سلطنت عثمانیہ
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خلافت عثمانیہ کی تاریخ |
---|
عروج (1299ء – 1453ء) |
توسیع (1453ء – 1683ء) |
جمود (1683ء – 1827ء) |
زوال (1828ء – 1908ء) |
خاتمہ (1908ء – 1922ء) |
مزید دیکھئے: |
فتح قسطنطنیہ |
دور لالہ |
دور تنظیمات |
پہلا آئینی دور |
دوسرا آئینی دور |
یورپ میں جنگیں |
روس کے خلاف جنگیں |
مشرق وسطی میں جنگیں |
تاریخ
طلوع سے عروج تک (1299ء-1453ء)
سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔
1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انھوں نے دو لشکروں کو آپس میں بر سر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے بر سر پیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انھیں اس کی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنھوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خود مختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔
یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔
سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انھوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔
سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی (سلطان محمد فاتح) کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔
توسیع (1453ء-1683ء)
عثمانی تاریخ کا یہ دور دو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک 1566ء تک علاقائی، اقتصادی اور ثقافتی نمو کا دور جس کے بعد عسکری و سیاسی جمود کا دور۔
توسیع اور نقطۂ عروج (1453ء-1566ء)
1453ء میں فتح قسطنطنیہ نے جنوب مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرنے کی بنیاد رکھی اور پھر 1566ء تک یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں فتوحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ ان فتوحات کا سبب فوج کا معیاری نظم و ضبط اور جدید عسکری قوت تھی جس میں بارود کے استعمال اور مضبوط بحریہ کا کردار بہت اہم تھا۔ ریاست کی معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا کیونکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان میں تجارت کے تمام زمینی و سمندری راستے عثمانی سلطنت سے ہو کر گذرتے تھے۔ ایک کے بعد دیگر عظیم سلاطین نے سلطنت کی سرحدیں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا جن میں سلیم اول کا نام نمایاں ہے جنھوں نے مشرقی و جنوبی جانب توجہ کی اور صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل صفوی کو جنگ چالدران میں شکست دی اور مصر میں عثمانی حکومت قائم کی۔ سلیم کے جانشیں سلیمان عالیشان (1520ء تا 1566ء) نے مغرب میں سلطنت کو توسیع دی اور 1521ء میں بلغراد کی فتح کے بعد 1526ء میں جنگ موہاکز کے ذریعے ہنگری اور دیگر وسطی یورپی علاقوں میں عثمانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد انھوں نے 1529ء میں ویانا کا محاصرہ کیا لیکن سرد موسم اور شہر کے باسیوں کی زبردست مزاحمت کے باعث یہ محاصرہ ناکام ہو گیا اس طرح عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ گئیں اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں وسطی یورپ کے اس شہر سے آگے کبھی نہ بڑھ سکیں۔ سلیمان کے ادوار میں ٹرانسلوانیا، ولاچیا اور مالدووا سلطنت عثمانیہ کے باجگذار بنے۔ مشرق میں عثمانیوں نے ایران سے بغداد دوبارہ حاصل کر لیا اور بین النہرین پر قبضہ کر کے خلیج فارس تک بحری رسائی حاصل کر لی۔
سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلاف تیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔
بغاوتیں اور احیاء (1566ء-1683ء)
1566ء میں سلیمان کا انتقال علاقائی فتوحات کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ مغربی یورپ کی سلطنتوں کا بطور بحری قوت ابھرنا اور یورپ سے ایشیا کے لیے متبادل راستوں اور "نئی دنیا" (امریکہ) کی دریافت نے عثمانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطنت عثمانیہ کو بیدار مغز حکمرانوں کی ضرورت تھی بدقسمتی سے اسے نالائق حکمرانوں کے طویل دور کو سہنا پڑا جس نے داخلی و عسکری محاذ پر مملکت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1683ء میں جنگ ویانا تک سلطنت کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس جنگ کے بعد یورپ میں سلطنت کی توسیع کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ مغربی یورپ کی جانب سے نئے تجارتی راستوں کی تلاش و دریافت کے علاوہ "نئی دنیا" سے اسپین میں بڑی مقدار میں چاندی کی آمد عثمانی سکے کی قدر میں تیزی سے بے قدری کا باعث بنی۔ سلیم ثانی کے دور میں صدر اعظم محمد پاشا صوقوللی نے معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے سوئز نہر اور ڈون-وولگا نہر کی تعمیر کے منصوبہ جات پیش کیے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
اسی دور میں جنوبی یورپ میں اسپین کے فلپ ثانی کی زیر قیادت کیتھولک قوتوں نے بحیرہ روم میں عثمانی بحریہ کی قوت کو نقصان پہنچانے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا۔ 1571ء میں جنگ لیپانٹو میں شکست بحیرہ روم میں سلطنت کی برتری کے فوری خاتمے کا باعث بنی۔ اس لیے متعدد مورخوں نے جنگ لیپانٹو میں شکست کو عثمانی سلطنت کے زوال کا اشارہ قرار دیا ہے۔ اس طرح 16 ویں صدی کے اختتام تک فتوحات و کامیابیوں کے سنہرے دور کا خاتمہ ہو گیا۔
