نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ جنوب مغربی بحر الکاہل کی ایک خود مختار ریاست ہے۔ یہ ایک جزیرہ ملک ہے۔جغرافیائی حساب سے یہ ملک دو بڑے زمینی ٹکڑوں پر مشتمل ہے؛ شمالی جزیرہ اور جنوبی جزیرہ۔ ان دو مرکزی جزیروں کے علاوہ 600 دیگر چھوٹے جزائر ہیں۔ نیوزی لینڈ بحیرہ تسمان میں آسٹریلیا سے 2000 کلومیٹر (1200 میل) مشرق میں واقع ہے۔ اسی طرح ٹونگا، فجی اور نیو کیلیڈونیا کے بحر الکاحل کے جزائری علاقوں سے 1000 کلومیٹر (600 میل) جنوب میں ہے۔انسانوں کے ذریعے آباد کیے جانے والے جزائر میں نیوزی لینڈ کا مقام آخری ہے۔ یعنی یہ ان جزئر میں سے ہے جسے انسانوں نے سب سے آخری میں آباد کیا ہے۔ انسانوں کی آبادی سے قبل نیوزی لینڈ ایک نا معلوم تنہا جزیرہ تھا جو مختلف جانور، پیڑ پودوں اور فنگی فنگس کا ایک خوشنما علاقہ تھا۔ ملک کی مختلف النوع ٹوپوگرافی اور پہاڑ کی نوکیلی چوٹیوں کی ذمہ دار وہاں موجود ٹیک ٹونک اپ لفٹ اور متعدد جوالہ مکھیاں ہیں۔ نیوزی لینڈ کا دار الحکومت ویلنگٹن ہے جبکہ سب سے زیادہ آبادی والا شہر آکلینڈ ہے۔
نیوزی لینڈ | |
---|---|
نیوزی لینڈ کا پرچم | نیوزی لینڈ کا قومی نشان |
شعار(انگریزی میں: 100% Pure) | |
ترانہ: خدا نیوزی لینڈ کی حفاظت کرے | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 41°12′S 174°00′E / 41.2°S 174°E [1] |
بلند مقام | اوراکی/جبل کوک (3724 میٹر ) |
پست مقام | تئیری پلینس (-2 میٹر ) |
رقبہ | 268021.0 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | ویلنگٹن |
سرکاری زبان | ماوری زبان [2]، نیوزی لینڈ کی اشارتی زبان [3]، انگریزی |
آبادی | 5118700 (31 دسمبر 2021) |
|
2461701 (2019)[4] 2522257 (2020)[4] 2533227 (2021)[4] 2536570 (2022)[4] سانچہ:مسافة |
|
2517499 (2019)[4] 2567944 (2020)[4] 2578073 (2021)[4] 2580631 (2022)[4] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | پارلیمانی بادشاہت |
اعلی ترین منصب | چارلس سوم (8 ستمبر 2022–) |
مقننہ | نیوزی لینڈی پارلیمان |
عدلیہ | نیوزی لینڈ سپریم کورٹ |
مجلس عاملہ | حکومت نیوزی لینڈ |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 13 دسمبر 1986، 26 ستمبر 1907 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
شرح بے روزگاری | 6 فیصد (2014)[5] |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | نیوزی لینڈ ڈالر |
مرکزی بینک | نیوزی لینڈ مرکزی بینک |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+13:00 (روشنیروز بچتی وقت ) متناسق عالمی وقت+12:00 (معیاری وقت ) |
ٹریفک سمت | بائیں [6] |
ڈومین نیم | nz. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | NZ |
بین الاقوامی فون کوڈ | +64 |
درستی - ترمیم |
1250ء اور 1200ء کے درمیان میں اس جزیرہ میں پولینیشین لوگ آباد ہوئے اور اس کا نام نیوزی لینڈ رکھا۔ انھوں نے یہاں ماؤری تہذیب کو فروغ دیا۔ 1642ء میں ولندیزی سیاح ابیل تسمن وہ پہلا یورپی باشندہ تھا جس نے نیوزی لینڈ کی زمین پر قدم رکھا۔ 1840ء میں مملکت متحدہ کے نمائندوں نے ماؤری سربراہوں کے ساتھ ویٹنگی معاہدہ پر دستخط کیے جس کی رو سے نیوزی لینڈ برطانیہ کے زیر اختیار آگیا۔1841ء میں نیوزی لینڈ سلطنت برطانیہ کی ایک کالونی بن گیا اور 1907ء میں اسے ڈومینین نیوزی لینڈ بنا دیا گیا؛ 1947ء میں اسے خود مختار ریاست کو درجہ مل گیا اور آزادی ملی مگر سربراہ ریاست برطانوی لوگ ہی بنے رہے۔ فی الحال نیوزی لینڈ کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ یورپی نسل پر مشتمل ہے۔ ان کی کل تعداد 4.9 ملین ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ماؤری قوم ہے جو اب ختم ہونے کے کگار پر ہے۔ ماؤری کے بعد دیگر اقلیتوں میں ایشیائی قوم اور بحرالکاحل کے جزیروں کے لوگ ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ثقافت قدیم ماؤری اور جدید برطانوی آبادیات کی دین ہے۔ بعد میں دیگر علاقوں کے پناہ گزینوں نے بھی یہاں کی ثقافت پراپنا اثر ڈالا ہے۔
یہاں کی سرکاری زبانوں میں انگریزی زبان، ماوری زبان اور نیوزی لینڈ کی اشارتی زبان شامل ہے۔ البتہ انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔ نیوزی لینڈ ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ دنیا بھر کی مختلف قومی کارکردگیوں کے موازنوں میں نیوزی لینڈ کا درجہ کافی بلند ہے مثلاً معیار زندگی، صحت، تعلیم، شہری آزادیوں کا تحفظ اور اقتصادی آزادی وغیرہ۔ 1980ء کی دہائی میں نیوزی لینڈ میں بڑی اقتصادی تبدیلی آئی جس سے نیوزی لینڈ کی معیشت تحفظ پسند سے تبدیل ہو کر آزاد تجارتی معیشت بن گئی۔ نیوزی لینڈ کی معیشت کا بڑا حصہ سروس سیکٹر ہے۔ اس کے بعد صنعت نیوزی لینڈ میں کھیتی باڑی کا نمبر آتا ہے۔ بین الاقوامی سیاحت نیوزی لینڈ کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نیوزی لینڈ کی مقننہ وہاں کا منتخب یک ایوانیت پارلیمان ہے جبکہ کابینہ سیاسی اور اختیارات کی حامل ہے۔ کابینہ کی سربراہ وزیر اعظم نیوزی لینڈ ہے۔ سربراہ ملک ایلزبتھ دوم ہے۔ ان کی نمائندگی گورنر جنرل کرتا ہے۔حکومتی طور پر نیوزی لینڈ علاقائی کونسل پر مشتمل ہے۔ علاقائی کونسل پر مشتمل ہے۔ پھر ان میں 67 چھوٹی چھوٹی علاقائی اتھارٹیاں ہیں۔ نیوزی لینڈ قلمرو میں ڈوکیلاؤ (ایک منحصر علاقہ)؛ جزائر کک، نیووے، راس انحصار بھی شامل ہیں۔ نیو وے ایک خود مختار ریاست ہے جس کا الحاق نیوزی لینڈ کے ساتھ ہے جبکہ راس انحصار نیوزی انٹارکٹیکا کا وہ علاقہ ہے جس پر نیوزی لینڈ اپنا دعوی کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ دولت مشترکہ ممالک کا رکن ہے، اسی کے ساتھ انجمن اقتصادی تعاون و ترقی، جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم، ایشیائی بحرالکاحلی اقتصادی تعاون اور جزائر بحل الکاحلی فورم کا بھی رکن ہے۔
اشتقاقیات
ترمیمنیدرلینڈز کے سیاح ابیل تسمن نے 1642ء میں نیوزی لینڈ کی دریافت کی اور اسے سٹیٹن لینڈ نام دیا۔ چونکہ نیدرلینڈز کی پارلیمان کو اٹیٹس جنرل کہتے ہیں اسی لیے تسمن نے جزیرہ کو سٹیٹن لینڈ کا نام دیا اور کہا “یہ ممکن ہے کہ اس جزیرہ کو سٹیٹن لینڈ میں شامل کر لیا جائے مگر یہ یقینی نہیں ہے۔“[7] ان کا اشارہ شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے ہم نام ہونے کی طرف تھا۔ واضح ہو کہ جنوبی افریقا کی دریافت جیکب لی مائرے نے 1616ء میں کی تھی۔[8][9] 1645ء میں ڈچ نقشہ نگاروں نے جزیرہ کا نام بدل کر نیدرلینڈز کے صوبہ زیلانت کے نام پر نووا زیلینڈیا کر دیا۔[10][11] بعد ازاں برطانوی سیاح جیمز کک نے اس نام پر انگریزی رنگ چڑھاکر نیوزی لینڈ کر دیا۔[12] نیوزی لینڈ کا موجودہ ماؤری زبانی نام آوٹیورا (Aotearoa) // ( سنیے)) ہے۔ اس کے معنی “طویل سفید بادلوں کی زمین“ ہے[13] یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا ماؤری زبان کا یہ نام پورے نیوزی لینڈ کے لیے استعمال ہوتا تحا یا محض شمالی جزیرہ کے لیے۔[14] ابتدائی یورپیوں نے نقشہ میں شمالی جزیرہ، وسطی جزیرہ اور جنوبی جزیرہ نام رکھا تھا۔[15] 1830ء سے نقشوں میں دو بڑے جزیروں کو شمالی اور جنوبی جزیرہ کہا جانے لگا اور 1907ء میں اس روایت کو قبول کر لیا گیا۔[16] 2009ء میں نیوزی لینڈ جیوگرافک بورڈ نے دریافت کیا کہ شمالی اور جنوبی جزیروں کے نام کبھی متعین نہیں کیے گئے ہیں البتہ 2013ء میں باقاعدہ نام دیا گیا۔ شمالی جزیرہ کا نام ٹی آئی کا اے ماؤئی (Te Ika-a-Māui) اور جنوبی جزیرہ کا نام ٹی وائی پونامو (Te Waipounamu) رکھا گیا۔ دونوں جزیروں کے آیا انگریزی یا ماؤری یا دونوں ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
تاریخ
ترمیمانسانوں نے جن زمین کے جن خطوں کو سب سے آخر میں بسایا ہے نیوزی لینڈ ان میں سے ایک ہے۔ ڈیفوریسٹیشن کی ریڈیو کاربن تاریخ نگاری کے ثبوت اور ماؤری آبادی کے مائیٹوکونڈرائل ڈی این اے [17] کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں پہلی آبادی 1250ء تا 1300ء کے دوران میں پولینیشین کے لوگوں نے بسائی تھی۔[18][19] اس کے لیے انھوں نے بحر الکاحل کے جزائر کا ایک طویل سفر کیا تھا اور سفر در سفر کے بعد ان کا نزول نیوزی لینڈ میں ہوا۔[20] صدیوں وہ وہاں رہے اور ان کی ایک ثقافت بنی جسے ماؤری ثقافت کہا جاتا ہے۔ماؤری کی کل آبادی دو ہوا۔[21] صدیوں وہ وہاں رہے اور ان کی ایک ثقافت وہاں بنی جسے ماؤری ثقافت کہا جاتا ہے۔ماؤری کی کل آبادی دو گروہ آئی وی اور ہاپو میں منقسم تھی جو کبھی ایک دوسرے کا تعاون کرتے تھے، کبھی ایک دوسرے سے مقابلے کرتے اور ضرورت پڑے پر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما بھی رہتے تھے۔[22] پھر ان میں سے ایک گروہ ویکوہو (موجودہ شاثام جزیرہ کی طرف ہجرت کرگیا جہاں انھوں نے اپنی الگ پہچان بنائی اور ان کی ثقافت موریوری تہذیب کہلائی۔[23][24] 1835ء یا 1862ء کے دوران موریوری کی آبادی تقریباً ختم ہو گئی کیونکہ تاراناکی ماؤری قوم نے ان پر حملہ کر دیا اور 1830ء کی دہائی میں سب کو غلام بنا لیا۔ باقی رہی سہی کسر یورپ کی بیماریوں نے پوری کردی۔ حتی کہ 1862ء میں محض 101 مویوری قوم کے لوگ بچے تھے۔ 1933ء میں یہ دعوی کیا گیا کہ اب کوئی خالص مویوری نسل کا فرد نہیں بچا ہے۔[25] فرانسیسی لوگوں کئی اکارورا میں زمین خریدنے اور نیوزی لینڈ کمپنی ویلنگٹن [26] میں آزاد بستی بسانے کی کوششوں کے جواب میں ہوبسن نے 21 مئی 1840ء کو مکمل نیوزی لینڈ پر برطانوی حکمرانی کا اعلان کر دیا حالانکہ ابھی ماؤری لوگوں کو ماہدہ پر دستخط کرنا باقی تھا۔[27] برطانوی تسلط کے اعلان اور معاہدہ کے بعد نیوزی لینڈ میں خصوصا مملکت متحدہ اور عمومی دیگر ممالک سے آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔[28]
