اسرائیل پاکستان تعلقات

اسرائیل پاکستان کے دو طرفہ تعلقات

اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے (دیکھیے دو قومی نظریہ اور یہودیوں کا وطن) اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے اور تاحال یہی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ریاستوں سے کچھ معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسرائیل مخالف تنظیم آزادی فلسطین سے قریبی تعلقات ہیں، مثلاً پہلے انتفاضہ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے رسد رسانی اور طبی امداد کا بندوبست کیا گیا تھا۔ نیز متعدد موقعوں پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی بنا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا افشا ہوا تو اسرائیل کو ہمیشہ ان جوہری صلاحیتوں سے خدشہ رہا۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت اسرائیل کی کچھ کلیدی شخصیتوں نے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر یہ حملہ نہیں ہو سکا۔

اسرائیل پاکستان تعلقات
نقشہ مقام Israel اور Pakistan

اسرائیل

پاکستان

سنہ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جب کہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ اوسلو معاہدے کا ایک اہم اثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پاکستان نے اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا جب تک کہ اسرائیل فلسطین تنارع کا ایک قابل قبول دو ملکی وجود کی شکل میں حل قبول نہ کیا جائے۔[1] پاکستان اور اسرائیل ان کے استنبول میں قائم سفارت خانوں کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔2010ء میں ڈان کی ایک اشاعت کے مطابق یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی کے خفیہ تحقیقاتی ادارے آئی ایس آئی نے واشنگٹن سے ملنے والی اطلاعات کے پیش نظر انقرہ میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے ممبئی میں ہونے ہونے ممکنہ 2008ء کے دہشت گرد حملے کی خبر موساد کے حوالے کی تھی جس میں یہودی ثقافتی مرکز بھی ایک اہم نشانہ تھا۔[2][3] اس حملے کے قریب ایک سال بعد نے سب سے پہلے ویکی لیکس اپنے انکشافات کے ذریعے یہ بات طشت از بام کی کہ پاکستان نے اسی استنبول میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔[4]

2020ء میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ریاستہائے متحدہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ: "اسرائیل ریاستہائے متحدہ پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے"۔[5] خان نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ : "اسرائیل کی لابی سب سے طاقت ور ہے اور اس کی وجہ سے امریکا کی مشرق وسطٰی کی مکمل پالیسی اسرائیل کے قابو میں ہے۔"[6] تاہم جب خان سے راست طور پر یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کریں گے یا نہیں، تو اس پر خان نے اسرائیل فلسطینی تنازع پر پاکستان کے موقف کی دوبارہ تصدیق کی کہ اسرائیل اور پاکستان کے بیچ کسی قسم کا تعلق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی "منصفانہ فیصلہ" طے نہیں کیا جاتا۔ [7][8] دونوں ملک کے مئی 2021ء میں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت ایک نئی تلخی رو نما ہوئی جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے یروشلم تصادم، 2021ء پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کے "منظم ظلم و ستم" کی شدید مذمت کی گئی اور اطلاعات کے مطابق بیان کردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔[9]

تاریخ

ترمیم
 
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریون کا ایک دستخط شدہ خط

پاکستان اور اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی، جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار جناح کو روانہ کیا جو پاکستانی کے اہم بانی اور ملک میں قائد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تاہم جناح نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا۔[10][11] 1949ء میں باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کراچی میں اپنی نمائندگی قائم کرنے کی کوشش کی تھی، جو اس وقت پاکستان کا دار الحکومت تھا یا پھر کم از کم دونوں ملکوں کے بیچ کھل کر تجارتی تعلقات رائج کرنا چاہتی تھی۔[12] اس سلسلے میں پہلی بار رابطہ برطانیہ میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر، اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں کے ایک وفد کے درمیان میں 1950ء کے آغاز میں ہوا تھا۔[12] پاکستانی حکومت سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ وہ افغانستان میں بسنے والے چند سو یہودیوں کو بھارت کے لیے گزرگاہ کا پروانہ دے تا کہ یہ لوگ اسرائیل میں جا کر آباد ہو سکیں۔[12] اس موقع پر پاکستان کی حکومت نے گزرگاہ کا پروانہ دینے سے انکار کر دیا تھا، بعد ازاں یہ یہودی براستہ ایران اسرائیل پہنچے تھے۔[12]

1952ء میں سر ظفر اللہ خان پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ اور 14 جنوری 1953ء کو ظفراللہ خان اور امریکا میں اسرائیلی سفیر ابا ایبن کے مابین نیویارک میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا موضوع دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات تھے۔ ظفراللہ خان نے اسرائیلی سفیر کو بتایا کہ ملک میں شدید مذہبی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ مستقبل قریب میں سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس کے باوجود کہ پاکستانی حکومت اسرائیل سے نفرت نہیں کرتی اور اسے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا عنصر سمجھتی ہے، جس کے بارے میں غور ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم انھوں نے اس ملاقات میں سر دست ماہرین، طلبہ اور پروفیسروں کے باہمی دوروں کی منظوری کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر عرب اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر تیار ہوئے تو پاکستان معاہدہ کرنے کے حق میں اپنا وزن ڈالے گا۔

بعد ازاں مارچ اور اپریل 1954ء کے درمیان ظفراللہ خان نے یہ بیانات دینے شروع کیے کہ اسرائیل کو نہ تو تسلیم کیا جائے گا اور نہ پاکستان ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔[13] اس وزارتی دور کے دوران میں اسرائیل کے خلاف سخت گیر پالیسیاں اپنائی گئیں اور عرب ملکوں میں اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔[12] لہٰذا خان کی پالیسی عرب ممالک ہی سے کلیدی تعلقات قائم کرنے میں معاون رہی تھی۔[12]

سیاسی تنازع

ترمیم

اسرائیل کے ساتھ پاکستان کا رویہ

ترمیم
 
پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے سفر پر موجود پابندی

اسرائیل کی جنگ آزادی کے دوران اسرائیل کے واشنگٹن میں موجود سفارتی مشن کو اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان اس بات کی کوشش میں تھا کہ عربوں کو فوجی امداد فراہم کی جائے، جس میں یہ افواہیں بھی شامل تھیں کہ ایک پاکستانی فوجی دستہ فلسطین بھیجا جانے والا ہے تاکہ وہاں پر اسرائیل کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے چیکوسلوواکیا سے 250,000 رائفل خریدے تھے جو ظاہری طور پر عربوں کے لیے تھے۔ یہ بھی بات عام ہوئی کہ پاکستان نے اطالیہ سے تین جہاز مصر کے لیے خریدے تھے۔[14]

