عمان (شہر)
عمان (عربی: عَمّان تلفظ [ʕamːaːn]، انگریزی: Amman؛ English: /ɑːˈmɑːn/) اردن کا دار الحکومت اور اس کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔[5] شمال وسطی اردن میں واقع عمان شہر محافظہ عمان کا انتظامی مرکز ہے۔ شہر کی آبادی 4،007،526 اور رقبہ 1،680 مربع کلو میٹر (648.7 مربع میل) ہے۔[6] آج عمان کو جدید ترین عرب شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[7] یہ خطے میں خاص طور پر عرب اور یورپی سیاحوں کے لیے ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔[8]
عَمّان | |
---|---|
شہر | |
سرکاری نام | |
عمان شہر، دائیں سے بائیں سے اور اوپر سے نیچے: عبدلی منصوبہ عمان کی اسکائی لائن پر غالب، معبد ہرقل جبل القلعہ پر، شاہ عبداللہ اول مسجد اور رغدان علم چوب، عبدون پل، اموی محل، عثمانی حجاز ریلوے اسٹیشن اور رومی تھیٹر۔ | |
متناسقات: 31°56′59″N 35°55′58″E / 31.94972°N 35.93278°E | |
ملک | اردن |
محافظات اردن | محافظہ عمان |
قیام | 7250 ق م |
بلدیہ | 1909 |
حکومت | |
• میئر | يوسف الشواربہ[1][2] |
رقبہ | |
• کل | 1,680 کلومیٹر2 (650 میل مربع) |
بلند ترین پیمائش | 1,100 میل (3,600 فٹ) |
پست ترین پیمائش | 700 میل (2,300 فٹ) |
آبادی (2016) | |
• کل | 4,007,526 |
• کثافت | 2,380/کلومیٹر2 (6,200/میل مربع) |
نام آبادی | عمانی |
منطقۂ وقت | مشرقی یورپی وقت (UTC+2) |
• گرما (گرمائی وقت) | مشرقی یورپی گرما وقت (UTC+3) |
ڈاک رمز | 11110-17198 |
ٹیلی فون کوڈ | +962(6) |
ویب سائٹ | Greater Amman Municipality |
عمان میں آبادی کے ابتدائی شواہد نئے سنگی دور کے مقام عین غزال سے ملے ہیں جہاں سے قدیم ترین انسانی ڈھانچے جو 7250 ق م کے ہیں دریافت کیے گئے ہیں۔ آہنی دور میں شہر کو عمون کہا جاتا تھا جو مملکت عمون کا دار الحکومت تھا۔ رومی دور میں اس کا نام فلاڈیلفیا تھا اور آخر کار اسلامی دور اسے عمان کا نام دیا گیا۔ قرون وسطی اور مابعد قرون وسطی میں یہ ایک غیر آباد شہر تھا۔ جدید عمان کی تاریخ انیسویں صدی میں ادیگی تارکین وطن کو سلطنت عثمانیہ کی جانب سے وہاں 1867ء میں آبادکاری سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی بلدیاتی کونسل کا قیام 1909ء میں عمل میں آیا۔[9] 1921ء میں اردن کا دار الحکومت بننے کے بعد عمان نے تیزی سے ترقی کی۔ شہر نے پناہ گزینوں کی کئی مسلسل لہروں کو بھی سہارا دیا جس میں 1948ء اور 1967ء میں فلسطین سے، 1990ء اور 2003ء میں عراق سے اور 2011ء کے بعد سے سوریہ کے پناہ گزین شامل ہیں۔ ابتدا میں یہ شہر سات پہاڑیوں پر بسا تھا اور اب یہ 19 پہاڑیوں پر پھیل چکا ہے۔ اس کے 27 اضلاع ہیں [9] جو بلدیہ عمان کبری کے زیر انتظام ہیں اور اس کے موجودہ میئر يوسف الشواربہ ہیں۔[10] عمان کے علاقوں کے نام پہاڑیوں اور وادیوں کے نام پر ہیں جہاں وہ واقع ہیں مثلاً وادی عبدون میں واقع عبدون محلہ۔[9] مشرقی عمان بنیادی طور پر تاریخی مقامات سے بھرا ہوا ہے جو اکثر ثقافتی سرگرمیوں کی میزبانی کرتا ہے، جبکہ مغربی عمان زیادہ تر جدید ہے اور شہر کا اقتصادی مرکز ہے۔[11]
تقریباً دو ملین زائرین 2014ء میں عمان میں پہنچے، جو اسے دنیا کا 93 واں اور عرب دنيا کا پانچواں سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا شہر بناتا ہے۔[12] عمان کی معیشت ایک نسبتا تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے [13] اور عالمی شہر اشاریہ میں اسے بیٹا شہر کا درجہ دیا گیا ہے۔[14] اس کے علاوہ اسے اقتصادی، مزدور، ماحولیاتی، سماجی اور ثقافتی عوامل کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے بہترین شہروں میں سے ایک کا درجہ حاصل ہے۔[15] شہر عرب دنیا میں کثیر ملکی کارپوریشنوں کے قیام کے لیے دوحہ کے ساتھ مقبول ترین مقامات میں سے ہے اور اس معاملے میں یہ صرف دبئی سے پیچھے ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگلے 10 سالوں میں یہ تین شہر علاقے کثیر ملکی کارپوریشنوں کی زیادہ تر سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گے۔[16]
اشتقاقیات
ترمیمعمان کا نام تیرہویں صدی ق م کے عمون نام "رابث عمون" سے ہے، جس میں رابث کے معنی "دار الحکومت" یا "مقام شاہ" کے ہیں۔ وقت کے ساتھ رابث نام سے ہٹ گیا اور صرف "عمون" رہ گیا۔ شہر پر قبضہ کرنے والی نئی تہذیبوں نے اس کا نام متعدد بار تبدیل کیا اور آخر کار مسلم دور میں اس کو "عمان" سے بدل دیا گیا۔[17] تنک میں "رباط عمون" لکھا گیا ہے (توراتی عبرانی: רבת עמון, طبری تلفظ صوتی Rabbaṯ ʿAmmôn)۔ تاہم سلطنت بطلیموس کے مقدونی حکمران بطلیموس دوم نے جس کا دور حکومت 283 تا 246 ق م تھا شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے "فلاڈیلفیا" (قدیم یونانی: Φιλαδέλφεια; لفظی معنی: "برادرانہ محبت") رکھ دیا۔ یہ نام بطلیموس دوم کی عرفیت "فلاڈیلفس" (Philadelphus) کی مناسبت سے دیا گیا تھا۔[18]
تاریخ
ترمیمقدیم دور
ترمیمعمان کے نواح میں نئے سنگی دور کا علاقہ عین غزال دریافت ہوا ہے۔ تقریباً 7000 ق م میں اپنے عروج پر اس کا رقبہ 15 ہیکٹر (37 ایکڑ) تھا اور یہاں 3000 افراد آباد تھے جو کہ معاصر شہر اریحا کی آبادی سے چار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس وقت یہ قبل ظروف سنگی دور کا ایک گاؤں تھا۔ اس کے گھر مستطیل شکل میں مٹی کی اینٹوں سے بنی عمارتیں تھیں جن میں ایک چوکور مرکزی دیوان خانہ ہوتا تھا، جس کی دیواروں پر چونے کا پلستر پوتا تھا۔[20] یہ جگہ 1974ء میں دریافت ہوئی جب تعمیراتی کارکن اس علاقے سے گزرنے والی سڑک پر کام کر رہے تھے۔ 1982ء میں جب یہاں کھدائی شروع ہوئی اس وقت یہاں تقریباً 600 میٹر (2،000 فٹ) طویل سڑک بن چکی تھی۔ شہری توسیع کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے باوجود عین غزال کی باقیات معلومات کا ایک خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔[21]
عین غزال 1983ء میں دریافت ہونے والے انسانی مجسموں کی وجہ سے بہت مشہور ہے جنہیں مقامی آثار قدیمہ کے ماہرین نے 2.5 میٹر (8.2 فٹ) کی ایک بڑی گڑھے کے کنارے پر سے نکالا تھا۔[22] یہ انسانی مجسمے سفید پلستر سے بنائے گئے ہیں جن کے رنگین کپڑے، بال، اور بعض صورتوں میں سجاوٹی ٹیٹو بھی ہیں۔ دو دفینوں میں بتیس مجسمے ملے ہیں، ان میں سے پندرہ مکمل مجسمے، پندرہ بالائی جسم اور دو انشقاقی سر ہیں۔ تین بالائی جسم کے مجسمے دو سر والے تھے جن کی اہمیت واضح نہیں ہے۔[21]
تیرہویں صدی ق م میں عمان مملکت عمون کا دار الحکومت تھا جسے رابث عمون کہا جاتا ہے۔ عمون علاقے کو کئی قدرتی وسائل فراہم کرتا تھا جس میں ریتلا پتھر اور چونا پتھر قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ پیداواری زرعی شعبے کے ساتھ یہ شاہراہ شاہ پر ایک اہم مقام تھا جو کہ قدیم مصر سے بین النہرین، سوریہ اور اناطولیہ کی ایک اہم تجارتی شاہراہ تھے۔ ادوم اور موآب کو تجارتی قافلوں سے عمونی ایک خاصہ محصول حاصل کرتے تھے۔[23] عمون ایک قدیم دیوتا مولوخ کی عبادت کرتے تھے۔ عمان شہری ہوائی اڈے کے نزدیک کھدائی میں ایک مندر دریافت ہوا ہے جس کی قربان گاہ سے بہت سے انسانی ہڈی والے ٹکڑے ملے ہیں۔ ہڈیوں سے جلائے جانے کے ثبوت ملے ہیں جس نے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قربان گاہ پر مردوں کو جلایا جاتا تھا۔[24]
موجودہ عمان میں عمون دور کے کئی کھنڈر موجود ہیں جیسے کہ قصر العبد، رجم الملفوف اور قلعہ عمان۔ رجم الملفوف مملکت عمون دور کا ایک دیدبان ہے جو تقریباً 1000 ق م میں دار الحکومت کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا۔[25][26] بعد میں یہ شہر اشوری سلطنت اور ہخامنشی سلطنت کے زیر نگیں بھی رہا۔
کلاسیکی دور
ترمیمسکندر اعظم کی مشرق وسطی اور وسط ایشیا کی فتح سے علاقے پر یوناتی تہذیب کا گہرا اثر پڑا۔[27] یونانیوں نے جدید اردن کے علاقے میں نئے شہر آباد کیے جن میں ام قیس، جرش اور عمان شامل ہیں۔ بطلیموس دوم کو کہ مصر کا مقدونی حکمران تھا شہر کو از سر نو تعمیر کروایا اور اس کا نام فلاڈیلفیا (قدیم یونانی: Φιλαδέλφεια) رکھا جس کے لفظی معنی یونانی زبان میں "برادرانہ محبت" کے ہیں۔ یہ نام بطلیموس دوم کی عرفیت "فلاڈیلفس" (Philadelphus) کی مناسبت سے دیا گیا تھا۔[28]
اردن کی سب سے زیادہ اہم اور غالباً مشرق قریب میں یونانی دور اہم ترین یادگاروں میں سے ایک وادی السیر میں عراق الامير گاؤں ہے جو کہ عمان کے جنوب مغرب میں واقع ہے جہاں قصر العبد موجود ہے۔ دیگر قریبی کھنڈروں میں ایک گاؤں، ایک الگ تھلگ گھر اور ایک چشمہ شامل ہیں تاہم وہ اس زلزلہ کے باعث بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو یہاں 362ء میں آیا تھا۔[29] خیال کیا جاتا ہے کہ قصر العبد یروشلم کے ہورکانوس نے تعمیر کرویا تھا جو طاقتور توبیاس خاندان کا سربراہ تھے۔ اس بڑی عمارت کی تعمیر شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد 170 ق م میں آنتیوخوس چہارم نے مصر سے ایک فوجی مہم سے واپسی پر یروشلیم کو فتح کر لیا، اور جس مندر میں ہورکانوس کو خزانہ موجود تھا اسے لوٹا اور برباد کیا اور اس ساتھ ہی ہورکانوس پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔ یہ سنتے ہی ہورکانوس نے خودکشی کر لی جس کی وجہ سے فلاڈیلفیا کا قصر العبد مکمل نہ ہو سکا۔[30] توبیاس خاندان عرب انباط سے چوبیس سال تک برسر پیکار رہے جس کے بعد شہر پر انباط کا قبضہ ہو گیا۔ فلاڈیلفیا کھنے کے بعد توبیاس خاندان کا تاریخ میں کوئی تحریری ذکر نہیں ملتا۔ .[31]
رومیوں نے سر زمین شام کو 63 ق م میں فتح کیا اور رومی دور کا آغاز کیا جو چار صدیوں تک جاری رہا۔ موجودہ دور کے شمالی اردن کے علاقے میں یونانی شہر فلاڈیلفیا (عمان)، جرش، ام قیس، پیلا اور اربد فلسطین اور سوریہ کے دیگر شہروں سے مل گئے جن میں بیت شان، ہیپوس، بیت راس، قنوات اور دمشق شامل ہیں۔ انہوں میں مل کر ڈیکا پولس (دس شہری) لیگ کی تشکیل کی اور باہمی اقتصادی اور ثقافتی دلچسپی کا ایک عملی اتحاد بنایا۔[32] فلاڈیلفیا (عمان) 106ء میں تراجان سلطنت کی عقبہ سے دمشق تک بنائی والی سڑک پر ایک اہم مقام بن گیا۔ جس نے ایک مختصر عرصے میں شہر کے لئے اقتصادی فروغ کا باعث بنا۔ سترہویں صدی میں بازنطینی سلطنت کے دور کے اواخر میں شہر میں کئی گرجا گھر تعمیر کیے گئے۔[33]
اردن بھر میں رومی دور حکومت میں تعمیر کی گئی کئی عمارتوں کھنڈر موجود ہیں جن میں عمان میں معبد ہرقل، قلعہ عمان، رومی تھیٹر، اوڈیون تھیٹر اور نمفیم قابل ذکر ہیں۔ یہ دو تھیٹر اور نمفیم آبی ذخیرہ انتونیوس پیوس کے دور میں 161ء میں تعمیر کیے گئے۔ رومی تھیٹر اوڈیون تھیٹر سے بڑا ہے جس میں 6,000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس کا رخ شمال کی شیت میں پہاڑی علاقے میں تھا تاکہ حاضرین کا سورج سے بچاو کیا جا سکے۔ اس کے شمال مغرب میں نسبتاً چھوٹا اوڈیون تھیٹر موجود ہے۔ یہ تھیٹر تقریباً ایک ہی وقت میں تعمیر کیے گئے۔ اوڈیون تھیٹر میں 500 نشستیں ہیں جسے آج بھی موسیقی کنسرٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ڈھانچہ پر اصل میں ایک لکڑی کے چھت بھی موحود تھی جو کہ حاضرین کو موسم سے بچانے کی جاتی تھی۔ نمفیم اوڈیون تھیٹر کے جنوب مغرب میں واقع ہے جو کہ شہر کا بنیادی آبی ذخیرہ تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نمفیم کا 600 مربع میٹر (6،500 مربع فیٹ) کے تالاب پر مشتمل تھا جو کہ 3 میٹر (9.8 فٹ) گہرا تھا اور پانی سے مسلسل بھرا رہتا تھا۔[34]
اسلامی دور
ترمیم630ء کی دہائی میں خلافت راشدہ یہ علاقہ بازنطینی سلطنت سے حاصل کر لیا جس سے سر زمين شام میں اسلامی دور کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے فلاڈیلفیا کا نام تبدیل کر کے عمان رکھ دیا اوراسے ضلع جند اردن کا حصہ بنایا۔ علاقے کی زیادہ تر آبادی نے عربی زبان بولنا شروع کر دی تھی جس نے علاقے کو خلافت میں انضمام کی سہولت دی اور اسلام علاقے میں لوگوں کا مقبول مذہب بن گیا۔ خلافت امويہ کا دور 661ء میں شروع ہوا اس اس دور میں پورے علاقے میں دفاعی حکمت عملی تک تحت کئی صحرائی قلعے تعمیر کیے گئے، جن سے صحرائی علاقے کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی، ان میں سے کئی قلعے آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔ عمان اس دور میں ایک انتظامی مرکز کے طور پر کام کر رہا تھا۔ امویوں نے جبل القلعہ پر ایک بڑا محل تعمیر کروایا جسے اموی محل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعد میں عمان زلزلوں اور قدرتی آفات سے تباہ ہو گیا جس میں 747ء میں آنے والا زلزلہ خاص طور پر اہم ہے۔ تین سال بعد عالقہ خلافت امويہ کے ہاتھوں سے نکل کر خلافت عباسیہ کے زیر نگیں آ گیا۔[32]