1642ء وہ سال تھا جب نیوزی لینڈ کی سرزمین پر کسی یورپی باشندہ نے قدم تھا۔ ڈچ سیاح ایبل تسمن اور اس کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے جزائر کو دریافت کیا۔[29] جیسے ہی جزیرہ پر پہنچے ماؤری قوم نے ان پر حملہ کر دیا اور اس جھگڑے میں ایبل کے چار ساتھی مارے گئے جبکہ ایک ماؤری کی موت ہوئی۔ [30] پھر 1769ء تک کسی یورپی نے ادھر توجہ نہیں کی۔ آخر کار برطانوی سیاح جیمز کک نیوزی لینڈ کے تقریباً تمام ساحلوں کا نقشہ تیار کیا۔[31] کک کے بعد متعدد یورپی اور شمال امریکی سیاحوں نے نیوزی لینڈ کا سفر کیا۔ شمال امریکی سیاحوں نے نیوزی لینڈ کا سفر کیا۔ یہ لوگ سیل، وہیل کا شکار کرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ کچھ لوگوں نے تجارتی اسفار بھی روع کردئے تھے۔ یہ تاجر یورپی کھانے، دھات کے اوزار، ہتھیار، گھر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی (ٹمبر)، ماؤری کھانے اور پانی کی تجارت کیا کرتے تھے۔[32] آلو اور تفنگ قدیم کی نیوزی لینڈ میں آمد کے بعد وہاں کی کھیتی باڑی اور جنگ میں ایک خاص ترقی دیکھنے کو ملی۔ آلو ایک قابل بھروسا غذا تھی جس سے جسم کو تقویت ملی اور فوج کے زیادہ دنوں کے کھانے کا انتطام بھی ہو گیا۔[33] جس کی وجہ سے فوج طاقتور ہو گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ 1801ءتا 1840ء کے دوران میں علاقائی قبائلوں کے مابین 600 جنگیں لڑی گئیں جن میں 30 ہزار سے 40 ہزار کے آس پاس ماؤری مارے گئے۔[34] 19ویں صدی سے مسیحی مبلغین نے نیوزی لینڈ میں مذہب کی تبلیغ کرنا شروع کر دی جس سے ماؤری لوگ عیسائی مذہب اپنانے لگے۔[35] اسی صدی میں یورپ نے نیوزی لینڈ میں ایک نئی بیماری متعارف کرادی جس سے تقریباً 40 فیصد ماؤری ماوت کے شکار ہو گئے۔[36] 1788ء میں آرتھر فلپ نے نیو ساؤتھ ویلز کے گورنری کا عہدہ سنبھالا جنھوں نے اپنی کمشنری میں نیوزی لینڈ کو بھی شامل کر لیا۔[37] 1832ء میں شمالی ماؤری کی دوخواست پر برطانوی حکومت نے جیمز بسبی کو نیوزی لینڈ کا صدر مقرر کیا۔ 1835ء میں چارلس دی تھیری نے اعلان کیا کہ وہ نیوزی لینڈ میں نئی اباد کاری کریں گے جس کے بعد نیوزی لینڈ کے متحدہ قبائل نے مملکت متحدہ کے بادشاہ ولیم چہارم اعلان آزادی بھیجا تاکہ وہ ان کی حفاظت کریں۔ اسی افرا تفری کے زمانے میں نیوزی لینڈ کمپنی (جس نے پہلے ہی ایک جہاز روانہ کیا تھا تاکہ ماؤری سے زمین خریدی جا سکے) اعلان ازادی کی دھندلی قانونی چارہ جوئی نے کولونیل آفس کو ابھارا کہ کپتان ولیم ہوبسن کو مملکت متحدہ کی حاکمیت کا دعوی کرنے اور ماؤریوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی خاطر بھیجا جائے۔[38] 6 فروری 1840ء کو جزائر خلیج میں ویٹنگی معاہدہ پر پہلی مرتبہ دستخط کیا گیا۔[39] 1 جولائی 1841ء تک نیو ساوتھ ویلز کا حصہ رہنے والا نیوزی لینڈ ایک تاج نوآبادی والا ملک بن گیا۔[40] 1852ء میں نیوزی لینڈ کو پہلی نمائدہ حکومت ملی اور 1854ء میں پارلیمان کا پہلا اجلاس ہوا۔[41] 1856ء میں نیوزی لینڈ میں خود مختار حکومت بن گئی اور قبائلی پالیسی کے علاوہ دیگر تمام علاقائی پالیسی اور معاملات کو نیوزی لینڈ کی نئی حکومت خود حل کرنے لگی۔[42] 1860ء کی دہائی میں قبائلی پالیسی پر بھی اختیار مل گیا۔ یہ خدشہ ظاہر ہو رہا تھا کہ جنوبی جزیرہ کہیں ایک الگ کالونی نہ ہوجائے لہذا وزیر اعظم الفرڈ ڈومیٹ نے دار الحکومت کو آکلینڈ سے قریب کے علاقہ آبنائے کک میں منتقل کرنے ایک ریزولوشن متعارف کرایا۔[43] ویلنگٹن کو دار الحکومت بنایا گیا کیونکہ وہ دونوں جزیروں کے بیچ میں ہے۔ 1865ء میں وہاں پارلیمان کا پہلا اجلاس ہوا۔ چانکہ مہاجرین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی لہذا 1860ء اور 1870ء کی دہائی جنگوں کا آغاز ہوا جس کا سبب زمین کی ملکیت تھا۔ نجیتا ماوری لوگوں کی بہت سی زمینیں قبضہ کرلی گئیں۔ 1891ء میں لبرل پارٹی بحیثیت پہلی منظم پارٹی کی شکل میں حکومت میں آئی۔[44] لبرل حکومت میں ریچارڈ سیڈن کو وزارت عظمی کی کرسی بہت دنوں تک ملی [45] اور انھوں نے مشعاسی اور سماجی اصلاح کے لیے کئی سارے قوانین بنائے۔ 1893ء میں نیوزی لینڈ دنیا کا پہلا ایسا ملک بنا جہاں خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی آزادی ملی۔[46] 1894ء میں صنعتی معاہدہ اور ثالثی ایکٹ، 1894ء پاس کیا گیا جس کی رو سے مزدوروں کی یونین اور آجر کے درمیان میں ایک ثالثی کا ہونا ضروری قرار دیا گیا۔[47] 1907ء میں نیوزی لینڈ پارلیمان کی درخواست پر بادشاہ ایڈورڈ ہفتم نے نیوزی لینڈ کو ڈومینین نیوزی لینڈ کا درجہ دیا، [48] مگر اب بھی یہ برطانوی سلطنت کا حصہ تھا البتہ حکومت اب اپنی ہو گئی تھی۔[49] 1947ء میں نیوزی لینڈ کو برطانیہ سے مکمل آزاد کر دیا گیا اور اب برطانوی پارلیمان کو نیوزی لینڈ کے لیے اس سے مشورہ کیے بغیر قانون بنانے کا اختیار ختم ہو گیا۔[50] 20ویں صدی کے اوائل میں نیوزی لینڈ عالمی معاملات میں حصہ لینے لگا تھا اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا جس کی وجہ سے اس ے کساد عظیم کا سامنا کرنا پرا۔2572 اس کساد کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں پہلی لیبر حکومت بنی اور فلاحی ریاست اور تحفظی معیشت کا انعقاد ہوا۔[51]دوسری جنگ عظیم کے بعد نیوزی لینڈ میں خوش حالی کا دور شروع ہوا [52] اور ماؤری اپنی جنگلی قبائلی زندگی کو چھوڑ کر شہر کی طرف کام کاج کی تلاش میں جانے لگے۔ اسی دوران میں ماؤری تحریک کا آغاز ہوا جس کا مقصد یورپ کے بڑھتے رجحان کی تنقید کرنا، ماؤری ثقافت کا تحفظ اور ویٹنگ معاہدہ کی یاد دلانا تھا۔[53] 1975ء میں معاہدہ کی شقوں پر غور کرنے کے لیے ویٹنگ ٹریبیونل بنایا گیا جس کے بعد 1985ء میں تاریخی شکایتوں کی تحقیق کا راستہ کھل گیا۔[54] حکومت نے کئی آئی وی لوگوں کے ساتھ ان شکایتوں کے ازالہ کے لیے بات چیت کی [55] ماؤری کے فری شور اور سی بیڈ کے دعووں کو 2000ء میں مئی تنازعات کے بعد قبول کر لیا گیا۔[56][57]
حکومت اور سیاست
ترمیمنیوزی لینڈ میں آئینی بادشاہت ہے اور وہاں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔[58] البتہ نیوزی کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں ہے۔[59] نیوزی لینڈ کی رانی ہونے کی حیثیت سے ایلزبتھ دوم سربراہ ریاست ہے۔[60] مہارانی کی نمائندگی گورنر جنرل نیوزی لینڈ کرتا ہے جسے رانی وزیر اعظم نیوزی لینڈ کی سفارش پر مقرر کرتی ہے۔[61] رانی کی طرف سے گورنر جنرل شاہی اختیارات کا استعمال کرتا ہے جیسے نا انصافی والے فیصلے پر نظر ثانی کرنا، وزرا، سفیروں اور دیگر اہم پبلک افسران کی تقرری وغیرہ۔[62] شاذ و نادر ہی سہی مگر اسے پارلیمان کو تحیل کرنے کا اختیار بھی ہے۔[63] رانی اور گورنل جنرل کے اختیارات دستوری طور محدود ہیں اور وزرا کے مشوروں کے بغیر وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔[64] پارلیمان نیوزی لینڈ مقننہ کا کردار ادا کرتی ہے۔ پارلیمان رانی اور ارکان پارلیمان پر مشتمل ہے۔[65] 1950ء تک اس میں ایوان بالا، لیجسلیچو کونسل بھی شامل تھے مگر اب انھیں کالعدم کر دیا گیا ہے۔[66] بل آف رائٹس، 1689ء کے تحت پارلیمان کو تاج پر فوقیت حاصل ہے اور نیوزی لینڈ میں اسے اب قانون بنا دیا گیا ہے۔[67] انتخابات کے ذریعے ارکان پارلیمان کو چنا جاتا ہے اور کسی پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر کسی کو اکثریت نہ ملی ہو تو اقلیتی پارٹی بھی حکومت بنا سکتی ہے اگر اسے اعتماد اور رسد کا ووٹ مل جائے۔[68] وزیر اعظم حکمراں پارٹی یا اتحاد کی طرف سے پارلیمان کا رہنما ہوتا ہے اور اس کے مشورے پر گورنر جنرل کا تقرر ہوتا ہے۔[69] کابینہ متعدد وزرا پر مشتمل ہے اور اس کا رہنما خود وزیر اعظم ہے۔ کابینہ سب سے بڑی قانون ساز اکائی ہے اور حکومت کے اہم فیصلے اور امور کی ذمہ دار ہے۔[70] کابینہ کے ارکان مجموعی طور پر کسی فیصلہ پر متفق ہوتے ہیں [71] پس وہ مجموعی طور پر ہی ذامہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔[72] ہر تین سال کے وقفہ سے نیوزی لینڈ کے عام انتخابات ہوتے ہیں۔[73] 1853ء تا 1993ء تک تقریباً تمام انتخابات فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ سے ہوئے ہیں۔[74] 1996ء کے انتخابات میں متناسب نمائندگی کی ایک قسم مکسڈ ممبر سسٹم کا استعمال کیا گیا۔[75] اس نظام کت تحت ہر ووٹر کو دو ووٹ ڈالنے کا حق ہے؛ ایک ووٹ امیدوار کو اور دوسرا پارٹی کو۔ 2004ء کے انتخابات میں کل 71 انتخابی حلقے تھے جن میں 7 صرف ماوری کے لیے مخصوص تھے۔ باقی 49 سیٹیں تفویض کر دی گئی تھیں تاکہ پارلیمان میں پارٹی ووٹ کی نمائندگی ہو اور پارٹی ہر حلقہ میں کم از کم 5 فیصد ووٹ ضرور حاصل کرے۔[76] 1930ء میں انتخابات کے آغاز سے ہی صرف دو پارٹیوں نیوزی لینڈ نیشنل پارٹی اور نیوزی لینڈ لیبر پارٹی کا غلبہ رہا ہے۔[77] مارچ 2005ء تا اگست 2006ء کے درمیان میں نیوزی لینڈ دنیا کا واحد ملک تھا جہاں تمام اعلیٰ عہدوں -سربراہ ریاست، گورنر جنرل، وزیر اعظم، اسپیکر اور چیف جسٹس- پر خواتین فائز تھیں۔ موجودہ وزیر اعظم (مارچ 2019ء) جیسندا آرڈرین ہیں۔ وہ 26 اکتوبر 2017ء سے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ہیں۔ وہ ملک کی تیسری خاتون وزیر اعظم ہیں۔ عدلیہ نیوزی لینڈ کے سربراہی چیف جسٹس کرتے ہیں۔[78] عدلیہ کے ڈھانچہ میں سپریم کورٹ، کورٹ آف اپیل، ہائی کورٹ اور سب آرڈی نیٹ کورٹ شامل ہیں۔[79] عدلیہ کی آزادی برقرار رہے اس کے لیے تما ججوں اور عدلیہ کے افسران کا تقرر غیر سیاسی ہوتا ہے اور ان کی میعادوں کے قوانین بہت سخت ہیں۔[80] اس سے ججوں کو پارلیمان کے بنائے قانون کے مطابق فیصلہ دینے میں آسانی ہوتی ہے اور ان کے فیصلے کسی خارجی امور سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔[81]
نیوزی لینڈ کو دنیا بھر میں سب سے مستحکم اور اچھی حکومت کے لیے جانا جاتا ہے۔[82] 2017ء میں جمہوری اداروں کی طاقت کی فہرست میں نیوزی لینڈ کا مقام چوتھا تھا وہیں بد عنوان کی کمی میں یہ ملک سرفہرست تھا۔ 2017ء میں ریاستہائے متحدہ امریکا کی ریاست آف اسٹیٹ نے ایک رپورٹ حقوق انسانی رپورٹ میں کہا کہ نیوزی لینڈ کی حکومت عموما افراد کی سماجی حالت کی فکر کرتی ہے لیکن ماؤری آبادی کی حالت اب بھی قدرے تشویشناک ہے۔[83] دنیا بھر میں عوام کی سیاست میں دلچسپی اور مشارکت کے معاملے میں نیوزی لینڈ کا مقام اول تھاگزشتہ انتخابات میں ووٹ کا فیصد 77 تھا جبکہ عالمی فیصد 69 ہے۔[84]
بین الاقوامی تعلقات اور فوج
ترمیمابتدائی کولونیل نیوزی لینڈ میں برطانوی حکومت کو بین الاقوامی تجارت کرنے کی آزادی دی گئی تھی اور یہ کہ خارجی تعلقات کی ذمہدار بھی حکومت ہی ہوگی۔ 1923ء اور 1926ء کے امپیریل کانفرنس میں طے ہوا کہ ان نیوزی لینڈ کو خود اپنے سیاسی معاملات طے کرنے چاہیے اور پہلا سیاسی معاہدہ 1928ء میں جاپان کے ساتھ ہوا۔ 1928ء میں نیوزی لینڈ نے برطانیہ کے ساتھ اتحاد کر لیا اور جرمنی سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ وقت کے وزیر اعظم مائیکل جوزف ساویج نے کہا “جہاں وہ جائے گی، ہم بھی جائیں گے، جہاں وہ رکے گی ہم بھی رکیں گے۔[85]
1951ء میں مملکت متحدہ کی توجہ یورپ پر مرکوز ہو گئی [86] اور ادھر نے نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا اور امریکا کے ساتھ مل کر انزوس (ANZUS) معاہدہ پر دستخط کر دیا۔[87] ویتنام جنگ کے بعد نیوزی لینڈ پر امریکا پکڑ ڈھیلی پڑ گئی، [88] امریکا نے انزوس کو منسوخ کر دیا لیکن اس کے بادجود نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے انزوس کے معاہدے کے پابند رہے اور تاریخی روایت پر عمل پیرا رہے۔[89] دونوں ملکوں کے مابین قریبی سیاسی تعلاقت برقرار رہے اور تجارت و سیاحت کی راہیں ہموار کی گئیں۔ اور دونوں ملکوں کے باشندوں کے ایک دوسرے کے ملک میں جانے، گھومنے اور تجارت کرنے کی بنا کسی پابندی مکمل آزادی دی گئی۔[90] 2013ء میں 650,000 نیوزی لینڈ (کل آبادی کا 15 فیصد )کے باشندے آسٹریلیا میں مقیم تھے۔و101
بحرالکاحل کے جزائر پر نیوزی لینڈ کی مضبوط پکڑ ہے اور وہ ان ممالک میں امداد بھیجتا رہتا ہے۔ ان ملکوں سے لوگ اکثر نیوزی لینڈ کا سفر کرتے رہتے ہیں اور پناہ حاصل کرتے ہیں۔[91] ان ملکوں سے وہاں نوکری کرنے بھی لوگ خوب جاتے ہیں۔ ساموان کوٹا اسکیم 1970ء اور پیسیفک اکسیس کیٹیگری 2002ء کے تحت بالترتیب 11000 ساموانی اور 750 دیگر افراد نے ہجرت کر کے نیوزی لینڈ کی مستقل شہریت حاصل کی۔ 2007ء اور 2009ء میں وقتی نوکری اسکیم لانچ کی گئی جس کے تحت تقریباً 8000 بحرالکاحل کے جزائر کے باشندوں کو نوکری دی گئی۔[92] نیوزیلینڈ پیسیفک آئی لینڈ فورم، پیسیفک اکانومک کو اوپوریشن اور جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم اور علاقائی فورم جیسے مشرقی ایشیا سمٹ کا رکن ہے۔[93] نیوزی لینڈ اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک [94]، انجمن اقتصادی تعاون و ترقی و016و اور فائیو پاور ڈیفینس ارینجمینٹ کا بھی رکن ہے۔[95] نیوزی لینڈ کی مسلح افواج نیوزی لینڈ آرمی، رایل نیوزی لینڈ ائیر فورس اور رایل نیوزی لینڈ نیوی پر مشتمل ہے۔[96]
