اسلامی الہیات کے مکاتب فکر

دین اسلام کے عقائد اور ان کے مختلف مکاتب فکر کا مجموعہ
(اسلامی الہیات سے رجوع مکرر)

اسلامی الٰہیات کے مکاتب فکر سے مراد اسلامی عقائد کے متعلق تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں رونما ہونے والے متعدد مکاتب فکر اور فرقے ہیں۔ محمد ابو زہرہ کے مطابق قدریہ، جہمیہ، مرجئہ، معتزلہ، باطنیہ، اشعری، ماتریدی اور اثری اسلامی عقائد کے قدیم مکاتب فکر ہیں۔

الٰہیات دانوں کی ملاقات، از عبد اللہ مصور، وسط سولہویں صدی۔

اسلام یا مسلمانوں کا دو مرکزی دھاروں اہل سنت اور اہل تشیع میں تقسیم ہو جانے کا ابتدائی محرک الہیاتی سے زیادہ سیاسی تھا۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں فرقوں کے درمیان الہیاتی یا معروف اصطلاح میں عقیدے کے اختلافات بھی جنم لینے لگے جو موجودہ دور میں اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک گروہ سے تعلق رکھنے والا شخص دوسرے سے یکسر کاٹ دیا جاتا ہے بلکہ بعض متشدد علما و مجتہدین ایک دوسرے کی تکفیر کے بھی قائل ہیں۔ مثلاً ایک معتزلی شخص جعفری اور زیدی ہو سکتا ہے یا پھر حنفی؛ بیک وقت دونوں دھاروں میں شامل ہو کر زندگی گزارنا اب محال معلوم ہوتا ہے۔

اسلام کے الہیاتی مکاتب فکر

ترمیم

عقیدہ ایک عربی الاصل اسلامی اصطلاح ہے جس کے لفظی معنی کسی چیز پر یقین رکھنے یا ایمان لانے کے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے اعتقادات یا ایمانیات کو عقیدہ کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لفظی معنی سے ہٹ کر تاریخ اسلام اور اسلامی الہیات میں اس اصطلاح کو خاص اہمیت حاصل رہی اور مسلمانوں کے ایمانی و اعتقادی امور کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ عموماً اس لفظ کو الہیات کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی منظم الہیاتی مکاتب فکر میں سے ایک اعتزال تھا جو آٹھویں صدی عیسوی میں سامنے آیا۔ معتزلہ کے یہاں قیاس اور تعقل کو خاص اہمیت دی گئی اور اس امر پر زور دیا گیا کہ الٰہی احکامات کو تعقل و تدبر کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے اور قرآن یعنی "کلام خداوندی" مخلوق ہے۔ معتزلہ کا متعارف کردہ خلق قرآن کا یہ عقیدہ اسلامی الہیات کی تاریخ میں متنازع ترین عقائد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

دسویں صدی عیسوی میں معتزلہ کے رد عمل میں اشعری مکتب فکر کا ظہور ہوا، اس مکتب فکر کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ برسوں سے ذہن و دماغ پر موجود اعتزال کے اثرات تیزی سے زائل ہو گئے۔ اشاعرہ کا بھی خیال تھا کہ فہم قرآن کے لیے تدبر و تفکر لازمی ہے لیکن انھوں نے قیاس کے ذریعہ اخلاقی سچائیوں کے استنتاج کا انکار کیا۔ اشاعرہ کے اس قول کے رد میں ماتریدی مکتب فکر وجود میں آیا جس میں وحی کی مدد کے بغیر اور عقل و دانش کے استعمال سے کچھ مخصوص اخلاقی سچائیوں کے استنباط کو درست تسلیم کیا گیا۔ ایک اور مختلف فیہ موضوع ایمان اور تقوی بھی تھا۔ جن مکاتب فکر نے صوفی مکاتب فکر کے برخلاف یہ رائے قائم کی کہ الہیاتی سچائیوں کو تعقل یا مکالمات کے ذریعہ دریافت کیا جا سکتا ہے انھیں متکلمین اور ان کے عقائد و مناقشات کو علم کلام کا نام دیا گیا۔

سنی مکاتب فکر

ترمیم

اہل سنت اسلام کا سب سے بڑا فرقہ ہے جس کا مکمل نام "اہل سنت و جماعت" ہے اور مختصراً اسے اہل سنت یا سنی کہتے ہیں۔ سُنی لفظ سنت سے ماخوذ ہے جس سے اصطلاحاً پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کے اقوال و افعال مراد لیے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے لفظ سنی کا مفہوم ہوا "وہ شخص یا اشخاص جو پیغمبر اسلام کی سنت کے پیروکار ہیں"۔

اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ امت مسلمہ کی قیادت کے لیے پیغمبر اسلام نے وفات سے قبل اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ وفات نبوی کے بعد انتشار و تذبذب کا مختصر مرحلہ پیش آیا لیکن جلد ہی صف اول کے اصحاب رسول یکجا ہوئے اور پیغمبر اسلام کے یار غار اور سسر ابو بکر صدیق کو مسلمانوں کا پہلا خلیفہ منتخب کر لیا۔ اہل سنت پہلے چار خلفا ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابی طالب کو خلفائے راشدین یعنی ہدایت یافتہ خلفا کہتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے بعد منصب خلافت موروثی بن گیا اور مسلمانوں کے خلفا یا امیر المومنین امت مسلمہ کی طاقت اور اتحاد و اتفاق کی سیاسی علامت سمجھے جانے لگے۔

اثریہ

ترمیم

اثریت علمائے اسلام کی ایک تحریک ہے جس میں تعقلی بنیادوں پر پروان چڑھنے والے علم کلام کا رد اور قرآن کی توضیح و تفسیر میں اس کے الفاظ کے ظاہری یا لغوی معانی و مفاہیم پر مکمل زور دیا جاتا ہے۔[1] اثریت کی اصطلاح عربی زبان کے لفظ اثر سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی باقیات اور بہت سے مقامات پر اظہار و بیان کے بھی ہوتے ہیں۔[2] اس تحریک کے منتسبین کو "اثریہ" یا اثری شخصیات کہا جاتا ہے۔

اثری تحریک کے پیروکاروں کے یہاں عقائد اور ایمانیات کے باب میں قرآنی آیات اور خصوصاً احادیث نبوی کے ظاہری معانی ہی تنہا حجت ہیں۔ نیز علم کلام کے ذریعہ کلامی مناقشات میں پڑنا خواہ کوئی شخص ان کی مدد سے راہ راست پر آجائے، مطلقاً ممنوع ہے۔[3] اثریہ کے یہاں فہم قرآن کے لیے تاویل کے برخلاف ظاہری معانی اور واضح تشریحات ہی کافی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ قرآنی آیات کے معانی و مفاہیم کے عقلی تخیل سے سخت احتراز کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کے اصل معنی خدا کے علم میں ہیں (اصطلاح میں اس عقیدے کو "تفویض" کہا جاتا ہے)۔[4] الغرض وہ قرآنی مفاہیم کو "بلا کیف" یا بغیر کسی کیوں کے تسلیم کر لیتے ہیں۔

