سعودی عرب
سعودی عرب (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔
مملکتِ سعودی عرب ٱلْمَمْلَكَة ٱلْعَرَبِيَّة ٱلسُّعُوْدِيَّة (عربی) | |
---|---|
شعار: | |
ترانہ: | |
دار الحکومت and largest city | ریاض 24°39′N 46°46′E / 24.650°N 46.767°E |
سرکاری زبانیں | عربی |
نسلی گروہ | عرب ۹۰ فیصد
|
مذہب (2010)[2] | اسلام 94.2 فیصد
مسیحیت 4.4 فیصد ہندو مت 1.1 فیصد بدھ مت 0.3 فیصد نوٹ: سعودی باشندے ۱۰۰ فیصد مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار غیر ملکی آبادی کے ساتھ ہے۔ |
آبادی کا نام | سعودی |
حکومت | بادشاہت |
• شاہ | سلمان بن عبدالعزیز |
• ولی عہد | محمد بن سلمان |
مقننہ | none[ب] |
قیام | |
• اماراتِ درعیہ | ۱۷۲۷ |
• اماراتِ نجد | ۱۸۲۴ |
• اماراتِ ریاض | ۱۳ جنوری، ۱۹۰۲ |
• مملکت سعودی عرب کے قیام کا اعلان | ۲۳ ستمبر، ۱۹۳۲ |
• اقوامِ متحدہ میں شمولیت | ۲۴ اکتوبر، ۱۹۴۵ |
• موجودہ دستور کی منظوری | ۳۱ جنوری، ۱۹۹۲ |
رقبہ | |
• کل | 2,149,690[5] کلومیٹر2 (830,000 مربع میل) (12th) |
• پانی (%) | 0.7 |
آبادی | |
• ۲۰۲۲ مردم شماری | 32,175,224[6] (اڑتالیس) |
• کثافت | 15/کلو میٹر2 (38.8/مربع میل) (ایک سو چوہتر) |
جی ڈی پی (پی پی پی) | ۲۰۲۳ تخمینہ |
• کل | ۲۲۴۶ کھرب امریکی ڈالر [7] (سترہواں) |
• فی کس | ۶۸۴۵۲ امریکی ڈالر [7] (پندرہواں) |
جی ڈی پی (برائے نام) | ۲۰۲۳ تخمینہ |
• کل | $1.069 trillion[7] (اُنسواں) |
• فی کس | $32,586[7] (چونتیسواں) |
جینی (2013) | 45.9[8] میڈیم |
ایچ ڈی آئی (2021) | 0.875[9] ویری ہائی · 35th |
کرنسی | ريال سعودي (SR)[پ] (SAR) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی+3 (AST) |
تاریخ فارمیٹ | دن/مہینہ/سال (ہجری) |
ڈرائیونگ سائیڈ | دائیں |
کالنگ کوڈ | +966 |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی |
قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔
چھٹی صدی کے اوائل میں، اللہ کے بھیجے ہوئے آخری رسول، محمد ﷺ نے جزیرہ نما عرب کی آبادی کو اکٹھا کیا اور ایک واحد اسلامی مذہبی حکومت قائم کی۔ سنہ 632ء میں ان کے وصال کے بعد ان کے پیروکاروں نے بیس سال کے اندر اندر، مغرب میں جزیرہ نما آئبیریا سے لے کر مشرق میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں تک، ایک وسیع علاقے کو فتح کرتے ہوئے، تیزی سے جزیرہ نما عرب سے باہر اسلام کی روشنی کو پھیلا دیا اور خلافت راشدہ(632–661) کے علاوہ اموی(661–750)، عباسی (750–1517) اور فاطمی(909–1171)خلافت کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ اور یورپ میں متعدد دیگر خاندانوں کی بنیاد رکھی۔
جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا: حجاز، نجد اور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیاد شاہ عبدالعزیز (مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنان بادشاہت رہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ سنی اسلام کے اندر انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک "سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میں سعودی وژن 2030ء کے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب، عربی کو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔
پیٹرولیم سنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکا کے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کو عالمی بینک کی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جو جی20 بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں یمنی خانہ جنگی میں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔
سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عرب تنظیمِ اقوام متحدہ، تنظیمِ تعاونِ اسلامی، عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اور تیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیک کا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔
جغرافیہ
ترمیمشمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر، اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
تاریخ
ترمیمسعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔
اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا، جس کے دوران میں جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
1902ء میں، عبد العزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران میں الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔ 8 جنوری 1926ء کو، عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927ء کو، انھوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو، معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پر عبدالعزیز ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ 1932ء میں، برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ 1938ء میں، تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔
سعودی عرب کے سعودی نام کی تاریخ
ترمیمحالیہ نام "سعودی" تقریباً 1727ء میں موجود سعودیہ کے وسط, ریاض میں آل سعود کی حکومت بنانے سے شروع ہوا.
