خلافت عباسیہ
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔[4]
خلافت عباسیہ الخلافة العباسية | |||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
25 جنوری 750ء – 10 فروری 1258ء | |||||||||||||||
دار الحکومت | بغداد | ||||||||||||||
عمومی زبانیں | عربی، آرامی، آرمینیائی، بربر زبانیں، Georgian، یونانی، عبرانی، فارسی، اوغز ترک، [1][2] Kurdish[3] | ||||||||||||||
مذہب | سنی اسلام | ||||||||||||||
حکومت | خلافت | ||||||||||||||
امیرالمومنین¹ | |||||||||||||||
• 721–754 | ابو العباس | ||||||||||||||
• 786–809 | ہارون الرشید | ||||||||||||||
• 1261–1262 | المستنصر دوم | ||||||||||||||
• 1242–1258 | مستعصم باللہ | ||||||||||||||
تاریخ | |||||||||||||||
• | 25 جنوری 750ء | ||||||||||||||
• | 10 فروری 1258ء | ||||||||||||||
رقبہ | |||||||||||||||
10,000,000 کلومیٹر2 (3,900,000 مربع میل) | |||||||||||||||
آبادی | |||||||||||||||
• | 50000000 | ||||||||||||||
کرنسی | عباسی دینار | ||||||||||||||
| |||||||||||||||
موجودہ حصہ | افغانستان الجزائر انڈورا آرمینیا آذربائیجان بحرین چین قبرص مصر فرانس جارجیا جبل الطارق (برطانیہ) یونان ایران عراق اسرائیل اطالیہ اردن قازقستان کویت کرغیزستان لبنان لیبیا مالٹا المغرب سلطنت عمان پاکستان فلسطین پرتگال قطر روس ساردینیا سعودی عرب صقلیہ ہسپانیہ سوریہ تاجکستان تونس ترکیہ ترکمانستان متحدہ عرب امارات ازبکستان مغربی صحارا یمن | ||||||||||||||
خاندان عباسیہ نے دار الحکومت مصر سے بغداد منتقل کیا اور دو صدیوں تک مکمل طور پر عروج حاصل کیے رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی جن میں ایران میں مقامی امرا نے اقتدار حاصل کیا اور المغرب اور افریقیہ اغالبہ اور فاطمیوں کے زیر اثر آ گئے۔
عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح ہلاکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہو گئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔
عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہو گئی۔ موجودہ عراق میں تکریت کے شمال مشرق میں رہنے والا العباسی قبیلہ اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔
پس منظر
ترمیمخاندان بنو امیہ کی حکومت کے دور ِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہو گئی تھی جن میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنی ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔
بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہو گئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعان ِ علی کا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہلائے۔
دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آ گیا۔
بنو عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ ہشام کے دور میں اس نے سند حاصل کرلی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے بیٹے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انھوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہو گیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے بیٹے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کر دیا اور اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہو گئی۔ بنی ہاشم کی یہ دعوت عمر بن عبد العزیز سے ہشام تک خفیہ رہی اور عراق اور خراسان کے بڑے حصے میں پھیل گئی۔ 126ھ میں محمد بن علی کا انتقال ہو گیا اور ان کے بڑے بیٹے ابراہیم بن محمد ان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں تحریک نے بہت زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانی ابو مسلم خراسانی اسی زمانے میں عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو آپس میں لڑایا اور دوسری طرف ایرانیوں کو عربوں کے خلاف ابھارا۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی نے ابو مسلم کو ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے والا زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مروان کے دور میں اس سازش کا انکشاف ہو گیا اور ابراہیم کو قتل کر دیا گیا۔ اب ابراہیم کا بھائی ابو العباس عبداللہ بن علی جانشیں ہوا۔ اس نے بھی حکم دیا کہ خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا۔
عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کے حکمران خلفائے راشدین کے اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے شکایت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہو گئے تھے اور بحیثیت مسلمان عربوں کے برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔
حصولِ اقتدار
ترمیمبنو امیہ کے زمانے میں عربوں اور ایرانیوں کے درمیان میں نفرتیں بڑھنے کے علاوہ خود عربوں کے اندر قبائلی عصبیت اور اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و نسل کے یہ اختلافات جن کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے لگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے لگا۔ اس اختلاف کی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور ہو گئی اور بنو امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ عرب تھے اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنو امیہ کی سلطنت بھی کمزور پڑ گئی۔
اسلامی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے خراسان میں بغاوت کردی۔ ہشام کے نا اہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ بڑا متصعب، ظالم اور سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ بنی ہاشم کے یہ حامی ماوراء النہر اور ایران پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں داخل ہو گئے جہاں بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد نے دریائے زاب کے کنارے مقابلہ کیا لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ دار الخلافہ دمشق پر بنی ہاشم کا قبضہ ہو گیا اور بنی ہاشم کی شاخ بنی عباس کی حکومت قائم ہو گئی۔
مشہور خلفاء
ترمیمخاندان عباسیہ نے 500 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں عباسیوں کے کل 37 حکمران بر سر اقتدار آئے اور ان میں سے کئی قابل و صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ابو العباس السفاح (750-754)
ترمیمعبد اللہ بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہلا عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی عقل، تدبر اور اخلاق کی تعریف کی ہے۔
ابو جعفر المنصور (754-775)
ترمیماگرچہ پہلا خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہلا نامور حکمران اس کا بھائی ابو جعفر المنصور تھا جو سفاح کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے 22 سال حکومت کی اور خلافت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا شہر آباد کرکے دار الحکومت وہاں منتقل کیا جو بغداد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے ابو مسلم خراسانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا۔
مہدی (775-785)
ترمیممنصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسندِ خلافت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و امان کا دور تھا۔اس کے زمانے میں مراکش میں ادریسی حکومت قائم ہوئ۔
ہارون الرشید (786-809)
ترمیممہدی کے بعد اس کا لڑکا ہادی (785-786) تخت خلافت پر بیٹھا لیکن سوا سال کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ اس کا بھائی ہارون تخت نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ شہرت اسی ہارون الرشید نے حاصل کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوش حالی اور علم و فن کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف عیش پرستانہ زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار، پابند شریعت، علم دوست اور علما نواز بھی تھا۔ ایک سال حج کرتا اور ایک سال جہاد میں گذارتا۔ اس کے دور میں امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔ اس نے بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں اور مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دور خاندان برامکہ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون نے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات، اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ خلافت پر قابض نہ ہو جائیں۔
مامون الرشید (813-833)
ترمیمہارون رشید نے اپنے مرنے سے پہلے اپنی سلطنت کو اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کے درمیان میں تقسیم کر دیا۔جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان میں خانہ جنگی بھی ہوئ۔809 سے لے کر 813 تک امین حکومت کیا۔ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن" ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس نے اسلام اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علما کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم (833-842) اور واثق (842-847) کے زمانے میں خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصاً امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔
واثق باللہ (842-847) اور متوکل (847-861) عباسیوں کے عہد عروج کے آخری دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔ تاہم متوکل کے بعد خلافت زوال کی جانب گامزن ہو گئی اور ان کی وسیع و عریض سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔
کارنامے
ترمیمتمام عباسی دور کی عظمت و وقار مندرجہ بالا خلفاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حکمران خوبیوں کے مالک تھے جن کی وجہ سے عہد عباسیہ کو تاریخ کا ایک نہایت شاندار دور کہا گیا ہے۔ خصوصاً علمی ادبی اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل خلفائے راشدین اور بنو امیہ میں فتوحات اور انتظام سلطنت کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جس سے ان سرگرمیوں کی جانب توجہ کم رہی۔
اس خاندان کے خلفاء کے اصلی کارنامے انتظام سلطنت اور خصوصی طور پر علمی و تمدنی ترقی کے میدان میں دکھائی دیتے ہیں۔ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی اس دور میں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی کہ اس کی دوسری مثال اندلس میں بنو امیہ کی حکومت کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں ہی شامل تھے۔
گوکہ اس خاندان کی حکومت کے دوران میں کئی انقلابات اور حوادث رونما ہوئے اور خلفاء کی قوت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ بعد کے خلفاء کا وقار مجروح ہوا لیکن بحیثیت مجموعی اس خاندان کی مرکزی حیثیت قائم رہی۔ اور اس دور میں جب عباسیوں کی حکومت کی حقیقی ساکھ ختم ہو گئی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا پھر بھی عالم اسلام کے کئی حکمران ان کے وفادار رہے۔ تاریخ کا یہ دور مذہبی، تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
زوال کی وجوہات
ترمیمبنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خلافت دلانے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ ہوا۔
متوکل کے بعد ترک امرا کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے لگے۔ انھوں نے کئی خلفاء کو اتارا اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے مرکزی حکومت کو کمزور تو کر دیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کرسکے۔ اور اس صورت حال میں کئی مقامی امرا نے اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ جن میں قابل ذکر بنی بویہ، سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔
زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنھوں نے 50 سال تک جنوبی عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔
دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خلافت کو زيادہ سے زیادہ اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں اور اسلامی پابندیوں سے نالاں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر ترکوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خلافت پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا زور توڑا اور ایک وسیع علاقے پر دوبارہ امن و امان قائم کر دیا اور حکومت کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی، معتضد اور قاہر باللہ تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران تھے لیکن اس کا جانشیں مقتدر تن آسان، عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور بالآخر معزول کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بنو عباس کی حکومت کے خلاف ایک بڑا خروج امام آفتاب بن حیدر علی بن عبدالغنی کا تھا، جنہونے علویوں اور مسلم ترکوں کے ایک منظم گروہ کے ساتھ خراسان میں بغاوت اختیار کی، جس کی وجہ سے بنو عباس کو سخت ترین نقصان اٹھانا پڑا۔
حمکرانوں کی عیش پرستی، نااہلی اور امرا کی خود سری و اخلاقی زوال کے نتیجے میں خلافت کی حدود پھر گھٹنا شروع ہوگئیں۔ اور بالآخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے زیر اثر آ گیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہو گئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔
اس میں شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔ اسلامی قانون کے نفاذ میں دلچسپی لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقلاب ہوا اس سے صرف حکمران ہی بدلے، طرز حکومت نہ بدلا۔ انھوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں برقرار رکھا جو خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے آ جانے سے اسلامی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو بنی امیہ نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسریٰ [5]
اس طرح عباسیوں کے 500 سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
دور اول (750-861)
