کاغذی کرنسی
کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔ ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی ایجاد کے بعد دھاتی کرنسی آہستہ آہستہ کاغذی کرنسی میں تبدیل ہو گئی جبکہ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
کرنسی نہ صرف انسانوں کو کنٹرول کرتی ہے بلکہ حکومتوں کو بھی کنٹرول کر سکتی ہے۔[1]
ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر (کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس)، کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔[2] مارکو پولو لکھتا ہے: "آپ کہہ سکتے ہیں کہ قبلائی خان کو کیمیا گری (یعنی سونا بنانے کے فن) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی"۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔
کاغذی کرنسی سینٹرل بینک جاری کرتا ہے۔ مارکوپولو وہ پہلا آدمی تھا جس نے چین میں سینٹرل بینکنگ سیکھی اور وینس واپس آ کر یورپ والوں کو سکھائی۔[3] یعنی مارکوپولو صرف سیاح نہیں تھا بلکہ مغربی دنیا کا پہلا سینٹرل بینکر بھی تھا۔ اس طرح یورپ میں سینٹرل بینکنگ کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔[4][5][6][7] کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ [8] [9] [10][11][12][13][14][15][16][17]کرنسی تخلیق کرنا اور عوام کو اس کے استعمال پر مجبور کرنا حکومت یا مرکزی بینک کو بہت بڑی طاقت عطا کرتا ہے۔
جولائی، 2006ء کے ایک جریدہ وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا ہے"۔[18][19][20] مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔[21] 1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔[22][23] بنجمن ڈی اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے عوام بینکاری اور مالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔[23] روتھسچائلڈ نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔[24]
زر
روپیہ، پیسہ، نقدی، رقم سکّہ یا کرنسی سے مراد ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے
- دوسری چیز خریدی یا بیچی جا سکے۔
- خدمت خریدی یا بیچی جا سکے۔ (خدمت کا معاوضہ، اجرت، مزدوری، تنخواہ، فیس، کمیشن ادا کیا جا سکے۔)
- کرایہ، قرض، بھتہ اور محصول دیا اور لیا جا سکے۔
- تحفہ، رشوت، چندہ، خیرات وغیرہ دی اور لی جا سکے۔
- خون بہا اور مہر ادا کیا جا سکے۔[25]
- بچت کی جا سکے۔ یہ وہ واحد شرط ہے جو بہت کم کرنسیوں میں ممکن ہوتی ہے۔
کرنسی کو زر یا زرمبادلہ بھی کہتے ہیں۔ روپیہ کی ایجاد سے پہلے لین دین اور تجارت "چیز کے بدلے چیز" (یعنی بارٹر نظام) کے تحت ہوتی تھی مثلاً گندم کی کچھ بوریوں کے عوض ایک گائے خریدی جا سکتی تھی۔ اسی طرح خدمت کے بدلے خدمت یا کوئی چیز ادا کی جاتی تھی۔ لیکن گندم اور گائے کی صورت میں لمبی مدت کے لیے بچت ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی دوسری کرنسی کی ضرورت موجود تھی جس میں بچت بھی آسان ہو۔
کرنسی کی خوبیاں
ہر کرنسی میں چار خوبیاں ہونی چاہئیں:
- فوری لین دین کی صلاحیت یعنی وسیلۂ مبادلہ; کرنسی میں یہ صلاحیت لوگوں کے اعتبار سے آتی ہے جو ماضی کے تجربات پر منحصر ہوتا ہے۔[26]
- بچت کی صورت میں قدر کی برقراری یعنی Store of value; کاغذی کرنسی مبادلے کی صلاحیت تو رکھتی ہے مگر قدر کی برقراری نہیں رکھتی ( یعنی وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ اس کے برعکس سونا قدر کی برقراری تو بہت اچھی رکھتا ہے مگر چھوٹے لین دین کے لیے مناسب نہیں ہے۔
- منتقلی یا نقل و حمل کی آسانی; مکان اور زمین، اثاثہ تو ہوتے ہیں مگر غیر منقولہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نہیں بن سکتے جبکہ الیکٹرونک کرنسی صرف منتقلی کی آسانی کی وجہ سے مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں مویشیوں کو بطور کرنسی صرف اس لیے استعمال کرتے تھے کہ انھیں ضرورت کی جگہ پر ہانک کر منتقل کرنا آسان اور کم خرچ ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کرنسی قوت خرید کو منتقل اور موخّر کرنے کا ذریعہ ہے۔ (Money is a transmitter of value through space and time)
- کرنسی قابل تقسیم ہونی چاہیے; اگر سونے کے ایک ٹکڑے کے دس حصے کر دیے جائیں تو یہ دس ٹکڑے مل کرلگ بھگ اسی قیمت کے ہوں گے۔ لیکن اگر کسی قالین یا ہیرے کے دس ٹکڑے کر دیے جائیں تو ان ٹکڑوں کی مجموعی قیمت بری طرح گر جائے گی۔
روپیہ، ڈالر یا کسی بھی کرنسی کو اگرچہ تبادلے کا وسیلہ (Medium of Exchange) سمجھا جاتا ہے مگر کرنسی محض ایک خیال کا نام ہے جس پر سب کو اعتبار ہو (Money is an Idea, backed by confidence)۔ لوگوں کا یہ اعتبار ہی کاغذ، پلاسٹک، دھات یا کریڈٹ کارڈ کو کرنسی کا درجہ دیتا ہے۔[27]
مالیات کی زبان میں کرنسی کو اکثر circulating medium کہا جاتا ہے۔ کاغذی کرنسی گردشی قرضوں کی ایک قسم ہوتی ہے۔
- "paper money – privately-produced circulating debt"[28]
یہ گردشی قرضے کبھی وصول نہ کرنے کی نیت سے جاری کیے جاتے ہیں۔[29] اور اسٹاک مارکیٹ کی جان ہوتے ہیں۔
فروری 2010ء میں امریکی فیڈرل ریزرو کے چیرمین بن برنانکے نے سینٹ کی فائینینس کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ "کرنسی محض بے معنی سماجی رواج ہے"[30] جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کاغذی کرنسی کا رواج قانونی جبر کے ذریعے نافذکیا گیا۔[31] [32] قانونی اعتبار سے کرنسی دو طرح کی ہوتی ہیں۔
- ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کیا جا سکے مثلاً بینک کا چیک یا انعامی بونڈ
- ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کرنا جرم ہو۔ ایسی کرنسی "لیگل ٹینڈر" کہلاتی ہے اور حکومتی دھونس کی وجہ سے قبول کرنی پڑتی ہے۔ لیگل ٹینڈر کے قوانین درحقیقت پرائیوٹ کرنسی کی نیشنالائزیشن کرتے ہیں۔[33] دنیا میں سب سے پہلے چین میں قبلائی خان کی کاغذی کرنسی لیگل ٹینڈر بنی۔ فرانس میں کاغذی کرنسی کو 10 اپریل 1717ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔[34] اگلے سال یہ برطانیہ میں لیگل ٹینڈر بنی۔ سو سال بعد ہندوستانی چاندی کا روپیہ 1818ء میں قانونی ٹینڈربنا۔[35] بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کاغذی نوٹوں کو 1833ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔[5] امریکی کانگریس نے 1862ء میں کاغذی ڈالر کو لیگل ٹینڈر قرار دیا[36] جو اس وقت "گرین بیک" (greenbacks) کہلاتا تھا۔[37]
ایل سلواڈور (El Salvador) دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے ستمبر2021ء میں بٹ کوائن کو لیگل ٹینڈر تسلیم کیا۔ ایل سلواڈور میں بٹ کوائن کی صرف چار ATM مشینیں (BTM) نصب ہیں جبکہ امریکا اور کینیڈا میں ایسی مشینوں کی تعداد 24669 ہے۔[38]
Money is a social construct....a social tool that acts as an intermediary in transactions.[39]
جب سکے سونے چاندی کے وزن کے لحاظ سے ہوا کرتے تھے اس وقت کرنسی واقعی سماجی رواج (social construct) ہوا کرتی تھی۔ لیکن حکومت اور بینک کے گٹھ جوڑ[40] سے بنی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی سماجی بناوٹ کی بجائے قانونی مجبوری (legal construct) بن کر رہ گئی ہے۔
- کرنسی ایک حق کا نام ہے۔ کرنسی کسی دوسرے سے کچھ طلب کرنے کا حق دیتی ہے۔
- Money is a Right to demand something from someone else.[29]
- کرنسی ایک حق ہے جبکہ قرض ایک ذمہ داری ہے۔
- Money is a Right but Debt is a Duty.[29]
بغیر محنت کرنسی تخلیق کرنے کا حق صرف بینکوں کے پاس ہے۔ جبکہ محنت مشقت کر کے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری صرف عوام کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عوام قرض نہ لیں تو بھی انھیں حکومت کا لیا ہوا قرضہ بھرنا پڑتا ہے۔ حکومتی قرض وہ واحد قرض ہے جسے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور بھرنے والا کوئی اور۔ حکومتی قرضوں نے اُن بچوں کو بھی مقروض بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔[41]
- کاغذی کرنسی زبردستی دیا جانے والا قرض ہے جو صرف حکومتی طاقت پر قائم ہے۔ کاغذی کرنسی بددیانتی، بدعنوانی اور فریب کا جال ہے جو مکاروں کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
- Fiat paper money exists only through the monopolistic force of the state. Paper money is dishonest, corrupt, deceitful, and is managed by a cartel.[42]
- اس کے برعکس سونے کی کرنسی کو کسی سینٹرل بینک یا حکومتی کنٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی۔
- gold doesn’t require “management” by central bankers.[43]
- استعمال کے لیے کرنسی پر اعتبار ضروری ہے اور اعتبار کے لیے اچھی ساکھ ضروری ہے۔ لیکن جب کرنسی کے معاملات میں حکومت کی مداخلت شامل ہو جاتی ہے تو کرنسی کے معاملات میں کرپشن لازماً ہوتی ہے۔۔۔۔ ہمارا مالیاتی نظام پونزی اسکیم کا باپ بلکہ دادا ہے۔
- To be used, money needs to be trusted, and to be trusted it needs to have integrity. But when you involve the government in money inevitably it gets corrupted... The granddaddy of Ponzi — far greater than anything we’ve seen before — is our monetary system.[44]
سینٹرل بینکرز کی چھاپی (یا تخلیق کی) ہوئی کرنسی کیپیٹل (سرمائیہ) کہلاتی ہے جو غریب کو صرف کریڈٹ (قرض) کی شکل میں زندگی گزارنے کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔
- "capital" is what matters to the wealthy and powerful because they own the vast majority of it while "credit" is what matters to the poor, as credit is their only way to acquire a bit of capital to invest in their own enterprise / household..... The poor owe debt, the wealthy own debt[45]
سال | تناسب فیصد |
---|---|
مالی سال 2010ء | 62.4
|
مالی سال 2011ء | 60.1
|
مالی سال 2012ء | 63.3
|
مالی سال 2013ء | 63.9
|
مالی سال 2014ء | 63.5
|
مالی سال 2015ء | 63.3
|
مالی سال 2016ء | 67.6
|
مالی سال 2017ء | 67.0
|
مالی سال 2018ء | 72.1
|
مالی سال 2019ء | 87.9
|
سال | قرض (ارب ڈالر میں) |
---|---|
مالی سال 2016ء | 73
|
مالی سال 2017ء | 86
|
مالی سال 2018ء | 93
|
مالی سال 2019ء | 100
|
مالی سال 2020ء | 116
|
مالی سال 2021ء | 127
|
کاغذی دولت کا دوہرا کردار
کرنسی چھاپنے والا شخص، ادارہ یا ملک ایک عجیب و غریب صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید کر اسے کم قیمت میں فروخت کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے نقصان کو نوٹ چھاپ کر پورا کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے۔
- “It’s a controlled market – this is not a free market! Energy is probably the most controlled market in the world, food being second.”[49]
- The idea of colonising, to purchase, at a dearer rate, the tropical productions, is quite new.[50]
- Fiat money ruins many market incentives. The reason is because there's a special buyer in the market that has much less price sensitivity. That buyer, of course, is the fiat money creator.[51]
یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کی پیداوار کی قیمت گرتی جا رہی ہے جبکہ کیپیٹلسٹ ممالک کی پیداوار مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی تب تک یہ ممکن نہ تھا۔[52]
کرنسی تخلیق کرنے والا اسٹاک مارکیٹ میں کسی بھی شیئر کی قیمت گرا یا بڑھا سکتا ہے۔[53][54]
- Central banks in the US, Japan, Europe, and elsewhere have enormous powers that they have used without batting an eye, rigging and manipulating markets, destroying livelihoods on one side and shifting enormous wealth to a small number of players on the other side.[55][56]
یہی وجہ ہے جس ملک میں بھی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کرنے والا سینٹرل بینک موجود ہوتا ہے وہاں اسٹاک مارکیٹ لازماً موجود ہوتی ہے۔
- 9 اپریل 2020ء تک امریکی سینٹرل بینک کی بیلنس شیٹ ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کر کے صرف ایک مہینے میں 4000 ارب ڈالر سے بڑھ کر 6000 ارب ڈالر ہو گئی ہے تاکہ اسٹاک اور بونڈ مارکیٹ کے ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔
- the Fed balance sheet which is now well above $6 trillion to make sure stocks and bonds don't crash.[57]
1919ء میں ہٹلر یہ جان کر سخت حیران ہوا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں استعمال ہونے والے کیپیٹل (بینکنگ کریڈٹ) اور (معیشت کو) قرض دیے جانے والے کیپیٹل (تجارتی کریڈٹ) میں بڑا فرق ہے۔ اُسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ بین الاقوامی سرمائے سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ملکی معیشت کو اسٹاک مارکیٹ سے الگ رکھنا پڑے گا۔ 1926ء میں اپنی خودنوشت[58] مائن کیمف (میری جدوجہد) میں وہ لکھتا ہے
- "For the first time in my life I heard a discussion which dealt with the principles of stock exchange capital and capital "which was used for loan activities.[59]
عوام کی کرنسی اور بینک کی کرنسی (کریڈٹ) دو بالکل مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔[60] عوام نوٹ یا سکے استعمال کرتے ہیں لیکن بینک کھاتہ کرنسی[61] (زر اعتبار) استعمال کرتے ہیں جیسے چیک، ڈرافٹ وغیرہ۔
Money is medium of exchange (for people) and a record of account (for bankers)۔ Demand (and thus value) for a money increases if it is easy to transfer with low transaction/storage costs, and have low risk and high returns (when invested)۔[62]
عوام کے لیے کرنسی تبادلے کا وسیلہ ہوتی ہے لیکن جاری کنندہ کے لیے کرنسی عوام کی دولت چوسنے کا آلہ ہوتی ہے۔[63][64]
- کاغذی کرنسی کا جاری ہونا زبردستی قرضے کی بدترین مثال ہے۔ لینن
- issuing of paper money constitutes the worst form of compulsory loan[65]
کاغذی دولت پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا ایک بہترین اوزار ہے۔
- money as we know it is actually nothing but an illusion and is one of – if not the, biggest tools of control for the ruling elite of our world today.[66]
- "مقروض آدمی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مقروض ملک بھی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ قرض کا جال خفیہ ہوتا ہے اور اس مفروضے پر انحصار رکھتا ہے کہ یہ سب کی آزادانہ مرضی ہے جبکہ یہ سب (خود ساختہ) 'قانون' کے بوجھ تلے ہوتا ہے۔۔۔۔ قرض کی بنیاد پر کرنسی کے اجرا نے پچھلے ہزار سالوں میں معاشرت کو بالکل بدل ڈالا۔ اس نے زبردستی کی غلامی کو رضاکارانہ غلامی میں تبدیل کر دیا جس کا فائیدہ صرف چند بینکرز کو ہوتا ہے۔"
- "A person in debt is a person controlled…A nation in debt is a nation controlled. The debt trap is especially insidious, and it relies on the illusion of free will combined with the full weight of ‘the law.’ ...the introduction of debt-based money was arguably the most course-altering invention of the past thousand years. It transformed millions of human slaves kept in check by threat of power and physical coercion (if not death) into billions of humans perfectly willing to hand over their labor to a very few elites at the top who did little to no work themselves."[67]
"دنیا میں درحقیقت صرف ایک حکومت ہے اور وہ سرمائے کی حکومت ہے۔ ہر حکومت جو کاغذی سرمائے کو اپنی معیشت میں داخل ہونے دیتی ہے وہ سرمائے کی حکومت کی غلام ہے۔"
Every nation that allows capital to flow into its economy is subservient to the Empire of Finance. Every nation with capital and debt markets exposed to (or dependent on) global financial flows is just another fiefdom in the Empire of Finance.[68]
ماضی کی کرنسیاں
ماضی میں بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام، کنیز) شامل ہیں۔[69]
- حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔
- افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔
- پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکا اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔
- دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایہ سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔[70]
- جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سفید حوت (sperm whale) کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سکتی تھی یا خون بہا یا مہر ادا کیا جا سکتا تھا۔[71]
- انگولا کی خانہ جنگی (1975ء سے 2002ء) کے دوران میں بیئر کی بوتلیں بطور کرنسی استعمال ہوئیں۔[72]
- ایران میں کبھی کبھار ادائیگی زعفران کی شکل میں کی جاتی تھی۔
- ماضی میں تمباکو، خشک مچھلی، چائے، چینی اور چمڑے کے ٹکڑے بطور کرنسی استعمال ہو چکے ہیں۔[73]
تاریخ بتاتی ہے کہ
- سونا بادشاہوں کی کرنسی رہا ہے۔
- چاندی امرا اور شرفاء کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔
- چیز کے بدلے چیز کا نظام یعنی بارٹر سسٹم کسانوں اور مزدوروں کی کرنسی تھی اور
- قرض غلاموں کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔
ادائیگی کا وعدہ
ادائیگی کا التوا دولت سازی کے مترادف ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ادائیگی کا وعدہ، خواہ زبانی ہی کیوں نہ ہو، کرنسی کے برابر ہوتا ہے، اگرچہ صرف دو آدمیوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔ اور تحریری وعدہ تو کرنسی کی طرح زیر گردش (circulation) بھی آ سکتا ہے (جیسے حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کروں گا)۔ دوسرے الفاظ میں قرض (کریڈٹ) بھی کرنسی ہی کی ایک قسم ہے۔[74] لیکن فوری ادائیگی (spot trade) کے برعکس قرضہ (ادائیگی کا وعدہ) ڈوب سکتا ہے۔
- کرنسی (سونا، چاندی) دائمی ہوتی ہے جبکہ کریڈٹ (کاغذی کرنسی) دائمی نہیں ہوتی۔ سونے کو بینک فیل ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا جبکہ کاغذی کرنسی سینٹرل بینک فیل ہوتے ہی صفر ہو جاتی ہے۔
- Money is permanent while credit is not. Money has no counterparty risk, whereas credit does.[75]
سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعہ کی جانے والی لین دین مقایضہ نظام (Barter System) ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے (یعنی قوت خرید منتقل ہوتی ہے)۔ کاغذی کرنسی سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آئندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی دراصل قرض کی منتقلی ہوتی ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا ضامن سینٹرل بینک ہوتا ہے جس کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے۔ بینک کے قوانین ہر چند سال بعد تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن سونا ہزار سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا۔
- Gold thrives, paper dies.[76]
جب بارٹر سسٹم کے تحت لین دین ہوتی ہے تو خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں کوئی بینکر نہیں ہوتا۔ لیکن جب کاغذی کرنسی کے تحت ادائیگی کی جاتی ہے تو نظر نہ آنے کے باوجود خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں نہ صرف بینکر موجود ہوتا ہے بلکہ اپنے حصے کا منافع وصول بھی کرتا ہے۔ اگر جاپان قطر سے تیل خریدے اور ڈالر میں ادائیگی کرے تو امریکی بینکاروں کو اس سودے پر اپنے حصے کا منافع خود بخود مل جاتا ہے۔
دھاتی کرنسی یا بارٹر سسٹم کے ذریعے اجنبیوں کے درمیان میں بھی لین دین ہو سکتی ہے۔
قرض اور ادائیگی کے وعدے کے ذریعے اجنبی اُس وقت تک آپس میں خرید و فروخت نہیں کر سکتے جب تک درمیان میں کوئی ضامن نہ ہو۔ [77] یعنی اگر کرنسی ہارڈ ہو تو ضامن قدر کھو دیتا ہے۔ اس لیے سینٹرل بینک ہارڈ کرنسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام (capitalism) کی بنیاد امید ہے۔ امید کہ انویسٹر کو اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ سود ملے گا۔[78] اور اسی امید پر ہی لوگ اپنی اصل دولت بینکاروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو رقم بڑھا کر ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے۔[79]
ہر پونزی اسکیم کا لازمی جز ادائیگی کا وعدہ ہوتا ہے (جو امید قائم رکھتا ہے)۔ اگر ادائیگی فوری ہو (یعنی spot trade) تو کوئی بھی پونزی اسکیم پنپ نہیں سکتی۔ ادائیگی کا وعدہ درحقیقت چور دروازہ کھلا رکھتا ہے۔
جب لگ بھگ 1440ء میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں نے کتابیں، رسالے، اخبارات وغیرہ لکھ کر کچھ پیسہ کمایا۔ لیکن چالاک لوگوں نے بونڈ، شیئر اور کرنسی چھاپ کر بے تحاشہ پیسہ بنایا۔[80] انیسویں صدی کے وسط میں جب ٹیلی گرافی ایجاد ہوئی تو لوگوں نے اسے خبریں بھیجنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن بینکوں نے ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے ساری دنیا کی دولت لوٹی۔ درحقیقت سمندروں کی تہ میں ہزاروں میل لمبی ٹیلی گرافی کی لائینیں بچھانے والے لوگ یہی بینکار تھے۔ 1870ء تک لندن سے بمبئی تک ٹیلی گراف لائن کام شروع کر چکی تھی جو صرف چند منٹ میں پیغام یا بینک ڈرافٹ (ادائیگی کا تحریری وعدہ) ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا دیتی تھی۔[81] ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی ایجاد سے پہلے شرح تبادلہ (exchange rate) طلب و رسد کے مطابق مارکیٹ میں طے ہوتی تھی۔ لیکن اس ایجاد نے یہ حق مارکیٹ سے چھین کر بینکاروں کے حوالے کر دیا اور مارکٹیں بینکاروں کے ماتحت ہو گئیں[82]۔ اسی کے بعد چاندی کی قیمت بلحاظ سونا تیزی سے گرنے لگی۔ بینکوں کے لیے ٹیلی گرافی کی لائنیں دوسرے ممالک کی دولت چرانے کی سرنگ ثابت ہوئیں۔
- ٹیلی گرافی نے بینکنگ انڈسٹری میں پہلا انقلاب لا کر دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔
The financial world was changed forever when the telegraph gave the banking industry its first technological breakthrough. [83]
- the telegraph fostered modern financial instruments such as telegraphic transfer and settlement.[84]
- "اگر آپ دوسروں کی دولت کنٹرول کر سکتے ہیں تو جلد ہی آپ اس دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں"