آٹھویں صدی کے وسط میں عمان کی اہمیت کم ہو گئی کیونکہ کئی زلزلوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے اور شہر ناقابل رہائش ہو گیا۔[35] اموی محل کے تباہ شدہ حصوں کی گھدائی سے خلافت عباسیہ (750ء-969ء) اور خلافت فاطميہ (969ء–1099ء) کے دور کے کئی تنور ملے ہیں۔[36] نویں صدی کے جغرافیہ دان یعقوبی نے اسے پیریہ علاقہ (موجودہ محافظہ بلقاء کا علاقہ) کے صدر مقام کے طور پر بیان کیا ہے۔[37] اسی طرح 985ء میں یروشلم کے تاریخ دان شمس الدین مقدسی نے بھی اسے بلقاء علاقہ کے صدر مقام کے طور پر بیان کیا ہے، [37] ایک شہر جو صحرا کے کنارے پر واقع ہے جس کے ارد گرد کئی گاؤں اور مکئی کے کھیت موجود تھے اور یہ بھیڑوں، اناج اور شہد کا علاقائی مرکز تھا۔[38] اس کے علاوہ المقدسی نے اسے "صحرا کی بندرگاہ" کہا ہے جہاں عرب بدو پڑاو ڈالتے تھے، اور جبل القلعہ پر ایک چھوٹی مسجد بھی موجود تھی۔[39]
صلیبی جنگوں کے نتیجے میں جبل القلعہ پر مملکت یروشلم کے قبضے کا تذکرہ صرف صلیبی حوالوں سے ہی ملتا ہے۔ ولیم صوری اپنی کتاب تاریخ (Historia) میں لکھتا ہے کہ 1161ء میں مملکت یروشلم کے شاہ فلپ قلعہ "آحمانت" (Ahamant) حاصل کیا جس سے عمان مراد لیا جاتا ہے جو کہ ماورائے اردن کا حصہ تھا۔[40] 1166ء میں فلپ نے فرسان الہیکل کی فوج میں شمولیت اختار کی اور اپنی فتوحات کا ایک حصہ بشمول قلعہ "آحمانت" یا "حامان" جیسا کہ شاہ امالرک [41] کی طرف سے جاری شدہ تصدیق وصولی میں لکھا گیا ہے، ان کے حوالے کر دیے۔[42] 1170ء میں یہ ایوبی سلطنت کے زیر نگیں آ گیا۔[43] جبل القلعہ پر موجود دیدبان کے کو کھنڈر پہلے صلیبیوں سے منسوب کیا جاتا تھا، تاہم اب اسے ایوبی دور کا کہا جاتا ہے جو کہ اس پر مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔[41] ایوبی دور کے دوران دمشق کے جغرافیہ دان شمس الدین انصاری لکھتا ہے کہ عمان صوبہ الکرک کا حصہ تھا تاہم اب شہر میں صرف کھنڈر ہی موجود ہیں۔[44]
مملوک دور (اواخر تیرہویں صدی-ابتدائی سولہویں صدی) میں عمان کا علاقہ "ولایت بلقاء" کا حصہ تھا جو صوبہ دمشق کا جنوبی ترین حصہ تھا۔[45] چودہویں صدی کے ابتدائی نصف میں ضلع کا صدر مقام تھا ادنی انتظامی مرکز حسبان تھا جس کی چھاونی دیگر ماورائے اردن کے انتظامی مراکز عجلون اور الکرک سے کافی چھوٹی تھی۔[46] 1321ء میں جغرافیہ دان ابو الفداء نے لکھا ہے کہ "عمان ایک بہت قدیم شہر ہے" جس زمین زرخیر اور اس کے ارد گرد کھیت موجود ہیں۔[39] واضح طور پر معلوم نہیں ممکنہ طور مالی وجوہات کی بنا پر دار الحکومت کو حسبان سے عمان منتقل کر دیا گیا جسے ایک شہر سمجھا جاتا تھا۔[47]
1357ء میں امیر سیف الدین صرغتمش نے عمان کو مکمل طور پر خرید لیا، خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی آمدنی کو مدرسہ صرغتمش کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ اسی سال قاہرہ میں تعمیر کیا گیا تھا۔[47] شہر کو خریدنے کے بعد امیر سیف الدین صرغتمش نے عدالتوں، انتظامی بیوروکسیسی، بازاروں اور زیادہ تر باشندوں حسبان سے عمان منتقل کر دیا۔[47] اس کے علاوہ اس نے شہر کے نئے تعمیراتی کاموں کی مالی امداد بھی کی۔[47]
1358ء میں امیر سیف الدین صرغتمش کی وفات کے بعد پورا عمان شہر بطور وارثت صرغتمش خاندان میں منتقل ہوتا رہا جو کہ 1395ء تک جاری رہا جب صرغتمش خاندان کے وارثوں نے شہر نائب سلطنت دمشق امیر بیدار الخوارزمی کو بیچ دیا۔[47] اس کے بعد عمان کی زرعی زمینوں کا ایک حصہ نائب سلطنت مصر امیر سودون الشیخونی کو فروخت کر دیا گیا۔[48] وقت کے ساتھ ساتھ عمان شہر مسلسل تقسیم اور فروخت ہوتا رہا، مختلف مالکان ہونے کے سبب عمان سے ہونے والی آمدنی میں بھی کمی ہوتی رہی، جبکہ دوسری طرف حسبان شہر بھی بحال ہوتا رہا اور پندرہویں صدی میں وہ بلقاء کا ایک اہم شہر بن گیا۔[49] اس وقت سے 1878ء تک عمان ایک متروک شہر بن گیا جہاں صرف موسمی کسان قابل کاشت زمینوں پر زراعت کے لیے آتے یا بدو چرواہے جو اپنے ریوڑ کو پانی فراہم کرنے کے لیے یہاں رکتے۔[50][51]
1516ء میں یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا تاہم عثمانی دور میں سلط ماورائے اردن کا مجازی سیاسی مرکز رہا۔ 1878ء میں عمان دوبارہ آباد ہونا شروع ہو جب ادیگی قوم کے سینکڑوں افراد قفقاز [52] سے نکالے جانے کے بعد یہاں آ کر آباد ہوئے۔ 1872ء سے 1910ء کے روسی-ادیگی جنگ کے دوران ہزاروں قفقازی سلطنت روس سے ہجرت کر کے عثمانی شام میں آ کر آباد ہوئے۔[53] 1879ء میں برطانوی سیاح لارنس اولیفینٹ اپنی کتاب (The Land of Gilead) میں عمان شہر کے دورے کا تذکرہ کیا ہے۔[54]
جدید دور
ترمیم1878ء میں سلطنت عثمانیہ ادیگی تارکین وطن کی طرف متوجہ ہوئی جو یہاں آ کر آباد ہوئے تھے اور بنیادی طور پر دہقان تھے، ان لوگوں میں قابل کاشت زمینیں تقسیم کی گئیں۔[55] پہلے ادیگی آباد کار رومی تھیٹر کے قریب آباد ہوئے جنہوں میں تھیٹر کے پتھروں کو اپنے مکانوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔[56] 1933ء کی برطانوی رپورٹ کے مطابق عمان میں تقریباً 1700 ادیگی آباد تھے۔[57] تاہم یہ برادری مقامی لوگوں سے جدا نہ تھی۔ انہوں نے مقامی اور خانہ بدوش برادریوں، علاقائی اناج تاجروں سے تعلقات استوار کر لیے تھے، اور نئے قائم کردہ شہر میں اپنی حیثیت منوا لی تھی۔[56] عمان کی پہلی بلدیاتی کونسل 1909ء میں قائم کی گئی اور اسماعیل بابوق اس کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔[58] سلطنت عثمانیہ کی حکومت کے حجاز ریلوے کی تعمیر کے فیصلے سے جو حج اورتجارت کی سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے دمشق سے مدینہ منورہ تک تھی، نے عمان شہر کی آبادیات کو ڈرامائی طور پر بدیل کر دیا۔ عمان اس ریلوے لائن پر واقع تھا اور یہ ایک قصبے سے بدل کر خطے میں ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔[59]
1918ء میں ہونے والی پہلی اور دوسری جنگ عمان مشرق وسطی میں پہلی جنگ عظیم کا میدان بنیں اس کے علاوہ عرب بغاوت بھی اس خطے میں پروان چڑھی۔ عمان حجاز ریلوے پر ایک اسٹریٹجک مقام تھا، برطانوی افواج اور ہاشمی عرب فوج کا عمان پر قبضہ بہت اہم تھا جس سے دمشق کی طرف پیش قدمی میں مدد ملی۔[60] پہلی جنگ عمان میں سلطنت عثمانیہ کو فتح حاصل ہوئی تاہم دوسری جنگ عمان میں سلطنت برطانیہ کی فتح نے علاقے میں برطانوی انتداب فلسطین کی بنیاد رکھی۔
1921ء میں ہاشمی امیر اور بعد میں شاہ عبداللہ اول بن حسین نے امارت شرق اردن قائم کی اور سلط کی بجائے عمان کو دار الحکومت بنایا۔ امارت شرق اردن 1950ء میں ہاشمی مملکت اردن میں تبدیل ہو گئی۔ ملک کا دار الحکومت بننے کے بعد سر زمین شام کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے، خاص طور پر سلط سے جو دریائے اردن کے مشرق میں سب سے بڑی آبادی تھی، لوگ عمان کو نقل مکانی کرنے لگے۔ فلسطین سے ابتدائی مہاجرین جنہوں نے اردن کا رخ کیا ان میں زیادہ تر کا تعلق نابلس سے تھا۔ ان میں سے کئی پہلے سلط میں آباد ہوئے مگر پھر عمان میں منتقل ہو گئے۔ دمشق سے بھی تارکین وطن ان میں شامل ہو گئے۔ عمان نے ملک کے جنوبی حصے سے خاص طور پر الکرک اور مادبا کے لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ 1930ء کی دہائی مین شہر کی آبادی تقریباً 10،000 نفوس پر مشتمل تھی۔[61]
اردن نے 1946ء میں آزادی حاصل کی اور عمان ملک کا دار الحکومت بنا۔ قریبی ممالک میں جنگوں کے دوران بہت سے پناہ گزینوں نے عمان کا رخ کیا جس کی انتدا 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ سے ہوئی۔ 1967ء میں 6 روزہ جنگ کے بعد عمان میں مہاجروں کی ایک نئی لہر آئی۔ 1970ء میں عمان تنظیم آزادی فلسطین اور شاہی اردنی فوج کے درمیان میدان جنگ بنا جسے سیاہ ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اردنی فوج نے تنظیم آزادی فلسطین کو شکست دی اور انہیں لبنان کی طرف بھیج دیا۔[62]
1991ء میں خلیجی جنگ کے بعد عراقی اور کویتی پناہ گزینوں کی پہلی لہر شہر میں آ کر آباد ہوئی، جبکہ دوسری لہر 2003ء میں عراق پر حملے کے نتیجے میں آئی۔ 2011ء میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی کے بعد شامی پناہ گزینوں نے عمان کا رخ کیا۔ عمان سلامتی اور خوشحالی کی وجہ سے پناہ گزینوں کی پر کشش منزل مقصود ہے۔[63]
9 نومبر 2005ء کو القاعدہ کے تحت ابو مصعب الزرقاوی کی رہنمائی میں عمان کے تین ہوٹلوں میں دھماکے کیے جس کے نتیجے میں 60 افراد ہلاک اور 115 زخمی ہوئے۔ بم دھماکوں میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں اردن میں وسیع پیمانے غم و غصے کی لہر دوڑی۔[64] حملے کے بعد اردن کے سیکورٹی میں مجموعی طور ڈرامائی طور پر بہتری آئی اور اس کے بعد کسی اہم دہشت گرد حملوں کی اطلاع نہیں ملی۔[65][66]
گزشتہ دس سالوں کے دوران شہر نے اقتصادی، ثقافتی حولے سے مثالی ترقی کی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے نئی رہائش کی ضروریات میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے شہر میں نئے اضلاع کو تیز رفتاری سے قائم کیا گیا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے بغیر شہر کی توسیع سے عمان کے روکے ہوئے اور قلیل المقدار آبی ذخیرہ پر بہت بوجھ پڑا ہے۔ آج عمان کو دونوں جدید اور قدیم عرب شہر کے طور پر جانا جاتا ہے، [7] جس میں بڑے منصوبے جن میں عبدلی منصوبہ اور باب اردن ٹاورز شامل ہیں۔ شہر میں کئی اعلی ہوٹلوں کے فرنچائزز موجود ہیں جن میں فور سیزن ہوٹل عمان، شیرٹن ہوٹل عمان، فیئرمونٹ عمان، سینٹ ریجس ہوٹل عمان، لے رائل ہوٹل اور دیگر شامل ہیں۔
جغرافیہ
ترمیمعمان سطح مرتفع شرق اردن میں واقع ہے جو کہ ایک بلند خطہ ہے جس میں تین وادیاں موجود ہیں۔[67] اصل میں یہ شہر سات پہاڑیوں پر بسا تھا۔[68] ارضیات عمان میں اس کی ہپاڑیاں اہم مقام رکھتی ہیں۔[69] شہر کے اہم علاقوں کے نام ان پہاڑوں کے نام پر ہیں جن کر قریب یہ علاقے واقع ہیں۔[70] علاقے کی بلندی 700 سے 1،100 میٹر (2،300 سے 3،600 فٹ) تک ہے۔[71] سلط اور زرقاء بالترتیب شہر کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع ہیں۔ مغرب میں مادبا جبکہ الکرک اور معان بالترتیب عمان کے جنوب مغرب اور جنوب مشرق میں واقع ہیں۔ عمان میں اکیلا رہ جانے والا چشمہ دریائے زرقا کو پانی فراہم کرتا ہے۔[72]
آب و ہوا
ترمیمعمان بحیرہ روم کے منطقہ آب و ہوا کے قریب پہاڑوں پر واقع ہے۔ درجہ بندی میں یہ نیم-بنجر آب و ہوا کے زمرے میں آتا ہے (کوپن موسمی زمرہ بندی: بی ایس ایچ)۔ موسم گرما ہلکا کرم اور ہوادار ہوتا ہے، تاہم موسم گرما کے دوران ایک یا دو گرمی لہریں ہو سکتی ہیں۔ موسم بہار مختصر اور اوسط درجہ گرمی کا حامل ہوتا ہے جس میں درجہ حرارت 28°س (82°ف) تک پہنچ جاتا ہے۔ موسم بہار عام طور پر اپریل اور مئی کے درمیان شروع ہوتا ہے اور ایک ماہ تک رہتا ہے۔ موسم سرما عام طور پر نومبر کے اختتام کے ارد گرد شروع ہوتا ہے اور مارچ کے وسط تک جاری رہتا ہے۔ سرما میں درجہ حرارت 17°س (63°ف) کے قریب یا کم رہتا ہے، جبکہ سال میں ایک یا دو بار برف باری بھی ہوتی ہے۔ سالانہ بارش عام طور پر 300 ملی میٹر (12 انچ) ریکارڈ کی جاتی ہے جبکہ وقفوں وقفوں میں خشک سالی بھی ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ بارشیں اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوتی ہیں۔[73] کم از کم 120 دن بھاری دھند ہر سال کا معمول ہے۔[74] مقام کی بلندی شہر کے مخلتف حصوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عمان کے مغربی اور شمالی حصوں میں برف جمع ہوسکتی ہے (سطح سمندر سے 1،000 میٹر (3،300 فٹ) کی اوسط اونچائی) جبکہ اسی وقت شہر کے مرکز (بلندی 776 میٹر (2،546 فٹ)) میں بارش ہو سکتی ہے.
