دیا ہے اور پرانے نظام کو ختم کر دیا ہے کیونکہ قانون اگر انقلاب آئین معطل کردیتا ہے اور معطلی مؤثر ہوجاتی ہے تو خود قانون بنانے والا ادارہ بن جاتا ہے۔

٦) یہ فیصلہ اسکندر مرزا کے اقدامات کو جائز قراردینے کا ایک سرٹیفکیٹ تھا لیکن اس وقت انھوں نے اندازہ نہیں کیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پیش کیے جانے والا یہ اصول ان کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس اعلان کے بعد اگر کوئی بغاوت کامیاب ہو جائے تو یہ خود طاقت کا جائز سرچمشہ بن جاتی ہے۔ کمانڈر انچیف نے اپنی آرزو پوری کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ تین دن بعد 27 اکتوبر1958ء کو آدھی رات کو اس صدر کو جس نے کمانڈر انچیف کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا تھا، گرفتار کر لیا اورجلاوطن کر دیا گیا۔ یہ دوسری بغاوت تھی اس کے لیے کمانڈر انچیف کو کوئی سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی اس لیے انھوں نے صدر کا عہدہ بھی اختیار کر لیا اس طرح پاکستان کا مارشل لا کا پہلا دور شروع ہوا۔

٧) یہ بات درست ہے کہ صدر اسکندر مرزا کے پروکلیمیشن اور کمانڈر انچیف کے پیغام میں سیاست دانوں کے بارے میں جو الزامات عائد کیے گئے وہ بہت حد تک درست تھے لیکن جمہوری نظام اورآئین کی ناکامی کے کیا یہی اسباب تھے؟ صدر اسکندر مرزا کو ہٹانے کے لیے ایوب خان نے بھی ان ہی الزامات کا سہارا لیا اور کہا کہ اُن کا ایسے سیاست دانوں سے قریبی تعلق تھا جو پاکستان کو اس افراتفری کی کیفیت تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، یہ عام تاثر تھا کہ اسکندر مرزا بھی سیاسی ابتری کے اس قدر ذمہ دار ہیں جتنا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اسکندر مرزا ان شرم ناک واقعات کے بھی ذمے دار تھے کیونکہ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کی آئین پر منصفانہ طور پر عمل کیا جائے اور سیاست دانوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہ کریں، ان کی محلاتی سازشوں کی وجہ سے آئین ایک تماشا بن گیا۔

٨) کوئی آئین خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتا۔ 1956ء کا آئین اپنی خامیوں کے باوجود قابل عمل تھا بشرطیکہ جو لوگ اس کی دفعات کونافذ کرنے کے لیے ذمے دار تھے وہ خلوص اور نیک نیتی سے اس مقصد کے لیے کوشش کرتے، یہ درست ہے کہ دو ڈھائی سال کے اس عرصے میں جب تک یہ آئین نافذ رہا پارلیمانی جمہوریت اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی جس طرح کہ توقی کی جا رہی تھی۔ خود غرض سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں اور سربراہان مملکت کے حد سے بڑھے ہوئے لالچ نے مل کر آئین کو تماشا بنادیا تھا۔ اور چند خود غرضوں کے مفادات پورے کرنے کے لیے جمہوریت کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ ذاتی مفاد اور صوبائی تعصب کو قومی مفاد پر ترجیح دی جاتی تھی، 1956ء کے آئین کے منظور ہوتے ہی گروہی رقابت نے تھوڑے عرصے ہی میں اپنی جگہ بنالی تھی یہی وجہ تھی کہ سربراہ مملکت بھی سیاست کے کھیل میں شریک ہو گئے اور اپنے مفادات کے لیے حکومتیں بنانے اور توڑنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستان کے آئین کمیشن نے بھی 1961ء میں اپنی رپورٹ کے پیرا گراف13 میں کہا( جہاں سربراہ مملکت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا مطلب سابق صدر اسکندر مرزا اور ان کے پیش رو ہیں، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے دخل اندازی نہیں کی یا وہ اس افرتفری کے ذمہ دار نہیں تھے جو سیاسی ماحول میں پیدا ہو گئی تھی یایہ کہ وہ ذاتی مفاد یا صوبائی تعصب سے بالاتر تھے، تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سربراہ مملکت سے عوام کے نمائندوں تک اختیارات اسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں جب نمائندے منظم ہوں اور ایک ساتھ مل کر آمریت کا مقابلہ کرسکتے ہوں اس مقام تک پہنچنے تک سربراہ مملکت دخل اندازی کردیتے تھے، سربراہان مملکت کی طرف سے دخل اندازی کوپارلیمانی جمہوریت کی ناکامی کا سبب تسلیم نہ کرنا ان کو بری الذمہ قرار نہیں دے دیتا ہم ان کے خلاف یاسیاست دانوں کے خلاف تحقیقات نہیں کر رہے ہیں ہم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ اگر بر سر اقتدار جماعتوں میں اتحاد اور تنظیم ہوتی تو سربراہان مملکت کی طرف سے دخل اندازی ممکن نہیں ہوتی۔

٩) اسکندر مرزا کو اپنی حرکتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا، اس میں شک نہیں کہ حکومت پر قبضے کی سازش تیار کرنے والے دراصل ایوب خان ہی تھے اور انھوں نے ہی اس سے فائدہ اٹھایا انھوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اسکندر مرزا کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا اور جب وہ مقصد حاصل ہو گیا تو اسکندر مرزا کو ہٹا دیا گیا اس طرح پاکستان دہری سازش کا شکار ہوا۔

١٠) اگر اسکندر مرزا کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں یقین رکھتے تھے تو ایوب خان ان سے ایک قدم آگے بڑھ گئے ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے لوگ جمہوریت کے اہل نہیں ہیں، وہ سیاست دانوں کو بھی برا سمجھتے تھے۔ اپنی کتاب ( فرینڈز ناٹ ماسٹرز) میں انھوں نے پاکستان کے لیے مندرجہ ذیل اسکیم پیش کی۔

(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں حکومت کا ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہے جو ایک نسل تک چل جائے یا جو ملک کو جمہوریت کے لیے تیار کرے اور اُس کے کچھ مسائل حل کر دے اس انقلاب کے طویل المیعاد مقاصد میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ایسی اصطلاحات کی جائیں جو ملک کے سیاسی اور معاشی نظام سے افراتفری اور عدم توازن ختم کر دیں، ان اصلاحات کا اصل مدعا ( ایک مناسب آئین کا نفاذ اور آئینی زندگی کی بحالی تھا)( فرینڈز ناٹ ماسٹرز)

١١) انھوں نے ابتدا تواچھی کی تھی، درستی کے لیے بہت سخت اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ قیمتیں کم ہونے لگیں، بلیک مارکیتنگ کا خاتمہ ہو گیا، ذخیرہ اندازوی کو روکا گیا اور اسمگلنگ بھی ختم کردی گئی، کرپٹ افسروں کو نکال دیا گیا اور اسمگل شدہ سونے کی بڑی مقدار پر قبضہ کر لیا گیا، مارشل لا قوانین کے تحت بہت سے تارکین نے متروکہ جائداد کی جھوٹی کلیم یا بڑھائے ہوئے کلیم واپس لے لیے، تاجروں نے اپنی چھپائی ہوئی آمدنی اور زر مبادلہ کے ذخائر ظاہر کر دیے۔ انتظامیہ کی اصلاح بھی ہو گئی، 24 اکتوبر1958ء کو 12رکنی کابینہ بنائی گئی جس میں8سویلین تھے اور چار جنرل، شروع میں زیادہ تر لوگوں نے ان اقدامات کو خوش آمدید کہا، مشرقی پاکستان کے پہلے دورے میں ایوب خان کی بے مثال پزیرائی ہوئی، انھوں نے یونیورسٹی کے اسپورٹس گروانڈ میں ایک پبلک جلسے سے بھی خطاب کیا جس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا کیونکہ لوگ ابھی تک اس غلط فہمی میں تھے کہ مارشل لا ایک عارضی اقدام ہے اور جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو اسے ہٹا لیا جائے گا۔

١٢) اس کی وجہ یہ تھی جیسا کہ ایوب خان نے اپنے8اکتوبر 1958ء کے پیغام میں کہا بھی تھا کہ انھوں نے مارشل لا کے انتظام کے لیے بھی سویلین ایجنسیوں کو استعمال کیا اور جیسے ہی قبضہ کرنے کا ابتدائی کام مکمل ہو گیا فوج کو بیرکوں میں بھیج دیا اس سے کسی غلط فہمی کا گمان ختم ہو گیا، مارشل لا کا کام صرف سول انتظامیہ کی مدد کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی زیادہ تر منصفانہ اور اچھے طریقے سے کام کر رہے تھے۔

١٣) ان فوری اقدامات کے بعد متعدد کمیشن قائم کردیے گئے تاکہ زمینی، زرعی ،تعلیمی، قانونی اور طبی اصلاحات کے بارے میں اسکیم تیار کی جاسکے نیز سائنسی تعلیم اور ٹیکنالوجی کی اصلاح اور ترقی کے لیے بھی منصوبے بنائے جائیں۔ مہاجرین کی آبادکاری کے مسئلے کو بڑے جذبے اور عزم کے ساتھ حل کر لیا گیا، کراچی کے نزدیک کورنگی میں چھ ماہ کے اندر ایک بہت بڑی ٹاون شب تعمیر کر دی گئی جہاں پندہ ہزار مہاجرین بآسانی قیام کرسکتے تھے۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ میں ایسی ہی نئی بستیاں آباد کی گئیں۔ مشرقی پاکستان کے مسائل پر ضروری توجہ دی جانے لگی اور اس کی صنعتی اور معاشی ترقی کے لیے منصوبہ سازی کا آغاز ہو گیا۔

١٤) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تمام اقدامات لائق تحسین تھے اور یہی سبب ہے کہ شروع شروع میں اس حکومت کو بھرپور عوامی حمایت اور تائید بھی حاصل رہی تاہم جب یہ محسوس ہونے لگا کہ مارشل لا بدستور قائم رہے گا اور مارشل لا حکام جمہوریت کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تو بالخصوص مشرقی پاکستان کے عوام میں رفتہ رفتہ یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ انھیں دھوکا دیا گیاہے۔

١٥) اس سلسلے میں یہ بات بڑی دلچسپ معلوم ہوگی کہ جب مسٹر نورالامین سے یہ سوال کیا گیا کہ ایوب حکومت کومشرقی پاکستان میں مقبولیت حاصل تھی؟ تو انھوں نے جواب دیا

( شروع میں تو ایسے لگا کہ یہ حکومت تین چار مہینوں کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک کرکے واپس چلی جائے گی اور اس کے بعد عام انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آئے گا لیکن جب عوام نے دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ لوگ تو ٹس سے مس نہیں ہو رہے نہ ہی ان کے ادارے واپس جانے کے لگتے ہیں تب یہ حکومت لوگوں میں غیر مقبول ہونے لگی)

١٦) جنرل ایوب جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے اس نقطہء نظر کے حامل تھے کہ مغربی طرز کی جمہویت پاکستانی عوام کی موروثی اور تاریخی روایات و خصوصیات سے قطعاَ َ کوئی مطابقت نہیں رکھتی چنانچہ ایسی جمہوریت کی تعمیر بالکل نچلی سطح سے کی جانی ضروری ہے جو عوام کی تاریخ اور موروثی خصوصیات و رجحانات کے حوالے سے موزوں ترین ہو۔ جمہوریت کی اس نئی شکل کے بارے میں اختیار کیے جانے والے طریقوں کو 1959ء کے ( بنیادی جمہوریتوں کے حکم) میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا تھا یہ بالکل ہی نچلی عوامی سطح پر ( لوکل سیلف گورنمنٹ) کا منصوبہ تھا جہاں تک مشرقی پاکستان کا تعلق ہے بنیادی جمہوریت کا یہ نظریہ اُس کے لیے اُلٹے قدم کی طرح تھا کیونکہ ملک کا یہ حصہ اس قسم کی ارتقائی عمل سے انگریز حکومت کے دور میں پہلے ہی گذر چکا تھا۔ جس کا آغاز ولیج چوکیداری ایکٹ مجریہ 1870ء اور لوکل سیلف گورنمنٹ ایکٹ مجریہ1885ء کے نتیجے میں ہوا تھا چنانچہ مشرقی پاکستان کے عوام میں جو مغربی پاکستانیوں کی بہ نسبت سیاسی اعتبار سے زیادہ باشعور تھے، ایک احساس محرومی پیدا ہونے لگا اور وہ محسوس کرنے لگے کہ اگر فوجی حکومت اور مارشل لا اسی طرح موجود رہا تو وہ ایک کالونی بن کر رہ جائیں گے اور ملک کی حکومت میں شراکت کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے!

١٧) مشرقی پاکستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰٰ، مسٹر نورالامین نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ( جب مارشل لا کا نفاذ ہوا اور تین برس گزرنے کے باوجود کوئی آئین تشکیل نہ دیا جاسکا تو مشرقی پاکستان کے عوام میں اس احساسِ محرومی نے جنم لیا کہ ملکی اُمور اور انتظام میں اُن کا کوئی حصہ یا کردار نہیں رہا۔)

١٨) رفتہ رفتہ ملک کے اس حصے میں پایا جانے والا اضطراب اور بے چینی بڑھتی چلی گئی تاہم یہ کوئی سنجیدہ صورت اس لیے اختیار نہ کرسکی کیوں کہ عوام بڑی بے تابی سے 17 فروری1960ء کے آئینی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کر رہے تھے تاکہ اُس کے آنے پر آئینی تجاویز پیش کی جاسکیں۔ بالآخر آئینی کمیشن نے اپنی رپورٹ اپریل 1961ء میں پیش کردی جس میں ملک کے لیے مناسب توازن اقتدار پر مبنی امریکی طرز کے صدارتی نظام حکومت کی سفارش کی گئی تھی جو دو ایوانی مققنہ پر مشتمل اور وفاقی نوعیت کا حامل ہوگا۔ نائب صدر اور اسمبلیوں کے انتخابات اس انتخابی ادارے کے ذریعے عمل میں آئیں گے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہوگا۔

١٩) جنرل ایوب خان نے صدارتی نظام حکومت کی تجویز منظور کرلی تاہم دیگر تجاویز کو نامنظور کرتے ہوئے مارچ 1962ء میں ایک ایسا آئین وضع کیا جو نہ تو صدارتی تھا نہ ہی پارلیمانی۔ نہ ہی اس میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مقننہ کو بھی ایسے مؤثر اور واضح اختیارات نہیں دیے گئے تھے جن کی مدد سے وہ ملکی انتظامیہ کو کنٹرول کرسکے! تمام تر اختیارات صدر کی اپنی ذات میں مرکوز کر دیے گئے تھے، جس کا انتخاب بنیادی جمہوریت کے 80ہزار اراکین کے ذریعے عمل میں آنا تھا حتٰی کہ بجٹ کے سلسلے میں رائے دینے کا حق بھی چھین لیا گیا، صوبوں کو کسی بھی قسم کی خود مختاری نہیں دی گئی تھی نہ ہی انھیں مرکزی حکومت کی ہدایات پر عمل درآمد کا کوئی اختیار حاصل تھا، یہاں تک کہ صوبائی وزراء کی تقرری بھی براہ راست خود صدر کے ہاتھوں عمل میں آنی تھی۔

٢٠) اس نوعیت کے آئینی اقدامات اور سفارشات کے نتیجے میں دونوں صوبوں کے عوام میں شدید مایوسی پھیل گئی کیوں کہ اس طرح جمہوریت کو ایک بھیانک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا تھا تاہم اپوزیشن کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کر دی گئی اور چھ برس کی مدت کے لیے (ایبڈو) کے تحت متعدد سیاسی لیڈروں کو نااہل قرار دے دیا گیا، پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس مجریہ 1963 کے نفاذ کے ذریعے پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت 1964 میں کنٹرولڈ پریس کی داغ بیل ڈالی گئی۔ متعدد سیاسی لیڈر جن میں حسین شہید سہروردی، خان عبد القیوم خان، مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب شامل تھے حراست میں لے لیے گئے تاہم یہ بات دلچسپ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو ایبڈو کے تحت نااہل نہیں قرار دیا گیا بلکہ انھیں بد عنوانیوں کے جرم میں مقدمہ چلائے جانے کی غرض سے گرفتار کیا گیا تھا جس میں وہ بری کردیے گئے اور اس طرح اپوزیشن کی قیادت کرنے والے ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔

٢٢) شروع میں تو حکومت کو کوئی خاص دشواری یا مسئلہ درپیش نہیں رہا اور وہ بدستور اطمینان سے کام کرتی رہی لیکن کچھ ہی عرصے بعداُسے طلبہ اور سیاست دانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا 1960ء میں چٹاگانگ ضلع میں بھیانک سمندری طوفان کے نتیجے میں زبردست تباہی اور انسانی جان و مال کی بربادی ہوئی،جنرل اعظم اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر تھے! انھوں نے اس معاملے میں ذاتی طور پر گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چٹاگانگ ضلع کو ہر ممکن طریقے سے امدادی ساز و سامان اور غذائی اشیاء فراہم کرنے کے انتظامات کرتے ہوئے اپنا عارضی ہیڈکوارٹر وہاں قائم کر لیا اُن کے اس بروقت اقدام اور عملی کوششوں نے حکومت کو ایک بڑی بدنامی سے بچا لیا تاہم حکومت کی تعلیمی اصلاحات یا یوں کہ لیں کہ عجلت اور افراتفری میں اُن کے عملی نفاذ کے سبب مشرقی پاکستان میں ایوب حکومت کے خلاف پہلا بڑا مظاہرہ کیا گیا۔

٢٣) اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ 1962ء کا سال مارشل لا حکومت کی کامیابیوں کا سال تھا، اس سال بالخصوص مشرقی پاکستان میں متعدد عظیم الشان صنعتی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی، فینچو گنج، سلہٹ میں فروری 1962ء میں کھاد کے کارخانے کا افتتاح ہوا، مارچ1962ء میں ایوب خان نے کرنافلی ملٹی پریز ہائڈل پروجیکٹ کا بٹن دبا کر اس کا افتتاح کیا۔ ریلوے کو بھی صوبوں کی تحویل میں دے دیا گیا اور واپڈا اور ہاؤس فنانس کارپوریشن کو بھی جولائی 1962ء میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تاکہ مشرقی اور مغربی صوبوں کی کارپوریشن علحیدہ قائم ہو جائیں حتٰی کہ جولائی 1962میں مرکزی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف سے زائد حصہ مشرقی پاکستان کو دیا گیا تھا۔

٢٤) اپنی ان کامیابیوں کے طفیل فیلڈ مارشل ایوب خان بجا طور پر یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ انھوں نے ایک بنیادی ضروری ڈھانچے کی تعمیر کردی ہے جس کی مدد سے ایک آزادانہ معاشرہ، مستحکم حکومت اور مضبوط انتظامیہ قائم ہو سکے گی وہ یہ بھی محسوس کر رہے تھے کہ اب مناسب وقت آچکا ہے کہ وہ اپنے بحالئی جمہوریت کے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے اُس جمہوریت کو متعارف کرا دیں جو پاکستانی عوام کی روایات کے عین مطابق ہے تاہم ان کے یہ اندازے غلط ثابت ہوئے کیوں کہ ان کے منصوبوں پر کسی بھی جانب سے مخالفت کی عدم موجودگی نے انھیں ایسا سوچنے پر مجبور کر دیا تھا جس کا بنیادی سبب وہ خود تھے جنھوں نے اپنے سیاسی مخالفیں اور پریس کا منہ بند کر رکھا تھا۔

باب چہارم پاکستان کی سیاسی تاریخ ترمیم

7 جون 1962ء سے 24مارچ 1969ء تک

١) 8جون 1962ء کو نیا آئین نافذ اعمل کر دیا گیا تاہم جونہی اس پر عم درآمد شروع ہوا، سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی قیادت میں اس کے خلاف ملک گیر مہم کا آغاز ہو گیا اسے ایک ایسے اقدام سے تعبیر کیا گیا جس کا بنیادی مقصد صدر ایوب کے اقتدار کو دوام بخشنا تھا! آئین کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کر دیا گیا سیاسی جماعتوں کی بحالی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مقننہ کے براہ راست انتخابات کے نظام اور بنیادی حقوق کی ازسرنو بحالی کے مطالبات نے زور پکڑنا شروع کر دیا۔

٢) پہلے تو اس مخالفت کو سختی سے کچل دیا گیا اور سہروردی گرفتار کر لیے گئے جس کے خلاف شدید عوامی رد عمل ہوا خاص طور پر مشرقی پاکستان کی طلبہ برادری میں جس نے تعلیمی اصلاحات اور جو1961 کے نئے یونیورسٹی آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کر دیا۔ قانون نافذ کرنے والی اور یہ تحریک مغربی پاکستان تک پھیل گئی۔ 17 ستمبر1962ء کو مشرقی پاکستان میں طلبہ نے تعلیمی کمیشن کی اصلاحات اور تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف عام ہڑتال کا اعلان کر دیا جس پر مغربی پاکستان میں بھی عمل ہوا، جس کے بعد طلبہ کی بے چینی نے انتہائی سنگین اور خطرناک صورت اختیار کر لی آخر کار حکومت کو ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے تین سالہ ڈگری کورس کی تجویز واپس لینی پڑی۔

٣) آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی جلد یہ محسوس کیا جانے لگا کہ آئینی مشنری خواہ اس کی شکل و صورت کیسی بھی ہو سیاسی جماعتوں کے بغیر کام نہیں کر سکے گی، چنانچہ 14جولائی 1962ء کو پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ منظور کیا گیا جس کی رو سے سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی تاہم اب بھی ان پر متعدد پابندیاں عائد رکھی گئیں تھیں، ان پابندیوں کے باوجود سیاسی جماعتیں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں، بالخصوص اُس وقت جب ایوب خان نے خود اپنی ایک سیاسی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا۔

٤) سیاسی جماعتوں کے ظہور کے ساتھ ہی آئین کے خلاف سیاسی ایجی ٹیشن میں بھی شدت پیدا ہونے لگی جس کے نتیجے میں بالآخر حکومت نے 1963ء میں بنیادی حقوق بحال کر دیے، عدلیہ کورٹ جاری کرنے کے علاوہ اختیارات بھی دے دیے گئے کہ وہ انتظامیہ کے اقدامات پر عدالتی نظرثانی بھی کرسکتی ہے تاہم حکومت کی سیاسی مخالفت کی قیادت اب بھی طلبہ برادری کے ہاتھوں میں تھی کیوں کہ تقریباَ َ سارے اہم سیاسی لیڈر ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیے جانے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتے تھے۔

٥) آئین کے تحت فیلڈ مارشل کو مارچ1965ء تک پہلا صدر نامزد کر دیا گیا اور سابقہ قانون ساز اسمبلیوں کو نئے انتخابات ہونے تک کام کرنے کی اجازت دے دی گئی اپوزیشن بڑی بے تابی سے آئین کے تحت بنیادی جمہوری اراکین کے انتخابات کا انتظار کرنے لگی جن کے ذریعے صدر اور اسمبلیوں کا انتخاب کیا جانا تھا۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان کے نوے فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے ووٹ ڈالے جب کہ مغربی پاکستان میں یہ تناسب بچھتر فیصد تھا سب سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ صدر کے انتخاب میں دیکھنے میں آیا تمام سیاسی جماعتوں نے باہمی اتفاق سے مشترکہ طور پر محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے پر صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا جنہیں تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ طلبہ برادری کی بھی بھرپور تائید اور حمایت حاصل تھی انتخابی مہم کے دوران میں انتہائی جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ ملک کے مختلف شہروں میں طلبہ اور پولیس کے درمیان میں تصادم کے کئی واقعات رونما ہوئے۔ 11 دسمبر1964 ء کو پشاور یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ اور پولیس کے درمیان میں انتہائی سنگین نوعیت کا تصادم ہوا جس کے نتیجے میں ملک گیر کشیدگی نے جنم لیا اور حکومت نے طلبہ کے مسائل کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک کمیشن قائم کر دیا۔