عثمانیوں کی ایک مخصوص مقام پر جاکر فتوحات کے رک جانے کی کئی وجوہات ہیں ایک تو دور قدیم میں جغرافیائی خصوصیات کے باعث محدودیت جن کی وجہ سے بہار کے ابتدائی دور سے خزاں کے آخری ایام تک کے جنگی موسم میں عثمانی فوج ویانا سے آگے نہیں جا سکتی تھی۔ دیگر وجوہات میں سرحدوں کے دونوں جانب دو مختلف حریفوں (یورپ میں آسٹریا اور ایشیا میں ایران کے صفوی حکمران) کے خلاف بیک وقت جنگ کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں فکری، ذہنی و عسکری جمود نے عثمانیوں کے زوال پر مہر ثبت کر دیں کیونکہ عسکری طور پر جدید ہتھیاروں کا استعمال ہی وسیع پیمانے اور تیزی سے فتوحات کا سبب تھا اور مذہبی و دانشور طبقے کے بڑھتے ہوئے دقیانوسی خیالات نے یورپیوں کی جدید عسکری ٹیکنالوجی کے مقابلے میں عثمانیوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ ینی چری، جن سے یورپ کی تمام افواج کانپتی تھیں، آرام پسند ہو گئیں اور ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے باعث ریاست کی تباہی کا سبب بنی۔ صفویوں سے یریوان (1635ء) اور بغداد (1639ء) چھیننے والے مراد چہارم (1612ء تا 1640ء) اس دور کے واحد حکمران جنھوں نے سیاسی و عسکری طور پر سلطنت کو مضبوط بنایا۔ مراد چہارم ہی وہ آخری سلطان تھے جنھوں بذات خود افواج کی قیادت کی۔ 16 ویں صدی کے اواخر اور 17 ویں صدی کے اوائل میں جلالی بغاوت (1519ء-1610ء) اور ینی چری بغاوت (1622ء) نے اناطولیہ میں بڑے پیمانے پر لاقانونیت اور فسادات کو فروغ دیا اور متعدد حکومتوں کے خاتمے کا سبب بنا۔ اس طرح 17 ویں صدی عثمانیوں کے لیے جمود اور زوال کی صدی رہی۔ 1530ء سے 1660ء تک کے دور میں حرم کی ملکی معاملات میں مداخلت اور اثرات سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا جس میں سب سے اہم کردار نوجوان سلطان کی ماؤں کا رہا۔ اس دور کی نمایاں خواتین میں خرم سلطان، کوسم سلطان اور تورخان خادج اور دیگر شامل ہیں۔
جمود اور اصلاحات (1699ء-1827ء)
جمود کے دور میں بلقان کے کئی علاقے آسٹریا کے قبضے میں آ گئے۔ ریاست کے متعدد علاقے، جیسے مصر اور الجزائر، مکمل طور پر خود مختار ہو گئے اور بالآخر سلطنت برطانیہ اور فرانس کے قبضے میں چلے گئے۔ 17 ویں سے 19 ویں صدی کے دوران میں روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان میں کئی جنگیں بھی لڑی گئیں جنہیں ترک روس جنگیں کہا جاتا ہے۔عثمانیوں کے جمود کے اس طویل دور کو مورخین ناکام اصلاحات کا دور بھی قرار دیا ہے۔ اس دور کے اواخر میں ریاست میں تعلیمی و تکنیکی اصلاحات بھی کی گئیں اور استنبول تکنیکی جامعہ جیسے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ لیکن قدیم سوچ کے حامل مذہبی و عسکری طبقے سے اصلاحات کی شدید ترین مخالفت کی حتٰی کہ چھاپہ خانوں تک کو "شیطانی ایجاد" قرار دیا گیا جس کے باعث 1450ء میں یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد 43 سال تک سلطنت عثمانیہ چھاپے خانوں سے محروم رہی لیکن 1493ء میں اسپین سے بے دخل کیے گئے یہودیوں نے استنبول میں پہلا چھاپہ خانہ قائم کیا۔
دور لالہ سلطان احمد ثالث کے پرامن دور اور گل لالہ سے محبت کے باعث دور لالہ کہلاتا ہے۔ 1712ء میں روس کے خلاف پرتھ مہم میں کامیابی اور اس کے بعد معاہدۂ پاسارووچ کے باعث 1718ء سے 1730ء تک کا دور پرامن رہا۔ اس دور میں سلطنت نے یورپ کی پیشقدمی کے خلاف مضبوط دفاع کے پیش نظر بلقان کے مختلف شہروں میں قلعہ بندیاں کیں۔ دیگر اصلاحات میں محصولات میں کمی؛ عثمانی سلطنت کے بیرون ممالک میں تصور کو بہتر بنانا اور نجی ملکیت و سرمایہ کاری کی اجازت شامل ہیں۔ عثمانیوں میں عسکری اصلاحات کا آغاز سلیم ثالث (1789ء-1807ء) کے دور میں ہوا جنھوں نے یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔ حالانکہ ان اقدامات کی مذہبی قیادت اور ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں ینی چری نے بغاوت بھی کی۔ اور سلیم کو اپنی اصلاحات کا خمیازہ حکومت اور جان دونوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں اٹھانا پڑا لیکن اس کے جانشیں محمود ثانی نے ان تمام اصلاحات کو نافذ کر کے دم لیا اور 1826ء میں ینی چری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔
زوال اور جدت سازی (1828ء-1908ء)
عثمانیوں کا دور زوال کو مورخین جدید دور بھی قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں سلطنت نے ہر محاذ پر شکست کھائی اور اس کی سرحدیں سکڑتی چلی گئیں تنظيمات (اصلاحات) کے باوجود مرکزی حکومت کی ناکامی کے باعث انتظامی عدم استحکام پیدا ہوا۔19 ویں صدی کے دوران میں سلطنت عثمانیہ سمیت کئی ممالک میں قوم پرستی کو عروج نصیب ہوا۔ نسلی قوم پرستی کی لعنت ان مغربی نظریات میں سب سے اہم تھی جو اس دوران میں سلطنت عثمانیہ میں وارد ہوئیں۔ اس دوران میں کئی انقلابی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئیں۔ مملکت میں آئے دن بڑھتا ہوا بگاڑ کے جہاں دیگر کئی اسباب تھے وہیں زوال کی اہم ترین وجوہات میں قوم پرستی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ اس عرصے میں 1892ء میں یونان نے آزادی حاصل کی اور اصلاحات بھی ڈینیوب کی امارتوں میں قوم پرستی کو نہ روک سکیں اور 6 عشروں سے نیم خود مختار ان علاقوں سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالدووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹینیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی البتہ بلقان کی دیگر ریاستیں بدستور عثمانی قبضے میں رہیں۔ زوال کے اسی دور میں سربیا کے ایک یہودی یہودا سولمن الکلائی نے صیہون کی طرف واپسی اور اسرائیل کی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔
دور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظور شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution) ۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔ سلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترکی زبان: برنجی مشروطیت دوری) مختصر رہا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمانیہ نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 1876ء میں فوجی تاخت کے ذریعے سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) مراد پنجم کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ مراد پنجم ذہنی معذور تھا اور چند ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے ممکنہ جانشین عبد الحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو تسلیم کریں گے جس پر انھوں نے 23 نومبر 1876ء کو عمل بھی کیا۔ لیکن پارلیمان صرف دو سال قائم رہی اور سلطان نے اسے معطل کر دیا اور بعد ازاں پارلیمان کو طلب کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ تاہم قانون اساسی کے اثرات کافی حد تک کم ہو گئے۔ اس عرصے میں سلطنت کو بیرونی جارحیت اور قبضہ گیری کے خلاف اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خطرات کا سامنا رہا۔ 1798ء میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 1877ء کی روس ترک جنگ میں شکست کے بعد برلن کانگریس میں حمایت کے صلے میں 1878ء میں ایالت قبرص پٹے پر برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔ سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے "یورپ کا مرد بیمار" کہا گیا لیکن معاشی طور پر سلطنت کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پزیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا۔ اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور ابھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے۔
