سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست

سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کی فہرست
(عثمانی سلطان سے رجوع مکرر)

سلطنت عثمانیہ، کی حکومت جولائی 1299ء میں قائم ہوئی اور یکم نومبر 1922ء تک برقرار رہی۔ ان623 برسوں تک 36 عثمانی سلاطین نے فرماں روائی کی۔ آل عثمان کے آخری سلطان عبدالمجید ثانی تھے جنھیں رسماً خلیفہ مقرر کیا گیا تھا اور 3 مارچ 1924ء کو بالآخر انھیں معزول کر دیا گیا۔ ان کی معزولی پر سلطنت عثمانیہ کا عہد ختم ہو گیا۔ اپنے دور عروج میں سلطنت عثمانیہ نے شمال میں ہنگری سے لے کر جنوب میں یمن تک اور مغرب میں الجزائر سے لے کر مشرق میں عراق تک حکومت کی۔ سلطنت عثمانیہ کا سب سے پہلا دار الحکومت 1280ء میں سوغوت اور پھر 1323ء یا 1324ء تک بورصہ رہا۔ 1363ء میں سلطنت کے دار الحکومت کو ادرنہ (ایڈریانوپل) کی فتح کے بعد مراد اول نے ادرنہ منتقل کر دیا تھا۔ اور 1453ء میں محمد ثانی کی فتح قسطنطنیہ کے بعد قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں منتقل کر دیا گیا۔[1]

سلطان
سلطنت عثمانیہ
سابقہ بادشاہت
Imperial
شاہی نشان
بہترین معروف صاحب منصب
سلیمان اول
30 ستمبر 1520 – 6 ستمبر 1566
اولین بادشاہ/ملکہ عثمان اول (c. 1299–1323/4)
آخری بادشاہ/ملکہ محمد وحید الدین (1918–1922)
انداز شاہی عظمت والا خاندان
سرکاری رہائش گاہ استنبول میں محلات:
تقرر کنندہ عثمانی خاندان
بادشاہت کا آغاز ء1299
بادشاہت کا آختتام 1 نومبر 1922
عثمانیوں کا شاہی پرچم

سلطنت عثمانیہ 13ویں صدی کے آخر میں وجود میں آئی اور اس کا پہلا حکمران عثمان اول تھا۔ عثمان کا تعلق اوغوز ترکوں کے قائی قبیلہ سے تھا۔ [2] عثمان نے عثمانی خاندان کی بنیاد رکھی وہ 36 سلطانوں کے ادوار میں چھ صدیوں تک قائم رہی۔ سلطنت عثمانیہ مرکزی طاقتوں کی شکست کے نتیجے میں ختم ہو گئی، جن کے ساتھ اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحاد کیا تھا۔ فاتح اتحادیوں کے ذریعہ سلطنت کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں ترکی کی آزادی کی جنگ اور 1922ء میں سلطنت کے خاتمے اور جدید جمہوریہ ترکی کی پیدائش کا باعث بنی۔[3]

القابات

ترمیم

سلطان کو پادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ عثمانی استعمال میں لفظ "پدیشا" عام طور پر استعمال ہوتا تھا سوائے اس کے کہ "سلطان" کا براہ راست نام لیا جائے۔ [4]

نسلی اقلیتوں کی زبانوں میں سلطان کے نام : [5]

  • عربی : کچھ دستاویزات میں "پادشاہ" کی جگہ " ملک " ("بادشاہ") [6]
  • بلغاریائی : پہلے ادوار میں بلغاریائی لوگ اسے " زار " کہتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں زار کی بجائے "سلطان" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ [6]
  • یونانی : پہلے ادوار میں یونانی بازنطینی سلطنت کے طرز کا نام " باسیلیوس " استعمال کرتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں اس کی بجائے "سلطان" یا "سلطانوز" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ [6]
  • عبرانی ہسپانوی : پرانی دستاویزات میں، ("ال رے") لفظ بادشاہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ [6]

سلطنت عثمانیہ کا ریاستی نظام

ترمیم
 
1683 میں سلطنت عثمانیہ، یورپ میں اپنی علاقائی توسیع کے عروج پر۔

سلطنت عثمانیہ ایک مطلق بادشاہت تھی۔ پندرہویں صدی تک سلطان کے تحت سیاسی، فوجی، عدالتی، سماجی اور مذہبی صلاحیتوں میں کام کیا جاتا تھا۔ [a] وہ نظریاتی طور پر صرف خدا اور خدا کے قانون (اسلامی شریعت کے لیے ذمہ دار تھا) جس کے وہ چیف ایگزیکٹو تھے۔ [7] بادشاہ کی طرف سے ہر قانون فرمان کی صورت میں جاری کیا جاتا تھا۔ تمام بادشاہ سپریم ملٹری کمانڈر تھے۔ [8] عثمان (وفات 1323-4) ارطغرل کے بیٹے عثمانی ریاست کا پہلا حکمران تھا، جس نے اپنے دور حکومت میں بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع بتھینیا کے علاقے میں ایک چھوٹی سلطنت قائم کی۔ 1453ء میں محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کے بعد، عثمانی سلاطین نے خود کو رومی سلطنت کا جانشین ماننا شروع کیا اور وہ کبھی کبھار قیصر روم کا لقب استعمال کرتے تھے۔ عثمانی سلاطین اپنے لیے شہنشاہ [9][10][11] اور خلیفہ کا لقب بھی استعمال کرتے تھے۔ [b] نئے تخت نشین عثمانی حکمرانوں کو عثمان کی تلوار دی جاتی تھی، یہ ایک اہم تقریب تھی جو یورپی بادشاہوں کی تاجپوشی کے مترادف تھی۔ [12][13]

 
عثمانی خاندان کے سلطانوں کو دکھایا گیا پوسٹر، عثمان اول (اوپر بائیں کونے) سے محمد پنجم تک (درمیان میں بڑا پورٹریٹ)

اگرچہ نظریہ اصولی طور پر مطلق العنان تھا، لیکن عملی طور پر سلطان کے اختیارات محدود تھے۔ سیاسی فیصلوں میں خاندان کے اہم ارکان، افسر شاہی اور فوجی اداروں کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں کی رائے اور رویوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا تھا۔ [14] سولہویں صدی کی آخری دہائیوں کے آغاز سے، سلطنت میں عثمانی سلاطین کا کردار کم ہونا شروع ہوا، اس دور کو عثمانی سلطنت کی تبدیلی کا دور کہا جاتا ہے۔ وراثت میں تخت حاصل کرنے سے روکے جانے کے باوجود [15] شاہی حرم کی خواتین خاص طور پر حکمران سلطان کی والدہ، جو والدہ سلطان کے نام سے جانی جاتی تھیں نے پردے کے پیچھے رہ کر ایک اہم سیاسی کردار ادا کیا اور اپنے دور میں سلطنت پر مؤثر طریقے سے حکمرانی کی۔ ا س دور کو سلطنت عثمانیہ کی خواتین کی سلطنت بھی کہا گیا۔ [16]