پاکستانی فضائیہ نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ اور 1973ء کی 6 روزہ جنگ جنگ یوم کپور میں حصہ لیا تھا۔ سیف الاعظم، جس نے ایک پاکستانی جنگ میں پائلٹ کے طور کام پر کیا تھا، نے کم از کم 4 اسرائیلی جہازوں کو مار کر گرا دیا تھا۔[15] جنگ یوم کپور کے بعد پاکستان اور پی ایل او نے ایک معاہدے پر دستخط کیا تاکہ پی ایل او کے افسروں کو پاکستانی فوجی اداروں میں تربیت فراہم کی جائے گی۔[16] 1982ء کی جنگ لبنان میں پاکستانی رضاکاروں نے پی ایل او کے لیے کام کیا تھا اور ان میں سے کچھ کو بیروت کے محاصرے کے دوران قید میں لے لیا گیا تھا۔ ٹائم کے مطابق فرانسیسی دانشور برنرڈ-ہنری لیوی نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ ڈینئل پرل، جو ایک امریکی اسرائیلی تھے، ان کو پاکستان کے ان عناصر کی جانب سے قتل کر دیا گیا تھا جنہیں آئی ایس آئی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ حالاں کہ اس کے لیے کوئی قابل تصدیق ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے، تاہم پرل کا یہ کردار کے وہ آئی ایس آئی اور القاعدہ کے بیچ روابط کی تہ تک پہنچ رہے تھے، ان کی موت کا سبب بنا۔[17] بی بی سی اور ٹائم سے موصولہ کچھ دیگر خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں نے پرل کا قتل اس وجہ سے کیا کہ کیوں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ پرل ایک اسرائیلی موساد کا خفیہ ایجنٹ تھا جو امریکی صحافی کی آڑ میں ان کے ملک میں کام کر رہا تھا۔[18][19]

اس کے علاوہ، پاکستان کی مذہبی سیاسی و طلبہ جماعتیں جیسے کہ انجمن طلبہ اسلام ATI، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور عسکریت پسند گروہ جیسے کہ لشکر طیبہ سختی سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور یہ لوگ مسلسل اس ملک کو دشمن اسلام اور دشمن پاکستان قرار دیتے آئے ہیں۔[20][21]

پاکستان اپنے شہریوں کو اسرائیل جانے سے منع کرتے آیا ہے اور ہر پاکستانی پاسپورٹ یہ عبارت رکھتا ہے "یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے۔"[22][23][24]

پاکستان کے ساتھ اسرائیل کا رویہ

ترمیم
 
اسرائیل کا صحرائے نقب جہاں پاکستان پر حملے کے لیے اسرائیل مشق کر چکا ہے۔

1980ء کے دہے میں اسرائیل نے منصوبہ بنایا کہ وہ بھارت کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی پاکستان کی ابم سہولتوں پر حملہ کرے گا۔[25][26]

1981ء میں عراق کے نیوکلیر ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے مبینہ طور طور اسی طرز کا ایک حملہ پاکستان کی نیوکلیائی سہولتوں پر کرنے پر کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہوٹہ میں واقع ہیں۔ اس کے لیے بھارت سے مدد کی گزارش کی گئی۔ سیٹلائٹ سے دست یاب تصاویر اور انٹلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اسرائیل نے مکمل پیمانے پر کہوٹہ سہولت کا تمثیلی نمونہ صحرائے نقب میں بنایا تھا جہاں ایف 16 اور ایف 15 کے اسکواڈرن ہواباز یہ امکانی حملے کی مشق بھی کر چکے تھے۔

’ایشین ایج’ کے مطابق، صحاقی ایڈرین لیوی اور کیتھرین اسکاٹ کلارک نے اپنی مشترکہ انگریزی کتاب بعنوان ‘Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy’ میں یہ بات واضح کی کہ اسرائیلی فضائیہ کہوٹہ پر ہوائی حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔ یہ حملہ 1980ء کے دہے میں بھارت کی ریاست گجرات کے جامنگر کے فضائی ٹھکانے سے کرنا تھا۔ کتاب کا دعوٰی ہے کہ “مارچ 1984ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مہر رضامندی بھی ثبت کر دی تھی جس سے کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل نیوکلیائی تصادم کے بے حد قریب آگئے تھے۔[27]

مقالہ نمبر 41، میک نائر جسے یو ایس اے ایف کی ایئر یونیورسٹی نے شائع کیا تھا (مقالے کا انگریزی عنوان India Thwarts Israeli Destruction of Pakistan's "Islamic Bomb" تھا)، بھی اس منصوبے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے مطابق “اسرائیل کی دل چسپی پاکستان کے کہوٹہ ری ایکٹر کو تباہ کرنے میں اس وجہ سے تھی کی وہ "اسلامی بم" کو روک دے گا۔ اس کی پیش رفت کو بھارت کی جانب سے روک دیا گیا کیوں کہ 1982ء میں اسرائیلی جنگی جہازوں کو درکار ایندھن کی فراہمی سے اس نے انکار کر دیا۔ یہ بھارت کی پالیسی سبھی بیرونی فوجی ہوائی / بحری جہازوں کے لیے رہی ہے۔ اسرائیل اپنی جانب سے ممکنہ حملے کو ایک مشترکہ بھارتی اسرائیلی کارروائی بنانا چاہ رہا تھا تاکہ اس حملے کی پوری ذمے داری صرف اسی کے سر پر نہ رکھی جائے۔[28]

یکم اکتوبر 2015ء کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک امکانی بے چینی کی صورت حال کو اس وقت ٹال دیا جب انھوں نے نیو یارک کی سیرافینا میں اپنے عشائیے کو منسوخ کر دیا کیوں کہ وہاں پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی رات کے کھانے پر آ رہے تھے۔ شریف اپنے اس سخت یقین کے لیے جانے جاتے ہیں کہ "فلسطین پر اسرائیل کی بربریت عریاں حیثیت رکھتی ہے۔"[29]

فوجی انٹیلی جنس کا تعاون

ترمیم
 
2008ء کا ممبئی حملہ، جس کی زد میں نریمن ہاؤز کا ایک یہودی خاندان آ گیا تھا۔ پاکستان کی انٹلی جنس نے اس حملے میں یہودیوں کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاع پہلے ہی اسرائیل کو دے دی تھی،