تحلیل (1908ء-1922ء)
دوسرا آئینی دور (عثمانی ترکی زبان: اکنجی مشروطیت دوری) سلطنت عثمانیہ کی حتمی تحلیل پر منتج ہوا۔ اس دور میں اتحاد و ترقی جمعیتی کی سیاست اور نوجوانان ترک (ترکی زبان: جون ترکلر) کا سبب بننے والی تحریک نمایاں ترین ہیں۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کا آغاز 3 جولائی 1908ء کو ہوا اور جلد ہی تحریک سلطنت بھر میں پھیل گئی اور نتیجتاً سلطان کو 1876ء کے آئین کی بحالی کا اعلان اور پارلیمان کو طلب کرنا پڑا۔ آئینی دور میں 1909ء کے جوابی تاخت اور واقعہ 31 مارچ کے جوابی انقلاب کے دوران میں رخنہ آیا جس کے ساتھ ہی سلطان عبد الحمید ثانی کے دور کا خاتمہ کر دیا گیا اور انھیں جلاوطن کر دیا گیا اور ان کی جگہ ان کے بھائی محمد پنجم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کے دوران میں سلطنت عثمانیہ کی داخلی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1908ء میں آسٹریا-ہنگری نے مقبوضہ بوسنیا و ہرزیگووینا کا باضابطہ الحاق کر دیا۔ آسٹریا-ہنگری نے 1877ء کی روس ترک جنگ اور برلن کانگریس (1878ء) کے بعد اس پر قبضہ کیا تھا۔ اطالیہ ترک جنگوں کے دوران میں سربیا، مونٹی نیگرو، یونان اور بلغاریہ پر مشتمل بلقان لیگ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کو بلقان جنگ (1912ء-1913ء) کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جزیرہ نما بلقان کے کئی علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیبیا اور جزیرہ نما بلقان میں جنگیں اتحاد و ترقی جمعیتی کا پہلا بڑا امتحان تھیں۔ اطالیہ ترک جنگوں میں سلطنت کو لیبیا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں دنیا میں پہلی بار میدان جنگ میں ہوائی جہازوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ 19 ویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی بلقان ریاستیں نسلی و قومی بنیادوں پر البانیہ، مقدونیہ اور تھریس (تراقیا) کے عثمانی صوبوں سے بھی اضافی علاقوں کے حصول کی خواہش مند تھیں۔ ابتدائی طور پر مارچ 1912ء میں سربیا اور بلغاریہ اور مئی 1912ء میں یونان اور بلغاریہ کے درمیان معاہدے طے پائے جس میں روس نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ سرب-بلغاری معاہدے میں مقدونیہ کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا جو پہلی بلقان جنگ کا سب سے اہم سبب بنا۔ دوسری بلقان جنگ کے آغاز کا اہم سبب سابق بلقان اتحادیوں میں نئے حاصل کردہ علاقوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازعات تھے جس سے سلطنت عثمانیہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تھریس میں کئی علاقے دوبارہ فتح کر لیے۔ بلقان جنگ کے سیاسی نتائج 1913ء کے تاخت اور تین پاشاؤں کی حکومت کا سبب بنے۔
جنگ عظیم اول
پہلی جنگ عظیم میں بغداد ریلوے پر جرمن اختیار بین الاقوامی طور پر کشیدگی کا ایک مسئلہ اہم تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے مشرق وسطٰی میدان میں حصہ لیا جس کا سبب ترک جرمن اتحاد تھا۔ عثمانیوں نے جنگ کے ابتدائی دور میں دو اہم فتوحات، جنگ گیلی پولی اور محاصرۂ کوت، حاصل کیں لیکن اسے کئی دھچکے بھی پہنچے جیسے روس کے خلاف تباہ کن قفقاز مہم۔ 1917ء کے روسی انقلاب نے عثمانیوں کو شکست کے داغ دھونے اور کھوئے ہوئے علاقے حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور عثمانی افواج جنگ کے اختتامی مراحل میں آذربائیجان کے حصول میں کامیاب ہو گئیں لیکن جنگ عظیم کے اختتام پر اسے ان فتوحات سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس تنازعے میں پیش آنے والا ایک متنازع اور اہم واقعہ صوبہ وان میں ترک حکام، عثمانی افواج اور کرد جنگجوؤں کے ہاتھوں لاکھوں آرمینیائی باشندوں کا مبینہ قتل عام اور ملک بدری اور اس کے خلاف آرمینیائی باشندوں کی مزاحمت تھی۔ ایک مرکزی آرمینیائی مزاحمتی گروہ نے مئی 1915ء میں آزاد عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا اور عثمانیوں نے اسے مشرقی اناطولیہ پر جارحیت کرنے والی روسی افواج کا ساتھ دینے کی کوشش سمجھا۔ 1917ء کے اختتام تک آرمینیائی انقلابی وفاق نے جمہوریہ آرمینیا قائم کر دی جو آرمینیائی قتل عام سے بچ جانے والے باشندوں پر مشتمل تھی۔ واضح رہے کہ ترک حکومت آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر یقین نہیں رکھتی۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آرمینیائی قتل عام)
پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے شکست کے دو اہم اسباب ایڈمنڈ ایلنبائی کی زیر کمان برطانوی افواج کی اہم اہداف پر حملے اور عرب بغاوت تھے۔ان میں عرب بغاوت سلطنت عثمانیہ کی شکست کا سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ مدینہ کے عثمانی کماندار فخری پاشا نے محاصرہ مدینہ میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔
تقسیم
جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں "قومی مجلس اعلیٰ" (ترکی زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انھیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء) 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلیٰ نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
نظام حکومت