دوسری جانب مشہور حنبلی عالم ابو الفرج ابن جوزی اپنی کتاب اخبار الصفات میں بیان کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے قرآنی آیات کی تجسیمی تشریحات پر شدت سے نکیر کی ہے۔ اس طرح کی تشریحات قاضی ابو یعلی، ابن حمید اور ابن زغونی کے یہاں ملتی ہیں۔[5] اثری حنبلیوں پر ابن جوزی کی انہی تنقیدوں سے پروفیسر محمد ابو زہرہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سلفی عقائد کی بنیاد تعطیل اور مطلق ظاہریت ہی کے مشترکہ خمیر سے اٹھی ہے۔[6] مطلق ظاہریت اور تاویل کا ابطال کامل اسلامی الہیات کے اس نسبتاً نئے مکتب فکر کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہیں۔

کرامیہ

ترمیم

تجسیمیت کے قائل کرامیہ فرقے کی بنیاد ابو عبد اللہ محمد بن کرام[7] نے رکھی تھی۔ ابن کرام کے نزدیک خدا ایک جوہر ہے اور جب وہ عرش پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو وہ مجسم ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک خدا کی جانب جسمانی علو و نزول اور تحول و انتقال کی نسبت کرنا درست ہے۔[8][9][10]

علم کلام

ترمیم

علم کلام عربی الاصل اصطلاح ہے جس کے لغوی معنی "مکالمے کا علم"[11] ہیں، اسے مختصراً "کلام" بھی کہہ دیا جاتا ہے؛ جبکہ اس علم کے ماہر کو دیگر حکما، فلاسفہ اور قاضیوں سے ممتاز رکھنے کے لیے متکلمین کہتے ہیں۔ دین اسلام کے سلسلے میں مشککین یعنی شک پیدا کرنے والوں کی سرگرمیوں کے خلاف اسلامی عقائد کے طاقت ور دفاع کے لیے علم کلام کی بنیاد پڑی۔[12] متکلمین نے ارسطو کے قیاس اور منطق کو اسلامی الہیات میں اس طرح ضم کر دیا کہ دونوں یک جان معلوم ہونے لگے۔[13] دفاع اسلام کے اس شعبہ علم کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت سی آرا ملتی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس شعبہ کا متنازع ترین معاملہ قرآن کے کلام خداوندی سے متعلق ہے کہ آیا وہ خدا کا جوہر ہے، اس صورت میں وہ مخلوق نہیں ہوگا؛ یا اسے تقریر کے ذریعہ الفاظ میں ڈھالا گیا، اس صورت میں قرآن مخلوق ہوگا؛ اس بحث کی وجہ سے اسے علم کلام کا نام دیا گیا۔

اشاعرہ

ترمیم

اشعری مکتب فکر کے بانی ابو الحسن اشعری پہلے معتزلی تھے، بعد میں انھوں نے اعتزال سے تائب ہو کر اپنا علاحدہ مکتب فکر قائم کیا جو اشعری کہلایا۔[14] اس مکتب فکر کی بنیاد معتزلی عقائد کے رد و مخالفت میں رکھی گئی تھی۔ اشعری نے معتزلیوں کے جواب میں یہ نقطہ نظر اپنایا کہ کوئی انسان محض عقل کی بنیاد پر حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتا بلکہ اسے وحی الہی کی مدد سے جاننا ہوگا۔ نیز ابو الحسن اشعری کا نظریہ تھا کہ ایک انسانی دماغ وحی الہی کی مدد کے بغیر حق و باطل میں تمیز بھی نہیں کر سکتا۔

موجودہ دور میں اشعری مکتب فکر کو اسلامی الہیات کے درست ترین اور مسلمہ مکاتب فکر میں شمار کیا جاتا ہے۔[15] نیز یہ فقہ شافعی کی بنیاد بھی ہے، چنانچہ ممتاز شافعی علما کی بڑی تعداد اشعری رہی ہے، مثلاً ابو الحسان باہلی، ابو بکر باقلانی، امام الحرمین جوینی، رازی اور غزالی قابل ذکر ہیں۔ یوں اشعری مکتب فکر کا اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے مرکزی اور اہم ترین مکاتب فکر میں شمار ہونے لگا۔

ماتریدیہ

ترمیم

ابو منصور ماتریدی نے ماتریدی مکتب فکر کی بنا ڈالی۔ مسلمان الہیات دانوں اور متکلمین میں ابو منصور ماتریدی کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس مکتب فکر کا دائرہ اثر خصوصاً ان علاقوں پر زیادہ محیط رہا جو سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے زیر نگین تھے۔ موجودہ دور میں ماتریدی مکتب فکر اہل الرائے یعنی فقہ حنفی اور فقہ مالکی کے یہاں رائج ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت ماتریدی ہے۔[16]

ماتریدی مکتب فکر نے آزادئ ارادہ اور ادراک حقیقت کے مسائل میں معتزلیوں اور اشعریوں کے موقف سے ہٹ کر ایک درمیانی راہ نکالی ہے۔ ماتریدی کہتے ہیں کہ انسانی دماغ وحی خداوندی کی مدد کے بغیر بھی بہت سے گناہ کبیرہ کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے تاہم انھیں وحی الہی کے بنیادی اور حتمی ماخذ علم سے انکار بھی نہیں ہے۔ نیز ماتریدی کا اعتقاد ہے کہ خدا نے مخلوقات کو پیدا کیا اور ان سب پر قادر بھی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے انسانوں کو خود فیصلہ کرنے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔

جہمیہ

ترمیم

جہمیہ مسلمان ماہر الہیات جہم بن صفوان کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے۔ جہم بن صفوان خود کو حارث ابن سریج سے منسوب کرتے ہیں۔ جہم نظریہ جبریت خالصہ کے قائل اور داعی تھے، جس کی رو سے انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے، اسے اپنے افعال کو انجام دینے میں کسی طرح کی قدرت، ارادہ یا اختیار حاصل نہیں۔[15] یہ افعال انسانوں کی جانب مجازاً منسوب کیے جاتے ہیں جس طرح طلوع و غروب میں مجازاً سورج کا عمل دخل سمجھا جاتا ہے۔

مرجئہ

ترمیم

فرقہ مرجئہ تاریخ اسلام کے ابتدائی فرقوں میں سے ایک ہے جو خارجیوں کی مخالفت میں ایک الہیاتی مکتب فکر کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ خارجیوں کے خلاف اس مکتب فکر کی تشکیل کی بنیاد ارتکاب معصیت اور ارتداد کا مشہور معاملہ بنا۔ مرجئہ کا کہنا تھا کہ گناہ انسان کے ایمان کی بجائے اس کے تقوی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نظریہ کی بنا پر اس فرقہ نے "ارجا" یعنی فیصلہ میں تاخیر کا تصور پیش کیا، اسی تصور کی بنا پر وہ مرجئہ کہلائے۔ مرجئہ کا عقیدہ ہے کہ کسی انسان کو ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان نہیں پہنچاتی۔ لہذا کوئی گناہ گار محض گناہ کے سرزد ہو جانے کی وجہ سے کافر نہیں ہو سکتا۔ مرجئہ کا یہ اعتقاد بالآخر خارجی عقیدے کے خاتمے کا باعث بنا اور جلد ہی اہل سنت کا مرکزی عقیدہ قرار پایا۔ مرجئہ کے بعد ظاہر ہونے والے دوسرے فرقوں نے بھی اس عقیدے کو اختیار اور اپنی الہیاتی بنیادوں کو مستحکم کیا۔