آئینی بادشاہت عبدالحمید دوم کے دور میں قائم کی گئی تھی، جو اس طرح سلطنت کا آخری مطلق العنان حکمران اور پہلا آئینی بادشاہ بن گیا۔ [17] اگرچہ عبد الحمید دوم نے 1878ء میں ذاتی حکمرانی میں واپس آنے کے لیے پارلیمنٹ اور آئین کو ختم کر دیا تھا، لیکن انھیں 1908ء میں دوبارہ آئین سازی کو بحال کرنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں معزول کر دیا گیا۔ 2021ء میں عثمانی خاندان کے سربراہ ہارون عثمان ہیں، جو عبدالحمید ثانی کے پڑپوتے ہیں۔ [18]

عثمانی سلاطین کی فہرست

ترمیم

نیچے دی گئی جدول میں عثمانی سلطانوں کے ساتھ ساتھ آخری عثمانی خلیفہ کی بھی ترتیب میں فہرست دی گئی ہے۔ طغرا وہ خطاطی کی مہریں یا دستخط تھے جو عثمانی سلاطین استعمال کرتے تھے، جو وہ تمام سرکاری دستاویزات کے ساتھ ساتھ سکوں پر بھی آویزاں کرتے تھے اور سلطان کی شناخت میں اس کی تصویر سے کہیں زیادہ اہم تھے۔ "جائزہ اور مختصر واقعات " کالم میں ہر سلطان کی ولدیت اور دور حکومت کے بارے میں مختصر معلومات موجود ہیں۔ مؤرخ کوارٹرٹ کے مطابق : جب ایک سلطان وفات پا جاتا تھا، تو اس کے بیٹوں کو تخت کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا پڑتا تھا جب تک کہ کوئی فاتح سامنے نہ آئے۔ لڑائی جھگڑوں اور متعدد برادرانہ قتلوں کی وجہ سے اکثر سلطانوں کی وفات کی تاریخ اور جانشینی کی تاریخ کے درمیان وقت کا فرق ہوتا تھا۔[19] 1617ء میں جانشینی کا قانون بدل کر ایک ایسے نظام میں تبدیل کر دیا گیا جسے سنیارٹی ( اکبریت ) کہتے تھے۔ جس کے تحت تخت خاندان کے سب سے پرانے مرد کے پاس چلا جاتا تھا۔ 17 ویں صدی کے بعد سے ایک متوفی سلطان کا جانشین اس کا بیٹا ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر چچا یا بھائی یا بھتیجا ہوتے تھے۔[20] اس فہرست میں عثمانی مداخلت کے دوران دعویدار اور شریک دعویدار بھی درج ہیں، لیکن وہ سلطانوں کی رسمی تعداد میں شامل نہیں ہیں۔

شمار اسمائے سلاطین سلطنت عثمانیہ مع خطابات و القابات تصویر تاریخ تخت نشینی دستبرداری تاریخ پیدائش و وفات جائزہ اور مختصر واقعات طغرا سکے
1 عثمان اول

غازی فاتح

  جولائی 1299ء 1324ء

(25 سال حکمرانی کی )

1258ء –

اگست 1327ء

 
2 اورخان اول

غازی فاتح

  9 اگست 1327ء مارچ 1362ء

(38 سال حکمرانی کی )

1281ء–

مارچ 1362ء

  • عثمان اول اور ملہون خاتون کے بیٹے۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔
  • جنگ پیلیکانون (جون 1329ء)
  • محاصرہ نیقیہ (1328ء)
  • 1331ء میں نیقیہ سلطنت عثمانیہ میں ضم ہو گیا۔[22]
   
3 مراد اول

سلطان اعظم خداوندِگار شہید

  مارچ 1362ء 15 جون 1389ء

(27سال اور 03 ماہ حکمرانی کی )

29 جون 1326ء–

15 جون 1389ء

   
4 بایزید اول

سلطان روم بایزید یلدرم

  16 جون 1389ء 8 مارچ 1403ء

(13سال اور 65 دن حکمرانی کی )

1354ء–

8 مارچ 1403ء

  • مراد اول اورگلچیچک خاتون کے بیٹے۔
  • تیمور کے خلاف انقرہ کی جنگ میں میدان جنگ میں پکڑا گیا۔
  • 8 مارچ 1403 ء کو آکیہیر میں قید میں وفات پائی۔
  • جنگ نکوپولس (25 ستمبر 1396ء)
  • بلغاریہ سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوا۔
  • جامع مسجد اولو کی تعمیر تکمیل کو پہنچی (1399ء)
  • جنگ انقرہ (20 جولائی 1402ء)
  • سلطنت عثمانیہ کے زوال کا آغاز ہوا (8 مارچ 1403ء)[24]
   
زمانہ تعطل
(20 جولائی 1402ء– 5 جولائی 1413ء)
اس وقفے کے دوران میں کوئی سلطان تخت پر نہیں بیٹھا کیونکہ اس وقفے کے دوران میں عثمانی شہزادوں کے درمیان میں تخت و تاج کے لیے آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں لیکن دو یا تین شہزادے تخت پر ضرور بیٹھے تھے۔)
- عیسی چلبی

(سلطان مقبوضہ جاتِ مغربی اناطولیہ)

8 مارچ 1403ء 1406ء

( 03 سے 05 ماہ تک حکمرانی کی )

1380ء–

1406ء

  • اناطولیہ کے شریک سلطان
  • انقرہ کی جنگ کے بعد، عیسیٰ چلبی نے موسیٰ چلبی کو شکست دی اور تقریباً دو سال تک مغربی اناطولیہ کے علاقوں پر قبضہ کیا۔
  • مارچ یا مئی 1403 میں جنگ الباد میں محمد چلبی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
  • ستمبر 1403 میں گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔
- امیر

سلیمان چلبی (اول سلطان روم ایلی)

  20 جولائی 1402ء 17 فروری 1411ء

(8سال اور 212 دن حکمرانی کی )

1377ء–

17 فروری 1411ء[25]

  • انقرہ میں عثمانیوں کی شکست کے کچھ عرصے بعد سلطنت کے یورپی حصے کے لیے رومیلیا کے سلطان کا لقب حاصل کیا۔
  • 17 فروری 1411ء کو قتل کر دیا گیا۔[26]
   