ترمیم132ھ سے 247ھ تک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک، جس میں 10 حکمران بر سر اقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر، مہدی، ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصلاحیت حکمران اسی پہلے دور سے وابستہ تھے۔ اس دور میں تہذیب و ثقافت، علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس دور کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہلا دور ایک صدی تک رہا۔
دور ثانی (861-1031)
ترمیمیہ 247ھ سے شروع ہوکر 422ھ تک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ معتصم سے لے کر واثق باللہ تک یہ عرصہ خلافت عباسیہ کے دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو زوال کا دور ہے، خلافت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر الامراء کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتیٰ کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی مرضی سے ہوتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر باللہ کے عہد میں سلجوقیوں نے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثلاً سامانی اور صفاری قائم ہیں جنھوں نے سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کر دیا۔
دور ثالث (1031–1258)
ترمیمتیسرا دور 422ھ سے 656ھ یعنی قادر باللہ سے مستعصم (آخری حکمران) تک ہے جو سلجوقیوں کے غلبے کا دور ہے۔ خلیفہ کی تمام حیثیت ختم ہو گئی۔ یہ عہد بغداد کی مرکزیت اور سیاسی وحدت کے مکمل خاتمے کا بھی دور ہے۔ تمام اختیارات سلجوقیوں کے ہاتھوں میں تھے اور آخر کار 656ھ میں ہلاکو خان کے حملے سے عباسیوں کے آخری تاجدار مستعصم باللہ کے اقتدار کا خاتمہ کرکے عباسی خاندان کا چراغ بھی گل کر دیا تھا۔
بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی علاحدہ حیثیت ہے۔ آخری دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود خلافت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن مذہبی حیثیت موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی لیکن دنیائے اسلام کے کئی حکمران خلیفہ سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔
عباسی خلفاء (بغداد) 132ھ — 656ھ / 750ء — 1258ء
ترمیمخلافت عباسیہ |
قاہرہ کے عباسی خلفا |
---|
احمد المستنصر باللہ الثانی (1261 – 1262) |
الحاکم بامر اللہ اول (1262 – 1302) |
المستکفی باللہ اول (1302 – 1340) |
الوثق اول (1340 – 1341) |
الحاکم بامر الله ثانی (1341 – 1352) |
المعتضد بالله (1352 – 1362) |
المتوکل على اللہ الاول (1362 – 1377) |
المستعصم باللہ (قاہرہ) (1377 – 1377) |
المتوکل على اللہ الاول* (1377 – 1383) |
الوثق دوم (1383 – 1386) |
المستعصم باللہ (قاہرہ)* (1386 – 1389) |
المتوکل على اللہ الاول* (1389 – 1406) |
العباس المستعین باللہ (1406 – 1414) |
داود المعتضد بالله (1414 – 1441) |
المستکفی باللہ ثانی (1441 – 1451) |
حمزہ القائم بامر اللہ (1451 – 1455) |
المستنجد باللہ ثانی (1455 – 1479) |
المتوکل دوم (1479 – 1497) |
المستمسک باللہ (1497 – 1508) |
محمد المتوکل علی اللہ ثالث (1508 – 1516) |
المستمسک باللہ* (1516 – 1517) |
محمد المتوکل علی اللہ ثالث* (1517 – 1517) |
(*) کی علامت اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ خلیفہ سابق میں بھی تخت نشین ہو چکا ہے۔ |
# | خلیفہ | ہجری | عیسوی |
---|---|---|---|
عباسی خلفاء | |||
1 | ابوالعباس السفاح | 11 ربیع الثانی 132ھ — 13 ذوالحجہ 136ھ | 25 جنوری 750ء — 10 جون 754ء |
2 | ابو جعفر المنصور | 13 ذو الحجہ 136ھ— 6 ذو الحجہ 158ھ | 10 جون 754ء — 6 اکتوبر 775ء |
3 | محمد المہدی | 6 ذو الحجہ 158ھ— 12 محرم 169ھ | 6 اکتوبر 775ء— 24 جولائی 785ء |
4 | موسیٰ الہادی | 12 محرم 169ھ–15 ربیع الاول 170ھ | 24 جولائی 785ء– 14 ستمبر786ء |
5 | ہارون الرشید | 15 ربیع الاول 170ھ–3 جمادی الثانی 193ھ | 14 ستمبر786ء– 24 مارچ 809ء |
6 | امین الرشید | 3 جمادی الثانی 193ھ–28 محرم 198ھ | 24 مارچ 809ء–27 ستمبر 813ء |
7 | مامون الرشید | 28 محرم 198ھ –17 رجب 218ھ | 27 ستمبر 813ء–7 اگست 833ء |
8 | المعتصم باللہ | 17 رجب 218ھ–18 ربیع الاول 227ھ | 7 اگست 833ء–5 جنوری 842ء |
9 | الواثق باللہ | 18 ربیع الاول 227ھ–24 ذو الحجہ 232ھ | 5 جنوری 842ء–10 اگست 847ء |
10 | المتوکل علی اللہ | 24 ذو الحجہ 232ھ–5 شوال 247ھ | 10 اگست 847ء–11 دسمبر 861ء |
11 | المنتصر باللہ | 5 شوال 247ھ–6 ربیع الثانی 248ھ | 11 دسمبر 861ء– 8 جون 862ء |
12 | المستعین باللہ | 6 ربیع الثانی 248ھ–4 شوال 252ھ | 8 جون 862ء– 17 اکتوبر 866ء |
13 | المعتز باللہ | 4 شوال 252ھ–26 رجب 255ھ | 17 اکتوبر 866ء – 9 جولائی 869ء |
14 | المہتدی باللہ | 26 رجب 255ھ–19 رجب 256ھ | 9 جولائی 869ء – 22 جون 870ء |