قدریہ

ترمیم

قدریہ اصلاً ایک توہین آمیز اصطلاح ہے اور ان ابتدائی ماہرین الہیات کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کا نظریہ تھا کہ انسان وجودی طور پر آزاد ہے اور ارادے کی مکمل آزادی رکھتا ہے۔ نیز انسانوں کے اعمال ہی خدائی سزاؤں کا وجہ جواز بنتے ہیں اور یوں دنیا میں شر کے وجود کی ذمہ داری سے اللہ کی ذات بری ہے۔[17][18] بعد میں معتزلہ نے ان عقائد کو اپنا لیا اور اشاعرہ نے انھیں یکسر مسترد کر دیا۔[17] خدا کی قدرت مطلقہ اور انسان کی آزادئ ارادہ کی گتھی کو بعد میں ماتریدیوں نے سلجھانے کی کوشش کی جن کا عقیدہ تھا کہ خدا نے انسانوں کو اختیار ضرور دیا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت اس اختیار کو واپس یا تبدیل کر سکتا ہے۔

معتزلہ

ترمیم

سب سے پہلا گروہ جس نے اس عقیدے کو اپنایا اور تبلیغ کی وہ معتزلہ تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ حق کو محض عقل کی مدد سے جانا جا سکتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ میں اس وقت اعتزالی مکتب فکر کی بنیاد پڑی جب حسن بصری نے عقیدے کے ایک مسئلہ پر تنازع پیدا ہونے کے بعد واصل ابن عطا کو اپنے حلقہ درس سے یہ کہہ کر خارج کر دیا: اعتزل عنا (ہم سے دور ہو جاؤ)۔ معتزلہ کا اعتقاد ہے کہ وحی کے ذریعہ معلوم ہونے والے تمام امور کو محض عقل کی مدد سے بھی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ دراصل معتزلہ یونانی فلسفہ سے بے حد متاثر تھے اور فلوطین کے افکار کو اپنانا شروع کر دیا تھا۔ معتزلہ کے نو افلاطونی افکار و عقائد نے اسلامی معاشرے میں ان کے خلاف زبردست رد عمل پیدا کیا۔ انھیں سخت سیاسی رد عمل کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی اسلامی الہیات کے نئے مکاتب فکر نے ان کے خلاف علمی و عقلی بنیادوں پر زبردست محاذ آرائی کی۔ ان وجوہات کی بنا پر معتزلہ بتدریج کمزور ہوئے اور بالآخر معدوم ہو گئے۔ اہل سنت انھیں الہیات کے قدیم مسلمہ مکاتب فکر میں شمار نہیں کرتے۔

بہشمیہ

ترمیم

بہشمیہ[19] اعتزالی مکتب فکر ہی کی ایک شاخ ہے جس نے عام معتزلہ اور بالخصوص قاضی عبد الجبار سے چند مسائل میں علاحدہ موقف اختیار کیا۔ بہشمیہ مکتب فکر اصلاً ابو علی محمد جبائی کے فرزند ابو ہاشم جبائی[20] کے افکار و تعلیمات پر مبنی ہے۔

حروریہ

ترمیم

علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان سنہ 37ھ میں جنگ صفین پیش آئی تھی جس کا اختتام ایک خاص قسم کی مصالحت پر ہوا۔ علی بن ابی طالب کے لشکر میں جن افراد نے اس مصالحت کے موقع پر ان سے علاحدگی اختیار کی وہ مُحَکِّمَہ یا حروریہ کہلائے۔ بعد ازاں محکمہ دو بڑے گروہوں میں بٹے، جن میں سے پہلا خارجی اور دوسرا اباضیہ ہے۔

خوارج

ترمیم

خوارج کے نزدیک ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب کی خلافت خلافت راشدہ تھی جبکہ عثمان بن عفان اپنے دور خلافت کے آخری ایام میں حق و انصاف کے راستے سے ہٹ گئے تھے، اس لیے انھیں معزول یا قتل کرنا مجبوری تھی۔ خوارج کا یہ بھی خیال ہے کہ علی بن ابی طالب نے معاویہ بن ابو سفیان سے مصالحت کرکے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ جنگ صفین کے موقع پر علی بن ابی طالب نے معاویہ بن ابو سفیان کی جنگ بندی اور گفت و شنید کی تجویز کو منظور کر لیا تھا، اس تجویز کا منظور ہونا تھا کہ علوی لشکر کے بہت سے افراد (جو بعد میں خوارج کہلائے) اس سمجھوتے کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور خود کو لشکر سے علاحدہ کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مصالحت پر آمادگی ظاہر کرکے علی بن ابی طالب نے قرآن کی آیت إن الحكم إلا لله (یعنی فیصلہ کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے) کی خلاف ورزی کی ہے۔ خوارج کے یہاں اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ کسی تصادم یا کشمکش میں انسانوں کو حَکَم یعنی ثالث نہیں مقرر کیا جا سکتا؛ یہ اختیار صرف اللہ کا ہے، اس کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔

چنانچہ جنگ صفین کے موقع پر جن حضرات کو ثالث بنایا گیا تھا یعنی ابو موسیٰ اشعری اور عمرو ابن عاص، نیز وہ حضرات جنھوں نے انھیں ثالث مقرر کیا تھا یعنی علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابو سفیان اور وہ تمام افراد جنھوں نے اس ثالثی کو قبول کیا، خوارج کے نزدیک یہ سب کافر ہیں کیونکہ انھوں نے قرآن کی واضح آیت کی خلاف ورزی کی۔ اسی طرح خوارج کا ماننا تھا کہ جنگ جمل کے تمام شرکا بشمول طلحہ بن عبید اللہ، زبیر ابن عوام اور عائشہ بنت ابی بکر ان سب نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔[21]

خوارج نے ائمہ مسلمین کی عصمت کے عقیدہ کو مسترد کر دیا تھا، یہی عقیدہ اہل سنت کا بھی ہے جبکہ اہل تشیع اپنے ائمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہیں۔[22] عہد حاضر کے مسلمان عالم دین ابو الاعلی مودودی نے اپنے ایک مضمون میں خوارج کے ان مذکورہ عقائد کا تجزیہ پیش کیا اور اہل سنت اور خوارج کے درمیان مختلف فیہ مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ خوارج کا عقیدہ ہے کہ ارتکاب معصیت کفر ہے اور اس طرح مرتکب کبائر اس وقت تک کافر رہتا ہے جب تک وہ اس معصیت سے تائب نہ ہو جائے۔ اسی عقیدے کی بنا پر وہ تمام مذکورہ اصحاب رسول کے خلاف زبان طعن دراز کرتے اور ان کی تکفیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عام مسلمان بھی کافر ہیں کیونکہ وہ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں، ان اصحاب رسول کو مومن اور مذہبی رہنما سمجھتے ہیں اور ان سے حدیثیں روایت کرتے ہیں۔[21] ان کا یہ بھی خیال ہے کہ خلافت کے لیے قریشی ہونا ضروری نہیں بلکہ کوئی بھی متقی پرہیزگار شخص خلیفہ بن سکتا ہے۔[21] نیز ان کے نزدیک خلیفۃ المسلمین کی اطاعت محض اس وقت تک واجب ہے جب تک وہ عدل و انصاف اور مشاورت کی راہ پر قائم رہے۔ اس راہ سے منحرف ہونے کی صورت میں خلیفہ کے خلاف خروج کر کے اسے معزول بلکہ قتل کر دینا ضروری ہے۔

اباضیہ

ترمیم

اباضیہ عبد اللہ بن اباض کے پیروکار ہیں، ان کے بہت سے عقائد اشعری، معتزلہ، اہل سنت اور بعض اہل تشیع سے ملتے ہیں۔ اباضیہ کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ خوارج کے مخالف ہیں وہ سب کافر ہیں لیکن مشرک نہیں، ان سے شادی بیاہ جائز ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ موحد ہیں، مومن نہیں ہیں۔[9]