- "Controlled assets are a step away from being owned.[85]"
ٹیلی گرافی اپنی نئی اور ترقی یافتہ شکل میں آج بھی بینکوں کو حاکمیت عطا کرتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت SWIFT ہے جسے امریکا دوسرے ممالک کو دھمکی دینے کے لیے کھلم کھلا استعمال کرتا ہے۔[86] سوئفٹ کا نظام دنیا کے 200 ملکوں میں 11000 بینکوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔[87]
مارچ 2012ء میں امریکا نے ایران کو سوئفٹ سسٹم سے کاٹ دیا تھا جس کی وجہ سے ایران کی درآمد و برآمد شدید متاثر ہوئی اور ایران کی تیل بیچ کر ہونے والی آمدنی صرف 40 فیصد رہ گئی اور ایران میں مہنگائی بہت بڑھ گئی جس کی وجہ سے 2015ء میں ایران کو Iran-nuclear deal پر آمادہ ہونا پڑا۔ اس معاہدے کے بعد ایران کو 2015ء میں دوبارہ سوئفٹ سے جوڑ دیا گیا اور ایران کی تیل کی آمدنی بحال ہو گئی۔[88] لیکن 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا اور دوبارہ ایرانی بینکوں پر شدید پابندیاں لگا دیں۔[89]
اگلے دور میں سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) بھی ایسا ہی کوئی گُل کھلائے گی۔[90] یہ ممکن ہے کہ کسی دن حکومت اچانک سارے بینک بند کر دے اور کئی دنوں تک بند رکھے۔ پھر لوگوں کو پیشکش کرے کہ جو چاہے وہ CBDC کی شکل میں اپنی پوری رقم واپس لے سکتا ہے۔ اس طرح لوگ CBDC استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔[91]
سکّوں کی تاریخ
پانچ ہزار سال قبل چاندی کے خام ڈلے بطور کرنسی استعمال ہوئے۔ هيرودوت کے مطابق سب سے پہلے ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکّے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔ سکے بنانے سے تولنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور محض گن کر کام چلایا جانے لگا۔ سکوں پر موجود مہر اس کے وزن اور خالصیت کی ضمانت ہوتی تھی۔[92]
- تاریخی حقائق
- قدیم چین کے سکّے گول ہوتے تھے جن میں چوکور سراخ ہوتا تھا جس کی مدد سے یہ ڈوری یا تار میں پروے جا سکتے تھے۔ چین میں یہ سکے کیش کہلاتے تھے۔
- امریکی ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح برطانوی پاونڈ سے مراد ایک پاونڈ وزن کی چاندی (Sterling) ہوا کرتی تھی۔[93]
- اٹھارویں صدی میں ہسپانوی ڈالر یورپ امریکا اور مشرق بعید میں تجارت کے لیے بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ چاندی کا سکّہ تھا جس میں 25.56 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ اسی کی طرز پر بعد میں امریکی ڈالر بنایا گیا تھا۔
- پہلا امریکی ڈالر 1794ء میں بنایا گیا جس میں 89.25% چاندی (21.42 قیراط) اور 10.75% تانبہ ہوتا تھا۔
- امریکا کے 1792ء کے سکوں سے متعلق قانون کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے سکے میں 24.1 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ 1792ء سے 1873ء تک سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا ہوتا تھا۔[94] امریکا کی دریافت کے بعد جیسے جیسے چاندی کی نئی کانیں دریافت ہوتی چلی گئیں چاندی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اب سونا چاندی سے 70 گنا سے زیادہ مہنگا ہے۔
- سنہ 1900ء میں امریکا میں طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) کا قانون لاگو ہوا جس پر صدر ولیم میک کنلے کے دستخط تھے۔ اس قانون کے تحت صرف سونا کرنسی قرار پایا اور چاندی سے سونے کا تبادلہ روک دیا گیا کیونکہ چاندی کی قیمتیں گر رہی تھیں اور چاندی کی دستیابی بڑھنے کی وجہ سے بڑے بینکوں کے لیے چاندی پر اجارہ داری برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اس قانون کے مطابق 20.67 ڈالر ایک ٹرائے اونس (31.1 گرام) سونے کے برابر قرار پائے۔ 25 اپریل 1933ء کو امریکا اور کینیڈا نے معیار سونا ترک کر دیا کیونکہ اس سال امریکا میں عوام پہ سونا رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
- پہلے سکّے اپنی اصل مالیت کے ہوا کرتے تھے یعنی ان میں جتنے کی دھات ہوتی تھی اتنی ہی قدر ان پر لکھی ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سکّے جاری کرنے والی حکومتیں کم قیمت کی دھات پر زیادہ قدر لکھنے لگیں۔ آج کل سِکّوں پر لکھی ہوئی قدر ان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یورو کے سکے میں موجود دھات کی قیمت ایک یورو کا بیسواں حصہ ہوتی ہے۔
- اگر کسی وجہ سے سکّوں پر لکھی ہوئی رقم دھات کی مالیت سے کم ہو جائے تو لوگ سکّے پگھلا کر استعمال کی دوسری دھاتی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ 1917ء میں ہندوستانی روپیہ پگھلا کر لوگوں نے بڑی مقدار میں چاندی اسمگل کی۔
- 1947ء میں جب آزادی برطانوی ہند عمل میں آئی تو پاکستانی کرنسی کا وجود نہ تھا اس لیے برطانوی ہند کے روپیہ پر پاکستان کی مہر لگا کر استعمال کیا گیا۔[95] 1948ء میں پاکستان نے اپنی کاغذی کرنسی چھاپی اور دھاتی سکّے بھی جاری کیے۔ اس وقت ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے میں چار پیسے۔ ایک پیسہ تین پائ کے برابر تھا یعنی ایک روپے میں 64 پیسے یا 192 پائی ہوتی تھیں۔
سکّے
ہزاروں سال پہلے جو (barley) رقم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مگر ایسی چیزوں کو رقم کے طور پر استعمال کرنے میں یہ خرابی تھی کہ انھیں عرصے تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لیے دھاتوں کا رقم کے طور پر استعمال شروع ہوا جو لمبے عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی تھیں۔ سونے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ موسمی حالات سے خراب نہیں ہوتا ( جیسے زنگ لگنا ) اور یہ کمیاب بھی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسے دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیے (یعنی بچت کرنے کے لیے) چُنا گیا۔
کرنسی بننے کے لیے ایسی چیز موزوں ہوتی ہے جو پائیدار ہو، کمیاب ہو، ضخیم نہ ہو (تاکہ با آسانی منتقل کی جا سکے)[96]، کھرے کھوٹے کی شناخت آسان ہو اور قابل تقسیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کچھ صدیوں میں سونے چاندی تانبے کانسی وغیرہ کے سکّے استعمال ہوتے رہے جبکہ ہیرا کبھی کرنسی نہیں بن سکا۔ دھاتوں کی اپنی قیمت ہوتی ہے اور ایسے سکّے کو پگھلا کر دھات دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے سکّے نہ کسی حکومتی یا ادارتی سرپرستی کے محتاج ہوتے ہیں نہ کسی سرحد کے پابند۔ یہ زرِ کثیف یعنی ہارڈ کرنسی کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے وہ قدر رکھتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔[97] یہ زرِ فرمان یعنی fiat کرنسی کہلاتی ہے اور جیسے ہی حکومتی سرپرستی ختم ہوتی ہے یہ کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں پاکستانی کرنسی رائج تھی جو اپنی قدر کھو چکی تھی۔ اسی طرح صدام حسین کے ہاتھوں سقوط کویت کے بعد کویتی دینار کی قدر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کاغذی کرنسی کے پیچھے ایک فوجی طاقت کتنی ضروری ہے۔
8 نومبر 2016 کو نریندر مودی کے بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کے اسقاط زر کے اعلان سے ہندوستان میں زیر گردش 86 فیصد کرنسی محض چند گھنٹوں میں کاغذی ردی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی ماضی کی طرح سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوتی تو عوام اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں یوں ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ دیکھیے کیش کے خلاف جنگ
- آج بھی بھارت کا کاغذی روپیہ نیپال اور بھوٹان میں چلتا ہے کیونکہ نیپال اور بھوٹان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اس کی کرنسی زیادہ اعتبار رکھتی ہے۔ مضبوط فوجی طاقت کاغذی کرنسی کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی کرنسی بھارت میں نہیں چلتی۔
- 1791ء سے 1857ء تک ہسپانیہ کا سکّہ متحدہ امریکا میں قانونی سکّے کے طور پر چلتا تھا کیونکہ یہ چاندی کا بنا ہوا تھا اور اپنی قدر خود رکھتا تھا۔
- 1959ء تک دبئی اور قطر کی سرکاری کرنسی ہندوستانی روپیہ تھی جو چاندی کا بنا ہوا ہوتا تھا۔
-
سنہ 1739ء کا بنا چاندی کا ہسپانوی ڈالر۔
-
فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1705ء سے 1780ء تک پانڈے چری سے سونے کا یہ سکہ جاری کیا جو گولڈ پگوڈا کہلاتا تھا۔
-
مغل بادشاہ عالمگیر دوم کا چاندی کا روپیہ۔
-
1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ یہ ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا۔ سو سال بعد آج اتنی چاندی کی قیمت لگ بھگ 1500 پاکستانی روپے ہے۔
-
1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ پچھلا رخ۔
-
پاکستان کا پہلا دھاتی روپیہ۔ پچھلا رخ
-
1795 میں بنا چاندی کا پہلا امریکی ڈالر۔ اس میں دو تولے سے تھوڑی زیادہ خالص چاندی ہوتی تھی۔
-
1841 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ گولڈ مہر۔ اس پر فارسی میں ایک اشرفی لکھا ہے۔ پہلا سونے کا مہر سکہ شیر شاہ سوری نے جاری کیا تھا جس کا وزن 10.95 گرام تھا اور یہ چاندی کے 15 روپے کے برابر تھا۔
-
ملکہ وکٹوریہ کی تصویر والا برطانوی عہد کا ہندوستانی چاندی کا روپیہ۔ 1862ء
-
ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ ایک روپیہ کا سکّہ، 1835ء ،پچھلا رخ۔
عالمی کرنسی کی تاریخ
دنیا میں ہمیشہ طاقتور ترین فوجی طاقت کا سکہ مقبول ترین سکہ رہا۔
- 1450 سے 1530 تک عالمی تجارت پہ پرتگال کا سکّہ چھایا رہا۔
- 1530 سے 1640 تک عالمی تجارت پہ ہسپانیہ کا سکّہ حاوی رہا۔
- 1640 سے 1720 تک عالمی تجارت ولندیزی سکّے کے زیر اثر رہی۔
- 1720 سے 1815 تک فرانس کے سکّے کی حکومت رہی۔ 1815 میں فرانس کے بادشاہ نپولین کو شکست ہوئی۔
- 1815 سے 1920 تک برطانوی پاونڈ حکمرانی کرتا رہا۔
- 1920 سے اب تک امریکی ڈالر نے راج کیا لیکن اب اس کی مقبولیت تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔[98][99] ماضی کی کرنسیوں کے برخلاف یہ چاندی کی نہیں بلکہ کاغذ کی کرنسی ہے اور محض امریکی حکومت پر اعتماد اور اس کی فوجی دھونس پر قائم ہے۔[100][101][102]
بینک نوٹ
سکّوں کے نظام سے دنیا کا روزمرہ کا کاروبار نہایت کامیابی سے چل رہا تھا مگر اس میں یہ خرابی تھی کہ بہت زیادہ مقدار میں سکّوں کی نقل و حمل مشکل ہو جاتی تھی۔ وزنی اور ضخیم ہونے کی وجہ سے بڑی رقوم چور ڈاکووں کی نظروں میں آ جاتی تھیں اور سرمایہ داروں کی مشکلات کا سبب بنتی تھیں۔ اس کا قابل قبول حل یہ نکالا گیا کہ سکّوں کی شکل میں یہ رقم کسی ایسے قابل اعتماد شخص کی تحویل میں دے دی جائے جو قابل بھروسا بھی ہو اور اس رقم کی حفاظت بھی کر سکے۔ ایسا شخص عام طور پر ایک امیر سونار ہوتا تھا جو ایک بہت بڑی اور بھاری بھرکم تجوری کا مالک بھی ہوتا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے مناسب تعداد میں محافظ بھی رکھتا تھا۔ اس شخص سے اس جمع شدہ رقم کی حاصل کردہ رسید (نوٹ) کی نقل و حمل آسان بھی ہوتی تھی اور مخفی بھی۔[104] سونار کی ان رسیدوں پر بھی ادائیگی کا ایسا ہی وعدہ لکھا ہوتا تھا جیسے اب بھی بہت سے بینک نوٹوں پر لکھا ہوتا ہے۔ اگر ایسا شخص بہت ہی معتبر ہوتا تھا تو اس کی جاری کردہ رسید کو علاقے کے بہت سے لوگ سکّوں کے عوض قبول کر لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر وہی رسید دکھا کر اس سونار سے اپنے سکّے وصول کر لیتے تھے۔[105] اس زمانے میں سنار لوگوں سے رقم کی حفاظت کرنے کا معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح رسید کے طور پر کاغذی کرنسی (بینک نوٹ) کا قیام عمل میں آیا جبکہ سنار معتبر ادارے کے طور پر بینکوں میں تبدیل ہو گئے۔[106] ایسی رسیدیں زر نمائندہ کہلاتی ہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی کے لیے بینکوں میں اتنا ہی سونا موجود ہوتا ہے جتنی رسیدیں بینک جاری کرتا ہے۔ ایسے بینکوں میں کبھی 'بینک رن' نہیں ہوتا۔[107]
اس نمائندہ کاغذی کرنسی کا تصور نیا نہیں تھا بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھا۔ جاپان اور آس پاس کے علاقوں میں مذہبی عبادت گاہوں (پگوڈا) میں اناج ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے گودام موجود ہوا کرتے تھے جن میں لوگ اپنا اناج جمع کرکے کاغذی رسید حاصل کر لیتے تھے اور پھر منڈی میں لین دین کے لیے انھی رسیدوں کا آپس میں تبادلہ کر لیتے تھے۔ پگوڈا میں اناج جمع کرانے والے کو بھی اجرت ادا کرنی پڑتی تھی۔
شروع شروع میں تو بینک اتنی ہی رسیدیں جاری کرتے رہے جتنی رقوم دھاتی سکّوں کی شکل میں ان کے پاس جمع کی جاتی تھیں مگر بعد میں جب لوگوں کا اعتماد ان رسیدوں پر بڑھتا چلا گیا اور بینک سے اپنے سکّے طلب کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا گیا تو بینک اپنے پاس جمع شدہ دھات سے زیادہ مالیت کی رسیدیں جاری کرنے لگے جو ان کی اپنی اضافی آمدنی بن جاتی تھیں۔[74] اس طرح ماضی میں بینکوں نے خوب خوب لُوٹا اور مناسب وقت آنے پر وہ ساری دولت سمیٹ کر منظر عام سے غائب ہو گئے۔ امریکا کی تاریخ ایسے بینک فراڈوں سے بھری پڑی ہے (11 دسمبر 1930 کو نیویارک کا تیسرا سب سے بڑا بینک، بینک آف یونائیٹڈ اسٹیٹ، بند ہو گیا۔ اگلے سال ستمبر اکتوبر کے دو مہینوں میں 800 مزید بینک بند ہوئے۔[108])۔
صرف بینکوں نے ہی نہیں بلکہ حکومتوں نے بھی عوام اور دوسرے ممالک کی حکومتوں کو خوب اُلّو بنایا۔ اس کی تازہ ترین مثال پہلے تو حکومت امریکا کا 24 جون 1968 کو سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس کرنے سے انکار کرنا اور پھر اگست 1971 میں 35 ڈالر میں ایک اونس سونا واپس کرنے کے وعدے سے مُکرنا تھا۔
پاکستانی کاغذی کرنسی پر تحریر وعدہ | |
---|---|
بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا (اس عبارت سے تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی) | |
پاکستان کے ہزار روپیہ کے بینک نوٹ پر لکھے اس وعدے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کاغذ کی اس رسید یا نوٹ کے بدلے چاندی کے 1000 روپے ادا کرے گا۔ چاندی کا روپیہ پاکستان بنتے وقت رائج تھا۔ لیکن اب لوگ بھی چاندی کا روپیہ بھول چکے ہیں اور اسٹیٹ بینک بھی چاندی کے سکّے کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا 1948ء کا بنا ہوا ایک روپے کا دھاتی سکّہ اگرچہ ماضی کے دھاتی روپے کی طرح چاندی کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر درحقیقت وہ نکّل کا بنا ہوا تھا اور وزن میں ایک تولے سے قدرے کم، 11.1 گرام کا تھا۔ لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے لفظ روپا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں چاندی۔ |
لین دین (بزنس)
تجارتی دولت سے مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی لین دین (خرید و فروخت) کی جا سکتی ہے۔ تجارتی دولت میں ڈاکو اور بینک ہمیشہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
صرف تین طرح کی چیزوں کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔
- مادی اشیاء
- محنت مزدوری، مہارت اور وقت
- حق (جیسے کاپی رائٹ، پرمٹ، لائسنس، کاغذی کرنسی کے بدلے سونا چاندی طلب کرنے کا حق، نوٹ چھاپنے کا حق وغیرہ)
اس طرح 6 طرح کے تبادلے ممکن ہو جاتے ہیں۔
- مادی اشیاء کا مادی اشیاء سے (مثلاً پیسے دے کر کوئی چیز خریدنا)
- مادی اشیاء کا محنت مزدوری سے (مثلاً تنخواہ، ڈاکٹر، وکیل یا استاد کی فیس)
- مادی اشیاء کا کسی حق سے (مثلاً طوائف کی آمدنی)
- ایک طرح کی محنت کا دوسری طرح کی محنت سے (مثلاً درزی موچی کے کپڑے سی دے اور جواباً موچی درزی کے لیے جوتے بنا دے)
- کسی محنت کا کسی حق سے (مثلاً پینشن)
- ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے۔ (مثلاً نوٹ لے کر ڈرافٹ دینا)
بینک صرف دو طرح کے تبادلے کرتے ہیں۔ مادی اشیاء کا کسی حق سے اور ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے ۔
ہندوستان اور کاغذی کرنسی
ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکّوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتیں قانون بنا کر لوگوں کو مخصوص کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
دورانیہ | ہندوستانی نظام کرنسی[109] |
---|---|
1835ء سے 1897ء | سلور اسٹینڈرڈ |
1898ء سے 1917ء | گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ |
1917ء سے 1927ء | مینیجڈ ایکسچینج |
1927ء سے 1931ء | گولڈ بُلین اسٹینڈرڈ |
1931ء سے 1947ء | اسٹرلنگ ایکسچینج اسٹینڈرڈ |
جب بینکاری کو عروج ہوا تو بینکوں کو اندازہ ہوا کہ کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ دینے سے بینکوں کو کس قدر زیادہ منافع ہو سکتا ہے۔ مرکزی بینک چونکہ سونا اور چاندی بنا نہیں سکتے اس لیے وہ سونے چاندی سے بنی کرنسی کو کنٹرول بھی نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے مرکزی بینک سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنے کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ مرکزی بینک ہمیشہ ایک ایسی کرنسی چاہتے ہیں جسے وہ پوری طرح کنٹرول کر سکیں تاکہ بے حد امیر اور طاقتور بن سکیں اور یہ کرنسی صرف کاغذی کرنسی ہو سکتی تھی کیونکہ کاغذی کرنسی جتنی چاہیں اتنی چھاپی جا سکتی ہے۔ اس طرح دولت تخلیق کرنے کا اختیار بینکاروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ برطانیہ میں تو بادشاہ نے قانون بنا کر لوگوں کو بینک آف انگلینڈ کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھا جو بعد میں وہاں پوری طرح رائج بھی ہو گئی تھی لیکن دنیا کے کئی ممالک میں کاغذی کرنسی مقبول نہ ہو سکی کیونکہ وہاں لوگ سونے چاندی پر زیادہ اعتبار کرتے تھے اور کاغذی نوٹ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اس میں چین، ہندوستان اور امریکا بھی شامل تھے۔ برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی کو 1718 سے "لیگل ٹینڈر" (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل تھا۔[110] ان بینکوں نے بہت آہستہ آہستہ لوگوں کو کاغذی کرنسی کے استعمال کی عادت ڈال دی اور مختلف مواقع پر ایسے قوانین نافذ کروائے جو لوگوں کو کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ مختلف طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) انھی قوانین کی مثالیں ہیں۔
دورانیہ | کاغذی کرنسی کا جاری کنندہ [111] |
---|---|
1770ء سے 1861 تک | پرائیوٹ بینک |
1861ء سے 1919ء تک | حکومت برطانوی ہند |
1919ء سے 1935ء تک | حکومت برطانوی ہند |
1935ء سے اب تک | ریزرو بینک آف انڈیا |
جب انگریز ہندوستان آیا تو یہاں کی دولت لوٹنے کے لیے کاغذی نوٹ کو رواج دینے کی کوشش میں لگ گیا۔ ہندوستان باقی دنیا کو بہت زیادہ مالیت کا سامان تجارت برآمد کرتا تھا جبکہ درآمدات کم تھیں۔ یعنی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں تھا۔ انگریز کو اس مال کے بدلے ہندوستان کے لوگوں کو سونا یا چاندی ادا کرنی پڑتی تھی جو وہ نہیں دینا چاہتا تھا۔[112] انگریزوں کی خواہش تھی کہ اگر ہندوستان میں بھی کاغذی نوٹ کا رواج پڑ جائے تو صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر مال خریدا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستانیوں کو بینکاری اور کاغذی نوٹوں کا بالکل تجربہ نہیں تھا جبکہ انگریز اس میں ماہر تھا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بینکاری کی عادت ڈالنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک بنائے گئے جن سے متوسط اور نچلے طبقے کے پاس محفوظ سونا چاندی بٹورنا ممکن ہو گیا۔ 1879 میں ان پوسٹل سیونگ بینکوں کی جانب سے 4 فیصد سے زیادہ سود دیا جاتا تھا جو بعد میں کم ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں افراط زر بہت کم ہونے کی وجہ سے یہ ایک معقول منافع تھا۔
سلور اسٹینڈرڈ
انگریز چونکہ ہندوستان سے سونا بٹورنا چاہتا تھا اس لیے اس نے صرف چاندی کے روپے کو سرکاری کرنسی قرار دیا حالانکہ اس وقت برطانیہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا۔ 1835 میں انھوں نے معیارِ نقرہ کا قانون (سلور اسٹینڈرڈ) نافذ کیا جس کے مطابق چاندی کا روپیہ سرکاری سکّہ بن گیا۔ یہ سکّہ پہلے ہی سے بمبئی اور مدراس میں رائج تھا۔ سونے اور چاندی کے ان سکوں کا وزن ایک تولہ یعنی 180 گرین (grain) ہوتا تھا اور یہ 22 قیراط کے ہوتے تھے یعنی ان میں خالص چاندی کی مقدار 165 گرین تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے جاری کردہ ان چاندی کے سکوں نے (جن پر مغل بادشاہ کا نام نہیں لکھا گیا تھا) جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی اور پہلے سے رائج دو درجن طرح کے چاندی کے روپے معدوم ہو گئے۔[113] حکومت عوام سے سونے کا سکّہ قبول تو کر لیتی تھی مگر عوام کو سونا دینے کی پابند نہیں تھی۔ اسی قانون میں اشرفی (گولڈ مُہر) کی قیمت 15 چاندی کے روپے کے برابرطے کی گئی مگر پھر بھی اس قانون کا نام گولڈ اسٹینڈرڈ نہیں رکھا گیا۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے جس قانون نے چاندی کو کرنسی قرار دیا اسی قانون نے عوام کو ٹکسالوں سے سونے کے سکے بنوانے کی اجازت بھی دی۔[114] اس قانون کے ذریعے لوگوں کی توجہ چاندی پر مرکوز کروا کر انگریز حکومت نے بڑی مالیت میں زیر گردش سونے کے سکے اپنے پاس ذخیرہ کر لیے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیے گئے۔
اس وقت کاغذی کرنسی "پریزیڈنسی بینک آف بنگال" جاری کرتا تھا۔ در حقیقت یہ بینک 1809 سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا مگر وہ ہندوستان میں مقبول نہیں ہو رہی تھی اور قانونی کرنسی کا درجہ نہیں رکھتی تھی۔ بمبئی میں کاغذی کرنسی 1840 میں اور مدراس میں 1843 میں جاری کی گئی۔ اس وقت ایک علاقے کی کاغذی کرنسی دوسرے علاقے میں نہیں چلتی تھی لیکن حکومتِ ہند اپنے کرنسی نوٹ قبول کر لیتی تھی خواہ وہ کسی بھی علاقے سے جاری کیے گئے ہوں۔ 1903ء میں پہلی دفعہ تجرباتی طور پر 5 روپے کے نوٹ کو (جو سب سے چھوٹا نوٹ تھا) پورے ہندوستان میں عوام کے لیے قابل قبول بنایا گیا۔ پھر 1910ء سے دس روپے اور پچاس روپے کا نوٹ بھی پورے ہندوستان میں قبول کیا جانے لگا۔ 1911ء میں سو روپے کا نوٹ بھی ہر علاقے میں چلنے لگا۔[115] اُسی وقت سے ہی عالمی بینکاروں کی خواہش ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی کرنسی رائج ہو جائے مگر یورپ کے علاوہ کہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ یورپ کے بھی سارے ممالک یورو اپنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔
سنہ | پاونڈ کا ایکسچینج ریٹ | 24 قیراط سونے کی قیمت | |