15 | المعتمد باللہ | 23 رجب 256ھ–20 رجب 279ھ | 26 جون 870ء – 15 اکتوبر 892ء |
16 | المعتضد باللہ | 20 رجب 279ھ –23 ربیع الثانی 289ھ | 15 اکتوبر 892ء ––5 اپریل 902ء |
17 | المکتفی باللہ | 23 ربیع الثانی 289ھ–22 ذیقعد 295ھ | 5 اپریل 902ء– 13 اگست 908ء |
18 | المقتدر باللہ | 22 ذیقعد 295ھ–28 شوال 320ھ | 13 اگست 908ء – 31 اکتوبر 932ء |
19 | القاہر باللہ | 28 شوال 320ھ– 3 جمادی الاول 322ھ | 31 اکتوبر 932ء – 19 اپریل 934ء |
20 | راضی باللہ | 6 جمادی الاول 322ھ – 21 ربیع الاول 329ھ | 23 اپریل 934ء– 23 دسمبر 940ء |
21 | المتقی باللہ | 21 ربیع الاول 329ھ–4 محرم 333ھ | 23 دسمبر 940ء – 26 اگست 944ء |
22 | المستکفی باللہ | 4 محرم 333ھ– 22 جمادی الثانی 334ھ | 26 اگست 944ء – 28 جنوری 946ء |
23 | المطیع باللہ | 22 جمادی الثانی 334ھ– 13 ذیقعد 363ھ | 28 جنوری 946ء– 4 اگست 974ء |
24 | الطائع باللہ | 14 ذیقعد 363ھ –19 شعبان 381ھ | 5 اگست 974ء – 30 اکتوبر 991ء |
25 | القادر باللہ | 19 شعبان 381ھ – 11 ذو الحجہ 422ھ | یکم نومبر 991ء – 29 نومبر 1031ء |
26 | القائم باللہ | 11 ذو الحجہ 422ھ– 13 شعبان 467ھ | 29 نومبر 1031ء– 2 اپریل 1075ء |
27 | المقتدی بامر اللہ | 13 شعبان 467ھ– 14 محرم 487ھ | 2 اپریل 1075ء– 3 فروری 1094ء |
28 | المستظہر باللہ | 14 محرم 487ھ – 17 ربیع الثانی 512ھ | 3 فروری 1094ء – 6 اگست 1118ء |
29 | المسترشد باللہ | 17 ربیع الثانی 512ھ– 17 ذیقعد 529ھ | 6 اگست 1118ء– 29 اگست 1135ء |
30 | راشد باللہ | 17 ذیقعد 529ھ–16 ذیقعد 530ھ | 29 اگست 1135ء – 17 اگست 1136ء |
31 | المقتفی لامر اللہ | 16 ذیقعد 530ھ–2 ربیع الاول 555ھ | 17 اگست 1136ء – 11 مارچ 1160ء |
32 | مستنجد باللہ | 2 ربیع الاول 555ھ – 8 ربیع الثانی 566ھ | 11 مارچ 1160ء– 18 دسمبر 1170ء |
33 | المستضی باللہ | 8 ربیع الثانی 566ھ–29 شوال 575ھ | 18 دسمبر 1170ء – 27 مارچ 1180ء |
34 | الناصر لدین اللہ | یکم ذیقعد 575ھ–30 رمضان 622ھ | 28 مارچ 1180ء– 5 اکتوبر 1225ء |
35 | الظاہر بامر اللہ | یکم شوال 622ھ –13 رجب 623ھ | 6 اکتوبر 1225ء– 10 جولائی 1226ء |
36 | المستنصر باللہ | 13 رجب 623ھ– 10 جمادی الثانی 640ھ | 10 جولائی 1226ء– 5 دسمبر 1242ء |
37 | مستعصم باللہ | 10 جمادی الثانی 640ھ –14 صفر 656ھ | 5 دسمبر 1242ء– 20 فروری 1258ء |
خلفاء قاہرہ | |||
39 | احمد المستنصر باللہ الثانی | 14 رجب 659ھ — 4 محرم 660ھ | 13 جون 1261ء – 28 نومبر 1261ء |
40 | [[الحاکم بامراللہ الاول]] | 8 محرم 660ھ – 18 جمادی الاول 701ھ | 3 دسمبر 1261ء – 19 جنوری 1302ء |
41 | Al-Mustakfi I of Cairo | 702–741 | 1303–1340 |
42 | Al-Wathiq I | 741–742 | 1340–1341 |
43 | Al-Hakim II | 742–753 | 1341–1352 |
44 | Al-Mu'tadid I | 753–764 | 1352–1362 |
45 | Al-Mutawakkil I | 764–785 | 1362–1383 |
46 | Al-Wathiq II | 785–788 | 1383–1386 |
47 | معتصم باللہ | 788–791 | 1386–1389 |
48 | Al-Mutawakkil I (restored) | 791–809 | 1389–1406 |
49 | Al-Musta'in | 809–817 | 1406–1414 |
50 | Al-Mu'tadid II | 817–845 | 1414–1441 |
51 | المستکفی باللہ ثانی | 845–855 | 1441–1451 |
52 | Al-Qa'im | 855–859 | 1451–1455 |
53 | Al-Mustanjid | 859–884 | 1455–1479 |
54 | Al-Mutawakkil II | 884–902 | 1479–1497 |
55 | Al-Mustamsik | 902–914 | 1497–1508 |
56 | محمد المتوکل علی اللہ ثالث | 914–923 | 1508–1517 |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.tarihimiz.net/v3/Haberler/Tarih/Abbasiler-devrinde-turklerin-etkinligi-ve-hizmetleri.html (ترکی میں) Abbasiler devrinde türklerin etkinliği ve hizmetleri
- ↑ http://www.genbilim.com/content/view/4930/190/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ genbilim.com (Error: unknown archive URL) (ترکی میں) Abbasiler
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 2008-11-20 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-18
- ↑ Sohail, History With (6 نومبر 2023). "جنگِ زاب جس کے بعد بنو اُمیہ کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت کی شروعات ہوئی۔". www.historyinurdu.com (انگریزی میں). Archived from the original on 2023-11-06. Retrieved 2023-11-06.
- ↑ خلافت و ملوکیت از سید ابو الاعلیٰ مودودی صفحہ 195
ویکی ذخائر پر خلافت عباسیہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
ماقبل | خلافت 750–1258 اور 1261–1517 فاطمی خلافت909 میں، خلافت امویہ 929 میں اور عثمانی سلطنت دعوے دار رہے |
مابعد |