صارف:Ulubatli Hasan/محمد بن عبد الوہاب

محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان التیمی

معلومات شخصیت
مذہب اسلام
اولاد
فہرست ..
  • ‘علی(اول)
  • حسن
  • حسین
  • ابراہیم
  • عبد الله
  • علی (دوم)
  • فاطمہ
  • عبد العزیز
مؤثر ابن تیمیہ[1][2][3]
ابن قیم جوزیہ[2]
محمد حیات سندھی
متاثر محمد بن سعود،
آل سعود
عبد العزیز بن باز،
محمد بن صالح عثیمین،
محمد ناصر الدین البانی،
عبد الرحمٰن السدیس،
سعود الشریم

ابو الحسین محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی التمیمی (1115ھ - 1206ھ) بمطابق (ولادت: 1703ءوفات: 21 مئی 1792ء) محقق، مفسر، مذہبی رہنما اور عالم دین تھے۔[18][4][1][2][19] سلفی اسلامی تحریک وہابیت آپ سے منسوب کی جاتی ہے۔[1][4][20][21][22][23][24][25][3]

1158ھ میں نجد کے ایک شہر درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے کا عہد کیا اور کتاب و سنت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔

محمد بن عبد الوہاب نے پچاس سال تبلیغ کا کام انجام دینے کے بعد وفات پائی۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے جس میں کتاب التوحید سب سے زیادہ مشہور ہے۔ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک نے اسلامی دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔

ابتدائی زندگی ترمیم

ابن عبد الوہاب عرب کے علاقے نجد کے ایک قصبہ العيينہ میں پیدا ہوئے۔ ایک معروف مفروضہ یہ ہے کہ 1703ء میں پیدا ہوئے،[26] لیکن محققین نے 1691ء سے لیکر 1701ء تک کے حوالے بھی دیے ہیں۔[حوالہ درکار] دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ جاکر قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن علم کی پیاس پھر بھی نہ بجھ سکی۔ پس مشہور ہے کہ اپنے والد عبد الوہاب بن سلیمان حنبلی کی اجازت سے حصول علم کے لیے شام، عراق (اور کچھ روایتوں کے مطابق اس دور کے دار الخلافہ استنبول) کا سفر بھی اختیار کیا۔[27]

نام و نسب ترمیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد بن برید بن محمد بن مشیر بن عمیر بن مااداد بن رئیس ابن زائیر بن محمد بن علوی بن وہب بن قاسم بن موسی بن مسعود بن عقبہ بن ثناء بن نہشال بن شداد بن ظہیر بن شہاب بن ربیعہ بن ابی سعود بن مالک بن حنداللہ بن مالک بن زید منات بن تمیم التیمی۔[28][29][30][31][32][33][34] ابن وہاب کا نسب بنو تمیم قبیلہ الیاس پر نبی کریم کے نسب شریف سے جا ملتا ہے۔[35][36][37]

محمد بن عبد الوہاب کا تعلق بنو تمیم قبیلہ سے ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے[38][39]

حَدَّثَنَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ ، سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ ، قَالَ : وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا ، وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ ، فَقَالَ : أَعْتِقِيهَا ، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ " .

ترجمہ

ابوہریرہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ ( وصول ہو کر آئی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

وفات ترمیم

ابن وہاب ماہ شوال 1206ھ بمطابق 1791ء میں انتقال فرما گئے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 92 سال تھی۔ شیخ کی وفات کے بعد آپ کی دعوت کی اشاعت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔[40]

کتابیات ترمیم

ابتدائی ماخذ ترمیم

ثانوی ماخذ ترمیم

  • جمال الدین زرابوزو (2003)۔ محمد بن عبد الوہاب کی زندگی، تعلیمات اور اثرات۔ ریاض: وزارت اسلامی امور، دعوت و رہنمائی۔ ISBN 9960-29-500-1۔ OCLC 839201143 