ایک دوسرے کے ساتھ ان تمام مخاصمتوں کے باوجود دونوں ممالک کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں کہ ان لوگوں ڈائریکٹوریٹس قائم کیے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ انٹلی جنس تعاون جاری رکھا جا سکے۔[4]

پاکستان کے اسرائیل ساتھ دفاعی تعاون کی تاریخ 1980ء کے ابتدائی دہے سے تعلق رکھتی ہے جب پاکستان کے صدر اور فوجی عملے کے صدر جنرل جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے موساد کے ساتھ معاملتوں کے لیے ایک خفیہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرے۔[30] یہ انٹلی جنس دفاتر دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں بنائے گئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھے جہاں موساد، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مل ایک مکمل دہے تک مخالف سوویت کارروائی کو جاری تھا، جس کا علامتی نام آپریشن سائیکلون رکھا گیا تھا۔[31] اس تعاون کے حصے کے طور پر اسرائیل نے سوویت ساختہ ہتھیاروں کو افغان باغیوں کو فراہم کیا تھا جو سوویت یونین سے افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اسی طرح اسرائیل پاکستانی فوج کو بھی پتھیار فراہم کر رہا تھا۔[31]

ویکی لیکس نے ریاستہائے متحدہ کے ایک سفارتی دستاویز کو جاری کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی نے خفیہ طور پر انٹلی جنس کی معلومات موساد کو فراہم کی ہے۔ آئی ایس آئی نے ایک تبادلہ خیال کی روداد حاصل کی تھی کہ اسرائیلی شہریوں کو ستمبر اور نومبر 2008ء کے بیچ حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ( جیسا کہ 26 نومبر کے ممبئی حملے ہوا تھا، جس کے نشانوں میں ایک یہودی مرکز — دی نریمن ہاؤز بھی تھا)۔[32] اس بات کی بھی اطلاع دی گئی ہے کہ پاکستان کے لفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا موساد کے ساتھ سیدھے تعلقات بنائے ہوئے تھے۔[33]

اسرائیل اور پاکستان، دونوں سرد جنگ کے دوران مغربی ممالک کے اتحادی تھے، جب بھارت سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ بھارت نے افغانستان پر سوویت قبضے کی حمایت کی تھی اور سوویت حامی قائد محمد نجیب اللہ کی مدافعت کی تھی۔ پاکستان اور اسرائیل نے سوویت قبضے کی مخالفت کی تھی اور اسرائیل افغان باغیوں کو پاکستان کے توسط سے ہتھیار بھی فراہم کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بعض فلسطینی گروہوں جیسے کہ پی ایل او سے سوویت یونین کی فراہم کردہ ہتھیاروں کو ضبط بھی کر چکا ہے۔[31]

تعلقات کو معمول پر لانا

ترمیم

سفارتی تعلقات

ترمیم
 
پاکستان کے جنرل پرویز مشرف، جنھوں بطور صدر پاکستان سب سے پہلے اپنے صدارتی دور میں اسرائیل سے سفارتی تعلق کی وکالت کی تھی۔

کچھ اسرائیلی قائدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جانے چاہیے کیوں کہ ممکن ہے کہ پاکستان اسرائیل اور عالم اسلام کے ایک پل کا کام کر سکتا ہے جس میں عرب ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔[34] حالانکہ ان دو ممالک نے سرکاری طور پر تعلقات قائم نہیں کیے ہیں، دونوں ممالک کے بیچ کئی معاملتیں انجام پائی ہیں۔[35] جنگ نیوز کے مطابق اس طرح کی کئی خبریں گشت کر رہی ہیں کہ کئی سرکردہ پاکستانی شخصیات اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔[36]

1992ء میں بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے فوری بعد واشنگٹن میں موجود پاکستانی خاتون سفیر عابدہ حسین نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اپنے ایک بیان سے بھونچال پیدا کر دیا۔ وہ اپنے اس خیال کے اظہار کی وجہ ارباب اقدار کے ہاتھوں سر زنش کے سے بھی ہو کر گذری ہیں کہ “اگر تنازع کے فریقین (عرب اور اسرائیلی) اپنے اختلافات سلجھا لیتے ہیں، تو پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔” اس موقع پر اسلام میں فلسطین کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر ایک پاکستانی تبصرہ نگار نے پوچھا کہ: “محترمہ سفیر صاحبہ، اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر القدس (یروشلم) طاقت کے زور پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور یہودی سلطنت کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور آپ ایک نسل پرست، غیر منصفانہ اور غیر انسانی حکومت کو تسلیم کرنے کا نذرانہ پیش کرنا چاہتی ہیں؟”

فلسطین کی جانب سے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کو پاکستان کچھ دانشور طبقوں کی جانب سے پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ سے کچھ عرب حکومتیں جو اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتے ہیں شدید تنقید کا نشانہ بنے۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بجائے یہ لوگ پاکستان کے انکار کو ان تمام اسلامی ممالک کے لیے نمونہ قرار دیتے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ سلامتی کے طلب گار ہیں۔ ایک تبصرہ نگار کے الفاظ اس طرح تھے:

فلسطین کے یاسر عرفات اور اردن کے شاہ حسین کی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنا... گویا القدس شریف کے قبضے کو تسلیم کرنا ہے۔ اگر (خدانخواستہ)، اسرائیل مکہ و مدینہ پر قبضہ کرے اور عرب ممالک اسے تسلیم کریں، تو کیا باقی عالم اسلام اسے تسلیم کرے گا؟

[37]