سلطان
عثمانی ترکوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تین سو سال میں دنیا کی وسیع ترین اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کا روپ اختیار کر لیا اور اس میں بنیادی کردار ترک قوم کی شجاعت اور تنظیمی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جیسی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم ہوئی۔ چونکہ عثمانی سلاطین نے سلجوقیوں کے نظام کو اپنایا تھا اس لیے فرمانروا کا انتخاب اہل خاندان کرتے تھے اور خاندان کا سربراہ ہی بادشاہ ہوتا تھا۔ عملی سیاست کے تعلق تک بادشاہ مطلق العنان اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہوتا تھا تاہم اس کے تمام اقدامات و افعال اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتے تھے۔ وہ قانون، نظام اور رسم و رواج کا پابند تھا اور شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ اسلامی قوانین کو تقریباً تمام معاملات میں برتری حاصل تھی اور بادشاہ شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے حق و طاقت کا استعمال کر سکتا تھا۔ چونکہ بادشاہ کی حیثیت مطلق العنان فرمانروا کی تھی اس لیے جب کمزور سلطان آئے تو سلطنت کے امور وزراء انجام دینے لگے لیکن پھر بھی احکامات سلطان کی جانب سے صادر ہوتے تھے۔ ابتدا میں عثمانی حکمران خود کو بیگ اور غازی کہلواتے تھے۔ بایزید اول پہلا عثمانی حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا اور سلیم اول فتح مصر کے بعد پہلا عثمانی خلیفہ بنا۔ سلطان سلیمان قانونی کے زمانے تک فوج کی اعلیٰ کمان سلطان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وہ خود جنگ میں شرکت کرتا تھا لیکن بعد کے حکمرانوں میں یہ طریقہ نہ رہا جس سے سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔
دیوان
سلطان کی اعلیٰ مجلس شوریٰ کا نام دیوان ہمایوں تھا اور مرکزی نظام میں اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ ابتدا میں سلطان دیوان کی صدارت خود کرتا تھا لیکن بعد کے سلاطین نے دیوان میں آنا چھوڑ دیا اور سلطان کے اہل رائے سے تعلق نہ ہونے سے نظام میں کمزوری پیدا ہو گئی۔ دیوان کے مستقل اراکین یہ تھے:
مرکزی نظام کے یہ چار اعلیٰ عہدے دار سلطنت کے بنیادی ستون تھے۔ محمد فاتح نے اپنے آئین میں ان ستونوں کو واضح کیا اور سلطنت کو ایک خیمے سے تشبیہ دی جس کا صدر دروازہ باب عالی کہلاتا اور دیوان گویا اس کی آخری عدالت تھی۔ صدر دروازے کا یہ نام اتنا معروف ہوا کہ دنیا بھر میں عثمانی دربار "باب عالی" کے نام سے ہی معروف ہو گیا۔
صدر اعظم
مرکزی نظام حکومت میں سلطان کے بعد دوسری اہم حیثیت صدر اعظم کو حاصل تھی جو دیوان کا ایک اہم رکن کہلاتا تھا۔ ابتدائی دور میں صرف وزیر ہوتا تھا لیکن ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بعد ان میں سے ایک وزیر اعظم کہلانے لگا جو پھر صدر اعظم بن گیا۔ طاقتور سلاطین کے عہد میں صدر اعظم سلطان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ صدر اعظم کے ماتحت وزراء میں وزیر جنگ و داخلہ، صدر اعظم کی غیر موجودگی میں اس کا قائم مقام ہوتا تھا، وزیر خارجہ، جو رئیس آفندی کہلاتا اور میر دربار شامل ہوتے تھے۔ صدر اعظم کے عہدے پر کئی نام ایسے شامل ہیں جن کی خدمات عثمانی نظام کے لیے ناقابل فراموش ہیں جن میں کوپریلی خاندان قابل ذکر ہے۔ یہ عہدہ 1368ء سے 1922ء تک یعنی 554 سالوں تک یہ عہدہ سلطنت عثمانیہ میں موجود رہا جس میں 211 (یا 215) صدر اعظم ہوئے جن کی اکثریت غیر ترک تھی اور ان میں عرب، البانوی، روسی، چرکسی، یونانی، ارمنی اور سلافی قوموں کے افراد شامل تھے تاہم کبھی کسی غیر مسلم کو صدر اعظم نہیں بنایا گیا۔ صدر اعظم کا تقرر خود سلطان کرتا تھا۔
قاضی عسکر
اس کی اصل حیثیت فوجی منصف کی تھی اور شیخ الاسلام کے بعد اس کا درجہ آتا تھا۔ قاضی عسکر کو سلطان خود مقرر کرتا تھا۔ قاضی عسکر دو تھے ایک یورپی اور دوسرا ایشیائی مقبوضات کے لیے جو بالترتیب قاضی عسکر رومیلیا اور قاضی عسکر اناطولیہ کہلاتے تھے۔
دفتر دار
دفتر دار دراصل وزیر مالیات تھا جو تمام مالی امور کا جواب دہ تھا۔
نشانچی
نشانچی بھی مالیات کا ذمہ دار تھا لیکن اس کے ذمہ دیگر بہت سارے امور تھے جن میں شاہی مہر لگانا، زمین کے معاملات کا اندراج، غلطیوں کی تصحیح اور ان کی ترتیب، حکمرانوں اور نیم خود مختار حاکموں کو فرامین بھیجنا وغیرہ۔ نشانچی تمام سرکاری کاغذات کی تیاری کا کام بھی کرتا تھا اور اس کے بعد کاغذات پر سلطان کا طغرہ ثبت کرتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی قوت ہی اس کے ادارۂ حکومت کے زبردست نظام پر قائم تھی اور اس کے خاص اصولوں میں امیدواروں کا عمدہ انتخاب، تعلیم و تربیت کی سخت نگرانی، مکمل نظم و ضبط اور پرجوش مقابلہ اہم ترین تھے اور انہی کی بنیاد پر کوئی بھی امیدوار اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کر کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح گویا شاہی خاندان ہی ایسا تھا جس میں نسلی امتیاز تسلیم کیا جاتا تھا دیگر تمام عہدوں کے لیے صلاحیت کو بنیاد بنایا جاتا تھا۔
صوبائی نظام
سلطنت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور انتظامی امور کے لیے سلطنت کو بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جو "ایالت" کہلاتے تھے۔ ایالتیں سنجق میں، سنجق قضا میں اور قضا کو کوئے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ صوبے پہلے ایالت کہلاتے تھے جنہیں بعد ازاں ولایت کر دیا گیا جبکہ سنجاق کی حیثیت ضلعوں کی سی تھی۔ ولایتوں کے حاکم بیلربے یا پاشا اور ضلعوں کے حاکم سنجق بے کہلاتے۔ سنجق کے حاکم کی دو اقسام ہوتی تھیں ایک شہزادہ اور اور غیر شہزادہ۔
سلیمان اعظم کے عہد میں سلطنت 21 ولایتوں اور 250 سنجاقوں میں تقسیم تھی۔ ہر صوبے کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی تھی جس کا صدر وہاں کا والی ہوتا تھا۔قضاء کسی بڑے شہر یا اس سے ملحق چند قصبات پر مشتمل ہوتی تھی اور اس کا حاکم اعلیٰ سوباشی یعنی فوج کا افسر ہوتا تھا۔ کوئے میں گاؤں اور قصبے سب شامل کیے گئے تھے۔ غیر فوجی معاملات خصوصاً شرعی و قانونی امور کی دیکھ بھال قاضی کے ہی سپرد تھی۔