شیعی مکاتب فکر

ترمیم

اہل تشیع مسلمانوں میں اہل سنت کے بعد دوسرا بڑا فرقہ ہے، انھیں مختصراً شیعہ بھی کہا جاتا ہے۔ اہل تشیع ان افراد کو کہتے ہیں جو علی بن ابی طالب کی افضلیت اور امامت و خلافت کے از روئے نص و وصیت رسول قائل ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کی امامت علوی خاندان سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اہل تشیع کے مشہور فرقے کیسانیہ، زیدیہ، اثنا عشریہ، باطنیہ اور اسماعیلیہ ہیں۔

زیدیہ

ترمیم

زیدیہ زید بن علی کے پیروکار ہیں۔ چونکہ زید بن علی نے اصول کی تعلیم معتزلہ کے بانی واصل بن عطا سے حاصل کی تھی، اس لیے اہل تشیع کا یہ مکتب فکر عقائد میں معتزلہ سے قریب تر ہے۔ البتہ کچھ مسائل میں ان دونوں کا اختلاف بھی ہوا مثلاً زیدی نظریہ امامت کو معتزلی رد کرتے ہیں۔ اہل تشیع کے دیگر فرقوں میں زیدیہ اہل سنت سے قریب تر ہیں۔[23] ان کے بہت سے عقائد اور فقہی مسائل سنیوں کے جیسے ہیں۔[24]

باطنیہ

ترمیم

باطنیہ عقیدے کو اصلاً ابو الخطاب محمد بن ابو زینب اسدی[25][26] نے اور بعد ازاں میمون قداح اور ان کے فرزند عبد اللہ بن میمون[27] نے متعارف کرایا۔ یہ عقیدہ قرآن کی تاویلی اور باطنی تشریحات پر مبنی ہے۔[28] باطنیہ عقیدے کے حامل افراد اسماعیلی یا اثنا عشری مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسماعیلی امامیہ

ترمیم

اسماعیلی امامیہ اہل تشیع کے فرقے اثنا عشریہ سے الگ ہیں۔ صدیوں سے ان اسماعیلیوں کے امام اور داعی مقرر ہوتے آئے ہیں، اثنا عشریہ کی طرح ان کے یہاں امامت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ اسماعیلی موسیٰ کاظم کے بڑے بھائی اسماعیل ابن جعفر کو ان کے والد جعفر صادق کے بعد اپنا امام راشد تسلیم کرتے ہیں۔[29] اسماعیلیوں کا اعتقاد ہے کہ اسماعیل نے جعفر صادق کی زندگی میں وفات پائی ہو یا نہ پائی ہو، انھوں نے اپنے بیٹے محمد بن اسماعیل مکتوم کو اگلا امام مقرر کر دیا تھا کیونکہ اسماعیل کی امامت پر نص کی گئی تھی۔ محمد بن اسماعیل ساتویں امام ہیں، لہذا ان پر سات کا دور مکمل ہوکر ائمہ مستورین کا آغاز ہوا۔ یہ ائمہ خفیہ طور پر ملکوں کے دورے کرتے اور اپنے داعیوں کو متعین کرتے ہیں۔ یہ اسماعیلی داعی پوشیدہ نہیں رہتے بلکہ علانیہ اپنے مریدین و متوسلین کی رہنمائی کرتے ہیں۔[30]

باطنی اثنا عشریہ

ترمیم

باطنی اثنا عشریہ کا مذہب علوی اور نصیری شیعوں پر مشتمل ہے۔ وہ فقہ جعفری کی پیروی نہیں کرتے بلکہ ان کی اپنی علاحدہ فقہ ہے۔ ان کی مشترکہ آبادی کا تناسب دنیا کے تمام مسلمانوں میں تقریباً ایک فیصد ہے۔[31]

علویت
ترمیم

علوی شیعہ کو بسا اوقات اثنا عشری شیعوں میں اور بعض اوقات علاحدہ مذہبی فرقہ شمار کیا جاتا ہے۔ علویوں کو علاحدہ فرقہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اپنا الگ فلسفہ، عقائد اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں صوفیانہ افکار بھی ملتے ہیں اور وہ بارہ اماموں کے بھی قائل ہیں۔ تاہم وہ تعدد ازدواج کے منکر اور ترکی کی شمن پرستی جیسی ماقبل اسلام کی مذہبی روایتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ مشرقی وسطی ترکی میں ان علویوں کو خاصا رسوخ حاصل ہے۔ علویوں کو بعض علما صوفی فرقہ بھی خیال کرتے ہیں جس کے یہاں اہل سنت یا اہل تشیع کی طرح مذہبی قیادت کی کوئی روایتی شکل نہیں ملتی۔ موجودہ دور میں سات سے گیارہ ملین علوی شیعہ جن میں اثنا عشری شیعہ بھی شامل ہیں، اناطولیہ میں سکونت پزیر ہیں۔[31]

علویوں کے الہیاتی مکتب فکر
ترمیم

ترکی میں اہل تشیع عموماً فقہ جعفری کے پیروکار ہیں۔ فقہ جعفری اہل تشیع کے چھٹے امام جعفر صادق سے منسوب ہے، اس فقہ کے پیروکاروں کو جعفری کہا جاتا ہے جبکہ عقیدتاً وہ اثنا عشری ہوتے ہیں۔ گوکہ ترک علوی شیعوں کو اثنا عشریوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کے عقائد فقہ جعفری سے جدا ہیں۔ علوی ترک کے عقائد میں کیسانیہ اور خرمیہ کی آمیزش بھی ملتی ہے۔ یہ دونوں فرقے غالی شیعوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ترک محقق عبد الباقی لکھتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی میں ظاہر ہونے والے قزلباش (آذربائیجان کی ایک مذہبی و سیاسی تحریک جس نے صفوی سلطنت کے قیام و استحکام میں خاصا اہم کردار ادا کیا تھا) خُرّمیہ کی روحانی اولاد تھے۔[32] علوی شیعوں کا ذیلی فرقہ سمجھے جانے والے قزلباش طریقت کے پیروکاروں کے یہاں دو شخصیتیں انتہائی قابل احترام تصور کی جاتی ہیں، پہلی شخصیت ابومسلم خراسانی ہے جنھوں نے خلافت امویہ کے سقوط اور خلافت عباسیہ کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے انھیں قتل کروا دیا اور دوسری شخصیت بابک خرمی ہے جنھوں نے خلافت عباسیہ کے خلاف خروج کیا تھا اور معتصم باللہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان دونوں شخصیتوں کے تئیں علویوں کا احترام اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ کیسانیہ اور خرمیہ سے متاثر رہے ہیں یا اسی تاثر کے نتیجے میں قزلباش وجود میں آئے۔ نیز صفوی طریقت کے مشہور رہنما اسماعیل صفوی بھی ان کے یہاں محترم خیال کیے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل تشیع کے نظریہ امامت سے بھی متاثر ہیں۔