٦) فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں عوامی لیگ نے نمایاں کردار ادا کیا تاہم جب صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو لوگوں کو یہ جان کر انتہائی تعجب ہوا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان اکیس ہزار دو سو ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب قرار دیے گئے تھے حالانکہ عام خیال اور اندازہ یہی تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو شہری علاقوں کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل تھی چنانچہ انھوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اُسے دھاندلی کا کرشمہ قرار دیا اور نتیجے کے طور پر اب انھیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی جن میں سرکاری جماعت کنونشن مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی۔ 23 مارچ1965 کو صدر ایوب نے صدر کے عہدے کی دوسری میعاد کے لیے حلف اٹھایا جس کے بعد ان کی حکومت کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں انھیں اسمبلیوں کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔

٧) یہ بات بڑی اہم ہے کہ انہی انتخابات کے دوران میں جون 1964ء میں شیخ مجیب الرحمٰن نے عوامی لیگ کا انتخابی منشور جاری کیا جس میں (دو معیشتوں ) کے ساتھ ایک ایسے آئین کا مطالبہ بھی شامل تھا جس کی بنیاد 1940ء کی (لاہور قرارداد) پر رکھی گئی ہو جس میں بقول اُن کے دو آزاد مملکتوں کے قیام کی ضمانت موجود تھی! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں مشترکہ اپوزیشن کی شکست کے بعد جس کی قیادت مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن اور چند دیگر کر رہے تھے، یہ خیال پیدا ہوا کہ مشرقی پاکستان کی خود مختاری کے مطالبے کو منوانے کے لیے زیادہ انتہا پسندانہ اقدامات ضروری ہو چکے ہیں۔

٨) انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جانے کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کی نظر ترقی اور استحکام کے ایک نئے دور کے آغاز پر لگی ہوئی تھی لیکن ان کے یہ منصوبے اس وقت تشنہء تکمیل ہی رہ گئے جب 13 اپریل 1965 کو بھارت نے رن آف کچھ میں پاکستان کی فوجی چوکی پرزبردست حملہ کر دیا۔ حالانکہ بھارت نے بیس ہزار فوجیوں کے علاوہ چھاتہ بردار فوج بھی اس متنازع علاقے میں اتار دی تھی تاہم ہمارے فوجیوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا جس کے بعد 30 جون 1965ء کو اقوام متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی عمل میں آگئی اور اس تنازع کو ثالثی کی غرض سے بین الاقوامی ٹریبونل کے سپر د کر دیا گیا تاہم یہ امن دیرپا ثابت نہ ہو سکا کیونکہ 24 اگست1965ء کو بھارت نے گجرات ضلع کے گاؤں اعوان پر گولہ باری شروع کردی اور 30 اگست کو آزاد کشمیر کے ایک گاؤں پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کا جواب دیتے ہوئے آزاد کشمیر کی فوج نے پاکستانی افواج کی مدد سے جنگ بندی لائن عبور کرتے ہوئے چھمب اور جوڑیاں پر قبضہ کر لیا، ابھی اکھنور سے چھ میل کے فاصلے پر تھے کہ 6 ستمبر 1965ء کو علی الصباح بھارت نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پر ایک اور بڑا حملہ کر دیا دونوں ممالک کے درمیان میں سترہ دنوں تک یہ خون ریز جنگ جاری رہی جس کے بعد بڑی طاقتوں کی مداخلت کے نتیجے میں، 23 ستمبر 1965ء کو جنگ بندی کا نفاذ عمل میں آیا۔

٩) 1965 کی اس جنگ کے دوران مشرقی پاکستان نے خود کو مغربی پاکستان سے کٹا ہوا اور بالکل الگ تھلگ محسوس کیا جو اب بھارت کے رحم و کرم پر تھا اور جس کے دفاع اور حفاظت کے لیے فقط ایک ڈویژن فوج اور دو ائیر اسکوارڈرن وہاں موجود تھے۔ مغربی پاکستان کی زمین سے مشرقی پاکستان کے دفاع کا نظریہ غلط اور ناقابل عمل ثابت ہو چکا تھا اگر چین، بھارت پر کھلی جارحیت کا الزام عائد نہ کرتا اور سکم کی سرحد پر اس فوج کی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے کی دھمکی نہ دیتا تو یقیناَ َ بھارت مشرقی پاکستان پر بھی حملہ کر دیتا۔ دراصل بھارتی طیاروں نے 6 ستمبر 1965ء کو ڈھاکا اور اس کے نواحی علاقوں پر بھی حملہ کر دیا تھا لیکن ہماری بہادر فضائیہ نے کلائی کنڈا کے بھارتی فضائی اڈے پر اچانک ایک زبردست حملہ کر دیا اور زمین پر ہی متعدد بھارتی طیارے تباہ کر ڈالے چنانچہ اس واقعے کے بعد بھارت کی مجال نہیں ہوئی کہ وہ اس علاقے پر بھی بری نظر ڈالتا

١٠) تنہائی اور الگ تھلگ رہ جانے کے اس شدید احساس کے باجود مشرقی پاکستان کے عوام میں جذبہء حب الوطنی کا قطعاَ َ فقدان نہ تھا۔ اس جنگ کے دوران میں وہ پوری قوم کے ساتھ تھے انھیں رنج تھا تو اس بات کا کہ انھیں مغربی پاکستان میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑنے کا موقع نہ مل سکا۔ کھیم کرن کے محاذ پر ایسٹ بنگال رجمنٹ نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کیا اور پاکستان ائیر فورس کے مشرقی پاکستانی پائلٹوں نے شجاعت اور دلاوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے دل جیت لیے تھے، اس مرحلے تک بھی علیحدگی کا کوئی سوال نہیں اٹھا تھا قوم اب تک ایک تھی اور ہر مشرقی پاکستانی خوشی کے ساتھ قوم اور وطن کے دفاع کے لیے اپنا سر کٹوا سکتا تھا تاہم اس جنگ کے بعد ان کا احساس محرومی مزید گہرا ہوتا چلا گیا کیوں کہ وہ یہ جان چکے تھے کہ کسی خطرے یا بحران کی صورت میں مغربی پاکستان اُن کی مدد کو نہیں آسکے گا اور انھیں اکیلے ہی اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔

١١) امریکا اور روس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان میں قیام امن میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا، روسی وزیر اعظم مسٹر کوسچن نے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو تاشقند میں امن مذاکرات کی دعوت دی جس کے نتیجے میں 10 جنوری 1966ء کو (معاہدہ تاشقند) وجود میں آیا۔ تاشقند میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان نے اپنی اپنی افواج کو اُن تمام علاقوں سے واپس بلا لیا جن پر جنگ کے دوران میں انھوں نے قبضہ کر لیا تھا تاہم ملک میں اس معاہدے کو مقبولیت حاصل نہ ہو سکی حتٰی کہ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر ذو الفقار علی بھو نے بھی اس معاہدے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 8 جولائی 1966ء کو کابینہ سے استعفٰی دے دیا۔

١٢) معاہدہء تاشقند کی مخالفت کے نتیجے میں اپوزیشن کو بھی حکومت کی مذمت کاایک اور موقع ہاتھ لگ گیا چنانچہ 5 فروری 1966ء کو لاہور میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس طلب کر لیا، اس اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن نے پہلی مرتبہ اپنے چھ نکات پیش کیے اور مشرقی پاکستا ن کے لیے مکمل علاقائی خود مختاری کا مطالبہ کر دیا، اس مطالبے کے نتیجے میں اپوزیشن پارٹیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور بحالئی جمہوریت کے لیے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا منصوبہ پسِ پشت چلا گیا۔ متعدد اپوزیشن لیڈروں کو جن میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے ایمر جنسی کے تحت گرفتار کر لیاگیا

١٣) یہ چھ نکات کیسے وجود میں آئے اور ان کا خالق اصل میں کون تھا، اس بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن ہر گز اس ذہانت کے مالگ نہیں تھے جو ان نکات کی تشکیل کے لیے ضروری تھے جب کہ مسٹر نورالامین کا خیال ہے کہ ان کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ تھا! چند دیگر حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان نکات کو مشرقی پاکستان کے سی ایس پی افسران کے ایک گورپ نے کسی بینکار سے مل کر ترتیب دیا۔ تاہم ایک گواہ اے کے رفیق الحسن نے مبینہ طور پر مسٹر الطاف گوہر کو چھ نکات کا خالق قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ انھیں مذکورہ بالا بینکار کے توسط سے شیخ مجیب الرحمن کو بھیجا گیا تھا۔ اس گواہ نے مزید انکشاف کرتے ہوئے یہ بھی کہا یہ سب کچھ ایوب کی رضا مندی سے کیا گیا تھا وہ شیخ مجیب کو اپنا آلہ کار بنا کر اس آل پارٹیز کانفرس کو ناکام کرنا چاہتے تھے جو نوابزادہ نصراللہ خان نے لاہور میں طلب کی تھی۔ تاہم مسٹر الطاف گوہر نے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ گواہ رفیق الحسن کو اس بات کا علم کانفرس شروع ہونے سے ذرا پہلے اس وقت ہوا جب شیخ مجیب الرحمٰن نے ان نکات کی ایک نقل ( اتفاق) کے ایڈیٹر مانک میاں کے حوالے کی جو خود بھی عوامی لیگ کے ارکان تھے بہر حال حقیقت چاہے کچھ بھی ہو، واقعہ یہ ہے کہ یہ چھ نکات اسی کانفرنس کے انعقاد سے پیشتر سامنے آئے تھے۔

١٤) یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی صوبوں کے گورنر بھی تبدیل کر دیے گئے تھے۔ نواب آف کالا باغ کو مغربی اور مسٹر عبد المنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ نواب آج کالا باغ جمہوریت کے سخت مخالف تھے جبکہ منعم خان کو مشرقی پاکستان میں قطعاَ َ کوئی مقبولیت حاصل نہیں تھی، تاہم ان دونوں نے اس بے رحمی کے ساتھ اپنے اختیارات کا استعمال کیا کہ ایوب حکومت کا امیج دھندلا کر رہ گیا۔ انھوں نے سیاسی لیڈروں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی، اخبارات کو بند کر دیا حتٰی کہ پریس بھی ضبط کر لیے گئے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں روز افزوں کشیدگی کو ختم کرنے میں یقناَ َ کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔

١٥) دوسرا عنصر جس نے اس مرحلے پر بے اطمینانی اور کشیدگی میں اضافہ کیا وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اپنے بیٹوں کا کردار تھا نہ صرف روزمرہ ملکی امور و معاملات میں غیر ضروری مداخلت کرنے لگے تھے بلکہ ناجائز ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنی حیثیت کا بھی استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے ایک تو قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد اپنے باپ کی سرپرستی میں ایک بڑا صنعتکار بننے میں بھی کامیاب ہو گیا۔

١٦) ان باتوں سے قطع نظر، ملک میں تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں دولت کی غیر مساوی تقسیم عام ہونے لگی کیونکہ ان اس طرح ملک کی دولت رفتہ رفتہ مغربی پاکستان کے چند گھرانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ملک کی تمام دولت مغربی پاکستان کے بائیس صنعتی خاندانوں کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے۔ جس کے سبب مغربی پاکستان میں ظاہر ہے ترقی اور خوش حالی کی رفتار نسبتاَ َ زیادہ تیر تھی۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے عوام نے ان صنعتکار خاندانوں کو تماتر استحصال اور حق تلفی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مغربی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ شروع کر دیا جس کا بنیادی سبب دونوں صوبوں کے معاشی اور اقتصادی عدم مساوات اور تفاوت کے علاوہ یہ بھی تھا کہ ایوب حکومت کو جن مسلح افواج کی تائید و حمایت حاصل تھی، ان کی اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔

١٧) حالانکہ مارشل لا کا بنیادی مقصد ملک سے کرپشن اور بدعنوانیوں کا جڑ سے خاتمہ کرنا تھا لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کے برعکس ایوب خان کی نام نہاد آئینی حکومت کے دوران میں کرپشن اور بداعنوانیاں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں دراصل بنیادی جمہوریتوں کا نظام اس تمام کرپشن کا بنیادی سبب تھا جس کے نتیجے میں ملک کے ہر گوشے میں بد عنوانیوں کو فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ تاہم ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ حکومت خون ان (بی ڈی ممبرز) کی بدعنوانیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کیونکہ صدارتی انتخابات کے لیے انتخابی ادارے کی تشکیل بھی یہی کرتے ہیں۔ یہ لوگ کھلم کھلا سب سے بڑھ کر بولی لگانے والے کو اپنا ووٹ بیچ دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایوب خان کی مسلح افواج کو ہرقیمت پر راضی خوشی رکھنے والی پالیسیوں نے بھی ان کے خلاف رفتہ رفتہ عوامی ناراضی اور خفگی کو جنم دیا جس کے تحت افواج کو زمینیں دی جا رہی تھیں۔ ان کی تنخواہیں اور پنشن میں اضافہ کر دیا گیا تھا اور فو ج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں ملازمتیں دی جا رہی تھیں۔

١٨) ان تمام عوامل نے مل کر حکومت کے خلاف شدید ناراضی اور نفرت کے جذبات پیدا کر دیے تھے۔ پورا ملک بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار تھا کہ اسی اثناء میں سابق وزیر خارجہ مسٹر ذو الفقار علی بھٹو نے 1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا اورایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں پورے زور شور کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اپوزیشن نے اپنی تحریک کا پہلا ہدف صوبائی گورنروں اور ان کی جانب سے ایمرجنسی کے تحت اختیارات کے ناجائز استعمال کو قرار دیا چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ایمرجنسی اٹھالینے کا مطالبہ کر دیا اور (یونائیٹڈ نیشنل کمانڈ) کے نام سے ایک مشترکہ جماعت قائم کر لی۔ مسٹر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی تاہم جمہوریت کی بحالی اور دولت کی منصفانہ تقسیم اور مساویانہ تقسیم کے لیے انھوں نے اپنی حکومت مخالف مہم کو برابرجاری رکھا۔ بہرحال ان تمام باتوں کا حکومت پر کوئی اثر نہ ہو سکا۔ تمام سیاسی لیڈر جن میں مسٹر بھٹو بھی شامل تھے گرفتار کر لیے گئے اور اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پر حکومت نے ملک میں ایمرجنسی کو بدستور قائم رکھنے کی قرارداد منظور کرالی۔

١٩) اس مرحلے پر نواب آف کالا باغ اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان میں اختلافات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں نواب آف کالا باغ نے اپنے عہدے سے استعفٰی دیے دیا اور ان کی بجائے اس وقت کے کمانڈر انچیف، جنرل محمد موسیٰ کو مغربی پاکستان کا گورنر مقرر کرتے ہوئے جنرل یحیٰی خان کو کمانڈر انچیف کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ جنرل موسی نے نہ صرف زیر حراست سیاسی لیڈروں کو رہا کر دیا بلکہ مصالحانہ اقدامات کے نتیجے میں بلوچستان کے مری، بگٹی اور مینگل قبائل کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے ان کی سابقہ سرداری حیثیت کو بحال کر دیا گیا۔

٢٠) مشرقی پاکستان میں گورنر منعم خان کے جبری اقدامات بدستور جاری تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن پر دیگر 35 افراد کے ہمراہ مسلح بغاوت کے ذریعے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور ان پر (اگرتلہ سازش کیس) کے عنوان سے مقدمہ بنادیا گیا تھا۔ جس کا آغاز جون 1968ء میں ہوا۔ مغربی پاکستان میں گورنر جنرل محمد موسیٰ کے مصالحانہ اقدامات کے باوجود حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن برابر زور پکڑتا جا رہا تھا جس نے نومبر 1968ء میں کافی سنگین صورت اختیار کر لی جس میں ملک کے تمام طبقات شامل تھے۔ وکیلوں، ڈاکٹروں اور طلبہ نے جلوسوں کی شکل میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے اور ایوب سے استعفٰی کا مطالبہ کیا جانے لگا حتٰی کہ فیلڈ مارشل ایوب خان پر پشاور میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران میں قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جب حکومت نے محسوس کر لیا کہ ایجی ٹیشن پر قابو پانے کی غرض سے اس کی تمام کوششیں لا حاصل اور بے سود ثابت ہو رہی ہیں تو مجبور ہو کر اس نے تمام سیاسی لیڈروں کو قید سے رہا کر دیا اور اپوزیشن لیڈروں کو روالپنڈی میں، راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیدی تاہم سیاسی جماعتوں نے جو اس وقت تک ( ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی) قائم کرچکی تھیں۔ راؤنڈ ٹیبل کانفرس میں شرکت کی پیشگی شرط عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایمرجنسی کو فی الفور اٹھالیا جائے ورنہ ایجی ٹیشن بدستور جاری رہے گا۔ 14 فروری1969ء کو اپوزیشن کی جانب سے ملگ گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ اس دن متعدد جلوس نکالے گئے جن میں پولیس سے تصادم ہوا جس کے نتیجے میں بے شمار افراد زخمی ہو گئے۔ مسٹر بھٹو نے جو اب تک زیر حراست تھے، بھوک ہڑتال کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایمر جنسی کو فوری طور پر اٹھا لیا جائے آخر کار 17فروری 1969کو حکومت نے ایمرجنسی اٹھانے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں مسٹر بھٹو رہا کر دیے گئے۔

٢١) حکومت کے اس اقدام کے بعد، ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کر دی تاہم پاکستان پیپلز پارٹی عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ کانفرنس کے انعقاد سے پیشتر ہونے والے ابتدائی مذکرات تعطل کا شکاکر ہو گئے جس کے بعد کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی رہا کرکے کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کیا جائے۔ شیخ مجیب الرحمٰن پیرول پر رہا ہو کر اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ ہو چکے تھے کہ اسی اثناء میں اگر تلہ سازش کیس کے ایک ملزم کو فرار ہونے کے شبے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی لاش اس کے عزیزوں کے سپرد کر دی گئی جو اس کی میت کو جلوس کی شکل میں لے کر شہر کی شاہراہوں سے گذرے جس میں ایک بپھرا ہوا ہجوم بھی شامل ہو گیا جس نے انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرلی اور پورے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ڈھاکہ، کشتیا اور نواکھالی میں پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس میں نو افراد ہلاک اور 51 زخمی ہو گئے۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمٰن نے مطالبہ کر دیا کہ وہ اس وقت تک راونڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے جب تک اگرتلہ سازش کیس واپس نہیں لے لیا جاتا۔ 21فروری 1969 کو ایوب خان نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور 22 فروری کو وہ آرڈیننس بھی کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے تحت قائم کردہ ٹریبونل کے روبر شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں شیخ مجیب رہا کر دیے گئے اور بعد میں راونڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں ایوب خان اس بات پر رضامند ہو گئے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہوگا اور اسمبلیوں کے انتخابات براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے جس کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی توڑنے کا اعلان کر دیا تاہم شیخ مجیب الرحمٰن نے مشترکہ اپوزیشن سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کر لی کہ اس نے علاقائی خود مختاری اور ون یونٹ کے خاتمے کے لیے ان مطالبات کی تائید نہیں کی۔

٢٢) ایوب خان نے اپنے گورنروں کو بھی تبدیل کر دیا، اس کے باوجود مشرقی پاکستان میں ایجی ٹیشن بدستور جاری تھا اور10 سے 20 مارچ کے دوران میں 39افراد کو ڈھاکہ میں قتل کر دیا گیا اور لوٹ مار اور آتشزنی کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے۔

٢٣) نئے گورنروں کے تقرر کے بعد کشیدگی میں بھی کمی آچلی تھی اور تحریک بھی رفتہ رفتہ دھیمی ہونے لگی تھی کہ اچانک 25 مارچ 1969 کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اپنے عہدے سے الگ ہو چکے ہیں اور انھوں نے اقتدار کمانڈر انچیف جنرل آغامحمد یحیٰی خان کے سپرد کر دیا ہے۔ اس طرح پاکستان میں ایوبی عہد کا خاتمہ ہو گیا تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ نسبتاَ َ یہ ایک ایسا دور تھاجس میں خاصا استحکام تھا اورتمام شعبوں میں قابلِ ذکر تعمیر و ترقی کا کام ہواتھا حتٰی کہ مشرقی پاکستان میں بھی متعدد ترقیاتی منصوبے مکمل کیے گئے اسی دور میں پاکستان کی عزت اوروقار میں متعدد بار اضافہ ہوا اور اقوام عالم میں اسے ایک نمایاں مقام بھی ملا لیکن بدقسمتی سے یہاں سیاسی بلوغت کا ہمیشہ فقدان رہا۔ اگر ایوب خان تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز نہ کر لیتے اور سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو حکومت میں شرکت کا حقیقی احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتے تو اس بدقسمت ملک کی تاریخ مختلف ہوتی اور تاریخ میں ان کا نام پاکستان کے عظیم( سپاہی مدبر) کی حیثیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنوری 1969ء میں اپنی سنگین علالت کے سبب وہ خود حکومت سے الگ ہو گئے تھے، ورنہ وہ ابھی ایک طویل عرصے تک بر سر اقتدار رہنا چاہتے تھے تاہم اس موضوع پر ہم آئندہ باب میں گفتگو کریں گے۔ جب یہ سوال زیر بحث آئے گا کہ ان کی سنگین علالت کا کسی نے ناجائز فائدہ تو نہیں اُٹھایا۔

باب پنجم ایوب خان کے دور کے آخری ایام ترمیم

جنوری 1968ء کے آخر میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بیمار ہو گئے! اگرچہ عوام میں اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا تھا اصل میں ان کو دل کا شدید دورہ پڑا تھا اور کچھ عرصے تک وہ بولنے سے بھی معذور رہے تھے تو وہ اپنے فرائض کیا انجام دیتے لیکن دنیا کو یہی بتایا گیا کہ ان پر انفلوئنزا کا حملہ ہوا ہے۔

٢) لٰہذا یہ تجویز پیش کی گئی کہ جب سے ایوب خان بیمار ہوئے تھے، آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل محمد آغا یحیٰی خان کو عارضی طور پر ایوان صدر کا کنٹرول دے دیا جائے۔ سیکرٹریوں اور وزراء سے صدر کی ملاقات بند ہو گئی صدر کا مشیر جوان کے بہت قریب ہوتا تھا اب وہ بھی ان سے نہیں مل سکتا تھا اس سے پہلے زیادہ تر فیصلے مشیر کے ذریعے ہی منظر عام پر آتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا صحت یاب ہونے کے بعد بھی صدر کی حیثیت کم ہو کر ایک نام کے سربراہ کی رہ گئی تھی کیونکہ شروع میں تو جسمانی طور پر کوئی کام کرنے کے لائق نہیں تھے ان کی یہ حیثیت اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ25 مارچ 1969کو یحیٰی خان نے مارشل لا کا اعلان کرکے حکومت سنبھال لی اور خود مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں صدر ہونے کا اعلان کر دیا۔

٣) بڑی عجیب صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ ایسا سیاسی جوش و خروش پیدا ہو گیا جو بعد میں ایوب خان کے حکومت چھوڑنے پر ختم ہوا۔ سیاست کے ایک طالب علم کے لیے بعد میں جو بے چینی پیداہوئی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایوب خان کی بیماری نے ایک سیاسی تحریک کو جنم دیا جو بہرحال شروع ہونی تھی۔ اس تحریک کے شروع ہونے میں دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے دیکھنے میں تو ملک میں ایک آئینی حکومت بر سر اقتدار تھی اور معمول کا کاروبارِ حکومت چلا رہی تھی۔ اگر صدر بیماری کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے کے لائق نہ رہے تو آئین میں دیا گیا ہے کہ اسپیکر عارضی طور پر صدر کا عہدہ سنبھال لے گا لیکن اگر صدر ذہنی یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے معذور ہو گیا ہے تو اسے اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کرکے ہٹایا جاسکتاہے۔ ( لیکن یہ ایک طویل طریقہ کار تھا جس میں میڈیکل معائنہ بھی شامل تھا) اس قرارداد کے منظور ہونے کے بعد اسپیکر عارضی طور پر کچھ آئینی اقدامات اٹھائے گا اور بعد میں اس عہدے پرمستقلاَ َ فائز ہو جائے گا۔ لیکن 1962ء کے آئین کی دفعات اور اسی کی دوسری دفعات میں ذہنی جسمانی معذوری کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ جب بھی صدر بیمار ہو جائے اور وہ اتنا بیمار ہو جائے کہ صاحبِ فراش ہو جائے تو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ تھوڑے عرصے کے لیے بھی جیسے ایک دو دن کے لیے صدر بے ہوش ہو جائے (جیسا کہ بتایا گیا تھا کہ ایوب خان ہو گئے تھے) بھی اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صدر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جو سنگین ہے اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالتی ہے کافی عرصے تک اسے نااہل رکھتی ہے یا اتنے عرصے تک اسے معذور رکھتی ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تب آئین کے مطابق ضروری اقدامات کیے جائیں گے ۔