- موسی چلبی

(دؤم سلطان روم ایلی)

  18 فروری 1411ء 5 جولائی 1413ء

(2سال اور 137 دن حکمرانی کی )

وفات: 5 جولائی 1413ء
  • 18 فروری  کو سلیمان چلبی کی وفات کے فوراً بعد سلطنت کے یورپی حصے کے لیے رومیلیا کے سلطان کا لقب حاصل کیا۔
  • 5 جولائی 1413 کو بلغاریہ میں ساموکوف کے قریب امورلو دربینٹ کی لڑائی میں محمد چلبی کی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔
  • جنگ چمورلو (5 جولائی 1413ء)[27][28]
 
- محمد چلبی

(سلطان اناطولیہ) سلطان مشرقی مقبوضہ جاتِ اناطولیہ 1403ء- 1406ء

سلطان  اناطولیہ 1406ء- 1413ء

  5 جولائی 1413ء 26 مئی 1421ء

(10 سال حکمرانی کی )

1381ء–

26 مئی 1421ء

  • انقرہ کی جنگ کے بعد شریک سلطان کی حیثیت سے مشرقی اناطولیہ کا کنٹرول حاصل کیا۔
  • 1405 ء میں اولوبت کی جنگ میں عیسی ٰ چلبی کو شکست دی۔
  • 1406 میں عیسیٰ کی موت کے بعد اناطولیہ کا واحد حکمران بن گئے۔
  • موسیٰ کی وفات کے بعد عثمانی سلطان محمد اول خان کا لقب حاصل کیا۔
سلطنت عثمانیہ کا عروج
(5 جولائی 1413ء– 29 مئی 1453ء)
5 محمد اول

سلطان محمد اول قرشچی چلبی

  5 جولائی 1413ء 26 مئی 1421ء

(7سال اور 325 دن حکمرانی کی )

1381ء–

26 مئی 1421ء

  • بایزید اول اور دولت خاتون کے بیٹے۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔
  • محاصرہ قسطنطنیہ 1422ء[29]
 
6 مراد ثانی

سلطان سلطنت عثمانیہ

  پہلے دورِ حکومت کا آغاز:

26 مئی 1421ء

دوسرے دورِ حکومت کا آغاز:

ستمبر 1446ء

پہلے دورِ حکومت کا اختتام: اگست 1444ء

دوسرے دورِ حکومت کا اختتام:

3 فروری 1451ء

(27سال اور 07 ماہ حکمرانی کی )

جون 1404ء–

3 فروری 1451ء

  • محمد اول اورامینہ خاتون کے بیٹے۔
  • اپنے بیٹے محمد دوم کے حق میں اپنی مرضی سے دستبردار ہو گئے۔
  • وارنا صلیبی معرکے (1443ء- 1444ء)
  • جنگ وارنا (10 نومبر 1444ء)
  • جنگ کوسووہ 1448ء (17 تا 20 اکتوبر 1448ء)
  • بلقانکے علاقے سلطنت عثمانیہ میں داخل ہو گئے۔[30]
    
7 محمد ثانی

سلطان محمد فاتح، سلطان سلطنت عثمانیہ

  پہلے دورِ حکومت کا آغاز:

اگست 1444ء

دوسرے دورِ حکومت کا آغاز:

3 فروری 1451ء

پہلے دورِ حکومت کا اختتام: ستمبر 1446ء

دوسرے دورِ حکومت کا اختتام:

3 مئی 1481ء

(32سال اور 04 ماہ حکمرانی کی )

30 مارچ 1432ء–

3 مئی 1481ء

  • مرادثانی اورہما خاتون کے بیٹے۔
  • جینسریوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار میں واپس آنے کے لیے کہنے کے بعد تخت اپنے والد کے حوالے کر دیا۔
  • فتح قسطنطنیہ (29 مئی 1453ء)
  • 1461ء میں سلطان محمد ثانی نے طرابزون فتح کر لیا۔ مملکت جانداریہ سلطنت عثمانیہ میں ضم ہوئی۔
  • 1459ء میں سلطان محمد ثانی کے حکم سے توپ قاپی محل کی بنیاد رکھی گئی۔
  • بوسنیا فتح ہوا (1463ء)
  • عثمانی وینیشیائی جنگیں (1463ء- 1479ء)
  • جنگ اوتلق بلی (11 اگست 1473ء)
  • 1475ء میں وزیر اعظم سلطنت عثمانیہ کدیک احمد پاشا نے کافہ(فیودوشیا) فتح کر لیا۔ جزیرہ نما کریمیا سلطنت عثمانیہ کا باجگزار بن گیا۔
  • 1478ء میں البانیا سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔
  • 1480ء میں وزیر اعظم سلطنت عثمانیہ کدیک احمد پاشا نے شہر اوٹرانٹو فتح کر لیا۔[31]
   
8 بایزید ثانی

سلطان سلطنت عثمانیہ،  ولی

  22 مئی 1481ء 26 مئی 1512ء

(30سال اور 342 دن حکمرانی کی )

3 دسمبر 1447ء–

26 مئی 1512ء

  • محمدثانی اور گلبہار خاتون کے بیٹے۔
  • 26 مئی 1512 ء کو دیدیموٹیکو کے قریب وفات پائی۔
  • 28 مئی 1481ء سے 20 جون 1481ء تک   جام سلطان اور بایزید ثانیکے مابین اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔
  • 1482ء میں ہرزیگووینا فتح ہوا۔
  • عثمانی-مملکوک جنگیں (1485ء- 1491ء)
  • 1487ء میںبیلیک کارامان فتح ہوا۔
  • عثمانی- وینیشیائی جنگیں (1499ء- 1503ء)[32]
   
9 سلیم اول

خلیفۃ الاسلام، امیرالمومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیم یَاوُز

  24 اپریل 1512ء 22 ستمبر 1520ء

(8سال اور 149 دن حکمرانی کی )

1470ء–

22 ستمبر 1520ء

  • پہلے عثمانی خلیفہ
  • بایزید ثانی اور گلبہار خاتون کے بیٹے۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔
  • جنگ چالدران (23 اگست 1514ء)
  • جنگ مرج دابق (24 اگست 1516ء)
  • جنگ ریدانیہ (22 جنوری 1517ء)
  • مصر سلطنت عثمانیہ کا صوبہ بن گیا (ایالت مصر
  • 22 جنوری 1517ء سے سلیم اول خلیفۃ المسلمین بن گیا اور خادم الحرمین الشریفین کا لقب اختیار کیا۔
  • 1517ء میں عثمانی امیر البحر پیری رئیسنے سلطان سلیم اول کو دنیا کا نقشہ پیش کیا۔
  • 1519ء میں خیر الدین بارباروسانے سلطنت عثمانیہ کی اطاعت قبول کرلی اور اُسے الجیریا کے عثمانی مقبوضات کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔
  • جلالی بغاوتیں[33]
   