ان کے عقائد باطنیہ اور تصوف کے مشترکہ فقہی نظام پر مبنی ہیں[28] جس میں قرامطہ کے کچھ نقطہ ہائے نظر بھی شامل ہیں۔ اس مشترکہ فقہی نظام کو اصلاً ابو الخطاب محمد بن ابو زینب اسدی نے متعارف کرایا تھا[25][26] اور بعد میں میمون قداح، ان کے فرزند عبد اللہ بن میمون[27] اور معتزلہ نے اسے مزید وسعت دے کر منظم و منقح کیا، بعد کی اس توسیع میں بارہ اماموں کا عقیدہ قابل ذکر ہے۔ علویوں کے یہاں رمضان کے روزے فرض نہیں سمجھے جاتے، تاہم بعض علوی ترک اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ نیز گاؤں میں رہنے والے قزلباش علویوں میں شمنیت کے بھی کچھ اعتقادات رائج ہیں۔ الغرض ترکی میں آباد اثنا عشری شیعوں کے عقائد معتزلی، جعفری، باطنی[28] اور نصیری عقائد کا امتزاج کہے جا سکتے ہیں۔ یہ علوی شیعہ ترکی کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی (یعنی سات سے گیارہ ملین) ہیں[33][34] اور بقیہ پچاسی فیصد آبادی اہل سنت کی ہے جن میں اشعری شوافع اور ماتریدی احناف کی کثرت ہے۔

علویوں کے عقائد
ترمیم

علوی شیعہ دیگر اہل تشیع سے جن امور میں اختلاف کرتے ہیں ان میں روزانہ پانچ نمازوں کی عدم ادائی اور سجدے (وہ اپنے روحانی رہنما کی موجودگی میں محض دو سجدے کرتے ہیں)، رمضان، حج (ان کے نزدیک مکہ میں حج بیت اللہ ایک ظاہری شے ہے جبکہ اصل حج دل میں داخلی ہوتا ہے) اور مسجد میں عدم حاضری قابل ذکر ہیں۔[35] کچھ علوی (یا بہتر الفاظ میں ان کے ذیلی فرقے) اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا انسانی اجسام میں حلول کرتا ہے، وہ تناسخ کے بھی قائل ہیں اور شریعت کو ضروری نہیں خیال کرتے۔[36] بعضوں کا خیال ہے کہ خلافت امویہ کے عہد میں اسلام میں بڑے پیمانے پر خود ساختہ اضافے کیے گئے ہیں، اسی دعوے کی بنیاد پر وہ بہت سے بنیادی امور کا انکار کرتے اور انھیں قرآن سے متصادم باور کراتے ہیں۔ کچھ علویوں کے یہاں روزانہ کی نمازیں اور ماہ رمضان کے روزے بھی ضروری نہیں ہیں۔ ان کے کچھ ذیلی فرقوں جیسے ایشقی اور بکتاشی وغیرہ (جو خود کو علوی شیعہ کہتے ہیں) کے یہاں نماز اور روزے کی اہمیت نہیں ہے جبکہ قرآن میں ان کی ادائی کا حکم متعدد جگہوں پر وارد ہوا ہے اور نہ وہ ان امور کو دین اسلام کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے عہد میں علویوں کے لیے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا ممنوع تھا۔ اپنے مذہب کو خارجی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ دروں ازدواجی پر شدت سے عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اب ایک نیم نسلی گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اہل سنت کے سیاسی یا مذہبی مرکز سے تعلق رکھنے پر پابندی ہے۔ جو علوی برادری سے باہر شادی کرتے، معاشی مدد کرتے یا ان کے ساتھ کھانا کھا لیتے ہیں تو انھیں سزائیں دی جاتی ہیں، ایسے افراد کے لیے سب سے بڑی سزا انھیں برادری سے باہر کرنا ہے۔ نیز سنی عدالتوں میں مرافعہ کے لیے جانا بھی ممنوع ہے۔[35]

بکتاشیہ
ترمیم
 
حاجی محمد بکتاش صوفی سلسلے بکتاشیہ کے بانی جو ملامتی قلندری شیخ قطب الدین حیدر کے مرید تھے جنھوں نے احمد یسوی کے عقیدے تصوف کے چار مراحل کو اپنی طریقت میں متعارف کیا۔

بکتاشیہ اہل تشیع کا ایک نظام تصوف ہے جسے تیرہویں صدی عیسوی میں سید محمد بکتاش نے متعارف کرایا۔ بکتاش مغل حملوں (سنہ 1219ء – 1223ء) کے وقت وسطی ایشیا چھوڑ کر اناطولیہ میں سلجوقوں کے یہاں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اس نظام کو دیہی علاقوں میں خوب مقبولیت ملی۔ بعد میں اس کی دو شاخیں پھوٹیں، پہلی شاخ چلبی ہے جن کا دعوی ہے کہ وہ سید بکتاش کی نسل سے ہیں اور "بیل اولادری" (شیر کی اولاد) کہلاتے ہیں، نیز نسل در نسل دیہی علویوں کے روحانی رہنما بھی یہی بنتے ہیں؛ اور دوسری شاخ بابغان ہے جو یول طریقت کے پیروکار ہیں اور انتخابات کے ذریعہ یہی افراد باضابطہ بکتاشی نظام تصوف کے قائد بنتے ہیں۔[35] بکتاشیوں کے یہاں ابن عربی کے نظریہ وحدۃ الوجود کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ نیز بکتاشیہ نے شیعی تصورات و عقائد سے خوب استفادہ کیا ہے چنانچہ ان کے یہاں تعظیم علی، بارہ امام اور معرکہ کربلا کی یاد میں یوم عاشورہ منانے کا رواج شیعیت سے ان کے تاثر کے مظاہر ہیں۔ یہ لوگ علی بن ابی طالب کی سالگرہ کے طور پر ایرانیوں کا قدیم تہوار نوروز بھی مناتے ہیں۔

وحدت الوجود کے نظریہ پر ایمان رکھنے کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حقیقت حق-محمد-علی میں محدود ہے اور یہ تینوں ایک ہی متحدہ وجود ہیں، البتہ وہ اسے تثلیث کی شکل میں نہیں مانتے۔ ان کے یہاں ایسے بہت سے اعمال اور رسم و رواج ہیں جو دوسرے مذاہب سے درآمد کیے گئے ہیں تاہم وہ اپنے تمام اعمال اور رسم و رواج کا ماخذ قرآن و سنت اور ان سے استنباط شدہ احکام کو بتاتے ہیں۔ ان کے عقائد کو تحریری شکل نہیں دی گئی اس لیے رسم و رواج اور مسائل وغیرہ میں آپسی اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بکتاشی دوسرے صوفیا کا بھی احترام کرتے ہیں مثلاً ابن عربی، امام غزالی اور جلال الدین رومی کو ان کے درمیان خاصا اعزاز حاصل ہے۔

بکتاشی عقائد
ترمیم

بکتاشیہ اصلاً ایک صوفی فرقہ ہے اس لیے ان کے یہاں دیگر صوفی تحریکوں کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہر انسان کو ایک روحانی رہنما کی ضرورت (جسے بکتاشیوں کے یہاں بابا کہا جاتا ہے) اور چار دروازوں (شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت) سے گزرنے کا تصور تصوف سے تاثر کا نتیجہ ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ قرآنی آیتوں کے دو مفہوم ہوتے ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔[37] باطنی مفہوم ظاہری سے برتر اور لا زوال ہوتا ہے۔ اس تصور کا اثر ان کے فہم کائنات و انسانیت میں بھی ملتا ہے۔ یہی نظریہ اسماعیلی اور باطنیہ کے یہاں بھی موجود ہے۔[28]