٤) کسی صورت میں بھی چاہے صدر تھوڑے عرصے کے لیے بیمار ہوا ہو جہاں آئین کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت ہو یا طویل عرصے کے لیے اپنے فرائض انجام دینے سے معذور ہو گیا ہو جس میں آئین کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ یحیٰی خان کا اعوان صدر کا کنٹرول سنبھالنا اور ملک کی حکومت چلانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اگر جنرل یحیٰی خان نے ایسا کیا ہے جس کا ان پر الزام لگایا جاتا ہے تو وہ سنگین خلاف ورزی کے مجرم ہیں۔ ایسے حالات میں ملک سنبھالنے میں ان کی نیک نیتی پر شک کیا جا سکتا ہے۔ اس الزم کے بارے میں ثبوت کا معائنہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں جس گواہ نے سب سے زیادہ مستحکم شہادت دی وہ الطاف گوہر ہیں جو اس وقت اطلاعات کے سیکرٹری تھے۔ الطاف گوہر بڑے تجربہ کار سول سرونٹ ہیں اور ہمارے خیال میں وہ بڑے لائق بھی ہیں شاید انھیں خوبیوں کی وجہ سے فیلڈ مارشل ان پر بہت بھروسا کرتے تھے ہمارے پاس کئی لوگوں کی شہادتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص حیثیت رکھتے تھے اور ان پر صدر کو اعتماد تھا۔ جنرل یحیٰی نے اپنی گواہی میں کہا فیلڈ مارشل ایوب خان کی نظر میں الطاف گوہر کوئی غلطی نہیں کرسکتے لہٰذا الطاف گوہر جیسی حیثیت کے شخص کی طرف سے اس الزام پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ٥) الطاف گوہر کے مطابق وہ ڈھاکہ میں تھے اور صدر سے ان کی گذشتہ ملاقات 28 جنوری 1968ء کو ہوئی تھی اس وقت وہ تندرست تھے۔ الطاف گوہر کو ڈھاکہ میں بتایا گیا کہ صدر کا پہلی تاریخ کو ہونے والا خطاب گلے کی تکلیف کی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ خطاب ہر ماہ پہلی تاریخ کو ہوتا تھا لہٰذا وہ اپنے پروگرام کے مطابق کام کرتے رہے اور 3 یا 4 فروری کو ڈھاکہ سے واپس آ گئے۔ روالپنڈی پہنچ کر صدر کے پبلک ریلشنز آفیسر نے جو وزارت اطلاعات کے ملازم تھے بتایا کہ صدر بہت بیمار ہیں لہٰذا ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ وہ دوڑ کر ایوان صدر جائیں مگر وہ ایسا نہیں کرسکے کیونکہ ان کی بیٹی زخمی ہو گئی تھی اوراسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضرورت تھی۔ دوسرے دن جب وہ ایوان صدر پہنچے تو صدر دروازہ بند تھا اور گارڈ نے ان سے کہا کہ کسی شخص کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ الطاف گوہر نے اپنے وزیر خواجہ شہاب الدین سے بات کی اور اس کے ذریعے صدر کے مشیر فدا حسین سے بات کی۔

٦) یہ سمجھنے کے لیے فدا حسین سے بات کرنے کی کیا اہمیت تھی یہ ضروری ہے کہ فدا حسین کے مربے کی تفصیل بنائی جائے وہ جون1966 سے صدر کے پرنسل سیکرٹری تھے لیکن جس زمانے کا یہ ذکر ہو رہا ہے اس پہلے صدر ان پر اس قدر بھروسا کرتے تھے کہ وہ انھیں کابینہ کا درجہ دینا چاہتے تھے۔ فدا حسین کہتے ہیں کہ کسی موقع پر بھی وہ سیاسی مشیر نہیں رہے بلکہ وہ ایک طرح کے پرسنل اسسٹنٹ تھے جس میں پرسنل پر زیادہ زور تھا لیکن کابینہ سطح پر ان کی ترقی کامطلب تھا کہ فدا حسین کو سیاست کے دائرے میں لایا جائے لیکن اس بات کی خواہش نہ تو صدر کو تھی اور نہ ہی ایسا فداحسین چاہتے تھے اس وجہ سے انھیں ایک مشیر کا مرتبہ دیا گیا تھا۔ اس لیے الطاف گوہر کا فدا حسین کو ٹیلی فون کرنا یا اپنے وزیر سے رابطہ کرنا کسی ایسی شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش تھی جو صدر کے قریب ہو اور یہ معلوم ہو سکے کہ ایوانِ صدر ممنوعہ علاقہ کیوں ہو گیا ہے۔

مسٹر فدا حسین اور اس وقت کے وزیر داخلہ و دفاع ایڈمرل اے آر خان سے رابطہ کرنے کے بعد مسٹر الطاف گوہر اس نتیجے پر پہنچے کہ صدر ایوب کی صحت اور حالت کے بارے میں صحیح معلومات کسی کو بھی حاصل نہیں ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو صدر ایوب کی حالت کے بارے میں بتایا جانا بہت ضروری ہے۔ اور یہ کہ اس سلسلے میں وقتاَ َ فوقتاَ َ ہیلتھ بلیٹن بھی جاری کیے جانے چاہیں ان کے اس اصرار پر انھیں فوری طور پر ایوان صدر لے جایا گیا جہاں ایوب خان کے ذاتی معالج نے انھیں ریڈیو پر نشر کیے جانے کی غرض سے ایک ہیلتھ بلیٹن دیا جس کے مطابق صدر ایوب کو نزلے اور بخار کی شکایت تھی تاہم چند دنوں کے بعد صدر ایوب نے خود مسٹر الطاف گوہر کو طلب کیا جنھوں نے دیکھا کہ صدر ایوب بستر پر لیٹے ہوئے ہیں اور اورنج جوس کا ایک گلاس ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر انھیں خاص اطمینان ہو گیا تاہم الطاف گوہر کا کہنا ہے کہ صدر ایوب کے ذاتی معالج اور ان کے افراد خانہ سے کی جانے والی گفتگو کے نتیجے میں جو حقیقت ان کے علم میں آئی وہ یہ تھی کہ ان دنوں جس واحد شخص کاصدر ایوب سے برابر رابطہ تھا وہ کمانڈر انچیف تھے! صدر ایوب اور الطاف گوہر کی ملاقات پانچ سے دس فروری کے درمیان میں ہوئی تھی۔ کچھ دنوں بعد آدھی رات کا وقت تھا صدر کے ذاتی معالج نے الطاف گوہر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انھوں نے صدر ایوب اور گورنر مغربی پاکستان کے درمیان میں جس ملاقات کا اہتمام کیا ہے اسے منسوخ کر دیا جائے کیونکہ طبیعت خاصی ناساز ہے جس سے الطاف گوہر نے یہ تاثر لیا کہ ان کی طبیعت دوبارہ بگڑ رہی ہے۔ اس کے بعد ان کی حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی اور ایسا لگتا تھا کہ اس کی بحالی میں خاص طویل عرصہ درکار ہوگا چنانچہ الطاف گوہر نے مسٹر فدا حسین کو ایک خط لکھا جس کے مطابق لوگ اعتراضات کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آئینی دفعات کا نفاذ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو قائم مقام صدر کر دیا جائے تاہم اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ الطاف گوہر نے بتایا کہ اس وقت نہ صرف یہ کہ صدر ہی سے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ فدا حسین سے بھی تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ آخر کار وزیر اطلاعات ایڈوائزر سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور تجویز پیش کی کہ ملک کو درپیش سنگین صورت حال کے پیش نظر کابینہ کا اجلاس بلایا جائے اور اس پر تبادلہ خیال کیا جائے چنانچہ کابینہ کااجلاس بلایا گیا جس کی صدارت خواجہ شہاب الدین نے کی تاہم اجلاس کسی حقیقی کارروائی کے بغیر ختم ہو گیا اور سب کو بتایا گیا کہ صدر اب اچھی حالت میں ہیں۔ خواجہ شہاب الدین نے تجویز پیش کی کہ کابینہ کا اجلاس معمول کے مطابق ہر بدھ کو ہونا چاہیے مگر کسی نے بھی اسے ضروری نہیں سمجھا۔ مسٹرالطاف گوہر کا کہنا ہے کہ ان کا یہ تاثر تھا کہ کوئی پراسرار بات پس پردہ و رہی ہے جس کا نہیں ذاتی طور پر علم نہیں تھا تاہم انھوں نے یہ نتیجہ پہلے بیان کی گئی باتوں اور اس حقیقت سے اخذ کیا کہ ان سنجیدہ امور پر پریس نوٹ جاری کرنے کی براہ راسٹ ذمہ دار وزارتوں کو جن میں ان کی سربراہی میں کام کرنے والی وزارت اور وزارت دفاع شامل تھی بالکل مطلع نہیں کیا جا رہا تھا اسی نوعیت کے امور کی بنا پر انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کمانڈر انچیف نے ایوان صدر کا کنٹرول موثر طور پر سنبھال لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ مسٹر فدا حسین کے علاوہ جس واحد شخص کو صدر تک رسائی تھی وہ کمانڈر انچیف تھے۔ واضح لفظوں میں مسٹر الطاف گوہر اس بات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ صدر کے بیمار ہونے کے وقت 28 جنوری 1968 سے 25 مارچ1969ء کو ایوب خان کے زوال کے وقت یحیٰی خان صدر پرحاوی رہے ایون صدر کا حقیقی کنٹرول ان کے پاس رہا اور حقیقی طور پر ملک کو چلاتے رہے۔ مسٹر الطاف گوہر نے ہم سے کہا کہ اس بات پر یقین کرنے کی وجہ صرف یہ نہیں کہ نہ صرف اس مختصر وقت میں جب صدر خود کوئی حکم دینے کے قابل نہیں تھے ان کا ( جنرل یحٰیی خان کا) حقیقی کنٹرول رہا بلکہ خاصی حد تک صحت یاب ہونے کے بعد صدر محض کٹھ پتلی رہے اور ان کے اقدامات یحٰیی خان کی ہدایت کا نتیجہ ہوتے تھے۔ اس انتہائی صورت حال کے بارے میں مسٹر الطاف گوہر کے بیان کو ایسے دوسرے گواہوں کے بیانات سے تقویت نہیں ملتی جنہیں مسٹر الطاف گوہر ہی کی طرح صدر کی حالت اور ایوان صدر میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں اندازہ کرنے کے مواقع حاصل تھے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ خود اپنے بیان کے مطابق مسٹر الطاف گوہر اس وقت مغربی پاکستان میں نہیں تھے جب صدر بیمار پڑے اور وہ تین یا چار فروری کو روالپنڈی واپس آئے وہ اس بات کے براہ راست گواہ نہیں ہیں کہ ایوب خان کی علالت کے پہلے ہفتے میں کیا ہوا۔

مسٹر فدا حسین نے بتایا کہ صدر ایک بہت مختصر وقت کے لیے بات کرنے کے قابل نہیں تھے اور خود انھیں ( فدا حسین کو) صدر کی علالت کے تیسرے روز یعنی غالباَ َ 2 فروری کو صدر سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی کم از کم اس وقت سے صدر دل کے شدید دورے سے کمزوری کے باوجود اتنا حواس رکھتے تھے کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اور کیا جواب دے رہے ہیں تاہم یہ بات مسجھ میں آتی ہے کہ اس کے باوجود صدر کے سامنے ایسی چیزیں پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا جن کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق صدر کی مداخلت ضروری نہیں تھی۔ اس طرح سرکاری طور پر طے شدہ نظام کی بجائے بظاہر ایک ایسا نظام خود بخود بن گیا جس میں صدر سے متعلق تمام کمیونی کیشن چاہے وہ سیکرٹری کی طرف سے ہوں یا وزیر کی طرف سے یا کابینہ کی سفارشات کی صورت میں ہوں ایڈوائزر کو بھیجی جاتی تھی جو بعد میں صدر سے احکامات حاصل کرتے تھے اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی یہ صدر سے رابطے کا مسلمہ طریق کار ہے ہمیں اس میں کوئی آئینی بے قاعدگی نظر نہیں آتی بیماری سے پہلے وزراء کی براہ راست صدر تک رسائی تھی جو خود کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے اب یہ معمول بن گیا کہ ایڈوائزر صدر کے احکامات حاصل کریں اور ایک نوٹ لکھیں کہ اس معاملے میں صدر کا کیا فیصلہ ہے۔ بعض معاملات میں قانونی ضرورت کے تحت صدر کو فائل کے اوپر دستخط یا Initial کرنے پرتے تھے۔ مثال کے طور پر کسی آرڈیننس کے نفاذ کے لیے صدر کے دستخط ضروری تھے۔ مسٹر فدا حسین نے خود صدر کی علالت کے بعد انھیں 2 فروری کو یا اس کے قریب دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے اور انھوں نے جو خاکہ کھینچا ہے وہ بلاشبہ ایک بیمار کمزور اور صاحب فراش شخص کا ہے تاہم وہ شخص پوری طرح چوکس تھا

ایک اور گواہ جو صدر کے قریب تھے اور جن سے ہم نے جرح کی وہ اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر تھے۔ انھوں نے بھی دوسروں کی طرح صدر کی علالت کے بارے میں سنا انھیں 3 جنوری 1968 کو صدر سے ملاقات کے لیے بلایا گیا اس روز مسٹر ایس ایم ظفر نے صدر کی حالت میں کوئی غیر معمولی بات نہیں دیکھی اس حقیقت کو بہرحال پیش نظر رکھنا ہوگا کہ صدر کو دل کا شدید دورہ پڑ چکا تھا مسٹر ظفر نے صدر کی ناک پر نشانات دیکھے جن سے ظاہر ہوتا کہ انھیں آکسیجن دی گئی تھی تاہم صدر ہشاش نظر آ رہے تھے اور گلاس سے نارنگی کے جوس کی چسکیاں لے رہے تھے۔

ہم نے متعدد لوگوں سے بھی جرح کی جواس وقت حکومت کے سیکرٹری تھے۔ مثال کے طور پر مسٹر غیاث الدین، مسٹر روداد خان، مسٹر ریاض الدین اور مسٹر ایم ایچ صوفی۔ ان میں سے کسی نے بھی ایسی تصویر کشی نہیں کی جیسی مسٹر الطاف گوہر نے کی۔ الطاف گوہر خود ہی اپنے سابقہ بیان کی تردید کرتے ہیں جب اپنے بیان کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ صحت یاب ہونے کے بعد صدر ایوب میڈیکل چیک آپ کی غرض سے انگلینڈ گئے تھے جہاں سے واپسی کے بعد ان کی حالت قدرے بہتر ہو چکی تھے اور وہ اپنے روزمرہ معمولات کی طرف لوٹ آئے تھے تاہم اب بقول الطاف گوہر کے ان کے روئیے اور سوچ میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہو چکی تھی اب وہ سختی کے ساتھ بات پر اڑنے رہنے پر اصرار نہیں کرتے تھے اور دوسرے فریق کی معقول بات سننے کے بعد اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کر لیتے تھے لیکن اب ان میں فوری اور مضبوط فیصلے کرنے کی صلاحیت تقریباَ َ مفقود ہو چکی تھی جو کبھی ان کا طرہءامتیاز سمجھی جاتی تھی اس کے باوجود الطاف گوہر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ از خود اپنے عہدے سے الگ ہوتے یا کوئی ان کے احکام کی تعمیل سے نکار کردیتا! اصل سبب اوروجہ اس کی یہ تھی کہ وہ کمزور اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔ ہم نے یحیٰی خان سے بھی صدر ایوب کی علالت کے فوری بعد ان کے کردار اور روئیے کے بارے میں پوچھا تھا جنھوں نے بتایا کہ اس کی بابت انھیں صدر ایوب کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب نے ٹیلی فون پر اطلاع دی تھی۔ وہ انھیں انکل کہہ کر مخاطب کرتی تھیں اور اس وقت ان کے لہجے سے کافی پریشانی عیاں تھی یہ اطلاع ملنے کے بعد یحیٰی خان بقول ان کے، فوراَ َ ایوان صدر پہنچے اور ان کے افراد خانہ سے مل کر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان دنوں وہ اکثر اوقات ایوان صدر جایا کرتے تھے اور ان کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے صدر ایوب کے ذاتی معالج سے بھی یقیناَ َ گفتگو کی ہوگی تاہم صرف ایک واقعے سے ہم جنرل یحیٰی خان کی بدنیتی پر مبنی ان عزائم کے بارے میں قطعاَ َ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے جس کی جانب الطاف گوہر نے اشارہ کیا! جنرل یحٰیی خان پاکستان آرمی کے ایک انتہائی سینئر افسر تھے اور صدر ایوب کے جانشین ہونے کے ناتے ان سے بے حد قریب بھی تھے۔ پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف ہونے کی حیثیت سے فیلڈ مارشل صدر ایوب خان، یحیٰی خان پر غیر معمولی اعتماد اور بھروسا کرتے تھے جو صدر ایوب کی کمانڈر انچیف کے عہدے پر تقرری کے وقت ایک بریگیڈئیر تھے چنانچہ پاک افواج کے متعدد اسکیموں اور منصوبوں کی تیاری اور ان کے عملی نفاذ کے سلسلے میں انھیں صدر ایوب کا بھر پور اعتماد حاصل تھا۔ پاک فوج کے ایک دیرینہ رفیق کار ہونے کے سبب یہ بات واضح ہے کہ ان کی صدر ایوب سے گھریلو تعلقات قائم تھے لہذا بیگم نسیم اورنگزیب کی جانب سے انھیں ٹیلی فون کرنے کے واقعے سے قطعاَ َ کوئی غلط بیانی یا مبالغہ آرائی نظر نہیں آتی جس کو سننے کے فوراَ َ بعد وہ ایوان صدر پہنچ گئے اور اس واقعے کے بعد اکثر و بیشتر وہاں جاتے رہے۔ یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ انھوں نے صدر ایوب کے ذاتی معالج کرنل محی الدین سے بھی اس بابت گفتگو کی ہوگی تاہم اس مفروضے میں ہمیں قطعاَ َ کوئی صداقت نظر نہیں آتی کہ چونکہ ان کے معالج کا تعلق پاکستانی آرمی سے تھا اس لیے انھیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صدر ایوب کی طبی دیکھ بھال پر مامور کیا گیا تھا تاکہ کمانڈر انچیف کی خواہش کے عین مطابق صدر پاکستان پر مضبوط گرفت رکھی جاسکے۔ کرنل محی الدین گذشتہ چھ برسوں سے صدر ایوب کے ذاتی معالج چلے آ رہے تھے اور ان کی اس حیثیت کی تقرری سے قبل بھی صدر پاکستان کے ذاتی معالج کا تقرر ہمیشہ آرمی ہی سے ہوتا چلا آ رہا تھا چنانچہ ہماری رائے میں اس بات کا قطعاَ َ کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ محض فرضی اور بے بنیاد واقعات و حقائق کی بنا پر یحیٰی خان سے اس قسم کے الزامات منسوب کردیے جائیں کہ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کی علالت کے بعد اقتدار کی باگ دوڑ انھوں نے خود سنبھال لی تھی۔ صدر کی صحت یاب ہونے سے پیشتر ایک سازش ک پتا چلا اس سازش کا مقصد مشرقی پاکستان کو علاحدہ کرنا تھا اور اسے اس وقت سے اگرتلا سازش کیس کہا جاتا ہے یہ نام اگرتلا قصبے سے لیا گیا جو بھارت میں سرحد کے قریب واقع ہے انکوائری کے دوران معلوم ہوا کہ سازش کرنے والوں میں کچھ سویلین تھے اور کچھ فوجی۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ مقدمہ کورٹ مارشل میں چلایا جائے یا دوسری عدالت میں کیونکہ جو لوگ اس ادارے سے منسلک تھے ان پر دوسرا ادارہ مقدمہ نہیں چلا سکتا تھا اس بات کا فیصلہ ہونے تک ملزمان کو زیر حراست رکھا گیا لیکن ان زیر حراست لوگوں کی فہرست میں ایک نام شامل نہیں تھا جو بعد میں نہایت شدومد سے لیا گیا۔ نام شیخ مجیب الرحمٰن کا تھا ان کا نام شامل نہ ہونے کی ایک توضیح یہ کی جاتی ہے کہ اس وقت ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کا نام شامل کیا جاسکے بلکہ زیادہ صحیح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک دستیاب ثبوت میں مجیب الرحمٰن کا نام ایک کوڈ نیم سے شامل تھا مگر اس وقت یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کوڈ نیم مجیب الرحمٰن کا ہے لٰہذا ایک دوسرا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں مجیب الرحمٰن کا نام شامل کیا گیا تھا۔ ایک اور توضیح یہ بھی کی جاتی ہے کہ شیخ مجبی الرحمٰن اس وقت زیر حراست تھے جب پہلا نوٹیفکیشن جاری ہوا جس کا مقصد ان لوگوں کو صرف نظر بند رکھنا تھا اس لیے دوسرا آرڈر جاری کرنا غیر ضروری تھا۔ خیال تھا کہ جب اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا تو مقدمہ کس شکل میں چلایا جائے تو ملزمان کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کر لیا جائے گا۔ اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ انھیں اس معاملے کے بارے میں اس وقت تک کچھ معلوم نہیں تھا جب تک انھوں نے نوٹیفکیشن نہیں پڑھا تھا اور اس وقت اس معاملے میں سامنے آئے جب یہ سوال اٹھا کہ مقدمہ کس فورم پر چلایا جائے ان کے کہنے کے مطابق کمانڈر ان چیف اس بارے میں بہت فکر مند تھے کہ وہ مسلح افواج کے افراد پر فوجی عدالت کے علاوہ اور کہیں مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دیں گے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ فوج سے تعلق رکھنے والے ملزمان علاحدہ علاحدہ فورسز سے تعلق رکھتے تھے مگر ان سب کے خلاف بھی ایک ہی کورٹ مارشل مقدمہ چلایا جانا تھا بہرحال انتخاب یہ ہوا کہ دو مختلف عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے ایک کورٹ مارشل میں اور دوسرا سویلین ٹریبونل میں یہ خطرہ ظاہر تھا کہ ان دونوں کے فیصلوں میں فرق ہو سکتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس سلسلے میں یہ ضروری ہو گیا کہ کمانڈر انچیف سے بار بار ملاقاتیں کی جائیں۔ جی ایچ کیو ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں وزیر قانون، دفاع کے سیکرٹری اور صدر کے مشیر موجود ہوا کرتے تھے تمام متعلقہ افراد نے تسلیم کیا ہے کہ ایسا ہی ہوا کرتا تھا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کمانڈر انچیف کے ساتھ ان کانفرنسوں کا صرف یہ مقصد ہونے کے بارے میں ہمیں شک محسوس ہوتا ہے۔ جنرل یحٰیی خان کے مطابق جب مقدمہ شروع ہو گیا تھا تب ہی ان سے مشورے کیے جاتے تھے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان میں فوجی قانون کے اہم نکات ملوث تھے اور اس لیے ان سے مشورہ کیا جانا ضروری تھا اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسے نکات زیر غور تھے تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کمانڈر ان چیف ہی فوجی قوانین کا سب سے بڑا ماہر تھا۔ ہمارے خیال میں فوج کا متعلقہ شعبہ عینی جج ایڈووکیٹ جنرل کا شعبہ زیادہ مناسب تھا۔ آخر میں منظور قادر کی مدد کے لیے جو سرکاری وکیل تھے گروپ کیپٹن اسلم کو مقرر کیا گیا۔ ائیر فورس میں شامل ہونے سے پہلے وہ کافی عرصے تک وکالت کرچکے تھے یہاں بھی وہ جج اے رحمٰن جو سپریم کورٹ کے ریٹائر جج تھے اور مشرقی پاکستان کے ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججز، جسٹس ایم آر خان اور جسٹس مقسوم الحکیم شامل تھے ٹریبونل نے اس کیس کی سماعت ڈھاکہ میں شروع کی۔