چونکہ نیوزی لینڈ پر براہ راست حملہ کے امکانات بہت ہی کم ہیں لہذا نیوزی لینڈ کی قومی سلامتی فوج اوسط درجہ کی ہی ہے۔[97] البتہ نیوزی لینڈ کی فوج کو دنیا بھر میں ایک مقام حاصل ہے۔ ملک نے دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا اور جنگ گیلی پولی، کریٹ [98] دوسری جنگ العلمين [99] اور جنگ مونٹی کاسینو میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔[100] خصوصا جنگ گیلی پولی سے نیوزی لینڈ کو اہم پہچان ملی۔[101][102] اور آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے اور اسے مضبوط کرنے میں مدد ملی۔[103]
ویتنام اور دو عالمی جنگوں کے علاوہ نیوزی لینڈ نے دوسری بویری جنگ، [104] کوریا کی جنگ، ملاین ایمرجنسی [105]، دوسری خلیجی جنگ اور افغانستان کی جنگوں میں بھی شرکت کی۔ جنگ میں براہ راست شرکت کرنے کے علاوہ نیوزی لینڈ نے قبرص، صومالیہ، بوسنیا، سونز بحران، انگولہ، کمبوڈیا، ایران عراق سرحد، بوگاینویل مہم، مشرقی تیمور اور جزائر سلیمان کو فوجی تعاون دیا۔[106]
علاقائی حکومت اور خارجی خطے
ترمیمابتدائی یورپیوں نے نیوزی لینڈ کو صوبوں میں تقسیم کیا تھا اور جنہیں ایک حد تک خود مختاری حاصل تھی۔[107] لیکن 1876ء میں ملک کو مضبوط کرنے کے لیے چند اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا جن کے نفاذ کے لیے صوبوں کو متحد کرنا اور مرکزی نظام سے جوڑنا ضروری تھا۔ لہذا ریلوے، تعلیم، زمین کی خرید و فروخت اور دیگر پالیسیوں کو بہتر بنانے کی خاطر تمام صوبہ جات مرکزی نظام سے جوڑ دیا گیا۔[107][108] تاہم اب ان صوبوں کو علاقائی چھٹیوں اور کھیل کے لیے یاد رکھا جاتا ہے۔کے لیے یاد رکھا جاتا ہے۔[109][110] مرکزی حکومت نے کئی علاقوں کو شناخت کیا اور کونسل کے ذریعے وہاں حکومت کا نظام چلایا۔ [107][111] حکومتی ڈھانچہ میں تبدیلی کی گئی اور اور دو سطحی ڈھانچہ بنایا گیا۔ [112] 1975ء میں 249 میونسی پالیٹی تھی جنہیں مختصر کر کے 67 خطوں اور 11 علاقائی کونسلوں میں منقسم کر دیا گیا۔ [113] نیوزی لینڈ 16 دولت مشترکہ قلمرو [114] اور انجمن اقتصادی تعاون و ترقی (OECD)، [115] میں سے ایک ہے اور اس کی سلطنت ان تمام علاقوں پر نیوزیلینڈ کی مہارانی کا راج چلتا ہے۔ ان میں نیووے اور جزائر کک خود مختار صوبے ہیں جن کا نیوزی لینڈ کے ساتھ آزاد الحاق ہے۔[116][117] نیوزی لینڈ کا پارلیمان ان صوبوں کے لیے کوئی قانون منظور نہیں کرسکتا ہے لیکن خارجی امور میں ان کی جانب سے فیصلہ لے سکتا ہے۔
ماحول
ترمیمجغرافیہ
ترمیمنیوزی لینڈ آبی نصف کرہ کے مرکز کے قریب واقع ہے اور دو بڑے جزیروں اور کئی چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ دو بڑے جزیرے شمالی جزیرہ یا e Ika-a-Māui, اور جنوبی جزیرہ یا e Waipounamu ہیں۔ دونوں ے درمیان میں ابنائے کک واقع ہے جس کی سب سے کم چوڑائی 22 کلومیٹر ہے[118] ان دو جزائر کے علاوہ پانچ اور بڑے جزیرے ہیں۔ نیوزی لینڈ جغرافیائی طور پر طویل اور سکڑا ہے۔ اس کی لمبائی (over 1,600 کلومیٹر (990 میل) کلومیٹر اور چوڑائی 400 کلومیٹر (250 میل)) ہے۔[119] کل 15,000 کلومیٹر (9,300 میل) ساحل ہے اور خشکی کا رقبہ 268,000 کلومربع میٹر (2.8847279917×1012 فٹ مربع) ہے۔ چونکہ اس کے جزائر باقی ملکوں کی پہنچ سے دور ہیں اور اس کے پاس بڑے سمندر ساحل بھی ہیں لہذا نیوزی لینڈ آبی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کا ذاتی معاشی خطہ دنیا میں سب سے بڑا ہے جو اس کے خشکی رقبہ سے تقریباً 15 گنا بڑا ہے۔[120] شمالی جزیرہ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا خشکی کا رقبہ ہے اور دنیا کا بارہواں بڑا جزیرہ ہے۔[121] جنوبی جزیرہ دنیا کا چودہواں بڑا جزیرہ ہے۔ اس جزیرہ میں پہاڑ گرچہ کم ہیں مگر یہاں اتش فشانوں کی کثرت ہے۔[122] تاپو اتش فشانی خطہ سب سے بڑا اتش فشانی علاقہ ہے اور جزیرہ کا سب سے اونچا پہار بھی یہیں واقع ہے۔ یہیں ملک کی سب سے بڑی جھیل جھیل ٹاپو بھی واقع ہے۔ [123][124] نیوزی لیند آسٹریلیشیا نامی علاقہ کا حصہ ہے۔ اس میں آسٹریلیا بھی شامل ہے۔[125] یہ پولینیشیا نامی علاقہ میں بھی آتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے زمین کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں یہ علاقے منقسم ہیں۔[126] براعظم آسٹریلیا اور آس پاس کے علاقوں کو شامل کر کے ایک اور برا علاقہ یا خطہ بنتا ہے جسے اوقیانوسیہ کہا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ اس کا بھی حصہ ہے۔ واضح ہو کہ نیوزی لینڈ اور بحر الکاحل کے دیگر جزیرے سات براعظموں کا حصہ نہیں ہیں۔ انھیں اوقیانوسیہ کا حصہ مانا جاتا ہے۔[127]
-
دیہی نظارہ، کوئنزٹاؤن، نیوزی لینڈ
-
ایمریلڈ جھیلیں، ماؤنٹ ٹونگاریرو
-
پینکیرو ہیڈ، ویلنگٹن
آب و ہوا
ترمیمنیوزی لینڈ کی آب و ہوا بنیادی طور پر کوپن موسمی زمرہ بندی میں آتا ہے۔ اوسط سالانہ درجہ حرارت شمال میں 10 °C (50 °F) اور جنوب میں 16 °C (61 °F) رہتا ہے۔۔[128] تاریخی طور پر اوسط حرارت کینٹربری، نیوزی لینڈ میں 42.4 °C (108.32 °F) اور اوٹاگو میں −25.6 °C (−14.08 °F) درج کیا گیا ہے۔[129] علاقہ کے اعتبار سے ماحولیاتی حالے بھی بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی ہے۔ جنوبی جزیرہ کا مغربی ساحل ہمیشہ بہت تر رہتا ہے جبکہ مرکزی اوٹاگو، مکینزی بیسن اور نارتھ لینڈ کے علاقے نیم خشک رہتے ہیں۔ [130] نیوزی لینڈ کے سات بڑے شہروں میں کرائسٹ چرچ سب سے خچک شہر ہے۔ یہاں سالانہ اوسطا 640 ملی میٹر ہی بارش ہوتی ہے۔ ویلنگٹن سب سے تر شہر ہے جہاں کرائسٹ چرچ کے مقابلے دوگنی مقدار میں بارش ہوتی ہے۔۔[131] آکلینڈ، ویلینگٹن اور کرائسٹ چرچ میں سالانہ اوسطا 2000 گھنٹے سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔ جنوبی جزیرہ کا جنوبی اور جنوب مغربی خطہ نسبتا ٹھنڈا اور بادل والا ہے جہاں سورج کی روشنی اوسطا 1400–1600 گھنٹے پہنچتی ہے۔جنوبی جزیرہ کا جنوبی اور جنوب مشرقی خطہ سب سے زیادہ روشن ہے جہاں 2400–2500 گھنٹہ سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔ [132] برف باری کا عموما جون تا اکتوبر کے مہینوں میں ہوتی ہے۔ البتہ بے موسم ٹھنڈی ہوائیں بھی چلتی ہیں۔ [133] برف باری جنوبی جزیرہ کے جنوبی اور مشرقی خطہ میں بہت عام ہے، اسی طرح ملک کے اونچے پہاڑوں پر بھی خوب برف باری ہوتی ہے۔[128]
-
ویلنگٹن میں موسم خزاں
-
درمیانی پلاٹو میں موسم سرما
-
ہیگلی پارک، کرائسٹ چرچ میں موسم بہار
-
موسم گرما میں ساحل سمندر
ذیل میں نیوزی لینڈ کے 6 بڑے شہروں کے درجہ حرارت دیے جا رہے ہیں۔ شمالی جزیرہ کے شہر عموما فروری میں بہت گرم رہتے ہیں۔ جنوبی جزیرہ کے شہر جنوری میں بہر گرم رہتے ہیں۔
علاقہ | جنوری/فروری (°C) | جنوری/فروری (°F) | جولائی (°C) | جولائی (°F) |
---|---|---|---|---|
آکلینڈ | 23/16 | 74/60 | 14/7 | 58/45 |
ویلنگٹن | 20/13 | 68/56 | 11/6 | 52/42 |
کرائسٹ چرچ | 22/12 | 72/53 | 10/0 | 51/33 |
ہیملٹن، نیوزی لینڈ | 24/13 | 75/56 | 14/4 | 57/39 |
تائورانگا | 24/15 | 75/59 | 14/6 | 58/42 |
ڈنیڈن | 19/11 | 66/53 | 10/3 | 50/37 |
حیاتی تنوع
ترمیمنیوزی لینڈ کی 80 ملین سال کی جغرافیائی تنہائی[135] اور جزیرہ کی حیاتیاتی جغرافیہ نے ملک کے جانوروں، پھپھوند اور پودوں کو متاثر کیا ہے۔ظاہری تنہائی کی وجہ سے حیاتیاتی تنہائی پیدا ہوئی۔ اور نتیجتا وہاں کی ایکولوجی میں بڑی متحرک تبدیلی واقع ہوئی اور کچھ عجیب و غریب اور منفرد قسم کے پودے، جانور اور مخلتف قسم کی بہت ساری پرجاتیاں پیدا ہوگئیں۔[136][137] نیوزی لینڈ کے 82 فیصد عروقی پردے وہیں کی پیداوار ہیں۔ ان میں کل 65 جنس اور 1944 پرجاتیاں ہیں۔[138][139] نیوزی لینڈ میں موجود پھپھوندوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کی اصلی پھپھوندوں کی تعداد بھی پتہ نہیں ہے۔ اور نا ہی کوئی تناسب معلوم ہو سکا ہے۔ البتہ ایک اندازہ کہتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں 2300 طرح کی پھپھوند پائی جاتی ہیں۔ [138] ان میں تقریباً 40 فیصد وہیں کی پیداوار ہیں۔[140] دو اہم قسم کے جنگلات میں بڑے اور چوڑے درخت والے جنگلات ہیں اور دوسرے جنگلات ٹھنڈے علاقے کے جنوبی ساحل کے خطے کے ہیں۔[141] دیگر نباتاتی اشیا میں گھاس کے میدان بڑی تعداد میں ہیں۔[142] نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں پرندوں کا غلبہ تھا اور چوپایوں کی کمی تھی لہذا کیوی، کاکا پو، ویکا اور ٹاکاہی جیسے پرندے آزادی سے رہتے تھے۔[143] نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں پرندوں کا غلبہ تھا اور چوپایوں کی کمی تھی لہذا کیوی، کاکا پو، ویکا اور ٹاکاہی جیسے پرندے آزادی سے رہتے تھے۔[144] انسانوں کی آمد کی وجہ یہاں مکانات بننا شروع ہوئے، چوہوں کی کثرت ہوئی اور دیگر جانور بھی یہاں آ موجود ہوئے جن کی وجہ سے پروندوں کی کئی پرجاتیاں غائب ہوگئیں جیسے بڑے پرندے، موا اور هاآست چیل وغیرہ۔[145][146] دیگر جانداروں میں کیڑے مکوڑے، مینڈک [147]، مکڑییاں [148]، کیڑے [149] وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ کچھ جاندار جیسے تواتارا اتنے کمیاب ہیں کہ انھیں لیونگ فوسل کہا جانے لگا۔[150] نیوزی لینڈ کے اس حیاتی خزانہ کو بچانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں جیسے جزیرہ پناہ گاہ، کیڑے مار ادویات، جنگلی زندگی کی بحالی، جنگلی پودوں اور جانوروں کی نقل مکانی، جزیروں اور دیگر مقامات کی مرمت وغیرہ کے کام کیے جا رہے ہیں۔[151][152][153][154]
معیشت
ترمیمنیوزی لینڈ کے پاس ایک بہت زیادہ ترقی یافتہ بازاری معیشت ہے۔[155][156] جبکہ 2018[update] کے اشاریہ اقتصادی آزادی میں تیسرا درجہ حاصل ہوا تھا۔[157] یہ ایک زیادہ کمائی والی معیشت ہے جس کی خام ملکی پیداوار 36,254 امریکی ڈالر فی کس ہے۔[158] اس کی کرنسی نیوزی لینڈ ڈالر ہے جسے کیوی ڈالر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈالر جزیرہ کک، جزیرہ نیو، ٹوکیلو اور جزائر پٹکیرن میں قانونی طور پر رائج ہے۔[159] نیوزی لینڈ میں قدرتی وسائل کی بھر مار ہے اور اس کی معیشت کی ترقی میں اس کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سیل، سونا، وہیل، گم وغیرہ ایسے کاروبار ہیں جو ہمیشہ سے نیوزی کی طاقت رہے ہیں اور اس کی معیشت کی بنیاد رہے ہیں۔[160] سال 1882ء میں پہلی دفعہ نیوزی لینڈ نے گوشت درآمد کیا۔ اسی سال دودھ کی صنوعات بھی انگلینڈ بھیجی گئیں اور یہیں سے نیوزی لینڈ کی مضبوط معیشت کی ابتدا ہوتی ہے۔ [161] 1950ء کی دہائی میں مملکت متحدہ اور ریاستہائے متحدہ سے کھیتی کی مصنوعات کی مانگ بڑھنے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں تجارت کی چہل پہل بڑھ گئی اور ندگی نئے درجے پر پہنچ گئی۔ [162] 1973ء میں مملکت متحدہ نے یورپی معاشی کمیونٹی میں شمولیت اختیار کرلی جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کے بازار گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ 1980ء کی دہائی میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے کھیتی باڑی کے نئے قوانین بنائے اور تین سال کی مدت کے لیے سبسڈی بھی دی۔ [163][164] 1984ءکے بعد سے ساری حکومتوں نے نیوزی لینڈ کی کلیاتی معاشیات کی ساخت پر توجہ دی جس کے نتیجہ میں نیوزی لینڈ کی معیشت نے ایک نئی اڑان بھری اور بند بازار سے آزاد اور فری ٹریڈ معیشت بن گیا۔[165][166]