---|---|---|---|
1781 | 10 روپے کا ایک پاونڈ | 15.93 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
1835 | 10 روپے کا ایک پاونڈ | 15.93 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
نومبر 1864 | 10 روپے کا ایک پاونڈ | 15.93 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
26 جون 1893 | 15 روپے کا ایک پاونڈ | 23.90 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
1917 | 10 روپے کا ایک پاونڈ | 15.93 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
1927 | ساڑھے 13 روپے کا ایک پاونڈ | 4.25 پاونڈ فی اونس | |
ستمبر 1931 | 32 روپیہ فی تولہ | 4.25 پاونڈ فی اونس |
1861ء میں ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا قانون بنا جو یکم مارچ 1862ء سے نافذ ہوا[111]۔ اس قانون کے ذریعے دوسرے بینکوں کا کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار ختم کر دیا گیا اور اب یہ حق حکومت کے پاس آ گیا[116] اور ہندوستانی حکومت مارچ 1935ء تک نوٹ چھاپتی رہی۔ 1861ء کے اس قانون کے تحت عوام کو اجازت تھی کہ وہ اپنا سونا یا چاندی حکومت کے حوالے کر کے کاغذی روپے حاصل کر سکتے ہیں مگر کسی نے بھی سونا نہ دیا اور لوگ صرف چاندی کے عوض کاغذی کرنسی لیتے تھے۔ 37 سال بعد 1898ء میں جب چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں بڑھی تو لوگوں نے پہلی دفعہ سونے کے بدلے نوٹ حاصل کرنے شروع کیے۔ صرف دو سالوں میں ہندوستانی حکومت نے 'کرنسی ریزرو' میں 100 ٹن سے زیادہ سونا جمع کر لیا۔ حکومت نے 1898ء میں نیا قانون بنایا کہ لندن میں سونا جمع کروانے پر ہندوستان میں نوٹ مل سکتے ہیں۔ لوگوں نے اس طرح سوا دو کروڑ روپے (15 لاکھ پاونڈ) لندن میں جمع کروائے۔ لیکن صرف دس مہینوں میں لوگوں نے لندن سے اپنا سونا وصول کر لیا اور یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
پہلی اپریل 1935 سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نئے بنے ریزرو بینک آف انڈیا کو بخش دیا گیا جو ایک نجی مرکزی بینک تھا اور عملی طور پر بینک آف انگلینڈ کی ہندوستانی شاخ تھا۔[117]
[118]
اس کے بعد ہندوستان کی برطانوی حکومت کے پاس صرف ایک روپے کے نوٹ چھاپنے کا اختیار باقی رہا۔
چاندی کا روپیہ بنانے میں برطانوی حکومت کو 42 فیصد منافع (Seigniorage) ہوتا تھا۔ 1913 میں جان مینارڈ کینز نے لکھا کہ یہ روپیہ بینک نوٹ ہی تھا مگر کاغذ کی بجائے چاندی پر چھاپا جاتا تھا۔[115] لیکن صرف 4 سال بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران میں چاندی مہنگی ہو جانے کی وجہ سے صورت حال بالکل بدل چکی تھی۔
1848ء سے 1855ء کے درمیان میں امریکا میں کیلیفورنیا کے مقام سے 2200 ٹن سونا نکالا گیا جس سے سونے کی قیمتیں عارضی طور پر گر گئیں۔ دوسرے ممالک میں بھی سونے کی کانیں دریافت ہوئیں اور صرف 20 سالوں میں (1851ء سے 1870ء کے درمیان) دنیا میں اتنا سونا نکلا جتنا پچھلے 350 سالوں میں نکلا تھا[119]۔ اس طرح سونے کی دستیابی دوگنی ہو گئی۔ لیکن بعد کے سالوں میں چاندی کی بے شمار کانیں دریافت ہوئیں۔ 1873 سے چاندی کی قیمت گرنے لگی کیونکہ جرمنی اور امریکا نے بھی گولڈ اسٹینڈرڈاپنا لیا تھا اور بطور کرنسی چاندی ترک کر دی تھی۔ 1892 میں امریکا نے چاندی کا قانونی کرنسی کا درجہ ختم کر کے صرف سونے کو قانونی کرنسی قرار دیا۔ اس کے پیچھے بینک آف انگلینڈ کا ہاتھ تھا۔
انڈیا کونسل بل
انگریز دونوں ہاتھوں سے ہندوستان کا سونا تو لوٹ ہی رہا تھا مگر تجارتی سامان کے بدلے بھی ہندوستان کو چاندی دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ 1875ء سے انگریزوں نے ہندوستان کا تجارتی سامان چاندی کی بجائے کونسل بل (Council Bill) ادا کر کے خریدنا شروع کیا جو بینک ڈرافٹ کی ایک شکل تھا اور اس کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ اس طرح نہ صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر ہندوستان اور چین سے تجارتی مال خریدا جانے لگا بلکہ چاندی کی قیمت گرانا بھی ممکن ہو گیا۔
- If, therefore, the India Council in London should not step in to sell bills on India, the merchants and bankers (of England) would have to send silver (to India) to make good the (trade) balances. Thus a channel for the outflow of silver was stopped, in 1875, by the India Council in London[120]
1913ء میں جان مینارڈ کینز نے اپنی کتاب "Indian Currency And Finance" میں لکھا کہ انڈیا کی برطانوی حکومت کو کونسل بل کے نظام کی حاکمانہ نوعیت سے شرح تبادلہ پر حاوی ہونے میں بڑی سہولت ملی۔
- the policy of the Government of India is facilitated by the commanding influence which the system of Council Bills gives it over the exchange market.[121]
اگرچہ تاریخ میں یہی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی کے سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت ہونے کی وجہ سے چاندی کی قیمتیں گرنے لگیں تھیں لیکن درحقیقت چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ سے کونسل بل کا اجرا تھی۔
- The great importance of these (Council) Bills, however, is the effect they have on the Market Price of Silver : and they have in fact been one of the most potent factors in recent years in causing the diminution in the Value of Silver as compared to Gold.[29]
چاندی کی قیمت گرنے سے مشرقی ممالک کا تجارتی سامان مغربی ممالک کے لیے انتہائی سستا ہو جاتا تھا۔ اس طرح مشرق کی خوش حالی مغرب کو منتقل ہونے لگی۔
- The Indian and Chinese products for which silver is paid were and are, since 1873–74, very low in price, and it there fore takes less silver to purchase a larger quantity of Eastern commodities. Now, on taking the several agents into united consideration, it will certainly not seem very mysterious why silver should not only have fallen in price[120]
- ""جتنے زیادہ کونسل بل چھپتے تھے، چاندی کی قیمت اتنی ہی گرتی تھی۔ اس لیے لندن کی انڈیا کونسل کو ہر سال پچھلے سال سے زیادہ کونسل بل چھاپنے پڑتے تھے تاکہ لندن میں سونے کی فراہمی میں کمی نہ آئے۔ اس طرح (چاندی استعمال کرنے والے ملک) انڈیا پر ٹیکس بڑھ جاتا تھا"
- "The more India Council Bills are sold, the more the Diminution in the Value of Silver is increased : and as the Council must sell a sufficient quantity to produce the required amount in Gold : a still larger amount must be sold to make up for their diminished Value : and consequently the heavier is the taxation on the people of India to meet the deficiency."[29]
1877 میں ایک مصنف J. S. Moore نے لکھا کہ "ایشیا تو اس وقت بھی تجارتی ممالک پر مشتمل تھا جب یورپ بالکل اجاڑ تھا" ...."عظیم قوموں کے پاس اپنا خزانہ بھرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ قرضے دو۔ اور دوسرا اور زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ کاغذی کرنسی میں زبردستی قرضے دو۔"
- “the great nations had recourse to two expedients for replenishing their exchequers, - first, loans, and, second, the more convenient forced loans of paper money۔”[120]
- کسی ملک کو فتح کرنے اور غلام بنانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا طریقہ تلوار کے ذریعے، دوسرا طریقہ قرض کے ذریعے۔
- “There are two ways to conquer and enslave a country. One is by the sword. The other is by debt.” —John Adams[122]
- "قرض مستقبل کی آمدنی آج ہی خرچ کروانے کا نام ہے۔ اس طرح مستقبل میں خرچ کرنے کی قابلیت کم ہو جاتی ہے۔ سود کی ادائیگی مقروض کو زندہ کھا جاتی ہے۔"[123]
- "بینک آف انگلینڈ کا منصوبہ بڑا واضح تھا کہ نوآبادیوں کو قرض کے انبار میں ڈبو دو"
- The plan of the Bank of England was clearly to try and drown the colonies in a mountain of debt[124]
1888ء میں کسی مصنف نے لکھا کہ
- "چاندی کی قیمت کا انحصار ان کونسل بل پر تھا۔ جب بھی بینک آف انگلینڈ چاندی کی قیمت گرانا چاہتا تھا تو وہ کونسل بل کی قیمت گرا دیتا تھا۔ اگر کوئی اور چاندی ہندوستان بھیجنے کی کوشش کرتا تھا تو بینک آف انگلینڈ کونسل بل کی قیمت بڑھا دیتا تھا جس کی وجہ سے چاندی ہندوستان کی نسبت لندن میں زیادہ مہنگی ہو جاتی تھی۔ بہت سارے لوگوں نے چاندی ایشیا بھیجنے کی کوشش کری اور ناکام رہے اور آخر کار اپنے ارادوں سے دست بردار ہو گئے کیونکہ بینک آف انگلینڈ سے مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔[125]
- "کونسل بل سسٹم نے ہندوستان سے وصول ہونے والے ٹیکس اور تجارتی منافع کو (بیرون ملک) منتقل کرنے کے میکینزم کو یکسر بدل ڈالا۔"
- the international transfer mechanism for Indian revenue and trade surpluses was also fundamentally altered by the growth of the Council Bill system. [126]
1859ء سے 1898ء کے دوران میں ہندوستانی حکومت ہر سال اوسطاً ساڑھے 13 کروڑ روپے برطانیہ بھیجتی رہی جس میں سے دس کروڑ روپے ہوم چارجیز کی مد میں ہوتے تھے۔ ٹیلی گرافی کی لائن بن جانے سے 1872ء سے 1893ء تک ہندوستان کو ہونے والے تجارتی منافع (55 کروڑ پاونڈ) کے نصف سے زیادہ سونے چاندی کی بجائے کونسل بل کی شکل میں ادا کیا جانے لگا۔[127]
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے عالمی مالیاتی برتری برطانیہ سے چھین لی۔ اب یہی کام امریکا انجام دے رہا ہے۔
- "1899ء میں برطانیہ اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 5 گنا کاغذی دولت (capital) ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔ 1968ء میں امریکا اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 6 گنا کاغذی دولت ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔"
- Already in 1899, Great Britain’s income from the export of capital was five times as great as the income from foreign trade. In 1968 the income of the USA from the export of capital was six times greater than income from foreign trade.[128]
- "دنیا کو دوہرے معیار پر چلایا جا رہا ہے کیونکہ امریکی تجارتی خسارے کے باوجود امریکی حکومت کی مالیاتی پالیسی چلانے کے لیے زبردستی دوسرے ملکوں کو قرضے دینا امریکا کی مفت خوری کا سبب ہے۔"
- The world has come to operate on a double standard as the U.S. payments deficit provides a Free Lunch in the form of compulsory foreign loans to finance U.S. Government policy.[129]
- "طفیلی لیتا ہے مگر دیتا کچھ نہیں ہے۔ لینے دینے میں وہ برابری نہیں کرتا۔..وہ مال کے بدلے مال نہیں دیتا۔ وہ کرنسی کا تبادلہ کرتا ہے۔"
- The parasite takes without giving. It makes an unequal exchange....He does not barter; he exchanges money.[130]
مختلف ممالک سے کاغذی دولت (کیپیٹل) کی ایکسپورٹ (ارب فرانک میں)[128] | ||||||
---|---|---|---|---|---|---|
سن عیسوی | برطانیہ | فرانس | جرمنی | متحدہ امریکا | دوسرے ممالک | پوری دنیا |
1862ء | 3.6 | - | - | - | - | 3.6 |
1872ء | 15 | 10 | - | - | - | 25 |
1902ء | 62 | 27-37 | 12.5 | 3.5 | - | 105-115 |
1914ء | 93 | 44 | 31 | 18.1 | 39 | 225.1 |
1929ء | 94.1 | 18.1 | 5.7 | 79.8 | 51.7 | 248.4 |
1968ء | 106.8 | 55.1 | 53.6 | 346.5 | 126.1 | 688.1 |
سو سالوں میں کاغذی دولت کی ایکسپورٹ میں لگ بھگ 200 گنا اضافہ ہوا |
ٹکسالوں کی بندش
1892ء میں ہندوستان میں چاندی کی صورت حال[119] | |
---|---|
چاندی کی مقدار | چاندی کی شکل |
ایک ارب 70 کروڑ روپے | زیر گردش روپے کے سکے |
40 کروڑ روپے | بچت کیے گئے سکے (زیر گردش کے علاوہ) |
3 ارب روپے | چاندی کے بسکٹ، سلاخیں (رینی) اور زیورات |
1892ء میں ہندوستان کی کل چاندی=55٫000 ٹن (پونے دو ارب اونس) |
کاغذی کرنسی کو فروغ دینے کے لیے 26 جون، 1893ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے چاندی کا سکّہ بنانے والی ساری ٹکسالیں عوام کے لیے بند کروا دیں تاکہ نہ چاندی کا سکہ مناسب مقدار میں دستیاب ہو نہ لوگ اسے استعمال کر سکیں۔ سونے کا سکہ (اشرفی) انگریز پہلے ہی سمیٹ کر غائب کر چکا تھا۔ اب ہندوستان میں لوگوں کے پاس لین دین کے لیے کاغذی کرنسی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا[119]۔ اس طرح 1835ء میں سرکار کا بنایا ہوا سلور اسٹینڈرڈ 1893ء میں بحقِ کاغذی کرنسی ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام میں سونے اور چاندی کے سکوں کی طلب برقرار رہی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار یہ عندیہ دیا گیا کہ حکومت چاندی کا سکہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔
جس دن ٹکسالوں کی بندش کا قانون نافذ ہوا اُسی دن حکومت نے اعلان کیا کہ اگر کوئی سونے میں ادائیگی کرے تو اُسے کاغذی نوٹ کی بجائے چاندی کے روپے مل سکتے ہیں۔[131] یعنی ہندوستانیوں کو سونے کے بدلے چاندی مل سکتی ہے مگر چاندی کے بدلے سونا نہیں مل سکتا۔
ٹکسالوں کی بندش سے پہلے ٹکسالیں 2 فیصد اجرت کے عوض عوام سے چاندی لے کر اسے سکوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھیں اور اسے Free silver کہتے تھے کیونکہ سکے بنوانے کی کوئی حد مقرر نہ تھی[119]۔ بندش کے بعد یہ سہولت عوام سے چھین لی گئی لیکن حکومت کے پاس یہ حق برقرار رہا۔ جب تک عوام کو حکومت کی ٹکسالوں سے چاندی کے سکے بنوانے کی سہولت دستیاب تھی اس وقت تک عوام کا بھی کرنسی کے معاملات میں عمل دخل تھا۔ یہ سہولت ختم ہونے کے بعد کرنسی کے معاملات پر حکومت پوری طرح قابض ہو گئی اور عوام بے بس ہو گئے۔ اس طرح حکومت کا چاندی کی قیمت گرانا ممکن ہو گیا۔ درحقیقت عوام کے لیے ٹکسالیں بند کر کے حکومتوں نے آزاد منڈی (فری مارکیٹ اکنومی) کی پشت میں چُھرا گھونپ دیا۔
ہندوستان میں 1892 ء سے کاغذی نوٹ کا ارتقا[119] | |
---|---|
سن عیسوی | کاغذی نوٹ کی مالیت |
1892ء | 25 کروڑ روپے |
1913ء | 70 کروڑ روپے |
1919ء | 120 کروڑ روپے[132] |
1939ء | 179 کروڑ روپے [111] |
1945ء | 1152 کروڑ روپے |
جب تک حکومتی ٹکسالیں عوام کو سکے بنوانے کی سہولت دیتی ہیں اس وقت تک حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سکے میں سونے یا چاندی کی مقدار کم کر سکے۔ لیکن جب عوام سے یہ سہولت چھن جاتی ہے تو حکومت کے لیے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ سکے میں قیمتی دھات کی مقدار کم کر دے۔ اس طرح سکے کی گراوٹ (devalue) کر کے حکومت اپنے عوام کی کچھ دولت اپنی جیب میں منتقل کر لیتی ہے۔
ٹکسالوں کی بندش کی وجہ سے چاندی کے روپے کی دستیابی کم ہو گئی اور اس کے نتیجے میں پاونڈ کے مقابلے میں روپیہ مہنگا ہونے لگا۔ اس طرح ہندوستانی مال برطانیہ کے لیے مہنگا ہونے لگا۔ ایک روپیہ جو 1894ء میں 13 پینس کا تھا، 1898ء میں 16 پینس کے برابر ہو چکا تھا۔ روپے کی قدر گرانے کے لیے 1898ء تک سابقہ پانچ سالوں میں حکومت نے صرف 4 کروڑ چاندی کے روپے جاری کیے تھے۔[131] لیکن اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس لیے کرنسی کے قحط (starving the currency) کی پالیسی ترک کرنی پڑی اور 1899ء سے 1907ء کے دوران میں حکومت ہند کو ایک ارب 20 کروڑ چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے تھے۔ لیکن 1908ء میں پہلی دفعہ لنڈسے اسکیم پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے ریورس کونسل بل جاری کیے جس کے بعد نئے چاندی کے سکے جاری کرنے کی ضرورت یکدم ختم ہو گئی اور پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک حکومت صرف پرانے سکے پگھلاتی رہی۔ 1913 تک حکومت 70 کروڑ کاغذی روپے جاری کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی جو کُل زیر گردش کرنسی کا لگ بھگ چوتھائی حصہ بنتا تھا۔
ٹکسالوں کی بندش کے بعد ہندوستان میں سونے کی پیداوار[131] | |
---|---|
سن عیسوی | کتنے تولے سونا کانوں سے نکلا |
1893ء | 552195 تولے |
1894ء | 559904 تولے |
1895ء | 667113 تولے |
1896ء | 858525 تولے (دس ٹن) |
1897ء | 1039633 تولے |
1898ء | 1112569 تولے |
1893ء میں ٹکسالوں کی بندش سے پہلے کے دس سالوں میں ہندوستان میں بالعموم خوش حالی رہی تھی۔ لیکن ٹکسالوں کی بندش کے بعد کے دس سال میں غربت اچانک بڑھ گئی اور ملک پے درپے آفتوں کا شکار ہوتا رہا۔ 1896، 1897 اور 1899ء میں ہندوستان کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا۔(جرمنی، آسٹریا اور روس میں بھی عوام کو ٹکسالوں کی بندش کے بعد ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔)[131] صحت کمزور ہونے کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ طاعون سے مر گئے۔ بخار، قحط اور ہیضے سے مرنے والوں کی تعداد تو اس بھی زیادہ تھی۔ (اس وقت ہندوستان کی کُل آبادی 30 کروڑ سے بھی کم تھی۔) اگرچہ ظاہری طور پر 1898ء میں فاولر کمیٹی ( Fowler Report) نے چاندی کی کرنسی کی مخالفت کری تھی (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ فاولر کے معنی ہیں صیاد، چڑی مار) لیکن یہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے عمداً جھوٹ تھا کیونکہ عملاً حکومت ہند نے اس کے عین برعکس کام کیا۔ چاندی کے سکے کا اجرا جو 1893ء سے ختم کر دیا گیا تھا اسے 1899ء سے دوبارہ جاری کرنا شروع کر دیا۔ جب حکومت نے چاندی کے روپے کے سکے بڑی مقدار میں جاری کرنے شروع کیے تو 1902ء تک ہندوستان کی خوش حالی دوبارہ واپس آ چکی تھی۔[133] عوام کو الّو بنانے کے لیے فاولر کمیٹی کی سفارش پر 15 ستمبر 1899ء میں حکومت نے قانون بھی بنایا کہ برطانوی سونے کے سکے (سوورین) بغیر کسی حد کے ہندوستان میں ہی بنائے جائینگے مگر اس قانون پر کبھی عمل نہ ہوا۔[131] یہ سب کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کے لیے ڈراما تھا۔
سنہ(ء) | چاندی کی قیمت۔ پنس فی اونس |
---|---|
1871 | 60.5 پنس |
1892–1893 | 40 پنس(3 شلنگ 4 پنس) |
1893–1894 | 33.3 پنس |
1894–1895 | 29 پنس |
1895–1896 | 30 پنس(2 شلنگ 6 پنس) |
ستمبر 1917 | 55 پنس |
دسمبر 1919 | 79 پنس[132] |
پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی ہندوستان میں لوگوں کا کاغذی کرنسی پر شک بڑھ گیا اور اگست 1914 میں صرف چار دنوں میں حکومت کو کاغذی نوٹوں کے بدلے 20 لاکھ پاونڈ (3 کروڑ روپے) کی مالیت کے سونے کے سکے عوام کو ادا کرنے پڑے۔ اس کے بعد سونے میں ادائیگی روک دی گئی لیکن چاندی کی ادائیگی جاری رہی۔ صرف پانچ سالوں میں حکومت ہند کو دوسرے ممالک سے 53 کروڑ اونس (16600 ٹن) چاندی خریدنی پڑی اور دیڑھ ارب چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے۔ کاغذی کرنسی کو مزید مقبول بنانے اور چاندی پر سے بوجھ ہٹانے کے لیے 1917 میں حکومت ہند نے ایک روپے اور ڈھائی روپے کے نوٹ جاری کیے۔ اس سے پہلے سب سے چھوٹا نوٹ پانچ روپے کا تھا۔ ستمبر 1917 میں چاندی کی قیمت (جو 1893 سے 34 پنس فی اونس سے کم رہی تھی) بڑھ کر 55 پنس فی اونس ہو گئی اور لوگوں نے سکے پگھلا کر چاندی کے برتن اور زیورات بنانے شروع کر دیے۔ 1835 سے اِس وقت تک پانچ ارب (یعنی 60 ہزار ٹن) چاندی کے سکے بنائے جا چکے تھے جن کے پگھلا دیے جانے کا خطرہ موجود تھا۔ اس لیے حکومت کو مجبوراً ہندوستانی روپے کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا اور اس طرح ایک پاونڈ 15 روپے سے گر کر 10 روپے کے برابر ہو گیا۔[134] 23 اپریل 1918 کو امریکی حکومت نے Pittman Act بنا کر امریکی عوام کی تقریباً 52 کروڑ اونس چاندی ضبط کر لی (بہ عوض کاغذی کرنسی) اور اسے ہندوستان بھیج دیا تاکہ ہندوستان میں کاغذی نوٹ کی چاندی کے روپے میں تبدیلی کا عمل (convertibility) متاثر نہ ہو اور کاغذی کرنسی کی ساکھ بہتر ہوتی جائے ۔
ہندوستانی کرنسی- لاکھ روپے [135] | ||||
---|---|---|---|---|
کل کرنسی میں کاغذی کرنسی کی فیصد مقدار | کتنے کاغذی روپے گردش میں تھے | کتنے چاندی کے روپے گردش میں تھے | کتنے نئے چاندی کے روپے جاری ہوئے | مالی سال |
16 | 2379 | 12859 | 1360 | 1900–1901 |
16 | 2424 | 12649 | 204 | 1901–1902 |
19 | 2887 | 12428 | 60 | 1902–1903 |
19 | 3154 | 13565 | 1142 | 1903–1904 |
19 | 3373 | 14247 | 688 | 1904–1905 |
20 | 3790 | 15569 | 1611 | 1905–1906 |
19 | 4120 | 17241 | 2288 | 1906–1907 |
18 | 3865 | 17592 | 1548 | 1907–1908 |
20 | 3923 | 16075 | 2 | 1908–1909 |
21 | 4651 | 17242 | 8 | 1909–1910 |
21 | 4568 | 17404 | -42 | 1910–1911 |
22 | 5324 | 18441 | -7 | 1911–1912 |
سال | چاندی کی سالانہ اوسط قیمت[136]) US$/ozt |
سونے کی سالانہ اوسط قیمت[137]) US$/ozt |
چاندی کے مقابلے سونے کی قیمت ratio |
بازیاب شدہ چاندی کے عالمی ذخائر۔ ٹن میں[138] |
---|---|---|---|---|
1840 | 1.29 | 20 | 15.5 | N/A |
1900 | 0.64 | 20 | 31.9 | N/A |
1920 | 0.65 | 20 | 31.6 | N/A |
1940 | 0.34 | 33 | 97.3 | N/A |
1960 | 0.91 | 35 | 38.6 | N/A |
1970 | 1.63 | 35 | 22.0 | N/A |
1980 | 16.39 | 612 | 37.4 | N/A |
1990 | 4.06 | 383 | 94.3 | N/A |
2000 | 4.95 | 279 | 56.4 | 420٫000 |
2005 | 7.31 | 444 | 60.8 | 570٫000 |
2009 | 14.67 | 972 | 66.3 | 400٫000 |
2010 | 20.19 | 1٫225 | 60.7 | 510٫000 |
2011 | 35.12 | 1٫572 | 44.7 | 530٫000 |
2012 | 31.15 | 1٫669 | 53.6 | 540٫000 |
2013 | 23.79 | 1411 | 59.6 | 520٫000 |
2014 | 19.08 | 1266 | 65.2 | 520٫000 |
2015 | 15.68 | 1160 | 74.5 | 570٫000 |
2016 | 17.18 | 1253 | 72.9 |
برطانیہ میں 1821 سے سونے کے سکّے قانونی کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔ امریکا آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی یہ بہت مقبول تھے۔ فرانس اور جرمنی کی جنگ (1870–1871) میں فرانس کی شکست کے بعد جرمنی نے فرانس سے تاوان جنگ 5 ارب فرانک کا لگ بھگ 20 فیصد (تقریباً 325 ٹن) سونے کی شکل میں وصول کیا اور اپنی کرنسی کو چاندی سے ہٹا کر سونے کی کرنسی اختیار کی کیونکہ چاندی کی مقبولیت گِرانی تھی۔ لیکن اسی دوران میں ہندوستان میں برطانوی راج صدیوں سے رائج سونے کی کرنسی ہٹا کر چاندی کی اور پھر کاغذ کی کرنسی نافذ کرنے میں مصروف رہا۔ جولائی 1926 میں حکومت ہی کے بنائے ہوئے Hilton Young Commission نے بھی ہندوستان میں حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سفارش کی مگر حکومت نے نظر انداز کر دی۔
ٹکسالوں کی بندش | |
---|---|
سن عیسوی | ملک |
1871ء | جرمنی |