عمان خرد آب و ہوا کی ایک انتہائی مثال ہے، اور تقریباً ہر ضلے کا اپنا ہوتا ہے۔[75] مقامی لوگوں میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ شمال کے مضافاتی علاقہ جات مثلاً ابو نصر میں انتہائی سردی ہو سکتی ہے اور لوگ ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں اور اسی وقت دیگر اضلاع مثلاً مارکا میں گرمی ہوتی ہے۔
ذیل میں درج درجہ حرارت شہر کے مرکز میں واقع موسمی اسٹیشن سے لیے گئے ہِن جس کی سطح سمندر سے بلند ی 767 میٹر (2،516 فٹ) ہے۔
بلند مقامات پر موسم سرما درجہ حرارت کم اور موسم گرما میں زیادہ ہو گا۔
مثلاً الجبیہہ، صویلح، خالدہ اور ابو نصیر جو کہ سطح سمندر سے 1،000 میٹر (3،300 فٹ) کی بلندی پر ہیں کا دن میں اوسط درجہ حرارت 7 سے 9°س (45 سے 48°س) ہوتا ہے اور جنوری کی راتوں میں یہ 1 سے 3°س (34 سے 37°ف) ہوتا ہے۔
اگست میں ان علاقوں میں اوسط بلند ترین درجہ حرارت دن میں 25 سے 28°س (77 سے 82°ف) اور رات میں 14 سے 16°س (57 سے 61°ف) ہوتا ہے۔
آب ہوا معلومات برائے عمان | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 23.0 (73.4) |
27.3 (81.1) |
32.6 (90.7) |
37.0 (98.6) |
38.7 (101.7) |
40.6 (105.1) |
43.4 (110.1) |
43.2 (109.8) |
40.0 (104) |
37.6 (99.7) |
31.0 (87.8) |
27.5 (81.5) |
43.4 (110.1) |
اوسط بلند °س (°ف) | 12.7 (54.9) |
13.9 (57) |
17.6 (63.7) |
23.3 (73.9) |
27.9 (82.2) |
30.9 (87.6) |
32.5 (90.5) |
32.7 (90.9) |
30.8 (87.4) |
26.8 (80.2) |
20.1 (68.2) |
14.6 (58.3) |
23.7 (74.66) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 8.5 (47.3) |
9.4 (48.9) |
12.4 (54.3) |
17.1 (62.8) |
21.4 (70.5) |
24.6 (76.3) |
26.5 (79.7) |
26.6 (79.9) |
24.6 (76.3) |
21.0 (69.8) |
15.0 (59) |
10.2 (50.4) |
18.11 (64.6) |
اوسط کم °س (°ف) | 4.2 (39.6) |
4.8 (40.6) |
7.2 (45) |
10.9 (51.6) |
14.8 (58.6) |
18.3 (64.9) |
20.5 (68.9) |
20.4 (68.7) |
18.3 (64.9) |
15.1 (59.2) |
9.8 (49.6) |
5.8 (42.4) |
12.5 (54.5) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −4.5 (23.9) |
−4.4 (24.1) |
−3.0 (26.6) |
−3.0 (26.6) |
3.9 (39) |
8.9 (48) |
11.0 (51.8) |
11.0 (51.8) |
10.0 (50) |
5.0 (41) |
0.0 (32) |
−2.6 (27.3) |
−4.5 (23.9) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 60.6 (2.386) |
62.8 (2.472) |
34.1 (1.343) |
7.1 (0.28) |
3.2 (0.126) |
0.0 (0) |
0.0 (0) |
0.0 (0) |
0.1 (0.004) |
7.1 (0.28) |
23.7 (0.933) |
46.3 (1.823) |
245.0 (9.646) |
اوسط عمل ترسیب ایام | 11.0 | 10.9 | 8.0 | 4.0 | 1.6 | 0.1 | 0.0 | 0.0 | 0.1 | 2.3 | 5.3 | 8.4 | 51.7 |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 179.8 | 182.0 | 226.3 | 266.6 | 328.6 | 369.0 | 387.5 | 365.8 | 312.0 | 275.9 | 225.0 | 179.8 | 3,289.7 |
ماخذ#1: اردن محکمہ موسمیات[76] | |||||||||||||
ماخذ #2: NOAA (sun 1961–1990),[77] Pogoda.ru.net (records)[78] |
مقامی حکومت
ترمیمبلدیہ عمان کبری یا امانہ عمان کبری اردن کی ایک بلدیہ (امانہ) ہے جو اردن کے دار الحکومت عمان کے میٹروپولیٹن علاقہ پر مشتمل ہے۔ محافظہ عمان کی زیادہ تر آبادی یہیں مرکوز ہے۔ [79] بلدیہ عمان کبری کا رقبہ 700 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 4 ملین افراد پر مشتمل ہے اور 733 میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔
عمان پر چار سالہ براہ راست منتخب شدہ 41 رکنی شہری کونسل کے ذریعہ حکومت کا نظم نسق سنبھالا جاتا ہے۔ 18 سال کی عمر سے زائد تمام اردنی شہری بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ تاہم میئر انتخابات کی بجائے بادشاہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔[80] 1909ء میں عمان میں پہلی سٹی کونسل قائم کی گئی اور ادیگی قوم سے تعلق رکھنے والے اسماعیل بابوق دار الحکومت کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔ 1914ء میں عمان کا پہلا شہری ضلع مرکز قائم کیا گیا۔[81]
بلدیہ عمان کبری کئی اقدامات کے ذریعے شہر کو ایک بہتر جگہ بنانے کے کیے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ "گرین عمان 2020ء" 2014ء میں شروع کیا گیا جس کا مقصد 2020ء تک شہر کو سبز میٹروپولپس میں تبدیل کرنا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عمان کا صرف 2.5 فیصد حصہ ہی سبز جگہ ہے۔[82] 2015ء میں بلدیہ عمان کبری اور "زین اردن" شہر میں 15 مختلف مقامات پر مفت وائی فائی خدمات شروع کیں جن میں شارع وکالات، شارع رینبو، ہاشمی پلازا، اشرفیہ ثقافتی مرکز، زہا ثقافتی مرکز، الحسین ثقافتی مرکز، الحسین عوامی پارک اور دیگر شامل ہیں۔[83]
انتظامی تقسیم
ترمیماردن کی 12 درجہ اول ذیلی تقسیمات ہیں جنہیں محافظہ کہا جاتا ہے۔ محافظہ عمان نو "ناحیہ" میں منقسم ہے، جن میں سے پانچ اضلاع میں منقسم ہیں جو کہ مزید محلوں میں منقسم ہیں۔ دیگر چار "ناحیہ" مضافات میں ہیں جو گاؤں یا قصبوں میں منقسم ہیں۔[84]
شہر بلدیہ عمان کبری کے طور پر زیر انتظام ہے اور یہ 27 اضلاع پر مشتمل ہے جن فہرست درج ذیل ہے: [85][86]
شمار | ضلع | رقبہ (کلومیٹر2) | آبادی (2015) | شمار | ضلع | رقبہ (کلومیٹر2) | آبادی (2015) |
---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | المدینہ | 3.1 | 34,988 | 15 | بدر الجدیدہ | 19 | 17,891 |
2 | بسمان | 13.4 | 373,981 | 16 | صویلح | 20 | 151,016 |
3 | مارکا | 23 | 148,100 | 17 | تلاع العلی | 19.8 | 251,000 |
4 | النصر | 28.4 | 258,829 | 18 | الجبیہہ | 25.9 | 197,160 |
5 | الیرموک | 5.5 | 180,773 | 19 | شفا بدران | 45 | 72,315 |
6 | راس العین | 0.68 | 138,024 | 20 | ابو نصیر | 50 | 72,489 |
7 | بدر | 0.01 | 229,308 | 21 | احد | 250 | 40,000 |
8 | زہران | 13.8 | 107,529 | 22 | الجیزہ | 558 | 95,045 |
9 | العبدلی | 15 | 165,333 | 23 | سحاب | 12 | 169,434 |
10 | طارق | 25 | 175,194 | 24 | الموقر | 250 | 47,753 |
11 | قویسمہ | 45.9 | 296,763 | 25 | حسبان الجدیدہ | 55 | 31,141 |
12 | خریبہ السوق | 0.5 | 186,158 | 26 | ناعور | 87 | 78,992 |
13 | المقابلین | 23 | 99,738 | 27 | مرج الحمام | 53 | 82,788 |
14 | وادی السیر | 80 | 241,830 |
عمان کے میئر
ترمیم
سربراہان بلدیہ عمّان
|
میئر دار الحکومت
|
میئر بلدیہ عمان کبری
|
معیشت
ترمیمتاریخ معیشت
ترمیمعثمانی دور میں عثمانی لیرہ عمان کی کرنسی تھی جو کہ مشرقی اردن میں برطانوی مینڈیٹ تک جاری رہی۔ 1927ء میں فلسطینی پاؤنڈ کے استعمال سے قبل مصری پاؤنڈ عارضی طور پر استعمال کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ 1950ء میں اردنی دینار کا اجرا کیا گیا۔[87] عمان کے لوگ آج بھی "لیرہ" لفظ استعمال کرتے ہیں جو کہ سلطنت عثمانیہ کے طویل مدتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے حالانکہ اس دور کو گزرے چار صدیوں بیت چکی ہیں۔[88]
عمان آج اردن میں معاشیات کا مرکز ہے، جسے 1990ء میں کویت سے سرمایہ کاری سے خاصی اڑان ملی۔ شہر میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں سے عمان کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ شہر کی معیشت، تعمیرات، بینکنگ، انشورنس اور تجارت کے شعبوں پر منحصر ہے، جبکہ سیاحت کے شعبے میں ہوٹل نمایاں طور اہمیت رکھتے ہیں۔ درمیانے درجے کی صنعتوں کے علاوہ اردن کی سب سے بڑی کمپنیاں کئی علاقائی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے صدر دفاتر شہر میں واقع ہیں۔ بہت سے خلیج عرب کے شہری اور امیر عرب شہری یہاں ریل اسٹیٹ اور کاروبار کے مالک ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بہت سے خلیجی، بین الاقوامی کمپنیوں اور خاص کر کویتی کمپنیوں نے عمان میں سرمایہ کاری کی ہے۔
بینکنگ شعبہ
ترمیمبینکنگ کا شعبہ اردن کی معیشت کے بنیادوں ستونوں میں سے ایک ہے۔ عرب بہار کے نتیجے میں ہونے والی بدامنی اور معاشی مشکلات کے باوجود اردن کے بینکنگ شعبے نے 2014ء میں اپنی ترقی کو برقرار رکھا۔ یہ شعبہ 25 بینکوں پر مشتمل ہے جن میں سے 15 عمان اسٹاک ایکسچینج میں مندرج ہیں۔ عمان بین الاقوامی عرب بینک صدر مقام شہر ہے، جو کہ مشرق وسطی کے سب سے بڑے مالیاتی اداروں میں سے ایک ہے جو پانچ براعظموں کے 30 ممالک میں 600 سے زائد شاخوں میں گاہکوں کو خدمات فراہم کرنا ہے۔ عرب بینک عمان اسٹاک ایکسچینج کے 28٪ کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ ایکسچینج میں مارکیٹ سرمایہ کاری کا سب سے اعلی درجے کا ادارہ ہے۔
اردن کے دیگر بینک جن کے صدر دفاتر عمان میں واقع ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
اردنی مرکزی بینک
ترمیماردنی مرکزی بینک اردن کا مرکزی بینک ہے جس کے اہم فرائض اردن کی کرنسی کا اجرا اور تقسیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سونے کی قومی ذخائر ور غیر ملکی کرنسیوں کا استقرار رکھتا ہے۔
عمان اسٹاک ایکسچینج
ترمیمعمان اسٹاک ایکسچینج اردن کی اسٹاک ایکسچینج ہے یہ ایک نجی خود مختار ادارہ ہے۔ یہ اردن کے دار الحکومت عمان میں واقع ہے۔ عمان اسٹاک ایکسچینج کا قیام 1999ء میں بطور غیر منافع بخش، نجی ادارے کے طور ہر انتظامی اور مالی خود مختاری کے ساتھ ہوا۔ ایکسچینج سات رکنی بورڈ کے ڈائریکٹرز کے زیر انتظام ہے۔ ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر روزمرہ کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے جو کہ بورڈ کے ماتحت ہے۔[56]
20 فروری، 2017ء کو عمان اسٹاک ایکسچینج ایک ریاستی ملکیت کمپنی بن گئی اور اس کا نام عمان اسٹاک ایکسچینج کمپنی رکھا گیا۔[89]
بازار
ترمیمعمان میں تجارت زمانہ قدیم سے ہی ایم معاشی سرگرمی رہی ہے۔ شہر میں کئی قدیم بازار ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: سوق السکر، وسوق البخاریہ، وسوق الجمعہ، وسوق وادی السرور، وسوق الخضار، وسوق الیمنیہ، وسوق الحبوب، وسوق الحلال، وسوق الصاغہ، وسوق السعادہ، وسوق الانتیکا اور سوق البناء۔ یہ روایتی بازار آج بھی مقبول ہیں۔ دار الحکومت اور تجارتی اور ثقافتی مرکز ہونے کے سبب جدید طرز کی ماکیٹوں میں بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے جہاں تمام ملکی اور غیر ملکی برانڈز کی اشیا موجود ہین۔ شہر کا سب سے بڑے شاپنگ مالز میں سٹی مال، مکہ مال، تاج مال، عمان مال اور گیلیریا مال سر فہرست ہیں۔[90][91]
صنعت
ترمیمصنعت اور تجارت کی وزارتوں کی دلچسبی اور تعاون سے بلدیہ عمان کبری میں صنعتی زونوں کا قیام عمل میں آیا ہے جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔[92]
سحاب اور الموقر میں قائم یہ زون ہلکی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لیے درجہ بند کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ رہائشی علاقوں سے مناسب جغرافیائی دوری پر واقع ہے۔[93]
قسطل صنعتی زون
ترمیمقسطل کے علاقے میں موجود یہ صنعتی زون ایئرپورٹ روڈ کے جنوب مشرق واقع ہے۔ اس علاقے کو خصوصی صنعتوں کی تحقیقات، کاروبار اور ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے لئے درجہ بند کیا گیا ہے۔ اس زون میں مزید توسیع کی گنجائش بھی موجود ہے۔[93]
الجیزہ صنعتی زون
ترمیمالجیزہ میں قائم یہ صنعتی زون ہلکی اور متوسط صنعتوں کے لیے مختص ہے۔ یہاں قریبی منصوبوں پر کام کرنے والوں کے لیے رہائشی اکائیوں کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔[93]
اس کے علاوہ کئی صنعتی زون بھی موجود ہیں جو چہر کے مضافات میں بنائے گئے ہیں جن میں کئی تجارتی ایجنسیاں، گاڑیوں کی مرمت کی ورکشاپ اور اس طرح کی چھوٹی صنعتیں شامل ہیں۔
زراعت
ترمیمعمان شہر اور قریبی علاقہ جات زرعی علاقہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پانی کی بہتات کی وجہ سے اسے قدیم وقتوں میں اسے "پانی کا شہر" بھی کہا جاتا تھا۔ قدیم عرب جغرافیہ دانوں اور مؤرخوں نے بھی اس کا ذکر زرعی علاقہ کے طور پر کیا ہے۔ عمان بہت سے اناج خاص طور پر گندم کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سے گندم یروشلیم برآمد کی جاتی تھی۔
دیگر اجناس میں جو اور چنا شامل ہیں۔ سبزیوں میں کھیرا، ٹماٹر، بینگن، خربوزہ، کیلا اور ترنجی پھل شامل ہیں۔ فصلوں میں آلو، پیاز، شاخ گوبھی، لہسن، کرفس اور مصالحہ جات شامل ہیں۔ زیتون اور تمباکو اردن کی دو مشہور برامدات ہیں۔[94]
سیاحت
ترمیمعمان عرب شہروں میں سیاحوں کی آمد کے لحاظ سے چوتھا اور بین الاقوامی سیاحوں کا اخراجات کے لحاظ سے نواں شہر ہے۔ تقریباً 1.8 ملین سیاحوں نے 2011ء میں عمان کا دورہ کیا اور 1.3 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔[95] ملکہ علیا بین الاقوامی ہوائی اڈے کی توسیع شہر کے بنیادی ڈھانچے میں بلدیہ عمان کبری کی بھاری سرمایہ کاری کی ایک مثال ہے۔ عوامی نقل و حمل کے نئے نظام، قومی ریلوے کی حالیہ تعمیر، سڑکوں کی توسیع کا بنیادی مقصد شہر میں لاکھوں سالانہ زائرین کو ٹریفک میں سہلولت فراہم کرنا ہے۔[96]
موسم گرما میں عمان سیاحوں کی تعداد میں خاص طور پر عرب ممالک سے بڑی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو متعدد ثقافتی تہواروں اور مختلف فنکارانہ سرگرمیوں اور معتدل موسم کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شہر میں آنے والے سیاح تفریحی مقامات کے ساتھ ساتھ اہم تاریخی مقامات کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جن میں رومی تھیٹر، اوڈیون تھیٹر، قلعہ عمان، اموی محل، رجم الملفوف، نمفیم، معبد ہرقل، قصر العبد اور عین غزال شامل ہیں۔
عمان میں کئی خاص کھیلوں کے کلب جیسے گھڑ سواری، سوئمنگ پول اور ہیلتھ کلب موجود ہیں۔ موسم گرما کے دوران میں سمر کلب، ایڈونچر، ڈائیونگ، سوئمنگ اور کمپیوٹر کی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ اردن کے مقامی ریستورانوں کے علاوہ شہر میں بہت سے لبنانی، اطالوی، فرانسیسی، ترکی، چینی، عراقی، یمنی، خلیجی، بھارتی اور امریکی فاسٹ فوڈ ریستوران بھی موجود ہیں۔[97]
طبی سیاحت