سال 1991ء اور 1992ء میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تک پہنچ گئی۔[168]لیکن سال 2007ء میں یہی شرح مضبوط ہو کر 3.7 فیصد پر چلی گئی۔ او ای سی ڈی (OECD) ممالک میں نیوزی لینڈ روزگار کے معاملے میں تیسرے نمبر آ گیا۔[168] اس کے بعد عالمی معاشی تنگی کا نیوزی لینڈ کی معیشت پر بھی برا اثر ہوا اور لگاتار پانچ سہ ماہی تک اس کی جی ڈی پی گرتی رہی جو 30 سال میں کبھی نہیں ہوا تھا۔[169][170] 2009ء کے اواخر میں بے روزگاری پھر سے 7 فیصد پر پہنچ گئی۔
فی الحال نیوزی لینڈ کی معیشت ایجادات اور نت نئی مصنوعات کے دم پر خوب ترقی پزیر ہے۔[171]
تجارت
ترمیمنیوزی لینڈ کی تجارت بین الاقوامی خرید و فروخت پر منحصر ہے۔ بالخصوص کھیتی کی مصنوعات بہت مقبول ہیں۔[172][173] 2014ء میں نیوزی لینڈ کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ کھانے کی اشیا کا تھا۔ کل برآمدات کا 55 فیصہ کھانے کی اشیا پر مشتمل تھا۔ 7 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔[174] جون 2018ء کی رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کی تجارت چین ( 27 بلین (NZ$27.8b)، آسٹریلیا ($26.2b)، یورپی اتحاد ($22.9b)، ریاستہائے متحدہ امریکا ($17.6b) اور جاپان ($8.4b) ہیں۔[175] 7 اپریل 2008ء نیوزی لینڈ-چین آزاد تجارتی معاہدہ پر دستخط کیے۔ چین کا کسی ترقی یافتہ ملک کے ساتھ یہ پہلا تجارتی معاہدہ تھا۔[176] نیوزی لینڈ کی معاشیات میں سب سے بڑا حصہ شعبہ خدمات (سروس سیکٹر) کا ہے۔ اس کے بعد صنعت اور پھر معدنیات اور کچے دھات کی نکاسی ہے۔[177] نیوزی لینڈ کی معاشیات میں سیاحت کا بھی اہم کردار ہے۔ $12.9 بلین کے ساتھ یہاں کی جی ڈی پی کا کل 5.6% محض سیر و سیاحت سے حاصل ہوتا ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق نیوزی لینڈ کے کل ملازمین میں سے 7.5% صرف سیاحت میں کام کر رہے تھے۔[178] 2022ء تک بیرونی سیاحوں میں سالانہ 5.4% کی ترقی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔[178]
19ویں صدی میں نیوزی لینڈ سے اون کی درآمدی خوب ہوا کرتی تھی۔[160] لیکن دیگر مصنوعات کے مقابلے اون کی قیمت میں کمی دیکھنے کو ملی۔[179] اور اون تاجروں کے لیے منافع کا سودا نہ رہا۔[180] لیکن دودھ کی مصنوعات میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا 1990ء اور 2007ء کے درمیان میں گائے کی تعداد دوگنی ہو گئی۔ [181]اور نیوزی لینڈ کی درآمدات میں دودھ کی مصنوعات کا حصہ سب سے زیادہ ہو گیا۔[182] جون 2018ء میں کل برآمدات کا 17.7% ($14.1 بلین) حصہ دودھ کی مصنوعات کا تھا۔[175] ملک کی سب سے بڑی کمپنی فونٹیرا دنیا کے ڈیری تجارت کے ایک تہائی حصہ پر قابض ہے۔ [183] سال 2017ء-2018ء میں دیگر درآمدات میں گوشت (8.8%)، لکڑی اور اس کی مصنوعات (6.2%)، پھل (3.6%)، مشینیں اور (2.2%) اور شراب (2.1%) ہے۔[184]۔[185][186]
بنیادی ڈھانچے
ترمیم2015ء میں نیوزی لینڈ میں قابل تجدید توانائی بالخصوص جیو تھرمل اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور کے ذریعے نیوزی لینڈ کی کل طاقت کا 40.1% حصہ پیدا کیا گیا۔[187] محض جیوتھرمل پاور کے ذریعے ہی انرجی کا کل 22 فیصد حصہ پیدا کیا گیا۔[187] نیوزی لینڈ میں پانی کی فراہمی اور میٹھے پانی کا تحفظ بہتر حالت میں ہے۔علاقائی انتظامیہ ترقی پزیر علاقوں میں پانی کی فراہمی، اس کی صفائی اور اس سے متعلق بنیادی ڈھانچوں کی تقسیم کی ذمہ ڈاری بخوبی انجام دیتی ہے۔[188][189] نیوزی لینڈ کا نقل و حمل 94,000 کلومیٹر (58,410 میل) سڑک، بشمول 199 کلومیٹر (124 میل) موٹر راستہ[190] اور 4,128 کلومیٹر (2,565 میل) ریل پر محصر ہے۔ [177] زیادہ تر بڑے شہر اور قصبے بس کی خدمات سے منسلک ہیں البتہ بجی کاریں شہریوں کی اولین پسند ہیں۔[191] 1993ءمیں نیوزی لینڈ میں ریل کی نجکاری کر دی گئی تھی مگر 2004ء اور 2008ء کے درمیان میں قسطوں میں اس کا پھر سے قومیانہ کیا گیا۔ سرکاری ادارہ کیوی ریل نیوزی لینڈ ریل کو چلاتی ہے مگر آکلینڈ ریل کو ٹرانس ڈیو اور ویلینگٹن ریل کو میٹ لنک نامی کمپنی چلاتی ہے۔[192][193] ملک بھر میں ریل کا جال بچھا ہوا ہے مگر اب ریل کا استعمال سواری کی بجائے زیادہ تر سامان کی نقل و حمل کے لیے کیا جاتا ہے۔[194] زیادہ تر بین الاقوامی مسافر ہوائی جہاز سے آتے ہیں اور نیوزی لینڈ میں کل 6 ہوائی اڈے ہیں۔ فی الحال بمطابق فروری 2011[update] صرف آکلینڈ اور کرائسٹ چرچ ہوائی اڈا ہی بین الاقوامی ضدمات فراہم کرتا ہے۔ البتہ آسٹریلیا اور فجی کے لیے سارے ہوائی اڈوں سے اڑان بھری جا سکتی ہے۔[195] نیوزی لینڈ میں مواصلات پر 1987ء تک نیوزی لینڈ ڈاک کا قبضہ تھا یہاں تک کہ ٹیلی کوم نیوزی لینڈ کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں یہ ایک سرکاری ادارہ تھا جسے 1990ء میں نجی ہاتھوں کے سپرد کر دیا گیا۔[196] نیوزی لینڈ ٹیلی کمیونی کیشن میں زیادہ تر حصہ کورس کا ہے۔ مگر اب دوسری کمپنیوں سے مقابلہ بڑھ گیا ہے۔[197][196] 2017ء میں عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد نے مواصلاتی ترقی اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں نیوزی لینڈ کو دنیا بھر میں 13واں مقام دیا ہے۔[198]
شماریات
ترمیم2013ء نیوزی لینڈ مردم شماری کے مطابق نیوزی لینڈ کی کل آبادی 4,242,048 لوگوں پر مشتمل ہے۔ 2006ء کے مقابلے یہ 5.3% زیادہ ہے۔[199] [n 1] فی الحال بمطابق نومبر 2024، نیوزی لینڈ کی کل آبادی تقریباً 5,455,050 ہے۔[201]
نیوزی لینڈ ایک شہری آبادی والا ملک ہے جہاں 73% آبادی شہری علاقہ میں رہتی ہے۔ 55.1% آبادی نیوزی لینڈ کے چار بڑے شہروں آکلینڈ، کرائسٹ چرچ، ویلنگٹن اور ہیملٹن میں رہتی ہے۔ دنیا بھر میں نیوزی لینڈ کے شہر ہمیشہ صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ مرسر کیفیت حیات جائزہ کے مطابق 2016ء میں آکلینڈ دنیا کا تیسرا بہتر قابل سکونت شہر تھا جبکہ اسی فہرست میں ویلنگٹن 12وین درجہ پر تھا۔[202] 2012ء اعداد وشمار کے مطابق نیوزی لینڈ کی اوسط حیات خواتین میں 84 اور مردوں میں 80.2 تھی۔[203] 2008ء میں وجہ اموات میں سرطان 29.8% کے ساتھ سرفہرست تھا۔ اس کے بعد 19.7% کے ساتھ دوسرے نمبر پر دیل کی بیماریاں اور 9.2% دیگر بیماریاں تھیں۔[204] بمطابق 2016ء، صحت پر جی ڈی پی کا کل 9.2% حصہ خرچ کیا گیا تھا۔ اس میں نجی اداروں کا خرچ بھی شامل ہے۔[205]
نسلیت اور ہجرت
ترمیم2013ء کی مردم شماری میں 74.0% افراد نے خود کو یورپی نسل کا بتایا 14.9% نے ماؤری ہونے کا دعوی کیا۔ دیگر اہم نسلوں میں ایشیائی 11.8% اور بحر الکاہلی 7.4% تھے۔ ان میں دو تہائی لوگ آکلینڈ علاقہ میں رہتے ہیں۔[207][n 2] حالیہ دہائی میں نیوزی لینڈ کی آبادی زیادہ متنوع ہو گئی ہے۔ 1961ء میں 92% یورپی اور 7 فیصد ماؤری تھے اور ایشیائی قوم کی تعداد صرف ایک فیصد تھی۔[208] نیوزی لینڈ شہریوں کا نام آبادی انگریزی زبان میں “نیوزی لینڈر‘‘ ہے مگر بین الاقوامی سطح پر انھیں کیوی قوم کے طور جانا جاتا ہے۔[209][210] یورپی نسل کے لوگوں کو ماؤری لوگ پکیلا کہ کر بلاتے تھے مگر کچھ لوگوں کو یہ ناگوار گزرتا تھا۔[211][212] لفظ پکیلا اب تمام غیر نیوزی لینڈی اور غیر پولینیشیائی لوگوں کو کہا جاتا ہے۔[213]
نیوزی لینڈ میں بسنے والی سب سے پہلی قوم ماؤری تھی۔ ان کے بعد کچھ یورپی خاندان وہاں آکر آباد ہوئے۔ یورپ کی کالونی بننے کے بعد برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا سے کثیر تعداد میں لوگ وہاں آکر آباد ہوئے۔ اس وقت پالیسی اتنی سکت تھی کہ صرف گورے لوگ ہیں وہاں آباد ہو سکتے تھے جیسا کہ آسٹریلیا میں تھا۔ [214] ان کے علاوہ ڈچ لوگ، دیلماشہ [215]، جرمن اور ایطالوی مہاجرین بھی آسٹریلیا، جنوبی امریکا اور شمالی امریکا ہوتے ہوئے نیوزی لینڈ پہنچے۔[216][217] دوسری جنگ عظیم کے بعد مہاجرین کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں پالیسی میں تخفیف کی گئی اور ایشیائی قوم کو بھی نیوزی لینڈ میں بسنے کا موقع ملا۔ [217][218] 2009ء-10ء میں نیوزی لینڈ کے محکمہ امیگریشن کے سالانہ 45,000 تا 50,000 باشندوں کو مستقل طور پر وہاں بسانے کا ہدف متعین کیا۔[219]
زبان
ترمیمنیوزی لینڈ میں انگریزی زبان کا غلبہ ہے۔ تقریباً 96 فیصد لوگ انگریزی ہی بولتے ہیں۔ [221] نیوزی لینڈ کی انگریزی آسٹریلیا کی انگریزی جیسی ہے۔ مگر نیوزی لینڈ کی انگریزی اور دیگر انگریزی لہجوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ [222] یہ لوگ "i" کی آواز کو "a" کی طرح نکالتے ہیں گویا ان دو حرفوں کے بیچ کا کوئی گرف ہو۔ اسے مختصر "e" کہ سکتے ہیں۔[223] دوسری جنگ عظیم کے بعد اسکولوں میں ماؤری زبان زبان بالنے پر پابندی لگائی گئی اور ان کی حوصلہ شکنی کی گئی نتیجتا کچھ دور دراز علاقوں میں ہی ماؤری زبان ایک طبقہ کی زبان بن کر رہ گئی۔ [224] حالانکہ ماؤری زبان کو 1987ء میں سرکاری زبان کا درجہ ملا اور نیوزی لینڈ کی کل 3.7% فیصد آبادی اسے بولتی ہے۔ البتہ اب وہاں ماؤری زبان کے اپنے اسکول ہیں اور دو ٹیی وی چینل ماؤری زبان میں ہی نشر ہوتے ہیں۔ [225]|group=n}} [226][227]
2013ء مردم شماری کے مطابق سمووائی زبان غیر سرکاری زبانوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ کل 2.2% آبادی اسے بولتی ہے۔[n 3] اس کے بعد ہندی زبان کا نمبر آتا ہے جسے 1.7% فیصد آبادی بولتی ہے۔ مشروی چینی بشمول مینڈارن چینی کو 1.3% اور فرانسیسی زبان کو 1.2% لوگ بولتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے کل 20,235 افراد یعنی 0.5% آبادی نیوزی لینڈ کی اشاریاتی زبان میں گفتگو کرتی ہے جسے 2006ء یں سرکاری زبان کا درجہ دیا جا چکا ہے۔[228]
مذہب
ترمیمنیوزی لینڈ میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے مگر یہ ملک خود کو سیکولر بتاتا ہے اور دنیا بھر میں نیوزی لینڈ اپنی اسی صفت کے لیے مشہور ہے۔[229][230] 2013 ن میں 49.0% عیسائیت کو مانتے ہیں۔ دیگر 41.9% لوگ لا مذہب ہیں۔[n 4][231] عیسائیت میں رومن کاتھولک 12.6%، انگلیکانیت 11.8%، پریسبیٹیرین کلیسیا، 8.5% اور محض مسیحی 5.5% ہیں۔[231] ماؤری کے مذاہب جیسے رینگتا اور راتنا بھی مسیحی ہیں۔[232][233] ہجرت اور نئے آباد لوگوں کی وجہ مذاہب کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا چنانچہ کئی نئے مذاہب کے ماننے نیوزی لینڈ میں آ بسے۔[234] مثلاً ہندو مت 2.1%، بدھ مت 1.5%، اسلام 1.2% اور سکھ مت 0.5%۔[232] آکلینڈ سب سے بڑا مذہبی متنوع شہر ہے۔[232]
تعلیم
ترمیمنیوزی لینڈ میں 6 تا 16 عمر کے بچوں کو ابتدائی اور ثانوی بنام پرائمری اور سیکینڈری کی تعلیم لازمی ہے۔ زیادہ تر بچے 5 برس کی عمر میں تعلیم شروع کر دیتے ہیں۔[235] نیوزی لینڈ کے باشندوں کے کے لیے 13 سرکاری مدرسوں میں بعمر 5 تا 19 تعلیم مفت ہے۔[236] نیوزی لینڈ میں تعلیمی شرح 99 فیصد ہے۔[177] اور 15 سے 29 سال کی عمر کی تقریباً آدھی آبادی بنیادی تعلیم سے آراستہ ہوتی ہے۔[235] حکومت نے پانچ طرح کی درسگاہیں منظور کی ہیں: یونیورسٹی، کالجم ٹیکنالوجی درس گاہ، خصوصی کالج اور واننگا۔[237] ان کے علاوہ نجی تربیتی ادارے بھی قائم ہیں۔[238] بالغوں میں 14.2% آبادی کے پاس بیچلر ڈگری ہے جبکہ 30.4% ثانوی درجہ کی ڈگری ہے۔ 22.4% فیصد لوگ کسی بھی طرح کی رسمی تعلیم سے عاری ہیں۔[239] پروگرام برائے بین الاقوامی طالب علم تعین نے نیوزی لینڈ کو دنیا بھر میں نیوزی لینڈ کے تعلیم نظام کو ساتواں مقام دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے طالب علم عموما مطالعہ، ریاضی اور سائنس میں ماہر ہوتے ہیں۔[240]