10 سلیمان اول

سلطان سلطنت عثمانیہ،  سلطان سلیمان عالیشان، القانونی، محتشم

  30 ستمبر 1520ء 7 ستمبر 1566ء

(45سال اور 341 دن حکمرانی کی )

6 نومبر 1594ء–

7 ستمبر 1566ء

  • سلیم اول اور عائشہ حفصہ سلطان کے بیٹے۔
  • 1566 ء میں زیگیٹوار کے محاصرے کے دوران اپنے خیمے میں قدرتی وجوہات کی بنا پر وفات پائی۔
  • محاصرہ بلغراد (1521ء)، ہنگری افواج نے عثمانیوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور بلغراد سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا۔
  • رودوش فتح ہوا  (1522ء)
  • پارگلی ابراہیم پاشا کو وزیر اعظم سلطنت عثمانیہ مقرر کیا گیا (27 جون 1523ء)
  • جنگ موہاچ (29 اگست 1526ء)
  • محاصرہ ویانا (27 ستمبر تا 15 اکتوبر 1529ء)
  • 1534ء سے 1536ء تک سلطان سلیمان اول نے عراق کی دو مہمات میں بغداد کو فتح کر لیا۔
  • عثمانی-صفوی جنگ (1532ء- 1555ء)
  • پارگلی ابراہیم پاشا کو پھانسی دی گئی (15 مارچ 1536ء)
  • جنگ پریویزا (28 ستمبر 1538ء)
  • بوڈافتح ہوا (1541ء)۔ ہنگری کے تمام مقبوضہ جات پر عثمانی حکومت قائم ہو گئی۔
  • محاصرہ ٹریپولی (1551ء)، شہر ٹریپولی عثمانی حکومت کے دائرہ اختیار میں آ گیا۔
  • فتح مسقط (1552ء)، مسقط پرتگالیوں کی عملداری سے نکل کر عثمانی حکومت کا حصہ بن گیا (اگست 1552ء)
  • جنگ جربہ (9 مئی تا 14 مئی 1560ء)
  • عظیممحاصرۂ مالٹا جو ناکام ہو گیا (18 مئی تا 11 ستمبر 1565ء)
  • محاصرہ سگتوار (6 اگست تا 8 ستمبر 1566ء)
  • سلطان سلیمان اول کی وفات بمقام سگتوار (7 ستمبر 1566ء)[34]
   
11 سلیم ثانی

سلطان سلطنت عثمانیہ، سلطان سلیم ثانی ساری

  7 ستمبر 1566ء 15 دسمبر 1574ء

(8سال اور 77 دن حکمرانی کی )

28 مئی 1524ء–

15 دسمبر 1574ء

    
12 مراد ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد ثالث

  15 دسمبر 1574ء 16 جنوری 1595ء

(20سال اور 20 دن حکمرانی کی )

4 جولائی 1546ء–

16 جنوری 1595ء

   
13 محمد ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد ثالث عدلی

  16 جنوری 1595ء 22 دسمبر 1603ء

(8سال اور 340 دن حکمرانی کی )

26 مئی 1566ء–

22 دسمبر 1603ء

   
14 احمد اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الاول بختی

  22 دسمبر 1603ء 22 نومبر 1617ء

(13سال اور 335 دن حکمرانی کی )

18 اپریل 1590ء–

22 نومبر 1617ء

   
15 مصطفٰی اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الاول دعلی

  پہلے دورِ حکومت کا آغاز:

22 نومبر 1617ء

دوسرے دورِ حکومت کا آغاز:

20 مئی 1622ء

پہلے دورِ حکومت کا اختتام:

26 فروری 1618ء

دوسرے دورِ حکومت کا اختتام:

10 ستمبر 1623ء

(1سال اور 209دن حکمرانی کی )

24 جنوری 1591ء–

26 فروری 1618ء

  • محمد ثالث اور حلیمہ سلطان کے بیٹے۔
  • اپنے نوجوان بھتیجے عثمان دوم کے حق میں ذہنی عدم استحکام کی وجہ سے معزول ہوئے۔
    • اپنے بھتیجے عثمان دوم کے قتل کے بعد تخت پر واپس آئے۔
    • خراب ذہنی صحت کی وجہ سے دوبارہ معزول کیے گئے اور 20 جنوری 1639 کو استنبول میں اپنی وفات تک قید رہے۔[39]
 
16 عثمان ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عثمان الثانی جنک شہید

  26 فروری 1618ء 20 مئی 1622ء

(عثمان ثانی کے بعد مصطفٰی اول برسرِ تخت آیا۔)

(4سال اور 82 دن حکمرانی کی )

3 نومبر 1604ء–

20 مئی 1622ء

  • احمد اول اور خدیجہ سلطان کے بیٹے۔
  • 19 مئی 1622 کو ایک جنیسری فساد میں معزول ہوئے۔
  • 20 مئی 1622 ء کو وزیر کارا داؤد پاشا کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔[40]
   
17 مراد رابع

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد الرابع صاحبِ قِرآں، فاتح بغداد، غازی فاتح

  10 ستمبر 1623ء 8 فروری 1640ء

(16سال اور 151 دن حکمرانی کی )

26 جولائی 1612ء–

8 فروری 1640ء

  • احمد اول اور کوسم سلطان کے بیٹے۔
  • 1632 تک اپنی والدہ کوسم سلطان کی حکمرانی میں حکومت کی۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔[41]
 
18 ابراہیم اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان ابراہیم الاول، دعلی، فاتح کریٹ، شہید

  9 فروری 1640ء 8 اگست 1648ء

(8سال اور 181 دن حکمرانی کی )

5 نومبر 1615ء–

18 اگست 1648ء

  • احمد اول اور کوسم سلطان کے بیٹے۔
  • 8 اگست 1648 کو شیخ الاسلام کی سربراہی میں بغاوت کے ذریعے معزول کر دیے گئے۔
  • 18 اگست 1648 ء کو وزیر میولیوی محمد پاشا (سوفو محمد پاشا) کے کہنے پر استنبول میں گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔[42]
 
19 محمد رابع

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد الرابع، اوچی، غازی فاتح

  8 اگست 1648ء 8 نومبر 1687ء

(39سال اور 92 دن حکمرانی کی )