ترمیماردن اور خاص کر عمان مشرق وسطی کے لیے طبی سیاحت کا مرکز ہے۔ اردن طبی سیاحوں کے لحاظ سے خطے میں اور جبکہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ عمان میں سالانہ 250،000 غیر ملکی مریضوں کی میزبانی کرتا ہے جس سے بلین امریکی ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔[98] عمان میں کئی سرکاری اور نجی ہسپتال موجود ہیں خلیجی ریاستوں، عراق، یمن اور مراکش سے مریض یہاں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں یورپ اور ریاستہائے متحدہ امریکا سے کم قیمت اعلیٰ معیار کے علاج میسر ہے۔ ۔[99] عمان طبی میدان میں خاص طور پر دل کے امراض اور جراہی، آنکھوں، گردوں اور پھیپھڑوں اور نازک جراہی میں خاص مہارت رکھتا ہے۔[100]
ہوٹل
ترمیمعمان میں چار اور پانچ اسٹار ہوٹلوں کی تعداد کم از کم 36 ہے جن میں سے اکثر مغربی عمان میں موجود ہیں۔[101] عمان میں موجود عالمی ہوٹل سلسلوں میں انٹرکانٹینینٹل اردن ہوٹل [102]، فور سیزنز [103]، مریڈین ہوٹل [104]، گرینڈ حیات [105]، رڈیسن ساس [106]، شیراٹن ہوٹل [107] اور لے رائل ہوٹل شامل ہیں۔
کاروبار
ترمیمحالیہ برسوں میں عمان نے اپنے آپ کو ایک کاروباری مرکز کے طور پر متعارف کرویا ہے۔ شہر کی فلک بوس عمارتوں میں نئے منصوبوں کے قیام کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2003ء کی عراق جنگ کے بعد عمان کے کاروبار میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اردن کا مرکزی ہوائی اڈا ملکہ علیا بین الاقوامی ہوائی اڈا عمان کے جنوب میں واقع ہے جو کہ ملک کی قومی ایئرلائن رائل جورڈینین کا مرکز ہے، جو کہ خطے کی اہم ایئرلائن ہے۔[108] ایئرلائن کا صدر دفتر ضلع زہران میں واقع ہے۔
روبیکون گروپ ہولڈنگ اور مکتوب دو اہم علاقائی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیاں ہیں جو کہ عمان میں قائم ہیں، اس کے علاوہ کئی بین الاقوامی کارپوریشنز مثلاً حکمہ دواساز کمپنی جس کا شمار مشرق وسطی کی سب سے بڑی دواساز کمپنیوں میں کیا جاتا ہے عمان میں قائم ہیں۔ مشرق وسطی کی سب سے بڑی لاجسٹکس اور نقل و حمل کمپنی ارامیکس بھی عمان موجود ہے۔[109][110]
دنیا فرنٹیئر کنسلٹنٹس کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمان دوحہ، قطر اور دبئی، متحدہ عرب امارات کے ساتھ مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے خطے میں کام کرنے والی کثیر الملکی کارپوریشنوں کے لئے بہترین مرکز ہیں۔[16] ایف ڈی آئی میگزین میں عمان کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے مشرق وسطی کے سب سے زیادہ ممکنہ رہنما شہر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔[109] اس کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کاری بینکوں کے دفاتر بھی عمان میں موجود ہیں جن میں سٹینڈرڈ چارٹرڈ، سوسیٹی جنیرل اور سٹی بینک ست فہرست ہیں۔[111]
صحت
ترمیمبیسویں صدی کے اوائل میں 1920ء کی دہائی میں امارت شرق اردن کا قیام عمل آیا، جس کے بعد کئی سرکاری ہسپتال بنائے گئے، جس میں سب سے پہلا سرکاری ہسپتال 1926ء میں بنایا گیا۔ اس کے بعد نجی ہسپتال بھی قائم ہوئے اور سب پہلا نجی ہسپتال "ملحس ہسپتال" تھا۔ خاص طور پر 1944ء میں عمان نے گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں تیزی ترقی کی، 1973ء میں تعمیر ہونے والا الحسین طبی شہر پہلا عرب طبی شہر ہے۔[112]
چند مشہور طبی مراکز مندرجہ ذیل ہے:
آبادیات
ترمیمعمان کی تاریخی آبادی | ||
---|---|---|
سال | تاریخی آبادی | ±% |
7250 ق م | 3,000 | — |
1879 | 500 | −83.3% |
1906 | 5,000 | +900.0% |
1930 | 10,000 | +100.0% |
1940 | 20,000 | +100.0% |
1952 | 108,000 | +440.0% |
1979 | 848,587 | +685.7% |
1999 | 1,864,500 | +119.7% |
2004 | 2,315,600 | +24.2% |
2010 | 2,842,629 | +22.8% |
2015 | 4,007,526 | +41.0% |
1947ء میں آزادی کے بعد اردن کے مختلف علاقوں سے لوگ نو قائم شدہ دار الحکومت میں آ کر آباد ہو گئے۔ ماخذ: [115][116][117] |
عرب غیر ملکی رہائشیوں کے بڑے گروہ[118] | |
قومیت | آبادی (2015) |
---|---|
سوریہ | 435,578 |
مصر | 390,631 |
فلسطین | 308,091 |
عراق | 121,893 |
یمن | 27,109 |
لیبیا | 21,649 |
دیگر | 147,742 |
2015ء میں شہر کی آبادی 4،007،526 تک پہنچ گئی، عمان اردن کی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد ہے۔[6] اس کا زمینی رقبہ 1،680 مربع کلومیٹر (648.7 مربع میٹر) اور اس کثافتِ آبادی 2،380 افراد فی مربع کلومیٹر (6،200 فی مربع میل) ہے۔[119] عمان کی آبادی میں بیسویں صدی کے دوران میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو تارکین وطن اور بناہ گزینوں کی مسلسل شہر میں آمد کی وجہ سے ہے۔ 1890ء میں تقریباً 1،000 کی آبادی سے بڑھ کر یہ 1990ء میں یہ تقریباً 1,000,000 نفوس تک پہنچ گئی جس کا بنیادی سبب دیگر علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی ہے، جبکہ ایک اور وجہ شہر کی اعلیٰ شرح پیدائش بھی ہے۔[120]
عمان کئی صدیوں تک ایک متروک شہر رہا یہاں تک کہ انیسویں صدی میں ادیگی قوم کے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے۔ آج تقریباً 40،000 ادیگی عمان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آباد ہیں۔[121] 1914ء میں حجاز ریلوے کی تعمیر کے بعد عمان کو ایک علاقائی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی بہت سارے مسلم اور مسیحی کاروباری خاندان سلط سے عمان مِں منتقل ہو گئے۔[122] عمان کے رہائشیوں کا ایک بڑا تناسب فلسطینی الاصل (شہری یا دیہی آبادی) ہے، اور آج شہر میں دو اہم آبادی کے گروہ فلسطینی یا اردنی عرب ہیں۔ دیگر نسلی گروہ آبادی کا تقریباً 2 فیصد ہیں۔ فلسطینی یا اردنی نسل کے لوگوں کے تناسب کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔[123]
ملک کے شمال کے اور جنوب سے نئے آنے والے اردنی اور فلسطین کے تارکین وطن نے 1930ء میں آبادی 30،000 سے بڑھا کر 1947ء میں 60,000 کر دی۔[124] تقریباً 10،000 فلسطینی جن میں سے اکثر کا تعلق صفد، حیفا اور عکہ سے تھا 1948ء کی جنگ سے قبل اقتصادی مواقع کے لئے شہر منتقل ہو گئے تھے۔[125] سلط سے عمان منتقل ہونے والے تارکین وطن میں سے اکثر کا تعلق دراصل نابلس سے تھا۔[126] 1948ء کی جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کے کے عمان آنے والے زیادہ تر مسلمان اور مسیحی پناہ گزینوں کا تعلق یافا، رملہ اور لد سے تھا، [125] جن کی آبادی 110،000 تک پہنچ گئی تھی۔[124] جنگ کے دوران مغربی کنارہ پر اردن کے قبضے کے بعد بہت سے فلسطینی 1950ء سے 1966ء کے دوران عمان منتقل ہو گئے۔ 1967ء میں 6 روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارہ سے فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک اور بڑی لہر شہر میں منتقل ہو گئی۔ 1970ء تک شہر کی آبادی تقریباً 550،000 تک پہنچ گئی تھی۔[124] 1991ء کی خلیج جنگ کے دوران کویت سے ان کے اخراج کے بعد مزید 200،000 فلسطینی شہر میں پہنچے۔ عمان کے مرکز کے گرد بہت سے فلسطینی پناہ گزین کیمپ موجود ہیں۔[127]
چونکہ عمان میں اصل مقامی باشندوں کی کمی ہے اس لیے شہر کا کوئی خاص عربی لہجہ نہیں ہے، تاہم حال میں اردنی اور فلسطینی لہجوں کے امتراج سے ایک نئے لہجے نے جنم لیا ہے۔[128] شہر میں تارکین وطن کے بچے اب خود کو "عمانی" کہتے ہیں جو کہ گزشتہ نسلوں سے مختلف ہے جو خود کو اپنے اصل مقامات کے ساتھ شناخت کرواتے تھے۔[129]
مذہب
ترمیمعمان کی زیادہ تر آبادی اہل سنت ہے اور شہر میں متعدد مساجد موجود ہیں۔[130] شہر کی اہم مساجد میں شاہ عبداللہ اول مسجد قابل ذکر ہے جس کی تعمیر 1982ء سے 1989ء کے درمیان ہوئی۔ یہ ایک پچی کاری سے آراستہ نیلے گنبد سے ڈھکی ہوئی ہے جس میں 3،000 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ ابو درویش مسجد اپنے سیاہ اور سفید پتھروں کے امتزاج سے بنی ہوئی جو اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے اردن میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔[131] یہ مسجد شہر کے بلند ترین نقطہ جبل اشرفیہ پر واقع ہے۔ یہ عمان کے ایک ادیگی شہری نے بنوائی تھی۔[132]
عمان کا پیغام مسلم دنیا میں رواداری، تسامح اور اتحاد کا ایک اعلان ہے جو 9 نومبر، 2004ء (27 رمضان المبارک 1425 ہجری) کو اردن کے شاہ عبد اللہ دوم بن حسین کی طرف سے شائع کیا گیا۔[133] بعد ازاں مسلمان کی تعریف، تکفیر اور فتویٰ کی اشاعت کے اصولوں کو مرکوز کرتے ہوئے 50 سے زائد مسلم ممالک کے 200 علما (دانشوران) کی جانب سے ایک تین نکاتی فیصلہ شائع کیا گیا۔[134] اسلام میں آٹھ قانونی مذاہب اور متغیر شاخیں تسلیم کی گئی ہیں جس کی تفصیل یہ ہے:[135]
عبد اللہ دوم نے اس پیغام کے اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہم نے محسوس کیا ہے کہ اسلام کے برداشت سے متعلق پیغام کو اسلام کی روح سے ناواقف مغربی دنیا کے کچھ لوگوں اور غیر ذمہ دارانہ اعمال کو چھپانے کے لیے اپنا تعلق اسلام سے ظاہر کرنے والے کچھ لوگوں کی طرف سے شدید اور غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔“[136]
برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنی تقریر میں علما کے اجتماع اور عمان کے پیغام کے خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا: “یہ بہت واضح پیغام تھا کہ اسلام یک سنگی نہیں بلکہ بہت سے متنوع انداز کا مذہب ہے، اگرچہ وہ سب ایک ہی چشمہ سے جاری ہیں۔“[134]
سہیل ناخدا نے عمان کے رسالہ اسلامیکا میں لکھتے ہوئے کہا کہ عمان کا پیغام حالیہ مسائل کو پراثر انداز میں مخاطب کرنے کی ایک مختصر کاوش ہے۔ “اگر پانی نہیں، تو رستہ بھی نہیں؛ معیشت تباہ حال ہے اور بہت سے نوجوان بے روزگار ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں اور تصورات غیر متغیر رہتے ہیں۔“ ناخدا نے ایک یہ اعتراض بھی اُٹھایا ہے کہ شاہ عبد اللہ کے پیغام میں اُنکے طرز زندگی کا اثر نظر آتا ہے، جو اپنی جگہ متنازع ہے۔[133]
اسوقت کے جامعہ الازہر کے بڑے شیخ، جناب شیخ محمد سعید طنطاوی نے اسے اُن لوگوں اور اُنکی روحانی اور مذہبی زندگیوں کے لیے ایک اچھا سرمایہ قرار دیا جو اپنے اعمال اور گفتار میں صراطَ مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔
عمان میں بھی ایک چھوٹی دروز برادری بھی ہے۔[137] اردن بھر میں مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، خاص طور پر سلط سے اکثر مسیحیوں نے عمان میں نقل مکانی کی ہے۔ قریبی شہر فحیص غالب طور پر ایک مسیحی شہر ہے جو کہ عمان کے شمال مغرب میں واقع ہے۔[138] شہر میں تقریباً 70 خاندانوں پر مشتمل ایک چھوٹی آرمینیائی کاتھولک برادری بھی موجود ہے۔[139] ذاتی حیثیت کے معاملات کے لیے شہر میں کلیسائی عدالتیں بھی موجود ہیں۔
الجیزہ ضلع کے ام الرصاص آثاریاتی مقام میں مجموعی طور پر 16 تاریخی گرجا گھر موجود ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مقام ابتدائی طور یہ رومی فوجی قلعہ بند چھاونی تھی جو آہستہ آہستہ پانچویں صدی کے ارد گرد ایک شہر بن گیا۔ اس کی ابھی مکمل طور پر کھدائی نہیں گئی۔ اس پر کئی تہذیبوں بشمول رومیوں، بازنطینیوں اور مسلمانوں کے اثرات موجود ہیں۔ اس مقام پر کچھ اچھی طرح سے محفوظ پچی کاری فرش بھی موجود ہیں خاص طور پر سینٹ اسٹیفن کے گرجا گھر میں۔[140]
شہر کا منظر
ترمیممرکز شہر عمان جسے عربی زبان میں البلد کہا جاتا ہے، [141] شہر کا قدیم مرکز ہے جدید وسیع و عریض شہری علاقوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ تبدیلیوں کے باوجود یہ اب بھی اپنے اصل سے بہت قریب ہے۔ جبل عمان قدیم عمان میں ایک معروف سیاحتی مقام ہے جہاں شہر کے قدیم روایتی بازار، عجائب گھر، قدیم تعمیرات، یادگاریں، اور ثقافتی مقامات پائے جاتے ہیں۔ جبل عمان پر مشہور شارع رینبو اور سوق جارا جو کہ ایک مقبول ثقافتی بازار ہے بھی واقع ہیں۔
فن تعمیر
ترمیمرہائشی عمارتیں سطح زمین سے چار منزل اوپر تک محدود ہیں اور اگر ممکن ہو چار منزلہ تہ خانہ بھی بنایا جا سکتا ہے تاہم اس کی یہ علاقہ اور بلدیہ عمان کبری کی اجازت سے مشروط ہے۔ عمارتیں موٹے سفید چونا پتھر یا ریتلے پتھر سے بنائی جاتی ہیں۔[142] عمارتوں میں عام طور پر ہر منزل پر بالکنیاں موجود ہوتی ہیں ماسوائے زمینی منزل کے جس میں سامنے اور پیچھے صحن موجود ہوتا ہے۔ کچھ عمارتوں کی چھتوں پر یا منسلک پیش دہلیز کی چھت پر منگلور ٹائلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہوٹل، ٹاورز اور تجارتی عمارتیں پتھر، پلاسٹک یا شیشے سے مزین ہوتی ہیں۔[143]
فلک بوس عمارات اور ٹاور
ترمیممغربی عمان کے ضلع زہران باب اردن ٹاورز کا مقام ہے شہر کی پہلی فلک بوس عمارات ہیں۔ یہ ایک اعلی درجہ کا تجارتی اور رہائشی منصوبہ ہے جو فی الحال چھٹے چوک کے قریب زیر تعمیر ہے۔ ٹاورز شہر کے سب سے مشہور فلک بوس عمارات میں سے ایک ہیں۔[144] جنوبی ٹاور ہلٹن ہوٹل کی میزبانی کرے گا جبکہ شمالی ٹاور میں دفاتر بنیں گے۔ ٹاورز ایک عمارت کی کرسی جدا ہیں جہاں ایک مال بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس میں بار، سوئمنگ پول اور کانفرنس ہال بھی موجود ہیں۔ یہ بحرین کے خلیج فنانس ہاؤس، کویت سرمایہ کاری اور فنانس کمپنی کا منصوبہ ہیں۔[144]
العبدلی ضلع میں عبدلی منصوبہ ایک اور بڑا منصوبہ ہے جس میں ایک مال، کئی ہوٹل، تجارتی اور رہائشی ٹاورز شامل ہیں۔ 5 بلین امریکی ڈالر سے زائد لاگت سے بننے والا عبدلی منصوبہ عمان کا ایک نیا نظارہ بنائے گا اور شہر کے ایک بڑے کاروباری ضلع کے طور پر کام کرے گا۔[145] دوسرے مرحلے میں 30،000 مربع میٹر رقبہ پر ایک مرکزی پارک اس مرحلے کی اہم خصوصیت ہے۔ رہائشی، دفاتر، ہوٹلوں اور خوردہ ترقی کے لئے 800،000 مربع میٹر سے زائد رقبہ مختص کیا گیا ہے٫ [146]
پہلے مرحلے کے ٹاورز میں عمان روتانا ہوٹل، ڈبلیو عمان ہوٹل، ہائٹس ٹاور، عبدلی میڈیکل سینٹر، عبدلی مال ٹاور، کیمبل گرے لیونگ ٹاور، کے ٹاور، ورٹکس ٹاور، کیپٹل ٹاور، سرایا ہیڈکوارٹر ٹاور اور حماد ٹاور شامل ہیں۔[147]
رغدان علم چوب
ترمیمرغدان علم چوب اردن کے دار الحکومت عمان میں 126.8 میٹر (416 فٹ) بلند ایک علم چوب ہے۔[148][149] اسے 10 جون 2003ء کو رغدان محل میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس وقت یہ دنیا کا طویل ترین علم چوب تھا تاہم 2014ء مین تعمیر ہونے والے جدہ علم چوب نے جس کی اونچائی 170 میٹر (560 فٹ) ہے اس سے یہ اعزاز چھین لیا۔
ثقافت
ترمیمعجائب گھر