اسرائیل کے سابق سفیر برائے بھارت مارک سوفر کئی منفرد اقدامات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کوششوں میں کچھ ایسی کوششیں شامل تھیں جن کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو اسرائیل کے نزدیک لانا اور اسرائیلی سفارت خانے کے دائرۂ کار کو برصغیر میں توسیع دینا۔ انھی اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ بھارت میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں جاری کرنا۔ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی بیرونی سفارت خانے نے اپنی ویب گاہ کو بہ یک وقت ہندی اور اردو میں جاری نہیں کیا۔ کچھ سفارت خانوں نے اپنی ویب گاہ کا ہندی میں ترجمہ ضرور کیا ہے، مگر یہ ترجمہ ہندی زبان کے بھارت میں سرکاری موقف، بیش تر ثقافتی نوعیت اور جذبہ خیر سگالی کے طور پر کیا گیا ہے۔ ہندی کے بر عکس اردو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ریاستی حکومتوں کی جانب سے دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل کر چکی ہے۔ تاہم اردو بھارت کے زیادہ تر جدید اسکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہے اور اس وجہ سے اکثر غیر مسلم اور کئی مسلمان نوجوان اس زبان اور اس کے رسم الخط سے بالکل ناآشنا ہیں۔ پھر بھی مسلمانوں کے مذہبی ادب کی اس زبان میں موجودگی اور دینی مدارس کی اس زبان میں ذریعہ تعلیم کی وجہ سے اردو زبان کو عام طور سے مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ لہذا یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیلی سفارت خانہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک سرکاری طور پر کوشش ہے۔[38] اس بات کو مزید تقویت اس وجہ سے بھی حاصل ہوئی کہ 3 ستمبر 2008ء کو مارک سوفر اجمیر پہنچ کر وہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دیے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی اسرائیلی سفارت کار نے کسی مسلمان درگاہ یا مقام زیارت پر حاضری دی ہو۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس موقع پر دنیا میں قیام امن کے لیے تصوف کی بھی پر زور حمایت کی۔ انھوں نے تصوف کا موازنہ قبالہ سے کیا جو یہودیوں میں تصوف کی ایک قسم ہے۔[39]

سفارت خانے کی ویب گاہ کے اردو ترجمے کے پس پردہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردو بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی ایک پیام ممکن ہے کہ دہلی میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ اپنے دائرۂ کار کو غالبًا پاکستان تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ جیسا کہ سنگاپور میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ اپنا دائرہ کار مشرقی تیمورتک بھی رکھتا ہے، شاید وہ پاکستان تک توسیع دے سکتا ہے۔[40] خود مارک سوفر نے 2008ء اپنے دورۂ اجمیر کے وقت منعقدہ صحافتی کانفرنس میں اس بات کو آشکارا کر دیا کہ کچھ مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں اور اگر پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کا خواہش مند ہے تو اسرائیل اس کا مثبت جواب دے گا۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کے متاثر ہونے یا اس معاملے میں اثر انداز ہونے کو ایک سرے سے خارج کر دیا۔[39]

سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ کے تعلقات کی مدافعت کی۔ وہ پہلے پاکستانی مسلمان ہیں جن کا ہاریٹز کی مصنفہ دانا ہارمن نے لندن میں انٹرویو لیا۔[41]

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے بھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی حمایت کی تھی۔[42] تشبیہ سید ایک معروف پاکستانی نژاد امریکی تھے جنھوں نے کھل کر اپنے کئی کالموں اور نگارشات میں اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ یہ سلسلہ ان کے پورے صحاقی کیریئر میں جاری رہا۔[43]

2016ء میں ایک پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر اور مصنف، ملک شاہ رخ نے اسرائیل پاکستان فرینڈشپ گروپ شروع کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے لیے مہم چلاتا ہے۔[ا]

فوجی تعلقات

ترمیم

برطانیہ کے محکمہ کاروبار، ایجاد اور صلاحیت کے مطابق 2013ء کی اطلاع ہے کہ اسرائیل نے فوجی ٹیکنالوجی کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ 2011ء میں پاکستان نے برطانیہ سے آلات کو خریدنا شروع کیا جنہیں بعد میں پاکستان بھیجنا تھا۔ اس میں کئی برق رفتار جنگی نظام اور طیاروں کے اجزا شامل تھے۔[44] اسرائیل نے اس خبر کی تردید کی اسے گم راہ کن قرار دیا۔[45]

کھیل کے میدان میں تعاون

ترمیم
 
پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق قریشی، جنھوں نے سب سے پہلے ایک اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ مشارکت میں کھیلا

فٹ بال وہ واحد کھیل ہے جس میں یہ دو ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے 1960ء کے ایشین کپ کوالیفائروں میں دیکھے گئے تھے۔ ومبلڈن اوپن میں اسرائیلی ٹینس کھلاڑی عامر حداد نے پاکستانی کھلاڑی اعصام الحق کے ساتھ تیسرے دور کا ڈبلز کھیلا۔ اسرائیلی اور پاکستانی ٹیم، جس میں ایک اسرائیلی اور ایک پاکستانی تھا، سرخیوں کا حصہ بنی۔[46] یہ دل چسپ ساجھے داری ایس اوپن مقابلوں میں بھی دیکھی گئی جہاں ان کھلاڑیوں کے ہموطن جمع ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ متحدہ طور پر ان دونوں کھلاڑیوں نے آرجنٹینا کے ماریانو ہوڈ اور سیباسچین پریٹو کو شکست دی تھی۔ [47]

ڈان کیزیل، جو ایک اسرائیلی نژاد جرمن کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے تربیت کار اور فزیوتھراپسٹ رہ چکے ہیں۔ وہ لاہور میں قیام پزیر تھے۔[48]