پہلا سعودی دور
ترمیمجب ایک مقامی رہنما "محمد بن سعود" معروف اسلامی شخصیت اور وہابیت یا سلفی تحریک کے بانی محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اس وقت یہ علاقہ 'سلطنت عثمانیہ' کے کنٹرول میں تھا.
1805, 1806ء میں آل سعود نے مکہ مدینہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ 1818ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں نے ان سے سارا علاقہ واپس لے لیا۔ 1824ء میں سعود فیملی نے نجد کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
دوسرا سعودی دور
ترمیماسی دوران ایک نئی طاقت آل رشید سامنے آئی۔ نئی طاقت آل رشید و آل سعود میں آپس کی جنگیں جاری رہیں۔ اور آل رشید نے آل سعود کو 1892 میں حتمی شکست دے کر علاقہ چھوڑ کر کویت میں جلاوطنی پہ مجبور کر دیا۔
حجاز یعنی مکہ مدینہ میں عثمانیہ حکومت کے حکم پر داخل ہوئی مصری فوجیں 1840 میں علاقے سے نکل گئیں۔ اور شریف مکہ نے کنٹرول سنبھال لیا. ترکی نے برائے نام حکمرانی ساتھ آل سعود و آل رشید و شریف مکہ فیملی سمیت کئی قبائل کو اندرونی خود مختاری دی ہوئی تھی۔
تیسرا سعودی دور
ترمیم1902 میں آل سعود کے شاہ عبد العزیز کویت سے جلاوطنی سے واپس آئے اور سعودی اخوان تحریک, وہابی تحریک اور دیگر کی مدد کے ساتھ 1906 میں آل رشید کو شکست دے کر علاقے سے نکال دیا اور عثمانیہ سلطنت نے انھیں تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد مرکزی علاقہ سے ہٹ کر خلیج فارس کے ساتھ کے علاقہ الاحسا پہ قبضہ کر لیا۔ عبدالعزیز جنہیں ابن سعود بھی کہا جاتا تھا۔ نے "عرب بغاوت" سے دوری رکھی۔ اور آل رشید ساتھ مقابلے پہ فوکس رکھا۔ پھر 1920 میں عسیر علاقہ پہ قبضہ کیا۔ 1921 میں آل رشید کو مکمل دیس نکالا دے دیا۔
عرب بغاوت کی علاقہ کی تاریخ میں اہمیت
ترمیمشریف مکہ حسین بن علی نے انگریز میکموہن ساتھ عثمانیہ سلطنت خلاف ساز باز کرکے متحدہ عرب ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس میں لارنس آف عربیہ کا بھی رول رہا۔
1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہو چکی تھی۔ جس میں سلطنت عثمانیہ, جرمن سلطنت اور آسٹرو-ہنگروی سلطنت ایک طرف تھے اور روس, فرانس اور برطانیہ وغیرہ دوسری طرف۔
1916 میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے تمام عرب علاقے,شام,یمن,اردن اور موجودہ سعودیہ پہ مشتمل متحدہ عرب ریاست کے قیام اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی کا خواب دکھایا گیا۔ برطانوی فوجوں کی مدد سے عرب باغی فوجوں نے مکہ, مدینہ, اردن اور پھر دمشق فتح کر لیا۔
2016 سے 2018 کے دوران دمشق میں شام کی عرب کنگڈم قائم کرکے شریف مکہ کا بیٹا فیصل بادشاہ بنادیا گیا۔ لیکن پھر سائیکس معاہدے مطابق عرب علاقے سوائے سعودیہ کے, فرانس اور برطانیہ نے آپس میں تقسیم کرلیے۔ حجاز (مکہ اور مدینہ) کو شریف مکہ کے حوالے کیا گیا۔
آل سعود اور شریف مکہ, دونوں برطانوی رابطے میں اور امداد لینے والے تھے۔ شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ لیکن بعد میں, 1924 میں اسے برطانیہ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا۔
1925 میں عبدالعزیز نے حجاز پہ قبضہ کرکے خود کو شاہ حجاز ڈیکلیئر کیا۔ پھر شاہ نجد بنے۔ پھر 1932 میں دونوں بادشاہتوں(نجد اور حجاز) کو ضم کر کے سعودی عرب کا نام دیا گیا.