ترمیماردن عجائب گھر اردن کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔ یہ دار الحکومت عمان میں واقع ہے۔ اس میں ملک کے قیمتی آثار قدیمہ نوادرات رکھے گئے ہیں، [150] جن میں بحر میت کے مخطوطات، نئے سنگی دور کے عین غزال سے ملنے والے مجسمے، اور میشا تختی بھی شامل ہیں۔
عمان کے دیگر عجائب گھروں میں اردن قومی فنون لطیفہ عجائب گھر دور حاضر کے فنون کا ایک عجائب گھر ہے۔ اردن آثاریاتی عجائب گھر قلعہ عمان میں واقع ایک عجائب گھر ہے۔ اس کا قیام 1951ء میں عمل میں آیا [151] اور اس میں اردن کے آثاریاتی مقامات سے ملنے والی اشیا رکھی گئی ہیں۔ اطفال اردن عجائب گھر بچوں کا ایک عجائب گھر ہے۔ یہ الحسین عوامی پارک میں واقع ہے۔
یادگار شہدا 1977ء میں شاہ حسین بن طلال کے ایما پر بنایا گیا۔ اس میں حسین ابن علی کی سربراہی میں ہونے والی عرب بغاوت سے متعلق اشیا رکھی گئی ہیں۔[152][153] شاہی گاڑیوں کا عجائب گھر گاڑیوں کا ایک عجائب گھر ہے۔
نبی محمد عجائب گھر محمد بن عبد اللہ سے متعلق ایک عجائب گھر ہے۔ یہ الحسین عوامی پارک میں واقع ہے اور اس کا افتتاح 15 مئی 2012ء کو عبد اللہ دوم نے کیا تھا۔[154]
اردن لوک ورثہ عجائب گھر رومی تھیٹر کے ساتھ ہی واقع ہے۔ اس کا قیام 1971ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس عجائب گھر میں اردنی اور فلسطینی لوک ورثہ کا ایک مجموعہ مثلاً ملبوسات، موسیقی کا سامان اور دستکاری رکھے گئے ہیں۔[155][156] پارلیمانی زندگی عجائب گھر اردن کے عجائب گھروں میں سے ایک ہے جو اردنی وزارت ثقافت کی ملکیت ہے۔ اس عجائب گھر میں اردن کے قیام سے متعلق گزشتہ دہائیوں کے دوران میں ہاشمی قیادت کی کوششوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اردن یونیورسٹی کا بھی اپنا ایک عجائب گھر ہے۔[157]
طرز زندگی
ترمیمعمان عرب دنیا کے سب سے زیادہ آزاد خیال اور مغربی شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[7][158] شہر مغربی تارکین وطن خاص طور پر مشرق وسطی یا عرب دنيا کے کالج کے طالب علموں کے رہنے، پڑھنے یا کام کرنے کے لیے مقبول مقام بن چکا ہے۔[159] شہر کا فن طباخی کا منظر شاورما کی دکانوں اور فلافل کے ڈھابوں سے بدل گیا ہے اب ان کی جگہ مقبول مغربی ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ ریستورانوں، ایشیائی فیوژن ریستوراں، فرانسیسی بسٹروس اور اطالوی ٹراٹوراس نے لے لی ہے۔ شہر مغربی تارکین وطن اور خلیج فارس سیاحوں کے لیے اعلیٰ درجے کے کھانوں کے لئے مشہور ہو گیا ہے۔[160]
2000ء کی دہائی کے دوران عمان میں کئی بڑے شاپنگ مال بنے جن میں مکہ مال، عبدون مال، سٹی مال، برکہ مال، تاج مال، زارا شاپنگ سینٹر، ایونیو مال اور عبدلی مال شامل ہیں۔ شارع وکالات عمان کی پہلی پیدل چلنے والوں کی سڑک ہے جہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پر بڑے برانڈ کے کپڑوں کے بہت سے اسٹور واقع ہیں۔ صویفیہ علاقے کو عمان کا مرکزی خریداری ضلع سمجھا جاتا ہے۔[161]
نائٹ کلب، موسیقی بار اور حقہ خانے عمان بھر میں موجود ہیں جو کہ قدامت پسند شہر کی تصویر کو دور جدید کے دارالحکومت میں بدل رہے ہیں۔ یہ جدید رات کی زندگی اردن کی نوجوان آبادی کی وجہ سے ہے۔[162] شہر کے متمول لوگوں کے پینے اور رقص مقامات کی وسیع رینج کے علاوہ عمان میں سالانہ موسم گرما میلوں سمیت ثقافتی تفریح کے دیگر مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ سوق جارا ایک اردنی سالانہ ہفتہ وار کباڑ بازار ہے جو موسم گرما بھر میں ہر جمعہ لگایا جاتا ہے۔[163] عبدون چوک شہر کی رات کی زندگی کا ایک بڑا مرکز ہے جہاں کلبوں میں "جوڑے فقط" کی پالیسی سختی سے لاگو ہے۔ صویفیہ کو عمان کا غیر رسمی قحبہ گری علاقہ تصور کیا جاتا ہے یہاں شہر کے کئی نائٹ کلب اور شراب خانے موجود ہیں۔[164] جبل عمان اور جبل الوہیدہ میں بہت سے شراب خانے اور بار موجود ہیں جو مے نوشوں کا پسندیدہ مقام ہیں۔[160]
الکحل ریستوران، بار، نائٹ کلبوں، اور سپر مارکیٹوں میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہے۔[165][166] شہر بھر میں خاص طور پر مغربی عمان میں متعدد نائٹ کلب اور بار موجود ہیں۔ 2011ء تک اردن میں 77 رجسٹرڈ نائٹ کلب تھے، جن میں سے زیادہ تر دار الحکومت میں واقع تھے۔[167] 2009ء میں عمان میں 222 رجسٹرڈ شراب اسٹورز موجود تھے۔[168]
پکوان
ترمیمنیو یارک ٹائمز کی ڈینیل پرگامینٹ نے لکھا ہے کہ اردنی پکوان خطے کے پکوانوں کا مجموعہ ہیں۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ "روشن سبزیاں لبنان سے، فلافل سوریہ سے، مصر سے رسیلے کباب، اور حال ہی میں پڑوسی عراق سے مصالے دار گوشت۔ اسے سر زمین شام جو کہ بحیرہ روم اور جزیرہ نما عرب کے علاقے کے لئے ایک قدیم لفظ، کے کھانوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کھانا صرف کیلوریز کا مجموعہ نہیں ہیں۔ یہاں دنیا کے سیاسی، مذہبی اور اخلاقی کونے بھی موجود ہیں جو یہاں کی اساس کی شناخت کی ایک علامت ہیں۔" [169] تاہم عمان میں سڑک کنارے ٹھیلوں پر کھانے اس کا ایک مخصوص انداز ہیں۔[4][170]
کھیل
ترمیمعمان میں ایسوسی ایشن فٹ بال کے کلب الوحدات اسپورٹس کلب اور الفیصلی اسپورٹس کلب موجود ہیں جو دونوں سابقہ لیگ چیمپئن ہیں۔ مقامی فٹ بال پس منظر میں یہ دونوں آپس میں سخت حریف ہیں۔[171] عمان نے اربد اور زرقاء کے ہمراہ 2016ء فیفا انڈر 17 ویمنز ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کی تھی۔[172][173]
2007ء ایشیائی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ اور ایتھلیٹکس فیڈریشنز آف انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کے کئی مقابلے شہر میں منعقد ہو چکے ہیں۔[174] عمان اردن ریلی کی میزبانی بھی کرتا ہے جو کہ ایف آئی اے عالمی ریلی چیمپئن شپ کا حصہ ہے اور اردن کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلوں میں سے ایک بن رہا ہے۔[175]
عمان میں غیر ملکی کھیلوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جیسے اسکیٹ بورڈنگ اور رگبی وغیرہ، آخر الذکر کی ٹیمیں بھی شہر میں موجود ہیں، جو کہ "قلعہ عمان رگبی کلب" اور "نومیڈز رگبی کلب" ہیں۔ .[176] 2014ء میں جرمنی کی ایک غیر منافع بخش تنظیم "میک لائف اسکیٹ لائف" نے "7 ہلز اسکیٹ پارک" کی تعمیر مکمل کی۔ یہ مرکز شہر عمان میں سمیر رفاعی پارک میں 650 مربع میٹر کنکریٹ رقبے پر بنا اسکیٹ پارک ہے۔[177]
میڈیا اور موسیقی
ترمیماردن کے زیادہ تر ریڈیو اسٹیشن عمان میں واقع ہے۔ شہر کا پہلا ریڈیو اسٹیشن "ھنا عمان" 1959ء میں بنا تھا، یہ بنیادی طور پر روایتی بدو موسیقی نشر کرتا ہے۔[178] 2000ء میں "عمان نیٹ" ملک میں قائم ہونے والا پہلا درحقیقت نجی ریڈیو اسٹیشن ہے، ذاتی ملکیت ہونے کے باوجود اس وقت ریڈیو اسٹیشن غیر قانونی تھے۔[179] 2002ء میں نجی ملکیت کو قانونی بنا دیا گیا جس کے بعد مزید کئی ریڈیو اسٹیشنوں قائم ہوئے۔ 2007ء میں عمان آٹھ رجسٹرڈ ریڈیو اسٹیشن موجود تھے۔[180] انگریزی زبان کے ریڈیو اسٹیشن نوجوان سامعین کے لیے پاپ موسیقی نشر کرتے ہیں۔[181]
اردن کے زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی نیوز اسٹیشن عمان میں واقع ہیں۔ عمان سے شائع ہونے والے روزناموں میں الغد [182]، الدستور [183]، جارڈن ٹائمز، [182] اور الرای جو کہ ملک کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے، [184] شامل ہیں۔ 2011ء میں فوربس مشرق وسطی کی رپورٹ کے مطابق الرای عرب دنیا کا پانچواں سب سے مقبول تھا۔[185] اردن کا صرف ایک روزنامہ کل-عرب اخبار العرب الیوم ہے۔ دو سب سے مقبول اردنی ٹی وی چینل رؤیا اور اردن ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن ہیں جو کہ عمان ہی میں واقع ہیں۔
مرکزی دھارے کی عربی پاپ موسیقی کے علاوہ، شہر میں ایک بڑھتی ہوئی آزاد موسیقی بھی موجود ہے جس میں بہت سے بینڈ شامل ہیں جو عرب دنیا بھر میں خاصے صامعین رکھتے ہیں۔ اگست میں رومی تھیٹر میں سالانہ منقد کیے جانے والے البلد موسیقی تہوار میں مقامی عمانی بینڈوں کے علاوہ مشرقی وسطی کے دوسرے بینڈ بھی حصہ لیتے ہیں۔ مقامی بینڈوں کی موسیقی اقسام مختلف ہیں جن میں ہیوی میٹل، عربی راک، جاز اور ریپ شامل ہیں۔ عمان کے مشہور بینڈ جدل، ترابیہ، بیلوکیٹ، آخر زفیر، آٹوسٹریڈ اور المربع ہیں۔[186]
ٹیلی مواصلات
ترمیم1980ء کی دہائی تک ٹیلی مواصلات میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی تھی اور پرانا نظام ہی استعمال ہوتا تھا جو کہ بہت محدود تھا۔ تاہم اس کے بعد ٹیلی مواصلات کے شعبے میں بہت ترقی دیکھنے کو آئی۔ آج کئی نجی کمپنیاں انٹرنیٹ سروس پیش کر رہی ہیں اور تین کمپنیاں موبائل فون سروس فراہم کر رہی ہیں۔ لینڈ لائن نیٹ ورک کے ٹیلی فون نمبر موبائل فون نمبروں سے الگ ہیں۔[187]
تقریبات
ترمیمعمان میں کئی تہوار اور میلے منعقد ہوتے ہیں، جس میں ریڈبل کی سرپرستی میں ہونے والے تہوار، ساونڈ کلیش اور سوپ باکس دوڑ، جرش تہوار کا دوسرا حصہ، البلد موسیقی میلہ، عمان میراتھن، میڈ ان جارڈن تہوار، عمان کتاب میلہ اور نئا سوچو میلہ شامل ہیں۔[188] نیا سوچو میلہ ایک سالانہ اختتام ہفتہ میلہ ہے جس میں نوجوانوں نئی سوچ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ یہ تہوار کئی تہواروں میں سے ایک ہے جو طور پر نوجوانوں کی شراکت لے لیے بنایا گیا ہے۔ 2015ء میں یہ تہوار عمان میں شاہ حسین بزنس پارک میں منعقد کیا گیا جس میں میزبانی 40 مختلف تنظیموں نے کی، جس میں حاضرین کو مختلف پیشکشوں اور ورکشاپوں سے نیا سوچنے کے بارے میں حوصلہ افزائی کی گئی۔ مختلف تنظیموں میں کاروبار، ماحولیاتی، طبی اور تعلیمی گروپ شامل تھے۔[189]
نقل و حمل
ترمیمفضائی
ترمیمملکہ علیا بین الاقوامی ہوائی اڈا اردن کا سب سے بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے جو دار الحکومت عمان سے 30 کلو میٹر (20 میل) جنوب میں واقع ہے۔ یہ عمان کا مرکزی ہوائی اڈا ہے۔ یہ اردن کی قومی ایئرلائن رائل جورڈینین کا مرکز بھی ہے۔ حال ہی میں اس کی توسیع بھی کی گئی ہے۔ 700 ملین امریکی ڈالر کی لاگت کے اس منصوبے میں پرانے ٹرمینلوں کو ختم کرنا اور نئے ٹرمینلز کا استعامل اس کا حصہ ہیں، تا کہ 16 ملین مسافروں کو خدمات فراہم کی جا سکیں۔[190] اب اسے ایک جدید ترین ہوائی اڈے سمجھا جاتا ہے، 2014ء اور 2015ء میں یہ اسے مشرق وسطی کا بہترین ہوائی اڈا قرار دیا گیا، اور 2014ء میں ایئر پورٹ سروس کوالٹی کے لحاظ سے مشرق وسطی کے بہترین ہوائی اڈے کا اعزار بھی اسے حاصل ہوا۔[191]
اس کے علاوہ عمان میں ایک نسبتاً چھوٹا ہوائی اڈا بھی موجود ہے جو کہ بلدیہ عمان کبری میں عمان شہر سے 5 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ عام طور پر اندرون ملک پروازوں، قریبی بین الاقوامی پروازوں اور فوج کے استعمال میں ہے۔ عمان شہری ہوائی اڈا بلدیہ عمان کبری، اردن میں عمان شہر سے 5 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ ایک ثانوی حیثیت کا ہوائی اڈا ہے جو بنیادی طور پر مقامی پروازوں، قریبی بین الاقوامی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
رائل جورڈینین
ترمیماردن کی سرکاری ہوائی کمپنی ہے ۔[192] رائل جورڈینین کا مرکزی دفتر اردن ملکہ علیا بین الاقوامی ہوائی اڈا پر واقع ہے۔[193] ایئرلائن دسمبر 1963ء شاہ حسین بن طلال کے شاہی فرمان سے قائم ہوئی۔ اس وقت اس کا نام عالیہ تھا جو کہ اردن کے شاہ حسین بن طلال کے بچوں میں سب سے بڑی شہزادی عالیہ بنت حسین کے نام پر تھا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ ایئر لائن کا نام شاہ حسین بن طلال کی تیسری بیوی کے نام علیا الحسین کے نام پر تھا تاہم یہ تاثر درست نہیں کیونکہ ان کی شادی 1972ء میں ہوئی تھی۔ 1986ء میں ایئرلائن کا نام تبدیل کر کے رائل جورڈینین (عربی: الملكية الأردنية) رکھ دیا گیا۔
سڑکیں
ترمیمعمان میں ایک وسیع سڑک کے نیٹ ورک موجود ہے تاہم علاقے کے کئی پہاڑی علاقوں میں سڑکوں کو آپب ربط کرنا ممکن نہیں اس لیے انہیں پلوں اور سرنگوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ عبدون پل جو کہ وادی عبدون میں موجود ہے چوتھے چوک کو عبدون چوک سے ملاتا ہے۔ یہ عمان کی کئی نشانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ ملک میں تعمیر کیا جانے والا پہلا منحنی معطل پل ہے۔[194]
شہر میں آٹھ بڑے چوک یا دائرے ہیں جو کہ مغربی عمان کو آپس میں مربوط کرتے ہیں۔ شہر میں تارکین وطن کی کئی لہروں اور نئے رہائشی منصوبوں کی تیز رفتار تعمیر نے نئی یا سڑکوں کی توسیع بھی ٹریفک کے لیے نا کافی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹریفک جام میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر موسم گرما کے دوران جب سیاحوں کی بڑی تعداد اور بیرون ملک مقیم اردنی بھی چھٹیوں گزارنے ملک میں موجود ہوتے ہیں۔[195] بلدیہ نے 2015ء میں حل کے طور پر بس ریپڈ ٹرانزٹ نظام کی تعمیر شروع کر دی ہے۔[196] 2015ء میں شہر کے گرد ایک حلقہ سڑک تعمیر کی گئی تھی جس کا مقصد شہر کے شمالی اور جنوبی حصوں سے منسلک ہے تھا تا کہ ٹریفک کو عمان سے باہر منتقل کیا جائے اور شہر کا ماحول بہتر کرنے میں بھی مدد گار ہو۔[197]
بس اور ٹیکسی
ترمیمشہر اردن کے دیگر شہروں سے بس روابط سے منسلک ہے، اس کے علاوہ ہمسایہ ممالک کے بڑے شہر بھی بس سے منسلک ہیں۔ اس کے سروس ٹیکسی کی سہولت بھی موجود ہے۔ اندرونی نقل و حمل کے لیے بسوں اور ٹیکسیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ سروس ٹیکسی جو اکثر مخصوص راستے پر خدمات فراہم کرتی ہیں جو آسانی سے دستیاب اور نسبتاً سستی ہے۔
دو مرکزی ٹیکسی اور بس اڈے عبدلی (شاہ عبداللہ اول مسجد، پارلیمان اور عدلیہ کے قریب) رغدان مرکزی بس اسٹیشن (مرکز شہر عمان میں رومی تھیٹر کے نزدیک) ہیں۔ مقبول اردنی بس کمپنیوں جیٹ اور المحطہ شامل ہیں۔ ٹیکسیاں عام دستیابی اور کم کیمت ہونے کی وجہ عمان میں سفر کرنے کے لئے سب سے مقبول طریقہ ہیں۔[198]
بس ریپڈ ٹرانزٹ
ترمیمبلدیہ عمان کبری نے 2010ء میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ پر کام شروع کیا۔ یہ عمان میں تیز رفتار اہم نقل و حمل منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2012ء میں مکمل ہوا تاہم وزیر اعظم معروف البخیت نے بدعنوانی کے شبہ میں دوسرے مرحلے پر کام کو روک دیا۔ اس نظام میں اعلی معیار کے اسٹیشن شامل اور اسٹاپ شامل ہیں۔ ایکسپریس بسیں جو 120 سے زائد مسافروں کو لے جا سکتی ہیں اور عمان کی مصروف سڑکوں کی راہدوریوںں تین منٹ کے وقفے سے چلیں گیں۔ بس پر سوار سے پہلے اسٹیشنوں پر مسافروں کو کرایہ ادا کرنے کے لیے ایک مربوط نطام تشکیل دیا گیا ہے۔[199]