2 جنوری 1642ء–

6 جنوری 1693ء

  • ابراہیم اول اور تورخان سلطان کے بیٹے۔
  • 1651 ء تک اپنی دادی کوسم سلطان کے ماتحت حکومت کی۔
  • 1651ء سے 1656ء تک اپنی والدہ ترحان سلطان کے ماتحت حکومت کی۔
  • موہاکس کی دوسری جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے بعد 8 نومبر 1687 کو معزول کر دیا گیا۔
  • 6 جنوری 1693 ء کو ادرنہ میں وفات پائی۔[43]
 
20 سلیمان ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیمان الثانی، غازی

  8 نومبر 1687ء 22 جون 1691ء

(3سال اور 226 دن حکمرانی کی )

15 اپریل 1642ء–

22 جون 1691ء

   
21 احمد ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الثانی، خان غازی

  22 جون 1691ء 6 فروری 1695ء

(3سال اور 229 دن حکمرانی کی )

25 فروری 1643ء–

6 فروری 1695ء

 
22 مصطفٰی ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الثانی، غازی

  6 فروری 1695ء 22 اگست 1703ء

(8سال اور 197 دن حکمرانی کی )

6 فروری 1664ء–

22 اگست 1703ء

  • محمد چہارم اور گولنوش سلطان کے بیٹے۔
  • 22 اگست 1703 کو ایک جینسری بغاوت کے ذریعہ معزول کیا گیا جسے ایڈرن ایونٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • 8 جنوری 1704ء کو استنبول میں وفات پائی۔[46]
   
23 احمد ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان احمد الثالث، غازی

  22 اگست 1703ء یکم اکتوبر 1730ء

(27سال اور 40 دن حکمرانی کی )

دسمبر 1673ء–

یکم اکتوبر 1730ء

  • محمد چہارم اور گولنوش سلطان کے بیٹے۔
  • سرپرستہ حلیل کی سربراہی میں جینسری بغاوت کے نتیجے میں معزول کر دیا گیا۔
  • وفات یکم جولائی 1736ء کو ہوئی۔[47]
   
24 محمود اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمود الاول، غازی گوزپشت

  20 ستمبر 1730ء 13 دسمبر 1754ء

(24سال اور 72 دن حکمرانی کی )

2 اگست 1696ء–

13 دسمبر 1754ء

   
25 عثمان ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عثمان الثالث صوفو

  13 دسمبر 1754ء 30 اکتوبر 1757ء

(2سال اور 321 دن حکمرانی کی )

2 جنوری 1699ء–

30 اکتوبر 1757ء

   
26 مصطفٰی ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الثالث ینال اِیکچِی

  30 اکتوبر 1757ء 21 جنوری 1774ء

(16سال اور 83 دن حکمرانی کی )

28 جنوری 1717ء–

21 جنوری 1774ء

    
27 عبدالحمید اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد الحمید الاول، اصلاحتچِی، غازی

  21 جنوری 1774ء 7 اپریل 1789ء

(15سال اور 76 دن حکمرانی کی )

20 مارچ 1725ء–

7 اپریل 1789ء

   
28 سلیم ثالث

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان سلیم الثالث، بستیکار، نظامی، غازی

  7 اپریل 1789ء 29 مئی 1807ء

(18سال اور 52 دن حکمرانی کی )

24 دسمبر 1761ء–

29 جولائی 1808ء

  • مصطفٰی ثالث اور مہر شاہ سلطان کے بیٹے۔
  • اپنی اصلاحات کے خلاف کاباکی مصطفی کی قیادت میں جینسری بغاوت کے نتیجے میں معزول کر دیے گئے۔
  • عثمانی سلطان مصطفی رابع کے حکم پر 28 جولائی 1808 ء کو استنبول میں قتل کر دیا گیا۔[52]
   
29 مصطفٰی رابع

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مصطفٰی الرابع، غازی

  29 مئی 1807ء 28 جولائی 1808ء

(1سال اور 60 دن حکمرانی کی )

8 ستمبر 1779ء–

16 نومبر 1808ء

  • عبد الحمید اول اور عائشہ سلطان کے بیٹے۔
  • علیمدار مصطفی پاشا کی سربراہی میں بغاوت کے بعد معزول ہوئے۔
  • عثمانی سلطان محمود ثانی کے حکم پر 17 نومبر 1808 ء کو استنبول میں پھانسی دی گئی۔[53]
 
30 محمود ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمود الثانی، انقلاپچِی، غازی

  28 جولائی 1808ء یکم جولائی 1839ء

(30سال اور 338 دن حکمرانی کی )

20 جولائی 1784ء–

یکم جولائی 1839ء

  • عبد الحمید اول اور نقش دل سلطان کے بیٹے۔
  • 1826 ء میں پیش آنے والے مقدس واقعے کے نتیجے میں جنیسریوں کو تحلیل کر دیا۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔[54]
    
31 عبد المجید اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد المجید الاول، انتظاماتچِی، غازی

  یکم جولائی 1839ء 2 جون 1861ء

(21سال اور 359 دن حکمرانی کی )

25 اپریل 1823ء–

2 جون 1861ء

  • محمود ثانی اور بزم عالم سلطان کے بیٹے۔
  • 3 نومبر 1839 کو اصلاح پسند وزیر مصطفی راشد پاشا کے کہنے پر اصلاحات اور تنظیم نو کے تنزیمت دور کا آغاز کرنے والے گلہانی (تنزیمت فرمانی) کے شاہی فرمان کا اعلان کیا۔
  • 18 فروری 1856 ء کو اصلاح حات حمیون (شاہی اصلاحی فرمان) (اصلاح فرمانی) کو قبول کیا۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔[55]
    
32 عبد العزیز اول

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد العزیز الاول، بخت سیز، شہید، غازی

  2 جون 1861ء 30 مئی 1876ء

(14سال اور 340 دن حکمرانی کی )

9 فروری 1830ء–

30 مئی 1876ء

  • محمودثانی اور پرتیونیال سلطان کے بیٹے۔
  • ان کے وزراء نے انھیں معزول کر دیا۔
  • پانچ دن بعد مردہ (خودکشی یا قتل) پائے گئے۔[56]
    
33 مراد خامس

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان مراد الخامس، غازی

  30 مئی 1876ء 31 اگست 1876ء

(93 دن حکمرانی کی )

21 ستمبر 1840ء–

29 اگست 1904ء

  • عبد المجید اول اور شوق افزا سلطان کے بیٹے۔
  • خراب ذہنی صحت کی وجہ سے معزول
  • اراگان محل میں رہنے کا حکم دیا گیا جہاں وہ 29 اگست 1904 کو وفات پا گئے۔[57]
 