اقتصادی نظام
سلطنت کا اقتصادی نظام اس کے جغرافیہ پر قائم تھا کیونکہ مشرق اور مغرب کے درمیان میں تمام تجارتی شاہراہیں تین براعظموں پر پھیلی اس سلطنت سے گذرتی تھیں۔ ان تجارتی شاہراہوں کے ذریعے ہی اسے محصول کے ذریعے اتنی ادائیگی ہوتی کہ وہ اپنے وقت دنیا کی بڑی اقتصادی قوتوں میں سے ایک بن گئی۔ سلطنت عثمانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی یورپی قوتوں نے متبادل راہ ڈھونڈنے کے لیے بحری مہمات شروع کیں اور جب 1492ء میں کرسٹوفر کولمبس نے امریکا دریافت کیا تو اس وقت سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر تھی۔ وسطی یورپ اور عثمانیوں کے درمیان میں تعلقات میں تبدیلی کی بنیاد بھی نئے بحری راستوں کی دریافت تھا اور ممکنہ طور پر سلطنت عثمانیہ کی زوال کی وجہ بھی کیونکہ یورپی قوتوں نے مشرق وسطٰی اور بحیرۂ روم کی بجائے دیگر راستے اختیار کرنا شروع کر دیے جو سلطنت کی مالی حالت کی خرابی کا باعث بنا۔
سلطنت مندرجہ ذیل اقسام کے ممالک میں تقسیم تھی:
- اراضی کا وہ بڑا حصہ جس کا انتظام براہ راست حکومت عثمانیہ کی طرف سے ہوتا تھا
- وہ علاقے جن کا انتظام خاص ضوابط کے ماتحت ہوتا۔
- متعدد باجگذار صوبے
- بعض وابستہ ریاستیں
جو علاقے براہ راست زیر حکومت تھے وہ سنجقوں میں تقسیم تھے اور ان میں سے ہر ضلع کے محاصل کا ایک علاحدہ قانون تھا جس کی بنیاد ان معاہدوں پر تھی جو فتح کے وقت کیے گئے تھے۔ محصولات کے لیے سلطنت عثمانیہ میں زمین کو اس طرح تقسیم کیا گیا تھا:
- جو بزور شمشیر فتح کی گئی تھیں ان کے لیے دسواں حصہ محصول مقرر تھا۔
- دوسری وہ زمینیں جو مفتوحین اور رعایا کے قبضے میں تھیں، ان کے لیے بھی دسواں حصہ مقرر تھا
- تیسری وہ زمین جن کو بادشاہ نے جنگی خدمات کے صلے میں عطا کیا تھا۔ وہ بھی دو حصوں میں تقسیم تھیں۔ ایک جس پر شرعی اصولوں کے مطابق عملدرآمد ہوتا تھا اور دوسرا جس کا نفاذ مقنن کی رائے کے مطابق ہوتا تھا۔
تمام محاصل کا عام نام خراج تھا اس میں جزیہ، مال گزاری اور محصول پیداوار وغیرہ شامل تھے۔ رعایا کی فلاح و بہبود اور خوش حالی سلاطین کا نصب العین تھا اور غیر مسلم رعایا سے جزیہ کے علاوہ کوئی ناجائز محصول نہ لیا جاتا تھا۔
فوجی نظام
عثمانی فوج اپنی زمانے کی دنیا کی جدید ترین فوج تھی اور وہ پہلی فوج تھی جس نے بارودی اسلحے کا استعمال شروع کیا۔ اس کے علاوہ وہ تلواریں، نیزے، تیر اور دیگر روایتی اسلحے بھی استعمال کرتے۔ 1389ء میں جنگ کوسوو اور 1396ء میں جنگ نکوپولس میں فتوحات کے بعد عثمانی افواج تیزی سے وسطی یورپ کو اپنے پیروں تلے روندتے چلی گئیں اور 1526ء میں جنگ موہاکس میں فتح کے ذریعے ہنگری پر بھی قابض ہو گئیں اور دو مرتبہ 1529ء اور 1683ء میں ویانا کا محاصرہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں یہ پہلی فوج تھیں جو غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرتیں اور ان کے افسران کو تربیت کے لیے مغربی یورپ کے ممالک میں بھیجا جاتا۔
ینی چری
سلطنت کی طاقت کا دار و مدار اس کے فوجی نظام پر تھا۔ عثمانیوں کے دوسرے سلطان اورخان اول کے دور میں پہلی بار فوج کو منظم شکل دی گئی جو ینی چری کہلائی۔ ینی چری مستقل پیدل فوج تھی جس کی حیرت انگیز شجاعت، نظم و ضبط اور وفاداری نے تین صدیوں تک یورپی قوتوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی اور سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی تمام فتوحات بلاشبہ اسی کے زور بازو کا نتیجہ تھیں۔
ینی چری کے تین مختلف دستے تھے جن میں یایا، سکبان اور آغا بولک لری شامل تھے۔ ینی چری کا سب سے بڑا عہدے دار ینی چری آغاسی کہلاتا۔ ایک عہدہ ینی چری آفندی سی ہوتا تھا جو دراصل کاتب تھا اور تنخواہ دینا اس کے ذمہ تھا۔ زمانۂ امن میں دیوان کے اجلاس میں پہرہ دینا، آگ بجھانے، اعلیٰ عہدے داروں کی حفاظت، امن و امان قائم کرنے میں مدد و دیگر ذمہ داریاں ینی چری کے سپرد ہوتی تھیں۔ ینی چری کے لیے اپنے افسروں کی اطاعت پہلی شرط اور اتحاد و مساوات، ظاہری نمود و نمائش سے پرہیز اور دین داری بھی ضروری تھیں۔ جنگ کے دوران ینی چری قلب میں سلطان کے گرد ہوتے۔ ابتدا میں صرف نو مسلم مسیحی ہی اس میں بھرتی کیے جاتے بعد ازاں مسلمان بھی بھرتی کیے جانے لگے۔ جب تک سلاطین مضبوط تھے ینی چری قابو میں رہے لیکن عنان حکومت کمزور ہاتھوں میں آتے ہی ینی چری سرکش ہو گئے اور بدعنوانی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور یہ فوج سلطنت کے لیے مستقل خطرہ بن گئی اور 1826ء میں محمود ثانی نے بالآخر اس کو ختم کر ڈالا۔ ینی چری کے خاتمے کو واقعۂ خیریہ کہا جاتا ہے۔
سپاہی
مستقل پیدل فوج کے علاوہ ایک مستقل سوار فوج بھی تھی جو سپاہی کہلاتی۔ ان کی تربیت بھی اعلیٰ انداز میں کی جاتی اور ذہنی قابلیت کے لحاظ سے بہتر سپاہیوں کو حکومت کے انتظامی شعبے کے لیے منتخب کر لیا جاتا تھا۔ سلیمان اعظم کے بعد ینی چری کی طرح ان میں بھی بد عنوانیاں ہونے لگیں۔
مہتران
عثمانی آرمی کا بینڈ جو فوجی مہمات کے دوران میں دھنیں بجا کر جوانوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتا۔ مہتران عام طور پر ینی چری کا حصہ ہوتے۔
نظام جدید
19 ویں صدی کے اوائل میں افواج کی جدید خطوط پر تربیت کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور 1826ء میں سلطان محمود ثانی نے ینی چری کا خاتمہ کر کے ایک جدید عثمانی فوج کی بنیاد رکھی جسے نظام جدید کا نام دیا گیا۔ نظام جدید افواج مصروف اور ردیف میں تقسیم کی گئی تھیں اور اس کی خصوصیات یہ تھیں:
- افواج کی مدت ملازمت بیس سال تھی۔
- سالانہ بھرتی کی تعداد 50 ہزار تھی۔
- پہلے غیر مسلموں کو فوجی خدمت سے مستثنٰی سمجھا جاتا تھا لیکن بعد ازاں انھیں بھی فوج میں شامل کیا گیا۔
- فوج کا امیر سپہ سالار اعظم ہوتا۔
عثمانی بحریہ