بی آر ٹی کو تین بڑی راہداریوں میں چلانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پہلی راہداری صویلح کو محطہ سے براستہ اسپورٹس سٹی، جس پر ایک ایک اہم زیر زمین اسٹیشن جامعہ اردن بھی موجود ہے۔ دوسری راہداری اسپورٹس سٹی کو مرکز شہر عمان بمقام راس العین ملاتی ہے۔ تیسری راہداری محطہ کو کسٹمز اسکوائر سے جوڑتی ہے۔[200]
ریل
ترمیمعمان حجاز ریلوے پر ایک اہم اسٹیشن تھا جس کہ بلاد الشام میں دمشق اور حجاز میں مدینہ منورہ تک جاتی تھی، تاہم یہ بیسویں صدی کے اوائل میں معطل ہو چکی ہے۔ اسٹیشن کی تاریخی عمارت عمان کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسٹیشن مارکا کے مغرب میں مشرقی عمان میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب رومی تھیٹر کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ لائن اب عمان اور دمشق کے درمیان مسافروں اور سامان کو منتقل کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔[201] اردن اس حجازی لائن کو کسی دوسرے منصوبے میں استعمال کرنے پر کام کررہا ہے۔ جہاں ہلکی ریل لائن منصوبے میں مشرقی عمان اور زرقاء کے جنوبی علاقوں کے درمیان چلائی جائے گی، جو 26 کلو میٹر کی رفتار تک پہنچ جائے گی۔[202]
تعلیم
ترمیمعمان شہر میں تعلیم ابتدا پہلی عالمی جنگ کے دوران میں خاص طور پر 1916 میں ہوئی جب مدرسہ دار النجاح اسکول ڈار کا افتتاح ہوا جو حسینی جامع مسجد کے پیچھے واقع تھا۔ اسکول کی تعلیم زبان ترکی تھی، جبکہ دینی تعلیم عربی زبان میں ہوتی تھی۔ اسکول کو "جنگی آفس" بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اس کے فارغ التحصیل استنبول کے فوجی کالج میں داخلہ لینے کے اہل ہوتے تھے۔[203]
1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے دوران جامعہ اردن کے قیام کے بعد شہر نے اعلی تعلیم کے میدان میں ایک اونچی چھلانگ لگائی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں یہ شہر تعلیم کی منازل سے تیزی کرتا رہا، اور نجی تعلیم کے میدان میں خاص طور پر ترقی دیکھی گئی، اور عمان کا شمار مشرق وسطی کے بہترین تعلیمی مراکز میں ہونے لگا۔[204] موجودہ دور میں عمان ایک اہم علاقائی مرکز تعلیم ہے۔ عمان خطے میں اردن کی اعلیٰ تعلیم کے مراکز کے لحاظ سے اعلیٰ ارتکاز رکھتا ہے۔
اسکول اور کالج
ترمیمجولائی 2003ء میں اردنی حکومت نے مشرق وسطی اور شمالی افریقا میں ایک جرات مندانہ پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ دس سالہ تعلیمی اصلاحاتی پروگرام ہے عالمی بینک نے اس پروگرام کے لیے 120 ملین امریکی ڈالر فراہم کیے ہیں۔ پروگرام علمی بنیاد پر تعلیمی پالیسیوں اور پروگراموں کو بہتر بنانے کی کوشش ہے، اس میں اسکولوں میں جسمانی تعلیم کو بہتر بنانے اور ابتدائی بچپن کے سالوں میں تعلیم کو فروغ دینا بھی شامل ہیں۔
عمان میں عوامی اور نجی اسکول موجود ہیں۔ عمان میں نجی اسکوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا 31.14 فیصد سے زیادہ ہیں۔ یہ شعبہ 25 فیصد تک بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ ان کی فیس 1،000 سے 7،000 امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔ اوسط گھریلو آمدنی کے مقابلے میں جب نجی اسکولوں کی فیس بہت زیادہ ہے۔ عمان میں 448 نجی اسکول موجود ہیں جن میں 90،000 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔[205] عمان کے چند مشہور اسکولوں میں عمان اکیڈمی، عمان قومی اسکول، ماڈرن امریکی اسکول، شویفات بین الاقوامی اسکول، امریکی کمیونٹی اسکول عمان، قومی آرتھوڈوکس اسکول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عمان میں بہت سارے نجی کالج اور تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جو کسی خاص میدان ڈپلوما کرواتے ہیں۔
جامعات
ترمیماعلی یا جامعی تعلیم کے لئے عمان شہر میں بڑی تعداد میں جامعات میں موجود ہیں جن میں نجی اور سرکاری دونوں شامل ہیں۔ عمان کو مشرق وسطی میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ممتار مرکز شمار کیا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے بالخصوص عرب دنيا سے طلبا تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ جامعہ اردن اردان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ عماں میں موجود قابل ذکر جامعات مندرجہ ذیل ہیں۔
جامعہ اردن جسے مختصراً یو جے کہا جاتا ہے، ریاستی سرپرستی میں مصروف عمل ایک یونیورسٹی ہے جو اردن کے دار الحکومت عمان میں واقع ہے۔ یونیورسٹی کی سنگ بنیاد سنہ 1962ء میں رکھی گئی۔ اِس وقت اردن میں اعلی تعلیم کے لیے اردن یونیورسٹی قدیم ترین اور عظیم ترین تعلیمی ادارہ ہے۔
جامعہ عمان الاہلیہ عمان، اردن میں ایک نجی جامعہ ہے۔ یہ 1990ء میں قائم ہوئی اور یہ اردن کی پہلی نجی جامعہ ہے۔[206][207]
عرب اوپن یونیورسٹی طلال بن عبدالعزیز آل سعود ذاتی کاوش سے بننے والی ایک غیر منافع بخش جامعہ ہے۔
دیگر اہم جامعات:
- جامعہ الاسرا
- اردنی جامعہ زیتونہ
- عمان عرب یونیورسٹی
- جامعہ بترا
- فلاڈیلفیا یونیورسٹی
- عرب اکیڈمی برائے مینجمنٹ، بینکنگ اور فنانشل سائنسز
- جرمن اردنی یونیورسٹی
- جامعہ شرق الاوسط
- اردن میڈیا انسٹی ٹیوٹ
- اردن موسیقی اکیڈمی
- اردن اکادمی برائے بحری علوم
- عالمی جامعہ علوم اسلامیہ
- ملکہ نور شہری ہوا بازی ٹیکنیکل کالج
- شہزادی سمیہ ٹیکنالوجی یونیورسٹی
علمی تحقیق
ترمیمعمان میں مختلف علمی موضوعات کے سائنسی تحقیقی مراکز موجود ہیں۔[208] اردن میں ترقیاتی محققین کے تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اردن میں 8060 محققین فی ملین افراد ہیں، جبکہ عالمی اوسط 2532 فی ملین فرد ہے۔ یورپی یونین میں یہ اوسط 6494 فی ملین فرد جبکہ تنظیم تعاون اسلامی کے ممالک میں یہ تعداد 649 فی ملین فرد ہے۔[209]
مسائل
ترمیممہنگائی
ترمیمعمان شہر میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2007ء اور 2015ء کے درمیان ایک برطانوی معیشت میگزین کے مطابق عمان مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے سب سے زیادہ مہنگے شہروں میں سے ایک ہے۔ عمان دنیا کے 50 مہنگے ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہے جبکہ اس رپورٹ میں 133 شہروں کا تقابلہ کیا گیا تھا۔[210]
کچی آبادیاں
ترمیمخطے میں مسلسل جنگوں کے نتیجے میں شہر کی آبادی میں غیر متوقع اضافہ دیکھنے میں آیا جس کا آغاز 1956ء سے ہوا۔ شہر میں کئی مرتبہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کی لہریں آئیں، جن کی وجہ سے شہر میں کئی غیر منصوبہ بند اور کچی آبادیاں وجود میں آئیں۔ ان غیر منصوبہ بند آبادیوں کی وجہ سے شہر میں مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ٹرانسپورٹ، پانی، نکاسی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے حوالے سے ہیں۔ بلدیہ عمان کبری میں قوانین لوگو ہیں، تاہم کچھ کچی آبادیاں، غیر منصوبہ بند رہائشی منصوبے بھی یہاں موجود ہیں۔[211] رہائشی عمارتوں کے مقابلے میں کم سبز علاقوں کا تناسب اور باقی ماندہ زمینوں کو تیزی سے رہائشی منصوبوں میں تبدیلی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عمومی پارک بھی بہت محدود تعداد میں ہیں۔[212]
تاہم عمان نے 2007ء میں ایشیا کے شہری منصوبہ بندی کا بین الاقوامی ایوارڈ، بشمول سٹی پلاننگ گلوبل لیڈر شپ ایوارڈ اور ایشیا کا سٹی ایوارڈ بھی شامل ہیں۔[213][214]
ٹریفک کا بحران
ترمیمگزشتہ جند دہائیوں سے خطے میں مسلسل نا مناسب سیاسی حالات اور پناہ کی لہروں کے نتیجے میں شہر کی آبادی میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بیرون ملک سے ہزاروں تارکین وطن کی واپسی اس کے علاوہ ہے۔ شہر کی آبادی ڈرامائی طور پر بڑھ گئی ہے اور اس کا تجزیہ اور مناسب بندوبست نہیں کیا گیا ہے جو کہ پہلے سے موجود معمولی روڈ نیٹ ورک پر غیر معمولی اثر انداز ہوا ہے۔ شہر میں ٹریفک کے بے پناہ اضافے کے موابلے میں شہر کی سڑکوں کی مستقبل کی غیر منصوبہ بندی اور کمی شدید ٹریفک کا بحران پیدا کرتی ہے۔[212]
دوسری طرف عمان عوامی نقل و حمل کا استعمال کرنے میں دنیا کے کم تریں شہروں میں سے ایک ہے، جہاں شہر میں مجموعی آبادی کا صرف 14٪ (2010ء) عوامی نقل و حمل کا استعمال کرتا ہے۔[215] تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عمان میں ایک ملین سے زائد کاریں موجود ہیں، ان میں سے اکثر صرف ایک شخص کو منتقل کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔[212] ان مسائل کے نتیجے میں حکومت گاڑیوں کے استعمال کے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ان اعلان کردہ منصوبوں میں ایکسپریس بس، ٹرام یا میٹرو لائنوں کا قیام ہے۔ جو شہر کی ٹریفک خاص طور پر موسم گرما ٹریفک کی کمی کا بروقت حل ہے۔[211]
رسمی تعطیلات
ترمیمشمار | مناسبت | تاریخ | ایام تعطیل |
---|---|---|---|
1 | آغاز گریگوری تقویم | 1 جنوری | ایک دن (1) |
2 | آغاز ہجری تقویم | 1 محرم | ایک دن (1) |
3 | عید میلاد النبی | 12 ربیع الاول | ایک دن (1) |
4 | عید الفطر | 1 شوال | تین دن (3) |
5 | عید الاضحی | 9 ذوالحجہ | چار دن (4) |
6 | کرسمس | 25 دسمبر | ایک دن (1) مسلمانوں کے لیے دو دن مسیحیوں کے لیے (2) |
7 | ایسٹر | بمطابق تقویم | دو دن (2) صرف مسیحیوں کے لیے |
8 | کھجور کا اتوار | بمطابق تقویم | ایک دن (1) صرف مسیحیوں کے لیے |
9 | عالمی یوم مزدور | 1 مئی | ایک دن (1) |
10 | یوم آزادی | 25 مئی | ایک دن (1) |
جڑواں شہر
ترمیمعمان کے جڑواں شہر مندرجہ ذیل ہیں:[216][217]
|
|
|
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "New Amman mayor pledges 'fair and responsible' governance"۔ jodantimes.com۔ 2017-08-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2018
- ↑ "New Member: Yousef Al-Shawarbeh – Amman, Jordan"۔ globalparliamentofmayors.org۔ جون 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018
- ↑ Trent Holden, Anna Metcalfe (2009)۔ The Cities Book: A Journey Through the Best Cities in the World۔ Lonely Planet Publications۔ صفحہ: 36۔ ISBN 978-1-74179-887-6
- ^ ا ب "Amman's Street Food"۔ BeAmman.com۔ BeAmman.com۔ 26 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2015
- ↑ "Revealed: the 20 cities UAE residents visit most"۔ Arabian Business Publishing Ltd۔ 2015-05-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ^ ا ب "Population stands at around 9.5 million, including 2.9 million guests"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2016-01-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2016
- ^ ا ب پ "Westernized media in Jordan breaking old taboos — RT"۔ Rt.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "Number of tourists dropped by 14% in 2013 — official report"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2014-02-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ^ ا ب پ Michael Dumper، Bruce E. Stanley (2007)۔ Cities of the Middle East and North Africa: A Historical Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 35۔ ISBN 978-1-57607-919-5
- ↑ "Aqel Biltaji appointed as Amman mayor"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2013-09-08۔ 30 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ↑ "West Amman furnished apartments cashing in on tour"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2014-08-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ↑ "Top 100 International Tourist Destination Cities by Country" (PDF)۔ Euromonitor۔ Euromonitor/۔ 2015-01-24۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2015
- ↑ "How a Startup from the Arab World Grabs 1B Views on YouTube"۔ Forbes۔ Forbes۔ 2014-12-31۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 ستمبر 2015
- ↑ "The World According to GaWC 2012"۔ GaWC۔ 2014-01-13۔ 20 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ↑ IANS/WAM (2010-11-26)۔ "Abu Dhab duke City' in MENA region"۔ sify news۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ^ ا ب "Dunia Frontier Consultants » Doha, Amman Favored by MNCs as New Regional Hubs"۔ Duniafrontier.com۔ 2012-01-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "About GAM => History"۔ Greater Amman Municipality۔ 02 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "MISDAR"۔ mansaf.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "Lime Plaster statues"۔ British Museum۔ Trustees of the British Museum۔ 12 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2016
- ↑ "Prehistoric Settlements of the Middle East"۔ bhavika1990۔ 2014-11-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ^ ا ب Fred S. Kleiner، Christin J. Mamiya (2006)۔ Gardner's Art Through the Ages: The Western Perspective: Volume 1 (Twelfth ایڈیشن)۔ Belmont, California: Wadsworth Publishing۔ صفحہ: 11–2۔ ISBN 0-495-00479-0
- ↑ Chris Scarre، مدیر (2005)۔ The Human Past۔ Thames & Hudson۔ صفحہ: 222
- ↑ "The Old Testament Kingdoms of Jordan"۔ kinghussein.gov.jo۔ kinghussein.gov.jo۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2015
- ↑ "Temple of Human Sacrifice: Amman Jordan"۔ Randy McCracken۔ 2014-08-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "Rujm al-Malfouf"۔ Livius.org۔ 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "Rujom Al Malfouf (Al Malfouf heap of stones / Tower)"۔ Greater Amman Municipality۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "The Hellenistic Period"۔ kinghussein.gov.jo۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "MISDAR"۔ mansaf.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ Andreas J. M. Kropp (2013-06-27)۔ Images and Monuments of Near Eastern Dynasts, 100 BC – AD 100۔ OUP Oxford۔ صفحہ: 98۔ ISBN 978-0-19-967072-7