بکتاشی تصوف میں سالکین کو اپنے روحانی سفر میں حقیقت تک پہنچنے کے لیے متعدد مراحل یا درجے طے کرنا ہوتا ہے۔ درجہ اول کے سالکین "عاشق" کہلاتے ہیں، اس مرحلے میں تصوف کے اعمال شروع نہیں کیے جاتے بلکہ یگ گونہ نسبت پیدا ہوتی ہے۔ اعمال تصوف شروع کرنے کے بعد سالکین کو "محب" کہا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد محب مزید حلف یا قسمیں اٹھا کر درویش بن سکتا ہے۔ درویش کے بعد بابا کا مرحلہ آتا ہے، یہی بابا بکتاشی خانقاہوں کے سربراہ بنائے جاتے ہیں اور انھیں بیعت و ارشاد کی اجازت ہوتی ہے۔ بابا کے اوپر "خلیفہ بابا" (یا دادا) ہوتے ہیں۔ روایات کے مطابق ان بارہ میں سب سے بڑا رتبہ دادا بابا کا ہوتا ہے اور یہی رتبہ بکتاشی تصوف میں سب سے اونچا سمجھا جاتا ہے۔ دادا بابا کی اقامت گاہ کو "پیر ایوی" کہتے ہیں جو اناطولی قصبہ حاجی بیکتاش میں واقع سید محمد بکتاش کی مزار میں موجود ہے۔

اثنا عشریہ

ترمیم

اثنا عشریہ بارہ اماموں کے قائل ہیں۔ بارہویں امام کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ غیبت کبریٰ میں چلے گئے اور قیامت سے کچھ پہلے ظہور فرمائیں گے۔ شیعی احادیث میں ان اماموں کے اقوال بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کے کچھ عقائد اور اعمال پر بہت سے مسلمانوں کو سخت اعتراض ہے جن میں محرم کی عزاداری یعنی ماتم اور صحابہ پر تبرا قابل ذکر ہیں۔ اہل تشیع میں اثنا عشری 93 فیصد ہیں، اس لحاظ سے اثنا عشریہ اہل تشیع کا سب سے بڑا مکتب فکر سمجھا جاتا ہے۔ آذربائیجان، ایران، عراق، لبنان اور بحرین میں ان کی بڑی آبادی موجود ہے، نیز افغانستان، بھارت، پاکستان، کویت اور سعودی عرب کے مشرقی خطے میں بھی قابل ذکر تعداد آباد ہے۔ اثنا عشری شیعہ فقہ جعفری یا باطنی کی پیروی کرتے ہیں۔

امامی جعفریہ

ترمیم

فقہ جعفری کے پیروکار حسب ذیل جماعتوں میں منقسم ہیں۔ ان سب کے عقائد اثنا عشری ہیں۔

اصولیت
ترمیم

اثنا عشری شیعوں میں اصولیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وہ فقہ و تقلید میں مرجع کے تابع ہوتے ہیں۔ آذربائیجان، ایران، پاکستان، عراق اور لبنان میں ان کی بڑی تعداد آباد ہے۔

اخباری
ترمیم

اصولیوں کی طرح اخباری بھی عقیدتاً اثنا عشری ہیں لیکن وہ حدیث کے مقابلے میں اجتہاد کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ بحرین میں آباد ہیں۔

شیخیہ
ترمیم

شیخیہ دراصل ایک مذہبی تحریک ہے جسے انیسویں صدی عیسوی میں شیخ محمد نے ایران میں شروع کیا تھا۔ اس وقت ایران کے تخت پر قاجار خاندان متمکن تھا۔ اس تحریک کے ذریعہ صوفی، شیعی اور اخباری عقائد کو ملا کر ایک نیا نظام عقائد متعارف کرایا گیا۔ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں شیخیہ کی بڑی تعداد نے بابیت اور بہائیت اختیار کر لی جن میں شیخ احمد کو قابل احترام شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم عراق اور ایران میں اب بھی کچھ شیخیہ موجود ہیں۔

غالی امامیہ

ترمیم
نصیریہ
ترمیم

نصیری شیعوں کو نمیریہ اور انصاریہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا فقہی مذہب محمد بن نصیر نے اور عقائد خصیبی نے مرتب کیے۔ نیز وہ عقائد میں فقہ طبرانی پر بھی عامل ہیں۔[38] سنہ 1970ء کے اعداد و شمار کے مطابق شام اور لبنان میں ان کی تعداد دس لاکھ پچاس ہزار تھی جبکہ سنہ 2013ء کے اعداد و شمار میں شام کی تیئیس ملین آبادی میں نصیریوں کی آبادی کا تناسب دس سے بارہ فیصد تھا۔[39]

الہیاتی مکتب فکر
ترمیم

نصیری اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ بعض اہل سنت انھیں مسلمان نہیں سمجھتے۔[40] ان کے عقائد میں غناسطی، نو افلاطونی، اسلامی، مسیحی اور دیگر مذاہب کے عناصر یکجا ہیں، اس لحاظ سے ان کے عقائد اجتماع اضداد کا عمدہ نمونہ ہیں۔[41][42] ان کا مرکزی عقیدہ خدائی تثلیث ہے،[40][43][44] جس کی رو سے خدا کے تین مخارج ہیں: جوہر،[45] اسم یا حجاب اور باب۔[43][44][45][46] یہ مخارج تاریخ انسانی میں خود کو متعدد انسانی شکلوں میں متشکل کرتے رہے اور آخری مرتبہ علی بن ابی طالب (جوہر)، محمد بن عبد اللہ (اسم یا حجاب) اور سلمان فارسی (باب) کی شکلوں میں متشکل ہوئے۔[43][45][46][47] یہ دعویٰ کہ نصیری شیعہ علی کو خدا سمجھتے ہیں، بعض محققین نے اسے غلط قرار دیا ہے۔ علی درحقیقت ان کے نزدیک ایک جوہر ہے جس کی مدد سے مومنین خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔[48]

نصیریوں کا اعتقاد ہے کہ انسان دراصل ستارے تھے جنہیں نافرمانی کی سزا دینے کے لیے جنت سے نکال دیا گیا، اب دوبارہ جنت میں جانے سے پہلے انھیں متعدد مرتبہ تناسخ کے عمل سے گذرنا ہوگا۔[40][46] وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کافر ہو جائے تو اسے اگلے جنم میں جانور کا روپ دیا جاتا ہے۔[40][49] تاہم ان اعتقادات کی نئے مذہبی رہنماؤں نے تصدیق نہیں کی ہے۔[50] تاریخی جبر کی بنا پر ان کے یہاں تقیہ کا رواج عام ہے۔[51] ان کے بہت سے عقائد خفیہ ہیں جنہیں چند افراد کے سوا کوئی نہیں جانتا۔[52][53] اس بنا پر نصیریوں کو باطنی فرقہ بھی کہا جاتا ہے۔[54] وہ مسلمانوں کے تہواروں کے ساتھ ساتھ کچھ مسیحی تہوار مثلاً ولادت عیسیٰ اور کھجور کا تہوار بھی مناتے ہیں۔[55][56] ان کا سب سے اہم تہوار عید غدیر ہے۔