ثقافت
ترمیمنیوزی لینڈ کے اصل باشندے ماوری ہیں لہذا وہاں کی تہذیب ماوری تہذیب سے متاثر ہے۔ ماوریوں نے مشرقی ثقافت سے کچھ اثر لے کر اس میں تبدیلیاں کیں کیونکہ ان کو نئے علاقہ میں جدید مسائل کا سامنا تھا جس میں متنوع ماحول اور خود وہاں کی تہذیب شامل تھی۔ سماجی ڈھانچہ خاندان، ذیلی قبیلہ اور قبیلہ میں منقسم ہے۔ ہر اکائی کا ایک سردار ہوتا ہے۔ سردار کا انتخاب کمیونٹی کی تصدیق کے بعد ہوتا ہے۔[241] برطانوی اور آئیلینڈی مہاجرین نے نیوزی لینڈ میں اپنی اپنی تہذیبیں متعارف کرائیں اور ماوری تہذیب کو بھی متاثر کیا۔[242][243] بالخصوص میسحیت نے ان لوگوں کو بہت متاثر کیا۔[244] البتہ ماوری کی اپنی شناخت باقی رہی اور دیگر پولینیشیائی قوم سے ان کا نسبی تعلق بھی برقرار ریا۔[245] امریکی، آسٹریلوی، ایشیائی اور دیگر یورپی ثقافتوں نے نیوزنی لینڈ میں حال ہی میں قدم رکھا مگر ان کا اثر بہت گہرا ہوا۔ ان کے علاوہ غیر ماوری پولینیشیائی تہذیب بھی وہاں نمودار ہوئی جیسے دنیا کا سب سے بڑا پولینیشیائی تہوار پاسیفیکا آکلینڈ کا سالانہ بڑا تہوار مانا جاتا ہے۔[246]
ایک وقت تھا جب نیوزی لینڈ کو ایک عقلمند ملک تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ دیہی زندگی محنت، جدو جہد اور مشکل کشائی سے عبارت تھی۔[247] [247] زیادہ قابل توجہ افراد کو تنقید کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا تھا۔[248][249] 20ویں صدی کے اوائل سے 1960ء کی دہائی تک ماوری ثقافت کو دبایا گیا ور اسے جدید برطانوی ثقافت میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی۔۔[250] 1960ء کی دہائی سے ثانوی تعلیم عام ہونے لگی اور شہرکاری [251]بڑھنے لگی اور نتیجتا شہری تہذیب غالب ہونے لگی۔۔[252] البتہ نیوزی لینڈ کے فنون لفیطہ، ثقافت، ادب اور میڈیا میں دیہی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔[253]
نیوزی لینڈ کے قومی نشانات ماوری ثقافت، فطرت اورتاریخ سے متاثر ہیں۔ چاندی کا پتہ کا نما نشان فوج اور کھیل میں دکھائی دیتا ہے۔۔[254] نیوزی لینڈ کی منفرد اور مشہور چیزوں کو کیویانہ کہا جاتا ہے۔[254]
فنون لطیفہ
ترمیمدستکاری، نقش و نگاری، سلائی اور بنائی ماوری تہذیب کے وہ فنون ہیں جو آج بھی نیوزی لینڈ میں خوب چلتے ہیں اور ماوری فنان دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔[255] نقش و نگاری میں زیادہ تر انسانی تصویریں بنائی جاتی ہیں۔ عموما تین انگلیوں والا انسان منقش کیا جاتا ہے جس کا سر بہت عجیب ہوتا ہے۔ عام انسان کی تصویر بھی بنای جاتی ہے۔[256] طرح طرح کے نشانات سے نقش کو مزین کیا جاتا ہے۔[257] ابتدائی دور کے ماوری نقوش میں جلسہ گاہوں کو بھی بنایا جاتا تھا جس میں کئی طرح کے نشاتا، علامتیں اور وہم والی چیزیں ہوتی تھیں۔ اس طرح کی عمارتوں کو بار بار بنایا جاترا تھا اور مختلف مقاصد کی خاطر استعمال میں لایا جاتا تھا۔[258] ماوریوں نے سرخ و سیاہ رنگوں نے عمارتوں، توپوں اور مقبروں کو منقش کیا ہے۔ ان رنگوں کو بنانے میں شارک مچھلی کی چربی اور کاجل کا استعمال ہوتا تھا۔ وہ ان میں پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور دیگر چیزیں بناتے تھے۔ غاروں کی دیواروں پر بھی ماورویوں نے بہت کام کیا ہے۔[259] کاجل سے بنا ماوری ٹیٹو بھی بہت مشہور ہے۔[260] یورپیوں کے آنے کے بعد نیوزی لینڈ میں منظرکشی کا رواج عام ہو گیا اور فن کی جگہ نیوزی لینڈ کی منظر کشی نے لے لی۔[261] ماوریوں نے اپنی شخصی تصویریں بھی بنائی ہیں جیسے کوئی رحم دل دیو یا کوئی عام ماوری۔[261] چانکہ یہ ملک کافی عرصہ تک تنہائی کا شکار رہا لہذا یہاں کے فنون اسی علاقہ تک محدود رہے اور نہ کسی کو متاثر کیا اور نہ کسی سے متاثر ہوا۔[262] اسی لیے ماوری آرٹ کو علاقائیت کی اچھی مثال کہا جاتا ہے۔ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں ماوری اور یورپی فنون میں ہم آہنگی دیکھنے کو ملی اور مغربی تکنیک کو جب ماوری فن میں استعمال کیا گیا تو بہت منفرد چیزیں سامنے آئیں۔[263] نیوزی لینڈ کے فن اور دستکاری نے تدریجا بین الاقوامی شائقین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے اور کئی جگہ نمائشوں کے ذریعہ اپنے ہنر کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔[255][264]
ادب
ترمیمانھوں نے بہت جلد لکھنا سیکھ لیا تھا اور اسے اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنا لیا اور نظم و نثر کو زیر تحریر لے آئے جن میں کہانیاں، قصائد وغیرہ شامل ہیں۔[265] کی دہائی تک انگریزی ادب کا وہاں کوئی خاص بول بالا نہیں تھا مگر اس کے بعد جب علاقائی پبلشروں نے اسے قبول کرنا شروع کیا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔[266] البتہ 1930ء کی دہائی میں وہاں کے ادبا اور شعرا نیوزی لیڈ کے واقعات و تجربات کو ہی اپنی تخلیق کا موضوع بنایا کرتے تھے حالانکہ جدت پسندی کا تعارف وہاں ہونے لگا تھا۔ اس دوران میں تعلیمی میدانوں میں ادب کو بطور صحافت بھی استعمال کیا جانے لگا۔[267] جنگ عظیم میں شراکت داری نے ادب کو متاثر کیا اور نیوزی لینڈ کے ادبا کو ایک نیا زاویہ ملا جس سے ما بعد جنگ یونیورسٹیوں عالقائی ادب میں یہ موضوع سر چڑھ کر بولا۔[268] ڈنیڈن یونیسکو کا شہر ادب ہے۔[269]
ذرائع ابلاغ اور انٹرٹینمینٹ
ترمیمنیوزی لینڈ کی موسیقی بلوز موسیقی، جاز، راک اینڈ رول موسیقی اور ہپ ہاپ موسیقی کے بہت زیادہ متاثر ہے اور ان میں نیوزی لینڈ کی نمایاں خوبی نکھر کر سامنے آتی ہے۔۔[271] ماوری اپنے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا سے مخصوص نغمے لے کر گئے تھے اور برسوں کی علیحدگی نے ان میں ایک عجیب مگر دلکش اور منفرد آواز پیدا کر دی تھی۔[272] آلات موسیقی میں بانسری اور نرسنگے زیر استعمال تھے۔[273] جنگ یا خاص موقعوں پر اچشاراتی اور تنبیہی آلات کا استعمال کرتے تھے۔[274] نیوزی لینڈ میں 1922ء میں ریڈیو متعارف کرایا گیا۔[275] 1960ء میں حکومت نے ٹی وی کا آغاز کیا۔[276] 1980ء کی دہائی میں نیوزی لینڈ میں ٹی وی اور ریڈیو میں زبردست انقلاب دیکھنے کو ملا اور ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا۔[277] نیوزی لینڈ کے ٹی وی میں عموما امریکا اور برطانیہ کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا کے علاقائی پروگرام بھی بڑی تعداد میں دکھائے جاتے ہیں۔[278] 1970ء کی دہائی میں نیوزیلینڈ میں فلمیں خوب بننے لگیں۔1978 ء میں نیوزی لینڈ فلم کمیشن نے علاقائی فلم سازوں کا تعاون کرنا شروع کیا اور کئی فلموں نے عالمی شہرت حاصل کی۔[277] مشہور فلموں میں ہنٹ فار دی وائلڈر پپل، بوائے، دی ورلدز فاسٹیسٹ انڈین وغیرہ شامل ہیں۔۔[279]اور حکومت کی مدد کی وجہ سے فلم پروڈیوسر بڑی بجٹ کی فلمیں بنانے میں کامیاب رہے تھے جیسے اوتار، دی لارڈ آف دی رنگز، دی لاسٹ سمورائی اور کنگ کانگ وغیرہ۔[280] نیوزی لینڈ کے ذرائع ابلاغ پر چھوٹی کمپنیوں کا قبضہ ہے جن میں اکثر غیر ملکی ہیں۔ البتہ کچھ ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹیشن حکومت کی ملکیت میں ہیں۔[281] 1994ء سے نیوزی لینڈ کا فریڈم ہاؤس ملک کا سب سے ازاد میڈیا مانا جاتا رہا ہئ۔ 2015ء میں اسے 15واں مقام ملا تھا۔[282]
کھیل
ترمیمنیوزی لینڈ کے زیادہ تر کھیل برطانیہ سے مستعار لیے ہوئے ہیں۔[283] رگبی ملک کا قومی کھیل ہے۔[284] اور زیادہ تر لوگوں کو پسند آتا ہے۔[285] گولف، نیٹ بال، ٹینس اور کرکٹ نیوزی لینڈ کے مشہور کھیلوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔[285][286] تقریباً 54 فیصد بچے اسکول میں کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔[286] 1880ء اور 1900ء کی دہائی میں نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم نے بالترتیب آسٹریلیا اور برطانیہ میں فتح پاکر عوام کی دلچسپی میں اضافہ کیا۔[287] ماوریوں نے رگبی میں دلچسپی دکھائی اور ملک کی ٹیم بین الاقوامی مقابلوں سے ہاکا ضرور کرتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی رگبی یونین، رگبی لیگ، نیوزی لینڈ قومی کرکٹ ٹیم، سافٹ بال اور تیراکی کی ٹیمیں عالمی پیمانے کی ہیں اور کسی بھی حریف کو شکست دینے کا دم رکھتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے گرمائی اولمپک کھیل میں 1908ء اور 1912ء میں آسٹریلیا کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ 1920ء میں وہ تن تنہا میدان میں اتری۔[288] حالیہ دنوں میں کھیل میں نیوزی لینڈ کے مختلف کھیل کے کھلاڑیوں میں تمغوں کا انبار لگا دیا ہے۔[289][290] نیوزی لینڈ آل بلیک رگبی ٹیم ملک کی سب سے کامیاب کھیل ٹیم ہے اور عالمی کپ فاتح بھی ہے۔[291]
پکوان
ترمیمنیوزی لینڈ کا قومی پکوان پیسیفک رم ہے۔ اس میں ماوری پکوان، نیوزی لینڈ میں بسنے والے یورپ، ایشیا اور پولینشیا کے پناہ گزینوں کے پکوان بھی شامل ہیں۔[292] نیوزی لینڈ کو زمین اور سمندر دونوں سے کھانے کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ زیادہ تر فصلیں اور ضرورت زندگی کو یورپ نے متعارف کرایا جیسے مکا، آلو اور خنزیر وغیرہ۔۔[293][294] بہترین پکوانوں میں لامب، سالمون، کورا، [295] شکر قندی اور کیوی ہیں۔[296][292]
فہرست متعلقہ مضامین نیوزی لینڈ
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ نیوزی لینڈ في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2024ء
- ↑ https://www.legislation.govt.nz/act/public/2016/0017/latest/DLM6174518.html
- ↑ https://www.legislation.govt.nz/act/public/2006/0018/latest/DLM372782.html
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ http://www.legislation.govt.nz/regulation/public/2004/0427/latest/DLM302188.html?search=qs_all%40act%40bill%40regulation_left+side+road_resel&p=1
- ↑ "Human Development Report 2018" (PDF)۔ HDRO (Human Development Report Office) United Nations Development Programme۔ صفحہ: 22۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 ستمبر 2018
- ↑ "New Zealand Daylight Time Order 2007 (SR 2007/185)" (بزبان انگریزی)۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ 6 جولائی 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مارچ 2017
- ↑ There is no official all-numeric date format for New Zealand, but government recommendations generally follow Australian date and time notation۔ See "The Govt.nz style guide"۔ New Zealand Government۔ 9 دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2019
- ↑ Abel Tasman۔ "JOURNAL or DESCRIPTION By me Abel Jansz Tasman، Of a Voyage from Batavia for making Discoveries of the Unknown South Land in the year 1642."۔ Project Gutenberg Australia۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2018
- ↑ John Wilson (مارچ 2009)۔ "European discovery of New Zealand – Tasman's achievement"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2011
- ↑ John Bathgate۔ "The Pamphlet Collection of Sir Robert Stout:Volume 44. Chapter 1, Discovery and Settlement"۔ NZETC۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2018۔
He named the country Staaten Land, in honour of the States-General of Holland, in the belief that it was part of the great southern continent.