- ↑ de l’Institut français du Proche-Orient۔ The Hellenistic Age – (323 – 30 BC)۔ Presses de l’Ifpo۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ "The History of a Land"۔ Ministry of Tourism and Antiques۔ Department of Antiquities۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ^ ا ب "The History of a Land"۔ Ministry of Tourism and Antiquities۔ Department of Antiquities۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "Tourism"۔ kinghussein.gov.jo۔ kinghussein.gov.jo۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2015
- ↑ "Amman"۔ kinghussein.gov.jo۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ Ali Kassay (2011)۔ مدیران: Myriam Ababsa and Rami Farouk Daher۔ The Exclusion of Amman from Jordanian National Identity۔ Cities, Urban Practices and Nation Building in Jordan۔ Cahiers de l'Ifpo Nr. 6۔ Beirut: Presses de l'Ifpo۔ صفحہ: 256–271۔ ISBN 9782351591826۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2015
- ↑ Ignacio Arce (2003)۔ "Early Islamic lime kilns from the Near East. The cases from Amman Citadel" (PDF)۔ Proceedings of the First International Congress on Construction History, Madrid, 20th–24th January 2003۔ Madrid: S. Huerta: 213–224۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2015
- ^ ا ب Le Strange 1896, p. 391.
- ↑ Le Strange 1896, p. 15 and p. 18.
- ^ ا ب Le Strange 1896, p. 392.
- ↑ Barber, Malcolm (2003) "The career of Philip of Nablus in the kingdom of Jerusalem," in The Experience of Crusading, vol. 2: Defining the Crusader Kingdom, eds. Peter Edbury and Jonathan Phillips, Cambridge University Press
- ^ ا ب Denys Pringle (2009)۔ 'Amman (P4)۔ Secular Buildings in the Crusader Kingdom of Jerusalem: An Archaeological Gazetteer۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 112–113۔ ISBN 9780521102636
- ↑ Malcolm Barber (2012)۔ The New Knighthood: A History of the Order of the Temple۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 86۔ ISBN 978-1-107-60473-5
- ↑ Jeremy Johns (1994)۔ "The Long Durée: State and Settlement Strategies in Southern Transjordan across the Islamic Centuries"۔ $1 میں Eugene L. Rogan، Tariq Tell۔ Village, Steppe and State: The Social Origins of Modern Jordan۔ London: British Academic Press۔ صفحہ: 12۔ ISBN 9781850438298
- ↑ Le Strange 1896, p. 41.
- ↑ Walker 2015, p. 119.
- ↑ Walker 2015, pp. 119–120.
- ^ ا ب پ ت ٹ Walker 2015, p. 120.
- ↑ Walker 2015, pp. 120–121.
- ↑ Walker 2015, p. 121.
- ↑ Dawn Chatty (2010)۔ Displacement and Dispossession in the Modern Middle East۔ The Contemporary Middle East (Book 5)۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 116–117۔ ISBN 9780521817929
- ↑ Colin McEvedy (2011)۔ Cities of the Classical World: An Atlas and Gazetteer of 120 Centres of Ancient Civilization۔ London: Allen Lane/Penguin Books۔ صفحہ: 37۔ ISBN 9780141967639
- ↑ "Amman Centennial | From the end of the Umayyad era till 1878"۔ Web.archive.org۔ 2010-02-12۔ 12 فروری 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2013
- ↑ Eugene L. Rogan (11 April 2002)۔ Frontiers of the State in the Late Ottoman Empire: Transjordan, 1850–1921۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 73۔ ISBN 978-0-521-89223-0
- ↑ Laurence Oliphant (19 July 1880)۔ "The land of Gilead, with excursions in the Lebanon;"۔ Edinburgh London, W. Blackwood and sons – Internet Archive سے
- ↑ "The Circassians in Jordan"۔ 2004-08-20۔ مؤرشف من الأصل في 20 اگست 2004
- ^ ا ب پ Vladimir Hamed-Troyansky (اکتوبر 2017)۔ "Circassian Refugees and the Making of Amman, 1878–1914"۔ International Journal of Middle East Studies۔ 49: 605–623
- ↑ Report by His Britanic Majesty's Government in the United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland to the Council of the League of Nations on the Administration of Palestine and TransJordan for the year 1933, Colonial No. 94, His Majesty's Stationery Office, 1934, p. 305.
- ↑ "Deputy Mayor of Amman Inaugurates "Documenting Amman" Conference"۔ Bawaba۔ 30 July 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2019
- ↑ "Amman Governorate"۔ Ministry of Tourism and Antiquities۔ Department of Antiquities۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ Spencer C. Tucker، Priscilla Mary Roberts (2005)۔ Encyclopedia of World War I: A Political, Social, and Military History۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 98۔ ISBN 978-1-85109-420-2
- ↑ Reem Khamis-Dakwar، Karen Froud (2014)۔ Perspectives on Arabic Linguistics XXVI: Papers from the annual symposium on Arabic Linguistics. New York, 2012۔ John Benjamins Publishing Company۔ صفحہ: 31۔ ISBN 9027269688
- ↑ "Amman"۔ Jordan Wild Tours۔ 26 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ Alexandra Francis (2015-09-21)۔ "Jordan's Refugee Crisis"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ Anthony H. Cordesman (2006)۔ Arab-Israeli Military Forces in an Era of Asymmetric Wars۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 228۔ ISBN 978-0-275-99186-9
- ↑ "تـفـجيـرات عمـان.. حدث أليم لم ينل من إرادة الأردنيين"۔ Addustor (بزبان عربی)۔ Addustor newspaper۔ 2014-11-09۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "تفجيرات عمان 2005 دفعت بالأردن ليكون أكثر يقظة في تصديه للإرهاب"۔ JFRA News (بزبان عربی)۔ JFRA News۔ 2014-11-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ Anthony Ham، Paul Greenway (2003)۔ Jordan۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 19
- ↑ Zechariah Donagan (2009)۔ Mountains Before the Temple۔ Xulon Press۔ صفحہ: 236۔ ISBN 978-1615795307
- ↑ Jean Bou (2009)۔ Light Horse: A History of Australia's Mounted Arm۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 159
- ↑ "About Jordan"۔ Cityscape۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "ارتفاعات مناطق عمان الكبرى عن سطح البحر – ارتفاع محافظات المملكة الاردنية عن سطح البحر"۔ Aswaq Amman (بزبان عربی)۔ 26 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2015
- ↑ "Jordan Basim-Geography, population and climate"۔ Food and Agricultural Organization of the United Nations۔ FAO۔ 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2015
- ↑ "Average Weather In October For Amman, Jordan"۔ WeatherSpark۔ 2012-10-26۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2013
- ↑ "Real Estate in Amman and Jordan for Apartments and Villas – Rent & Buy"۔ Cityscape.jo۔ 02 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2013
- ↑ ""Ever-growing Amman", Jordan: Urban expansion, social polarisation and contemporary urban planning issues" (PDF)۔ Arlt-lectures.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2013
- ↑ "Climate and Agricultural Information – Amman"۔ Jordan Meteorological Department۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2016
- ↑ "Amman Airport Climate Normals 1961–1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2015
- ↑ "Pogoda.ru.net (Weather and Climate-The Climate of Amman)" (بزبان الروسية)۔ Weather and Climate۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2015
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Greater Amman Municipality"
- ↑ "About GAM"۔ Greater Amman Municipality۔ 02 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "GAM council"۔ Greater Amman Municipality۔ 02 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "For a greener Amman"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-09-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Amman to have free Wi-Fi service in 15 selected locations"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-05-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "نظام التقسيمات الادارية رقم(46)لسنة2000 وتعديلاته(1)"۔ Ministry of Interiors Jordan (بزبان عربی)۔ moi.gov.jo۔ 2000۔ 26 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ "Greater Amman Municipality – GAM Interactive"۔ Ammancity.gov.jo۔ 09 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2013
- ↑ "Archived copy" (PDF)۔ 05 جون 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2016
- ↑ نبذة عن البنك المركزي الأردني [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2016-11-26 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ العثمانيون في بلاد الشام - أرض فلسطين (الاسم والحدود التاريخية) [مردہ ربط]
- ↑ "Amman Stock Exchange becomes state-owned company"۔ Jordan Times (بزبان انگریزی)۔ 2017-03-29۔ 29 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2018
- ↑ "الصوت العربي الحر - لعنة الضرائب في عمان - تاريخ الولوج 28/9/2008"۔ 30 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولائی 2019
- ↑ "العرب اليوم"۔ 29 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولائی 2019
- ↑ وزارة التجارة والصناعة 17/9/2008 [مردہ ربط] الصناعة في الاردن.aspx آرکائیو شدہ 2010-12-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ "مخطط عمان الشمولي - المناطق الصناعية في عمان الكبرى"۔ 20 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولائی 2019
- ↑ Chapin Metz, Helen (1989)۔ "Jordan: A Country Study:Agriculture"۔ Library of Congress, Washington D.C.۔ اخذ شدہ بتاریخ February 4, 2009
- ↑ MasterCard Worldwide۔ "MasterCard Worldwide's Global Destination Cities Index"۔ Slideshare.net۔ 18 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ Richard Maslen (27 مارچ 2013)۔ "New Terminal Opening Boosts Queen Alia Airport's Capacity"۔ Routesonline۔ Manchester, United Kingdom: UBM Information Ltd۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2014
- ↑ "دليل مطاعم عمان العربية والأجنبية"۔ 05 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "Jordan remains medical tourism hub despite regional unrest"۔ The Jordan Times۔ 2012-03-18۔ 03 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "الأردن المقصد الأول لعلاج الأسنان من Business.com تاريخ الولوج 26/9/2008"۔ 28 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ الدليل الطبي الأردني [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2013-06-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ دليل عمان 12/9/2008
- ↑ [1]تاريخ الولوج 16/9/2008 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hotels-jordan-booking.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ "فندق الفور سيزونز"۔ 26 فروری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "فندق الميريديان عمان"۔ 12 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "فندق غراند حياة عمان"۔ 11 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "فندق الراديسون ساس"۔ 08 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "فندق الشيراتون"۔ 10 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جولائی 2019
- ↑ "Royal Jordanian was the first airline in the Middle East to order the 787 Dreamliner" (PDF)۔ Boeing۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ^ ا ب "Erbil Ranked 5th for Foreign Direct Investment"۔ Iraq Business News۔ 2011-03-16۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ Hussein Hachem (2011-05-24)۔ "Aramex MEA: the Middle East's biggest courier firm – Lead Features – Business Management Middle East | GDS Publishing"۔ Busmanagementme.com۔ 13 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "Courier Companies of the World"۔ PRLog۔ 2009-08-18۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ مدينة الحسين الطبية [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2015-04-10 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ مستشفى عسكري حكومي
- ↑ "مستشفى الأردن"۔ 15 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولائی 2019
- ↑ "Amman"۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015
- ↑ "ABOUT AMMAN JORDAN"۔ downtown.jo۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "About GAM => History"۔ Greater Amman Municipality۔ 02 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "9۔5 ملايين عدد السكان في الأردن"۔ Ammon News۔ Ammon News۔ 2016-01-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2016
- ↑ "Turning Drains Into Sponges and Water Scarcity Into Water Abundance" (PDF)۔ Brad Lancaster۔ permaculturenews.org۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ Dumper and Stanley, p. 34.