عقائد
ترمیم

نصیریوں کو ہمیشہ اثنا عشری شیعوں میں شمار کیا جاتا ہے، چنانچہ لبنان کے ممتاز شیعہ عالم موسی صدر نے انھیں اثنا عشری تسلیم کیا ہے۔[57] یروشلم کے سابق مفتی اعظم امین الحسینی نے عرب قومیت کے مفاد کی خاطر اپنے ایک فتوے میں نصیریوں کو امت مسلمہ کا حصہ قرار دیا۔[58][59] تاہم اثری سنی (عصر حاضر کے سلفی) علما مثلاً ابن کثیر (جو ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں) نے اپنی کتابوں میں انھیں پاگانوں سے تعبیر کیا ہے۔[52][60][61] شامی حکمران حافظ الاسد اور ان کے فرزند بشار الاسد نے اپنے نصیری رفقا کو مجبور کیا تھا کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح زندگی گزاریں یا کم از کم اپنے عقائد کو مخفی رکھیں۔[62] سنہ 1970ء کی دہائی میں العلويون شيعة أهل البيت یعنی "نصیری اہل بیت کے پیروکار ہیں" کے عنوان سے ایک کتابچہ شائع ہوا جس میں متعدد نصیری علما کے دستخط بھی تھے، اس کتابچے میں امامی شیعوں کے عقائد کو نصیری بتایا گیا تھا۔[63] نیز نصیریوں اور اثنا عشری شیعوں کے دیگر فرقوں کو متحد کرنے کے لیے ایک تحریک بھی اٹھی تھی جو شام اور قم میں تعلیمی تبادلہ پروگرام کے ذریعہ اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہی۔[64] بعض ذرائع کے مطابق شام کی اسدی حکومت میں نصیریوں کو سنی بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔[65] تاہم حافظ الاسد نصیریوں کو اثنا عشری شیعہ سمجھتے تھے۔[65] شامی قاضی علی سلیمان احمد لکھتے ہیں:

ہم علوی مسلمان ہیں۔ ہماری کتاب قرآن اور ہمارے نبی محمد ہیں۔ خانہ کعبہ ہمارا قبلہ اور اسلام ہمارا دین ہے۔[50]
قزلباش
ترمیم
عقائد
ترمیم
 
شاہ اسماعیل اول جس نے ترکمنوں میں قزلباش عقیدہ عام کرنے کی بہت کوششیں کیں۔

قزلباش اور بکتاشی طریقت کے عقائد و اعمال یکساں ہیں اور دونوں ہی علوی شیعہ کہلاتے ہیں۔ سترہویں صدی عیسوی تک سنی عثمانیوں اور صفوی اثنا عشریوں سے کٹ کر قزلباش اور بکتاشیہ نے اپنی علاحدہ روایتوں، اعمال اور عقائد کو منظم کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک الگ خود مختار مذہبی فرقہ ہیں۔ اہل سنت کی پیروی کرنے کے لیے ان پر زبردست دباؤ ڈالا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کے یہاں خارجی مذہب کی تمام شکلوں کی مخالفت کی روایت فروغ پائی۔[35]

غالی شیعوں کے تشبیہی عقائد
ترمیم

تجسیم کا عقیدہ سب سے پہلے عبد اللہ بن سبا نے پیش کیا تھا اور بعد ازاں ان غالی اہل تشیع کے یہاں محمد ابن حنفیہ، ابومسلم خراسانی، سنباد، اسحاق ترک، المقنع، بابک خرمی، مازیار اور اسماعیل صفوی خدائے مجسم قرار پائے۔