1873ء | ہالینڈ |
1873ء | متحدہ امریکا |
1878ء | آسٹریا |
1893ء | روس |
1893ء | انڈیا |
1935ء | چین |
چاندی کی کرنسی کی موجودگی میں مرکزی بینکاروں کو کاغذی کرنسی کا رواج عام کرنے میں سخت دشواری کا سامنا تھا۔ بینکار جانتے تھے کہ صدیوں سے لوگ چاندی میں بچت کرتے آئے ہیں۔ 1869 میں بیرون الفانسو ڈی روتھشیلڈ نے کہا تھا کہ "ہمیں چاندی کی کرنسی کو مکمل طور پر ختم کرنا پڑے گا تاکہ دنیا کے سرمائے (capital) کا بڑا حصہ برباد کیا جا سکے۔ یہ بہت بڑی تباہی ہو گی۔"[139] اس کے بعد جرمنی میں چاندی کی ٹکسالیں 1871 میں بند کی گئیں۔ امریکا میں یہ 1873 میں بند ہوئیں جس کے بعد 1874 سے چاندی کی قیمت گرنا شروع ہوئی۔ 1879 میں یورپ میں Latin Monetary Union نے بھی چاندی کی آخری ٹکسال بند کر دی اور اسی سال امریکا میں حکومت نے کاغذی کرنسی کے بدلے چاندی کی بجائے سونا واپس کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں چاندی کی ٹکسالوں کو 1893 میں بند کیا گیا۔ چین نے چاندی کی ٹکسالیں بند کرنے سے انکار کر دیا اور وہاں چاندی کی ٹکسالیں 1935 تک سکے بناتی رہیں۔ 1879 سے 1935 تک چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہو گئی۔[140] غالباً چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے اہم وجہ لندن سے انڈیا اور چین تک ٹیلی گرافی کی لائن کا پہنچنا تھا جس نے بینک آف انگلینڈ کو انڈیا اور چین کی مارکیٹ میں ہیراپھیری کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ چاندی کی قیمت گرنے سے انگلینڈ واضح طور پر منافع میں رہا جبکہ انڈیا اور چین کنگال ہو گئے۔[141]
- "One last point on Silver… It has been one of--if not the—most manipulated markets in the world for many, many years."[142]
چاندی کی کرنسی کو ختم کر کے کاغذ کو کرنسی بنانے میں ایک خفیہ تنظیم The Pilgrims Society نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔[143]
ہندوستان میں سونے چاندی کی طلب بہت زیادہ تھی۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے روپے کی قیمت 16 پنس (یعنی 15 روپے کا ایک پاونڈ) پر برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں سونا درآمد یا برآمد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ روپے کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت کونسل بل (بینک ڈرافٹ) فروخت کرتی تھی اور روپے کی قیمت گرنے سے روکنے کے لیے ریورس کونسل بل بیچتی تھی۔ ریورس کونسل بل پہلی دفعہ 6 مہینے کی مدت کے لیے بیچے گئے جب 1908 میں قحط کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ اس دوران میں 80 لاکھ پاونڈ (12 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بکے۔ دوسری دفعہ جنگ عظیم اول کی وجہ سے اگست 1914ء سے جنوری 1915 کے درمیان میں 90 لاکھ پاونڈ (ساڑھے 13 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بیچنے پڑے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتماد بڑھا۔[119] کونسل بل کی قیمت گھٹا بڑھا کر برطانیہ چاندی کی قیمت گرانے میں کامیاب ہو جاتا تھا[125]
۔ اس طرح خطیر تجارتی منافع کے باوجود ہندوستان غریب ہوتا رہا جبکہ خطیر تجارتی خسارے کے باوجودبرطانیہ امیر ہوتا رہا۔ 1851 سے 1938 کے درمیان میں صرف دو سال ایسے گذرے تھے جب ہندوستان کو تجاتی خسارہ رہا تھا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اپریل 1920 سے مارچ 1922 کا عرصہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد 1932 میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان کی ساری چاندی جمع کر کے یک لخت بین الاقوامی مارکیٹ میں چھوڑ دی جس سے چاندی کی قیمت بہت گر گئی۔ [144] لیکن چین نے پھر بھی نہ سلور اسٹینڈرڈ ترک کیا نہ کاغذی کرنسی اپنائی۔ اس پر امریکا نے مہنگے داموں (کاغذی سلور سرٹیفیکٹ کے عوض) بڑی مقدار میں چاندی خریدنے کا قانون (Silver Purchase Act, 1934) بنایا۔ اس کے نتیجے میں چین کے چاندی کے سکے پگھلانا یا اسمگل کرنا بڑا منافع بخش کاروبار بن گیا۔ جب چین میں چاندی کی شدید قلت ہو گئی تو چین کو بھی ٹکسالیں بند کرنے پر مجبور کیا جا سکا۔
جب پہلی ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ہندوستان میں وہ بینک رن دیکھنے میں نہیں آیا جو پہلی جنگ عظیم شروع ہونے پر ہوا تھا۔ یعنی اس وقت تک لوگوں کا کاغذی کرنسی پر سے شک دور ہو چکا تھا۔ ہندوستان کی زمین تو بہت پہلے ہی گوروں کے قبضے میں آ چکی تھی۔ اب ہندوستانیوں کے ذہن بھی قبضے میں آ گئے۔ اب پہلی دفعہ اس بات کے آثار واضح ہونے لگے کہ ہندوستان کو آزادی بھی دے دی جائے جبکہ اس ملک کا غلام نوآبادی (کالونی) کا درجہ بھی جوں کا توں برقرار رہے۔
گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد ایسی کاغذی کرنسی تھی جسے پہلے ہی سے طے شدہ مقدارکے سونے میں تبدیل کیا جا سکے۔[145] لوگوں کو پوری آزادی ہوتی تھی کہ جب چاہیں کاغذی کرنسی کے بدلے بینکوں سے سونے کے سکوں کی لین دین کر سکیں۔[146] دوسرے الفاظ میں گولڈ اسٹینڈرڈ مالیاتی نظام کی ایک قسم تھی جس میں ایک کاغذی روپیہ،(یا ڈالر، پاونڈ وغیرہ) سونے کی ایک مخصوص مقدار کی نمائندگی کیا کرتا تھا اور سونے کے سکے میں تبدیل (convert) کیا جا سکتا تھا۔[147] یعنی کاغذی روپیہ سونے کے سکے کی رسید یا ٹوکن کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ fiat کرنسی کی۔
گولڈ اسٹینڈرڈ کا قانون مرکزی بینکوں کی جانب سے ان سونے کے سکّوں کی بجائے کاغذی کرنسی کا استعمال زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی غالباً پہلی اور بڑی حد تک کامیاب کوشش تھی۔ لوگ یہ سمجھ کر کاغذی کرنسی قبول کرنے لگے کہ اس کے بدلے جب چاہیں بینک سے سونے کے سکّے حاصل کر سکتے ہیں۔
- "کرنسی اور متبادل کرنسی الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہم فی ایٹ کرنسی کو کرنسی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں"
- "There is a difference between money and money substitutes. We use these fiat currencies … as a money substitute."[148]
- "کرنسی دراصل سونے کا حکومتی متبادل ہے۔ لیکن اصل کرنسی سونا ہے۔"
- A currency is a government substitute for money. But gold is money.[149]
- "روٹی وصول کرنے کا پروانہ خریدا اور بیچا جا سکتا ہے مگر یہ روٹی سے بہتر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ روٹی کی جگہ استعمال نہیں ہو سکتا۔ مگر رقم وصول کرنے کا پروانہ رقم کی جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔.. کریڈٹ رقم وصول کرنے کا پروانہ ہوتا ہے اور رقم چیزیں وصول کرنے کا پروانہ ہوتی ہے۔"
- an Order to receive bread may be bought and sold, but it cannot supersede bread, because it cannot serve as food. An order for such things can never serve as a substitute for the things themselves. But an Order to pay Money can serve as a substitute for Money....Credit is an Order to pay Money, and Money is an Order to pay Goods.[29]
گولڈ اسٹینڈرڈ کب نافذ ہوا | [150] |
---|---|
ملک | سال |
برطانیہ | 1821 |
جرمنی | 1871 |
سوئیڈن | 1873 |
فرانس | 1874 |
بیلجیئم | 1874 |
اٹلی | 1874 |
سوئیزرلینڈ | 1874 |
ہولینڈ | 1875 |
آسٹریا | 1892 |
جاپان | 1897 |
روس | 1898 |
امریکا (عملاً) | 1873 |
امریکا (قانوناً) | 1900 |
گولڈ اسٹینڈرڈ کی قسم | دورانیہ |
---|---|
کلاسیکل گولڈ اسٹینڈرڈ (Classical Gold Standard) | 1815ء - 1914ء |
لنگڑا گولڈ اسٹینڈرڈ (Limping Gold Standard)[152] | 1914ء - 1926ء |
گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ (Gold Exchange Standard) | 1926ء - 1931ء |
فی ایٹ کرنسی کا اتار چڑھاو (Fluctuating Fiat Currencies) | 1931ء - 1945ء |
بریٹن اووڈ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ (Bretton Woods Gold Exchange Standard) | 1945ء - 1968ء |
فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ (debt standard) | 1971ء تا حال |
گولڈ اسٹینڈرڈ کی اقسام
لگ بھگ 500 سال قبل تک گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد وہ قوانین ہوتے تھے جو سونے کے سکے کا صرف وزن اور خالصیت (قیراط) بیان کرتے تھے۔ لیکن بعد میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام سے ایسے قوانین بنائے جانے لگے جو کاغذی کرنسی کو سونے کا متبادل قرار دیتے تھے۔
- طلائی نقدی معیار: (Gold specie standard) اسے کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ایک کاغذی روپیہ ایک چاندی کے روپے کے برابر ہوتا تھا اور 15 چاندی کے روپے ایک سونے کے سکّے (طلائی مہر یا اشرفی) کے برابر تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی ہندوستان میں صرف سونے چاندی تانبے وغیرہ کے سکّے چلتے تھے اور انگریز حکومت کاغذی کرنسی کا رواج شروع کر رہی تھی۔ کاغذی کرنسی پہ اعتبار بڑھانے کے لیے شروع شروع میں تو لوگوں کو بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی دے دی جاتی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ مشکل تر ہوتا چلا گیا اور بالآخیر بالکل ہی ختم ہو گیا۔ برطانیہ میں یہ نظام 1821 سے پہلی جنگ عظیم (اگست 1914) تک چلا۔ ایک پونڈ اسٹرلنگ 113 گرین (grain) سونے کی نمائیندگی کرتا تھا اور ایک امریکی ڈالر 23.22 گرین سونے کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے آغاز کے بعد کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ کا خاتمہ ہو گیا۔
کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ میں مندرجہ ذیل چھ خوبیاں موجود تھیں جو رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئیں اور گولڈ اسٹینڈرڈ محض فراڈ بن کر رہ گیا۔
- کاغذی کرنسی کا تعلق سونے کے طے شدہ وزن سے تھا۔
- سونے کے سکے گردش میں تھے۔
- کاغذی کرنسی سونے کے سکّوں میں با آسانی تبدیل کی جا سکتی تھی۔
- دوسرے سکے (مثلاً چاندی کے سکے) سونے کے سکوں کے ماتحت تھے۔
- سونے کے سکے پگھلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
- سونے کی کسی بھی شکل میں درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی یا ٹیکس نہیں تھا۔[150]
ہندوستان میں قانون تو گولڈ اسٹینڈرڈ جیسا بنا تھا لیکن چند سالوں بعد ہی عملی طور پر "گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ" رواج دے دیا گیا اور حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کے تقاضے کبھی پورے نہ ہو سکے۔[132] حقیقی طلائی معیار میں سونا چاندی بغیر کسی روک ٹوک کے عوام کی دسترس میں ہوتا ہے کیونکہ سونے چاندی کے سکے گردش میں ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں طلائی معیار کا قانون 1816ء میں بنا تھا جس کے بعد اگلے سال سونے کا سکہ "سوورین" (sovereign) جاری کیا گیا جو 22 قیراط سونے سے بنا تھا اور اس میں 7.322 گرام خالص سونا ہوتا تھا یعنی 100 سورین برابر تھے تقریباً 63 اشرفی کے۔ یہ ایک پاونڈ یعنی 20 چاندی کے شلنگ کے برابر تھا۔ ان نئے سکوں نے پرانے سونے کے سکے "گنی" (Guinea) کی جگہ لی۔ نومبر 1864ء میں سوورین کی قیمت 10 ہندوستانی روپے کے مساوی قرار دی گئی تھی۔ (یعنی سوورین کی شکل میں 24 قیراط سونے کی قیمت لگ بھگ 15.93 روپیہ فی تولہ تھی )۔ 26 جون 1893ء کو Lord Herschell کی سفارش پر سوورین کی قیمت بڑھا کر 15 روپے قرار دی گئی (یعنی لگ بھگ 24 روپے فی تولہ) اور ٹکسالیں بند کر دی گئیں۔ اس طرح ایک سوورین ایک اشرفی (گولڈ مُہر) کے برابر ہو گیا حالانکہ سوورین کے مقابلے میں اشرفی میں خالص سونے کی مقدار لگ بھگ 45 فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح شرح تبادلہ کنٹرول کر کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر لُوٹنا قانونی ہو گیا۔
- The sovereign became equivalent to just fifteen rupees, which was precisely the same rate at which the gold mohur used to exchange for (silver) rupees[131]
- طلائی تبدل معیار: (Gold exchange standard)۔ اپنے نام کی مماثلت کے باوجود گولڈ اسٹینڈرڈ اور گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں یعنی قابل تخلیق کرنسی کو رائج کرنا۔ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں صرف امریکا اور برطانیہ کو “ریزرو ممالک“ کا درجہ دیا گیا جن کے لیے سونے کا ذخیرہ رکھنا “ضروری“ تھا جبکہ باقی ممالک کے لیے کاغذی ڈالر یا پاونڈ کا ذخیرہ سونے کے ذخیرے کے مساوی قرار دیا گیا[153] وجہ یہ بتائی گئی کہ دنیا میں اتنا سونا دستیاب نہیں ہے کہ ہر ملک کا سینٹرل بینک اپنا سونے کا ذخیرہ بنا سکے۔[154]
اس حکمت عملی کو “سونے کی کفایت شعاری“ بتایا گیا۔(دیکھیے لنڈسے اسکیم)
طلب و رسد (demand & supply) کے قانون کے تحت دستیابی کم ہونے کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھ جانی چاہئیے تھی لیکن ایسا نہ ہونے دیا گیا۔
1926ء میں ہلٹن ینگ کمیشن نے اعتراف کیا کہ "اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ محض ایک ملک (برطانیہ) کی کرنسی پر انحصار کرنا ہندوستان کے لیے سخت نقصان دہ ہے خواہ پاونڈ کتنا ہی مستحکم اور سونے سے جڑا ہو"
- there is undoubted disadvantage for India in dependence on the currency of a single country, however stable and firmly linked to gold[155]
گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں سونے چاندی کے سکّے گردش میں نہیں ہوتے تھے اور حکومت اس بات کی ضمانت دیتی تھی کہ کاغذی روپیہ کے بدلے ایک مقررہ مقدار میں سونا یا چاندی دی جائے گی جو حکومت (یا مرکزی بینک) کے پاس محفوظ رکھی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں لوگوں کا بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی حاصل کرنا بہت مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اب سونا چاندی عوام کی دسترس سے نکل گیا تھا کیونکہ اب بینک کی روک ٹوک درمیان میں آ گئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس ضمانت کی آڑ میں امریکا اور برطانیہ کے مَرکزی بینکوں نے دنیا بھر کے عوام کا سونا چاندی بڑی مقدار میں ہڑپ کر لیا۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اس دوران میں بڑی مقدار میں سونا ہندوستان سے انگلستان بھیجا اور اس طرح ہندوستان میں سونے کی قلّت پیدا ہو گئی تھی جس کو چھپانے کے لیے اصلی سکّوں کی جگہ کاغذی کرنسی کو ہی قانونی کرنسی قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ 1898ء میں Fowler Report کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا اور ایک ہندوستانی روپیہ ایک شلنگ اور چار پینس (1s 4d) کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ درحقیقت اسٹرلنگ ایکسچینج اسٹینڈرڈ تھا۔ جان مینارڈ کینز اپنی کتاب "انڈین کرنسی اینڈ فائیننس" میں لکھتا ہے کہ مالی سال 1900-1901ء میں حکومت ہند نے عوام کو سونے کا برطانوی ایک پاونڈ کا سکہ sovereign چاندی کے 15 روپے کے عوض جاری کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں £6,750,000 کے سکے جاری کیے گئے لیکن توقع کے خلاف ان کی نصف مقدار بھی لوٹ کر بینکوں یا ٹریزری میں واپس نہیں آئی اور یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔
برطانیہ میں اس نظام کو لانے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ پہ 85 کروڑ پاونڈ کا قرضہ چڑھ چکا تھا اور حکومت کے اخراجات کا 40 فیصد سود ادا کرنے پر خرچ ہوتا تھا۔ (لگ بھگ سو سال بعد 2022ء میں برطانیہ پہ 230000 کروڑ پاونڈ کا قرضہ ہے[156])۔ برطانیہ میں یہ نظام صرف 6 سال (1925 سے 1931 تک) چل سکا کیونکہ یورپی ممالک نے برطانیہ سے سونا خریدنا شروع کر دیا اور برطانوی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی۔ مئی 1931 میں آسٹریا کے سب سے بڑے بینک میں بینک رن ہوا اور وہ بینک فیل ہو گیا۔ یہ بینک رن اسی سال جرمنی اور برطانیہ تک پہنچ گیا۔ 19 ستمبر 1931 میں برطانیہ نے یہ نظام ختم کر دیا جس سے برطانوی پاونڈ کی قیمت بڑی تیزی سے گری۔ چونکہ ہندوستانی روپیہ پاونڈ سے منسلک تھا اس لیے روپے کی قدر بھی بہت کم ہو گئی اور برطانیہ کے جرم کی ساری سزا ہندوستان کو بھگتنی پڑی۔ صرف تین چار مہینوں میں ہندوستان میں سونے کی قیمت 45 فیصد اضافہ کے بعد لگ بھگ 32 روپے تولہ ہو گئی۔ یہ سب مرکزی بینکوں کی جانب سے ذخیرہ شدہ سونے کی مالیت سے کہیں زیادہ نوٹ چھاپنے کا نتیجہ تھا۔ اس سارے بحران میں مرکزی بینکوں نے خوب خوب کمایا۔
- A gold standard puts the requirements for the quantity of money in circulation entirely in the hands of the market, to which the central bank mechanically responds. A gold exchange standard allows a lending central bank to inflate its money supply through inward investment, and a borrowing central bank to inflate its money supply on the presumption the monetary substitutes borrowed to back it are monetary units of gold....So, by lending their monetary units, the creditor nations achieved finance for their own governments, as well as providing capital for foreign central banks. It was seen to be a win-win for all the central banks involved.[157]
جیمز ریکارڈز اپنی کتاب “کرنسی کی موت“ (The Death of Money)[158] میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے بارے میں لکھتے ہیں:[159] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ ایک جانب حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سنہری نقل تھا تو دوسری جانب ایک بہت ہی بڑا فراڈ بھی تھا۔
- "مالیاتی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہیں۔ کرنسی چھاپنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ قرضے جاری کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔"
- "There is no anchor to the system. There is no limit on money printing. There is no limit on debt creation."[160]
مالیات کی دنیا میں مبہم اور ذو معنی اصطلاحات کا استعمال بہت عام ہے۔[29] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں لفظ ایکسچینج سے مراد بل آف ایکسچینج[161] تھا جو ایک بینک ڈرافٹ ہوتا تھا اور اس زمانے میں بین الاقوامی ادائیگیوں میں بہت استعمال ہوتا تھا۔[162] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کا لب لباب یہ تھا کہ سونے کے بدلے کاغذ لے لو۔ عوام کو اگرچہ کاغذی رسید کے بدلے سونا نہیں دیا جاتا تھا مگر اب بھی عوام کا سونے پر حق تسلیم کیا جاتا تھا۔
- طلائی سلاخ معیار: (Gold bullion standard) اس نظام میں عام آدمی کے لیے کاغذی کرنسی کے بدلے بینک سے سونے کا سکہ لینے کا حق ہی ختم کر دیا گیا۔ صرف چند امیر لوگوں کے پاس یہ حق باقی رہ گیا جو دوسرے ممالک سے تجارت کرتے تھے اور یک مشت 400 اونس (لگ بھگ ساڑھے بارہ کلو) کی سونے کی اینٹ خرید سکتے تھے۔ اس نظام کو پہلی دفعہ رکارڈو نے تجویز کیا تھا مگر ان تجاویز پر عمل اس کی موت کے سو سال بعد ہوا۔
حکومت برطانوی ہند نے عوام سے سونا خریدنے کی کم از کم حد 40 تولے رکھی تھی مگر عوام کو سونا بیچنے کی کم از کم حد 400 اونس یعنی 1069 تولے مقرر کی تھی۔[111]
بعد میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بننے والے سر چنتا من راو دیشمکھ نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایسی اصلاحات کے بعد انڈیا آفس اس طرح کا نا ممکن کاروبار ہو سکنے کے بارے میں اندھا ہے اور بے چارے مالیاتی حکام کو اسمبلی میں کھڑے ہو کر اُن پالیسیوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ خود بھی غلط سمجھتے ہیں اور جن کے نقصانات بڑے واضح ہوتے ہیں"۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 1931 سے مارچ 1941 تک ہندوستان کی برطانوی حکومت نے 1337.5 ٹن سونا برطانیہ بھیجا جس کی اُس وقت مالیت 375 کروڑ روپے تھی۔ اُس وقت اس سونے کی اوسط قیمت 33 روپے فی تولہ سے بھی کم تھی۔ اس سونے سے بینک آف انگلینڈ کو سونے کا ذخیرہ بنانے میں بڑی مدد ملی۔[132] اگر آج کے سونے کے نرخ سے دیکھا جائے تو یہ 87 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا تھا۔ 1900ء میں سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ہدایت پر Gold Standard Reserve کا سارا سونا پہلے ہی ہندوستان سے لندن منتقل کیا جا چکا تھا۔
- حد یہ ہے کہ کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ بھی (مارکیٹ کی بجائے) حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ اور جب جنگ کے شوقین افراد کو اس میں بھی گھٹن ہونے لگی تو اسے ترک کر دیا۔ درحقیقت گولڈ اسٹینڈرڈ ناکام نہیں ہوا بلکہ حکومتیں گولڈ اسٹینڈرڈ کو قائم رکھنے میں ناکام رہیں۔
- Even the classical gold standard was under control of the state. When that control proved too limited for those eager for war, it was abandoned. The gold standard did not fail. States failed to keep the gold standard.[163]
مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔ [164]
کرنسی کا رتبہ | مالیاتی نظام | فوائد | نقصانات[165][166] |
---|---|---|---|
بہترین | “ہارڈ کرنسی“ یعنی جب اصل مالیت
کے دھاتی سکے زیر گردش ہوں |
|
|
اچھی | “گولڈ اسٹینڈرڈ“ یعنی ایسی کاغذی کرنسی
جو طے شدہ سونے میں تبدیل کی جا سکے[168] |
|
|
خراب | حکومت کی جانب سے چھپنے والی Fiat کرنسی (جیسے چین کی کاغذی کرنسی) [169] (fiat money) |
|
|
بدترین | نجی بینکوں کی جانب سے جاری ہونے والی Fiat کرنسی (جیسے ڈالر، پاونڈ، یورو) (debt money) |
|
|
"چونکہ سونا دیانت دار کرنسی ہے اس لیے بد دیانت لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔"
- "Because gold is honest money, it is disliked by dishonest men"[171] Dr. Ron Paul
"مہنگائی اور مالیاتی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ بددیانت کرنسی ہے- یہ حکومتی اہلکاروں کوخسارہ اور قرض بڑھانے کے قابل بناتی ہے۔"
- "The largest contributor to inflation and financial turmoil is dishonest money – enabling bureaucrats to run perpetual government deficits and pile up the federal debt. "[172]
اپنی کتاب A Tract on Monetary Reform میں جان مینارڈ کینز نے لکھا تھا "حکومت جو بھی خرچے کرتی ہے اس کا بل (ملکی یا غیر ملکی) عوام بھرتے ہیں۔ صریح خسارہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔"
- “What a government spends the public pays for. There is no such thing as an uncovered deficit.”