34 عبدالحمید ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد الحمید الثانی، اول السلطان خان عبد الحمید، غازی

  31 اگست 1876ء 27 اپریل 1909ء

(32سال اور 239 دن حکمرانی کی )

21 ستمبر 1842ء–

10 فروری 1918ء

  • عبد المجید اول اور تیر مجگان سلطان کے بیٹے۔
  • 23 نومبر 1876 کو پہلے آئینی دور کی اجازت دی اور پھر 13 فروری 1878 کو اسے معطل کر دیا۔
  • 3 جولائی 1908 کو دوسرے آئینی دور کو بحال کرنے پر مجبور کیا گیا۔
  • 31 مارچ کے واقعہ کے بعد معزول کر دیے گئے۔
  • 10 فروری 1918ء کو بیلربی پیلس تک محدود رہے جہاں ان کا انتقال ہو گیا۔[58]
   
35 محمد خامس

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد الخامس، الرشاد، غازی

  27 اپریل 1909ء 3 جولائی 1918ء

(9سال اور 67 دن حکمرانی کی )

2 نومبر 1844ء–

3 جولائی 1918ء

  • عبد المجید اول اور گل جمال قادین کے بیٹے۔
  • محمد طلعت، اسماعیل انور اور احمد سیمل پاشا کی شخصیت کے طور پر حکمرانی کی۔
  • اپنی موت تک حکومت کی۔[59]
   
36 محمد سادس (وحید الدین)

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان محمد السادس، وحید الدین

 
4 جولائی 1918ء یکم نومبر 1922ء

(4سال اور 120 دن حکمرانی کی )

14 جنوری 1861ء–

16 مئی 1926ء

  • عبد المجید اول اور گلستان قادین کے بیٹے۔
  • سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
  • 17 نومبر 1922 کو استنبول چھوڑ دیا۔
  • 16 مئی 1926ء کو اٹلی کے شہر سانریمو میں جلاوطنی کے دوران وفات پائی۔[60]
   

سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کے خلیفہ

ترمیم
شمار نام تصویر تخت نشینی دستبرداری/ وفات تاریخ پیدائش و وفات
37 عبدالمجید ثانی

خلیفۃ الاسلام، امیر المومنین، سلطان سلطنت عثمانیہ، خادم الحرمین الشریفین سلطان عبد المجید الثانی آفندی

  یکم نومبر1922ء 3 مارچ 1924ء

(1سال اور 106 دن حکمرانی کی )

30 مئی 1868ء–

23 اگست 1944ء[61][62][63]

بعد از خاتمہ سلطنت عثمانیہ

ترمیم
  • عبد المجید ثانی (1926ء تا 1944ء)
  • احمد چہارم نہاد (1944ء تا 1954ء)
  • عثمان چہارم فواد (1954ء تا 1973ء)
  • محمد عبد العزیز ثانی (1973ء تا 1977ء)
  • علی واسب (1977ء تا 1983ء) *
  • محمد ہفتم اورخان (1983ء تا 1994ء)
  • ارطغرل عثمان پنجم (1994ء تا 2009 )
  • بایزید عثمان (2009 تا حال)

عثمانی شجرہ نسب

ترمیم
 
 
 
 
 
عثمان اول
1258-1299-1326
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
اورخان اول
1284-1326-1359
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
مراد اول
1326-1359-1389
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
بایزید یلدرم
1357-1389-1403
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمد اول
1387-1403-1421
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
مراد دوم
1404-1451
r. 1421-44, 1446-51
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمد فاتح
1432-1481
r. 1444-46, 1451-81
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
بایزید دوم
1448-1481-1512
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
سلیم اول
1466-1512-1520
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
سلیمان اول
1494-1520-1566
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
سلیم دوم
1524-1566-1574
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
مراد سوم
1546-1574-1595
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمد ثالث
1566-1595-1603
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
احمد اول
1590-1603-1617
 
مصطفی اول
1591-1639
r. 1617-18, 1622-23
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
عثمان دوم
1604-1618-1622
 
مراد چہارم
1612-1623-1640
 
ابراہیم
1615-1640-1648
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمد چہارم
1642-1693
r. 1648-1687
 
سلیمان دوم
1642-1687-1691
 
احمد ثانی
1643-1691-1695
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
مصطفی دوم
1664-1695-1703
 
 
 
 
 
 
احمد سوم
1673-1736
r. 1703-1730
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمود اول
1696-1730-1754
 
عثمان سوم
1699-1754-1757
 
مصطفی سوم
1717-1757-1774
 
 
 
عبدالحمید اول
1725-1774-1789
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
سلیم سوم
1761-1808
r. 1789-1807
 
مصطفی چہارم
1779-1807-1808
 
محمود دوم
1785-1808-1839
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
عبد المجید اول
1823-1839-1861
 
عبد العزیز اول
1830-1861-1876
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
مراد پنجم
1840-1904
r. 1876
 