١٧) یہ ضروری ہے کہ شیخ مجیب کے پس منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تقسیم سے پہلے مجیب الرحمٰن طالب علم رہنما تھے۔ اور اس نے پاکستان کے لیے مسلم لیگ کی تحریک میں حصہ لیا۔ بعد میں وہ عوامی لیگ میں ایچ ایس سہروردی کے لیفٹنینیٹ رہے۔ اس جماعت نے کئی نام بدلے شروع میں یہ عوامی لیگ تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ 1966ء میں لاہور میں ایک کنونشن ہوا تھا جس میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی اس کنونش کے کنوینر نوابزادہ نصراللہ خان تھے کنونشن میں مجیب الرحمٰن بھی شریک تھے اور پہلی بار یہاں ہی مشہور چھ نکات پیش کیے گئے مختلف ذرائع سے یہ بتایا گیا ہے چھ نکات کے خالق مجیب الرحمٰن نہیں تھے بلکہ یہ مغربی پاکستان کے کسی سول سرونٹ نے بنائے تھے۔ الطاف گوہر کا نام بھی لیا جاتا ہے اس معاملے کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے اتنا کافی ہے کہ مشرقی پاکستان کے کچھ سول ملازمین نے اس خیال سے متفق ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان کو اگر آزادی نہ ملے تو زیادہ سے زیادہ خود اختیاری حاصل ہو اس نظریے میں حصہ لیا ہوگا۔ اس ڈرافٹ کے الفاظ ہمارے خیال میں عوامی لیگ کے رہنما یا شیخ مجیب الرحٰمن سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ جو زبان کے معاملے میں کورے تھے بغیر کسی مغربی پاکستان کی مدد کے نہیں تحریر کر سکتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تصور 1966ء کے کنونشن سے پہلے شروع ہوا تھا۔ کنونشن سے پہلے چھ نکات کی ایک کاپی نورالامین کو بھیجی گئی تھی جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما تھے۔( رپورٹ لکھتے وقت پاکستان کے نائب صدر تھے) انھوں نے پارٹی کے ایک اور رکن محمود علی کو یہ ڈرافت دکھایا اور دونوں نے س بات پر اتفاق کیا کہ اس میں علیحدگی کے بیج بوئے گئے ہیں جس کی حمایت نہیں کرسکتے۔ محمود علی اور نورالامین یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کاپی انھیں ہی ملی ہے لیکن اس وقت انھیں تعجب ہوا جب کنونشن میں شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات کی کاپی نکال کر دکھائی۔ سب کو حیرت ہوئی مگر زبان وہی تھی جو نورالامین کی کاپی کی تھی جو انھیں ڈھاکہ بھیجی گئی تھی۔

١٨) یہاں پر یہ بات مفید ہوگی کہ اس وقت تحریر کیے گئے چھ نکات کو یہاں دہرایا جائے

پوائنٹ نمبر ١ قرارداد لاہور کے مطابق آئین کو حیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مقننہ کی بالادستی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔

پوائنٹ نمبر ٢

وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں میں تقسیم کردیے جائیں گے۔

پوائنٹ نمبر ٣

الف) ملک کے دونوں بازوؤں میں دو علاحدہ مگر باہمی طور پر تبدیلی ہو جانے والی کرنسی متعارف کرائی جائے یا

ب) پورے ملک کے لیے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے تاہم اس کے لیے موثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تاکہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقومات کی ترسیل روکی جاسکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علاحدہ بینکنگ ریزورز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔

پوائنٹ ٤ محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جائے۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تاہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہوگی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصدی تناسب پر مشتمل ہوں گے۔

پوائنٹ نمبر ٥

(الف) دونوں بازوؤں میں زر مبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علاحدہ اکاؤنٹس ہونے چاہیں اور

ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔

ج) مرکز کی زر مبادلہ کی ضروریات، دونوں بازوؤں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی

د) ملکی مصنوعات کی دونوں بازوؤں کے درمیان میں آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوتی عائد نہیں کی جائے گی۔

ہ) آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ غیر ممالک میں تجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز تجارتی تعلقات قائم کر سکیں۔

پوائنٹ ٦

مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام، اس سوال پر کنونشن تقسیم ہو گیا۔

١٩) جو تحریک ایوب دورحکومت اور ان کے بنائے ہوئے دستور کے خلاف اعلان تاشقند کے بعد شروع ہوئی تھی اس نے صدر کی علالت کے وقت مقبولیت حاصل نہیں کی تھی۔

٢٠) اب تحریک کسی ایک جماعت کی تحریک نہیں تھی اور نہ ہی اس کاکوئی متفقہ رہنما تھا اور نہ ہی کوئی ایسا گروپ تھا جو اس تحریک کی رہنمائی کرتا اور کسی مخصوص منزل کی طرف لے جاتا۔ یہ درست ہے کہ کچھ اہم سیاست دان اس سے منسلک تھے جن میں خاص طور پر ذو الفقار علی بھٹو کا ذکر کیا جا سکتا ہے جنھوں نے ستمبر 1967ء میں ایک نئی پارٹی منظم کرنا شروع کردی تھی اس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تھا۔

طلبہ، سیاست دان، کسان اور مزدور سب ہی اس تحریک میں شامل ہو گئے اور ہڑتالیں اور جلوس روزمرہ کا معمول بن گئے۔ اس تحریک میں کوئی اشتراک متفقہ مقصد نہیں تھا بس ایوب حکومت کو ختم کرنے کا اور اس آئین کو ختم کرنے کا مطالبہ تھا جو 1962ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس بات پر کوئی اتفاق نہیں تھا کہ انھیں ختم کرنے کے بعد ان کی جگہ کون لے گا۔ اگرچہ اس بات پر اتفاق پایا جا رہا تھا کہ نیا نظام وفاقی پارلیمانی ہونا چاہیے۔ کیونکہ گذشتہ عشرے کے صدارتی نظام کا خاکہ لوگوں کے ذہن میں ایک آمرانہ نظام کا تھا لہٰذا یہ تحریک اس نظام کی نفی میں تھی۔ ایک دو جماعتوں کو ہی عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس طرح کا مخصوص پروگرام تھا جیسے آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کا تقسیم سے پہلے تھا۔ یہ دونوں اپنے متضاد پروگرام رکھتی تھیں مگر ایک نکتے پر متفق تھیں وہ یہ کہ برصغیر کو مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ ہم اس بات پر اس لیے زور دے رہے ہیں کہ جب صدر ایوب خان نے آخر کار سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیا کوئی ایسا رہنما یا کئی رہنما، ایک جماعت یا کئی جماعتیں اس کی اہل نہ تھیں کہ وہ مطالبات پر مذکرات کر سکتیں اور شرائط منظور کراتیں۔ ہمارے خیال میں اسی وجہ سے بعد میں بلائی گئی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس ناکام ہو گئی اس وقت تک 12 نومبر1968ء کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس تحریک کے دوران میں وہ سب سے اہم شخصیت بن چکے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس تحریک کی وہ قیادت کر رہے ہیں اور واقعی وہی قیادت کر رہے تھے۔

ان کی گرفتاری کے بعد بھی تحریک کا جاری رہنا اس بات کی ایک علامت ہے کہ یا تو عوام کے جذبات انتہائی شدت اختیار کر چکے تھے یا وہ ایک طویل مدت سے دبے ہوئے تھے جنہیں مسٹر بھٹو نے اپنی ولولہ انگریز قیادت کے نتیجے میں بیدار کر دیا تھا حالانکہ چند ایسے لوگ بھی جو اس وقت تک سیاسی میدان میں اتنے معروف نہیں تھے کوشش کر رہے تھے کہ مسٹر بھٹو کی تحریک جاری رکھی جائے۔ مشرقی صوبے میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی اس وقت تک غیر معمولی سیاسی اہمیت حاصل کر چکے تھے تاہم ابھی انھیں وہ بلند رتبہ اور اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہو سکا تھا جو آگے چل کر ان کا مقدر بننے والا تھا۔ ان تمام حقائق کے باوجود نہ تو مسٹر بھٹؤ اور نہ ہی شیخ مجیب الرحمٰن اس وقت ایسی پوزیشن میں تھے کہ صدر ایوب سے کوئی تصفیہ کر سکتے۔ باہمی طور پر کسی سمجھوتے پر پہنچتے یا سڑکوں پر جاری ایجی ٹیشن کو روکنے کی کوئی تدبیر ہی اختیار کرتے جس سے اس خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ راونڈ ٹیبل کانفرنس طلب کرنے کی بجائے کم از کم صدر کو یک طرفہ طور پر وہ رعایتیں دے دینی چاہیے تھیں جن پر وہ خود رضامند ہو سکتے تھے اور بقیہ کام معمول کی سیاسی مشینری کے سپرد کردیتے جس میں مختلف پروگراموں پر انتخابات کا انعقاد بھی شامل ہوتا۔ تاہم خرابیء بسیار کے بعد دانائی کا مظاہری ہمیشہ بے سود ہوتا ہے اور اسی لیے شاید فیلڈ مارشل کو کلی طور پر اس بات کے لیے ذمہ دار قرار دینا قرین انصاف نہ ہوگا کہ عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کی بجائے انھوں نے دوسرا راستہ منتخب کیا۔ اگر تاریخ اس سے مختلف ہوتی تب بھی شاید ان پر یہی الزام عائد کیا جاتا کہ انھوں نے بڑی تاخیر سے ایک یک طرفہ اور آمرانہ فیصلہ کیا ہے۔

٢١) ایک متبادل طریقہ اس سلسلے میں یہ بھی تھا کہ وہ بڑے صاف دل اور سچائی کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے کہ چوں کہ عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں لہٰذا وہ 1958 کی وہ سابقہ پوزیشن بحال کر رہے ہیں جو ان کے اقتدار میں آنے سے بیشتر موجود تھی لیکن اس کے لیے بھی آئینی ذرائع سے تبدیلی لانا ضروری ہوتا یعنی( اس وقت) کی قومی اسمبلی کے ذریعے آئینی ترمیم کی شکل میں ایک نئے آئین کی تشکیل جس کے لیے 1962ء کے آئین کے تحت دوتہائی اکثریت کی ضرورت تھی اور صدر کی پارٹی یعنی کنونشن مسلم لیگ کو یقیناَ َ یہ اکثریت حاصل تھی۔ تاہم یہ ایک ھلا ہوا سوال ہے کہ کیا وہ پارٹی جو سیاسی جماعتوں کے مطلوبہ نظم و ضبط سے محروم تھی اور جس محور صرف صدر کی ذات اور شخصیت تھی اس آئینی ترمیم کی منظوری دے سکتی تھی محض اس لیے کہ اس کی تمام تر وفاداریاں ایوب خان سے وابستہ تھیں جب کہ وہ خود( یعنی صدر ایوب) اپنے آپ کو اس تمام منظر سے خود ہی محو کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ایسی صورت میں پارٹی کو باہم متحد رکھنے والا عنصر ہی پارٹی کو معدوم کرتے ہوئے 1956ء کے آئین کی طرف مراجعت کے پروگرام کو یکسر مسترد کر دیتا اور کسی مثبت رویے کا اظہار نہ کرتا۔ تاہم ان آئینی الجھنوں اور پیچیدگیوں کو حل کرنے کے ان مختلف طریقوں کی جو بھی اہمیت ہو، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ گفت وشنید اور مذکرات کا راستہ ان دشواریوں اور رکاوٹوں سے ہرگز مبرا نہیں تھا جو ایک سیاسی ورثے کی صورت میں موجود تھیں۔

٢٢) چنانچہ فیلڈ مارشل نے سیاسی لیڈروں کی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے سیاسی لیڈروں کے ناموں کے انتخاب کا فیصلہ انھوں نے نواب زادہ نصراللہ خان پر چھوڑ دیا جو پاکستان ڈیوکریٹک موومنٹ کے کنوینر تھے۔ نواب زادہ نے ان متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت نامے جاری کر دیے جو پی ڈی ایم میں ضم ہو چکی تھیں اس کے علاوہ انھوں نے ان لوگوں کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جو خود کو پی ڈی ایم سے متفق قرار دیتے ہوئے ( ڈائریکٹ ایکشن کیمٹی) میں شامل تھے۔ تاہم نواب زادہ نے ان لوگوں کو کانفرنس میں شمولیت کی دعوت نہیں دی جو پی ڈی ایم اور مشترکہ سیاسی تنظیموں کے اراکین نہیں تھے جن میں قابل ذکر نام نیشنل عوامی پارٹی ( بھاشانی گروپ) کے سربراہ مولانا عبد الحمید خان بھاشانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذو الفقار علی بھٹو کے ہیں۔ 17فروری 1969ء کو ایمر جنسی اٹھا لی گئی جس کے نتیجے میں ڈیفنس آف پاکستان رولز نافذ العمل نہیں رہے اور ان کے تحت تمام گرفتار شدگان کو رہا کر دیا گیا جن میں ذو الفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ چنانچہ صدر ایوب نے مولانا بھاشانی اور مسٹر بھٹو کو بھی راونڈ ٹیبل کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دے دی، تاہم یہ دونوں کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ بہر کیف مسٹر بھٹو نے یہ سوال ضرور اٹھایا کہ انھیں کس حیثیت میں مدعو کیا جا رہا ہے جس پر انھیں مطلع کیا گیا کہ انھیں ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے دعوت دی گئی ہے۔

٢٣) 17فروری 1969ء کو متعدد اہم شخصیات جنہیں نوابزدہ نصراللہ خان نے مدعو کیا تھا راولپنڈی پہنچ تو گئیں لیکن وہ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئیں۔ ہمارے خیال میں یہ کہنا محض جزوی طور پر صحیح ہوگا کہ اس کا سبب ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی کا اپنے پیش کردہ مطالبات کے سلسلے میں پایا جانے والا باہمی عدم اتفاق تھا۔ اس کا اصل سبب درحقیقت شیخ مجیب الرحمن کی ذات تھی۔

٢٤) صدر ایوب کی جانب سے نواب زادہ نصر اللہ خان کو اس ہدایت کے بعد وہ راؤنڈ کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامے جاری کر دیں کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن کی شمولیت کا سوال بھی پیدا ہوا جو اس وقت اپنے خلاف ڈھاکہ میں چلائے جانے والے ایک مقدمے کے سلسلے میں زیر حراست تھے۔ چونکہ کانفرنس کے شرکا کا انتخاب تمام تر نواب زادہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا لٰہذا اب یہ صدر ایوب کا درد سر نہیں تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کو اس کانفرنس کے لیے مدعو کیا جائے یا نہیں۔ سوال دراصل یہ تھا کہ کیا وہ اس کانفرنس میں قید سے آزاد ہو کر شرکت کے لیے آئیں گے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ان پر پابندی کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس سوال کے بطن سے ایک اور سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا وہ کانفرنس میں شرکت پر رضا مند ہوں گے اور اگر ہو جاتے ہیں تو کس نوعیت کی پابندیوں کے تحت وہ راولپنڈی آکر کانفرنس میں شمولیت پر راضی ہوسکیں گے؟ شروع میں تو یہ بات ہی کافی سمجھی گئی کہ وہ ذاتی پر کانفرنس میں شریک نہ ہوں بلکہ اپنے بجائے اپنی پارٹی کے کسی اور رکن کو نامزد کر دیں جسے ان کا مکمل اعتماد حاصل ہو، تاہم ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی نے فوری طور پر اس بات کے لے اصرار کیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی ذاتی شمولیت اس موقع پر نہایت ضروری ہے۔ بہر کیف شیخ مجیب الرحمٰن پیرول پر رہا ہو کر آنے کے لیے تیار ہو گئے جیسا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ پیرول کا مطلب ہے کسی زیر حراست فرد کو کسی خاص مقصد سے یا خصوصی مدت کے لیے عارضی طور پر قید سے رہائی دینا جس کی تکمیل کے بعد وہ پھر زیر حراست آجاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں پولیس کے پہرے میں پرول پر نہیں بلکہ آرمی کی کھلی حفاظتی تحویل میں لایا جا رہا تھا جس کی توثیق اور تصدیق جنرل یحیٰی خان نے بھی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ متعلقہ شخص عارضی طور پر ایک آزاد فرد کی حیثیت سے بغیر کسی روک ٹوک کے نقل و حرکت کر سکتا ہے تاہم وہ مستقل طور پر ایک فوجی افسر کی نگرانی میں رہے گا جسے اس بات کا قطعاَ َ کوئی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی جگہ یا مقام پر آنے یا جانے سے روک سکے ماسوائے یہ کہ وہ ہمہ وقت اس کی ہمراہی میں رہنے کا اصرار کر سکتا ہے۔ ابھی اس معاملے پر رضامندی ہوئی تھی کہ یہ مطالبہ سامنے آ گیا کہ انھیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے، شیخ مجیب الرحمٰن اس پر بھی تیار تھے۔

٢٥) تاہم اس مرحلے پر دو واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک تو ایسا ہے جس پر مکمل طور پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے دو وزرا یعنی خواجہ شہاب الدین اور ایڈمرل اے آر خان ڈھاکہ پہنچے اور شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ ہمارے ذہن میں ظاہر ہے فوراَ َ یہی خیال آئے گا کہ اس ملاقات کا مقصد شیخ مجیب کو کانفرنس میں شمولیت پر آمادہ کرنا ہوگا لیکن ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس ملاقات کا مقصد درحقیقت انھیں اس کانفرنس میں شرکت سے یا سرے سے ہی باز رکھنا یا کم از کم مکمل طور پر مقدمے اور قید سے بری ہوئے بغیر شرکت نہ کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایڈمرل اے آر خان جنرل یحیٰی کے انتہائی قریبی اور گہرے دوست تھے جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یحیٰٰی خان چاہتے تھے کہ اس مرحلے پر مجیب الرحمٰن اپنے مطالبات میں شدت اور وسعت پیدا کر لیں جس کا فوری اور دوررس مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بالآخر ناکامی سے دوچار ہو جائے۔ بہر کیف! فی الوقت ہم اس واقعے سے صرف نظر کرتے ہیں۔

٢٦) ایک اور واقعہ جس نے شیخ مجیب الرحمٰن کے طرز عمل کو متاثر کیا وہ اگر تلا سازش کیس کے ایک ملزم سارجنٹ ظہورالحق کا 17 فروری 1969ء کو قتل کیا جانا تھا اس کی یہ توضیح پیش کی گئی کہ سارجنٹ ظہور الحق نے لیویٹری سے واپس آتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور فرار ہونے سے روکنے کی کوشش میں وہ مارا گیا۔ بہت سے ایسے عوامل ہیں جن کی روشنی میں اس وضاحت کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلے ایک ایسا موقع آچکا تھا جب ٹریبونل کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ کچھ ملزمان کے خلاف ایسے ثبوت موجود نہیں ہیں کہ انھیں سزا دی جاسکے اوراس واقعے سے پہلے پراسیکیوٹر اس بات پر رضا مند ہو گئے تھے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کر دیں گے جن کے خلاف حکومت کا مقدمہ چلانے کا ارادہ نہیں ہے۔ سارجنٹ ظہور الحق بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے اور دفاع کے وکیل کو بھی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ فہرست میں اس کے نام کے آنے کا بھی امکان ہے۔ اس لیے کم از کم سارجنٹ ظہور الحق کے لیے فرار ہونے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ آرمی گارڈ ایک غیر مسلح شخص کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور ان کے لیے یہ بالکل آسان تھا کہ وہ ظہور الحق کو اس طرح زخمی کرتے کہ وہ بھاگ نہیں سکتا اور وہ مرتا نہیں۔ مثال کے طور پر اس کی ٹانگ پر گولی ماری جا سکتی تھی۔ جب وہ مارا گیا تو اس کی لاش اس کے رشتے داروں کو دے دی گئی اور اس طرح اس بات کی اجازت دی گئی کہ اسے عوام میں ایک جلوس کی شکل میں لے جایا جائے۔ اگرتلا سازش کیس فوجداری کا کوئی معمولی مقدمہ نہیں تھا۔ یہ ایک سنسنی خیز مقدمہ تھا جس کی خبریں روزانہ اخبارات میں آ رہی تھیں۔ اس مقدمے کی سماعت بھی ملک کی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کر رہے تھے جن کے ساتھ ہائیکورٹ کے دو حاضر سروس جج موجود تھے۔ عوام کے جذبات بہت بھڑکے ہوئے تھے اور ان حالات میں کسی سیاسی دانش مندی یا انتظامی تجربے کی ضرورت تھی کہ یہ احساس کر لیا جائے کہ لاش کو لے کر سڑکوں پر پریڈ کرنے سے ہنگامے شروع ہوجائیں گے اس واقعے پر شدید ہنگامے شروع ہو گئے بہت سے گھر جلا دیے گئے۔ جن میں ٹریبونل کے چیئر مین کا گھر بھی شامل تھا جنہیں پاجامہ پہنے ننگے پیر بھاگنا پڑا۔

٢٧) اس دوران میں تجویز پیش کی گئی کہ شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کرنے کی بجائے ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔ حکومت اس بات پر تیار ہو گئی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہداہت کی گئی کہ وہ اس درخواست کی مخالفت نہ کریں جو شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے کی جائے گی اور جس پر ان کے دستخط ہوں گے۔

٢٨) ایک طرف تو اس واقعہ کی وجہ سے گرما گرمی پیدا ہو گئی تھی دوسری طرف اس واقعہ نے شیخ مجیب الرحمٰن کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کر دیں۔ ظہورالحق کی موت کے بعد جس دن ضمانت کی درخواست پیش ہوئی تھی اس سے ایک روز پہلے شام کو مجیب الرحمن نے ضمانت کی درخواست پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی سے ڈھاکہ میں بیگم مجیب الرحمٰن کو ٹیلی فون کیے جاتے رہے۔ یہ کالز ایوب خان کی کابینہ میں مشرقی پاکستان کے وزیر اے صبور کے ٹیلی فون سے کی جا رہی تھی لیکن اس بارے میں ثبوت مبہم ہیں اور کوئی واضح نتیجہ اخذنہیں کیا جا سکتا۔

٢٩) اس مسئلے کا دوسرا حل یہ تھا کہ گول میز کانفرنس بغیر شیخ مجیب الرحمن کے ہی منعقد کر لی جائے یا ان کے خلاف چلنے والا مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ مقدمہ واپس لے لیا جائے اگرچہ وزیر قانون نے مشورہ دیا تھا کہ بجائے مقدمہ واپس لینے کے اس آرڈیننس کو ہی منسوخ کر دیا جائے جس کے تحت ٹریبونل قائم ہوا تھا۔ فرق واضح تھا شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف مقدمہ واپس لینے کا مطلب یہ تھا کہ انھیں بری کر دیا گیا ہے اور کے نتیجے میں ان پر دوسرا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا مگر آرڈیننس واپس لینے کا مطلب یہ ہوتا کہ ٹریبونل شیخ مجیب الرحمٰن پر مقدمہ چلانے کا اہل نہیں رہا لیکن شیخ مجیب الرحمٰن پر کسی وقت بھی مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس وقت عملی طور پر کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ ہر صورت میں شیخ مجیب الرحمٰن کو مقدمے کا سامنا نہیں کرنا تھا اور مکمل طور پر آزاد تھے۔

٣٠) گول میز کانفرنس آخر کار 10 مارچ 1969ء کو منعقد ہوئی جو سیاسی جماعتیں اس میں شریک تھیں وہ جمہوری ایکشن کمیٹی کے تحت جمع ہوئی تھیں، مولانا عبد الحمید بھاشانی اور ذو الفقار علی بھٹؤ ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے بوجوہ اس کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا

٣١) گول میز کانفرنس کے دو اجلاس ہوئے اس دوران میں اہم بات یہ ہوئی کہ جنرل یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کی ملاقات ان کی سابق رہائش گاہ پر ہوئی اور جب یہ بات منظر عام پر آئی تو ہم سب حیران رہ گئے ہم اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ آرمی کمانڈر انچیف جنرل یحیٰی خان جو سیاسی امور میں قطعاَ َ دلچسپی نہیں رکھتے تھے انھوں نے کیونکر شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ شیخ مجیب الرحمٰن واحد سیاست دار تھے جس سے یحیٰی خان نے پہلی اور آخری ملاقات کی ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یحیٰی نے ایسا کیوں کیا، جبکہ شیخ مجیب سے ان کی کسی قسم کی ذاتی ہم آہنگی بھی نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ الطاف گوہر نے یحیٰی خان کو اس امر پر تیار کیا تھا اور وہ میٹنگ میں شریک بھی تھے۔ الطاف گوہر کے ذمہ یا کام لگایا گیا تھا کہ وہ شیخ مجیب سے یہ یقین دہانی حاصل کر لیں کہ اگر گول میز کانفرنس نافذ ہوجاتی ہے تو وہ یحیٰی خان پر مارشل لا اٹھانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ وہ سمجھتے تھے بلکہ ان کو یہ خوف جاگزیں تھا کہ اگر ان کی تجاویز نہ مانی گئیں تو نتیجتاَ َ مارشل لا نافذ رہے گا۔ مغربی پاکستان سے چھ نکات کیخلاف شدید مزاحمت کرنے کے کے لیے اپوزیشن کے نمائندے گول میز کانفرنس میں شریک تھے دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن بھی اپنے چھ نکات کی بنیاد پر سیاسی تصفیے کے خواہش مند تھے۔ دونوں جانب سے شدید رد عمل کی صورت میں گول میز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ چھ نکات کا مطالبہ علیحدگی پسندی پر مبنی تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر ہم نے ان پر بہت تفصیل سے غور کیا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے رہنما اگر اس معاملے پر منصفانہ طرز عمل اختیار نہیں کریں گے تو دوسرا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں برآمد ہوگا۔

٣٢) جنرل یحیٰی خان، الطاف گوہر اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں ہمیں کوئی شبہ نہیں تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی اس ملاقات نے ہمیں مخمصے میں ڈال دیا تھا جب کہ الطاف گوہر اس بات سے برابر انکار کرتے رہے کہ یحیٰی، مجیب ملاقات کے دوران میں وہ موجود نہیں تھے حالانکہ اس سے پہلے بھی الطاف گوہر سے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی طرف سے آنے والی اس تجویز پر عملدرآمد کے لیے رجوع کیا گیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن یحیٰی خان کو مارشل لا اٹھانے پر مجبور نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی جائے اس تجویز کے پس منظر میں الطاف گوہر نے شیخ مجیب الرحمٰن کو یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ گول میز کانفرنس کے نتیجے میں مسئلے کا سیاسی حل متوقع ہے کیونکہ یہی ایک حقیقی کوشش ہے لٰہذا مارشل لا اٹھانے کے بارے میں تحریری یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے۔ الطاف گوہر کو اس کام کے لیے کیوں منتخب کیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کو پہلے سے جانتے تھے اور انھوں نے مشرقی پاکستان میں ایک عرصے تک ڈیوٹی انجام دی تھی۔ ہم اس بنا پر سمجھتے رہے کہ الطاف گوہر محض شیخ مجیب الرحمٰن سے ذاتی تعلقات کی بنا پر اس کام کے لیے چنے گئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کا اپنا کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔

٣٣) جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب سے ملاقات کے ضمن میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ خود شیخ مجیب الرحمٰن نے ان سے عاجزانہ درخواست کی تھی۔ جنرل یحیٰی خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا یہ خیال تھا کہ آرمی اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان میں خاص ہم آہنگی پائی جاتی ہے لٰہذا ملاقات سود مند ہوگی، ممکن ہے یہ ہم آہنگی اگر تلہ کیس کے دوران میں پیدا ہوئی ہو کیونکہ جب شیخ مجیب الرحمن فوج کی تحویل میں تھے فوج کا رویہ ان کے ساتھ اچھا تھا۔ گویا یحیٰی خان کے الفاظ کو مدنظر رکھا جائے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجیب الرحمٰن جب گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے ان کے ذہن میں پہلے سے نرم اور لچک دار سوچ موجود تھی ہم اس وضاحت سے مطمئن نہیں کیونکہ بعد ازاں گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب الرحٰمن کے رویے نے ثابت کر دیا تھا کہ یحیٰی خان سے ملاقات کے بعد ان کے لہجے میں سختی آگئی تھی۔ اگرتلہ کیس کے حوالے سے فوج کی تحویل میں رہنے کے دوران میں ان کے فوج سے اچھے تعلقات کا آغاز ہو چکا تھا لٰہذا ہم بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یحیٰی خان سے ملاقات کے بعد اس رویے میں کس قدر بہتری کے آثار پیداہوئے ہوں گے بلکہ دوران میں حراست کچھ فوجی افسران کے نرم رویوں اور ان کی جانت سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔ یقیناَ َ محبت الرحمٰن ان سے متاثر بھی ہوں گے ہو سکتا ہے کہ ان افسران کو ڈھاکا بلایا بھی گیا ہو۔

٣٤) ہم یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں سمجھتے کہ گول میز کانفرنس کے دوران میں اور بعد میں شیخ مجیب الرحمٰن کا رویہ جنرل یحیٰی خان سے ملاقات کے بعد ہی تبدیل ہوا۔ جس وقت کانفرنس کا اجلاس ہو رہا رہا تھا مجیب الرحمٰن کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ یہ بہت مشکل نظر آتا ہے کہ کانفرنس میں شریک تمام پارٹیاں ہر معاملے پر متفق ہوجائیں اور یہ ضروری نہیں کہ کانفرنس سے وہ مقاصد کلی طور پر حاصل ہوجائیں جن کے کے لیے کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو یہ باور بھی کرادیا گیا تھا کہ فیلڈ مارشل ان کے چھ نکات میں سے اکثر پر متفق ہیں اور جن امور کے بارے میں طے ہو جائے گا ان کو آئنی تحفظ دیا جائے گا لٰہذا عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بقیہ امور پر بھی بعد ازاں سوچ بچار کے بعد اور سیاسی تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوب خان اور 1962ء کے اصل آئین کو بیچ میں لائے بغیر ہی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت یہ بھی باور کرایا گیا کہ یہ سنہری موقع ہے جسے کسی بھی قمیت پر کھونا یا گنوانا نہیں چاہیے کیونکہ اسی طرح مارشل لا کو ختم کرنے کا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر مجیب الرحمٰن نے جواب دیا تھا کہ (انھیں مارشل لا سے کوئی خوف یا خطرہ نہیں ہے) ظاہر ہے ان کے اس رد عمل سے دو ہی نتیجے اخذ کیے جا سکتے تھے۔ اس تمام منظر کے پیش نظر ہماری نظروں سے اوجھل تھا ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن جس راستے پر چل رہے ہیں وہ درست نہیں ہے ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مجیب الرحمٰن کو مارشل لا سے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ہی وہ بعد میں مارشل لا ہٹانے کے لیے پرزور ہیں حقیقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں یقین ہو کہ بعد ازاں مارشل لا کسی بھی قیمت پر نہیں ہٹایا جائے گا۔

٣٥) مجیب الرحمٰن کے اس رویے اور مسلسل ضد کی وجہ سے گول میز کانفرنس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ہی ختم ہو گئی جس میں مغربی پاکستان کے متعدد سرکردہ سیاست دان بھی شریک تھے اس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے قوم کے نام اپنے ایک نشری خطاب میں کہا ( کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اگر (شیخ مجیب کے ) کے تمام مطالبات مان لیے جائیں تو ملک میں امن تباہ برباد ہو جائے گا۔ میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کون سے ملک کی بات کر رہے ہیں؟ مطالبات مان لیے جائیں تو ہم پاکستان کے مسئلے کے کسی تصفیے پر ضرور پہنچ سکیں گے۔)

٣٦) یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ایوب خان نے مطالبات کو مان لیا ہے اور چند ترامیم کے ساتھ ان کی منظوری کا ڈرافٹ تیار کیا جا رہا ہے لٰہذا صوتحال بہتر ہو رہی ہے اور حالات قابو میں آ رہے ہیں اور حالات زبانی معاملات طے ہوجانے سے ایک حتمی نتیجے کی طرف بڑھ رہے ہیں ہم سب اس صورت حال سے مطمئن تھے اور اس بات پر بھی ہمیں زیادہ ترود نہیں تھا کہ ایوب نے جب معاملات بالا ہی بالا طے کر لیے تو ہمیں کیوں بلایا گیا کیونکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ جن مقاصد کے لیے ہم یہاں آئے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو اب معاملہ یہ تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جتنے بھی اقدامات طے کیے ہیں ان کے بعد جنرل یحیٰی خان ان سے کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں ان پر کس طرح توجہ دیتے ہیں۔

٣٧) گول میز کانفرنس 13 مارچ1969 کو ختم ہو گئی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اس وقت تک یہ عندیہ دے چکے تھے کہ وہ ترامیم جو انھوں نے طے کی ہیں ان پر عملدر آمد کرانے کے بعد وہ مزید عہدہء صدارت پر برقرار نہیں رہنا چاہتے۔ سیاسی پارٹیوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ آئین میں ترامیم سے متعلق اپنی اپنی تجاویز بھی روانہ کر دیں انھیں یہ بھی باور کرا دیا گیا تھا کہ ضروری نہیں کہ یہ تجاویز تسلیم ہی کر لی جائیں وہ گورنروں کو تبدیل کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر جو صوبے میں ایوب کے نمانئدے تصور کیے جاتے تھے وہاں کے عوام کے لیے ناپسندیدہ شخصیت تھے جبکہ مغربی پاکستان کے گورنر ایک بے عمل گورنر قرار دیے جا چکے تھے لٰہذا 17مارچ 1969ء کو یوسف ہارون کو مغربی پاکستان کا گورنر اور 22 مارچ کو ڈاکٹر این ایم ہدیٰ کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد کسی حد تک کشیدگی میں کمی آئی اور مسئلے کی طرف سے ذرا دھیان ہٹا۔ کچھ لوگوں کا اس وقت یہ یقین تھا کہ گورنروں کی تبدیلی چونکہ مختصر مدت کے لیے ہوگی لٰہذا اس اقدام کا اصل مقصد لوگوں کی توجہ بانٹنا ہے۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ مدت 25مارچ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔

٣٨) گول میز کانفرنس ختم ہوئی تو صرف دو نکات پر ایک معاہداتی نوٹ ہی تحریر کیا گیا جس کے تحت یہ طے پایا گیا کہ حکومت کا نظام وفاقی پارلیمانی ہوگا اور آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہی منعقد کرائے جائیں گے۔ صدر پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ جو امور متفقہ طور پر طے پا جائیں گے یا جن پرتفصیہ ہو جائے گا وہ انھیں تسلیم کر لیں گے۔ لٰہذا یہ بات آسانی سے تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ جمہوری ایکشن کمیٹی سے مذکرات کے نتیجے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ یا معاہدہ طے ہو جانے یا نہ ہونے کے پس پشت مولانا بھاشانی یا ذو الفقار علی بھٹؤ پارٹی تھے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے چھ نکات کے سلسلے میں آئینی ترامیم کے لیے زور دے رہے تھے اور شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے آئینی ترامیم کی یہ تجاویز جب صدر کو بھیجی گئی تھیں تو انھوں نے اس کے آئینی حل کی ضرورت پر زور بھی دیا تھا۔

٣٩) 20 مارچ 1969ء کو اس وقت کے وزیر قانون نے ان آئینی ترامیم کا اعلان کیا جو حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس پریس کانفرنس میں اپریل کی کسی تاریخ کا بھی علان کیا جانا تھا جس تاریخ کو قومی اسمبلی ان ترامیم پر غور کرتی۔ تاہم بعض پراسرار وجوہ کی بنا پر جنہیں ہم معلوم نہیں کر سکے، ایسا نہیں ہو سکا۔ جب مذکرورہ وزیر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو انھیں ٹیلی فون پر ہدایت دی گئی کہ وہ ان اس علان کو موخر کر دیں۔

٤٠) یہ کہا گیا کہ آر ٹی سی ایک ناکامی تھی۔ بلاشبہ یہ کوئی کم کامیابی نہیں تھی لیکن ہمیں حیرانی ہے کہ کیا سرد مہری کے ساتھ اس کی تعریف پر (ناکامی) کی اصطلاح کو حقیقی معنوں میں کانفرنس سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں بتائی گئیں وجوہ کی بنا پر یہ توقی رجائیت پسندانہ ہوئی کہ آر ٹی سی پر مکمل اتفاق رائے ہو جائے گا۔ بہرحا ل دو اہم رہنما مذکرات میں شامل نہیں تھے۔ ان حالات میں جن دو بڑی تبدیلیوں پر اتفاق کیا گیا انھیں بمشکل غیر اہم تصور کیا جا سکتا تھا۔ بلاشبہ اسے اچھا کہا جا سکتا کیوں کہ وہ ایک ایسا نتہائی معاہدہ تھا جس پر پہنچنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اقواام اتفاق کلی پر نہیں چلتیں اور اختلاف رائے جمہوریت کا لازمی حصہ ہے۔ جومعاہدہ طے پایا وہ نئے باب کا آغاز کرنے کے لیے کافی تھا۔

٤٠) تاہم جب امن و امان کی صورت حال بری طرح خراب ہو گئی تھی تو سول انتظامیہ کی مدد کرنے کے لیے فوج طلب کرنے کی درخواست پر غور کرنے کے ضمن میں کوئی شخص اس وقت کے صدر کی دانش پر اعتراض نہیں کر سکتا اورانہوں نے قاعدے کے مطابق جنرل یحٰیی سے پوچھا تھا کہ آیا وہ ایسا کرنے کے تیار ہوں گے۔ مزید آگے بڑھنے سے قبل ہمارے لیے واضح طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ( مارشل لا) کا مطلب کیا ہے۔ مارشل لا کا بذات خود حقیقی مطلب یہ ہے کہ کوئی قانون نہیں۔ تاہم روایتی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں فوجی کمانڈر کا حکم یا ارادہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ ملکی قانون پر اس کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا اور جب کوئی بیرونی طاقت کسی ملک پر عسکری قبضہ کر لیتی ہے اس وقت اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ فوج کا کبھی بھی یہ قانونی فرض نہیں رہا اور نہ ہے کہ وہ حکومت کا متبادل بنے اور عوام پر اپنی مرضی چلائے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ جب حکومت طلب کرے تو وہ اس کی درخواست پر ان مخصوص علاقوں میں اس مخصوص مدت کے لیے اس کی مدد کو پہنچے جس کی ہدایت کی گئی ہو۔ غیر منقسم ہندوستان میں یا پاکستان میں 1958ء میں قبل نافذ کیے گئے نام نہاد مارشل لا کی مثالوں میں سول حکومت کو ہٹایا نہیں گیا تھا اور بلاشبہ سول حکومت نے مارشل لا نافذ کرنے کے احکامات دیے تھے۔ مؤخر الزکر مثال میں جب کسی مخصوص علاقے میں معمول کا کام کرنے والی مشینری ناکام ہو گئی تھی تو فوج سول حکومت کی مدد کرکے اپنے فرائض ادا کر رہی تھی اور ان معاملات کو یا تو پیش بندی کرکے یا ماضی کے تجربے کو سامنے رکھ کر ضروری قانون سازی کے ذریعے باقاعدہ بنا دیا گیا تھا۔ لیکن 1958ء میں فوج نے سول حکومت کو ہٹا کر اپنی حکمرانی قائم کی تھی۔ یہ فوج کی حکمرانی سے کم یا زیادہ کوئی بات نہیں تھی۔ بلاشبہ ایوب خان جنھوں نے مارشل لا کی انتظامیہ کی سربراہی کی تھی، ہم سے اس بات پر اتفاق کیا کہ 1958ء اور 1965ء میں جو کچھ کیا گیا وہ فوج کی حکمرانی تھی۔

٤٢) عام طور پر یہ غلط فہمی ہے، بالخصوص فوج میں اور ہمارے خیال میں یہ 1958ء کے بعد پروان چڑھی کہ کسی علاقے میں فوج کی کمان کرنے والا فوجی افسر ہی ہمیشہ اپنے علاقے میں مارشل لا نافذ کر سکتا ہے۔ بہ الفاط دیگر جب بھی کوئی فوجی کمانڈر، خواہ کم درجے کا ہی کیوں نہ ہو، یہ محسوس کرے کی اس کے زیر کمان علاقے میں معمول کی مشنری اپنا کام نہیں کر سکتی تو وہ بعض ایسے قوانین کے ذریعے جوماورائے آئین اختیار رکھتا ہے، یہ حق اور جواز رکھتا ہے کہ وہ مارشل لا نافذ کر دے۔ جنرل یحیٰی نے اپنی شہادت میں پرزور انداز میں اس کی حمایت کی۔ ایک کے بعد ایک مارشل لا کے نفاذ نے غیر فوجیوں کے ذہن میں بھی بھی مارشل لا کی تعریف کو دھندلا دیا ہے۔ عاصمہ جیلانی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں ،جسے سراہا گیا ہے، مکمل اختیار اور بہت تفصیل کے ساتھ اس سوال کا تجریہ کیا گیا ہے۔ ہم یہاں اس کے بعض حصوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔

(موجودہ زمانے میں انگلستان میں مارشل لا کے مختلف مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ اصل معنی کے اعتبار سے اب بہر کیف یہ اندرون اور بیرون ملک موجود افواج میں نظم و ضبط پیدا کرنے سے متعلق قانون کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ اس معنی میں مارشل لا کی اس شاخ کو (فوج کا قانون) کہا جاتا ہے اور زمانہ امن میں اس کا مختلف صورتوں میں نفاذ ہوتا ہے مثلا آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ائیر فورس ایکٹ۔ قوانین بنانے والے سول ادارے ان صورتوں کی منظوری دیتے ہیں اور یہ اس سے اختیار اخذ کرتا ہے۔ بین الاقوامی قانین کے مطابق مارشل لا کا مطلب زمانہ امن میں دشمن کے علاقے میں JUSBELLI کے حصے کے طور پر ایک عسکری کمانڈر کے اختیارات ہوتا ہے۔ اس معنی میں اس کی تعریف وہی ہے جو ڈیوک آف ویلنگٹن نے ایک مرتبہ ایوان امرا میں ایک مرتبہ کی تھی۔

(فوج کی کمان کرنے والے جرنیل کے ارادے سے نہ تو کم اور نہ ہی زیادہ ( بحوالہHansard, Vol.xcv.col880)۔ کیا اس شکل میں ملک میں مارشل لا کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ ہالسہری کے قوانین برائے انگلستان جلدنمبر سات، اشاعت سوم صفحہ نمبر 260کے مطابق انگلستان میں آج صورت حال یہ ہے (زمانہ امن میں تاج برطایہ سویلین افراد پر مارشل لا کے تحت مقدمہ چلانے کے احکامات جاری نہیں کر سکتا، تاآنکہ جنگ کی صورت حال پیدا نہ ہو جائے یا شدید فسادات پھوٹ پڑیں یا بغاوت جنگ کی صورت اختیار نہ کرے۔ ایسی صورتوں میں تاج برطانیہ اور اس کے حکام اتنی تعداد میں افواج کو استعمال کر سکتے ہیں جو امن و امان پھوٹ پڑیں یا بغاوت جنگ کی صورت اختیار نہ کرے۔ ایسی صورتوں میں تاج برطانیہ اور اس کے حکام اتنی تعداد میں افواج استعمال کرسکتے ہیں جو امن و امان بحال کرنے کے لیے ضروری ہو اور فوج کے بعض اوقات اس طرح استعمال کو مارشل لا کہا جاتا ہے۔ جب حقیقی جنگ کی صورت حال پیدا ہو جائے تو سول عدالتوں کو عکسری حکام کے اقدام کے سوال کو زیرغور لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا لیکن اگر سول عدالتوں کے دائرہ اختیار کی بات ہو تو اس کا فیصلہ انھیں کرنا ہوگا کہ کیا جنگ کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے مارشل لا کے نفاذ کا جواز پیدا ہوا۔ عسکری حکام کو اختیارات تفویض کیے گئے اور سول عدالتوں کے پاس جو اختیارات تھے وہ جنگ ختم ہونے کے بعد IPSOFACTO تصور کیے جائیں گے اور قانون ضمانت Actoflndemnity کی غیر موجودگی میں سول عدالتیں حالت جنگ میں کیے گئے کسی بھی اقدام کے قانونی جواز کو زیر بحث لا سکتی ہیں۔ اگر قانون ضمانت معمول کی اصطلاح میں موجود ہو تب بھی بدنیتی پر مبنی قوانین کو تحفظ نہیں دیا جاسکے گا)۔ تاہم فرانس کے آئین میں (محاصرے کی حالت کے اعلان) کے بارے میں طریقہ کار درج ہے جس کے تحت مجاز شخص سول حکومت کے مفاد میں ملک کے کسی بھی حصے میں فتنہ و فساد اور بغاوت کی صورت میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوج کو پولیس کے اختیارات دے سکتا ہے۔ محاصرے کی حالت کے سرکاری اعلان پر آئین میں دی گئی ضمانتیں معطل ہوجائیں گی اور متاثرہ علاقے کی حکومت کو عارضی طور پر فوج کے کنٹرول میں دے دی جائیں گی۔ اس اعتبار سے مارشل لا کا نفاذ دراصل معمول کے قوانین کی معطلی اور ملک کے کسی حصے یا پورے ملک پر فوج کی عارضی حکومت ہوتا ہے۔ اے وی ڈائسی کے مطابق (بحوالہ آئینی قوانین، صفحہ نمبر 267)( انگلستان کے قوانین میں یہ قطعاَ َ نا معلوم ہے) اور ( محاصرے کی حالت کے سرکاری اعلان) کے ضمن میں فرانس کے مقابلے میں یہ اس کے مساوی نہیں ہے۔ تاہم انگلستان کے قوانین کے تحت فتنہ وفساد، بغاوت اور سرکشی پر قابو پانے کے لیے مسلح افواج کی بھرتی کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا لیکن اس معنی میں ڈائسی کے مطابق مارشل لا محض ( شاہ اوراس کے ملازمین کو عام قانون کے مطابق حاصل حق کا نام ہے جو ملک پر حملے، فتنہ و فساد یا عام طور پر قانون کے خلاف کسی بھی مزاحمت کے ضمن میں اسے افواج کے ضمن میں حاصل ہے) ان کے خیال میں باضابطہ حکومت کی موجودگی کے لیے یہ حق ضروری ہے اور(انگلستان کے قانون کے مطابق اس کی فراخ دلانہ طریقے سے یقینی طور پر توثیق کی گئی ہے) تاہم ان کے مطابق اس حق کا (مسلح افواج کی موجودگی سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے) لیکن اس کا امن و امان کی حالت میں بگاڑ کو درست کرنے کے ضمن میں شاہ کے حق سے تعلق ہے اور وہ قانونی فرائض کے معاملے کے طور پر فوج یا سویلین کو مدد کے لیے طلب کرسکتے ہیں۔ جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے وہاں سترھویں صدی کی خانہ جنگی کے بعد کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ اس قسم کا عام قانون مارشل لا نافذ کیا جاتا لیکن اس شکل میں گذشتہ صدی میں جنوبی افریقا، جنوبی آئرلینڈ، فلسطین اور برطانوی ہند کے حصے میں مارشل لا نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم ان کیسز میں بھی فوج کو طاقت کے استعمال کی جو آزادی دی گئی تھی وہ ہر کیس کے حالات کے لحاظ سے مختلف تھی۔ امن و امان کی بحالی اور مزاحمتی قوت کے طور پر فرائض کی ادائیگی ہمیشہ مداخلت کے تجزیے کے لیے ضروری رہی ہے۔ استثنائی حالات میں،فوج حالات کے تحت یہ بھی ضروری محسوس کرتی ہے کہ جارح اور سویلین افراد پر مقدمہ چلانے کے لیے ملٹری ٹریبونل قائم کرے۔ یہ ٹریبونل موت کی سزا بھی دے سکتے ہیں لیکن ہر کیس میں کیے گئے اقدام کا تعین ضروری تجزیے کے ذریعے کیا جائے گا۔ ایسے ٹریبونل نہ تو عدالتی ادارے ہوتے ہیں اور نہ ہی بری فوج، بحری فوج اور فضائیہ کے قانون کے تحت کورٹ مارشل کر سکتے ہیں۔ البتہ روایتی طور پر یہ ایسے ڈھانچے ہوتے ہیں جو عسکری کمانڈر کو اس کی جانب سے کیے جانے والے ایکشن کے ضمن میں مشورے دیتے ہیں۔