1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی اور 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں اور 1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران میں بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کے عروج کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان میں بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا تھا۔ یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ 1585ء میں عثمانی امیر البحر مراد رئیس نے جزائر کناری میں لانزاروت کو فتح کیا۔ 1617ء میں عثمانی افواج نے مدیرہ پر بھی قبضہ کیا اور بعد ازاں اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران میں آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ء) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا جو 194 بحری جہازوں پر مشتمل تھا لیکن زوال پزیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ اصلاح پسند مدحت پاشا اور 1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمان کی حمایت کے بعد سلطان عبد الحمید ثانی (دور حکومت: 1876ء تا 1908ء) کا اعتبار بحریہ پر سے اٹھ گیا۔ اور روس کے خلاف جنگوں میں کوئی استعمال نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اکثر بحری جہاز شاخ زریں میں بند کر دیے گئے جہاں وہ اگلے 30 سالوں تک سڑتے رہے۔ 1908ء میں نوجوانان ترک انقلاب کے بعد اتحاد و ترقی جمعیتی نے ملک کا نظم و ضبط سنبھالنے کے بعد بحریہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی اور عوامی چندے سے عثمانی بحریہ فاؤنڈیشن تشکیل دی گئی اور عوامی رقم سے ہی بڑے بحری جہازوں کی خریداری شروع کی گئی۔
امیر البحر
- مزید دیکھیے:قپودان پاشا، فہرست وزراء قپودان پاشا، پیری رئیس، خیر الدین بارباروسا، طرغت پاشا، پیالے پاشا، سیدی علی
عثمانی امیر البحر کپتان پاشا (یا قپودان پاشا) کہلاتا تھا۔ سلطنت کے معروف امیر البحروں میں خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی تاریخ کے ساتھ یورپ کی بحری تاریخ میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔
عثمانی فضائیہ
عثمانیہ فضائیہ کی بنیاد جون 1909ء میں رکھی گئی اس طرح یہ دنیا کی قدیم ترین جنگی ہوا بازی کے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب سلطنت عثمانیہ نے اپنے دو ترک ہوا بازوں کو پیرس میں منعقدہ بین الاقوامی ہوا بازی کانفرنس شرکت کے لیے بھیجا۔ فضائی جنگ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر عثمانی حکومت نے اپنے عسکری ہوا بازی کے منصوبے کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے 1910ء کے آخر میں متعدد افسران کو تربیت کے لیے یورپ بھیجا گیا جنھوں نے وہاں جنگی ہوا بازی کی تربیت حاصل کی۔ رہائش کی ناقص سہولیات کے باعث تعلیم کا یہ منصوبہ ختم ہو گیا اور زیر تربیت اہلکار 1911ء کے اوائل میں ترکی واپس آ گئے۔ فضائیہ کے قیام کے لیے حکومتی رہنمائی کے خاتمے کے باوجود اس وقت کے عثمانی وزیر دفاع محمد شوکت پاشا نے عسکری فضائی منصوبے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری رکھیں اور دو افسران کو فرانس تربیت کے لیے بھیجا۔ ان ہوا بازوں کی تربیت فروری 1921ء میں مکمل ہوئی اور اسی سال مزید ترک افسران کو فرانس بھیجا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے 3 جولائی 1912ء کو استنبول میں فضائی اکادمی کے قیام کے ذریعے اپنے ہوا بازوں اور طیاروں کی تیاری اور اپنے افسران کی تربیت کا آغاز کیا۔ ترک ہوا بازوں کی نا تجربہ کاری کے باعث بلقان جنگوں کے پہلے مرحلے (1912ء) میں متعدد جہازوں کا نقصان اٹھانا پڑا تاہم دوسرے مرحلے (1913ء) میں انھیں کئی کامیابیاں ملیں۔ بلقان جنگوں کے خاتمے کے بعد فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل کا آغاز کیا گیا اور نئے طیارے خریدے گئے۔ جون 1914ء میں استنبول میں ہی نئی عسکری اکادمی "بحری ہوا بازی اکادمی" کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ عمل رک گیا البتہ 1915ء میں چند جرمن افسران سلطنت میں آئے اور چند ترک افسران تربیت کے لیے جرمنی گئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں عثمانی فضائیہ کئی محاذوں پر لڑی جن میں مغرب میں گلیسیا، مشرق میں قفقاز اور جنوب میں یمن کے علاقے تک شامل تھے۔ عثمانی فضائیہ کو از سر نو منظم کرنے کی کوششیں جاری تھیں کہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور استنبول پر اتحادیوں کے قبضے کے ساتھ ہی ان کا خاتمہ ہو گیا۔
عدالتی نظام
شیخ الاسلام
قسطنطنیہ کے مفتی کا درجہ تمام قاضیوں سے بڑھ کر تھا اور اسے مفتی اعظم کہا جاتا تھا۔ محمد فاتح نے اسے شیخ الاسلام کا لقب بھی عطا کیا۔ تمام قوانین کا تعلق شیخ الاسلام سے تھا اور اس کی حیثیت عباسی دور کے قاضی القضاۃ کی سی تھی۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ شیخ الاسلام کا عہدہ وزارت عظمٰی کے بعد سب سے بڑا تھا۔ شیخ الاسلام کا تقرر عام طور پر تمام عمر کے لیے ہوتا تھا۔ صوبائی افسران صدر اعظم اور صدر اعظم سلطان کے سامنے جواب دہ تھا لیکن شیخ الاسلام صرف خدا کو جواب دہ تھا اور وہ ہر کام شریعت کے مطابق کرتا تھا۔ شیخ الاسلام کے اختیارات انتہائی وسیع تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان کی معزولی کے متعلق اس کا فتویٰ بہت ضروری تھا اور اس کے بغیر سلطان کی معزولی ممکن نہ تھی۔ سلطان کی نماز جنازہ بھی وہی پڑھاتا تھا۔ دور انحطاط میں اس منصب میں بھی کئی خامیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ عثمانیوں کے پورے دور میں 131 شیوخ الاسلام ہوئے۔ 19 نے استعفٰی دیا اور تین کو پھانسی دی گئی۔ اکثریت ترکی النسل تھی۔ 1442ء میں اس منصب کی ابتدا ہوئی اور مراد دوم کے عہد کے حضرت ملا شمس الدین فناریپہلے شیخ الاسلام تھے۔ آخری شیخ الاسلام مدنی محمد نوری آفندی تھے جنھوں نے سلطنت کے خاتمے پر 1922ء میں استعفٰی دے دیا۔ اس طرح یہ عہدہ 498 سال برقرار رہا۔
قاضی
- مزید دیکھیے: قاضی عسکر
تمام قاضی شہر کے منصف ہوا تھے اور ان کا حلقۂ اختیار قریبی علاقوں پر بھی تھا۔ قاضیوں کا حلقۂ اختیار ادارۂ حکومت سے زیادہ وسیع تھا۔ مثلاً کریمیا اور شمالی افریقہ کی ریاستیں اگرچہ انتظامی حیثیت سے مرکزی حکومت کے تابع نہ تھیں بلکہ وابستہ حکومتیں تھیں لیکن یہ بھی عثمانی نظام عدالت کے ماتحت تھیں۔ محمد فاتح نے قانون نامہ میں محکمہ قضا کو ایک ستون قرار دیا تھا اور مملکت کے قوانین کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی تھی۔