عبدالحمید دوم
1842-1918
r. 1876-1909
 
محمد پنجم
1844-1909-1918
 
محمد سادس
1861-1926
r. 1918-1922

مزید دیکھیے

ترمیم

ترقیم

ترمیم
a2 : عثمانی حکمران کا مکمل انداز پیچیدہ تھا، کیونکہ یہ کئی عنوانات پر مشتمل تھا اور صدیوں میں تیار ہوا۔ سلطان کا لقب تقریباً شروع سے ہی تمام حکمرانوں نے لگاتار استعمال کیا۔ تاہم، چونکہ یہ مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی، اس لیے عثمانیوں نے اپنے آپ کو کم حیثیت کے دوسرے مسلم حکمرانوں سے الگ کرنے کے لیے اس کی مختلف حالتوں کو اپنایا۔ مراد اول، تیسرا عثمانی بادشاہ، نے خود کو سلطان اعظم (سلطان اعظم، سب سے اعلیٰ سلطان) اور ہوداویندیگر (خداوندگار، شہنشاہ) کے القابات سے موسوم کیا، جو بالترتیب اناطولیہ سلجوقیوں اور منگول الخانیوں کے ذریعہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بیٹے بایزید اول نے روم کا سلطان طرز اپنایا، روم سلطنت روم کا پرانا اسلامی نام تھا۔ عثمانیوں کے اسلامی اور وسطی ایشیائی ورثے کے امتزاج نے اس لقب کو اپنایا جو عثمانی حکمران کا معیاری عہدہ بن گیا: سلطان [نام] خان۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ مغربی دنیا میں سلطان کا لقب اکثر عثمانیوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، ترکی میں لوگ عموماً عثمانی خاندان کے حکمرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے پادشاہ کا لقب زیادہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
(ب): سلطنت عثمانیہ کے حکمران کا مکمل اعزازی لقب تاریخ کے سب سے پیچیدہ اعزازی لقبوں میں سے ایک تھا، کیونکہ یہ کئی دیگر عنوانات پر مشتمل تھا اور وقت کے ساتھ ارتقا پزیر ہوا۔ سلطان کا لقب سلطنت عثمانیہ کی سلجوق سلطنت روم سے آزادی کے بعد سے عثمانی حکمرانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور سب سے عام لقب تھا اور ان میں سے متعدد کو قاہرہ میں مقیم عباسی خلیفہ نے اسلامی قوم کے لیے ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں "سرکاری طور پر" معزول کر دیا تھا اور عباسی خلیفہ سے یہ لقب حاصل کرنے والے سلطانوں سے: مراد اول اور محمد فاتح۔ تاہم، چونکہ یہ لقب اسلامی دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا، عثمانیوں نے خود کو باقی اسلامی ریاستوں اور خاندانوں سے ممتاز کرنے کے لیے "سلطان" کے لقب کے علاوہ دیگر لقب شامل کیے، خاص طور پر اس وقت جب ان کی امارت بکھری ہوئی عباسی ریاست کی جانشینی کے لیے سب سے مضبوط امارت امیدوار بن گئی اور بالآخر خلافت کا لقب حاصل کیا۔ عثمانی خاندان کے تیسرے حکمران مراد اول نے خود کو "عظیم سلطان" اور "خداوندگر" کے لقب سے معزول کر دیا، (مؤخر الذکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی سے حکمران تھا یا خدا کے حکم سے، وہ "مراد اللہ" ہے) اور یہ اعزازی لقب پہلے بالترتیب سلجوق ترکوں اور منگول الخانیوں کے ذریعہ استعمال کیے جاتے تھے۔ بایزید اول بن مراد نے رومیوں کے سلطان کا لقب نقل کیا ہے اور رومیوں سے مراد "رومیوں کا ملک" ہے، یعنی اناطولیہ، جو صدیوں تک بازنطینی رومیوں کا ملک تھا، لہذا یہ مسلم مؤرخین کو بھی معلوم تھا اور یادداشت اور لوک داستانوں میں محفوظ رہا۔ عثمانیوں کی قدیم اسلامی اور ترک ثقافتی وراثت کے امتزاج کی وجہ سے عثمانی خاندان کے تمام سلطانوں کا منفرد لقب ابھرا جو ریاست کے زوال تک ان کے ساتھ تھے: سلطان [فلاں] خان۔ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ "سلطان" کا لقب مغربی اور یہاں تک کہ عرب دنیا میں لوگوں میں عام تھا اور ریاست کے حکمرانوں کا حوالہ دیتا تھا، عثمانی ترکوں نے حکمران کو "پدیشاہ" کہا، جس کا مطلب بادشاہ یا بادشاہ ہے۔ سلطانوں کا پورا لقب وہی بن گیا جو اوپر ذکر کیا گیا تھا اور یہ ریاست کی سرحدوں کے استحکام کے بعد وہی بن اس عنوان کے کچھ حصے کی عربائزیشن کا ذکر کتاب "عثمانی اٹک ریاست کی تاریخ" میں کیا گیا تھا، جو سلطنت عثمانیہ پر عربی میں لکھی گئی سب سے اہم تاریخی حوالہ جات میں سے ایک ہے، اس کے مصنف، وکیل پروفیسر محمد فرید بے اور سلطان سلیمان کے فرانکوئس اول کو لکھے گئے خط میں موجود عنوان کی عربائزیشن۔ فرانس کے بادشاہ مندرجہ ذیل ہیں:[64]

"میں سلطانوں کا سلطان ہوں، خواکین کا ثبوت ہوں، بادشاہوں کا تاج ہوں، دونوں ممالک میں خدا کا سایہ ہے، بحیرہ اسود کا سلطان، بحیرہ اسود، اناطولیہ، رومیلی، قرمان الروم، ذوالقریعہ کی ولایت، دیارباقر، کردستان، آذربائیجان، عجم، لیونت، حلب، مصر، مکہ، مدینہ، یروشلم اور تمام عرب ممالک۔ یمن اور بہت سی سلطنتیں جنھیں میرے آباء و اجداد نے فتح کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی قوت سے ان کی نشانیوں کو روشن کیا۔ اور بہت سے دوسرے ممالک کا افتتاح میرے ہاتھ سے کیل کی تلوار سے کیا گیا، میں سلطان سلیمان خان بن سلطان سلیم خان ہوں، سلطان بایزید خان کے بیٹے۔