برطانوی عدالت نے بھی فیصلہ دیا کہ مارشل لا کے تحت جاری کیا جانے والا اعلامیہ نہیں تھا جس میں طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا ہو مگر بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ایسی صورت حال پید کر دی جس میں اس قسم کی طاقت کا استعمال بھی جائز ہو گیاتھا۔ بلیک اسٹون نے اپنے تبصروں میں (والیوم1، صفحہ 381) اس نوعیت کے مارشل لا کو عارضی نوعیت کے اقدامات قرار دیا جو ریاست کے عدم استحکام کی وجہ سے ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں ایسے مارشل لا کے جو ایک فعال ادارے کے طور پر امن و امان کی داخلی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے لگایا گیا ہو یا پھر اس مارشل لا کے درمیان میں جو ایک فوجی حکومت کے نظام کے طور پر دشمن کے علاقے پر قبضے یا حملے کے لیے لگایا گیا جو تفریق کرنی ہوگی پہلی قسم کے مارشل لا کا حکم عموماَ َ ایک سول حکومت کے تحت قائم اتھارٹی کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے۔ اس حکم کے ذریعے اسی صورت حال میں سول حکومت کو ہٹایا جا سکتا ہے جب سول عدالتوں اور دیگر سول محکموں کے لیے کام جاری رکھنا ناممکن ہو جائے۔ مارشل لا از خوس اس بات کو مقدم نہیں رکھتا کہ اسے سول عدالتیں بند کرنے یا سول حکومت کے اختیارات کو سلب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مارشل لا کے تحت فوج خاموشی سے ان بلدیاتی حدود میں کارروائی کرتی ہے جہاں عدالتوں کے لیے کام کرنا ناممکن ہو گیا ہو۔ دوسری جانب یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جن علاقوں میں سول عدالتیں کام کر رہی ہیں اور جہاں سول حکام اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں وہاں مارشل لا کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس صورت حال میں مارشل لا کے نفذ کا جواز عدلیہ کے سامنے ہمیشہ ایک سوالیہ نشان کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ عدالتوں میں ہمیشہ دعوے کیے جاتے ہیں اور یہ عدالتیں اپنے اس اظہار کا حق ہمیشہ استعمال کرتی ہیں کہ کیا عام قانون کے محدود دائرہ کار میں مارشل لا کا نفاذ درست تھا یا نہیں؟ اختیارات کے اس جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مارشل لا کا نفاذ از خود سول لا یا سول اتھارٹی کے خاتمے کا سبب نہیں ہے اور مارشل لا مسلح افواج کے کمانڈر کو یقینی طور پر اس بات کا اختیار نہیں دیتا کہ وہ ملک کے بنیادی قانون کو ختم کر سکیں۔ یہ بات بظاہر بعید از عقل نظر آتی ہے کہ کوئی حکومت بیرونی حملے یا داخلی انتشار سے بچاؤ کی خاطر مارشل لا کے نفاذ کو دعوت دے۔ اگر اس بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ مارشل لا کے حکم کے ذریعے قانونی نظام مکمل طور پر تباہ ہوجاتا ہے تو اس صورت میں مسلح افواج بے امنی سے نمٹنے میں ریاست کی کوئی مدد نہیں کرسکتیں بلکہ پورے قانونی نظام کو درہم برہم کرنے سے بے امنی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں لائق اٹارنی جنرل کے اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ مارشل لا کے حکم کے ذریعے ضرورت کے تحت مسلح افواج کے کمانڈر کو اس آئین کے خاتمے کا اختیار مل جاتا ہے جس کے تحفظ کا خود انھوں نے حلف اٹھایا ہے۔

٤٣) اب واقعات کی جانب واپس لوٹتے ہیں۔ صدر ایوب خان کے خلاف تحقیقات پر جنرل یحیٰی خان نے جس رد عمل کا اظہار کیا تھا اس پر ہم سب کو شدید حیرت ہوئی تھی۔ ان کے اپنے خیال کے مطابق ایک جزوی مارشل لا کا اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک مسائل پیدا کرنے والے افراد کو مارشل لا کے تحت فوری طور پر ان علاقوں سے باہر نکال دیا جاتا۔ مارشل لا کے دائرہ اختیار میں رفتہ رفتہ اس وقت تک اضافہ ہونا چاہیے جب تک پورا ملک مارشل لا کے تحت نہیں آجاتا۔ دوسرے الفاظ میں مارشل لا کا نفاذ پورے ملک تک محیط ہونا چاہیے۔ ہم نے اس بات کا یہ مطلب نکالا یہ سول حکومت کی امداد سے صریحاَ َ انکار تھا۔ ایک اور گواہ نے انکشاف کیا کہ فوج نے اس وقت تک کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا جب تک صورت حال حکومت کے قابو سے باہر نہ ہو جائے۔گواہوں نے یحیٰی خان کے حوالے سے کہا کہ جب تک انھیں مکمل طور پر نظم و نسق سنبھالنے کو نہیں کہا جائے گا وہ اپنا سامان باندھ کر پشاور چلے جائیں گے اور یہ بات حکومت پر چھوڑ دیں گے وہ جس طرح بہتر سمجھے نظم و نسق چلائے۔ ہم اس بات پر شدید حیرت اور افسوس کا اظہار ہی کر سکتے ہیں کہ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جن کے افسروں اور جوانوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے ایسا رویہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ فوج کا اولین فرض تھا کہ وہ قانونی طور پر قائم حکومت کی مدد کے لیے آتی۔ اس کی بجائے اس نے حکومت کی کمزوریوں پر ایسے وقت میں اس کے استحصال کی کوشش کی جب وہ خود ان عوام کی خواہشات کے مدنظر جو خود ہی پاکستان کی سیاسی قوت ہیں آئینی طریقوں سے سیاسی منظر سے ہٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔

٤٤) اس کے بعد 20 اور 25 مارچ 1969ء کے درمیان میں ایسا کیا ہوا کہ ملک کی باگ ڈور ایک فوجی کمانڈر کے حوالے کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟ اس صورت حال کا تقابل 1958 کو صورت حال سے نہیں کیا جا سکتا۔1958ء میں درست یا غلط وجوہات کی بنا پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بر سر اقتدار حکومت کا تختہ اس وقت کے صدر کی آڑ میں الٹ دیاتھا۔ یہ صدر بھی نئی حکومت میں تین ہفتے سے بھی کم وقت تک شامل رہے۔ 1969ء میں آخر کار ایک سول حکومت نے کمانڈر انچیف کو دعوت دی کہ وہ حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ فیلڈ مارشل نے 1969ء میں جنرل یحیٰی خان کو جو خط لکھا تھا اس میں انھوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ان ہی جذبات کا اعادہ فیلڈ مارشل نے اپنے الوداعی نشریاتی خطاب میں بھی کیا تھا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ملک کا تحفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ دفاعی افواج کی راہ میں کسی قسم کی مشکلات کھڑی نہ کی جائیں اور انھیں ان کے قانونی فرائض آزادانہ طور پر استعمال نہ کرنے دیے جائیں۔ اگر ان کے خطاب کے صرف اسی اقتباس کا جائزہ لیا جائے تو اس سے باآسانی یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فوج کو سول قوت کی مدد کے لیے پہنچنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایوب خان کے پورے خطاب کے تناظر میں یہ بات ناقابل فہم تھی۔ اس خطاب کا لب لباب یہ تھاکہ حکومت اپنا کام مزید جاری نہیں رکھ سکتی۔ اپنے خطاب میں فیلڈ مارشل نے اس فیصلے کا بھی اعلان کیا کہ وہ ایک ساتھ صدر کا عہدہ بھی چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم یہ حوالہ ان آئینی فرائض کے لیے تھا جن کے تحت فوج اس وقت کام کر رہی تھی۔ جنرل یحیٰی خان نے عہدے سے ہٹنے کے بعد اسی نکتے پر انہی قانونی پوزیشن کے حوالے سے ہمارے سامنے اپنی بھرپور وکالت کی تھی۔ ہم نے اس مسئلے پر ان سے کافی سوالات کیے تھے جس پر انھوں نے کہا تھا کہ میں کوئی وکیل نہیں ہوں مگر مجھے فوج میں ابتدا ہی سے اس بات کی تربیت دی گئی کہ ملک کا دفاع ایک سپاہی کا مذہبی فریضہ ہے۔ یہ بیان ایک ایسے شخص کے ذریعے سامنے آیا جس نے مختلف مواقع پر خود کو قانونی ماہر ظاہر کیا تھا۔

٤٥) ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گول میز کانفرنس کے اس وقت کے حالات اور توقعات کے مطابق مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں آئینی ترمیم کے کام کا آغاز ہوا بلکہ اس بات کا اعلان عام بھی کیا گیا کہ تمام اقدامات قانونی اور آئینی دائرہ کار کے تحت کیے جائیں گے۔ ملک کو داخلی انتشار سے باہر نکالنے کے لیے صدر نے اپنے آپ کو آئینی سربراہ کے عہدے پر بھی فائز کر لیا جس میں پارلیمنٹ کے طرز پر حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔1962ء کے آئین کے تحت اگر وہ فوری طور پر حکومت چھوڑدیتے اور انھیں ایسا کرنا ہی چاہیے تھا کہ انھیں اقتدار اسپیکر کے سپرد کرنا چاہیے تھا جو نئے صدر کے انتخاب کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے تھے۔ اس صورت حال میں اس بات کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ صدر نے آئین میں ترمیم کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا۔ اس سلسلے میں خود آئین میں بھی واضح صراحت موجود تھی۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایوب خان نے 25 تاریخ کو اچانک عنان حکومت جنرل یحیٰی خان کے سپرد کیوں کر دی تھی؟ ہمیں جنرل یحیٰی خان کے رویے سے اپنے اس سوال کا بنیادی جواب ملتا ہے۔ جنرل یحیٰی خان نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سول حکومت کی مدد سے اقتدار قبول نہیں کریں گے۔ فیلڈ مارشل نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا تھا کہ سیاست دان حکومت کو جمہوری انداز میں کامیابی سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جنرل یحیٰی کی رائے بھی اس سلسلے میں ان سے مختلف نہیں تھی اور اقتدار میں آنے کے بعدا نہوں نے ہمارے سامنے اپنی گواہی میں اس بات کا اظہار بھی کیا۔ وہ اقتدار کی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کسی صورت میں اپنے مؤقف سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ اس موقع پر بھی جو بات سرگوشیوں تک محدود تھی وہ کھل کر سامنے آگئی۔ وہ بات جو ان کا نام لے کر کہی گئی یہ تھی کہ فیلڈ مارشل کے دور حکومت میں انھوں نے اور ان کے خاندان کے افراد نے اپنی سرکاری پوزیشن کا سہارا لیتے ہوئے کافی مالی مفادات حاصل کیے۔ فیلڈ مارشل کی جانب سے جنرل کو اقتدار کی منتقلی کے فیصلے کے پس منظر میں جزوی طور پر ان کے اس تاثر کا بھی بڑا عمل دخل تھا کہ انھیں اقتدار خود سیاست دانوں کے حوالے سے کرنا پڑے گا۔ ان کے اس خیال کی تصدیق جنرل یحیٰی کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے لے بعد ایک اخبار نویس کے سوال کے جواب میں دیے جانے والے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے۔ جنرل یحیٰی نے اپنے بیان میں کہا تھا ( میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کروں گا)

چھٹا باب دوسرا مارشل لا۔۔۔۔ یحیٰی حکومت ترمیم

25 مارچ1969ء کی شام جنرل آغا محمد یحیٰی خان کمانڈر انچیف پاکستان آرمی نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور پورے ملک کا اقتدار حاصل کر لیا۔ انھوں نے اپنے آپ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر لیا۔ انھوں نے ابتدا میں صدر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ خود ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے۔ ان کے عہد حکومت میں کوئی نیا نظام قائم ہوگا۔ یہ بات 7 اکتوبر 1958ء کو اقتدار سنبھالنے والے فیلڈ مارشل( جو اس وقت کے جنرل تھے) کے عزائم اور مقاصد سے باکل مختلف بات تھی۔ اس وقت کے صدر نے اپنے نشری خطاب میں مارشل لا کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ سیاست دان ناکام ہو گئے تھے۔ انھوں نے اس اقدام کو جمہوریت کی بحالی نہیں قرار دیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ یہ ایک ایسے نئے نظام کا آغاز ہے جو ملک کو بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔

٣) جنرل یحیٰی خان نے 26 مارچ1969ء کو اپنے خطاب میں کہا کہ مارشل لا کے نفاذ کا میرا واحد مقصد عوام کی زندگی آزادی اور مال کا تحفظ اور ملک میں انتظامیہ کو دوبارہ رواں دواں کرنا ہے۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے میرا اولین اور اہم ترین کام امن کی بحالی اور اس بات کی یقین دہانی ہے کہ انتظامیہ اپنے روزمرہ کے معمولات عوام کی تسلی کے مطابق شروع کر دے۔ ہم نے انتظامی خرابی اور بے امنی کا کافی تجربہ کر لیا ہے۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ خرابی اور بے امنی کی یہ صورت حال کبھی دوبارہ پیدا نہ ہو۔ انتظامیہ کے ہر فرد کو میری اس تنبیہ کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ میرے ہم وطنو! میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں کہ ایک آئینی حکومت کا قیام عمل لایا جائے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ایک معقول اور تعمیری سیاسی زندگی اور حق رائے دہی کی بنا پر غیر جانبداری اور منتخبہ نمائندوں کے درمیان میں اختیارات کی سہل منتقلی کے لیے صاف و شفاف اور ایماندار انتظامیہ بہت ضروری ہے۔ ان منتخب نمائندوں کا ہدف ایک قابل عمل آئین کی صورت ہوگا اور ان تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا حل بھی جو عوام کے لیے ذینی پریشانی کا باعث ہیں۔ اس لیے جنرل یحیٰی کی حیثیت محض قائم مقام کی تھی جو ملک میں لا اینڈ آرڈر بحال کر سکے اور جلد از جلد اقتدار منتخب شدہ نمائندوں کو سونپ دے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ خود ایک نئے آئین کا اعلان کرتے یا آئین کی تشکیل کے لیے کوئی انتظامی مشنری قائم کرتے۔

٤) درحقیقت لا اینڈ آرڈر حیرت انگیز تیری سے بحال ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ مارشل لا نظام کی سخت سزاؤں کی بدولت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک بڑے ہجوم کو ایک وقت میں اکھٹا کر لیا جائے اور نہ ہی سیاسی لیڈروں یا مظاہروں کے ذریعے لوگوں کو جلوس اور ہڑتال کے لیے جمع کیا جاسکے۔ اس وقت لوگوں کے جذبات کا رخ صرف اس سمت میں تھا کہ ان کی تحریک اور جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ایوب خان کا اقتدار اور آئین اس کے نتیجے میں بکھر چکے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ لوگ یقین رکھتے تھے کہ اگرچہ مارشل لا بذات خود کوئی پسندیدہ چیز نہیں لیکن ملکی سلامتی اور آئندہ آئینی استحکام کے لیے یہ قدم ناگزیر تھا۔ 1958ء کو تجربے کے نتائج نے لوگوں میں ایک ایسے اندھے اعتماد کو جنم دیا جو ایک بڑے بحران کی کوکھ میں پیدا ہوا۔ مارشل لا کو تمام خرابیوں کے خاتمے کا حتمی علاج سمجھ لیا گیا۔ جن لوگوں نے زیادہ سنجیدگی سے اس بحران کی سنگینی کو محسوس کیا انھوں نے اسے فوج پر اندھادھند بھروسے کا نتیجہ قرار دیا جس نے آگے جاکر ڈکٹیٹر شب کی راہ اختیار کر لی۔ امن و امان کی صورت حال اتنی تیزی سے خراب ہوئی کہ جنرل یحیٰی کا آئندہ اقدام متوقع اور ناگزیر قرار دیا جس نے آگے جا کر ڈکٹیٹر شب کی راہ اختیار کر لی۔ امن و امان کی صورت حال اتنی تیزی سے خراب ہوئی کہ جنرل یحیٰی کا آئندہ اقدام متوقع اور ناگزیر سمجھ لیا گیا۔ ملک کے بدتر حالات نے جنرل یحیٰی کے حق میں راہ ہموار کر دی اور ایک ایسا منظر نامہ تیار ہو گیا جس کے لے لوگ ذہنی طور پر تیار تھے۔ یہاں تک کہ نومبر 1969ء آ گیا اور جنرل یحیٰی نے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا۔

٥) اسی دوران میں انھوں نے تمام اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کی تاکہ الیکشن سے پہلے آئین میں تمام ضروری ترامیم کی جاسکیں۔ اس اقدام کی توجیہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ دراصل یہی وہ معاملہ ہے جس پر مکمل اتفاق رائے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ باقی کام عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ الیکشن کے بعد کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ 5 اکتوبر1970ء کو انتخابات منعقد ہوں گے اور یکم جنوری 1970ء سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت ہوگی۔ 31مارچ 1970ء تک تمام قانونی لائحہ عمل تیار کر لیا گیا اور انتخابی عمل کے لیے مغربی پاکستان کے ون یونٹ کو علاحدہ کر دیا گیا۔ دیگر بنیادی معاملات جن کے بارے میں کہا گیا کہ اتفاق رائے سے انجام دیے جائیں گے، ان میں نئے آئین کے باب میں وضاحت کی گئی کہ یہ وفاقی پارلیمانی طرز کا ہوگا اور انتخابات بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے۔ بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کو عدالتوں کی مدد سے یقین بنایا جائے گا۔ عدلیہ کی آزادی اور اس کے بحیثیت( آئین کے نگران) کردار کی حفاظت کی جائے گی۔ آئین کی اساس اسلامی نظام ہوگا جو نظریہ پاسکتان کی بنیاد ہے۔

٦) اگر آئینی نظام کی جلد بحالی اور عوامی نمائندوں کو اقتدار سونپنا ہی اصل مقصد تھا تو یہ ناقابل فہم ہے جنرل یحیٰی کے اقتدار میں آنے کے اٹھارہ ماہ بعد یعنی 5اکتوبر 1970ء کو الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ حالانکہ امن و امان کی صورت حال بہت جلد بحال ہو گئی تھی۔ یہ درست ہے کہ آئینی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے انھوں نے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جنرل یحیٰی نے ایوب دور کے رہنما اصولوں سے ہی استفادہ کیا اور انہی خطوط پر کام کیا جو بعد میں نااتفاقی کا سبب بنے۔ اس عرسے میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے کی، سیاسی مہم کی اجازت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا دشوار تھا کہ ان مذکرات سے کون سی کامیابی متوقع تھی، واحد نکتہ جس پر گول میز کانفرنس میں اتفاق کیا گیا،ون یونٹ کی علیحدگی تھا۔

١٣) قانونی ڈھانچے کے دو اہم اجزاء تھے۔ ان میں سے ایک تو کسی مخصوص اکثریت کی ضرورت کے لیے آئین میں کسی مسودے کی بطور قانون منظوری کا استثنی موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اس بات پر اصرار کرنا کہ آئین کی منظوری سے ایک معینہ شرح یعنی ہر علاقے کا پچیس فیصد ووٹ یا وفاقی اکائی ضروری قرار دی جائے تاکہ ایک غالب اکثریت بنائی جاسکے۔ جب جنرل یحیٰی خان ہمارے روبرو حاضر ہوئے تو ہم نے ان سے اس ذیل میں ہونے والی فروگزاشتوں پر روشنی ڈالنے کو کہا۔ جنرل یحٰیی خان نے بتایا کہ وہ آئین کی حددو میں رہتے ہوئے وہ سارے اقدامات کر رہے تھے جس پرسب کا اتفاق تھا مگر ووٹنگ کا طریقہء کار ان میں شامل نہیں تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ( میرے خیال میں یہ ضروری تھا کہ اس معاملے کو منتخب ایوان پر چھوڑ دیا جاتا) ہم قطعی طور پر اس وجہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر ہر قیمت پر اتفاق رائے درکار تھا، تو آئین کی ایک شق کی رو سے ایسا کرنا چاہیے تھا اور اسے عام روایتی طریقوں سے نہیں دیکھنا تھا، جیسا کہ اس ضمن میں کیا گیا۔ تاہم اس سے کہیں زیادہ اہم بات ایسی اکثریت کو زبانی بیان پر چھوڑ دیا جاتا اور اس کے نتیجے کو دیکھنا تھا۔ اگر ظاہر نہیں ہوتا تو مجلس عاملہ خود یہ کہہ سکتی تھی کہ فیصلہ سادہ اکثریت کے ذریعے ہوناچاہیے۔ یہ بات اس حقیقت سے واضح ہے کہ جب ایوان کے سامنے یہ سوال اٹھتا کہ کتنے دووٹوں لہ اکثریت ہونی چاہیے تو اس سوال کاجواب اپنے آپ ہی ایک سادہ اکثریت کے ذریعے طے ہونا چاہیے تھا۔ لٰہذا یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ جو ایوان میں اکثریت رکھتے تے ایسے کسی فیصلے کی حمایت اپنے آپ ہی ایک سادہ اکثریت کے ذریعے طے ہو جانا چاہیتے تھا۔ لٰہذا یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ جو ایوان میں اکثریت رکھتے تھے ایسے کسی فیصلے کی حمایت کرتے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوتے جہاں تک اس صورت ھال کا ہماری سیاست سے تعلق ہے تو حقیقی صورت حال بہت مایوس کن تھی۔ اس فیصلے کی کی وجہ سے ہر قیمت پر ایک فرد ایک ووٹ ہونا چاہیے، واضح تھا کہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت آبادی کے لحاظ سے زیادہ تھی۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایوان کے فیصلے کرنے کی ایک ہی بات اہم تھی اور وہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن پہلے ہی چھ نکات کے ساتھ تھے اور اگر انھیں مشرقی پاکستان سے اٹھانوے فیصد نشستیں جیتنے کی توقع نہ ہوتی تو گول میز کانفرنس کے جاری رہنے کا ماحول بن سکتا اور اس طرح مجیب یہ ثابت کر سکتے کہ وہ بہت بڑی طاقت ہیں۔ لہٰذا اگر چھ نکات مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان میں ایک نزاعی معاملہ ثابت ہوئے اور جس کے بننے کا ہر امکان موجود تھا تو یہ فیصلہ کرنا کہ اس سوال کو چھوڑنے کے لیے ایوان میں کتنی اکثریت کی ضرورت تھی، درحقیقت مشرقی پاکستان کو ہی طے کرنا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ اسے ساتھ رہنا چاہیے یا نہیں۔

١٤) پچھلے پیراگراف میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ درحقیقت اس تصور پر مبنی ہے کہ اس بات کی نہایت سنجیدگی سے توقع کی جا رہی تھی کہ مشرقی پاکستان رائے شماری میں حصہ لیتا مگر اپنے چھ نکات کی روشنی میں اگر اس بات کو اطمینان بخش طریقے پر سمجھ لیا جاتا کہ مشرقی پاکستان چھ نکات کا مطالبات کی حد تک نہیں جا سکتا تھا تو صوبائی خود مختاری کے سوال کی اہمیت اور حساسیت کو کم کیا جا سکتا تھا اور اس بنیاد پر کم از کم اکثریت کی ضرورت کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا تھا ۔