- ↑ John Wilson (ستمبر 2007)۔ "Tasman's achievement"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2008
- ↑ Duncan Mackay (1986)۔ "The Search For The Southern Land"۔ $1 میں B Fraser۔ The New Zealand Book Of Events۔ Auckland: Reed Methuen۔ صفحہ: 52–54
- ↑ Thomas Brunner (1851)۔ The Great Journey: an expedition to explore the interior of the Middle Island, New Zealand, 1846-8۔ شاہی جغرافیائی جمعیت
- ↑ John Bathgate۔ "The Pamphlet Collection of Sir Robert Stout:Volume 44. Chapter 1, Discovery and Settlement"۔ NZETC۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2018۔
He named the country Staaten Land, in honour of the States-General of Holland, in the belief that it was part of the great southern continent.
- ↑ J. M. Wilmshurst، T. L. Hunt، C. P. Lipo، A. J. Anderson (2010)۔ "High-precision radiocarbon dating shows recent and rapid initial human colonization of East Polynesia"۔ Proceedings of the National Academy of Sciences۔ 108 (5): 1815۔ Bibcode:2011PNAS.۔108.1815W تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ ISSN 0027-8424۔ PMC 3033267 ۔ PMID 21187404۔ doi:10.1073/pnas.1015876108 - ↑ Malcolm McKinnon (نومبر 2009)۔ "Place names – Naming the country and the main islands"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2011
- ↑ M. McGlone، J. M. Wilmshurst (1999)۔ "Dating initial Maori environmental impact in New Zealand"۔ Quaternary International۔ 59: 5–16۔ Bibcode:1999QuInt.۔59.۔۔۔5M تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ doi:10.1016/S1040-6182(98)00067-6 - ↑ Rosalind P. Murray-McIntosh، Brian J. Scrimshaw، Peter J. Hatfield، David Penny (1998)۔ "Testing migration patterns and estimating founding population size in Polynesia by using human mtDNA sequences"۔ Proceedings of the National Academy of Sciences of the United States of America۔ 95 (15): 9047–52۔ Bibcode:1998PNAS.۔۔95.9047M تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ PMC 21200 ۔ doi:10.1073/pnas.95.15.9047 - ↑ Rosalind P. Murray-McIntosh، Brian J. Scrimshaw، Peter J. Hatfield، David Penny (1998)۔ "Testing migration patterns and estimating founding population size in Polynesia by using human mtDNA sequences"۔ Proceedings of the National Academy of Sciences of the United States of America۔ 95 (15): 9047–52۔ Bibcode:1998PNAS.۔۔95.9047M تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ PMC 21200 ۔ doi:10.1073/pnas.95.15.9047 - ↑ J. M. Wilmshurst، A. J. Anderson، T. F. G. Higham، T. H. Worthy (2008)۔ "Dating the late prehistoric dispersal of Polynesians to New Zealand using the commensal Pacific rat"۔ Proceedings of the National Academy of Sciences۔ 105 (22): 7676۔ Bibcode:2008PNAS.۔105.7676W تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ PMC 2409139 ۔ PMID 18523023۔ doi:10.1073/pnas.0801507105 - ↑ Y. Moodley، B. Linz، Y. Yamaoka، H.M. Windsor، S. Breurec، J.-Y. Wu، A. Maady، S. Bernhöft، J.-M. Thiberge، وغیرہ (2009)۔ "The Peopling of the Pacific from a Bacterial Perspective"۔ Science۔ 323 (5913): 527–530۔ Bibcode:2009Sci.۔۔323.۔527M تأكد من صحة قيمة
|bibcode=
length (معاونت)۔ PMC 2827536 ۔ PMID 19164753۔ doi:10.1126/science.1166083 - ↑ Angela Ballara (1998)۔ Iwi: The Dynamics of Māori Tribal Organisation from C.1769 to C.1945 (1st ایڈیشن)۔ Wellington: Victoria University Press۔ ISBN 978-0-86473-328-3
- ↑ Ross Clark (1994)۔ "Moriori and Māori: The Linguistic Evidence"۔ $1 میں Douglas Sutton۔ The Origins of the First New Zealanders۔ Auckland: Auckland University Press۔ صفحہ: 123–135
- ↑ John Wilson (مارچ 2009)۔ "Government and nation – The origins of nationhood"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Bernard Foster (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ مدیر: Alexander McLintock۔ Akaroa, French Settlement At۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ K Simpson (ستمبر 2010)۔ "Hobson, William – Biography"۔ $1 میں Alexander McLintock۔ Dictionary of New Zealand Biography۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Denise Davis (ستمبر 2007)۔ "The impact of new arrivals"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ Denise Davis، Māui Solomon (مارچ 2009)۔ "'Moriori – The impact of new arrivals'"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2011
- ↑ Denise Davis (ستمبر 2007)۔ "The impact of new arrivals"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ Anne Salmond۔ Two Worlds: First Meetings Between Maori and Europeans 1642–1772۔ Auckland: پینگوئن (ادارہ)۔ صفحہ: 82۔ ISBN 0-670-83298-7
- ↑ John Fitzpatrick (2004)۔ "Food, warfare and the impact of Atlantic capitalism in Aotearo/New Zealand" (PDF)۔ Australasian Political Studies Association Conference: APSA 2004 Conference Papers۔ 11 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 11 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2019
- ↑ Barry Brailsford (1972)۔ Arrows of Plague۔ Wellington: Hick Smith and Sons۔ صفحہ: 35۔ ISBN 0-456-01060-2
- ↑ Thor Wagstrom (2005)۔ "Broken Tongues and Foreign Hearts"۔ $1 میں Peggy Brock۔ Indigenous Peoples and Religious Change۔ Boston: Brill Academic Publishers۔ صفحہ: 71 and 73۔ ISBN 978-90-04-13899-5
- ↑ Raeburn Lange (1999)۔ May the people live: a history of Māori health development 1900–1920۔ Auckland University Press۔ صفحہ: 18۔ ISBN 978-1-86940-214-3
- ↑ "A Nation sub-divided"۔ Australian Heritage۔ Heritage Australia Publishing۔ 2011۔ 28 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2014
- ↑ James Rutherford (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ مدیر: Alexander McLintock۔ Busby, James۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Sir George Gipps۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Jock Phillips (اپریل 2010)۔ "British immigration and the New Zealand Company"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ "Crown colony era – the Governor-General"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ مارچ 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ "Crown colony era – the Governor-General"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ مارچ 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ John Wilson (مارچ 2009)۔ "Government and nation – The constitution"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2011 See pages 2 and 3.
- ↑ Philip Temple (1980)۔ Wellington Yesterday۔ John McIndoe۔ ISBN 0-86868-012-5
- ↑ "Parliament moves to Wellington"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ جنوری 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2017
- ↑ Philip Temple (1980)۔ Wellington Yesterday۔ John McIndoe۔ ISBN 0-86868-012-5
- ↑ "New Zealand's 19th-century wars – overview"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ اپریل 2009۔ 14 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ John Wilson (مارچ 2009)۔ "History – Liberal to Labour"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2017
- ↑ David Hamer۔ "Seddon, Richard John"۔ ڈکیشنری آف نیوزی لینڈ بایوگرافی۔ منسٹری آف کلچرل اینڈ ہیریٹیچ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2017
- ↑ "Crown colony era – the Governor-General"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ مارچ 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ The London Gazette: no. 28058. p. . 10 ستمبر 1907.
- ↑ "Dominion status – Becoming a dominion"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017
- ↑ "War and Society"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ 09 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Sir George Gipps۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Brian Easton (اپریل 2010)۔ "Economic history – Interwar years and the great depression"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Mark Derby (May 2010)۔ "Strikes and labour disputes – Wars, depression and first Labour government"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ Brian Easton (نومبر 2010)۔ "Economic history – Great boom, 1935–1966"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ Basil Keane (نومبر 2010)۔ "Te Māori i te ohanga – Māori in the economy – Urbanisation"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2011
- ↑ Te Ahukaramū Royal (مارچ 2009)۔ "Māori – Urbanisation and renaissance"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ Healing the past, building a future: A Guide to Treaty of Waitangi Claims and Negotiations with the Crown (PDF)۔ Office of Treaty Settlements۔ مارچ 2015۔ ISBN 978-0-478-32436-5۔ 27 جنوری 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017
- ↑ (en-NZ میں) Report on the Crown's Foreshore and Seabed Policy. Ministry of Justice. https://forms.justice.govt.nz/search/WT/reports/reportSummary.html?reportId=wt_DOC_68000605۔ اخذ کردہ بتاریخ 26 اپریل 2017.
- ↑ Fiona Barker (جون 2012)۔ "Debate about the foreshore and seabed"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017
- ↑ "New Zealand's Constitution"۔ The Governor-General of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2010
- ↑ "New Zealand's Constitution"۔ The Governor-General of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2010
- ↑ "Factsheet – New Zealand – Political Forces"۔ دی اکنامسٹ۔ The Economist Group۔ 15 فروری 2005۔ 14 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2009
- ↑ "Factsheet – New Zealand – Political Forces"۔ دی اکنامسٹ۔ The Economist Group۔ 15 فروری 2005۔ 14 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2009
- ↑ "Factsheet – New Zealand – Political Forces"۔ دی اکنامسٹ۔ The Economist Group۔ 15 فروری 2005۔ 14 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2009
- ↑ "Factsheet – New Zealand – Political Forces"۔ دی اکنامسٹ۔ The Economist Group۔ 15 فروری 2005۔ 14 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2009
- ↑ "Royal Titles Act 1974"۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ فروری 1974۔ Section 1۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2011
- ↑ "Constitution Act 1986"۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ 1 جنوری 1987۔ Section 2.1۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2018۔
The Sovereign in right of New Zealand is the head of State of New Zealand, and shall be known by the royal style and titles proclaimed from time to time.
- ↑ "Constitution Act 1986"۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ 1 جنوری 1987۔ Section 2.1۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2018۔
The Sovereign in right of New Zealand is the head of State of New Zealand, and shall be known by the royal style and titles proclaimed from time to time.