حجاز کی فتح بعد, سعودی اخوان برطانوی مقبوضہ اردن, عراق اور کویت کی طرف بڑھنا چاہتے تھے تاکہ اپنا مسلک وہاں بھی نافذ کریں لیکن عبدالعزیز اردن اور عراق وغیرہ برطانوی قبضے میں ہونے کی وجہ سے برطانیہ سے لڑائی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس پر اختلافات ہوئے تو اخوان نے بغاوت کردی لیکن وہ سختی سے کچل دی گئی۔ اور پھر سعودی حکومت استحکام حاصل کرتی چلی گئی.
لارنس آف عربیہ کا رول
ترمیملارنس نے پہلی جنگ عظیم شروع بعد خود کو بطور رضاکار پیش کیا اسے مصر میں پوسٹ کیا گیا. وہاں سے وہ عراق اور سعودی عرب مشنز پہ جاتا رہا اور اوپر ذکر کردہ عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت اور متحدہ عرب ریاست (بشمول شام,اردن,یمن,نجد اور حجاز) کی سازش میں شامل ہوا اور دوسرے انگریز افسروں ساتھ برطانیہ کے رابطہ افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل جو بعد میں شاہِ شام بنا, کے ساتھ نزدیکی معرکوں میں شامل رہا اور دمشق کی فتح میں ہم رکاب رہا۔ اس کے رول کو صحافی تھامس نے سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا۔
آل سعود
ترمیمسعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ہیں جو 15 جنوری 1877ء کو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب 1725ء میں آل سعود کے سربراہ امیر سعود بن محمد بن مقرن کی وفات ہوئی۔
اس زمانے میں نجد میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔
امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام محمد بن سعود تھا۔ وہ درعیہ کے حکمران بنے اور انھوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔
محمد بن سعود اور شیخ محمد عبد الوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعود نجد و حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔
1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔
شہزادہ محمد کے بعد امام عبد العزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ امام عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹے سعود حکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔
سعود کے بیٹے عبد اللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔
امام عبد اللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیں استنبول لے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔
مگر جلد ہی ان کے بھائی مشاری بن سعود اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔
اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہ ترکی بن عبداللہ ریاض پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک بر سر اقتدار رہے۔
اگلی کئی دہائیوں تک آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اور جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے مصر سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمران امام عبدالرحمن تھے، جو 1889ء میں بیعت لینے میں کامیاب ہوئے۔
امام عبد الرحمن کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز ایک مہم جُو شخصیت تھے اور 1900ء میں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں
1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔
اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے الاحسائی، قطیف اور نجد کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں حجاز پر (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔
حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔
7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔
21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اسی دوران امیر عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔
5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔
عوام نے امیر عبد العزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبد العزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔
13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبد العزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبد العزیز ابن عبد الرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔
20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبد العزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبد العزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔
شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔
دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشان دہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔
ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔
یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔
9 نومبر 1953ء کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود وفات پا گئے۔
سیاست
ترمیمسعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن پاک ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے۔
ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔
قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔
صوبے
ترمیمسعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کو عربی زبان میں مناطق (عربی واحد: منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔
نمبر شمار | صوبہ | رقبہ (مربع کلومیٹر) | آبادی (1999ء) |
---|---|---|---|
1 | الباحہ | 15,000 | 459,200 |
2 | الحدود الشماليہ | 127,000 | 237,100 |
3 | الجوف | 139,000 | 332,400 |
4 | المدينہ | 173,000 | 1,310,400 |
5 | القصيم | 65,000 | 933,100 |
6 | الرياض | 412,000 | 4,485,000 |
7 | الشرقيہ | 710,000 | 3,360,157 |
8 | عسير | 81,000 | 1,563,000 |
9 | حائل | 125,000 | 527,033 |
10 | جيزان | 11,671 | 1,186,139 |
11 | الحجاز | 164,000 | 5,797,971 |
12 | نجران | 119,000 | 367,700 |
13 | تبوک | 108,000 | 560,200 |
جغرافیہ
ترمیممملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ متحدہ عرب امارات، اومان اور یمن کے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔
موسم
ترمیمسعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پر برف باری نہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔
سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔
اعداد و شمار
ترمیم2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میں بھارت کے 14 لاکھ، بنگلہ دیش کے 10 لاکھ، پاکستان کے 9 لاکھ، فلپائن کے 8 لاکھ اور مصر کے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔
تعلیم
ترمیم1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔
آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جماعت، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائیشیا جرمنی اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
کالج و جامعات
ترمیمسعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرست
معیشت
ترمیمنقل وحمل
ترمیمملک بھر میں ایک بہترین نقل وحمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں ضلحی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ مدینہ،شاعز- دمام اور آخر میں ریاض طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[11] ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پر پیٹروکیمیکل کی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سعودی پورٹ اتھارتی ان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
کھیل
ترمیمسعودی عرب کا سب سے مقبول کھیل فٹ بال ہے۔ سعودی عرب گرمائی اولمپکس، والی بال، باسکٹ بال اور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میں ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني شامل ہیں۔
آبادیات
ترمیممذہب
ترمیماسلام سعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[12] اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[13][14] سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[15] سعوی عرب کے نفاذ شریعت اور اس کے انسانی حقوق متعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[16][17]
ثقافت
ترمیمسعودی ثقافت کی بنیاد مذہب اسلام ہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید سعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔
سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقص ارضیٰ ہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے۔ حجاز کی السہبا لوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرب اندلس سے جاملتی ہیں۔
سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جو ثوب کہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پر شماغ یا غطرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہر عبایہ اور نقاب کا استعمال کرتی ہیں۔
اسلام میں شراب نوشی اور سور کے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹی خبز کا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم ظہران اور راس تنورہ میں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
متعلقہ مضامین
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "The World Factbook"۔ 2 July 2014۔ 02 جولائی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Religious Composition by Country" (PDF)۔ 23 مارچ 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2021
- ↑ Robert W. Hefner (2009)۔ Remaking Muslim Politics: Pluralism, Contestation, Democratization۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 202۔ ISBN 978-1-4008-2639-1
- ↑ "Analysts: Saudi Arabia Nervous About Domestic Discontent"۔ www.voanews.com۔ VoA News – English۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2021
- ↑
- ↑ "Saudi Census 2022"۔ portal.saudicensus.sa۔ General Statistics Authority - Kingdom of Saudi Arabia۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2023
- ^ ا ب پ ت "World Economic Outlook Database, October 2023 Edition. (SA)"۔ IMF.org۔ International Monetary Fund۔ 10 October 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2023
- ↑ "The World Factbook"۔ CIA.gov۔ Central Intelligence Agency۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2019
- ↑ "Human Development Report 2021/2022" (PDF) (بزبان انگریزی)۔ United Nations Development Programme۔ 8 September 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2022
- ↑ Karin Strohecker (27 April 2016)۔ "Saudi riyal peg pressure eases, but not gone"۔ reuters.com۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2023
- ↑ "Arab News"
|archive-url=
is malformed: save command (معاونت) - ↑ "International Religious Freedom Report 2004"۔ US Department of State۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2012
- ↑ "World Report 2015: Saudi Arabia"۔ human rights watch۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017
- ↑ World Report 2018: Saudi Arabia۔ Retrieved فروری 3, 2018.
- ↑ http://www.moi.gov.sa/wps/wcm/connect/121c03004d4bb7c98e2cdfbed7ca8368/EN_saudi_nationality_system.pdf?MOD=AJPERES&CACHEID=121c03004d4bb7c98e2cdfbed7ca8368 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ moi.gov.sa (Error: unknown archive URL) Ministry of the Interior| dead link
- ↑ Human Rights Watch, World Report 2013۔ Saudi Arabia.] Freedom of Expression, Belief, and Assembly.
- ↑ Amnesty International, Annual Report 2013, Saudi Arabia آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ amnesty.org (Error: unknown archive URL)، Discrimination – Shi’a minority
حواشی
ترمیم- ↑ For Saudi citizens only.
- ↑ There is a Consultative Assembly, or Shura Council, which has no legislative power.[3] As its role is only consultative it is not considered to be a legislature.[4]
- ↑ Pegged to the United States dollar (USD) at 3.75 riyals per USD since 1986[10]
حاشیہ
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر سعودی عرب سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
سعودی عرب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
لغت و مخزن ویکی لغت سے | |
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے | |
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے | |
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے | |
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے |
- سعودی عربآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ saudi.gov.sa (Error: unknown archive URL) سرکاری ویب گاہ
- "Saudi Arabia"۔ کتاب عالمی حقائق۔ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی
- کرلی (ڈی موز پر مبنی) پر سعودی عرب
- سعودی عرب کا پروفائل بی بی سی نیوز سے
- ویکیمیڈیا نقشہ نامہ Saudi Arabia
- Saudi Arabia سفری راہنما منجانب ویکی سفر
- سعودی وزارت ثقافتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ saudinf.com (Error: unknown archive URL)
- سعودی عرب، البابآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-bab.com (Error: unknown archive URL)