خط زمانی

ترمیم
  • پاکستان اور اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی، جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار جناح کو روانہ کیا جو پاکستانی کے اہم بانی اور ملک میں قائد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تاہم جناح نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا۔
  • 1949ء میں فلپائن ایئر لائنز ایک واحد فضائی خدمت کے طور پر ابھری جو کراچی اور لوڈ (تل ابیب) کے بیچ ہوائی ربط قائم کر چکی تھی جب وہ منیلا–لندن کے لیے خدمات فراہم کر رہی تھی۔[49] تاہم یہ پتہ نہیں چلا کہ ان دونوں کے بیچ کتنے مسافروں اور کتنے کارگو کا تبادلہ ہوا۔
  • دونوں ملکوں کے بیچ پہلا رابطہ برطانیہ میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر، اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں کے بیچ 1950ء کے دہے میں ہوا تھا۔ مذاکرات کا اہم موضوع معاملتوں کو آگے بڑھانا اور کھلے کاروبار کو فروغ دینا تھا۔
  • 14 جنوری 1953ء کو ظفر اللہ خان اور ابا ایبان کے بیچ اجلاس ہوا جس میں ثانی الذکر ریاستہائے متحدہ کے لیے اسرائیل سفیر تھے۔ یہ اجلاس بہتر اسرائیلی پاکستانی تعلقات پر مرکوز تھا۔[14]
  • 1980ء کے دہے میں اسرائیل نے منصوبہ بنایا کہ وہ بھارت کے تعاون کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی پاکستان کی ابم سہولتوں پر حملہ کرے گا۔ 1981ء میں عراق کے نیوکلیر ری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے مبینہ طور طور اسی طرز کا ایک حملہ پاکستان کی نیوکلیائی سہولتوں پر کرنے پر کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہوٹہ میں واقع ہیں۔ اس کے لیے بھارت سے مدد کی گزارش کی گئی۔ سیٹلائٹ سے دست یاب تصاویر اور انٹلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اسرائیل نے مکمل پیمانے پر کہوٹہ سہولت کا تمثیلی نمونہ صحرائے نجیب میں بنایا تھا جہاں ایف 16 اور ایف 15 کے اسکواڈرن ہواباز یہ امکانی حملے کی مشق بھی کر چکے تھے۔ مگر پاکستانی فضائیہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی اور کڑے حفاظتی انتظامات کو بہ روئے کار لایا گیا۔[50][27]
  • پاکستان کے اسرائیل ساتھ دفاعی تعاون کی تاریخ 1980ء کے ابتدائی دہے سے تعلق رکھتی ہے جب پاکستان کے صدر اور فوجی عملے کے صدر جنرل جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیل کے موساد کے ساتھ معاملتوں کے لیے ایک خفیہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرے۔ یہ انٹلی جنس دفاتر دونوں ممالک کے سفارت خانوں میں بنائے گئے جو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھے جہاں موساد، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مل ایک مکمل دہے تک مخالف سوویت کارروائی کو جاری تھا، جس کا علامتی نام آپریشن سائیکلون رکھا گیا تھا۔ اس تعاون کے حصے کے طور پر اسرائیل نے سوویت ساختہ ہتھیاروں کو افغان باغیوں کو فراہم کیا تھا جو سوویت یونین سے افغانستان میں لڑ رہے تھے اور اسی طرح اسرائیل پاکستانی فوج کو بھی پتھیار فراہم کر رہا تھا۔[30]
  • 1992ء میں ریاستہائے متحدہ امریکا میں پاکستانی خاتون سفیر عابدہ حسین نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان مستقل میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ [37]
  • 1993ء میں سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو اپنے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل فوجی آپریشن پرویز مشرف کے توسط سے موساد کے ساتھ تعلقات بڑھانے کو کہا۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے ایک سرکردہ اسرائیلی نمائندے سے ملاقات اپنے واشنگٹن ڈی سی دورے کے دوران کی تھی جو بہ طور اس ملاقات کے لیے اسرائیل سے جہاز میں آیا تھا۔
  • 1998ء میں پاکستان کے قدامت پسند وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بنیامین نیتنیاہو کو ایک خفیہ خط لکھ کر اطلاع دی کہ پاکستان اپنی نیوکلیر ٹیکنالوجی کو ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیر پروگرام کی مدد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
  • 2003ء میں صدر پرویز مشرف نے ان امکانات کا اظہار کیا جن کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔[51]
  • 2005ء میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ پہلی بار مل کر تبادلہ خیال کیے تھے۔[52] تاہم اس اجلاس کے بعد مشرف نے واضح کیا کہ پاکستان مملکت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک کہ مملکت فلسطین کا قیام نہ ہو،[53]— حالانکہ مشرف نے یہ بھی کہا کہ بالآخر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔[54]
  • 2010ء کے غیر مصدقہ طور پر افشا کیے گئے امریکا کے سرکاری تبادلہ خیال سے پتہ چلا ہے کہ اکتوبر 2009ء سے پاکستانی انٹلی جنس ایجنسی کے صدر لفٹننٹ شجاع پاشا نے ممبئی دہشت گردانہ حملوں اور اس میں ممکنہ طور پر یہودیوں کے نشانہ بنانے کی اطلاع دی تھی۔[32][55]
  • 2008ء میں اسرائیلی سفیر برائے بھارت مارک سوفر نے کہا اسرائیل پاکستان کے اسے تسلیم کیے جانے کے وقت کے ساتھ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے تیار ہے۔[39]
  • 2011ء میں اسرائیل نے مبینہ طور پر فوجی ٹیکنالوجی کو پاکستانی فوج کو فراہم کیا تھا۔[44][45]