- ↑ "The Role of the Governor-General"۔ The Governor-General of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2017
- ↑ Bruce Harris (2009)۔ "Replacement of the Royal Prerogative in New Zealand"۔ New Zealand Universities Law Review۔ 23: 285–314۔ 18 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2016
- ↑ "The Reserve Powers"۔ The Governor-General of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2011
- ↑ Te Ahukaramū Royal (مارچ 2009)۔ "Māori – Urbanisation and renaissance"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ "Parliament Brief: What is Parliament?"۔ New Zealand Parliament۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2016
- ↑ "The Reserve Powers"۔ The Governor-General of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2011
- ↑ Gavin McLean (فروری 2015)۔ "Premiers and prime ministers" (بزبان انگریزی)۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2016
- ↑ John Wilson (نومبر 2010)۔ "Government and nation – System of government"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جنوری 2011
- ↑ Te Ahukaramū Royal (مارچ 2009)۔ "Māori – Urbanisation and renaissance"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ "Principles of Cabinet decision making"۔ Cabinet Manual۔ Department of the Prime Minister and Cabinet۔ 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2016
- ↑ "The electoral cycle"۔ Cabinet Manual۔ Department of the Prime Minister and Cabinet۔ 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2017
- ↑ "Reviewing electorate numbers and boundaries"۔ Electoral Commission۔ 8 مئی 2005۔ 9 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2018
- ↑ "Sainte-Laguë allocation formula"۔ Electoral Commission۔ 4 فروری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2014
- ↑ Pamela Paxton، Melanie M. Hughes (2015)۔ Women, Politics, and Power: A Global Perspective (بزبان انگریزی)۔ CQ Press۔ صفحہ: 107۔ ISBN 978-1-4833-7701-8۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2017
- ↑ "Jacinda Ardern sworn in as new Prime Minister"۔ New Zealand Herald (بزبان انگریزی)۔ 26 اکتوبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2017
- ↑ "Female political leaders have been smashing glass ceilings for ages"۔ Stuff.co.nz (بزبان انگریزی)۔ Fairfax NZ۔ 27 اکتوبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولائی 2018
- ↑ "Role of the Chief Justice"۔ Courts of New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جون 2018
- ↑ "The Fragile States Index 2016"۔ The Fund for Peace۔ 4 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2016
- ↑ "Democracy Index 2017" (PDF)۔ اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ۔ 2018۔ صفحہ: 5۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2018
- ↑ "New Zealand"۔ Country Reports on Human Rights Practices for 2017۔ United States Department of State۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2018
- ↑ "New Zealand"۔ OECD Better Life Index۔ 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2016
- ↑ "Democracy Index 2017" (PDF)۔ اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ۔ 2018۔ صفحہ: 5۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 دسمبر 2018
- ↑ "Michael Joseph Savage"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ جولائی 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2011
- ↑ "Department Of External Affairs: Security Treaty between Australia, New Zealand and the United States of America"۔ Australian Government۔ ستمبر 1951۔ 29 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "The Vietnam War"۔ New Zealand History۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ جون 2008۔ 08 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "Sinking the Rainbow Warrior – nuclear-free New Zealand"۔ New Zealand History۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ اگست 2008۔ 19 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "Nuclear-free legislation – nuclear-free New Zealand"۔ New Zealand History۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ اگست 2008۔ 03 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ David Lange (1990)۔ Nuclear Free: The New Zealand Way۔ New Zealand: پینگوئن (ادارہ)۔ ISBN 0-14-014519-2
- ↑ "Australia in brief"۔ Australian Department of Foreign Affairs and Trade۔ 22 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "New Zealand country brief"۔ Australian Department of Foreign Affairs and Trade۔ 12 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ John Collett (4 ستمبر 2013)۔ "Kiwis face hurdles in pursuit of lost funds"۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اکتوبر 2013
- ↑ Geoff Bertram (اپریل 2010)۔ "South Pacific economic relations – Aid, remittances and tourism"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ Stephen Howes (نومبر 2010)۔ "Making migration work: Lessons from New Zealand"۔ Development Policy Centre۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2011
- ↑ "Member States of the United Nations"۔ United Nations۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "New Zealand"۔ The Commonwealth۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2016
- ^ ا ب پ "New Zealand's Nine Provinces (1853–76)" (PDF)۔ Friends of the Hocken Collections۔ University of Otago۔ مارچ 2000۔ 05 فروری 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2011
- ↑ Brian Dollery، Ciaran Keogh، Lin Crase (2007)۔ "Alternatives to Amalgamation in Australian Local Government: Lessons from the New Zealand Experience" (PDF)۔ Sustaining Regions۔ 6 (1): 50–69۔ 29 اگست 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 29 اگست 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2019
- ↑ Nancy Swarbrick (ستمبر 2016)۔ "Public holidays" (بزبان انگریزی)۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2017
- ↑ "Overview – regional rugby"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ ستمبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2011
- ↑ Brian Dollery، Ciaran Keogh، Lin Crase (2007)۔ "Alternatives to Amalgamation in Australian Local Government: Lessons from the New Zealand Experience" (PDF)۔ Sustaining Regions۔ 6 (1): 50–69۔ 29 اگست 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 29 اگست 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2019
- ↑ Andrew Sancton (2000)۔ Merger mania: the assault on local government۔ McGill-Queen's University Press۔ صفحہ: 84۔ ISBN 0-7735-2163-1
- ↑ "Subnational population estimates at 30 جون 2010 (boundaries at 1 نومبر 2010)"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 26 اکتوبر 2010۔ 10 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2011
- ↑ "New Zealand"۔ The Commonwealth۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2016
- ↑ "Members and partners"۔ Organisation for Economic Co-operation and Development۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2011
- ↑ "System of Government"۔ Government of Niue۔ 13 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2010
- ↑ "Government – Structure, Personnel"۔ Government of the Cook Islands۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2010
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ The Sea Floor۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2011
- ↑ D. W. McKenzie (1987)۔ Heinemann New Zealand atlas۔ Heinemann Publishers۔ ISBN 0-7900-0187-X
- ↑ Offshore Options: Managing Environmental Effects in New Zealand's Exclusive Economic Zone (PDF)۔ Wellington: Ministry for the Environment۔ 2005۔ ISBN 0-478-25916-6۔ 11 اپریل 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2017
- ↑ Glen Coates (2002)۔ The rise and fall of the Southern Alps۔ Canterbury University Press۔ صفحہ: 15۔ ISBN 0-908812-93-0
- ↑ "Central North Island volcanoes"۔ Department of Conservation۔ 29 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2011
- ↑ Carl Walrond (مارچ 2009)۔ "Natural environment – Geography and geology"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2010
- ↑ "Taupo"۔ GNS Science۔ 24 مارچ 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اپریل 2011
- ↑ "Australasia"۔ New Zealand Oxford Dictionary۔ Oxford University Press۔ 2005۔ ISBN 978-0-19-558451-6۔ doi:10.1093/acref/9780195584516.001.0001
- ↑ Joseph J. Hobbs (2016)۔ Fundamentals of World Regional Geography (بزبان انگریزی)۔ Cengage Learning۔ صفحہ: 367۔ ISBN 978-1-305-85495-6
- ↑ Kevin Hillstrom، Laurie Collier Hillstrom (2003)۔ Australia, Oceania, and Antarctica: A Continental Overview of Environmental Issues۔ 3۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 25۔ ISBN 978-1-57607-694-1۔
…defined here as the continent nation of Australia, New Zealand, and twenty-two other island countries and territories sprinkled over more than 40 million square kilometres of the South Pacific.
- ^ ا ب Brett Mullan، Andrew Tait، Craig Thompson (مارچ 2009)۔ "Climate – New Zealand's climate"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2011
- ↑ "Summary of New Zealand climate extremes"۔ National Institute of Water and Atmospheric Research۔ 2004۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ Carl Walrond (مارچ 2009)۔ "Natural environment – Climate"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2011
- ↑ "Mean monthly rainfall"۔ National Institute of Water and Atmospheric Research۔ 3 مئی 2011 میں اصل (XLS) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ "Mean monthly sunshine hours"۔ National Institute of Water and Atmospheric Research۔ 15 اکتوبر 2008 میں اصل (XLS) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ "New Zealand climate and weather"۔ Tourism New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2016
- ↑ "activities"۔ National Institute of Water and Atmospheric Research۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016
- ↑ R. Cooper، P. Millener (1993)۔ "The New Zealand biota: Historical background and new research"۔ Trends in Ecology & Evolution۔ 8 (12): 429۔ doi:10.1016/0169-5347(93)90004-9
- ↑ Trewick SA, Morgan-Richards M. 2014. New Zealand Wild Life. Penguin, New Zealand. آئی ایس بی این 9780143568896
- ↑ Terence Lindsey، Rod Morris (2000)۔ Collins Field Guide to New Zealand Wildlife۔ HarperCollins (New Zealand) Limited۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-1-86950-300-0
- ^ ا ب "Frequently asked questions about New Zealand plants"۔ New Zealand Plant Conservation Network۔ May 2010۔ 08 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2011
- ↑ De Lange, Peter James، Sawyer, John William David & Rolfe, Jeremy (2006)۔ New Zealand indigenous vascular plant checklist۔ New Zealand Plant Conservation Network۔ ISBN 0-473-11306-6
- ↑ Maggy Wassilieff (مارچ 2009)۔ "Lichens – Lichens in New Zealand"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2010) [originally published in 1966]۔ Mixed Broadleaf Podocarp and Kauri Forest۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2011
- ↑ Alan Mark (مارچ 2009)۔ "Grasslands – Tussock grasslands"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2010
- ↑ "New Zealand ecology: Flightless birds"۔ TerraNature۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2011
- ↑ "New Zealand ecology: Flightless birds"۔ TerraNature۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2011
- ↑ Richard Holdaway (مارچ 2009)۔ "Extinctions – New Zealand extinctions since human arrival"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ Alex Kirby (جنوری 2005)۔ "Huge eagles 'dominated NZ skies'"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ "Reptiles and frogs"۔ Department of Conservation۔ 29 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2017
- ↑ Simon Pollard (ستمبر 2007)۔ "Spiders and other arachnids" (بزبان انگریزی)۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2017
- ↑ "Wētā"۔ Department of Conservation۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2017
- ↑ Jorge A. Herrera-Flores، Thomas L. Stubbs، Michael J. Benton، Marcello Ruta (May 2017)۔ "Macroevolutionary patterns in Rhynchocephalia: is the tuatara (Sphenodon punctatus) a living fossil?"۔ Palaeontology۔ 60 (3): 319–328۔ doi:10.1111/pala.12284
- ↑ Carl Jones (2002)۔ "Reptiles and Amphibians"۔ $1 میں Martin Perrow، Anthony Davy۔ Handbook of ecological restoration: Principles of Restoration۔ 2۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 362۔ ISBN 0-521-79128-6
- ↑ D. Towns، W. Ballantine (1993)۔ "Conservation and restoration of New Zealand Island ecosystems"۔ Trends in Ecology & Evolution۔ 8 (12): 452۔ doi:10.1016/0169-5347(93)90009-E
- ↑ Mark Rauzon (2008)۔ "Island restoration: Exploring the past, anticipating the future" (PDF)۔ Marine Ornithology۔ 35: 97–107
- ↑ Jared Diamond (1990)۔ مدیران: D Towns، C Daugherty، I Atkinson۔ New Zealand as an archipelago: An international perspective (PDF)۔ Wellington: Conservation Sciences Publication No. 2. Department of Conservation۔ صفحہ: 3–8
- ↑ {{cite book |title=World Economic Outlook |url=https://www.imf.org/en/Publications/WEO/Issues/2018/03/20/~/media/Files/Publications/WEO/2018/اپریل/text.ashx?la=en |publisher=بین الاقوامی مالیاتی فنڈ |accessdate=21 جون 2018 |page=63 |date=اپریل 2018|سانچہ:Isbn=978-1-4843-4971-7 2018[update] انسانی ترقیاتی اشاریہ میں اسے 16واں درجہ
- ↑
- ↑ "Rankings on Economic Freedom"۔ The Heritage Foundation۔ 2016۔ 16 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2016
- ↑
- ↑ "Currencies of the territories listed in the BS exchange rate lists"۔ Bank of Slovenia۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ^ ا ب Alexander McLintock، مدیر (نومبر 2009) [originally published in 1966]۔ Historical evolution and trade patterns۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2011
- ↑ Hugh Stringleman، Robert Peden (اکتوبر 2009)۔ "Sheep farming – Growth of the frozen meat trade, 1882–2001"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مئی 2010
- ↑ John Baker (فروری 2010) [1966]۔ مدیر: Alexander McLintock۔ Some Indicators of Comparative Living Standards۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010 PDF Table
- ↑ Trade, Food Security, and Human Rights: The Rules for International Trade in Agricultural Products and the Evolving World Food Crisis۔ Routledge۔ 2016۔ صفحہ: 125۔ ISBN 978-1-317-00852-1
- ↑ Wayne Arnold (2 اگست 2007)۔ "Surviving Without Subsidies"۔ نیو یارک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015۔
۔۔۔ ever since a liberal but free-market government swept to power in 1984 and essentially canceled handouts to farmers … They went cold turkey and in the process it was very rough on their farming economy
- ↑ Brian Easton (نومبر 2010)۔ "Economic history – Government and market liberalisation"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2011
- ↑ Tim Hazledine (1998)۔ Taking New Zealand Seriously: The Economics of Decency (PDF)۔ HarperCollins Publishers۔ ISBN 1-86950-283-3۔ 10 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ
- ↑ "NZ tops Travellers' Choice Awards"۔ Stuff Travel۔ May 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ^ ا ب "Unemployment: the Social Report 2016 – Te pūrongo oranga tangata"۔ Ministry of Social Development۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2017
- ↑ "New Zealand Takes a Pause in Cutting Rates"۔ The New York Times۔ 10 جون 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ "New Zealand's slump longest ever"۔ BBC News۔ 26 جون 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ "GII 2016 Report" (بزبان انگریزی)۔ Global Innovation Index۔ 30 جولائی 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2018
- ↑ Tim Groser (مارچ 2009)۔ "Speech to ASEAN-Australia-New Zealand Free Trade Agreement Seminars"۔ New Zealand Government۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2011
- ↑ "Improving Access to Markets:Agriculture"۔ New Zealand Ministry of Foreign Affairs and Trade۔ 08 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "Standard International Trade Classification R4 – Exports (Annual-Jun)"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ اپریل 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اپریل 2015
- ^ ا ب "Goods and services trade by country: Year ended جون 2018 – corrected"۔ Statistics New Zealand۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2019 [مردہ ربط]
- ↑ "China and New Zealand sign free trade deal"۔ The New York Times۔ اپریل 2008
- ^ ا ب پ "CIA – The World Factbook"۔ Cia.gov۔ 18 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی 2013
- ^ ا ب "Key Tourism Statistics" (PDF)۔ Ministry of Business, Innovation and Employment۔ 26 اپریل 2017۔ 27 اپریل 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017
- ↑ Brian Easton (مارچ 2009)۔ "Economy – Agricultural production"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ Hugh Stringleman، Robert Peden (مارچ 2009)۔ "Sheep farming – Changes from the 20th century"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ Hugh Stringleman، Frank Scrimgeour (نومبر 2009)۔ "Dairying and dairy products – Dairying in the 2000s"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ Hugh Stringleman، Frank Scrimgeour (مارچ 2009)۔ "Dairying and dairy products – Dairy exports"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ Hugh Stringleman، Frank Scrimgeour (مارچ 2009)۔ "Dairying and dairy products – Manufacturing and marketing in the 2000s"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ Bronwyn Dalley (مارچ 2009)۔ "Wine – The wine boom, 1980s and beyond"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "Wine in New Zealand"۔ The Economist۔ 27 مارچ 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2017
- ↑ "Agricultural and forestry exports from New Zealand: Primary sector export values for the year ending جون 2010"۔ Ministry of Agriculture and Forestry۔ 14 جنوری 2011۔ 10 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اپریل 2011
- ^ ا ب (PDF) Energy in New Zealand 2016. Ministry of Business, Innovation and Employment. ستمبر 2016. p. 47. آئی ایس ایس این 2324-5913. Archived from the original on 3 مئی 2017. https://web.archive.org/web/20170503234030/http://www.mbie.govt.nz/info-services/sectors-industries/energy/energy-data-modelling/publications/energy-in-new-zealand/energy-in-nz-2016.pdf.