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث Brown 2009, p. 245.
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Haykel 2013, pp. 231–232.
  3. ^ ا ب پ Ágoston & Masters 2009, p. 260.
  4. ^ ا ب پ ت Esposito 2004, p. 123.
  5. H. Laoust (2012) [1993]۔ "Ibn ʿAbd al-Wahhāb"۔ $1 میں P. J. Bearman، Th. Bianquis، C. E. Bosworth، E. J. van Donzel، W. P. Heinrichs۔ Encyclopaedia of Islam (2nd ایڈیشن)۔ Leiden: Brill Publishers۔ ISBN 978-90-04-16121-4۔ doi:10.1163/1573-3912_islam_SIM_3033 
  6. "Ibn Abd al-Wahhab, Muhammad - Oxford Islamic Studies Online"۔ www.oxfordislamicstudies.com۔ Oxford University Press۔ 2020۔ 15 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2020 
  7. Halverson 2010, p. 48.
  8. Khatab 2011, pp. 57–58, 62–63.
  9. Silverstein 2010, pp. 112–113.
  10. ^ ا ب لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  11. Khatab 2011, pp. 62–65.
  12. Delong-Bas 2004, pp. 56–65.
  13. Van Bruinessen 2009, pp. 125–157.
  14. Khatab 2011, pp. 65–67.
  15. Saeed 2013, pp. 29–30.
  16. "ترجمة الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله"۔ www.alukah.net۔ 12 January 2017۔ 10 نومبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2020 
  17. https://hadithanswers.com/the-banu-tamim-tribe/
  18. "Ibn Abd al-Wahhab, Muhammad (d. 1791 )"۔ Oxford Islamic Studies Online۔ 12 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  19. Delong-Bas 2004, pp. 41–42.
  20. Talal Asad (2003)۔ Formations of the Secular: Christianity, Islam, Modernity۔ Stanford, California: Stanford University Press۔ صفحہ: 222۔ ISBN 978-0-8047-4768-4۔ 11 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2020 
  21. Alastair Crooke (30 March 2017) [First published 27 August 2014]۔ "You Can't Understand ISIS If You Don't Know the History of Wahhabism in Saudi Arabia"۔ The Huffington Post۔ New York۔ 28 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2020 
  22. Ben Hubbard (10 July 2016)۔ "A Saudi Morals Enforcer Called for a More Liberal Islam. Then the Death Threats Began."۔ The New York Times۔ New York۔ ISSN 0362-4331۔ 15 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2020 
  23. Michael Sells (22 December 2016)۔ "Wahhabist Ideology: What It Is And Why It's A Problem"۔ The Huffington Post۔ New York۔ 08 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2020 
  24. White 2017, pp. 252–253.
  25. Moosa 2015, p. 97.
  26. تاریخ نجد و حجاز از علامہ عبد القیوم، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشن (کراچی): ص ٣٨
  27. محمد بن عبد الوہاب(سوانح) از "سید علی طنطاوی جوھری مصری" {المتوفی١٣٣٥ ھ}، ص 19
  28. حسين بن غنام، تاريخ نجد، ت/سليمان الخراشي، ط1، دار الثلوثية، 1431هـ، ص81.
  29. عبد اللطيف بن عبد الرحمن، مصباح الظلام في الرد على من كذب على الشيخ الإمام، ج3، دار العاصمة، الرياض، ص379.
  30. راشد بن جريس، مثير الوجد في أخبار نجد، ص113-114.
  31. إبراهيم بن عيسى، تاريخ بعض الحوادث الواقعة في نجد، ص125.
  32. عبد الرحمن بن قاسم، الدرر السنية، ج16، ص315.
  33. حمد الجاسرة، جمهرة أنساب الأسر المتحضرة في نجد، ج1، 427.
  34. عبد الله البسام، علما نجد خلال ثمانية قرون، ج1، ط1، دار العاصمة، الرياض، 1419هـ، ص126.
  35. احمد عبد الغفور عطار (1989)۔ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب۔ صفحہ: 39 
  36. محمد بن صالح عثيمين (1997)۔ Explanation of the three fundamental principles of Islaam۔ Muhammad ibin 'Abdul-Wahhaab.۔ Birmingham: Al-Hidaayah۔ صفحہ: 23۔ ISBN 1-898649-25-1۔ OCLC 40646012 
  37. زرابوزو 2003, p. 15.
  38. صحیح بخاری،حدیث: 2543
  39. صحیح مسلم، حدیث: 2525
  40. زرابوزو 2003, p. 55.