b2 : خلافت عثمانیہ ان کی روحانی طاقت کی علامت تھی، جب کہ سلطنت ان کی دنیاوی طاقت کی نمائندگی کرتی تھی۔ عثمانی تاریخ نویسی کے مطابق، مراد اول نے اپنے دور حکومت (1362 تا 1389) کے دوران خلیفہ کا لقب اختیار کیا اور سیلم اول نے بعد میں 1516-1517 میں مصر کی فتح کے دوران خلیفہ کی اتھارٹی کو مضبوط کیا۔ تاہم، جدید علما کے درمیان عام اتفاق ہے کہ عثمانی حکمرانوں نے مصر کی فتح سے پہلے خلیفہ کا لقب استعمال کیا تھا، جیسا کہ مراد اول (1362-1389) کے دور حکومت میں تھا، جس نے بلقان کے بیشتر علاقوں کو عثمانی حکمرانی کے تحت لایا اور قائم کیا۔ 1383 میں سلطان کا لقب۔ فی الحال اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت ڈھائی صدیوں کے لیے "غائب" ہو گئی تھی، اس سے پہلے کہ 1774 میں سلطنت عثمانیہ اور روس کی کیتھرین دوم کے درمیان معاہدہ Küçük Kaynarca کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گیا تھا۔ یہ معاہدہ انتہائی علامتی تھا، کیونکہ اس نے خلافت کے عثمانیوں کے دعوے کو پہلی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے نے سلطنت عثمانیہ کے کریمیائی خانات کے نقصان کو باضابطہ بنا دیا، لیکن اس نے روس میں مسلمانوں پر عثمانی خلیفہ کے مسلسل مذہبی اختیار کو تسلیم کیا۔ 18ویں صدی کے بعد سے، عثمانی سلاطین نے یورپی سامراج کو گھیرنے کے سلسلے میں سلطنت کے مسلمانوں میں پان اسلامسٹ جذبات کو ابھارنے کے لیے خلیفہ کے طور پر اپنی حیثیت پر تیزی سے زور دیا۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو سلطان/خلیفہ نے 1914 میں سلطنت عثمانیہ کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کی کال جاری کی، جس میں فرانسیسی، برطانوی اور روسی سلطنتوں کی رعایا کو بغاوت پر اکسانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ عبد الحمید ثانی عثمانی سلطان تھے جنھوں نے اپنے خلیفہ کے عہدے کا سب سے زیادہ استعمال کیا اور بہت سے مسلم سربراہان مملکت نے اسے خلیفہ کے طور پر تسلیم کیا، حتیٰ کہ سماٹرا تک بھی۔ اس نے 1876 کے آئین (آرٹیکل 4) میں شامل عنوان پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Stavrides 2001, p. 21
  2. Kafadar 1995, p. 122. "یہ کہ ان کا تعلق Oğuz کنفیڈریسی کی Kayı برانچ سے تھا، لگتا ہے کہ پندرہویں صدی کے نسب پرستی میں ایک تخلیقی "دوبارہ دریافت" ہے۔ یہ نہ صرف احمدی میں بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یحیی فقیہ-آقپازادے داستان میں غائب ہے، جو نوح کے پاس واپس جانے والے ایک وسیع شجرہ نسب کا اپنا ورژن پیش کرتا ہے۔ اگر Kayı نسب کا کوئی خاص دعویٰ ہوتا تو یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یحیی فقیہ نے اس کے بارے میں نہ سنا ہوگا۔ ." Lowry 2003, p. 78. "ان چارٹروں کی بنیاد پر، جن میں سے سبھی 1324 اور 1360 کے درمیان تیار کیے گئے تھے (تقریباً ایک سو پچاس سال قبل عثمانی خاندان کے خرافات کے ظہور سے ان کی شناخت ترک قبائل کی Oguz فیڈریشن کی Kayı شاخ کے ارکان کے طور پر کی گئی تھی)۔ ..." Lindner 1983, p. 10. "درحقیقت، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کس طرح بھی کوشش کی جائے، ذرائع محض ایک خاندانی درخت کی بازیابی کی اجازت نہیں دیتے جو عثمان کے سابقہ کو اوز قبیلے کے کائی سے جوڑتا ہے۔ ایک ثابت شجرہ نسب کے بغیر یا یہاں تک کہ ایک ہی نسب کو پیش کرنے کے لیے کافی دیکھ بھال کے ثبوت کے بغیر تمام عدالتی تاریخ نگاروں کو پیش کیا جائے، ظاہر ہے کہ کوئی قبیلہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح، ابتدائی عثمانی تاریخ میں قبیلہ ایک عنصر نہیں تھا۔"
  3. Glazer 1996, "War of Independence"
  4. Strauss 2010, pp. 21–51.
  5. Strauss 2010, pp. 21–51.
  6. ^ ا ب پ ت Strauss 2010, pp. 21–51.
  7. Findley 2005, p. 115
  8. Glazer 1996, "Ottoman Institutions"
  9. Findley 2005, p. 115
  10. Toynbee 1974, pp. 22–23
  11. Stavrides 2001, p. 20
  12. Quataert 2005, p. 93
  13. d'Osman Han 2001, "Ottoman Padishah Succession"
  14. Glazer 1996, "Ottoman Institutions"
  15. Quataert 2005, p. 90
  16. Leslie Peirce۔ "The sultanate of women"۔ Channel 4۔ 03 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2009 
  17. Glazer 1996, "External Threats and Internal Transformations"
  18. "Last heir to Ottoman throne passes away at 90"۔ Daily Sabah۔ 19 January 2021 
  19. Quataert 2005, p. 91
  20. Quataert 2005, p. 92
  21. "Sultan Osman Gazi"۔ وزارة الثقافة والسياحة (تركيا)۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  22. "Sultan Orhan Gazi"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  23. "Sultan Murad Hüdavendigar Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  24. "Sultan Yıldırım Beyezid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  25. Nicholae Jorga: Geschishte des Osmanichen (Trans :Nilüfer Epçeli) Vol 1 Yeditepe yayınları, İstanbul,2009,ISBN 975-648017 3 p 314
  26. Jorga 2009, p. 314.
  27. Prof. Yaşar Yüce-Prof. Ali Sevim: Türkiye tarihi Cilt II, AKDTYKTTK Yayınları, İstanbul, 1991 p 74-75
  28. Joseph von Hammer:Osmanlı Tarihi cilt I (condensation: Abdülkadir Karahan), Milliyet yayınları, İstanbul. p. 58-60.
  29. "Sultan Mehmed Çelebi Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  30. "Chronology: Sultan II. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2009 
  31. "Fatih Sultan Mehmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 10 أكتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  32. "Sultan II. Bayezid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 18 نومبر2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  33. "Yavuz Sultan Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  34. "Kanuni Sultan Süleyman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  35. "Sultan II. Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  36. "Sultan III. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  37. "Sultan III. Mehmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  38. "Sultan I. Ahmed"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  39. "Sultan I. Mustafa"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  40. "Sultan II. Osman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  41. "Sultan IV. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  42. "Sultan İbrahim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  43. "Sultan IV. Mehmed"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  44. "Sultan II. Süleyman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  45. "Sultan II. Ahmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  46. "Sultan II. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  47. "Sultan III. Ahmed Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  48. "Sultan I. Mahmud Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  49. "Sultan III. Osman Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  50. "Sultan III. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  51. "Sultan I. Abdülhamit Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  52. "Sultan III. Selim Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  53. "Sultan IV. Mustafa Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  54. "Sultan II. Mahmud Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  55. "Sultan Abdülmecid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  56. "Sultan Abdülaziz Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  57. "Sultan V. Murad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  58. "Sultan II. Abdülhamid Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 06 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  59. "Sultan V. Mehmed Reşad Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  60. "Sultan VI. Mehmed Vahdettin Han"۔ جمہوریہ ترکیہ وزارت ثقافت اور سیاحت۔ 24 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2009 
  61. As̜iroğlu 1992, p. 13
  62. As̜iroğlu 1992, p. 17
  63. As̜iroğlu 1992, p. 14
  64. تاريخ الدولة العليّة العثمانية، تأليف: الأستاذ محمد فريد بك المحامي، تحقيق: الدكتور إحسان حقي، دار النفائس، الطبعة العاشرة: 1427 هـ - 2006 م، صفحة: 209-210ISBN 9953-18-084-9

کتابیات

ترمیم