گولڈ اسٹینڈرڈ کی موت [173] | |
---|---|
برطانیہ (پہلی مرتبہ) | 1914ء |
برطانیہ (دوسری مرتبہ) | 1931ء |
متحدہ امریکا | 1933ء |
کینیڈا | 1933ء |
فرانس | 1936ء |
پوری دنیا (نکسن شاک) | 1971ء |
گریشام کا قانون
Gresham's law معیشت کا ایک بنیادی اصول ہے جو بتاتا ہے کہ اچھی (مہنگی) کرنسی ہمیشہ بُری (سستی) کرنسی سے شکست کھا جاتی ہے۔(Bad money drives out good, because good and bad coin cannot circulate together)۔ یہی اصول بتاتا ہے کہ سونے یا چاندی کی کرنسی اور کاغذی کرنسی ہمیشہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔[174] آسان الفاظ میں گریشام کے قانون کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب حکومت منتقلی کے قابل کسی چیز کی قیمت کم مقرر کرتی ہے تو ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے اور جب حکومت اُس چیز کی قیمت زیادہ مقرر کرتی ہے تو مارکیٹ میں اُس چیز کی بھرمار ہو جاتی ہے۔[146] ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔
چونکہ کرنسی کی شکست ملک کی شکست ہوتی ہے اس لیے دوسرے الفاظ میں اگر کسی ملک میں اچھی کرنسی (مثلاً ہارڈ کرنسی) رائج ہو اور پڑوس کے ملک میں کاغذی کرنسی رائج ہو تو ہارڈکرنسی والے ملک کی شکست یقینی ہے (مثلاً سلطنت عثمانیہ اور یورپ)۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نے ہارڈ کرنسی کو مات دی۔ پھر فی ایٹ کرنسی نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو اُکھاڑ پھینکا۔ اس کے بعد debt money نے فی ایٹ منی کو شکست دی۔ اور اگر مستقبل میں debt money سے بھی بدتر کوئی کرنسی ایجاد ہو گئی تو وہ دنیا بھر میں چھا جائے گی مثلاً ڈیجیٹل کرنسی یا بٹ کوائن یا سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC)۔ (دیکھیے کیش کے خلاف جنگ)
نائیجیریا آبادی اور معیشت کے لحاظ سے افریقا کا سب سے بڑا ملک ہے اور تیل کی پیداوار بھی رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ اکنومک فورم (WEF) کے دباو پر نائیجیریا میں سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) کی پہلی آزمائش کرنے کے لیے ریفرنڈم کرایا گیا جس میں 99.5 فیصد عوام نے CBDC کو مسترد کر دیا کیونکہ CBDC حکومت کو مطلق العنان بنا دیتی ہے۔ اس کے باوجود ایک سال بعد 25 اکتوبر 2022ء کو اس وقت کے صدر محمدو بوہاری نے CBDC نافذ کرنے کا فرمان جاری کیا جس طرح 2016ء میں امریکی الیکشن کے دن انڈیا میں نریندر مودی نے بڑے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔[175] لیکن نائیجیریا میں عوام کے شک کی وجہ سے یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔[176]10 کروڑ افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہو گئے۔ 16 فروری 2023ء کو نائیجیریا میں بدترین پُرتشدد فسادات پھوٹ پڑے اور نئے صدر کو 108 دنوں کے بعد پرانی کاغذی کرنسی بحال کرنی پڑی۔[175]اگر کبھی دنیا میں CBDC رائج ہو گئی تو لوگوں کو کھانے کے لیے گوشت بھی صرف کبھی کبھار ہی دستیاب ہو گا۔[177]
گریشام کے اصول سے فائیدہ اٹھانے کی بہترین مثال 1935ء میں واضح ہوئی جب امریکا نے قانون (Silver Purchase Act 1934) بنا کر چاندی کی قیمت بڑھا دی (تاکہ مارکیٹ میں چاندی کی بھرمار ہو جائے) کیونکہ امریکا کو ادائیگی بس کاغذی کرنسی چھاپ کر کرنی تھی۔ چین اور میکسیکو چاندی کی قیمت نہ بڑھا سکے۔ اس کے نتیجے میں چین، میکسیکو اور دیگر کئی ممالک میں لوگوں نے چاندی کے سکے پگھلا کر امریکا اسمگل کر دیے۔ سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین کو سلور اسٹینڈرڈ ترک کر کے کاغذی کرنسی اپنانی پڑی۔ اگر چین پہلے ہی سے اپنی کاغذی کرنسی جاری کر چکا ہوتا تو کاغذی کرنسی میں چاندی کی قیمت بڑھا دیتا اور اپنی چاندی سے محروم ہونے سے بچ جاتا۔
گریشام کے اصول کو موثّر بننے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دو قانون بنائے۔
- گھٹیا کرنسی کو لیگل ٹینڈر (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل ہو۔
- گھٹیا کرنسی اور بہتر کرنسی کے درمیان میں فکسڈ ایکسچینج ریٹ ہو۔[178]
گولڈ اسٹینڈرڈ کے قوانین درحقیقت انھی دونوں شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ بریٹن ووڈز کانفرنس (1944) کے ذریعے یہی دونوں قوانین عالمی سطح پر نافذ کیے گئے تھے۔
گریشام کا قانون صرف اُسی صورت میں فیل ہو سکتا ہے جب دنیا بھر کے عوام کاغذی کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی قبول کرنے سے انکار کر دیں اور دیانت دار کرنسی (honest money) کا مطالبہ کریں جو ایسے دھاتی سکوں پر مشتمل ہوتی ہے کہ سکہ پگھلانے سے بھی اس کی قیمت کم نہیں ہوتی۔
امریکا اور گولڈ اسٹینڈرڈ
ابتدا میں جب امریکی کالونیوں نے کاغذی کرنسی چھاپنے کی کوشش کی تو برطانیہ نے 1751, 1764 اور 1773 میں "کرنسی ایکٹ" بنا کر انھیں روکا۔[179] جب 1775ء میں امریکی انقلاب کی جنگ شروع ہوئی تو 13 ریاستوں کی امریکی کانگریس نے پہلی دفعہ نوٹ چھاپنے کی اجازت دی۔ یہ نوٹ 'کونٹینینٹل کرنسی' کہلاتے تھے۔ انقلاب کے دوران 241,552,780 ڈالر چھاپے گئے۔ صرف دو سالوں میں مہنگائی پانچ گنا بڑھ گئی۔[180]
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکا میں دو دھاتی نظام (bimetallic standard) قائم کیا گیا یعنی 1792ء سے ڈالر کی قیمت سونے اور چاندی دونوں کے وزن اور خالصیت (قیراط) کے لحاظ سے بیان کی جا سکتی تھی اور ڈالر کا سکہ سونے کا بھی ہوتا تھا اور چاندی کا بھی۔ 1789 کے آئین کے پہلے آرٹیکل کی دسویں شق میں بالکل واضح کر دیا گیا تھا کہ کرنسی صرف سونے اور چاندی کی ہو گی۔
[181]
(آج کا کاغذی ڈالر غیر آئینی کرنسی ہے۔)[182] چودھویں شق میں واضح لکھا تھا کہ حکومت کی ٹکسالیں عوام کے سونے چاندی کو بغیر کسی اجرت کے سکوں میں تبدیل کر دیا کریں گی جسے free coinage کہا جاتا تھا۔
گیارہویں شق میں سونے کو چاندی سے 15 گنا مہنگا قرار دیا گیا تھا جو ایک بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ قیمتیں وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں۔( قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔)[183]
اس وقت امریکا میں چاندی کی قیمت 1.293 ڈالر فی اونس تھی اور قانوناً سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا تھا۔ لیکن اس وقت باقی دنیا میں سونا چاندی سے پندرہ کی بجائے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ دوسرے الفاظ میں امریکا میں سونا باقی دنیا سے سستا تھا اور اسی وجہ سے سونے کے امریکی ڈالر کا سکہ بڑی مقدار میں دوسرے ممالک میں چلا گیا اور امریکا میں عملاً چاندی کے ڈالر کا سکہ گردش میں رہا۔[184]
اس خامی کو دور کرنے کے لیے 1834 میں امریکی سونے کے ڈالر کے سکے میں سونے کی مقدار گھٹا دی گئی اور اب یہ سکہ چاندی سے 16 گنا مہنگا کر دیا گیا۔ اب چونکہ چاندی کا ڈالر سستا ہو گیا تھا اس لیے امریکا سے چاندی باہر جانے لگی اور سونا واپس آنے لگا۔ امریکا میں سونے کی نئی کانیں بھی دریافت ہوئیں اور سونے کی فراوانی مزید بڑھ گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چاندی کے سکے بالکل ہی نایاب ہو گئے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ دکان دار ریزگاری واپس کرنے سے قاصر ہو گئے۔
اس مشکل کو دور کرنے کے لیے 1853 میں چاندی کے ایسے سکے جاری کیے گئے جن میں چاندی تو کم ہوتی تھی مگر ان پر قدر زیادہ لکھی ہوتی تھی تاکہ ریزگاری بھی واپس کی جا سکے اور سکہ اسمگل ہو کر ملک سے باہر بھی نہ جائے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں اور دھاتی ہونے کے باوجود fiat کرنسی ہوتے ہیں۔
1859 میں نیواڈا، امریکا میں ایک چاندی کی بہت بڑی کان Comstock Lode دریافت ہوئی جہاں سے 1874 تک بڑی مقدار میں چاندی نکالی گئی۔
امریکا کی سول وار 1861ء سے 1865ء تک جاری رہی جس میں 6 لاکھ 25 ہزار لوگ مارے گئے[185]۔ 1862ء میں ابراہم لنکن کی حکومت نے ایسی کاغذی کرنسی جاری کی جس کی پشت پناہی کے لیے نہ سونا ہوتا تھا نہ چاندی۔ یہ "گرین بیک" کہلاتی تھی۔ یورپی بینکار اس پر سخت مضطرب ہوئے اور انھوں نے اپنے امریکی بینکار دوستوں کو Hazard Circular نامی مراسلے میں لکھا کہ"غلاموں کے مالک کو اپنے مزدوروں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جبکہ انگلینڈ کا "یورپی منصوبہ" یہ ہے کہ کیپیٹل (کاغذی کرنسی) کے ذریعے تنخواہیں کنٹرول کر کے مزدوروں کو کنٹرول کیا جائے (اور یہ غلام اپنی دیکھ بھال خود کریں)۔ یہ کرنسی کو کنٹرول کر کے کیا جا سکتا ہے۔ جنگ کے ذریعے کیپیٹلسٹ بہت بڑا قرضہ دے سکتے ہیں پھر اس قرض کو کرنسی کی مقدار کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے حکومتی بونڈز کو بینکاری کی بنیاد بنانا چاہیے۔...اور کسی بھی صورت میں گرین بیک کو بطور کرنسی زیر گردش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے"۔[186] اسی سال امریکا میں پہلی دفعہ انکم ٹیکس عارضی طور پر نافذ کیا گیا۔
برطانیہ 1819 میں،[187] کینیڈا 1853 میں اور نیو فاونڈ لینڈ 1865 میں [188] گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا چکے تھے۔ جرمنی نے 1871 میں گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا تھا۔ امریکا میں 1873 میں سکوں سے متعلق قانون میں ترمیم کر کے چاندی کا لفظ ہٹا دیا گیا اور عملاً گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا گیا جسے عوام نے crime of 1873 کا نام دیا۔ (اور جسے عین سو سال بعد ترک کر دیا گیا)۔ اس قانون سے امریکا میں سرکاری سطح پر دو دھاتی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔
1862ء سے پہلے ہارڈ کرنسی کے اُس دور میں بھی امریکا میں سونے چاندی کے سکوں کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹ بھی بڑی مقدار میں گردش کرتے رہے۔ ان نوٹوں کی حیثیت سونے چاندی کی رسید یا representative money جیسی تھی۔ یہ نوٹ بہت سے مختلف پرائیوٹ بینکوں کی طرف سے بھی جاری ہوتے تھے اور حکومت کے محکمہ خزانہ کی طرف سے بھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی لیگل ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہ تھی۔ 8000 سے زیادہ مختلف نجی بینک کاغذی کرنسی جاری کرتے تھے۔ 25 فروری 1863ء کو صدر ابراہم لنکن نے نیشنل کرنسی ایکٹ منظور کیا جس کے بعد بینکوں کا یہ اختیار ختم ہو گیا اور اب یہ حق صرف حکومت کے پاس آ گیا ۔[191] ہندوستان کی برطانوی حکومت نے یہی کام 1861ء میں کیا تھا۔ عوامی مزاحمت سے بچنے کے لیے ہندوستان کی حکومت نے یہ قانون 1857ء کی بغاوت کے بعد کیے جانے والے قتل عام کی آڑ میں بنایا تھا جس میں 12 لاکھ ہندوستانیوں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔[192] امریکا میں بھی یہ قانون امریکی خانہ جنگی کی ہلاکتوں کی آڑ میں بنایا گیا۔
1879ء میں امریکا بظاہر دوبارہ دھاتی کرنسی پر واپس آ گیا لیکن اس دفعہ چاندی کو کرنسی نہیں قرار دیا گیا بلکہ صرف سونے کو کرنسی قرار دیا گیا۔ عوام کو کاغذی نوٹوں کے بدلے سونے کے سکے دیے جانے لگے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتبار بحال ہو گیا اور اکثریت نے کاغذی نوٹوں کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ عوام کا بڑی شدت سے اصرار رہا کہ چاندی کو بھی کرنسی بنایا جائے مگر 1900ء میں دوبارہ صرف سونے کو ہی قانوناً کرنسی قرار دیا گیا۔
اس زمانے میں "بینک رن" بہت عام تھے اس لیے 1913ء میں فیڈرل ریزرو سسٹم بنایا گیا تاکہ چیک اور نوٹ کے بدلے عوام کو سونے چاندی کی ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے عین برعکس تھا۔ 1933ء میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے صدارتی فرمان (Executive Order 6102) جاری کر کے امریکی عوام سے سونا رکھنے کا حق ہی چھین لیا اور ان کا سونا ضبط کر لیا (بہ عوض کاغذی کرنسی)۔[193] اس فرمان نے امریکا میں گولڈ اسٹینڈرڈ کا خاتمہ کر ڈالا۔[194]
- "جب قانونی طور پر سونا رکھا ہی نہیں جا سکتا تو کاغذی نوٹ کے بدلے کیسے طلب کیا جا سکتا ہے؟"
- After all, if gold can’t be legally owned, it can’t be legally redeemed.[195]
1934ء میں سلور پرچیز ایکٹ بنا کر چاندی بھی بحساب پچاس سینٹ فی اونس ضبط کر لی گئی۔ سونا جو چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا اب 27 گنا مہنگا کر دیا گیا۔
- "And, the manipulation of the price of silver forced China, which was on the silver standard, into a depression, opening the door for the communists."[196]
جس طرح 1918ء میں امریکا میں بننے والے پِٹ مین ایکٹ (Pittman Act) نے ہندوستان میں ڈگمگاتی ہوئی کاغذی کرنسی کو نہایت مضبوط سہارا مہیا کیا تھا بالکل اُسی طرح 19 جون 1934ء کے امریکا کے سلور پرچیز ایکٹ نے چین کی کمر توڑ دی[197]
کیونکہ چین میں چاندی کے سکے زیر گردش تھے جنہیں اب امریکا کاغذی سلور سرٹیفیکٹ چھاپ کر مہنگے داموں خرید رہا تھا۔ 1929 کے گریٹ ڈپریشن میں چین ترقی کرتا رہا مگر 1934ء اور 1935ء میں سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین میں سخت کساد بازاری چھائی رہی جس کی وجہ سے نومبر 1935 میں چین کو بھی سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنا پڑا۔ اب دنیا بھر میں کاغذی کرنسی کی راہ بالکل ہموار ہو گئی۔ اس قانون کی آڑ میں امریکا نے دنیا بھر کی چاندی کا بہت بڑا حصہ صرف کاغذ کے ٹکڑوں (سلور سرٹیفیکٹ) کے عوض ہتھیا لیا۔ اس طرح لگ بھگ 44 ہزار ٹن چاندی امریکا کو مفت مل گئی۔ 24 جون 1968ء کو امریکا سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس دینے کے وعدے سے صاف مُکر گیا۔
- the effects of the Treasury's heavy purchases of silver were to denude China of its chief circulating medium because the American program made silver coin in China more valuable as export bullion than as currency, China left the silver standard and introduced a managed currency.[198]
1933ء میں پہلے امریکا اور پھر برطانیہ کاغذی ٹکڑوں کے عوض لوگوں کا سونا پہلے ہی ہتھیا چکے تھے۔[199]
سونا کب ضبط ہوا[200][201][202] | ||
---|---|---|
سن عیسوی | سربراہ حکومت | ملک کا نام |
1918ء | لینن | روس |
1933ء | فرینکلن ڈی روزویلٹ | متحدہ امریکا |
1935ء | مسولینی | اٹلی |
1935ء | ہٹلر | جرمنی |
1948ء | چیانگ کائی شیک | چین[203] |
1959ء | آسٹریلیا[204] | |
1966ء | برطانیہ[204] | |
2013ء | نیدرلینڈ[205] |
1934 سے 1965 تک امریکا میں اندرون ملک سلور اسٹینڈرڈ اور خارجی سطح پر گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ رہا۔ 1934 سے 1973 تک گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام پر جو سسٹم چلانے کی کوشش کی گئی وہ ہرگز گولڈ اسٹینڈرڈ نہ تھا۔[206]
امریکا میں 1930 تک سونے کے سکے زیر گردش رہے جبکہ چاندی کے سکے 1970 تک گردش میں تھے۔[207]
چین اس خطرے سے آگاہ ہے کہ ماضی کے سلور پرچیز ایکٹ کی طرح امریکا کسی دن اچانک گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر سونے کی قیمت کئی گنا بڑھا دے گا اور ڈالر کو سونے سے دوبارہ منسلک کر دے گا۔[208][209] اس دفعہ امریکا مفت میں سونا تو نہیں ہتھیا سکے گا مگر اپنے قرضوں (ٹریژری بل) کے بوجھ میں بہت بڑی کمی لا سکے گا جو اس کی معیشت کو مفلوج کر چکے ہیں۔ نقصان ان ملکوں کا ہو گا جو ڈالر یا ٹریژری بل کے خریدار ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ چین خود گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر مہنگے داموں سونا خریدنا شروع کر دے[210] تاکہ اس کی کرنسی کو ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہو جائے۔
- "Beijing must realize that the U.S. could surprise the world with a unilateral gold revaluation... and the new dollar is pegged to the gold."[211]
چین اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ اگر دیو کی جان طوطے میں ہو تو دیو سے لڑنا بے وقوفی ہے، بس طوطے کی گردن مروڑو۔ اس لیے چین نے de-dollarization کے پروگرام کو جاری کیا ہوا ہے کیونکہ ڈالر وہ طوطا ہے[212] جس میں امریکا کی جان ہے۔ [213]
[214]
[215]
[216]
- اگر امریکی ڈالر تباہ ہو جائے تو امریکی فوج بھی کمزور ہو جائے گی اور ناٹو بھی ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔
- if the dollar is destroyed, so will be America’s military capability and NATO will fall apart.[217]
- For Davos de-dollarization is just another attack vector on the United States.[218]
مارچ 2010ء تک چین کی 84.3 فیصد تجارت امریکی ڈالر میں ہوا کرتی تھی جبکہ اس وقت چینی یوان میں تجارت صرف 0.3 فیصد تھی۔ چین نے بتدریج ڈالر کی بجائے یوان میں اپنی تجارت کو بڑھایا۔ مارچ 2023ء کے اختتام تک چین کی کل تجارت کا 52.9 فیصد حصہ یوان پر منتقل ہو چکا تھا جبکہ ڈالر میں تجارت گر کر 42.8 فیصد رہ گئی۔[219]
امریکا میں 173 سالوں تک ڈالر سونے یا چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ 1965ء کے بعد سے ڈالر صرف ایک حساب کی اکائی (unit of account) بن کر رہ گیا ہے۔[220]
عرصہ | امریکی ڈالر کی قانونی شکل |
---|---|
1792 سے 1873 | چاندی کا ڈالر جو سونے سے منسلک تھا |
1873 سے 1934 | کاغذی ڈالر جو سونے سے منسلک تھا |
1934 سے 1965 | کاغذی ڈالر جو چاندی سے منسلک تھا |
1965 سے اب تک | کاغذی/ڈیجیٹل ڈالر جو فوجی دھونس سے منسلک ہے[221][222] |
سن عیسوی | کمپنی | مارکیٹ کیپیٹلائزیشن[223] |
---|---|---|
1781ء | بینک آف نارتھ امریکا | دس لاکھ ڈالر |
1791ء | بینک آف دا یونائیٹڈ اسٹیٹ | ایک کروڑ ڈالر |
1878ء | نیویارک سینٹرل ریل روڈ | دس کروڑ ڈالر |
1924ء | AT&T | ایک ارب ڈالر |
1955ء | جنرل موٹرز | دس ارب ڈالر |
1995ء | جنرل الیکٹرک | سو ارب ڈالر |
2018ء | ایپل | ہزار ارب ڈالر |
انگلینڈ اور گولڈ اسٹینڈرڈ
انگلینڈ کے سنار لوگوں کے سونے کی حفاظت کرنے کی ہزار سالہ شہرت رکھتے تھے۔ ان کی جاری کردہ رسیدیں ان کے علاقے کی کرنسی بن جاتی تھیں۔ وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ کے سارے گُر جانتے تھے۔
- “Inside money” is created by the Central Bank/inter-bank lending mechanism that can magically turn one dollar of reserve capital into nine dollars of “credit” capital[224]
سب سے پہلے انھوں نے یہ راز جان لیا کہ اگر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا جائے تو سونے کی بجائے سونے کی رسید سے ہی کام چل سکتا ہے کیونکہ چاندی روزمرہ کی لین دین میں استعمال ہونے والی دھاتی کرنسی ہے جبکہ سونے کا سکہ کبھی کبھار ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ہارڈ کرنسی کی جگہ کاغذی کرنسی کا نظام لایا جا سکتا ہے جس سے ان کی دولت اور اقتدار میں بے انتہا اضافہ ہو سکتا ہے۔
1694ء میں بینک آف انگلینڈ بنا۔ لگ بھگ 1750ء تک پورے انگلینڈ میں سونے چاندی کے سکوں کی بجائے بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی چھا چکی تھی۔[5] یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے باہر کے لوگ کاغذی کرنسی سے بالکل واقف نہ تھے۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے خوب ترقی کری۔
1780 سے انگلینڈ میں سکوں کی قلت بڑھتی چلی گئی جس سے کاغذی کرنسی کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ نپولین کی جنگوں کی وجہ سے سکوں کی قلت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ 1796 سے برطانوی ٹکسالوں نے سکے ڈھالنے بالکل بند کر دیے اور اگلے 20 سالوں تک یہ کام بند رہا۔[225]
انگلینڈ میں 1377 سے 1816 تک سونا چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا[226] جبکہ اس وقت فرانس (جو اس زمانے میں سپر پاور تھا) اور باقی یورپ میں سونا چاندی سے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ اس طرح سونا انگلینڈ آنے لگا اور چاندی باہر جانے لگی۔ 1816 تک بینک آف انگلینڈ اتنا سونا جمع کر چکا تھا کہ اس نے رائج سلور اسٹینڈرڈ کے بدلے دنیا میں سب سے پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ کر لیا اور اس طرح قانونی طور پر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا۔ یہ بینکار اس راز سے اچھی طرح واقف تھے کہ گولڈ اسٹینڈرڈ آخر کار کاغذی اسٹینڈرڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے (دیکھیے گریشام کا قانون)۔