  • 2015ء میں اسرائیلی سائنس دان رمضی سلیمان نے ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کی جس کی اسپانسرشپ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز نے لاہور میں کی تھی۔[56]
  • 2016ء ایک پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر اور مصنف، ملک شاہ رخ نے اسرائیل پاکستان فرینڈشپ گروپ شروع کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے لیے مہم چلاتا ہے۔
  • 2017ء میں بھارت کے اپنے سرکاری دورے کے دوران بنیامین نیتن یاہو نے اس تجویز کو خارج کر دیا کہ ان کے ملک کی بھارت کے ساتھ مشارکت پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انھوں نے کہا “ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہیں اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔“[57]
  • 2018ء میں اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار نے اس بات پر اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا کہ ایک اسرائیلی کاروباری جیٹ جہاز اسلام آباد پر اترا اور یہاں دس گھنٹوں تک رہا۔[58] تفصیلات کے مطابق یہ نجی جیٹ تل ابیب سے روانہ ہوا تھا اور کچھ عرصے تک عمان میں رہا جہاں سے اسے اسلام آباد میں اترنے کا حکم دیا گیا۔[59] یہ مبینہ دورہ بنیامین نیتنیاہو کے عمان کے سرکاری دورے سے ایک دن قبل ہوا تھا۔ اس سے ان چہ میگوئیوں کو ہوا ملی کہ شاید یہ بنیامین نیتنیاہو یا دیگر سرکردہ اسرائیلی عہدے داروں کا پہلا دورہ ہو سکتا ہے۔[58] ذرائع ابلاغ کی جنونی دلچسپی کے بیچ پاکستانی سرکاری عہدے داروں نے اس رپورٹ کی صداقت کو مسترد کیا اور اس بات کی تردید کی کہ اس طرح کی آمد ہوئی بھی ہے[59]۔ تاہم پی اے ایف بیس نور خان کے ایک پائلٹ اور تین عملے کے ارکان نے نجی طور پر اسرائیلی لندن کے اخبار مڈل ایسٹ آئی کو اس بات کی شہادت دی کہ انھوں نے اس جہاز کو دیکھا ہے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ایک گاڑی جہاز سے اترنے کے بعد نو آمد شدہ وفد کے خیر مقدم کے لیے پہنچی تھی۔[60]
  • 2020ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی وجہ سے اسرائیل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان جیسے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اسرائیل فلسطینی تنازع پر پاکستان کے موقف کی دوبارہ تصدیق کی کہ اسرائیل اور پاکستان کے بیچ کسی قسم کا تعلق اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی "منصفانہ فیصلہ" طے نہیں کیا جاتا۔[61][62] خان کے مطابق یہی موقف پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا بھی بیان کردہ موقف بھی رہا۔[61] بعد کے انٹرویو میں خان نے اشارہ کیا کہ کچھ حلقوں سے جن میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور کچھ مسلم ممالک (اندازہ ہے کہ یہ سعودی عرب ہے[63]) شامل ہیں، پاکستان پر یہ دباؤ بن رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ تاہم پاکستان اپنے موقف پر قائم رہے گا۔[64] اسرائیل کے خبروں کے چینل آئی 24 نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستانی صحافی مبشر لقمان نے اس خیال کی تائید کی کہ پاکستان کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنا سکتا ہے۔ ان تبصروں پر ان کے وطن میں کافی منفی رد عمل اور تنقید کی فضا دیکھی گئی۔[65][66]
  • مئی 2021ء میں اسرائیل فلسطین تنازع میں کئی وجوہ سے بھڑک اٹھا۔ اس میں شیخ جراح، مشرقی یروشلم علاقے سے فلسطینی خاندانوں کا اخراج، اسرائیل کی جانب مسجد اقصٰی کے باب دمشق تک کی رسائی کو ماہ رمضان میں روکنا، اس شہروں میں سینکڑوں جوشیلے قوم پرستوں کے 6 مئی کو "یوم یروشلم" کے موقع پر جو 1967ء کی جنگ میں یروشلم کی فتح کا جشن ہے، مارچ کرنا دونوں فریقوں کے بیچ نئے تصادم کا سبب بنا۔[67] اس پر اپنے شدید رد عمل کے اظہار کے طور پاکستان کی قومی اسمبلی نے 17 مئی 2021ء کو ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے فلسطینی عوام پر اسرائیل کے "منظم ظلم و ستم" کی شدید مذمت کی اور اطلاعات کے مطابق بیان کردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔[9]
  • 2020ء میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے صحافی احمد قریشی، پاکستانی یہودی شہری فشیل بنکھلڈ اور پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک گروپ سمیت 15 رکنی وفد نے بین المذاہب ہم آہنگی کے مکالمے میں شرکت کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس سفر کو غیر سرکاری تنظیم شاراکا نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مشغولیت کو آسان بنانے کے لیے سپانسر کیا تھا۔ وفد نے اسرائیلی صدر اسحاق ہرتزوگ اور سفارت کار دانی ڈیان سے ملاقات کی۔ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اسرائیل کے ساتھ روابط قائم کرنے پر آمادہ تھے اور ان کی حکومت نے وفد کے دورے کی منظوری بھی دی تھی۔[68][69] اسرائیلی صدر ہرزوگ نے ​​بعد میں عالمی اقتصادی فورم میں اس ملاقات کا کھلے عام اعتراف کیا: "اور مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ ہمارے پاس اسرائیل میں پاکستانی لیڈروں کا کوئی گروپ اس دائرہ کار میں نہیں ہے۔ اور یہ سب ابراہیم معاہدے سے ہوا، یعنی اس خطے میں یہودی اور مسلمان ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔۔۔۔".[70]