- ↑ Albala, p. 267.
- ↑ Richmond, p. 124.
- ↑ Dakwar, pp. 31–32.
- ^ ا ب پ Suleiman, p. 101.
- ^ ا ب Plascov, p. 33.
- ↑ Dakwar, p. 31.
- ↑ Dumper and Stanley, p. 35.
- ↑ Owens, p. 260.
- ↑ Jones, p. 64.
- ↑ Ring, Salkin and LaBoda, p. 65.
- ↑ "Amman – a modern city built on the sands of time"۔ Jordan Travel۔ jordantoursandtravel.com۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2015
- ↑ Kadir I. Natho (2009)۔ Circassian history۔ Xlibris۔ صفحہ: 497۔ ISBN 978-1-4653-1699-8
- ^ ا ب "Jordan's 9/11: Dealing With Jihadi Islamism آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ crisisgroup.org (Error: unknown archive URL)", Crisis Group Middle East Report N°47, 23 November 2005
- ^ ا ب "SPEECH BY THE PRIME MINISTER THE RT HON TONY BLAIR MP آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ britishembassy.gov.uk (Error: unknown archive URL)" (04/06/07), British Embassy in Bahrain
- ↑ The Three Points of The Amman Message V.1
- ↑ "King Abdullah calls to end extremism"۔ Jerusalem Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2007
- ↑ U.S. Senate: Committee on Foreign Relations (2005)۔ Annual Report on International Religious Freedom, 2004۔ Government Printing Office۔ صفحہ: 563۔ ISBN 978-0-16-072552-4
- ↑ Duane Alexander Miller (November 2011)۔ "The Episcopal Church in Jordan: Identity, Liturgy, and Mission"۔ Journal of Anglican Studies۔ 9 (2): 134–153۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2012
- ↑ Kildani, p. 678.
- ↑ "Um er-Rasas (Kastrom Mefa'a)"۔ unesco.org۔ UNESCO World Heritage Center۔ 2004۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اکتوبر 2015
- ↑ "Amman"۔ 14 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2008
- ↑ "Stone as Wall Paper: The Evolution of Stone as a Sheathing Material in Twentieth-Century Amman"۔ CSBE۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ Mohammed Subaihi (22 October 2013)۔ "فوضى التنظيم والأبنية في عمان"۔ Al Ra'i (بزبان عربی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ^ ا ب "Jordan Gate Towers, Amman"۔ systemair.com۔ systemair AB۔ 01 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "About the Abdali Project"۔ Abdali PSC۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Jordan's $5 billion Abdali project: Serious investment potential"۔ Al Bawaba۔ 2015-05-28۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Abdali – Facts & Figures"۔ abdali.jo۔ Abdali PSC۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Jordan flagpole hits new heights"۔ BBC News۔ 10 June 2003۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2010
- ↑ Alan George (2005)۔ Jordan: Living in the Crossfire۔ London: Zed Books۔ صفحہ: 155۔ ISBN 978-1-84277-471-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2010
- ↑ "Scrolling through the millennia at the new Jordan Museum in Amman"۔ The National۔ 2014-03-13۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ Visit Jordan information آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ visitjordan.com (Error: unknown archive URL)۔
- ↑ "MUSEUM – The Martyrs' Memorial and Museum, Jordan"۔ Military History Monthly۔ 18 جون 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2016
- ↑ "A Tour to Jordan"۔ www.jewishmag.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2016
- ↑ "King opens Prophet Museum in Amman"۔ Jordan News Agency (PETRA)۔ 15 May 2012۔ March 4, 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2019
- ↑ "Welcome to Jordan Tourism Board> Where to go> Amman> Museums"۔ In.visitjordan.com۔ 18 جون 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2015
- ↑ "Jordan Folklore Museum"۔ Travelojordan.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2015
- ↑ Carole French (2012)۔ Jordan۔ Bradt Travel Guides۔ صفحہ: 35۔ ISBN 978-1-84162-398-6
- ↑ "Amman"۔ History of Jordan۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ "Why Jordan? Why Amman?"۔ amideast.org۔ 26 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ^ ا ب Andrew Ferren (2009-11-22)۔ "A Newly Stylish Amman Asserts Itself"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2010
- ↑ "اعادة دراسة واقع شارع الوكالات"۔ Islah News (بزبان عربی)۔ islahnews.net۔ 2013-10-03۔ 09 جولائی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ "Amman bustles with nightlife, shedding old image"۔ The Independent۔ 15 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "Souk JARA open from 9pm to 2am in Ramadan"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-06-24۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "Jordan – Politics"۔ country-stats.com۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 ستمبر 2015
- ↑ Anthony Ham، Paul Greenway (2003)۔ Jordan۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 77۔ ISBN 978-1-74059-165-2
- ↑ Matthew Teller (2002)۔ Jordan۔ Rough Guides۔ صفحہ: 44۔ ISBN 978-1-85828-740-9
- ↑ "3% of Nightclub women are Jordanian | Editor's Choice | Ammon News"۔ En.ammonnews.net۔ 2011-01-19۔ 02 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2013
- ↑ "الاردن يستورد خمور بقيمة مليونين و(997) الف دينار خلال عام 2008" (بزبان عربی)۔ sarayanews.com۔ 2009-09-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ Danielle Pergament (13 January 2008)۔ "All the Foods of the Mideast at Its Stable Center"۔ The New York Times
- ↑ "Capital Cuisine – A Food Tour in Amman, Jordan"۔ BeAmman.com۔ BeAmman.com۔ 26 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2015
- ↑ "Political rivalry overshadows Amman's derby"۔ Goethe-Institut۔ Goethe-Institut۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ "Amman municipality revamping stadiums for U-17 Women's World Cup"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-07-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Amman"۔ FIFA۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Destination Amman"۔ International Association of Athletics Federations۔ 28 March 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2015
- ↑ "Jordan Rally gets thumbs up from FIA"۔ Jordan Times۔ 19 February 2010۔ 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2015
- ↑ "Against all odds, Jordan's rugby greats are set to storm the Dubai Sevens"۔ 2014-11-04۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Volunteers open Jordan's first skate park"، aljazeera.com، Al Jazeera Media Network، 2015-02-12، اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ Joseph A. Massad (2001)۔ Colonial Effects: The Making of National Identity in Jordan۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 76۔ ISBN 978-0231123235
- ↑ Mahjoob Zweiri، Emma C. Murphy (2012)۔ The New Arab Media: Technology, Image and Perception۔ Ithaca Press۔ صفحہ: 143۔ ISBN 978-0863724176
- ↑ The Report: Emerging Jordan 2007۔ Oxford Business Group۔ 2007۔ صفحہ: 191۔ ISBN 9781902339740
- ↑ The Report: Jordan 2011۔ Oxford Business Group۔ 2011۔ صفحہ: 184۔ ISBN 9781907065439
- ^ ا ب "الرأي الأردنية | أخبار الأردن والشرق الأوسط والعالم|صحيفة يومية تصدر في عمان الأردن" (بزبان عربی)۔ Alrai.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ ":: جريدة الدستور ::" (بزبان عربی)۔ Addustour.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ Yusuf Kalyango Jr.، David H. Mould (2014)۔ Global Journalism Practice and New Media Performance۔ Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-1137440556
- ↑ "Al Rai ranks fifth among region's online newspapers"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2011-11-30۔ 02 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "The promise of Amman's independent music scene"۔ Your Middle East۔ 2015-05-13۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ .التطور التاريخي لقطاع الاتصالات في الأردن17/9/2008 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ trc.gov.jo (Error: unknown archive URL)
- ↑ "BEAMMAN CALENDAR"۔ BeAmman.com۔ BeAmman.com۔ 05 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2015
- ↑ "Festival promotes curiosity, entrepreneurship among young people"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-08-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Accelerating passenger growth at Jordan's QAIA suggests confidence returning"۔ Al Bawaba۔ 2011-08-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "1st Place Service Quality Rankings: QAIA Named 'Best Airport by Region – Middle East' and 'Best Improvement by Region – Middle East'"۔ 2015-02-23۔ 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "ائیرپورٹس ڈیٹا بیس"۔ 20 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولائی 2019
- ↑ "RJ Phone numbers in Jordan آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ rj.com (Error: unknown archive URL)." Royal Jordanian. Retrieved on 21 June 2010. "Office Address: Building 37 -Mohammad Ali Janah St. -Abdoun near the 5th circle P.O. Box: 302 Amman 11118"
- ↑ "Tourism in Amman"۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2015
- ↑ "Amman residents complain about daylong car jams"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2014-06-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "GAM closes Princess Basma street for BRT work"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2015-07-04۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "PM inaugurates second phase of Amman road project"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2012-02-05۔ 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ "Transportation in Amman"۔ 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2015
- ↑ "BRT project on track – GAM | Jordan Business News | Amman Social Business Events | Press Release & opinions"۔ English.business.jo۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ "Internet Archive Wayback Machine"۔ Web.archive.org۔ 2010-08-30۔ 30 اگست 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2012
- ↑ تسيير رحلات بين عمان ودمشق عبر الخط الحديدي الحجازي - موقع النداء [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2012-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "المقاتل - تاريخ الولوج 15/10/2008"۔ 23 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020
- ↑ الحياة في عمّان خلال مائة عام. [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2016-08-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ التعليم في الأردن ولوج بتاريخ 17/9/2008 [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2009-02-01 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "كشف بأسماء المدارس الخاصة في عمان" (بزبان عربی)۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2015
- ↑ عبد اللہ دوم. (2011). Our Last Best Chance: The Pursuit of Peace in a Time of Peril, Penguin, Uk. آئی ایس بی این 9780141960395. p157.
- ↑ Yulie Khromchenco (June 1, 2004)۔ "Amman university wants Israel branch"۔ ہاریتز۔ Haaretz Daily Newspaper Ltd۔ اخذ شدہ بتاریخ February 5, 2013
- ↑ "الجمعية الأردنية للطاقة المتجددة."۔ 18 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2019
- ↑ http://www.sesric.org/files/article/394.pdf
- ↑ "عمّان الأغلى عربيا.. وسط فقر وحرمان | الجزيرة نت"۔ 26 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020
- ^ ا ب هل عمان مدينة عصرية؟ | عمّون[مردہ ربط]
- ^ ا ب پ برقيات سـريعة.... إلى أمين العاصمة | جريدة الدستور [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2016-08-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ جائزة المدينة عن قارة اسيا یوٹیوب پر
- ↑ "مخطط عمان الشمولي يفوز بجائزة القيادة العالمية - فئة التخطيط العمراني"۔ 16 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولائی 2019
- ↑ جريدة الدستور [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2016-03-10 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "Twin City Agreements"۔ GAM۔ Greater Amman Municipality۔ 01 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2015
- ↑ "Amman's Relations with Other Cities"۔ Ammancity.gov.jo۔ 07 مارچ 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2013
- ↑ "Sister Cities"۔ Beijing Municipal Government۔ 17 جنوری 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2009
- ↑ "International تعلقات - São Paulo City Hall - Official Sister Cities"۔ Prefeitura.sp.gov.br۔ 21 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جولائی 2010
- ↑ Chicago Commission on Human تعلقات (2010)۔ 2010 Annual Report (PDF)۔ صفحہ: 22۔ 26 اکتوبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2019
- ↑ "Sarajevo Official Web Site: Sister cities"۔ Sarajevo.ba۔ 12 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2009
- ↑ "Mostar Gradovi prijatelji" [Mostar Twin Towns]۔ Grad Mostar [Mostar Official City Website] (بزبان المقدونية)۔ 30 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2013
- ↑ لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 206 سطر پر: Called with an undefined error condition: err_parameter_ignored۔
- ↑ "Partner cities"۔ Yerevan Municipal Government۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2018
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر عمان (شہر) سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
Amman سفری راہنما منجانب ویکی سفر
کتابیات
ترمیم- Ken Albala (2011)۔ Food Cultures of the World Encyclopedia, Volume 1۔ ABC-CLIO۔ ISBN 9780313376269
- Michael Dumper، Bruce E. Stanley (2007)۔ Cities of the Middle East and North Africa: A Historical Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ISBN 9781576079195
- Mari C. Jones (2002)۔ Language Change: The Interplay of Internal, External, and Extra-linguistic Factors۔ Walter de Gruyter۔ ISBN 9783110172027
- Hanna Kildani (2010)۔ Modern Christianity in the Holy Land: Development of the Structure of Churches and the Growth of Christian Institutions in Jordan and Palestine۔ AuthorHouse۔ ISBN 9781449052850
- Jonathan Owens (2013)۔ The Oxford Handbook of Arabic Linguistics۔ Oxford University Press۔ ISBN 9780199344093
- Avi Plascov (1981)۔ The Palestinian Refugees in Jordan 1948–1957۔ Psychology Press۔ ISBN 9780714631202
- Walter Richmond (2013)۔ The Circassian Genocide۔ Rutgers University Press۔ ISBN 9780813560694
- Trudy Ring، Robert M. Salkin، Paul E. Schellinger (1994)۔ International Dictionary of Historic Places: Middle East and Africa۔ Volume 4۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 289۔ ISBN 9781884964039
- Guy Le Strange (1890)۔ Palestine Under the Moslems: A Description of Syria and the Holy Land from A.D. 650 to 1500۔ Alexander P. Watt for the Committee of the Palestine Exploration Fund۔ صفحہ: 391
- Yasir Suleiman (2004)۔ A War of Words: Language and Conflict in the Middle East۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521546560
- Bethany J. Walker (2015)۔ "On Archives and Archaeology: Reassessing Mamluk Rule from Documentary Sources and Jordanian Fieldwork"۔ $1 میں Daniela Talmon-Heller، Katia Cytryn-Silverman۔ Material Evidence and Narrative Sources: Interdisciplinary Studies of the History of the Muslim Middle East۔ Brill