- "گولڈ اسٹینڈرڈ کے بعد فی ایٹ کرنسی کا مرحلہ آتا ہے"
- "The gold standard is one step to fiat"[227]
انگلینڈ نے سونے کے مقابلے میں چاندی میں لیے گئے قرض پر شرح سود بڑھا دی جس سے دوسرے ممالک جو چاندی کے اسٹینڈرڈ پر تھے ان پر بھی گولڈ اسٹینڈرڈ اپنانے اور چاندی کو ترک کرنے کے لیے دباو بڑھ گیا ورنہ ان کی تجارت متاثر ہوتی۔ 1815 میں فرانس کی واٹر لو میں شکست کے بعد انگلینڈ کو کرنسی کے معاملات میں واضح برتری حاصل ہو گَئی اور وہ ساری دنیا کو قرضے جاری کرنے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس طرح تجارتی خسارے کے دنوں میں بھی انگلینڈ کاغذی کرنسی (کیپیٹل) ایکسپورٹ کر کے سونا حاصل کرتا رہا۔
1844ء میں حکومت برطانیہ نے Bank Charter Act 1844 منظور کیا جس سے بینکوں کی بے تحاشہ کرنسی نوٹ چھاپنے کی آزادی ختم ہو گئی۔ لیکن بینکوں نے فوراً اس قانون کا توڑ دریافت کر لیا اور چیک اور ڈرافٹ کے ذریعے تخلیق دولت کا کام جاری رکھا جو اس قانون کی زد میں نہیں آتا تھا۔[5] یہ ایک غلط قانون تھا۔
[228]
1834 سے 1914 تک ایک برٹش پاونڈ 4.867 امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو بننے سے دنیا بھر کو قرض دینے کا حق انگلینڈ کے ہاتھ سے نکل کر امریکا کے ہاتھ میں چلا گیا اور 1933 تک پاونڈ کی قیمت گر کر 2.214 ڈالر رہ گئی جو اگست 2008 کو محض 1.853 ڈالر ہو گئی۔[229] Brexit کے بعد پاونڈ کی قیمت میں مزید کمی آئی اور 21 دسمبر 2016 کو ایک پاونڈ محض 1.24 ڈالر کے برابر تھا۔
کاغذی دولت (کیپیٹل) اور صنعتی ترقی | ||||
---|---|---|---|---|
صنعتی انقلاب | دورانیہ | عرصہ | ایجادیں[230][231] | |
ایجادوں کا پہلا دور | 1785ء سے 1845ء تک | 60 سال | کپڑا سازی، لوہا سازی، بحری طاقتیں | |
ایجادوں کا دوسرا دور | 1845ء سے 1900ء تک | 55 سال | بھاپ کے انجن، اسٹیل سازی، ریلوے، ٹیلی گرافی | |
ایجادوں کا تیسرا دور | 1900ء سے 1950ء تک | 50 سال | بجلی، کیمیکل، پٹرول/ڈیزل انجن، ٹیلی فون | |
ایجادوں کا چوتھا دور | 1950ء سے 1990ء تک | 40 سال | پیٹروکیمیکل، الیکٹرونکس، فضائی سفر، وائرلیس کمیونیکیشن | |
ایجادوں کا پانچواں دور | 1990ء سے 2020ء تک | 30 سال | کمپیوٹر، سافٹ ویئر، نیٹ ورکنگ، غیر مرکزی میڈیا، عالمی نگرانی |
افراط زر
کب کون سی کرنسی ڈوب گئی[232] | |
---|---|
سنہ عیسوی | ملک کا نام |
2023 | لبنان |
2021 | ترکی |
2016 | وینیزویلا |
2009 | شمالی کوریا |
2008 | زمبابوے |
2002 | ارجنٹینا |
1996 | بلغاریہ |
1994 | یوگوسلاویہ |
1994 | برازیل |
1992 | سویت یونین |
1991 | پولینڈ |
1990 | نکاراگوا |
1982 | میکسیکو |
1955 | چین |
1949 | تائیوان |
1946 | ہنگری |
1944 | یونان |
1923 | جرمنی |
1865 | متحدہ امریکا |
کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر (انفلیشن) کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔[233] اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
- "ڈالر کی کل مقدار کا نصف سے زیادہ متحدہ امریکا سے باہر کے ممالک میں ہے۔ جب ہم ڈالر چھاپتے ہیں تو ہم دوسرے ممالک کی قوت خرید چُرا لیتے ہیں جو متحدہ امریکا کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے اور ہم نے اسے بیجا استعمال کیا ہے۔"[234]
- افراط زر دن دھاڑے ڈکیتی ہے۔ یہ سوشل پالیسی نہیں ہے۔
- Inflation is not a social policy. It is daylight robbery...[235]
- magical mouse-click money[236]
- افراط زر سسٹم کی خامی نہیں ہے۔ یہ تو خوبی ہے۔ (حکومت اور سینٹرل بینکرز کے لیے۔)
- Inflation Isn't A Bug In The System, It's A Feature[237]
- افراط زر تو سوچی سمجھی پالیسی ہے۔
- Inflation Is A Policy.[238]
یکم فروری 2023ء کو لبنان کے سینٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی قیمت 90 فیصد گرا دی لیکن یہ اب بھی بلیک مارکیٹ کی قیمت کا چوتھائی ہے۔ رائٹرز (Reuters) کے مطابق ستمبر 2019ء سے نومبر 2022ء کے درمیان لبنانی لیرا کی مقدار میں 12 گنا اضافہ ہوا ہے۔ لبنان کے بینکوں نے لوگوں کو اپنے پیسے بینک سے نکالنے سے روک دیا ہے اور وہاں معیشت کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ امریکی ڈالر پر منتقل ہو گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ایما پر لبنان کے بینک حکومت کے 3 ارب ڈالر ہڑپ (bail-out) کر جائینگے۔[239] 2023ء کی ابتدا میں لبنان میں صرف چند ہفتوں کے اندر قیمتیں 20 گنا بڑھ گئیں۔[240]
ایک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں | ||
---|---|---|
سن عیسوی | کتنے پاکستانی روپے | سربراہ حکومت |
1950ء | 3.3 پاکستانی روپے | لیاقت علی خان |
1960ء | 4.7 پاکستانی روپے | ایوب خان |
1970ء | 4.7 پاکستانی روپے | یحییٰ خان |
1980ء | 9.9 پاکستانی روپے | ضیاء الحق |
1990ء | 21 پاکستانی روپے | غلام اسحاق خان |
1995ء | 31 پاکستانی روپے | فاروق لغاری |
2000ء | 53 پاکستانی روپے | محمد رفیق تارڑ |
2005ء | 59 پاکستانی روپے | پرویز مشرف |
2010ء | 85 پاکستانی روپے | آصف علی زرداری |
2015ء | 102 پاکستانی روپے | نواز شریف |
2021ء | 180 پاکستانی روپے | عمران خان |
2023ء | 275 پاکستانی روپے | شہباز شریف |
2023ء | 306 پاکستانی روپے | انوارالحق کاکڑ |
اس صدی کی پہلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اس قدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔[241] کاغذی نوٹوں کی بے تحاشہ چھپائی کے نتیجے میں زمبابوے کی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جانے لگی۔ آئے دن اسٹاک کی قیمت ڈبل ہو جاتی تھی۔[242] ستمبر 2008ء کو افراط زر کی شرح 489 ارب فیصد ہو چکی تھی۔ 2015ء میں زمبابوے نے اپنی کرنسی کی بجائے امریکی ڈالر کو اپنے ملک میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دو سال بعد دوبارہ ملکی کرنسی اپنائی مگر افراط زر پھر بے قابو ہونے لگا۔ 25 جولائی 2022ء کو حکومت نے اعلان کیا کہ اب سے ملک میں 22 قیراط سونے کا ایک اونس وزنی سکہ کرنسی ہو گا۔[243]
فروری 2018ء میں وینیزویلا کی کرنسی عوام نے ردّی کی طرح سڑک پر پھینکنا شروع کر دی۔[244] نومبر 2016ء میں ایک امریکی ڈالر 1500 وینیزویلا کے بولیور کے برابر تھا۔ صرف دیڑھ سال بعد 8 جون 2018ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 23 لاکھ بولیور کے برابر پہنچ چکی تھی یعنی ڈالر اس عرصہ میں 1533 گنا مہنگا ہو گیا تھا۔[245]
حالیہ افراط زر | ||
---|---|---|
ملک | سالانہ افراط زر[246] | تاریخ |
زمبابوے | 269.00% | Oct-22 |
لبنان | 162.00% | Sep-22 |
وینیزویلا | 156.00% | Oct-22 |
شام | 139.00% | Aug-22 |
سوڈان | 103.00% | Oct-22 |
ارجنٹینا | 88.00% | Oct-22 |
ترکی | 85.50% | Oct-22 |
سری لنکا | 66.00% | Oct-22 |
ایران | 52.20% | Aug-22 |
سری نام | 41.40% | Sep-22 |
گھانا | 40.40% | Oct-22 |
کیوبا | 37.20% | Sep-22 |
لاوس | 36.80% | Oct-22 |
مالدوا | 34.60% | Oct-22 |
ایتھوپیا | 31.70% | Oct-22 |
روانڈا | 31.00% | Oct-22 |
ہائی تی | 30.50% | Jul-22 |
سائرے لیون | 29.10% | Sep-22 |
پاکستان | 26.60% | Oct-22 |
یوکرین | 26.60% | Oct-22 |
کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔[247] اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔[248] جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔[249][250] [251]
پچھلے 255 سالوں میں قیمتیں دوگنی ہونے میں ابتدائی 185 سال لگے حالانکہ اس عرصے میں دنیا کو دو جنگ عظیم بھی جھیلنا پڑیں۔ لیکن بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد کے 70 سالوں میں قیمتیں 50 گنا بڑھ گئیں۔[252]
اگر خام معدنی تیل کی قیمت کا ڈالر کی بجائے سونے سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1950ء میں ایک اونس سونے میں جتنا تیل خریدا جا سکتا تھا، 2023ء میں بھی ایک اونس سونے سے اُتنا ہی تیل خریدا جا سکتا ہے۔[43]
1930 تک سونے کی قیمت تقریباً 20 ڈالر فی اونس تھی۔ یہ قیمت پچھلے دیڑھ سو سال سے برقرار تھی۔ اتنے لمبے عرصہ تک قیمت مستقل رہنے کی وجہ یہی تھی کہ ڈالر کاغذی نہیں بلکہ دھاتی تھا۔ برطانیہ میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمت ستروھیں صدی سے 1914 تک مستحکم تھی۔ [253] قیمتوں کا بڑھنا کاغذی کرنسی کا لازمی جُز ہے۔[254]
1717 سے 1945 تک یعنی سوا دو سو سال تک برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت 4.25 پاونڈ فی اونس تھی۔ بریٹن ووڈ کے معاہدے کے بعد برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت ختم کر دی گئی۔ 1927 میں ایک برطانوی پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ ہندوستانی روپے تھی۔
1925 میں ہندوستان میں سونے کی قیمت لگ بھگ 26 روپیہ فی تولہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل یہ 30 روپیہ فی تولہ تھی۔ اس وقت ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ 60 روپے ہوا کرتی تھی۔[255]
2 فیصد سالانہ افراط زر کے نتیجے میں مہنگای | |
---|---|
کتنے سالوں بعد | مہنگائی کتنی ہو جاتی ہے |
35 | دو گنا |
70 | چارگنا |
105 | آٹھ گنا |
140 | سولہ گنا |
350 | ہزار گنا |
500 | بیس ہزار گنا |
علا الدین خلجی کے دور حکومت (1296–1316 عیسوی) میں ہر چیز کی قیمت پر انتہائی سختی سے کنٹرول رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ لگ بھگ 20 تنکا ماہانہ ہوا کرتی تھی جبکہ ایک تنکے میں 10 من چاول بکتا تھا۔ اس وقت کا ایک تنکہ بعد کے شیر شاہ سوری (دورِ حکومت 1540ء سے 1545ء تک) کے ایک روپیہ کے بالکل برابر تھا۔[256]
1871 میں چاول دیڑھ روپے من تھا جو 1893 میں دو روپے من ہو چکا تھا۔[257]
1947ء میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر لگ بھگ تین روپے کا تھا جبکہ سونا لگ بھگ 40 روپے تولہ تھا۔ 1965 میں سونے کی قیمت 127 روپیہ فی تولہ تھی۔
مختلف کرنسی کے سالانہ افراط زر
سونا ایک غیر علانیہ بین الا اقوامی زرِ کثیف (ہارڈ کرنسی) ہے۔ اس کی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں ہونے والے افراط زر (مہنگائی) کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جنوری 2021ء تک پچھلے 20 سالوں میں امریکی ڈالر میں سونے کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 6 گنا ہے جبکہ اسی عرصہ میں چاندی کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 4.7 گنا ہے۔[258] 9 جولائی 2020ء تک سونے کی قیمت میں ہونے والا سالانہ فیصد اضافہ مختلف کرنسی میں مندرجہ ذیل ہے۔
سونے کی قیمت میں سالانہ اضافہ[259] | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سن عیسوی | امریکی ڈالر $ | آسٹریلوی ڈالر | کینیڈین ڈالر | سوئس فرانک | چینی یوان | یورو € | برطانوی پاونڈ £ | ہندوستانی روپیہ ₹ | جاپانی ین ¥ |
2005 | 20.0% | 28.9% | 15.4% | 37.8% | 17.0% | 36.8% | 33.0% | 24.2% | 37.6% |
2006 | 23.0% | 13.7% | 23.0% | 14.1% | 19.1% | 10.6% | 8.1% | 20.9% | 24.3% |
2007 | 30.9% | 18.3% | 12.1% | 21.7% | 22.3% | 18.4% | 29.2% | 16.5% | 22.9% |
2008 | 5.6% | 31.3% | 30.1% | -0.1% | -2.4% | 10.5% | 43.2% | 28.8% | -14.4% |
2009 | 23.4% | -3.0% | 5.9% | 20.1% | 23.6% | 20.7% | 12.7% | 19.3% | 26.8% |
2010 | 29.5% | 13.5% | 22.3% | 16.7% | 24.9% | 38.8% | 34.3% | 23.7% | 13.0% |
2011 | 10.1% | 10.2% | 13.5% | 11.2% | 5.9% | 14.2% | 10.5% | 31.1% | 4.5% |
2012 | 7.0% | 5.4% | 4.3% | 4.2% | 6.2% | 4.9% | 2.2% | 10.3% | 20.7% |
2013 | -28.3% | -16.2% | -23.0% | -30.1% | -30.2% | -31.2% | -29.4% | -18.7% | -12.8% |
2014 | -1.5% | 7.7% | 7.9% | 9.9% | 1.2% | 12.1% | 5.0% | 0.8% | 12.3% |
2015 | -10.4% | 0.4% | 7.5% | -9.9% | -6.2% | -0.3% | -5.2% | -5.9% | -10.1% |
2016 | 9.1% | 10.5% | 5.9% | 10.8% | 16.8% | 12.4% | 30.2% | 11.9% | 5.8% |
2017 | 13.6% | 4.6% | 6.0% | 8.1% | 6.4% | -1.0% | 3.2% | 6.4% | 8.9% |
2018 | -2.1% | 8.5% | 6.3% | -1.2% | 3.5% | 2.7% | 3.8% | 6.6% | -4.7% |
2019 | 18.9% | 19.3% | 13.0% | 17.1% | 20.3% | 22.7% | 14.2% | 21.6% | 17.7% |
2020 | 19.1% | 19.8% | 23.9% | 15.5% | 19.8% | 17.9% | 25.3% | 25.4% | 17.7% |
اوسط سالانہ اضافہ | 10.5% | 10.8% | 10.9% | 9.1% | 9.3% | 11.9% | 13.8% | 13.9% | 10.6% |
اگر پہلی جنوری 2001 سے پہلی جنوری 2014 تک کی سونے کی قیمتوں کا جائیزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے پچھلے تیرہ سالوں میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں ساڑھے سات گنا اور ہندوستانی کرنسی کی قیمت میں پانچ گنا کمی آئی ہے جبکہ اسی دوران میں ایران میں مہنگائی لگ بھگ 60 گنا بڑھ چکی ہے۔[260]
مہنگائی | ملک اور کرنسی |
88584% | کونگو کا فرانک |
65789% | برما کا کیات |
33787% | لائبیریا کا ڈالر |
5856% | ایران کا ریال |
3720% | مالاوی کا کواچہ |
3123% | ساو توم کا ڈوبرا |
1996% | گنی کا فرانک |
1309% | گمبیا کا دلاسی |
1021% | ڈومینیکا کا پیسو |
1005% | شام کا پاونڈ |
973% | جمیکا کا ڈالر |
948% | برونڈی کا فرانک |
947% | ہئیتی کا گورڈے |
901% | ایتھوپیا کا بِر |
764% | نکاراگوا کا قرطبہ |
755% | مصر کا پاونڈ |
751% | پاکستان کا روپیہ |
666% | سری لنکا کا روپیہ |
622% | انڈونیشیا کا روپیہ |
542% | بنگلہ دیش کا ٹکا |
501% | نیپال کا روپیہ |
496% | ہندوستان کا روپیہ |
336% | بحرین کا دینار |
332% | جاپان کا ین |
319% | امریکی ڈالر |
319% | اومان کا ریال |
319% | سعودی عرب کا ریال |
319% | قطر کا ریال |
308% | برطانیہ کا پاونڈ |
288% | کویت کا دینار |
250% | اسرائیل کا شیکل |
208% | کینیڈا کا ڈالر |
207% | آسٹریلیا کا ڈالر |
206% | چین کا یوان |
206% | یورو |
135% | سوئیزر لینڈ کا فرانک |
16% | سونا بہ نسبت چاندی |
تاریخ کے بد ترین افراط زر
اگر کرنسی دھاتی ہو اور سکّے اپنی مالیت خود رکھتے ہوں تو افراط زر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دھاتی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس دھات کی اتنی بڑی کان دریافت ہو جائے کہ دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ہو کیونکہ دھاتی کرنسی عالمی قبولیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کے حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھا لیتی ہیں لیکن اپنے عوام کو غریب بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر انفلیشن ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ 1945–46 میں ہنگری میں اتنی زیادہ کاغذی کرنسی چھاپی گئی کہ ہر چیز کی قیمت اربوں کھربوں پینگو تک جا پہنچی۔ حکومت نے ایسے کرنسی نوٹ جاری کیے جن پر مالیت نہیں لکھی ہوتی تھی اور روزانہ صبح ریڈیو پر اعلان ہوتا تھا کہ آج اس کی مالیت کیا ہو گی۔ 18 اگست 1946 کو پرانی کرنسی پینگو کی جگہ نئی کرنسی فورنٹ جاری کی گئی۔ ایک فورنٹ 400٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000 پینگو کے برابر تھا (یعنی 400 ارب ارب ارب پینگو کے برابر)۔
1919ء میں ایک امریکی ڈالر 9 جرمن مارک کے برابر تھا۔ 28 جون 1919ء کو معاہدۂ ورسائے (Treaty of Versailles) طے پایا۔ صرف چار سال بعد نومبر 1923 میں ایک ڈالر 4200 ارب کاغذی مارک کے برابر ہو چکا تھا[153]۔ ایک ڈبل روٹی کی قیمت 400 ارب مارک ہو چکی تھی۔ [261] 1923ء میں ایک انڈے کی جو قیمت تھی اسی قیمت میں پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918ء میں 500 ارب انڈے خریدے جا سکتے تھے۔[262] لیکن یہ زوال صرف کاغذی مارک پر آیا تھا۔ سونے کے مارک کے سکّے کی قوت خرید میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ 15 نومبر 1923 کو جرمنی میں نئی کرنسی رینٹن مارک جاری کی گئی۔ ایک نیا مارک پرانے 1000 ارب مارک کے برابر قرار دیا گیا۔ پرانا مارک پیپیر مارک کہلاتا تھا۔
1990ء میں USSR میں انفلیشن اور پھر ہائپرانفلیشن آیا۔ [263] 1991ء میں روس کے مرکزی بینک پر مغربی ممالک نے بینکاری کی شدید پابندیاں لگا دی تھیں جو روسی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔[264] اس کے بعد اگست 1991ء میں سویت اتحاد توڑنا پڑا۔
اسی طرح ترکی میں نوٹوں پر سے صفر کم کرنے کے لیے یکم جنوری 2005 کو نیا ٹرکش لیرا جاری کیا گیا۔ ایک نیا ٹرکش لیرا 1٫000٫000 پرانے ٹرکش لیرا کے برابر مقرر کیا گیا۔ 10 اگست 2018ء کو ٹرکش لیرا کی قیمت صرف ایک دن میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گر گئی۔
وینیزویلا نے 2008ء میں اپنے نوٹوں سے تین صفر کم کیے یعنی 1000 کے نوٹ کو ایک قرار دیا۔ 2018ء میں نوٹوں پر سے پانچ صفر مزید کم کیے۔ اور صرف تین سال بعد 6 صفر مزید کم کیے۔[265]
تاریخ کے بد ترین ماہانہ افراط زر [266] | |||||
---|---|---|---|---|---|
ملک | کرنسی کا نام | بد ترین مہینہ | ماہوار افراط زر | روزانہ افراط زر | قیمتیں دوگنی ہونے کی مدت |
ہنگری | ہنگری کا پینگو | جولائی 1946 | 4.19 × 1016 % | 207.19% | 15 گھنٹے |
زمبابوے | زمبارے ڈالر | نومبر 2008 | 7.96 × 1010 % | 98.01% | 24.7 گھنٹے |
یوگوسلاویہ | یوگوسلاو دینار | جنوری 1994 | 3.13 × 108 % | 64.63% | 1.4 دن |
جرمنی | جرمن پیپیرمارک | اکتوبر 1923 | 29٫500% | 20.87% | 3.7 دن |
یونان | یونانی دراچمہ | اکتوبر 1944 | 13٫800% | 17.84% | 4.3 دن |
تائیوان | قدیم تائیوان ڈالر | مئی 1949 | 2٫178% | 10.98% | 6.7 دن |
سونے چاندی کی قیمت کا اتار چڑھاو
منڈی کی دوسری ساری چیزوں کی طرح سونے چاندی کی قیمت بھی طلب و رسد کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ جب بھی بینکوں اور بچت اسکیموں کی شرح سود میں کمی آتی ہے تو سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اگر خاطر خواہ منافع کی امید نہ رہے تو لوگ افراط زر کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی جمع پونجی سونے کی شکل میں رکھنا پسند کرتے ہیں جسے صدیوں سے "محفوظ جنت" تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بہت سارے لوگ اپنی کاغذی کرنسی کے بدلے سونا لے لیں گے تو کاغذی کرنسی کی وقعت میں کمی آجائے گی اور سونے کی قیمت چڑھ جائے گی[267][268] اس لیے بڑے بڑے مرکزی بینک سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔[269][270][271][272][273][274][275][276]
انڈریو میگائر[277]
نامی ایک سونے کے تاجر نے 29 مارچ 2010 کو ریڈیو پر ایک انٹرویو دیا جو اپریل 2010 کو نشر ہوا۔ اس میں اس نے انکشاف کیا کہ فیڈرل ریزرو کی ہدایت پر کس طرح جے پی مارگن چیز اور ایچ ایس بی چیز سونے کی قیمتیں گرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے 3 فروری 2010 کو انڈریو میگائر نے کموڈٹی فیوچر ایکسچینج کمیشن کو بتا دیا تھا کہ چاندی کی قیمت کس طرح تبدیل کی جائے گی اور دو دن بعد بالکل ویسا ہی ہوا۔ جس دن یہ معلوم ہوا کہ یہ راز انڈریو میگائر نے فاش کیے ہیں اس کے دوسرے دن یعنی 26 مارچ 2010 کو ایک تیز رفتار گاڑی نے انڈریو میگائر اور اس کی بیوی کو ٹکر ماری اور فرار ہو گئی۔ لندن کی پولیس ہیلی کاپٹر سے پیچھا کر کے اس ڈرائیور کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر بعد میں اس کا نام ظاہر کیے بغیر اسے برائے نام سزا دیکر چھوڑ دیا گیا۔ انڈریو میگائر کا خیال ہے کہ یہ اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔
1970 میں چاندی کی قیمت 1.63 ڈالر اور سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس تھی۔ جنوری 1980 میں چاندی کی قیمت بڑھ کر لگ بھگ 50 ڈالر فی اونس ہو گئی تھی اور کاغذی کرنسی پر لوگوں کا اعتماد ڈگمگانے والا تھا۔ سونے کی قیمت بھی صرف دیڑھ مہینے میں دگنی ہو کر 850 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی تھی۔[278] کاغذی کرنسی کا مستقبل بچانے کے لیے فیڈرل ریزرو نے کساد بازاری کے باوجود شرح سود بڑھا کر 20 فیصد کر دی (جو کبھی تاریخ میں نہیں رہی) اور نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج سے نئے قاعدے قانون نافذ کروائے۔ اس کے نتیجے میں چاندی کے بڑے تاجر (Hunt Brothers) دیوالیہ ہو گئے لیکن دو مہینوں میں چاندی کی قیمتیں 80 فیصد تک گر گئیں۔ کساد بازاری میں شرح سود ہمیشہ گرائی جاتی ہے لیکن بڑھانے کی وجہ سے 1982-1981ء کی کساد بازاری بیسویں صدی کی تیسری سب سے بڑی کساد بازاری بن گئی۔[279]