تشبیہ

ترمیم

کرامیہ

ترمیم

ذات خداوندی کے لیے تجسیم و تشبیہ کے قائل فرقہ کرامیہ کا بانی ابو عبد اللہ محمد بن کرام تھا۔[66] تیسری صدی ہجری میں خراسان میں اس فرقہ کا ظہور ہوا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا ایک مادی وجود ہے اور جب وہ عرش پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو مختلف جہتوں کا حامل اس کا ایک جسم بھی ہوتا ہے، جو اوپر جاتا اور نیچے بھی اترتا ہے۔[67][9][10] نیز اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے، یہ محض زبانی اقرار کا نام ہے خواہ دلی تصدیق ہو یا نہ ہو۔ اس فرقہ کے بارہ ذیلی فرقے تھے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Jeffry R. Halverson (2010)۔ Theology and Creed in Sunni Islam: The Muslim Brotherhood, Ash'arism, and Political Sunnism۔ Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 36۔ ISBN 9781137473578۔ The Atharis can thus be described as a school or movement led by a contingent of scholars (ulama), typically Hanbalite or even Shafi'ite, which retained influence, or at the very least a shared sentiment and conception of piety, well beyond the limited range of Hanbalite communities. This body of scholars continued to reject theology in favor of strict textualism well after Ash'arism had infiltrated the Sunni schools of law. It is for these reasons that we must delineate the existence of a distinctly traditionalist, anti-theological movement, which defies strict identification with any particular madhhab, and therefore cannot be described as Hanbalite. 
  2. Aaron Spevack (2014)۔ The Archetypal Sunni Scholar: Law, Theology, and Mysticism in the Synthesis of Al-Bajuri۔ State University of New York Press۔ صفحہ: 169۔ ISBN 978-1-4384-5370-5۔ The term Atharis is derived from athar, which implied transmitted content (rather than rationally derived content). 
  3. Halverson, Theology and Creed in Sunni Islam, 2010: 36
  4. Halverson, Theology and Creed in Sunni Islam, 2010: 36-7
  5. Swartz, Merlin. A Medieval Critique of Anthropomorphism. Brill, 2001, p.134-137 .
  6. Scholar of renown: Muhammad Abu Zahrah. Ed. Adil Salahi for Arab News. Published Wednesday, 14 November 2001; accessed Sunday 9 June 2013.
  7. "KARRĀMIYA"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  8. B. Lewis، V.L. Menage، Ch. Pellat، J. Schacht (1997) [1st. pub. 1978]۔ Encyclopaedia of Islam (New Edition)۔ Volume IV (Iran-Kha)۔ Leiden, Netherlands: Brill۔ صفحہ: 667۔ ISBN 9004078193 
  9. ^ ا ب پ Valerie J. Hoffman (2012)۔ The Essentials of Ibadi Islam۔ Syracuse University Press۔ صفحہ: 328۔ ISBN 978-0815650843۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  10. ^ ا ب Benjamin Fleming، Richard Mann (2014)۔ Material Culture and Asian Religions: Text, Image, Object۔ Routledge۔ صفحہ: 333۔ ISBN 978-1-135013738۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  11. Winter, Tim J. "Introduction." Introduction. The Cambridge Companion to Classical Islamic Theology. Cambridge: Cambridge UP, 2008. 4-5. Print.
  12. Madeleine Pelner Cosman, Linda Gale Jones, Handbook to Life in the Medieval World, p 391. آئی ایس بی این 1438109075
  13. Clinton Bennett, The Bloomsbury Companion to Islamic Studies, p 119. آئی ایس بی این 1441127887.
  14. John L. Esposito, The Oxford History of Islam, p 280. آئی ایس بی این 0199880417
  15. ^ ا ب "Scholar of renown: Abul-Hassan Al-Ash'ari"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  16. John Esposito (2017)۔ "The Muslim 500: The World's 500 Most Influential Muslims" (PDF)۔ The Muslim 500۔ 27 ستمبر 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2017 
  17. ^ ا ب John L. Esposito، مدیر (2014)۔ "Qadariyyah"۔ The Oxford Dictionary of Islam۔ Oxford: Oxford University Press۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2018۔ (تتطلب إشتراكا (معاونت)) 
  18. J. van Ess. Encyclopedia of Islam, 2nd ed, Brill. "Ķadariyya", vol.4, p. 368.
  19. Humanism in the renaissance of Islam: the cultural revival during the Buyid Age, by Joel Kramer,آئی ایس بی این 90-04-07259-4, آئی ایس بی این 978-90-04-07259-6
  20. Frank, Richard M. "The Autonomy of the Human Agent in the Teaching of 'Abd al-Gabbar." Le Museon 95(1982): 323–355
  21. ^ ا ب پ Abul Ala Maududi, "Khilafat-o-Malookeyat" in Urdu language, (Caliphate and kingship), p 214.
  22. Baydawi, Abdullah. "Tawali' al- Anwar min Matali' al-Anzar", circa 1300. Translated alongside other texts in the 2001 "Nature, Man and God in Medieval Islam" by Edwin Elliott Calverley and James Wilson Pollock. pp. 1001-1009
  23. "Telling the truth for more than 30 years - Sunni-Shi'i Schism: Less There Than Meets the Eye"۔ WRMEA۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2013 
  24. Yemen: The Bradt Travel Guide - Daniel McLaughlin - Google Books۔ Books.google.co.uk۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2013 
  25. ^ ا ب "Abu'l-Ḵaṭṭāb Asadī"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  26. ^ ا ب "Ḵaṭṭābiya"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  27. ^ ا ب "ʿAbdallāh B. Maymūn al-Qaddāḥ"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  28. ^ ا ب پ ت H Halm۔ "Bāṭenīya"۔ Encyclopedia Iranica۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2014 
  29. Rise of The Fatimids, by W. Ivanow. Page 81, 275
  30. "Ismaʿilism xvii. The Imamate in Ismaʿilism"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  31. ^ ا ب "Mapping the Global Muslim Population: A Report on the Size and Distribution of the World's Muslim Population"۔ Pew Research Center۔ October 7, 2009۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2010۔ Of the total Muslim population, 11-12% are Shia Muslims and 87-88% are Sunni Muslims. Seven to Eleven Million Alevis and Three to Four Million Alawis constitute nearly 10% of Shi'ites. 
  32. Roger M. Savory (ref. Abdülbaki Gölpinarli), Encyclopaedia of Islam, "Kizil-Bash", Online Edition 2005
  33. "Religions"۔ CIA World Factbook۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2018 
  34. "Mapping the Global Muslim Population"۔ Pew Research Center۔ 7 October 2009۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2018 
  35. ^ ا ب پ ت "The Alevi of Anatolia"۔ angelfire.com۔ 23 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2014 
  36. Heinz Halm (2004-07-21)۔ Shi'ism۔ Edinburgh University Press۔ صفحہ: 154۔ ISBN 978-0-7486-1888-0 
  37. B Radtke۔ "Bāṭen"۔ Encyclopedia Iranica۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2014 
  38. "Muhammad ibn Āliyy’ūl Cillī aqidah" of "Maymūn ibn Abu’l-Qāsim Sulaiman ibn Ahmad ibn at-Tabarānī fiqh" (Sūlaiman Affandy, Al-Bākūrat’ūs Sūlaiman’īyyah - Family tree of the Nusayri Tariqat, pp. 14-15, Beirut, 1873.)
  39. John Pike۔ "Alawi Islam"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  40. ^ ا ب پ ت "Alawi Islam". Globalsecurity.org
  41. Gisela Prochazka-Eisl، Prochazka, Stephan (2010)۔ The Plain of Saints and Prophets: The Nusayri-Alawi Community of Cilicia۔ صفحہ: 81۔ ISBN 3447061782 
  42. Yaron Friedman (2010)۔ The Nuṣayrī-ʻAlawīs: An Introduction to the Religion, History, and Identity of the Leading Minority in Syria۔ صفحہ: 67۔ ISBN 9004178929 
  43. ^ ا ب پ Gerhard et al. (eds.) Böwering (2012)۔ The Princeton Encyclopedia of Islamic Political Thought۔ صفحہ: 29۔ ISBN 0691134847 
  44. ^ ا ب Yaron Friedman (2010)۔ The Nuṣayrī-ʻAlawīs: An Introduction to the Religion, History, and Identity of the Leading Minority in Syria۔ صفحہ: 77۔ ISBN 9004178929 
  45. ^ ا ب پ Gisela Prochazka-Eisl، Prochazka, Stephan (2010)۔ The Plain of Saints and Prophets: The Nusayri-'Alawi Community of Cilicia۔ صفحہ: 82۔ ISBN 3447061782 
  46. ^ ا ب پ F.E. Peters (2009)۔ The Monotheists: Jews, Christians, and Muslims in Conflict and Competition, Volume II۔ صفحہ: 321۔ ISBN 1400825717 
  47. Yaron Friedman (2010)۔ The Nuṣayrī-ʻAlawīs: An Introduction to the Religion, History, and Identity of the Leading Minority in Syria۔ صفحہ: 80, 93–94۔ ISBN 9004178929 
  48. "The 'secretive sect' in charge of Syria"۔ BBC۔ 17 May 2012۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2012 
  49. Alawis, Countrystudies.us, U.S. Library of Congress.
  50. ^ ا ب 'Abd al‑Latif al‑Yunis, Mudhakkirat al‑Duktur 'Abd al‑Latif al‑Yunis, Damascus: Dar al‑`Ilm, 1992, p. 63.
  51. Secretive sect of the rulers of Syria, The Telegraph, 05 Aug 2011
  52. ^ ا ب "Alawi Islam"۔ Globalsecurity.org۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2018 
  53. The Nuṣayrī-ʻAlawīs۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  54. Lebanon: current issues and background, John C. Rolland (2003)۔ Nova۔ 1 August 2003۔ ISBN 9781590338711۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2012 
  55. Robert Kaplan (February 1993)۔ "Syria: Identity Crisis"۔ The Atlantic۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2018 
  56. Cyril Glasse (2001)۔ New Encyclopedia of Islam (Revised ایڈیشن)۔ Rowman & Littlefield Publishers۔ صفحہ: 105 
  57. Martin Kramer۔ "Syria's Alawis and Shi'ism"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2018۔ In their mountainous corner of Syria, the 'Alawī claim to represent the furthest extension of Twelver Shi'ism. 
  58. Y. Talhamy (2010)۔ "The Fatwas and the Nusayri/Alawis of Syria"۔ Middle Eastern Studies۔ 46 (2): 175–194۔ ISSN 0026-3206۔ doi:10.1080/00263200902940251 
  59. Me'ir Mikha'el Bar-Asher، Gauke de Kootstra، Arieh Kofsky (2002)۔ The Nuṣayr−i-ʻalaw−i Religion: An Enquiry Into Its Theology and Liturgy۔ BRILL۔ صفحہ: 1۔ ISBN 978-90-04-12552-0۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2011 
  60. "Syria crisis: Deadly shooting at Damascus funeral"۔ BBC News۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  61. Abd-Allah, Umar F., Islamic Struggle in Syria, Berkeley : Mizan Press, c1983, pp. 43–48
  62. Barry Rubin (2007)۔ The Truth about Syria۔ New York: Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 49۔ ISBN 9781403982735 
  63. Umar F. Abd-Allah (1983)۔ Islamic Struggle in Syria۔ Berkeley: Mizan Press۔ صفحہ: 43–48۔ ISBN 0933782101 
  64. Pan Esther (18 July 2006)۔ "Syria, Iran, and the Mideast Conflict"۔ Backgrounder۔ Council on Foreign Relations۔ 23 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2011 
  65. ^ ا ب Syrian comment. Asad's Alawi dilemma, 8 October 2004
  66. "KARRĀMIYA"۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2015 
  67. B. Lewis، V.L. Menage، Ch. Pellat، J. Schacht (1997) [1st. pub. 1978]۔ Encyclopaedia of Islam (New Edition)۔ Volume IV (Iran-Kha)۔ Leiden, Netherlands: Brill۔ صفحہ: 667۔ ISBN 9004078193 

بیرونی روابط

ترمیم