مزید دیکھیے

ترمیم

مزید پڑھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. وِنئے کَورا, پاکستان کے کیے اسرائیل کا جھمیلا، مشرق وسطٰی انسٹی ٹیوٹ، اکتوبر 6، 2020ء
  2. راوید, بارک; رائٹرز (1 دسمبر 2010). "پاکستان نے اسرائیل کو بھارت میں دہشت گرد حملے کی آگاہی فراہم کی۔". ہاریٹز (انگریزی میں). Retrieved 2020-04-25.
  3. رائٹرز (1 دسمبر 2010). "آئی ایس آئی صدر نے اسرائیلیوں سے ملاقات کی تاکہ بھارت میں دہشت گردانہ حملے کو روکا جا سکے۔". ڈان ڈاٹ کام (انگریزی میں). Retrieved 2020-04-25.
  4. ^ ا ب عائشہ صدیقہ (1994)۔ "پاکستان اسرائیل کو پسند کرتا ہے یا شمالی کوریا کو؟"۔ ایکسپریس ٹریبیون۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-06-06۔ پاکستان اور اسرائیل کا آپسی رشتہ بیک وقت محبت اور نفرت کا ہے۔ گو کہ ہم تل ابیب سے نفرت کرتے ہیں لیکن بہت سے پاکستانیوں نے ان دونوں ملکوں کے مابین خوشی خوشی یہ کہہ کر یکسانی تلاش کرنا شروع کی کہ اسرائیل اور پاکستان دونوں کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا ہے۔
  5. "عمران خان کے مطابق ریاستہائے متحدہ ایک اور ملک ہے جو پاکستان کو اسرائیل تسلیم کرنے پر زور دے رہی ہے۔". ہاریٹز ڈاٹ کام (انگریزی میں). Retrieved 2021-01-04.
  6. "پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔". دی یروشلم پوسٹ | جے پوسٹ ڈاٹ کام (امریکی انگریزی میں). Retrieved 2021-01-04.
  7. "پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے | وائس آف امریکا - انگریزی". وی او اے نیوز ڈاٹ کام (انگریزی میں). Retrieved 2021-01-04.
  8. "فلسطینیوں پر تھوپا گیا کوئی بھی ایک طرفہ سمجھوتا کام نہیں کرے گا: پاکستانی وزیر اعظم". الجزیرہ ڈاٹ کام (انگریزی میں). Retrieved 2021-01-04.
  9. ^ ا ب "پاکستانی پارلیمنٹ اسرائیل فلسطین تنازع پر ایک قرارداد منظور کرتا ہے"۔ آؤٹ لک۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-20
  10. ٹوڈے، اسرائیل (18 فروری 2013)۔ "کیا اسرائیل اور پاکستان آپس میں دوست بن سکتے ہیں؟"۔ اسرائیل ٹوڈے ڈاٹ کو۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-09-18
  11. پ۔ ر۔ کمارسوامی (جون 1997)۔ "اسرائیل و پاکستان کے الگ الگ مشاغل"۔ دی مڈل ایسٹ سہ ماہی۔ چہارم شمارہ 2: 31–39۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04۔ پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اگر اسرائیل سے یہودیت نکال دی جائے تو یہ ریاست تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے گر جائے اور اسی طرح اگر پاکستان سے اسلام کو نکال دیا جائے اور اسے سیکولر بنایا جائے تو یہ بھی بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ —ضیاء الحق، حکمرانِ پاکستان، دسمبر 1981ء
  12. ^ ا ب پ ت ٹ ث موشے یجر (2007)۔ "پاکستان اور اسرائیل"۔ ڈاکٹر موشے یجر، یہودی سیاسی مطالعے کی نظر ثانی۔ مرکز یروشلم برائے امور عوام۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  13. پاکستان اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارت کاری (1) - ہم سب
  14. ^ ا ب ڈاکٹر موشے یجر، "پاکستان اور اسرائیل"، یہودی سیاسی مطالعے کی نظر ثانی 19:3–4 (خزاں 2007)
  15. "پائلٹ کا سفر: سیف الاعظم کی کہانی"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-08-13
  16. مشاہد حسین, "پاکستان اسرائیل اور فلسطینیوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے"، مڈل ایسٹ انٹرنیشنل، ستمبر 1988، 21؛ پ۔ ر۔ کمارسوامی، پس پردہ: اسرائیل پاکستان تعلقات (تل ابیب: جافی سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز، تل ابیب یونیورسٹی، 2000)، 34
  17. "ڈینئل پرل کی راہ پر، از ڈیرن فونڈا ہفتہ، 27 دسمبر 2003ء"۔ 2013-08-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-25
  18. "بی بی سی نیوز - جنوبی ایشیا - ڈینئل پرل: مذاکرات کا طالب"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26
  19. "ڈینئل پرل کی متفرق کٹھن گھڑی، از امیش کھیر سوموار، ٹائم، 11 فروری، 2002ء"۔ 2013-08-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-25
  20. جماعت اسلامی نے اسرائیل اور امریکا کو دنیا کا سب سے بڑے دہشت گرد قرار دے دیا، ثناء نیوز آرکائیو شدہ 2011-07-24 بذریعہ وے بیک مشین
  21. میمری بلاگ۔ "غزہ فلاٹیلا پر اسرائیل کے کمانڈو ایکشن کے خلاف پاکستان بھر میں احتجاجات"۔ دی میمری بلاگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26
  22. پاکستان کے ون ویزا پراسیسنگ ٹائم آرکائیو شدہ 2011-09-14 بذریعہ وے بیک مشین
  23. کینیڈا ہجرت معلومات - اکثر پوچھے گئے سوالات، معلومات سوال کے جواب میں دستیاب ”کیا کچھ پاسپورٹ دوسروں کے مقابلے میں بہتر ہیں؟“۔
  24. "ہربیٹس ہاف مین - تنازعات کی یکسوئی اور عالمی صیانت -"۔ ورلڈ سیکیوریٹی ڈاٹ کام۔ 2012-03-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26 {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  25. بھارت نے اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے "اسلامی بم" تباہی کو رکوا دیا، میک نائر مقالہ نمبر 41، ریاڈیکل ریسپانسیس ٹو ریاڈیکل ریجیمس: ایوالیوئیٹنگ کاؤنٹر پرولیفریشن، مئی 1995ء
  26. "بھارت نے پاکستان کے "اسلامی بم" سے اسرائیلی تباہی کو روک دیا"۔ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز۔ مئی 1995۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی، 2012 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  27. ^ ا ب عنوان کتاب: ڈیسیپشن: پاکستان، دی یو ایس اینڈ دی گلوبل ویپنز کانسپیریسی، ایڈریان لیوی اور کیتھرین اسکاٹ کلارک
  28. میک نائر کا مقالہ نمبر 41 جسے یو ایس اے ایف یونیورسٹی نے شائع کیا۔
  29. "نیتن یاہو نے ریستوران میں ڈنر کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسی ریستوران میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف ڈنر کرنے آ رہے تھے: رپورٹ"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26
  30. ^ ا ب عنوان کتاب: چارلی ولسنز: دی ایکسٹرا آرڈی نیری اسٹوری آف ہاؤ دی وائلڈیسڈ مین انن کانگریس اینڈ روگ سی آئی اے ایجنٹ چینجڈ دی ہسٹری آف اَوَر ٹائمز، از جارج کریل، گروو پریس، باب نمبر 10، 2007ء
  31. ^ ا ب پ "افغان جنگ کے دوران میں پاکستان نے اسرائیل ہتھیار حاصل کر لیے"۔ پاکستان: ڈیلی ٹائمز مانیٹر۔ 20 جولائی 2003۔ 2003-09-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04 {{حوالہ خبر}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)، نمونہ در "افغان جنگ کے دوران میں پاکستان نے اسرائیل ہتھیار حاصل کر لیے"۔ ڈیلی ٹائمز مانیٹر۔ 20 جولائی 2003۔ 2003-09-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  32. ^ ا ب کاتز، یعقوو (1 دسمبر 2010)۔ "ویکی لیکس: پاکستان نے دہشت گردوں کی اطلاع اسرائیل کو دی"۔ یروشلم پوسٹ: انٹرنیشنل ڈائریکٹوریٹ۔ یروشلم پوسٹ۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-02
  33. لنڈ، اسٹیو (21 مئی 2010)۔ "دنیا کے 50 ذی اثر یہود"۔ یروشلم پوسٹ۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-28۔ 45. برنرڈ-ہنری لیوی، فلسفی