ثقافت
کیونکہ سلطنت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ایک وسیع سلطنت تھی اس لیے اسے کسی واحد ثقافت کے طور پر بیان کرنا مشکل ہے البتہ مختلف مراکز میں اس کے مختلف روپ تھے۔ قسطنطنیہ کی شہری وضع نے دمشق، بغداد، مکہ، مدینہ، قاہرہ اور تیونس و الجزائر پر اثر انداز ہوئی۔ فنکاروں کا اجتماع قسطنطنیہ میں تھا لیکن دستکاری اور صنعت کی غیر معمولی ترقی اناطولیہ میں ہوئی جس میں بروصہ اور ازنک کو اہم مقام حاصل تھا۔ کئی اہم شہروں میں کارخانے پوری سلطنت کو کپڑا اور ظروف فراہم کرنے کے علاوہ غیر ممالک کو بھی اشیاء برآمد کرتے تھے۔ پارچہ بافی کے علاوہ قالین سازی بھی سلطنت کی اہم ترین صنعت تھی۔
عثمانی فن تعمیر
سلطنت عثمانیہ کا ابتدائی فن تعمیر سلجوقی طرز تعمیر سے متاثر تھا لیکن قسطنطنیہ کی فتح کے بعد یہ رومی طرز تعمیر کے زیر اثر آ گیا لیکن بعد ازاں اس میں مزید بہتری لائی گئی اور بالآخر جدید عثمانی طرز تعمیر دنیا بھر میں معروف ہوا۔ عثمانی سلاطین نے فن تعمیر پر خاص توجہ دی۔ ینی شہر، بروصہ، ادرنہ اور قسطنطنیہ میں مساجد، مدارس اور محلات کی تعمیر اور فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطنت بھر میں عثمانی تعمیرات اس عظیم سلطنت کی شوکت و عظمت کی آئینہ دار ہیں اور آج بھی اس شاندار ماضی کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ چودہویں صدی کی عثمانی دور کی مساجد میں سلجوقی طرز ہر جگہ نمایاں ہے جس کی اہم ترین مثالیں بروصہ کی شاندار مساجد ہیں جن میں بایزید جامع اور اولو جامع نمایاں ہیں۔ پندرہویں صدی میں استنبول کی مساجد میں بروصہ کی طرز کی تقلید کی گئی لیکن بڑی مساجد میں ایاصوفیہ جامع کے طرز تعمیر کی تقلید کی گئی جو بازنطینی گرجا تھی جسے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ترک معماروں نے جدید عثمانی طرز تعمیر کی کئی شاندار اور بلند عمارات بنائیں جن میں فاتح جامع، سلیمیہ جامع، سلیمانیہ جامع اور اورتاکوئے جامع نمایاں ہیں۔ عثمانی طرز تعمیر ان عمارتوں کے ذریعے آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے حتٰی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ترک تارکین وطن نے مساجد تعمیر کیں وہ اسی طرز تعمیر کا شاہکار ہیں۔ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد کے مینار بھی ترک طرز تعمیر کے حامل ہیں۔
عثمانی طرز تعمیر کا تذکرہ سنان پاشا کے بغیر ادھورا ہے جس نے اپنے طرز اور ہنر سے اس عہد کے طرز تعمیر کو چار چاند لگا دیے۔ سولہویں صدی کی عثمانی تعمیرات میں سنانی طرز ہر جگہ نمایاں ہے اور آج بھی شاندار شکل میں موجود ہے۔ شہزادہ مسجد اور سلیمیہ مسجد اس عظیم معمار کے فن پارے ہیں۔ سنان نے قسطنطنیہ، ادرنہ اور دیگر شہروں میں کئی عظیم مساجد تعمیر کیں۔ عثمانیوں کے تیار کردہ توپ قاپی اور دولما باغچہ محلات اپنے وقت کے تعمیرات کے عظیم ترین شاہکار تھے جن میں اول الذکر عثمانی اور ثانی الذکر یورپی طرز تعمیر کے زیر اثر ہے۔
عثمانی ترکی زبان
عثمانی ترکی زبان مملکت کی اہم ترین زبان تھی جو عربی اور فارسی کے زیر اثر تھی۔ عثمانیوں کے عدالتی و دفتری معاملات میں یہی زبان استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن ایک وسیع سلطنت کے باعث اس میں مختلف مقامات پر مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں اور آخری ایام میں فرانسیسی اور انگریزی بھی غیر مسلموں کے اعلیٰ طبقے میں بڑے پیمانے پر بولی جاتیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فارسی ادبی اور عربی مذہبی زبان کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔
مذہب
عثمانی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا لیکن غیر مسلموں خصوصاً اہل کتاب (مسیحیوں اور یہودیوں) سے ان کا اعلیٰ رویہ مسلمانوں کی وسیع القلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد مقامی مسیحیوں کو شہر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے چند گرجوں کو بھی بحال رکھا۔ 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد اسپین سے نکالے گئے مسلمانوں کو بخیریت مسلم سرزمین پر پہنچانے کی جو عظیم مہم چلائی گئی اس میں کئی یہودیوں کو بھی مسیحیوں کے مظالم سے بچا کر ترک سرزمین پر لایا گیا اور انھیں سلطنت عثمانیہ میں آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی۔ اسلامی شریعت مملکت کا بنیادی قانون تھا اور اس کا ماخذ قرآن و حدیث تھے اور ان دونوں سے رہنمائی نہ ملنے کی صورت اجماع یا قیاس سے کام لیا جاتا۔
علم و ادب
سلاطین عثمانیہ علم و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے علما و فضلاء کی بے حد تعظیم و تکریم کی جاتی اور ان کے لیے باعزت روزگار فراہم کیا جاتا تھا۔ محمد اول کے دور میں علم و ادب کی بھرپور سرپرستی کی گئی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دراصل انہی کے دور میں سلطنت میں ادب خصوصاً شاعری کو ترویج دی گئی۔ سلطان محمد فاتح ترکی زبان کے ایک صاحب دیوان شاعر تھے۔ مطالعہ کا بے حد شوق رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے دور حکومت میں دیگر علوم و فنون کی ترویج کا کام بھی کیا۔ بایزید کو تصوف، مذہب اور شاعری سے دلچسپی تھے جبکہ سلیم اول کو تاریخ و فارسی شاعری کے علاوہ مطالعے کا بھی شوق تھا۔ فارسی زبان میں سلیم اول کی کچھ نظمیں بھی موجود ہیں۔ مراد ثانی تصوف کی ایک کتاب کے باعث شہرت رکھتے تھے۔ عثمانی حکمرانوں میں 21 کے بیاض ملتے ہیں۔ دراصل عثمانی ادب اور فارسی ادب ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کے دو دور نمایاں نظر آتے ہیں:
- دینی دور: آغاز سے دور تنظیمات یعنی 1839ء تک
- درمیانی دور: تنظیمات سے جمہوریہ کے اعلان تک
- اصلاحات کا دور: یہ تیسرا دور کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد شروع ہوا اس لیے ہمارا موضوع بحث نہیں۔