١٥) ایسا نہیں تھا کہ ووٹنگ کے طریق کار کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ شواہد یہ ظاہر کرتے ہین کہ وزیر قانون، مشیر قانون نے یحیٰی خان کو اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کر دیا تھا اور واقعی جنرل نے 28 نومبر1969ء کو اپنے نشرئیے میں جس کا ہم قبل ازیں حوالہ دے چکے ہیں اور 28 مارچ1970ء کو لیگل فریم ورک آرڈر کے نفاذ سے عین دو دن پہلے یہ باتیں بتائیں ۔

(28. نومبر 1969 جہاں تک قومی اسمبلی کی ووٹنگ کے طریقہ کار کا سوال ہے تو یہ بات باعث مسرت ہے کہ اسمبلی، بنیادی آئینی معاملات پر فیصلہ کرے گی۔ آئین ایک مقدس دستاویز ہے اور مل جل کر ساتھ رہنے کا ایک معاہدہ ہے۔ اس کا کسی بھی عام قانون سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ووٹنگ کے طریقہءکار میں ایوان کو شریک کیا جائے اور اس میں پاکستان کے اندر بسنے والے تمام علاقوں کی صحیح اورصاف ستھری نمائندگی ہوئی چاہیے ایوان اپنا کام مکمل کرنے کے بعد، جو آئین کی تیاری جیسا اہم کام ہوگا اسے معتبر تسلیم کیا جائے گا بننے والا آئین، پاکستان کا ائین مقصود ہوگا۔ اس کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے میدان ہموار ہو سکے گا۔)

(23. مارچ 1970 جب 1970ء کا لیگل فریم ورک آرڈر چھپ کر سامنے آئے گا تو آپ دیکھیں گے کہ دستوری طریقہء کار کے معاملات میں قومی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے کے طریقہء کار کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جسے بہتر طور پر ایوان ہی طے کرنے کا مجاز ہے اور یہ میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ اس اہم معاملے پر خیالات میں کوئی بنیادی اختلاف نہ پیدا ہونے پائے۔ اس کے لیے اتفاق رائے مثالی ہونا چاہیے۔ کسی بھی معاملے میں شرح فیصد کے تناسب سے بات کرنا میں ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا ہوں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں لیکن دوبارہ پُر زور انداز میں کہنا چاہوں گا کہ آئین کی تیاری کسی معمولی قانون سازی کے کام کے مترادف نہیں ہے بلکہ یہ مل جل کر رہنے کا ایک معاہدہ ہے۔ لٰہذا یہ ضروری ہے کہ تمام علاقے ووٹنگ کے طریقہء کار سے مکمل طور پر مطمئن ہوں اور محض ایوان کے ذریعے ہی بہتر طور پرمکمن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک تمام علاقے صحیح طور پرمطمئن نہیں ہوتے اس وقت تک آئین حقیقی معنوں میں مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کے لیے ویسا قابل قبول نہیں ہو سکتا جیسا کہ ایسی دستاویز کو ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ کسی مناسب اور موزوں بندوبست تک پہنچنا ممکن ہے)

یہ استدالال غیر معمولی ہے اور بے کم و کاست صورت حال کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک آئین کا ہونا ضروری تھا جس کے تحت ووٹنگ کے طریقہء کار کا معاملہ طے پانا تھا، جنرل کا خیال تھا کہ یہ حقیقی تضاد ہے۔

١٦) لیگل فریم ورک کا دوسرا جز وہ معاملہ تھا جو طریقہ کار کے بلکہ کسی حد تک آئین کے استحکام سے متعلق تھا، جسے مضبوط ہونا تھا۔ یہ ایک ضرورت تھی کہ قومی اسمبلی ایک سوبیس دن کے اندر اندر آئین کی تیاری کا کام مکمل کرے ورنہ دوسری صورت میں وہ تحلیل ہوجاتی۔ نظریاتی طور پر یہ اصول کہ آئین بنانے کے لیے ایک دن مختص کر لیا گیا نہیں ہونا چاہیے اور وہ بھی ایسے کہ قانون سازی کا کام بھی جاری ہو۔ اگر قومی اسمبلی ایک آئین ساز اسمبلی ہوتی اوراسی وقت کے اندر قانون ساز اسمبلی بھی ہوتی اور بغیر وقت کے تعین کے اسے آئین کی تیاری کا کام مکمل کرنا ہوتا تو صورت حال کی نزاکت اور خطرہ واضح طور پر نظر آ جاتا۔ لٰہذا ایسی اسمبلی خود کو بچانے کے لیے آئین کی تیاری کا کام اس وقت تک معرض التوا میں ڈال دیتی جب تک اس کا وقت نہیں آ جاتا اور جب اسمبلی اپنی حقیقی نمائندگی کے اعتبار سے ختم ہوجاتی۔ پاکستان میں ہمارے لیے ایسا تجربہ نیا نہیں ہے اور یہ تازہ ترین بھی ہے۔ پہلی آئین ساز اسمبلی بار بار خطرات سے دوچار ہوتی رہی۔

١٧) تاہم خطرے کا احساس کرنا اور بات ہے اور اس پر کسی انتہا پسندانہ اقدام کے ذریعے قابو پانا دوسری بات۔۔۔۔(لیگل فریم ورک آرڈر) کے تحت منتخب کی جانے والی قومی اسمبلی کو قانون سازی کا قطعاَ َ کوئی اختیار اس وقت تک حاصل نہیں تھا، تاوقتیکہ کسی آئین کی تدوین اور تشکیل نہ کرلے۔ چنانچہ اس پوشیدہ خطرے کو جو قومی اسمبلی کو بیک وقت ان دونوں امور کی انجام دہی سے لاحق ہوکتا تھا۔ آغاز ہی سے بھانپ کر مسدود کر دیا گیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ ایک سو بیس دنوں کی مہلت دی گئی تھی بلکہ اس قدر تقدیس عطا کر دی گئی تھی کہ اگر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان میں آئین سازی کے مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہونے لگیں توایسی صورت میں بھی ایک سو بیس دنوں کی اس مہلت میں کوئی توسیع اور اضافہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔

١٨) اس مرحلے پر یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا چھ نکاتی پروگرام کا مطلب واضح طور پر علیحدگی تھا یا کم از کم دونوں بازوؤں کے درمیان میں ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا سا تعلق جو آگے چل کر علیحدگی پر منتج ہوجاتا؟ اس سوال سے ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت کے صاحبان اقتدار کے نزدیک چھ نکاتی پروگرام پاکستان کی سالمیت اور یک جہتی سے متصادم تھا؟ کیا انھوں نے کبھی سنجیدگی سے یہ سوچا تھا کہ ایسا ممکن بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے بیشتر ان ترمیم شدہ چھ نکات پر بھی بالترتیب ایک نظر ڈالی جائے۔

پوائنٹ(١) اس نکتے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی نوعیت وفاقی اور پارلیمانی ہوگی جس میں وفاقی مقننہ اور وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں کی مقننہ کا انتخاب براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کیاجائے گا۔ وفاقی مقننہ میں نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہوگی!

  1. وفاقی حکومت کے پاس صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ جب کہ درج ذیل شرائط سے مشروط وہ کرنسی کا شعبہ بھی رکھ سکتی ہے!
  2. دونوں صوبوں کے لیے علاحدہ کرنسیاں، جو باہمی طور پر باآسانی قابل تبادلہ ہوں یا متبادل کے طور پر ایک ہی کرنسی جو وفاقی ریزروز سسٹم کے قیام سے مشروط ہوگی جس میں علاقائی وفاقی، ریزوربنکس کا قیام بھی شامل ہے جو اس بات کی ضمانت دیں گے کہ ذرائع اورسرمائے کی منتقلی، ایک صوبے سے دوسرے صوبے کو نہیں ہوگی۔

٤) مالیاتی پالیسی کی تشکیل وفاق میں شامل وحدتوں کی ذمہ داری ہوگی۔ تاہم وفاقی حکومت کو مطلوبہ ریونیو ذرائع مہیا کر دیے جائیں گے، تاکہ وہ دفاع اور امور خارجہ پر ہونے والے اخراجات کو پورا کر سکے۔ اس قسم کے مالیاتی ذرائع خود بخود وفاقی حکومت کو فراہم ہو جائیں گے، جس کے طریقہء کار اور وفاقی وحدتوں کی جانب سے تناسب کے تعین کی بنیاد، آئین میں وضاحت کے ساتھ درج ہوگی۔ یہ آئینی دفعات اس بات کی ضمانت دیں گی کہ وفاقی حکومت کی ریونیو کی ضرورت مستقل طور پر پوری کی جاتی رہیں اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کہ مالیاتی پالیسیوں پر وفاقی وحدتوں کا مکمل کنٹرول بہر صورت قائم رہے گا۔

٥) ایسے آئینی اقدام کیے جائیں گے، جن کی رو سے ہر وفاقی وحدت کی غیر ملکی زر مبادلہ کی آمدنی کا الگ الگ حساب رکھا جاسکے، جن پر ان وحدتوں کی حکومتوں کا مکمل کنٹرول ہو۔ وفاقی وحدتوں کی، غیر ملکی زر مبادلہ کی ضروریات کا تعین اس تناسب کی بنیاد پر کیا جائے گا جو آئین میں طے شدہ طریقہء کار کے عین مطابق ہوگا صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ آئین کے تحت غیر ملکی تجارت اور امداد کے بارے میں ملک کی خارجہ پالیسی کی حدود میں رہتے ہوئے مذکرات اور گفت و شنید کر سکیں۔

  1. وفاقی وحدتوں کی حکومتیں آزادانہ طور پر اپنی ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس رکھ سکیں گے تاکہ قومی سلامتی کے قیام میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔

ایک ایسا گواہ جو اس پوری مدت کے دوران میں آئین سازی کے عمل سے وابستہ رہ چکا ہے اور جسے قانون اور آئینی شعبوں کا طویل اور ماہرانہ تجربہ حاصل ہے۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس اے آر کار نیلیس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انتخابی مہم کے دوران میں کسی موقع پر چھ نکات جنرل یحیٰی خان کو بھی دکھائے گئے تھے تو ان کا جواب یہ تھا۔ (وہ ان نکات سے بخوبی آشنا تھے اور وقتاَ َ فوقتاَ َ ان کے بارے میں گفتگو بھی کرتے تھے، تاہم انھوں نے کبھی ان کے تجریئے کی ضرورت محسوس نہیں کی! میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ان نکات میں سے چار تو ایسے تھے جنہیں بآسانی قبول کیا جا سکتا تھا اور میں نے کابینہ کے اجلاس میں بھی یہ کہا تھاکہ ہم آسانی کے ساتھ آئین میں ضروری ترمیم کرتے ہوئے ان چھ نکات میں سے اکثر کو اس میں جگہ دے سکتے ہیں جن کے نتیجے میں سیاسی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ (جسٹس کار نیلیس کا پورا احترام کرتے ہوئے ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے اس معاملے کو قرار واقعی اہمیت نہ دیتے ہوئے محض اسے ٹالنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

٢٠) کرنل حسن کے مطابق جنہیں26 مارچ 1969ء کو چیف مارشل لاایڈمنسٹریتر ہیڈکوارٹرز میں JAG ڈپارٹمنٹ کے نمائندے کی حیثیت سے متعین کیا گیا تھا اور جو مارشل لا کے تمام عرصے میں ہر لمحہ آئین سازی کے مسئلہ سے گہری وابستگی کے حامل رہے ہیں، ان چھ نکات کا بظاہر مقصد علیحدگی نہیں تھا جس سے ان کی مراد غالباَ َ یہ ہے کہ دیکھنے میں یہ چھ نکات علیحدگی کا پیش خیمہ معلوم نہیں ہوتے۔

٢١) ہمارے روبرو چند اور بھی گواہان ایسے پیش ہوئے جنہیں انتخابی مہم کے مشکل دور میں حکومت کی جانب سے مشرقی پاکستان کے بہت قریب رہنے کا موقع ملا تھا جیسے گورنر مشرقی پاکستان ایدمرل احسن اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لفٹننٹ جنرل ایس ایم یعقوب ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان چھ نکات کے مفہوم اور مطالب کا غور اور سنجیدگی کے ساتھ کوئی تجزیہ کیا گیا ہو یا ان کے اطلاق اور عواقت کا ہی کوئی احاطہ کیا گیا ہو!

٢٢) یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کیوں کر ایک مرکزی حکومت کو جس کے پاس فقط دفاع اور امور خارجہ کے محکمے ہوں اور جسے ٹیکسوں کے نفاذ کا کوئی اختیار حاصل نہ ہو حقیقی معنوں میں ایک بااختیار حکومت کہا جا سکتا ہے؟ آج کے جدید زمانے میں ایک ترقی پزیر ملک کی خارجہ پالیسی کا بڑا گہرا تعلق اس کی غیر ملکی تجارت سے ہوتا ہے اور اگر وفاق غیر ملکی تجارت ہی کو کنٹرول نہ کر سکے تو یہ بات ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آتی کہ وہ کس طرح اپنی خارجہ پالیسی پر مؤثر طریقے سے عمل پیرا ہو سکے گی؟ اور خارجہ پالیسی کو کنٹرول کیے بغیر ایک مرکزی حکومت کس طرح ملک کا دفاع کر سکتی ہے؟

٢٣) عوامی لیگ کے (ترمیم شدہ) چھ نکات اس کے پروگرام کو (اصل) نکات کی بہ نسبت زیادہ مؤثر اور بھرپور طریقے سے پیش کرتے ہیں، تاہم اپنی روح میں وہ سابقہ اصل نکات کے مقابلے میں اتنے زیادہ مختلف بھی نہیں کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ یہ ترمیم شدہ چھ نکات علیحدگی کی طرف لے جاتے ہیں جب کہ اصل نکات اس سے مبرا تھے۔ ہم یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کرنل حسن کے ظاہر کردہ خیالات کافی حد تک تکنیکی تھے بلکہ انھیں مضحکہ خیز بھی کہہ سکتے ہیں تاہم یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس بیان کے فوراَ َ ہی بعد انھوں نے کہا کہ چھ نکات میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔ اب بہت سے گواہ ہمیں مستقلاَ َ یہ بتا رہے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے خود کہا تھا کہ چھ نکات پر مذاکرات ہو سکتے ہیں کیونکہ بہرحال یہ کسی مذہبی صحیفے کا حصہ نہیں ہیں!۔۔۔۔ تاہم ہمیں ان بیانات پر کسی قدر تعجب اور حیرت کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ اگر حکمران جمایت کے خیال میں چھ نکات کا مطلب علیحدگی نہیں تھا تو یقیناَ َ ان میں کوئی غلط بات نہیں تھی اور اکثریت کی خواہشات کو جس کا تعلق ملک کے ایک صوبے سے تھا مغربی پاکستان کی جانب سے بغیر کسی سخت مخالفت کے قبول کیا جا سکتا تھا! لیکن ایسی صورت میں اس بات پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن چھ نکات پر سودے بازی کے لیے تیار تھے؟درحقیقت ان نکات پر مذکرات یا سودے بازی کا واضح مطلب یہ تھا کہ یہ چھ نکات جوں کے توں قابل قبول نہیں ہو سکتے تھے۔ جس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ ملک کی سالمیت اور یک جہتی کے خلاف تھے! اگر ایسا نہ ہوتا تو جنرل یحیٰی خان کی اکثریت کے اس مطالبے اور خواہش کو تسلیم کرنے میں قطعاََ َ کوئی عذر نہیں ہوتا۔ انھوں نے خود کہا انھوں نے صرف انہی امورومعلات کو آخری شکل دی ہے جن پر مکمل طریقے سے اتفاق رائے موجود تھا اور چوں کہ ان کی حیثیت محض ایک نگران کی تھی لٰہذا کوئی بھی ایسا آئینی منصوبہ جوان کے طے کردہ بنیادی اصولوں سے متصادم نہ ہوتا انھیں یکساں طور پر قابل قبول ہو سکتا تھا۔

٢٤) ہمارے خیال میں اس مہم میں عدم مداخلت کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عوامی لیگ کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے حکومت انتہا کو پہنچ گئی کہ اس نے جماعتوں کو تحفظ دینے سے انکار کر دیا جن کی کمپین میں عوامی لیگ دخل اندازی کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ درہم برہم کر دیا مگر حکومت کی ایجینسیوں نے کوئی دخل اندازی نہیں کی اور تماشائی بنی دیکھتی رہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے جلسے کا بھی یہ ہی حال ہوا۔

٢٥) دوسرا سبب مشرقی پاکستان کے سویلین ملازمین کا طرز عمل تھا اس بات میں کوئی شک نہیں حکومت پاکستان جنرل یحیٰی خان کے ماتحت تھی۔ کیونکہ تمام ملک میں مارشل لا نافذ تھا۔ اس لیے مشرقی پاکستان کا انتظام بھی مارشل لاءاتھارٹیز چلا رہی تھی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینے والے زیادہ تر سویلین ملازمین مشرقی پاکستانی تھے اگرچہ وہ ایک ذہین طبقے سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ ان جذبات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے جو اس وقت مشرقی پاکستان کے لوگوں میں عام تھے۔ یہ متوقع تھا کہ مشرقی پاکستانی ہونے کی حیثیت سے جذباتی طور پر عام پبلک کے جذبات میں وہ شریک ہوں گے لیکن ان کی تعلیم انھیں جذبات قابو پانے میں کچھ مدد بھی کرتی تب بھی استحصال کیے جانے کے الزام سے وہ ضرور متاثر ہوتے۔ سول ملازمین نے دیکھ لیا تھا کہ عوامی لیگ ایک چڑھتا ہوا سورج ہے اور مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اس جدوجہد کی ابتدائی مرحلے میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ شیخ مجیب الرحمٰن غیر متنازع فاتح کے طور پر ابھریں گے۔ پھر بھی اقتدار کا مرکز فوج کے ہاتھوں سے منتقل ہو رہا تھا اس لیے مشرقی پاکستانی سول ملازمین کی نگاہیں اب آنے والے حاکم کی طرف سے لگی ہوئی تھیں بجائے اس حاکم کے جو جانے والا تھا۔ اس کے علاوہ چھ نکاتی پروگرام میں مشرقی پاکستان کی بیورکریسی کے لیے بھی کشش تھی۔ کیونکہ اس میں انھیں اپنی ترقی کے مواقع نظر آ رہے تھے۔ ایک طرح سے مشرقی پاکستان کے سول ملازمین کی وہی حیثیت تھی جو آزادی سے پہلے برصغیر میں ہندو اور مسلمان سول ملازمین کی تھی جو جذباتی طور پر کانگریس اور مسلم لیگ سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کے سول ملازمین نے اپنا تمام اثر اس پارٹی کے حق میں استعمال کیا جو مشرقی پاکستان کے لیے کام کر رہی تھی بجائے ان جماعتوں کے جن کارجحان قومی تھا۔ لہٰذا یہ حقیقت کہ عوامی لیگ کامیاب ہوگی شروع سے آشکار ہو گئی تھی اگرچہ اس بات کی توقع کسی کو نہیں تھی کہ وہ ایسی بھاری کامیابی حاصل کر لے گی۔

٢٦) ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت کو ایسے نتائج کی توقع تھی سیقلون جیسے ہر واقعے کے بعد عوامی لیگ کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے جا رہے تھے۔ حکومت کی خفیہ ایجینسیاں اندازہ لگا رہی تھیں کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو60 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی جو مجموعی طور پر اکثریت نہیں ہوگی۔ یہ نتائج اس بات کے باوجود ظاہر ہوئے کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں رہی۔ نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے انتخابات کے دوران میں اس نے پس پردہ کچھ کارروائیاں کیں۔ جنرل یحیٰی نے اپنے ایک بااعتماد ساتھ میجر جنرل محمد عمر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کا سکریٹری مقرر کر دیا۔ ایسے حالات میں یہ ایک ایسا عہدہ معلوم ہوتا تھا جس کے پردے میں دوسری کارروائیاں کی جانی تھیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ یہ کونسل ایوب خان کے دور میں بنائی گئی تھی لیکن اس کونسل کے تمام اراکین نے جنھوں نے ہمارے سامنے بیان دیے اور جن میں جنرل عمر بھی شامل تھے اس بات کا اعتراف کیا ہے جس مقصد کے لیے یہ کونسل بنائی گئی تھی اس کے لیے یہ غیر مؤثر تھی اس کے پاس کوئی اختیارات بھی نہیں تھے اور نہ کوئی ایسا نظام تھا جس کے تحت یہ اپنا مقصد حاصل کر سکتی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ جنرل یحیٰی خان نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسے شخص کو جوان کے اسٹاف آفیسر کی حیثیت سے کام کر چکا تھا سیکریٹری مقرر کر دیا۔ جنرل عمر کی صدر کے پاس براہ راست رسائی تھی۔ انھوں نے کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ وہ غیر مؤثر تھے اور نہ ہی ان کے عہدے کو مؤثر بنانے کے لیے کوئی اقدام کیے گئے۔ جنرل عمر کے پاس سیف میں بہت بڑی رقم پڑی ہوئی تھی اور جب بڑی قیمت کے یونٹوں کو تبدیل کیا گیا تو انھوں نے چھ لاکھ روپے جمع کرائے۔ 4.12.72تک تین لاکھ روپے کیش نکلوائے گئے اور ان کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ اس کے ساتھ جنرل عمر بار بار سیاست دانوں سے ملتے رہتے تھے۔ اس سے واضح طور پر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

٢٧) ستمبر 1970ء میں سیلابوں نے مشرقی پاکستان کو آگھیرا اور یحیٰی خان کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 7اور 17دسمبر کے لیے ملتوی کرنے پڑے۔ مجیب الرحمٰن نے اصرار کیا کہ اس موقع پر سیلابوں کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ مشرقی پاکستان کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ پانی میں آدھے غرق رہنے کے عادی ہیں۔ ممکن ہے کہ یحٰیی خان نے خلوص کے ساتھ سوچا ہو کہ اکتوبر میں انتخابات کرنا قابل عمل نہیں ہے اسی وجہ سے انھوں نے ملتوی کر دیے ہوں۔ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابات ملتوی کرانے کا مطالبہ کیا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات ملتوی کرنے میں یحیٰی خان کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ یہ کہنا کافی ہوگا کہ انتخابات ملتوی کرنے سے مہم چلانے کے لیے مزید دو ماہ کا اضافہ ہو گیا اور اس طرح آمرانہ دور کی مدت میں اضافہ ہو گیا۔

٢٨) اس کا ایک اور بر نتیجہ یہ بھی نکلا نومبر 1970ء میں مشرقی پاکستان سیقلون کا شکار ہوا اور اسے عوامی لیگ نے مغربی پاکستانیوں کے خلاف پہلے سے موجود شدید نفرت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ مصیبت کے اس وقت میں نہ تو مغربی پاکستان کے رہنماؤں نے اور نہ ہی حکومت نے جس میں مغربی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت تھی مشرقی پاکستان کے لیے کوئی ہمدردی کی مغربی پاکستان کے ایک رہنما خان عبد الولی خان نے بیان دیا اس وقت سوائے ان کے مغربی پاکستان کے کسی رہنما نے مشرقی پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور عوامی لیگ نے اس بات کو مشرقی پاکستان کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہیں تو عدم توجہی کا سلوک کرنے سے تعبیر کیا۔ مغربی پاکستان میں ایک اہم سیاسی جماعت کے ایک رہنما نے ہمارے سامنے بیان دیا کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے رہنماؤں کے صرف جانے سے کچھ نہیں ہوتا مشرقی پاکستان کے لیے مادی امداد بھیجی گئی تھی۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن انسانی جذبات کبھی کبھی حقیقی امداد سے زیادہ دکھاوے کی ہمدردی سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس موقع پر مغربی پاکستان کے رہنماؤں کی عدم موجودگی مشرقی پاکستان کے لوگوں کو خفیف کرنے کے لیے تھی یا ان کی عدم توجہی کا نتیجہ تھی۔ شاید انھوں نے یہ صحیح طور پر سوچا تھا کہ وہ مادی مدد بھیج دیں اور خود انتخابی مہم کی ضرورت کے پیش نظرمغربی پاکستان میں موجود رہیں۔ ہم یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس بات نے ایک اہم کردار ادا کیا اور اس سے مجیب کی حیثیت مزید مستحکم ہو گئی۔ اب یہ بات بالکل واضح تھی کہ مجیب انتخابات پر چھا جائے گا سیقلوں کے بعد چند جماعتوں کو چھوڑ کر دوسری تمام جماعتیں انتخابات سے علحیدہ ہوگئیں اور مجیب کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا۔