اس کے بعد دوبارہ کسی ایسے گولڈ رن سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر سونے کی لیزنگ شروع کی گئی تاکہ سونے کی قیمتیں کنٹرول کی جا سکیں[280]۔ 1990 کی دہائی میں سونے کی قیمتیں گرنے کی وجہ یہی سونے کی لیزنگ تھی۔ اس کی وجہ سے سونا برآمد کرنے والے ممالک (جنوبی افریقا، چین اور روس) بڑے خسارے میں رہے۔[281] اپریل 2013 سے سونے کی قیمت اچانک گرنے کی وجہ کومیکس میں کاغذی سونے کے کنٹریکٹ (Gold Future) کی بڑے پیمانے پر فروخت تھی جو امریکا کی جے پی مورگن سیکوریٹیز اور HSBC سیکوریٹیز نے بیچے تھے۔[282] اسی طرح 28 نومبر 2014 کو نیویارک کومیکس میں 50 ٹن کاغذی سونے کے کنٹریکٹ یک لخت بیچ کر قیمت گرائی گئی تھی۔[283]خیال رہے کہ سونے کی لیزنگ کا عمل انتہائی خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے۔[284]
- قرض پر سونا فراہم کر کے بینک آف انگلینڈ نے لندن بُلین مارکیٹ کی پوری کاغذی سونے کی فریکشنل ریزرو اسکیم کو سنبھالا ہوا ہے۔
- these gold lending operations props up the entire paper gold fractional-reserve scheme.[285]
امریکی فیڈرل ریزرو کے بارہویں اور مشہور چیر مین مسٹر ووکر (Mr. Volcker) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "سونا میرا دشمن ہے اور میں ہمیشہ نظر رکھتا ہوں کہ میرا دشمن کیا کر رہا ہے"۔[286] َ[287] مسٹر ووکر 1979 سے 1987 تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا اور 1980 میں سونے کی بے قابو ہوتی ہوئی قیمتوں کو لگام دینے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1971 میں جب وہ ٹریژری کا انڈر سیکریٹری تھا اس وقت اُس نے بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اسے اس پر فخر تھا۔[288]
ڈچ سینٹرل بینک 1993ء سے سونا بیچ رہا تھا اور اس نے 1100 ٹن سونا بیچا۔[289] 1997ء میں جب سونے کی قیمتیں بہت گری ہوئی تھیں سوئیزرلینڈ نے اپنے 2600 ٹن سونے میں سے 1400 ٹن سونا بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے 2004 تک مکمل کر لیا۔[290][291] اس سے سونے کی قیمت گر کر 309 ڈالر فی اونس رہ گئی۔ اسی دوران میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 415 ٹن سونا 1999–2000 کے دوران میں بیچے گا۔ اسی عرصے میں آئی ایم ایف نے بھی 435 ٹن سونا بیچا۔ اس طرح اگست 1999ء میں سونے کی قیمت مزید گر کر $251.70 تک آ گئی[292] جو پچھلے 22 سالوں کی کم ترین قیمت تھی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکاروں نے افریقہ میں سونے کی کانیں کوڑیوں کے داموں خرید لیں۔ شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کی طرف سے بیچا جانے والا بیشتر سونا مرکزی بینک کے ہی مالکان نجی حیثیت سے خرید لیتے ہیں۔[293] لندن بُلین مارکیٹ کچھ اس طرح کام کرتی ہے کہ عام طور پر خریدار کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔[294] مغرب کے بڑے سینٹرل بینک جب بھی سونا خریدتے ہیں تو نہایت خاموشی سے خریدتے ہیں۔ لیکن جب سونا بیچتے ہیں تو سال بھر پہلے سے زور و شور سے اس کا چرچا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اصل فروخت سے پہلے ہی سونے کی قیمت گر جاتی ہے۔ اور اُن کے سونا بیچنے کا ہدف بھی یہی ہوتا ہے کہ قیمت گرائی جا سکے۔
- "several central bankers have admitted, a rising Gold price reflects an increasing lack of confidence in the (paper currency) system and specifically in the dollar."[295]
دورانیہ | آئی ایم ایف نے کتنا سونا بیچا؟[296][297] | کس نے خریدا؟ |
---|---|---|
1970–1971 | "جتنا سونا جنوبی افریقا سے خریدا تھا“ | |
1976–1980 | 50 میلین اونس ( یعنی 1555ٹن) | |
1999–2000 | 14 میلین اونس ( یعنی 435 ٹن) | |
2009–2010 | 13 میلین اونس ( یعنی 403 ٹن) | 200 ٹن انڈیا نے خریدا |
10 ٹن سری لنکا نے خریدا | ||
10 ٹن بنگلہ دیش نے خریدا | ||
2 ٹن ماریشیئس نے خریدا | ||
آئی ایم ایف کے پاس اب بھی 2814 ٹن سونا بچا ہوا ہے | ||
1970 میں جنوبی افریقہ نے 1000 ٹن سے زیادہ سونا کانوں سے نکالا۔[298] |
سن 2012 تک پچھلے پونے تین سالوں میں سنٹرل بینکوں نے 1100 ٹن سونا خریدا جبکہ اس سے پہلے کے تین سالوں میں انھوں نے 1143 ٹن سونا بیچا تھا۔ روس اور چین کئی سالوں سے سونا جمع کر رہے ہیں۔ 1911 میں میکسیکو نے 100 ٹن سونا خریدا۔ 2012 تک چین کے عوام نے پچھلے پانچ سالوں میں 4800 ٹن سونا سکوں اور بسکٹ (پانسا) کی شکل میں خریدا۔ 2013 میں چین نے 2200 ٹن سونا خریدا۔[299] چین اب دنیا میں سب سے زیادہ سونا کانوں سے نکالتا ہے مگر ایک تولہ بھی بیچنے کو تیار نہیں۔[118] 2018ء میں انڈیا نے 40 ٹن سے زیادہ سونا خریدا۔[300] سونے کی اس طرح خریداری مغربی ممالک کے لیے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے کیونکہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کاغذی کرنسی پر اعتبار نہ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مشرقی ممالک کا کاغذی کرنسی پر اعتبار تھا جس نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی ممالک کو فوجی و تجارتی برتری اور خوش حالی عطا کی تھی۔[301] ماضی کے نظام اس لیے کام کرتے رہے کہ لوگوں کو قانون پر اعتبار تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ لیکن اب یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ طاقتور لوگوں کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کیا جائے۔
- Historically, the system works because people have confidence in the rules and believe they are treated the same as anybody else. But it’s getting harder and harder to ignore the stories of powerful people cheating the system for their own gain.[302]
1967ء کے بعد 55 سالوں میں سینٹرل بینکوں نے کبھی اتنا سونا نہیں خریدا تھا جتنا انھوں نے 2022ء میں خریدا۔[303]
"دھوکا بازی پر مبنی فی ایٹ کرنسی کے نظام کو سلامت رکھنے کے لیے سونے کی قیمت گرانا انتہائی ضروری ہے"
- Please keep in mind that the control of the gold price by the deep state financial elite is not some parlor game that they play for their enjoyment; it is an absolutely critical requirement in keeping the fraudulent fiat currency counterfeiting scheme from collapsing.[304]
سنہ 2000ء سے 2011ء کے درمیان سونے کی قیمت میں ساڑھے سات گنا اضافہ ہوا۔[40] سونے کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو گرانے کے لیے دنیا بھر کے سینٹرل بینکوں کا باہمی تعاون ستمبر 2011ء میں کامیاب ہوا جب سوئیزرلینڈ کے سینٹرل بینک نے اپنی کرنسی سوئیس فرانک کو یورو سے منسلک کیا۔
- In fact, all the major central banks have been working in concert since the day they broke the gold bull market back in September 2011, when the Swiss National Bank pegged the Franc to the euro which began the era of coordinated central bank policy.[305]
سونے کی قیمت گرانے میں بڑے بینکوں کے کردار کو کئی دہائیوں سے conspiracy theory کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ لیکن الزام ثابت ہو جانے کے بعد 23 ستمبر 2020ء میں امریکی عدالت میں جے پی مورگن نے جرم تسلیم کر لیا اور عدالت نے ایک ارب ڈالر جرمانہ کیا۔[306] ڈوئیچے بینک پچھلے دس سالوں میں مختلف ممالک میں 20 ارب ڈالر جرمانہ ادا کر چکا ہے۔[307]
بریٹن وڈز کا معاہدہ
جب کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک کی کاغذی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو وہ بڑے پوشیدہ طریقے سے اُس دوسرے ملک کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پرحاوی ہو جاتا ہے۔ بریٹن اوڈز سسٹم بنانے کا اصل مقصد بھی اسی طرح سے دنیا بھر پر امریکی بینکاروں کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔[308]
جس سال بریٹن ووڈز کا معاہدہ طے پایا اسی سال معاہدے سے پہلے ماہر معاشیات Friedrich Hayek (جسے 1974 میں نوبل انعام ملا) نے اپنی کتاب "غلام مملیکت کا رستہ" (The Road to Serfdom) میں لکھا :
- "سارے لوگوں پر جو حاکمیت معاشی کنٹرول عطا کرتا ہے اس کی سب سے بہترین مثال فورین ایکسچینج کے شعبہ میں واضح ہے۔ جب (مارکیٹ کی بجائے) ریاست فورین ایکسچینج (کا ریٹ) کنٹرول کرنا شروع کرتی ہے تو شروع میں تو کسی کی ذاتی زندگی پر کوئی اثر پڑتا محسوس نہیں ہوتا اور زیادہ تر لوگ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے یورپی ممالک کے تجربات کے بعد دانشوروں نے اس طرز عمل کو مکمل عالمی حاکمیت (totalitarianism) کی جانب فیصلہ کن پیشرفت قرار دیا ہے۔ یہ درحقیقت سارے لوگوں کو ریاست کی مطلق العنانی کے حوالے کر دینا ہے۔ یہ فرار ہونے کے سارے راستے بند کر دیتا ہے، نہ صرف امیروں کے بلکہ ہر کسی کے ۔[309]
بریٹن وڈز کانفرنس سے پہلے خود کینیز نے فریڈرک ہائیک کو خط لکھ کر کہا کہ میں اخلاقی طور پر تمھاری ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن تم یہ توقع مت رکھنا کہ میں (سب کے سامنے) تمھاری ہر بات تسلیم بھی کر لوں گا۔[310] ایک اور ماہر معاشیات Henry Hazlitt نے بھی اسی زمانے میں کہہ دیا تھا کہ بریٹن وڈز سسٹم فیل ہو جائے گا۔[311]
دوسری جنگ عظیم تک دنیا بھر کے عوام میں کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہو چکا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مرکزی بینک آپس میں کس طرح لین دین (بزنس) کریں۔ کوئی بھی مرکزی بینک کسی دوسرے مرکزی بینک کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور سونے کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جولائی 1944 میں بریٹن ووڈز، نیو ہیمپشائر، امریکا کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (المعروف آئی-ایم-ایف) اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ اس کانفرنس میں 44 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین نے شرکت کی تھی جس میں روس بھی شامل تھا مگر جاپان شامل نہیں تھا۔ اس کے ایک سال بعد ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے وقت دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے پاس موجود کل سونے کا %75 امریکا کے پاس تھا۔
اس کانفرنس کے دوران میں ہندوستان کے مندوب نے سوال پوچھا کہ gold convertible exchange سے کیا مراد لیا جائے گا۔ اس کا گول مول جواب دیا گیا کہ امریکی ڈالر سے جتنا چاہیں سونا خریدا جا سکتا ہے اس لیے اس ایکسچینج سے ڈالر ہی مراد لیا جائے۔[314] روسی وفد اگرچہ مذاکرات میں شامل تھا مگر اس نے اس معاہدے کی توثیق سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ادارے (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف) وال اسٹریٹ کی شاخیں ہیں۔
اس معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکا 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینے کا پابند تھا۔ دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کے حساب سے طے ہوتی تھی۔ اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے چاندی کی بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا یعنی سونے کی بجائے معیار سونا کی آڑ میں "معیار ڈالر" لایا گیا
[315]۔
اس کانفرنس کے معاہدے کا مسودہ انگریز ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے بنایا تھا جو بینک آف انگلینڈ کا ڈائریکٹر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک ہی عالمی کرنسی (بینکور) ہو جو نہ سونے سے منسلک ہو نہ سیاسی دباو کے تحت آئے مگر وہ مندوبین کو اس پر قائل نہ کر سکا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کینیز اپنے آقاوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ دو سال بعد اس کا انتقال ہو گیا۔[316]
خود کینیز کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ معاہدہ گولڈ اسٹینڈرڈ کا عین اُلٹ تھا۔ فرانسیسی صدر ڈیگال کے مشیر Jacques Rueff کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ "مغربی ممالک کا مالیاتی گناہ" تھا۔ اُس نے دس سال پہلے یہ پیشنگوئی کر دی تھی کہ یہ سسٹم چل نہیں سکتاَ۔[317]
اس معاہدے کے بعد دوسرے ممالک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہو گئے چاہے اس کے لیے انھیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ اب دنیا بھر میں کاغذی ڈالر زیر گردش آنے والا تھا۔[318][319][320]
- In order to give us all the illusion of price stability the Breton Woods Agreement was designed to promote the dollar as a gold substitute for all other currencies. That aspect of the illusion ended in 1971. Since then, to maintain the dollar’s credibility the US Government increasingly resorted to market manipulation. First, they tried selling gold into the market in the early seventies, which was readily bought and failed to stop the gold price from continuing to rise. The next wheeze was to create artificial demand for dollars in an attempt to support its purchasing power, measured against commodities and other currencies. This led to the expansion of derivative markets, which diverted speculative demand for commodities thereby suppressing their prices below where they would otherwise be. The expansion of the London bullion market which created paper gold, and the general adoption of the dollar not just to settle cross-border trade and commodity pricing but to replace gold in central banks’ reserves was all part of the deception.[321]
- The Bretton Woods Agreement of 1944 established the framework for the rise of the US dollar[322]
اس معاہدے سے امریکی بینکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائ میں آ گیا۔ اس معاہدے کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک نے نادانستہ طور پر اپنی اپنی کرنسی کے کنٹرول سے رضا کارانہ دستبرداری منظور کر لی تھی۔ پہلے جو کچھ فوجی طاقت سے چھینا جاتا تھا اب وہ سب کچھ شرح تبادلہ کا کھیل بن گیا کیونکہ سونے کی رکاوٹ درمیان میں سے ہٹ چکی تھی۔
- "یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اس وقت کسی نے نہیں دیکھا کہ ورلڈ بینک کی آڑ میں (سارے ملکوں کی) حاکمیت منتقل ہو رہی ہے۔"
- It is perhaps strange that almost no one at the time saw the transfer of power that was concealed under the grand term “World Bank”[323]
اس معاہدے نے غلامی کی ایک نئی قسم کی بنیاد رکھی جو پہلے ہارڈ کرنسی کے دور میں ممکن نہ تھی۔ اس نئی قسم کی غلامی میں انسان غلام نہیں ہوتے بلکہ ان کی کرنسی غلام ہوتی ہے۔ اور جب کرنسی غلام ہوتی ہے تو پوری معیشت غلام ہوتی ہے۔ قابل تخلیق کرنسی اپنے تخلیق کنندہ کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن سونے چاندی کی کرنسی کبھی کنٹرول نہیں کی جا سکتی (کیونکہ تخلیق نہیں کی جا سکتی)۔ بریٹن وڈز کے معاہدے نے پوری دنیا کو امریکی بینکاروں کا معاشی غلام بنا دیا۔ غالباً دوسری جنگ عظیم شروع کرنے کا اصل مقصد بھی یہی سب کچھ حاصل کرنا تھا۔
- "(کاغذی) کرنسی غلامی کی ایک نئی قسم ہے جوپہلے والی غلامی سے یوں مختلف ہے کہ یہ غیر ذاتیاتی ہے۔ اس نئی قسم میں آقا اور غلام کبھی آمنے سامنے نہیں آتے۔" (اور اس وجہ سے غلام کبھی بغاوت نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس سے لڑنا ہے۔)[324]
- money is a new form of slavery, and distinguishable from the old simply by the fact that it is impersonal – that there is no human relation between master and slave. Leo Tolstoy [325]
امریکا کی آکوپائی وال اسٹریٹ (Occupy Wall Street- 2011) اور فرانس کی یلو ویسٹ (yellow vest-2019) تحریکیں صرف اس لیے ناکام ہوئی ہیں کہ مظاہرین کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے مسائل کی وجہ کرنسی کی تخلیق ہے جو مہنگائی کو جنم دیتی ہے۔[326][247]
آسٹریلیا کے وزیر محنت Eddie Ward نے بریٹن اووڈز کی سازش کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ سب کچھ آنے والے سالوں میں بالکل سچ ثابت ہوا۔
- "مجھے یقین ہے کہ پرائیوٹ عالمی بینکار بریٹن اووڈز معاہدے کے ذریعے پوری دنیا پر اپنی ایسی مکمل اور خوفناک ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا ہٹلر نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو گا۔ یہ وحشیانہ طریقے سے چھوٹے ممالک کو غلام بنا دے گی اور ہر حکومت ان بینکاروں کی دلال بن جائے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کا گٹھ جوڑ بے روزگاری، غلامی، غربت، ذلت اور مالیاتی تباہی میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے ہم آزادی پسند آسٹریلویوں کو اس منصوبے کو نا منظور کر دینا چاہیے۔"
- I am convinced that the Bretton Woods Agreement will enthrone a world dictatorship of private finance more complete and terrible than any Hitlerite dream. It … quite blatantly sets up controls which will reduce the smaller nations to vassal states and make every government the mouthpiece and tool of International Finance …۔ World collaboration of private financial institutions can only mean more unemployment, slavery, misery, degradation and financial destruction. Therefore, as freedom loving Australians, we should reject this infamous proposal.[323]
- "مغربی ممالک نے، جو اپنی نوآبادیاں کھو چکے تھے، بریٹن وڈز کانفرنس میں ایسے ادارتی انتظامات کیے کہ نئے ابھرنے والے ممالک پر ان کی حاکمیت اوران کا استحصال جاری رہے۔ تیسری دنیا کے ممالک نہ اُس مشاورت میں حصہ دار تھے نہ نتائج سے کوئی فائدہ حاصل کر سکے۔ اس کی بجائے انھیں بہت کچھ کھو کر یہ حوصلہ شکن حقیقت پتہ چلی کہ یہ نظام تو اُن کے ہی خلاف بنایا گیا تھا اور یہ بات یقینی بنا دی گئی تھی کہ وہ ہمیشہ صنعتی ممالک کی طاقتوں کے زیر اثر رہیں۔ اگرچہ کچھ معمولی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں مگر آج تک کلیدی اداروں مثلاً آئی ایم ایف میں ووٹ کی طاقت وہی ہے جو 1940 اور 1950 کی دہائی میں تھی"۔
- At the Bretton Woods conference, the Western nations, having lost their empires, made institutional arrangement for continuing their domination and exploitation of the newly emerging nations. The Third World itself was not a party to the negotiations nor has it benefited from the results. Instead, it has discovered, to its cost and dismay, that the system was designed to discriminate against it and to ensure its dependence on the established power blocs in the industrialized countries. To this day, even though there have been some minor changes, the voting power in key institutions like the IMF reflects the world of the 1940s and 1950s.[327]
اس معاہدے کے بعد اب چونکہ نوآبادیاتی نظام کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی اس لیے دنیا کی ساری کالونیوں کو آزاد کر دیا گیا اورمزاحمتی لیڈروں کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ برصغیر کی آزادی گاندھی کا کارنامہ نہیں تھی[328] بلکہ بریٹن ووڈز معاہدے کا خاموش نتیجہ تھی۔
- "روائیتی نوآبادیاتی نظام کو 1940 سے 1960 کی دہائیوں میں توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا کی مالیاتی طاقتوں (سینٹرل بینکرز) نے سیاسی کنٹرول کی بجائے مالیاتی کنٹرول اختیار کیا"۔
- traditional model of colonialism was forcibly dismantled in the 1940s-1960s.