  34. "بھٹو کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مطالبہ، موساد کی حفاظت کی کوشش"۔ اسرائیل ٹوڈے۔ 28 دسمبر، 2007۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی 2012 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  35. "پاکستان اسرائیل سنگ میل مذاکرات"۔ بی بی سی نیوز۔ 1 ستمبر 2005۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مئی، 2010 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  36. میاں، عظیم ایم۔ (25 دسمبر 2019)، "پی پی کے قائدین تل ابیب کے چکر لگاتے رہے"، جنگ اخبارات کا گروپ، ص 1، 2012-10-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا، اخذ شدہ بتاریخ 2019-12-25
  37. ^ ا ب پی آر، کماراسوامی۔ "پردے کے پیچھے اسرائیل پاکستان تعلقات" (PDF)۔ institutobrasilisrael.org۔ جیف ریسرچ سنٹر فار اسٹریٹیجیک اسٹڈیز۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-21
  38. [مردہ ربط] اسرائیل سفارت خانہ ہندو اور اردو ویب گاہ جاری کرتا ہے، جوئیش ٹائمز ایشیا، 2008ء
  39. ^ ا ب پ "بھارت اور اسرائیل تعلقات: وابستگی گزرتے وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی جا رہی ہے، ویویہ اے، ٹائمز آف انڈیا، 5 اکتوبر، 2008ء"۔ 2012-09-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-21
  40. اسرائیل کے سفارت خانے
  41. "سابق صدر مشرف کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں"۔ ہاریٹز۔ 6 جنوری 2012۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-02-10
  42. محسن علی (8 ستمبر 2015)۔ "قصوری نے اسرائیل سے کیے مذاکرات – ایک خفیہ کہانی"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-31
  43. "تشبیہ سید"۔ اروتز شیوا۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-31
  44. ^ ا ب "آئی ایس پی آر نے اسرائیل سے پاکستان کے لیے ہائی-ٹیک گیئر اسلحہ لینے کی تردید، کہنا ہے کہ خبر بے بنیاد ہے"۔ پاک ٹریبیون۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26
  45. ^ ا ب پریس ٹرسٹ آف انڈیا (12 جون 2013)۔ "اسرائیل نے فوجی ساز و سامان پاکستان بھیجنے سے کیا انکار"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-26
  46. "کھیل"۔ دی گارڈین۔ لندن۔ 10 فروری 2008۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-05-05
  47. لئن، ژنسر (29 اگست 2002ء)۔ "2002 یو ایس اوپن؛ ساتھ مل کر یہ ٹیم کامیاب رہے گی"۔ این وائے ٹائمز ڈاٹ کام۔ نیو یارک ٹائمز۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جون، 2018۔ حداد اور قریشی کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ وہ کھیل کے میدان کے آگے کی دوستی بھی زیادہ گرم جوشی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ جداگانہ طور سے کہیں زیادہ اکٹھے کامیاب رہے ہیں۔ اکیلے کھلاڑیوں کے طور یہ دونوں چیلنجر ٹورنامنٹوں میں مقابلے جیتنے کے لیے کڑی محنت کرتے ہیں۔ دوسرے کھلاڑیوں سے جوڑی بنانے سے وہ کبھی سب سے عمدہ 100 میں اپنا مقام نہیں بنا پائے ہیں۔ {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
  48. اوری لیوس (12 جولائی 2001)۔ "ڈان کیزل: پاکستان میں ہماری آدمی"۔ ہاریتز۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 4، 2012 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  49. "فلپائن ایئر لائنز 22 اکتوبر 1949 ٹائم ٹیبل صفحہ 3 آف 4"۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-31
  50. صدیقی، شاہد ر۔ (14 فروری 2010)۔ "پاکستان کے نیوکلیئر اثاثے کتنے محفوظ ہیں"۔ ڈان ڈاٹ کام۔ 2010-11-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: الوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  51. "پرویز مشرف نے اسرائیل سے تعلقات کی بات شروع کی"۔ بی بی سی نیوز۔ 3 جولائی 2003۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04
  52. "پاکستان-اسرائیل اِن لینڈ مارکس ٹاکس"۔ بی بی سی نیوز۔ 1 ستمبر 2005۔ 2019-01-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04
  53. "مشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا"۔ پیپلز ڈیلی آن لائن۔ ژینوا نیوز ایجنسی۔ 2 ستمبر 2005۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی، 2012 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  54. "مشرف: بالآخر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا"۔ وائے نیٹ نیوز ڈاٹ کام۔ 27 ستمبر 2006۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04
  55. باراک ریوڈ (1 دسمبر 2010)۔ "ویکی لیکس: پاکستان نے بھارت میں دہشت گردی کے خطرات پر اسرائیل کو انتباہ کیا"۔ ہاریتز۔ ریوٹرز۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-04
  56. خوری، جیک (28 فروری 2015)۔ "اسرائیلی لیکچرر نے پاکستان کانفرس میں حصہ لیا"۔ ہاریتز۔ ہاریتز۔ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-03-02
  57. اسرائیل پاکستان کا دشمن نہیں: نیتن یاہو - دی ایکسپریس ٹریبیون
  58. ^ ا ب "کیا اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسلام آباد کا خفیہ دورہ کیا؟ کیسے کہ ایک ٹویٹ نے پاکستان میں ہیجان اور سیاسی بحران پیدا کیا"۔ 31 اکتوبر 2018 – بذریعہ ہائریٹز
  59. ^ ا ب سید، باقر سجاد (28 اکتوبر 2018)۔ "اسرائیلی جہاز کے اسلام آباد میں اترنے کے دعوے پر شور"۔ ڈان۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-11
  60. چودھری، صدف (9 نومبر 2018)۔ "طیران گاہ کے عملے کے مطابق ایک اسرائیلی جہاز اترا تھا"۔ مڈل ایسٹ آئی۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-11
  61. ^ ا ب "پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا: وزیر اعظم خان"۔ الجزیرہ۔ 19 اگست 2020
  62. بٹ, داؤد (18 ستمبر 2020). "اسرائیل کی تسلیم شدگی: ایک تلخ حقیقت". دی والیٹ (امریکی انگریزی میں). Archived from the original on 2020-10-20. Retrieved 2020-09-19.
  63. قیصر، زکاری (19 نومبر 2020)۔ "سعودی عرب پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے - رپورٹ"۔ یروشلم پوسٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-11
  64. "وزیر اعظم کا دعوٰی ہے کہ ریاستہائے متحدہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے: رپورٹ"۔ ڈان۔ 17 نومبر 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-11
  65. شناور، محمد (25 نومبر 2020)۔ "پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے، مبشر لقمان ایک یہودی ٹی وی چینل کو یہ بتاتے ہیں"۔ ڈیلی پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-11
  66. "پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا خراب سیاست ہے۔ مگر اس کا جواز ہے۔ | رائے". ہائریٹز ڈاٹ کام (انگریزی میں). Retrieved 2021-01-04.
  67. چیٹ ووڈ، کین۔ "کیوں مسجد الاقصٰی اکثر اسرائیل اور فلسطینیوں کے بیچ تصادم کی جگہ بنتی ہے"۔ اسکرول ڈاٹ ان۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-20
  68. سلام، حمزہ اظہر (25 مئی 2022)۔ "ایک پاکستانی گروپ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ پھر پاکستان پھوٹ پڑا"۔ ہاریٹز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-05-28
  69. "وفد پاکستان سے نہیں امریکا سے اسرائیل گیا: صحافی"۔ دی نیوز۔ 19 مئی 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-05-28
  70. "'عظیم تبدیلی': اسرائیلی صدر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کے وفد کا استقبال کیا گیا"۔ ڈان۔ 29 مئی 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-06-01