محمد فاتح کے دور میں تعلیم کے سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا، وہ خود بھی علما کا بڑا قدر دان تھا۔ محمد کے جانشینوں نے تعلیم کو خوب پھیلایا اور ہر سلطان ایک مسجد ضرور تعمیر کرتا جس کے ساتھ مدرسہ قائم کرنا بھی لازمی تھا۔ یوں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مدارس کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ مصطفٰی ثالث کے عہد میں صرف قسطنطنیہ میں تقریباً تین سو مدارس تھے۔ دور تنظيمات میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا۔ تعلیم کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1892ء میں ہر صرف قسطنطنیہ میں ہر قسم کے مدارس کی تعداد 500 تھی جن میں 13 بڑے کالج تھے۔
عثمانی دار الحکومت
سلاطین عثمانی
تصویر | لقب | نام | دور حکومت |
---|---|---|---|
امیر غازی | عثمان بن ارطغرل | 1281–1324 | |
غازی بیگ | اورخان غازی | 1324–1362 | |
خداوندگار | مراد خان خداوندگار | 1362–1389 | |
یلدرم | بایزید یلدرم | 1389–1402 | |
سلطان | محمد چلبی | 1413–1421 | |
سلطان | مراد خوجا | 1446–1451 | |
فاتح | محمد فاتح | 1451–1481 | |
ولی | بایزید ولی | 1481–1512 | |
یاووز | سلیم یاووز | 1512–1520 | |
قانونی | سلیمان قانونی | 1520–1566 | |
ساری | سلیم دوم | 1566–1574 | |
خلیفہ | مراد سوم | 1574–1595 | |
عادل | محمد عادلی | 1595–1603 | |
بخت | احمد بخت | 1603–1617 | |
خلیفہ | مصطفٰی اول | 1617–1618 | |
شہید | عثمان دوم | 1618–1622 | |
خلیفہ | مصطفٰی اول | 1622–1623 | |
صاحبقراں، غازی | مراد چہارم | 1623–1640 | |
شہید | ابراہیم اول | 1640–1648 | |
خلیفہ | محمد چہارم | 1648–1687 | |
غازی | سلیمان دوم | 1687–1691 | |
خان غازی | احمد دوم | 1691–1695 | |
غازی | مصطفٰی دوم | 1695–1703 | |
غازی | احمد سوم | 1703–1730 | |
غازی | محمود اول | 1730–1754 | |
خلیفہ | عثمان سوم | 1754–1757 | |
خلیفہ | مصطفٰی سوم | 1757–1774 | |
خلیفہ | عبدالحمید اول | 1774–1789 | |
خلیفہ | سلیم سوم | 1789–1807 | |
خلیفہ | مصطفٰی چہارم | 1807–1808 | |
خلیفہ | محمود دوم | 1808–1839 | |
خلیفہ | عبد المجید اول | 1839–1861 | |
خلیفہ | عبد العزیز اول | 1861–1876 | |
خلیفہ | مراد پنجم | 1876 – 1876 | |
خلیفہ | عبدالحمید دوم | 1876–1909 | |
خلیفہ | محمد پنجم | 1909–1918 | |
خلیفہ | محمد وحید الدین | 1918–1922 |
عثمانی شخصیات
مزید دیکھیے
بیرونی روابط
انگریزی زبان میں
سلطنت عثمانیہ: ایک خاکہ بحساب زمانی ترتیب
- سلطنت عثمانیہ:بحری نقشے
- سلطنت عثمانیہ: ایک لازوال ریاستآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ottomanfoothill.googlepages.com (Error: unknown archive URL)
- عثمانی ویب گاہ
- سلطنت عثمانیہ 1600ء میں یورپ کا نقشہ جس میں سلطنت کا تفصیلی نقشہ بھی موجود ہے
- ترک سلطنت کی تاریخ
- عالمی تہذیبیں: عثمانی —
ایک جامع سائٹ جو عثمانی ریاست اور حکومت کے بارے میں وسیع معلومات کا احاطہ کرتی ہے
- سلطنت عثمانیہ کے دار الحکومت — مختلف عثمانی دارالحکومتوں کا احاطہ
- عثمانیوں کے بارے میں معلومات
ترکی زبان میں
- تصاویرِ سلطنت عثمانیہ ڈاؤنلوڈ کریں آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ barbaros.biz (Error: unknown archive URL)
- سلطنت عثمانیہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا)
- سلطنت عثمانیہ کے پرچم آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ discoverturkey.com (Error: unknown archive URL)
- سلطنت عثمانیہ کے بارے میں معلومات
حوالہ جات
ویکی ذخائر پر سلطنت عثمانیہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
<link rel="mw:PageProp/Category" href="۔/زمرہ:ترک_ریاستیں"/>
- ↑ Ottoman Capital Bursa۔ Official website of Ministry of Culture and Tourism of the Republic of Turkey. Retrieved 26 جون 2013.
- ↑ "It served as the capital of the Ottoman Empire from 1413 until 1453 and flourished as an administrative, commercial, and cultural centre." "Edirne" دائرۃ المعارف بریطانیکا۔ Retrieved 27 جون 2013
- ↑ Thomas D. Hall، Jonathan M. Adams (2006)۔ "East-West Orientation of Historical Empires" (PDF)۔ Journal of World-Systems Research۔ 12 (2): 219–229۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2013 الوسيط
|first1=
يفتقد|last1=
في Authors list (معاونت); "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 22 فروری 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2013 - ↑ Dündar, Orhan; Dündar, Erhan, 1.Dünya Savaşı، Millî Eğitim Bakanlığı Yayınları، 1999, ISBN 975-11-1643-0
- ↑ Edward J. Erickson۔ Defeat in detail: the Ottoman Army in the Balkans, 1912–1913۔ صفحہ: 59
- ↑ The old name of Edirne was Adrianople. After the capture of the city by Ottomans, it was renamed Edirne.
- ↑ The official name of Istanbul was Kostantiniyye (قسطنطينيہ) under the Ottoman Empire. The name Constantinople continue to be used by Westerners until 1930. Istanbul became its official name after the city's name was officially changed by the Turkish government on 28 مارچ 1930.
- ↑ محمد وحید الدین، the last Sultan, was expelled from Constantinople on 17 نومبر 1922.
- ↑ The معاہدہ سیورے (10 اگست 1920) afforded a small existence to the Ottoman Empire. On 1 نومبر 1922, the Grand National Assembly (GNAT) abolished the sultanate and declared that all the deeds of the Ottoman regime in Istanbul were null and void as of 16 مارچ 1920, the date of the occupation of Constantinople under the terms of the Treaty of Sevres. The international recognition of the GNAT and the Government of Ankara was achieved through the signing of the معاہدہ لوزان on 24 جولائی 1923. The Grand National Assembly of Turkey promulgated the "Republic" on 29 اکتوبر 1923, which was the end of the Ottoman Empire in history.