٢٩) انتخابی مہم کے بارے میں یہ دلچسپ حقیقت ہے جس اکثریت سے مجیب کامیاب ہوئے اور انتخابات کے بعد جس کی وجہ سے ان کی طاقت اور کمزوری ظاہر ہوئی اس کی مجیب کو توقع تھی۔ انھوں شروع ہی سے اس بات کا اندازہ تھا کہ بھاری اکثریت کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کے قیدی ہو کر رہ جائیں گے اس لیے انھوں نے کونسل مسلم لیگ کو کچھ نشستیں پیش کیں کچھ جماعت اسلامی کوپیش کیں اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کریں گے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی نشستوں کی واضح اکثریت چاہتے تھے مگر پورے پاکستان میں اکثریت نہیں چاہتے تھے جہاں تک ہم نے سنا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انھیں تقریباَ َ 120 نشستیں حاصل ہو جائیں جس سے وہ ایوان میں سب سے بڑی جماعت کے رہنما بن جائیں مگر انھیں مکمل اکثریت حاصل نہ ہو ہمیں احساس ہے کہ بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجیب چاہتے تھے کہ چھ پوائنٹس کی بنیاد پر مذکرات کریں بجائے اس کے اس پروگرام کو وہ ایوان میں اپنی قوت کے ذریعے منظور کرائیں یہ بڑا مشکل ہوگا اور ناانصافی بھی ہوگی کہ چھ نکات کے سلسلے میں مجیب الرحمٰن کے ارادوں کے بارے میں بغیر ان کے یا ان کی جماعت کے کسی رکن کی شہادت لیے فیصلہ کر لیا جائے۔

٣٠) تاہم کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ غالباَ َ ان کا خیال تھا کہ وہ زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں گی نتائج ہمیں معلوم ہیں۔

٣١) انتخابات 7 دسمبر1970ء کو اختتام پزیر ہوئے ماسوا ان چند حلقہ ہائے انتخابات کے جہاں پولنگ سمندری طوفان کے باعث ملتوی کردی گئی تھی حتمی نتائج میں شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں 162 نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کیں اور مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس نے 138 نشستوں میں سے 84 نشستیں حاصل کیں۔ خواتین کی 13 نشستیں بعد میں پر کی جانی تھیں اور ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان میں یہ عوامی لیگ کو ملیں اور مغربی پاکستان میں ان کی تعداد پاکستان پیپلز پارٹی کو ملی۔

٣٢) اصولی طور پر اور اگر جغرافیائی حالات عملی طور پر مختلف ہوتے تو بھی ایک جماعت کا مکمل اکثریت کے ساتھ ابھرنا اور دوسری پارٹی کا بہت زیادہ نشستیں حاصل کرنا جو کم از کم اکثریتی پارٹی کے تقریباَ َ نصبف ہو ایک آئینی اور جمہوری طرز حکومت کے لیے مثالی تھا۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ تھی عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی نشست حاصل نہ کی اور اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں کوئی نشست حاصل نہ کی۔ اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ مجیب الرحمٰن نے جس علاقے سے اکثریت حاصل کی وہ طبعی طور پر باقی ملک سے ملا ہوا نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے درمیان میں ایک ایسا ملک حائل تھا جو تاریخی وجوہات کی بنیاد پر پاکستان اور خاص طور پر اس کی سلامتی کا مخالف ہے اور یہ سب کچھ اس حقیقت کے سامنے منسلک تھا کہ قومی اسمبلی جسے ہر چند قانون ساز ادارے کے طور پر کام کرنا تھا بنیادی طور پر دستور ساز ادارہ تھا۔ اس وقت یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے قانون ساز ادارے کے الیکشن کی مہم میں کامیاب ہوئے اور انھوں نے ایک آئینی پروگرام کی مہم چلائی اوروضح طور پراعلان کیا کہ وہ ان انتخابات کو ریفریڈم سمجھتے ہیں لٰہذا یہ بات واضح ہے کہ جمہوریت اور انصاف کا مطالبہ ایک جیسا ہے اور یہ کہ انھیں اس بنیاد پر آئین تیار کرنے کی جازات دی جائے مگر بدقسمتی سے ہر آسان بات سچ نہیں ہوتی۔

٣٣) ملک طبعی طور پر یکجا نہیں تھا۔ نہ ہی آئین ملک کی معروضی حالت کے مطابق تھا۔ آئین بنانا از خود کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ قانون ساز ادارے کے پاس واحد مسئلہ اور صوبوں کے درمیان میں اقتدار کی تقسیم رہ گیا تھا۔ جبکہ یہ ایک وفاقی ہونا چاہیے تھا اور اس امر کی مشکل سے تردید کی جا سکتی ہے کہ وفاق محض پورے وفاقی یونٹوں کی آبادی کی اکثریتی رائے سے وجود میں نہیں آ سکتا بلکہ اسے ہر فیڈرل یونٹ کی امنگوں کا حامل ہونا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہمارا ملک فیڈریشن کا ایک کلاسک نمونہ نہیں جس میں فیڈریٹنگ یونٹ خود مختار ہوتے ہیں جو عمومی رائے سے وفاق میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک صدی تک واحدانی طرز حکومت کے تحت چلتا رہا۔ وفاق پہلی مرتبہ غیر منقسم ہندوستان کے لیے 1935ء میں تجویز کیا گیا۔ جہاں اس وقت بھی فیڈریٹنگ یونٹ پہلی مرتبہ یونین میں نہیں آئے۔ حقیقت سے قطعی دور جہاں تک وفاق کی شقوں کا تعلق ہے 1935ء کا ایکٹ نافذ نہ ہو سکا اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ایکٹ از خود قومی اسمبلی کے ووٹ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اسے برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستانی عوام کی خواہشات کو تسلیم کرنے کا اقدام تھا مگر ان کی مرضی نہیں۔ وفاق آزادی ہند ایکٹ1947ء کے ساتھ وجود میں آیا اور اس وقت تک یہ حکومت ہند کا ایکٹ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1956کا آئین ہمارے اپنے عوام کی اسمبلی نے منظور کیا۔ لیکن یہاں بھی یہ یونٹوں کی رضامندی کا نتیجہ نہیں تھا۔ 1962ء کا آئین برائے نام وفاقی تھا۔ اور ایک وفاقی آئین حقیقتاَ َ 1970ء کی منتخبہ اسمبلی نے پہلی مرتبہ منظور کرنا تھا۔ اس قسم کی اسمبلی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ وفاقی آئین اس وجہ سے تیار کر سکے گی کہ وفاق کا ایک فیڈریٹنگ یونٹ جو ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہے پورے ملک کے لیے آئین بنا کر اپنی شرط منوا سکے گا۔ جس کا باقی حصہ ایسے رقبہ کے اعتبار سے کہیں زیادہ ہے اور چار فیڈرینٹنگ یونٹوں پر مشتمل ہے اور اس کے جغرفیائی سیاسی اور جذباتی حقائق، آزادی کے بعد سے وقوع پزیر ہونے والے واقعات کو نظر انداز کرنا ہے۔

) عوامی لیگ کی انتخابات میں بھی اس کامیابی کے بعد پورے مشرقی پاکستان کا صوبہ بے صبری سے قومی اسمبلی کی طلبی کا منتظر رہا اور امید کی جاتی تھی کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا جس میں مشرقی پاکستان ایک غالب کردار ادا کرے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے باوجود اقتدار کا دعویٰ کرنے کا اہل نہ ہو سکے۔ یہ ایک قسم کا احساس تھا اور اگر حقیقت ہو تو بہت اچھا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور مخفی خدشہ مغربی پاکستان یا فوج بھی تھا جو مشرقی پاکستان کے خیال میں تغیر پزیر صورت حال میں اقتدار نہیں چھوڑے گا جس پر وہ گذشتہ 12 سال سے قابض رہے۔

٣٥) دسمبر کا مہینہ گذر گیا اور ابھی تک ایسی علامت نہیں تھی کہ اجلاس بلایا جائے۔ 3جنوری 1971 کو شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں انھوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے حلف لیا اور پارٹی کے صوبائی خود مختیاری کے پروگرام سے وفاداری کا عہد لیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹتے رہے کہ چھ نکات پر بات چیت ہو سکتی ہے اوراب انھوں نے یہ موقف اختیار کر لیا کہ چھ نکات بنگلہ دیش کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان پر سودے بازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ممکنہ طور پر حیرت انگیز تقریباَ َ یکطرفہ انتخابی نتائج کے ساتھ یہ حقیقت بھی شامل تھی کہ انتظامیہ نے عوامی لیگ کی انتخابی مہم میں کوئی مداخلت نہیں کی مجیب الرحمٰن کو سیاسی قوت کے نشے سے سرشار کر دیا۔ دوسری جانب یہ بھی درست ہے کہ اس اکثریت کے ساتھ مجیب الرحمٰن ایک طرف سے کوئی آزاد انسان نہیں تھے۔ ان میں نسبتاَ َ کم اکثریت کے ساتھ مذکرات کرنے کی کوئی لچک اور استعداد باقی نہیں رہی تھی۔ اس دوسرے نقطہ نظر کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ دسمبر 1970 اور 7 جنوری 1971ء کے درمیان میں کے باعث جنرل یحیٰی خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ملاقات بھی صورت حال بہتر بنانے میں ممد ثابت نہ ہو سکی۔ بہرحال مجیب نے اس وقت ایک جلسہ عام منعقد کیا اس کا مقصد قوت کا مظاہرہ تھا یا نہیں مگر اس میں پارٹی کے ارکان نے ان پر مکمل اعتماد اور وفاداری کا اظہار کیا بشرطیکہ وہ چھ نکات پر قائم رہیں۔ یا ان پر پارٹی نے دباؤ ڈالا کہ وہ پروگرام کو جاری رکھنے کو یقینی بنائیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر اس وقت پارٹی کے کسی بھی رکن کی غیر موجودگی کے باعث ( جس نے کوئی کردار ادا کیا ہو) کسی اطمینان بخش نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں کے درمیان میں فرق بہت کم۔ صورت حال یہ تھی کہ عوامی لیگ قطعی طور پر ایک ایسی صورت حال سے پابند تھی جہاں اس کے چھ نکاتی پروگرام سے پہلو تہی یا مفر مشکل تھا۔ انتخابی نتائج اور 3 جنوری 1971ء کے جلسہ عام کے درمیان میں جنرل یحٰیی خان کی طرف سے دونوں طرف کے رہنماؤں کو اکھٹا کرکے تبادلہ خیال کرنے کی ظاہراَ َ کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اگرچہ بعد میں جب انھوں نے کوشش کی تو شیخ مجیب الرحمٰن نے سخت رویہ اختیار کیا۔ ایسا کرنا ناگزیر تھا لیکن ایسی کسی کوشش کی کامیابی کے لیے یہ بہت پہلے ہونا ضروری تھا۔ یعنی جلسہ عام سے قبل اگرچہ اس کے لیے مقررہ تاریخ 3 جنوری 1971ء کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ حقیقت میں یہ ملاقات انتخابی نتائج کے چار ہفتے بعد تک نہیں ہو سکی۔

٣٦) یہاں اس سے ہٹ کر چھ نکاتی پروگرام پر مغربی پاکستان کی پارٹیوں کا انتخابات سے قبل اور بعد کی صورت حال پر رد عمل کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ مغربی پاکستان میں کم و بیش تمام جماعتوں نے چھ نکاتی پروگرام کی مخالفت کی۔ یہ کہنا کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی نے مخالف نہیں کی بڑا طنز ہوگا۔ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی ہی تھی جو ان کی مخالفت میں سب سے زیادہ شور مچانے والی تھی جبکہ دوسروں کی مخالفت کم تھی ہمارے خیال میں یہ کہنا درست ہے کہ جب دوسروں نے چھ نکاتی پروگرام کی مخالفت ترک کر دی تھی۔ ان کا نقطہ نظر عام طور پر انتخابات کے بعد کے زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نقطہء نظر کی مخالفت تھی۔ یہ ذکر کرنا راست ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا پارٹی کے عام جلسوں میں زیادہ زور چھ نکاتی پروگرام پر نہیں تھا بلکہ انھوں نے اپنی مہم میں زیادہ زور سوشلسٹ پروگرام پردیا۔ پارٹی کے چئیرمین نے ہمارے روبرو شہادت دیتے ہوئے ان وجوہات کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا۔ اس کے آغاز میں انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انھوں نے حقیقتاَ َ چھ نکاتی پروگرام کی مخالفت نہیں کی اور یہ بھی کہا کہ چھ نکاتی پروگرام کے مضمرات ایسے تھے کہ جسلہ عام میں بیان نہیں کیے جا سکتے تھے کیونکہ عوام سیاسی اور آئینی معاملات سمجھنے سے قاصر تھے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ پڑھے لکھے اور بار کونسلوں جیسے دانشوروں کے نسبتاَ َ چھوٹے اجتماعات میں انھوں نے بار بار اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی کہ چھ نکاتی پروگرام ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ اس کا مطلب علیحدگی ہے۔

٣٧) اس پس منظر میں جنرل یحیٰی خان مشرقی پاکستان گئے۔ ایڈمرل احسن کی شہادت جنرل یحیٰی خان اور اس کی ٹیم کی شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بحث و تبادلہ خیال پر آمادگی پر روشنی ڈالتی ہے۔ ہم نے اس سے پیشتر اس کا حوالہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک چھ نکاتی پروگرام کا مطالعہ نہ کرنے کا موجب ہے۔ 6جنوری 1971ء کو جنرل یحیٰی کے پرنسپل اسٹاف افسر جنرل پیرزادہ نے مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن سے ملاقات کی اور ان سے چھ نکاتی پروگرام کی ایک نقل کے حصول کے لیے کہا تاکہ اگلے روز صدر اس پر مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں سے بات چیت کر سکیں۔ اس موقع پر صدر کی ٹیم کے پاس چھ نکاتی پروگرام نقل کے حصول کے لیے کہا تاکہ اگلے روز صدر اس پر مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں سے بات چیت کرسکیں۔ اس موقع پر صدر کی ٹیم کے پاس چھ نکاتی پروگرام کی نقل کا موجود نہ ہونا آنکھیں کھولنے کے کافی ہے تاہم ایڈمرل نے خاص طور پر یہ پوچھا کہ کیا چھ نکاتی پروگرام کا تجزیہ کیا جاچکا ہے تاکہ اس کے مضمرات اور خامیوں کا پتہ چل سکے اور صدر مخصوص سوالات کرنے کے قابل ہو سکیں تو جنرل پیرزادہ نے جواب دیا کہ ایسا کوئی تجزیہ نہیں ہوا اور اگلے روز جو کچھ بھی غوروخوص ہونے والا ہے وہ ایک مختصر میٹنگ میں ہوگا، زیادہ تفصیل سے بحث مباحثہ کرنے کے دیگر مواقع ہوں گے۔

٣٨) چنانچہ دوسرے دن ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں جنرل یحیٰی خان کے علاوہ وہاں کے پرنسپل اسٹاف افسر اور ایڈمرل احسن موجود تھے۔ عوامی لیگ کی طرف سے شیخ مجیب الرحمٰن، مسٹر تاج الدین، مسٹر نذرالاسلام، مسٹر قمر الزماں، کھونڈ کر مشتاق احمد اور کپٹن منصور علی تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنا چھ نکاتی پروگرام پیش کیا اور بعض سوالوں کے جواب دیے جو جنرل یحیٰی خاں نے اٹھائے اور کہا ( یہاں ہم ایڈمرل احسن کی شہادت پیش کرتے ہیں ) ( جناب عالی! اب آپ جان گئے ہیں کہ چھ نکاتی پروگرام کیا ہے۔ اس سوال میں بہت معنی خیزی ہے۔ جنرل یحیٰی خان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر انھیں چھ نکاتی پروگرام کے خلاف کوئی اعتراض نہیں مگر مجیب کو مغربی پاکستان کے رہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ جس پر شیخ مجیب نے جواب دیا کہ یقیناَ َ جناب عالی! آپ مہربانی کرکے اسمبلی کا اجلاس ممکنہ طور پر جلد از جلد بلائیں اور میں تجویز کرتا ہوں کہ 15فروری 1971ء کو بلائیں اور آپ دیکھیں گے کہ میں نہ صرف سادہ بلکہ تقریباَ َ دو تہائی اکثریت حاصل کروں گا۔

٣٩ ) ان رپورٹس کے بارے میں کوئی بھی شخص کیا قیاس کر سکتا ہے کہ اس سوال کا یقیناََ َ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجیب الرحمٰن اپنے چھ نکاتی پروگرام کوترک کر دیں گے، دو تہائی اکثریت کے حوالے کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ کم از کم مغربی پاکستان سے بھی کچھ ووٹ حاصل کر لیں گے۔ جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوگا کہ مغربی پاکستان کے ساتھ سودے بازی کریں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کم از کم مغربی پاکستان کے بعض ارکان کو اپنے نقطہء نظر پر قائل کر سکیں گے۔

٤٠) ایڈمرل احسن نے اس میٹنگ کی کارروائی کے حال کو جاری رکھتے ہوئے یہ کہا کہ انتہائی اکثریت کے ساتھ عوامی لیگ مغربی پاکستان کے مفادات کی پروا کیے بغیر اپنا آئین مسلط کر سکتی ہے تو شیخ مجیب الرحمٰن نے جو جواب دیا وہ دلچسپ ہے۔ میں ایک جمہوری آدمی ہوں اور پورے پاکستان کی اکثریت کا رہنما ہوں۔ میں مغربی پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میں صرف مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں بلکہ عالمی رائے کا بھی خیال رکھنا ہے میں ہر کام جمہوری اصولوں کے مطابق کروں گا اور اس کا آغاز کرتے ہوئے مجھے امید ہے کہ آپ ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس سے تین چار روز قبل آئین گے میں آپ کو اپنے آئین کا مسودہ دکھاؤں گا۔ اگر آپ کو اس پر اعتراضات ہوئے تو آپ کی خواہشات کو مدنظر رکھوں گا۔ اکثریتی پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے اسمبلی میں صدراتی خطاب کے لیے مسودہ تیار کروں گا۔ میں اسمبلی میں جمہوریت بحال کرنے کی آپ کی کوششوں پر شکریہ ادا کروں گا اور پھر ہم ایک جمہوری پارلیمنٹ کے تمام عمل کا جائزہ لیں گے۔ ہم سبجیکٹ کمیٹیاں بنائیں گے۔ مسائل پر بحث ہوگی اور قابل قبول فارمولے اسمبلیوں سے باہر اور اندر تیار کریں گے۔

٤١) اب اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بڑا اہم بیان ہے اگر اس جواب کو اس کی ظاہر صورت میں لیا جائے تو شیخ مجیب الرحمن اسمبلی کے اجلاس سے قبل تبادلہ خیال کی بات نہیں کر رہے تھے۔ پارلیمانی امور کے سلسلے میں ایوان کے اندر اور لابی میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے بارے میں سوچ رہے تھے وہ مغربی پاکستان کے ساتھ مفاہمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چھ نکاتی پروگرام پر اٹل رہنے کا سوچ رہے تھے۔ چھ نکاتی پروگرام میں کہا تھا جس میں مغربی پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا جاتا۔ ایک وفاقی نظام جس میں مرکز کا مشکل سے کوئی کردار ہوتا ہے۔ اس میں مشرقی پاکستان کے مفادات کا مغربی پاکستان کے خلاف اور اس کے برعکس کوئی ضرورت نہیں بنتی درحقیقت چھ نکاتی پروگرام کے تحت جو آئین بنتا اس میں مرکزی اسمبلی کو بھی مشکل سے ہی کوئی کردار ادا کرنے کا موقع ملتا۔ مغربی پاکستان کی خواہشات کا اس نقطہء نظر سے خیال رکھنے کا مطلب جو مرکز کے حق میں تھا۔ جو اگرچہ بہت زیادہ مضبوط نہیں لیکن کم از کم کچھ زیادہ ہی تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے وجود کو ایک ملک کی حیثیت سے یقینی بنانا۔ برائے نام نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اور اس کے لیے شیخ مجیب نے پہلے چھ نکاتی پروگرام کے بارے میں کہا تھا اور اسے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کروانے کی اہلیت کا بھی ۔

٤٢) آئین کی تدوین کے سلسلے میں کچھ مزید بحث مباحثہ بھی ہوا اور آخر میں شیخ مجیب نے کہا۔ جناب عالی میری پارٹی آپ کو پاکستان کا آئندہ منتخب صدر بنانا چاہتی ہے اور یہ ایک اعزاز ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اس کے اہل ہیں کیونکہ آپ نے ملک میں جمہوریت کو بحال کی ہے صدر نے جواب دیا کہ وہ ایک سپاہی ہیں اور یا تو بیرک میں واپس جائیں گے یا پھر گھر۔ اس دوران میں ہلکے پھلکے انداز میں کچھ اور بحث مباحثہ ہوا جس میں جنرل یحٰیی خان نے عوامی لیگ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پرزور دیا کیونکہ وہ مغربی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اس پرشیخ مجیب الرحمٰن نے پھردہرایا کہ وہ یقیناَ َ اس جماعت کااور مغربی پاکستان کی دوسری جماعتوں کا بھی تعاون چاہیں گے اور کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان اس حد تک خود مختاری نہیں چاہتا جس حد تک مشرقی پاکستان لیکن اس کے لیے وہ ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور مغربی پاکستان کے رہنما جو بھی انتظامات کرنا چاہیں گے وہ اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔

٤٣) یہ آخری فقرہ معنی خیز ہے اور ہم صاف یہ کر سکتے ہیں کہ اگر اس بیان کو محتاط انداز میں سمجھا جائے کہ مغربی پاکستان اس حد تک خود مختاری نہیں چاہتا جس حد تک مشرقی پاکستان تو اس کا واحد مطلب یہ ہوگا کہ مرکز کا مشرقی پاکستان کے مقابلے میں مغربی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ عمل دخل ہوتا۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان مرکز میں اپنی اکثریت کے باعث تمام معاملات میں جو مغربی پاکستان سے متعلق مرکز کے دائرہ اختیار میں ہیں فیصلہ کن آواز رکھتا ہے وہ مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کے اس قسم کے معاملات میں کسی قسم کی رائے حتیٰ کہ مشاورتی رائے دینے کے حق سے بھی انکار کر سکتا ہے۔ یہ وفاق کا ایک قابل ذکر نظریہ ہے۔ مرکز میں عوامی لیگ کی اکثریت کے ساتھ۔ اور اگرچہ سیاسی الحاق عام طور پر علاقائی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان کا مرکز میں مستقل اکثریت کو یقینی بنانا اہم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مشرق، مشرقی خطے کے تعلق سے اس حد تک مرکزی اقتدار کے حصول کو ممکن نہیں سمجھتا جتنا کہ اسے بلاشک و شبہ مغربی خطے میں حاصل ہے۔ دوسری جانب جواب کا آخری حصہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کے پاس ممکن ہے اس قسم کے آئینی انتظامات ہوں جووہ چاہتا ہو۔ بالفاظ دیگر ہ اشارہ تھا کہ مغربی پاکستان کے صوبے ممکن ہے معاملات کی صورت حال کے تناظرمیں ایک سب فیڈریشن بنائیں لیکن اس کا مطلب حقیقت میں کچھ نہیں۔ مغربی پاکستان کے صوبے سب فیڈریشن میں حقیقی یونٹ نہیں ہوں گے، وہ مغربی پاکستان میں وفاق کے یونٹ ہوں گے جس کی فیڈریشن مشرقی پاکستان کے ساتھ مل کر کنفیڈریشن بنائے گی۔

بیرونی روابط ترمیم

  1. اردو ویب