- ↑ "Appendix 1: Technical information about drinking water supply in the eight local authorities"۔ Office of the Auditor-General۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 ستمبر 2016
- ↑ "Water supply"۔ Greater Wellington Regional Council۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 ستمبر 2016
- ↑ "State highway frequently asked questions"۔ NZ Transport Agency۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2017
- ↑ Adrian Humphris (اپریل 2010)۔ "Public transport – Passenger trends"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ Neill Atkinson (نومبر 2010)۔ "Railways – Rail transformed"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "About Metlink"۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2016
- ↑ Neill Atkinson (اپریل 2010)۔ "Railways – Freight transport"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "10. Airports"۔ Infrastructure Stocktake: Infrastructure Audit۔ Ministry of Economic Development۔ دسمبر 2005۔ 22 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2011
- ^ ا ب A. C. Wilson (مارچ 2010)۔ "Telecommunications – Telecom"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2017
- ↑ "Telecom separation" (بزبان انگریزی)۔ Ministry of Business, Innovation and Employment۔ 14 ستمبر 2015۔ 11 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2017
- ↑ "2017 Global ICT Development Index" (بزبان انگریزی)۔ International Telecommunication Union (ITU)۔ 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2018
- ↑ "2013 Census usually resident population counts"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 14 اکتوبر 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2018
- ↑ لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1 میں 4492 سطر پر: attempt to index field 'url_skip' (a nil value)۔
- ↑
- ↑ "Quality of Living Ranking 2016"۔ London: Mercer۔ 23 فروری 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2017
- ↑ "NZ life expectancy among world's best"۔ Stuff.co.nz۔ Fairfax NZ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2014
- ↑ "New Zealand mortality statistics: 1950 to 2010" (PDF)۔ Ministry of Health of New Zealand۔ 2 مارچ 2011۔ 11 اپریل 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2016
- ↑ "Health expenditure and financing"۔ stats.oecd.org۔ انجمن اقتصادی تعاون و ترقی۔ 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2017
- ↑ "Subnational Population Estimates: At 30 June 2018 (provisional)"۔ Statistics New Zealand۔ 23 October 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2018 For urban areas, "Subnational population estimates (UA, AU), by age and sex, at 30 June 1996, 2001, 2006-18 (2017 boundaries)"۔ Statistics New Zealand۔ 23 October 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2018
- ↑ "2013 Census QuickStats about culture and identity – Ethnic groups in New Zealand"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2014
- ↑ Ian Pool (May 2011)۔ "Population change – Key population trends"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ 18 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2017
- ↑ Simon Dalby (ستمبر 1993)۔ "The 'Kiwi disease': geopolitical discourse in Aotearoa/New Zealand and the South Pacific"۔ Political Geography۔ 12 (5): 437–456۔ doi:10.1016/0962-6298(93)90012-V
- ↑ Paul Callister (2004)۔ "Seeking an Ethnic Identity: Is "New Zealander" a Valid Ethnic Category?" (PDF)۔ New Zealand Population Review۔ 30 (1&2): 5–22۔ 15 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2019
- ↑ Bain 2006, p. 31.
- ↑ "Draft Report of a Review of the Official Ethnicity Statistical Standard: Proposals to Address the 'New Zealander' Response Issue" (PDF)۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ اپریل 2009۔ 02 نومبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2011
- ↑ Jodie Ranford۔ "'Pakeha'، Its Origin and Meaning"۔ Māori News۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2008۔
Originally the Pakeha were the early European settlers, however, today ‘Pakeha’ is used to describe any peoples of non-Maori or non-Polynesian heritage. Pakeha is not an ethnicity but rather a way to differentiate between the historical origins of our settlers, the Polynesians and the Europeans, the Maori and the other
- ↑ Socidad Peruana de Medicina Intensiva (SOPEMI) (2000)۔ Trends in international migration: continuous reporting system on migration۔ انجمن اقتصادی تعاون و ترقی۔ صفحہ: 276–278
- ↑ Carl Walrond (21 ستمبر 2007)۔ "Dalmatians"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2010
- ↑ "Peoples"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ 2005۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2017
- ^ ا ب Jock Phillips (11 اگست 2015)۔ "History of immigration"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2017
- ↑ Sean Brawley (1993)۔ "'No White Policy in NZ': Fact and Fiction in New Zealand's Asian Immigration Record, 1946–1978" (PDF)۔ New Zealand Journal of History۔ 27 (1): 33–36۔ 08 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2017
- ↑ "International Migration Outlook – New Zealand 2009/10" (PDF)۔ New Zealand Department of Labour۔ 2010۔ صفحہ: 2۔ ISSN 1179-5085۔ 11 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2011
- ↑ 2013 Census QuickStats، شماریات نیوزی لینڈ، 2013، ISBN 978-0-478-40864-5
- ↑ "2013 Census QuickStats about culture and identity – Languages spoken"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 02 جون 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2016
- ↑ Hay, Maclagan & Gordon 2008, p. 14.
- ↑ * Laurie Bauer، Paul Warren، Dianne Bardsley، Marianna Kennedy، George Major (2007)، "New Zealand English"، Journal of the International Phonetic Association، 37 (1): 97–102، doi:10.1017/S0025100306002830
- ↑ Nick Squires (May 2005)۔ "British influence ebbs as New Zealand takes to talking Māori"۔ The Daily Telegraph۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مئی 2017
- ↑ "Ngā puna kōrero: Where Māori speak te reo – infographic"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2016
- ↑ John Drinnan (8 جولائی 2016)۔ "'Maori' will remain in the name Maori Television"۔ New Zealand Herald۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2016۔
According to 2015 figures supplied by Maori TV, its two channels broadcast an average of 72 per cent Maori language content – 59 per cent on the main channel and 99 per cent on te reo.
- ↑ "Ngāi Tahu Claims Settlement Act 1998"۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office.۔ 20 مئی 2014 [1 اکتوبر 1998]۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2019
- ↑ New Zealand Sign Language Act 2006 No 18 (as at 30 جون 2008)، Public Act۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office. Retrieved 29 نومبر 2011.
- ↑ Phil Zuckerman (2006)۔ مدیر: Michael Martin۔ The Cambridge Companion to Atheism (PDF)۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 47–66۔ ISBN 978-0-521-84270-9۔ 09 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اگست 2017
- ↑ Carl Walrond (May 2012)۔ "Atheism and secularism – Who is secular?"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اگست 2017
- ^ ا ب "2013 Census QuickStats about culture and identity – Religious affiliation"۔ Statistics New Zealand۔ 15 اپریل 2014۔ 28 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2015
- ^ ا ب پ "2013 Census QuickStats about culture and identity – tables"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 15 اپریل 2014۔ 08 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2018 Excel download آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archive.stats.govt.nz (Error: unknown archive URL)
- ↑ Hirini Kaa (May 2011)۔ "Māori and Christian denominations"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2017
- ↑ Paul Morris (May 2011)۔ "Diverse religions"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2017
- ^ ا ب Olivia Dench (جولائی 2010)۔ "Education Statistics of New Zealand: 2009"۔ Education Counts۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2011
- ↑ "Education Act 1989 No 80"۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ 1989۔ Section 3۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2013
- ↑ "Education Act 1989 No 80 (as at 01 فروری 2011)، Public Act. Part 14: Establishment and disestablishment of tertiary institutions, Section 62: Establishment of institutions"۔ Education Act 1989 No 80۔ New Zealand Parliamentary Counsel Office۔ 1 فروری 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2011
- ↑ "Studying in New Zealand: Tertiary education"۔ New Zealand Qualifications Authority۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2011
- ↑ "Educational attainment of the population"۔ Education Counts۔ 2006۔ 15 اکتوبر 2008 میں اصل (xls) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2008
- ↑ "What Students Know and Can Do: Student Performance in Reading, Mathematics and Science 2010." (PDF) OECD. Retrieved 21 جولائی 2012.
- ↑ Kennedy 2007, p. 398.
- ↑ Terry Hearn (مارچ 2009)۔ "English – Importance and influence"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ "Conclusions – British and Irish immigration"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ مارچ 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ John Stenhouse (نومبر 2010)۔ "Religion and society – Māori religion"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ "Māori Social Structures"۔ Ministry of Justice۔ مارچ 2001۔ 10 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ "Thousands turn out for Pasifika Festival"۔ Radio New Zealand (بزبان انگریزی)۔ 25 مارچ 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2017
- ^ ا ب Kennedy 2007, p. 400.
- ↑ Kennedy 2007, p. 399.
- ↑ Jock Phillips (مارچ 2009)۔ "The New Zealanders – Post-war New Zealanders"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Jock Phillips (مارچ 2009)۔ "The New Zealanders – Bicultural New Zealand"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Jock Phillips (مارچ 2009)۔ "The New Zealanders – Ordinary blokes and extraordinary sheilas"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Jock Phillips (مارچ 2009)۔ "Rural mythologies – The cult of the pioneer"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Fiona Barker (جون 2012)۔ "New Zealand identity – Culture and arts"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2016
- ^ ا ب John Wilson (ستمبر 2016)۔ "Nation and government – Nationhood and identity"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 دسمبر 2016
- ^ ا ب Nancy Swarbrick (جون 2010)۔ "Creative life – Visual arts and crafts"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Elements of Carving۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Surface Patterns۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2011
- ↑ Bill McKay (2004)۔ "Māori architecture: transforming western notions of architecture"۔ Fabrications۔ 14 (1&2): 1–12۔ doi:10.1080/10331867.2004.10525189۔ 13 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ "آرکائیو کاپی"۔ 13 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2019
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Painted Designs۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Tattooing۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2011
- ^ ا ب "Beginnings – history of NZ painting"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ دسمبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2011
- ↑ "A new New Zealand art – history of NZ painting"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ نومبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2011
- ↑ "Contemporary Maori art"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ نومبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2011
- ↑ Julie Rauer۔ "Paradise Lost: Contemporary Pacific Art At The Asia Society"۔ Asia Society and Museum۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2011
- ↑ Nancy Swarbrick (جون 2010)۔ "Creative life – Writing and publishing"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "The making of New Zealand literature"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ نومبر 2010۔ 14 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "New directions in the 1930s – New Zealand literature"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ اگست 2008 النص " فروری 2011" تم تجاهله (معاونت);
- ↑ "The war and beyond – New Zealand literature"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ نومبر 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2011
- ↑ "28 cities join the UNESCO Creative Cities Network"۔ UNESCO۔ دسمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مارچ 2015
- ↑ Siobhan Downes (1 جنوری 2017)۔ "World famous in New Zealand: Hobbiton Movie Set"۔ Stuff Travel۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2017
- ↑ Nancy Swarbrick (جون 2010)۔ "Creative life – Music"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [originally published in 1966]۔ Maori Music۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [1966]۔ Musical Instruments۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2011
- ↑ Alexander McLintock، مدیر (اپریل 2009) [1966]۔ Instruments Used for Non-musical Purposes۔ دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2011
- ↑ Pauling Brian (اکتوبر 2014)۔ "Radio – The early years, 1921 to 1932"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2017
- ↑ "New Zealand's first official TV broadcast"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2017
- ^ ا ب Nancy Swarbrick (جون 2010)۔ "Creative life – Film and broadcasting"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Roger Horrocks۔ "A History of Television in New Zealand" (بزبان انگریزی)۔ NZ On Screen۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017
- ↑ "Top 10 Highest Grossing New Zealand Movies Ever"۔ Flicks.co.nz۔ May 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2017
- ↑ "Production Guide: Locations"۔ Film New Zealand۔ 7 نومبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2011
- ↑ Myllylahti, Merja (دسمبر 2016). JMAD New Zealand Media Ownership Report 2016. Auckland University of Technology. Archived from the original on 21 مئی 2017. https://web.archive.org/web/20170521074651/http://www.aut.ac.nz/__data/assets/pdf_file/0019/704053/JMAD-Report-2016.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 11 اگست 2017.
- ↑ "Scores and Status Data 1980–2015"۔ Freedom of the Press 2015۔ Freedom House۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2016
- ↑ Terry Hearn (مارچ 2009)۔ "English – Popular culture"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2012
- ↑ "Sport, Fitness and Leisure"۔ New Zealand Official Yearbook۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 2000۔ 7 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2008۔
Traditionally New Zealanders have excelled in rugby union, which is regarded as the national sport, and track and field athletics.
- ^ ا ب Jock Phillips (فروری 2011)۔ "Sports and leisure – Organised sports"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2011
- ^ ا ب "More and more students wear school sports colours"۔ New Zealand Secondary School Sports Council۔ 18 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2015
- ↑ Scott Crawford (جنوری 1999)۔ "Rugby and the Forging of National Identity"۔ $1 میں John Nauright۔ Sport, Power And Society In New Zealand: Historical And Contemporary Perspectives (PDF)۔ ASSH Studies In Sports History۔ 19 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2011
- ↑ "NZ's first Olympic century"۔ وزارت ثقافت و ثقافتی ورثہ۔ اگست 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2017
- ↑ "London 2012 Olympic Games: Medal strike rate – Final count (revised)"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 14 اگست 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2013
- ↑ "Rio 2016 Olympic Games: Medals per capita"۔ شماریات نیوزی لینڈ۔ 30 اگست 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2017
- ↑ Tom Fordyce (23 اکتوبر 2011)۔ "2011 Rugby World Cup final: New Zealand 8-7 France"۔ BBC Sport۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2013
- ^ ا ب "New Zealand Cuisine"۔ New Zealand Tourism Guide۔ جنوری 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جنوری 2016
- ↑ Hazel Petrie (نومبر 2008)۔ "Kai Pākehā – introduced foods"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2017
- ↑ Mere Whaanga (جون 2006)۔ "Mātaitai – shellfish gathering"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2017
- ↑ "Story: Shellfish"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2016
- ↑ David Burton (ستمبر 2013)۔ "Cooking – Cooking methods"۔ Te Ara: دائرۃ المعارف نیوزی لینڈ (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2016