- In response, global financial powers sought financial control rather than political control.[329]
- "یقیناً امریکا ان ممالک کو اپنی کولونی (نوآبادی) نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے انھیں آزاد کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک امریکا کے شکاری کیپیٹلزم کی کولونییاں ہیں جیسے پورٹے ریکو یا عراق۔"
- Sure, America didn’t call countries it’s colonies — it said (LOL) that it “liberated” them. What that means is that they effectively became colonies of American style predatory capitalism (take a look at Puerto Rico — or Iraq.)[330]
- سیاسی آزادی دی گئی مگر اقتصادی آزادی بالکل نہیں ملی۔
- In the case of the post-war world, the deliverance of political freedom among the “former British Empire” was never accompanied by an ounce of economic freedom to give that liberation any meaning.[331]
اس معاہدے کی کامیابی کا میڈیا میں بڑے زور و شور سے چرچا کیا گیا لیکن تصویر کا صحیح رُخ آج تک چھپایا جاتا ہے۔ بریٹن اووڈز کے اس معاہدے نے درحقیقت امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کا درجہ دے دیا[332]۔ اور جس بات کا چرچا نہیں کیا گیا وہ یہ تھی کہ 35 ڈالر میں ایک اونس سونا خریدنے کا حق عوام کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ حق امریکا کی طرف سے صرف اور صرف دوسرے ممالک کے سینٹرل بینکوں کو دیا گیا تھا۔ گویا عوام کے لیے صرف کاغذی کرنسی اور امیروں کے لیے سونے کی کرنسی طے پائی۔ اُس وقت امریکی عوام کو سونا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چین میں بھی 1950 سے 2003 تک عوام پر خام سونا رکھنے کی پابندی تھی۔ [333] ہندوستان کی برطانوی حکومت اور آزادی کے بعد مورار جی دیسائی نے ہندوستان میں سونے کی درآمد کو روکے رکھا۔ اور اسی وجہ سے بریٹن اوڈز کا معاہدہ لگ بھگ دو دہائیوں تک چل سکا۔
- "اس احسان پر تو ماونٹ رشمور پر مورار جی دیسائی کا مجسمہ بن جانا چاہیے تھا"[334]
1971ء میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دباو کا شکار تھی اور بہت زیادہ نوٹ چھپائی کی وجہ سے افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا (یعنی مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی تھی)۔ اپریل 1971 میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں آ کر پانچ ارب ڈالر خریدے تا کہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ اس وقت 5 ارب ڈالر 4400 ٹن سونے کے مساوی تھے۔ اگر جرمنی نے ڈالر کی بجائے امریکا سے سونا طلب کیا ہوتا تو امریکی مالیاتی نظام کی کمر ٹوٹ جاتی۔ مزید امریکی دباو سے جان چھڑانے کے لیے صرف ایک مہینے بعد 10 مئی 1971 کو جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا کیونکہ وہ گرتے ہوئے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنے جرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔ اس کے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معیشت میں بہتری آ گئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکا سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ سویزر لینڈ نے جولائی 1971 میں پانچ کروڑ ڈالر کا 44 ٹن سونا امریکا سے وصول کیا۔ امریکا نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا [335]
مگر Jacques Rueff کے مشورے پر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکا سے 170 ٹن سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکا اور فرانس کے تعلقات خراب ہو گئے جو آج تک بہتر نہ ہو سکے۔ 9 اگست 1971ء کو سوئزرلینڈ نے بھی بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا۔[336] 12 اگست 1971ء کو برطانیہ نے بھی 75 کروڑ ڈالر کے 660 ٹن سونے کا مطالبہ کر دیا۔ اس وقت امریکا کو روزانہ 100 ٹن سونے کی ادائیگی کرنی پڑ رہی تھی۔[146]
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت امریکا اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہے ہوں گے۔[316]
1971 تک امریکا کے پاس موجود سونے کی مالیت صرف 15 ارب ڈالر تھی جبکہ دوسرے ممالک کے پاس 50 ارب امریکی ڈالر کے ذخائر جمع ہو چکے تھے۔[337]
اگر سارے قرضے شامل کر کے حساب لگایا جائے تو اس وقت امریکا ہر ایک ڈالر کے سونے کے عوض 44 ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔[338]
15 اگست 1971 کو امریکا اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے نکسن دھچکا (نکسن شاک) کہتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا کہ اب امریکا ڈالر کے بدلے سونا نہیں دے گا۔[339][340] جان پرکنز کے مطابق اس سازش کا ماسٹر مائنڈ George Schultz تھا۔[341]
اس وقت تک امریکا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو امریکا اپنا پورا سونا دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971ء کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردّی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکا کو ہوا۔ John Perkins کے بیان کے مطابق اس وقت امریکا دیوالیہ (bankrupt) ہو چکا تھا۔[342] اگرچہ امریکا جاپان کو اپنی کولونی نہیں کہتا مگر 16 اور 17 اگست 1971ء میں جاپان کے سینٹرل بینک نے 1.3 ارب ڈالر خریدے تاکہ گرتے ہوئے ڈالر کو سہارا مل سکے مگر ایسا ہو نہ سکا۔[343]
کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے سینٹرل بینکاروں کا صدیوں پرانا سپنا پورا ہو گیا اور وہ کرنسی چھاپنے کی محدود حد سے بالکل آزاد ہو گئے۔ اب وہ دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔
- صرف ایک رات میں دنیا بھر میں بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم شدہ فکسڈ ایکسچینج ریٹ فلوٹننگ ایکسچینج ریٹ میں تبدیل ہو گیا۔
- "Overnight, money worldwide became free-floating"[344]
- یہ پوری دنیا کے ساتھ عظیم ترین دھوکا تھا خاص طور پر غریب ترقی پزیر ممالک کے ساتھ۔ اور یہ فراڈ اب بھی جاری ہے۔[334]
- It was a gigantic fraud on the world – especially the poor, developing countries. And the fraud continues.
بریٹن ووڈز کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے اگرچہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے اور یہ کہ آپ کے ڈالروں کی قوت خرید کل بھی اُتنی ہی ہو گی جتنی آج ہے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف ایک اور سفید جھوٹ تھا۔[345][346][347] [348] [349]
اپنی دوسری مدت کا الیکشن شاندار طریقے سے جیتنے کے باوجود نکسن امریکا کا وہ واحد صدر ہے جسے استعفا دینا پڑا (واٹرگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے)۔
ڈالر سے سونے کا تعلق ٹوٹنے کے بعد 1972 میں جب ایران اور سعودی عرب نے اپنے ڈالروں سے امریکی کمپنیاں خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکی حکام نے دھمکی دی پیار سے سمجھایا کہ امریکا اسے اقدام جنگ سمجھے گا۔[350]
حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خود امریکا نے بڑے پیمانے پر جرمن کمپنیاں خریدی تھیں۔
- 1971ء کے بعد زندگی کا ہر ہر پہلو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
- all aspects of life as we know it changed materially and permanently in the early 1970s.[351]
بریٹن ووڈز کا معاہدہ ٹوٹنے[352] کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا۔
[353]
امیر ممالک نے فوراً بہت بڑی مقدار میں کاغذی کرنسی چھاپی[354][355] اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بہانے غریب ممالک کو قرض دے دی جسے اب وہ کئی نسلوں تک نہیں اتار سکتے۔[356] سونے کی رکاوٹ ہٹتے ہی مغربی ممالک کی بے تحاشہ کرنسی کی تخلیق کی وجہ سے 1970ء کی دہائی میں stagflation آیا لیکن طالب علموں کو یہی پڑھایا گیا کہ یہ سب تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہوا تھا[357]۔ کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے سونا مہنگا ہونے لگا جسے روکنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی جو 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ غریب ممالک کو زبردستی دیے جانے والے ان قرضوں کے معاہدے میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ قرضوں پر سود امریکا میں رائج شرح سود سے ایک فیصد زیادہ ہو گا۔ اس سے غریب ممالک کے لیے قسطیں ادا کرنا انتہائی مشکل ہو گیا اور وہاں غربت مزید بڑھ گئی۔ لیکن نوٹ چھاپ کر قرض دینے والے ممالک قسطیں وصول کر کے خوش حال ہوتے رہے۔
1971 کے بعد ہارڈ کرنسی یا زر کثیف کا دور ختم ہو گیا اور زر فرمان (Fiat currency) نے مستقل جگہ بنا لی۔ لیکن ان 27 سالوں میں امریکا کا کاغذی ڈالر بین الاقوامی کرنسی بن چکا تھا۔ امریکی بینکار 1944 میں بریٹن ووڈز کے معاہدے میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ اب بڑی حد تک انھیں حاصل ہو گیا۔ سوئزر لینڈ وہ آخری ملک تھا جس نے سنہ 2000 میں اپنی کاغذی کرنسی کا سونے سے ناتا توڑا۔
- "1971 کے بعد دنیا نے گویا ہمیں اجازت دے دی کہ ہم جتنا چاہیں اتنا سونا پرنٹننگ پریس سے بنا لیں۔ یہ ایک مکمل فراڈ تھا"
- until the closing of the gold window by Nixon in 1971. A total fiat currency - the dollar - was unleashed on the world with this event, and the US became the biggest beneficiary by assuming the role of managing the world reserve currency. For decades this well served America’s interests since it was equivalent to the world permitting us to create as much “gold” as we wanted. The system was totally fraudulent since it was imaginary money and we owned the printing press.[311]
- "بریٹن اوڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد صحیح معنوں میں مالیاتی سلطنت کا آغاز ہوا اور امریکی ڈالر کی بالادستی قائم ہوئی اور ہم کاغذی کرنسی کے عہد میں داخل ہوئے۔ امریکی ڈالر کی پُشت پناہی کے لیے کوئی قیمتی دھات نہیں ہے۔ امریکی ڈالر صرف حکومتی قرض کو بنیاد بنا کر چھاپے جاتے ہیں۔ امریکا ڈالر چھاپ کر پوری دنیا سے منافع وصول کر لیتا ہے۔"
- Since that day [dissolution of Bretton Woods], a true financial empire has emerged, the US dollar’s hegemony has been established, and we have entered a true paper currency era. There is no precious metal behind the US dollar. The government’s credit is the sole support for the US dollar. The US makes a profit from the whole world. This means that the Americans can obtain material wealth from the world by printing a piece of green paper.[358]
بریٹن وڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد امریکی ایما پر Smithsonian معاہدہ طے پایا جس کے مطابق کرنسیوں کا فکسڈ ایکسچینج ریٹ مقررکیا گیا جو سونے کی قیمت سے بالکل آزاد تھا۔ 18 دسمبر 1971 کو امریکی صدر نکسن نے اسے "دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی معاہدہ" قرار دیا۔ مگر لگ بھگ صرف ایک سال بعد ہی یہ معاہدہ بھی پاش پاش ہو گیا۔[335]
اس کے بعد ستمبر 1976 میں جمیکا معاہدے (The Jamaica Agreement) میں یہ طے پایا کہ سونے کا تعلق کرنسی یا ایس ڈی آر سے نہیں رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود سوئزر لینڈ کو اپنی کرنسی کا سونے سے تعلق ختم کرنے میں 24 سال لگے۔[357]
کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے "منی مارکیٹ فنڈز" وجود میں آئے اور شیڈو بینکنگ کا آغاز ہوا۔ چونکہ شیڈو بینک کو کھاتے داروں کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ان پر حکومت کی نگرانی بہت نرم ہوتی ہے۔[359]
- 1970ء کی دہائی کے وسط سے کسی بھی ملک کے لیے یہ ناممکن ہو گیا کہ وہ امریکی ڈالر کے بغیر تجارت کر سکے۔ اور امریکا نے اپنی اس غنڈہ گردی کو ہر قیمت پر قائم رکھا اور جس نے بھی ڈالر کو للکارہ، اس کے خلاف تجارتی پابندیاں لگایں، اُن کے الیکشن میں دھاندلی کروائی یا اُن ممالک پر حملہ اور قبضہ کیا۔
- Since the 1970s it’s been virtually impossible for a country to function without access to US dollars. And Washington maintained this highly-favorable status quo by putting various kinds of pressure — from sanctions to election theft to outright invasion — on anyone who stepped out of line.[360]
جب تک کرنسی کا سونے سے تعلق برقرار تھا اس وقت تک حکومتی قرضوں (ٹریژری بونڈز) پر سٹے بازی (speculation) بالکل نہیں ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے کے بعد بونڈز میں سٹے بازی بے انتہا بڑھ گئی جس کا خمیازہ محنت کشوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔[361] ڈیری ویٹو مارکیٹ بونڈز پر سٹے بازی کی بنیادپر قائم ہے ۔2003ء میں وارن بوفے نے ڈیری ویٹو کو 'بے انتہا تباہی پھیلانے والے مالیاتی ہتھیار'( "financial weapons of mass destruction") قرار دیا تھا۔ 2008ء کے مالیاتی انہدام کے آغاز کی وجہ یہی ڈیری ویٹو مارکیٹ تھی۔ ڈیری ویٹو مارکیٹ کی غیر شفافیت کی وجہ سے بڑے بینک اپنی مرضی سے اس کی قیمت طے کرتے ہیں۔[362] ڈیری ویٹیو مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے جب حکومتی بونڈز پر شرح سود منفی ہو جاتی ہے اس وقت بھی ڈیری ویٹیو مارکیٹ میں معمولی منافع ممکن ہوتا ہے۔[363] 15 اکتوبر 2020ء کو آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر Kristalina Georgieva نے بیان دیا ہے کہ ہمیں ایک نئے بریٹن وڈز معاہدے کی ضرورت ہے۔[364] آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پرانی گائے کا دودھ ختم ہو رہا ہے۔ ہمیں اب نئی گائے کی ضرورت ہے۔[365]
- بریٹن ووڈز کے 80 سال بعد، نکسن کے گولڈ ونڈو بند کرنے کے 53 سال بعد اور سعودی عرب سے پیٹرو ڈالر معاہدے کے 50 سال بعد اب بادشاہ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے والی ہے۔
- So after 80 years under the Bretton Woods arrangements, 53 years since Nixon closed the gold window and 50 years since the petrodollar agreement with Saudi Arabia, the reign of King Dollar as the world’s leading payment currency is coming to an end.[366]
- So after 80 years under the Bretton Woods arrangements, 53 years since Nixon closed the gold window and 50 years since the petrodollar agreement with Saudi Arabia, the reign of King Dollar as the world’s leading payment currency is coming to an end.[366]
بریٹن ووڈز پر مزید دیکھیے:
- Routledge Encyclopedia of International Political Economy
- Truth from Freedom Schoolآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ freedom-school.com (Error: unknown archive URL)
- The Battle of Bretton Woods By Benn Steil
- The Fifteenth Of Augustآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ realinvestmentadvice.com (Error: unknown archive URL)
آقا کرنسی اور غلام کرنسی
جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا تو اگرچہ ہندوستان میں مقامی کرنسی روپیہ ہی تھی لیکن یہ پاونڈ اسٹرلنگ کی غلام تھی۔ برطانوی حکومت اپنی مرضی سے شرح تبادلہ مقرر کرتی تھی اور ہندوستانی تاجر اسے قبول کرنے پر مجبور تھے حالانکہ شرح تبادلہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول سے طے ہونی چاہیے۔ اسکاٹ لینڈ [367][368] اور آئر لینڈ میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ اسی طرح فرانس کے زیر تسلط نوآبادیوں (کالونیوں )میں فرنچ فرانک آقا کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔ [369]
- Of course, there are alternatives to a currency union. Sterlingisation either with or without a Currency board. Your central bank governor, Brian Honohan, published definitive analysis of the latter in a seminal paper in 1994, where he examined the role of a “local (slave) currency [maintained] at a fixed rate of exchange against a foreign (master) currency”.[370]
- ساری کرنسیوں اور معیشتوں کی حیثیت برابر نہیں بنائی جاتی۔
- not all economies and currencies are created equal[371]
1913ء میں جان مینارڈ کینز نے لکھا تھا کہ "ہماری گولڈ ریزرو کی پالیسی بنیادی طور پر آمرانہ ہے۔"(یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی کے قدرتی قانون کے ماتحت نہیں ہے۔)
- "Our gold reserve policy is mainly dictated"[115]
بریٹن اوڈز کا معاہدہ درحقیقت اُس وقت کے ہندوستانی کرنسی نظام کی عین نقل تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاونڈ کی جگہ ڈالر نے لے لی تھی اور اب صرف ہندوستان کی بجائے پوری دنیا کا استحصال ہونا تھا۔[334][308]
چونکہ برطانیہ اپنی کرنسی کی برتری (monetary hegemony) کھونے پر خوش نہیں تھا اس لیے اس معاہدے میں پاونڈ کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ریٹ عطا کیا گیا (ایک پاونڈ برابر 4.86 امریکی ڈالر)۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانیہ امریکا کا اتنا مقروض ہو چکا تھا کہ اسے امریکی ہدایات ماننی پڑیں۔ لیکن برطانوی پاونڈ کا یہ مصنوعی ریٹ صرف 5 سالوں میں 30% گر گیا۔[372]
بریٹن اوڈز کے معاہدے کے بعد ڈالر آقا کرنسی بن گیا تھا اور ساری دنیا کی کرنسیاں اس کی غلام بن کر رہ گئی تھیں (جسے اُس زمانے میں Benign neglect کہا جاتا تھا)۔[373]
دنیا کے ہر ملک کو تجارت کی غرض سے فورین ایکسچینج کا ذخیرہ رکھنا پڑتا ہے سوائے امریکا کے، کیونکہ بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد ہر ملک امریکی ڈالر قبول کرنے پر مجبور تھا۔
1960ء کی دہائی میں فرانس کے فائیننس منسٹر گسکارڈ نے اسے حد سے زیادہ مراعات (exorbitant privilege) کہہ کر تنقید کری۔[374]
[375]
جبکہ امریکا کی ٹریژری کے سیکریٹری جوہن کونالی کا کہنا تھا کہ ڈالر ہماری کرنسی اور تمھارا درد سر ہے۔ ‘the dollar is our currency and your problem’۔[376]
اس اختلاف کی وجہ سے 1966ء میں فرانس نے NATO سے علیحدگی اختیار کر لی[377] لیکن لیبیا کے معمر قذافی کے خلاف جنگ اور لیبیا کے تیل کی دولت لوٹنے کی خاطر 2009ء میں دوبارہ ناٹو میں شریک ہو گیا۔[378]
بین الاقوامی تجارت میں آقا کرنسی کو ہمیشہ واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔[379] آقا کرنسی کو ہی ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور اسے جاری کرنے والا ملک تجارتی خسارے کے باوجود درآمدات جاری رکھ سکتا ہے۔
- "NAFTA اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن فری ٹریڈ کو بڑھاوا نہیں دیتے بلکہ عالمی حکمرانی اور کیپیٹل ازم کو فروغ دیتے ہیں"
- " NAFTA and the WTO promote world government and crony capitalism, not free markets."[380]
- "آقا کرنسی کا مطلب ہے کہ ہوا میں سے کرنسی تخلیق کرنا اور اس سے ہر شے خرید لینا۔ کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟"
- Generating currency out of thin air and trading it for tangible goods is the definition of hegemony. Is there is any greater magic power than that?[381]
- امریکا کی بقا اس بات پر ہے کہ دنیا اس کے چھاپے ہوئے کاغذ خریدے جو امریکا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ہے۔ کاغذی ڈالر اور کاغذی قرضے (ٹریژری بونڈ)۔
- We depend on the world to buy our paper, to buy our Treasuries. That’s our biggest export — our debt — our dollars and our debt.[382]
- "سارے ملکوں کو کچھ ایکسپورٹ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ کچھ امپورٹ بھی کر سکیں۔ لیکن جو ملک عالمی کرنسی جاری کرتا ہے وہ لین دین کے اس بنیادی اصول سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔"
- "While other countries have to export in order to pay for their imports, the sovereign who emits a global currency is exempt from adhering to the most fundamental law of economic exchange."[383]
- بنیادی طور پر وہ ممالک جنہیں تجارتی خسارہ رہتا ہے جیسے امریکا، کرنسی یا ٹریژری بونڈز چھاپ کردوسرے ممالک سے سامان تجارت خرید لیتے ہیں۔
- Basically, countries such as the United States that run trade deficits, exchange fiat money or Treasuries for goods from other countries.[384]
- اس نظام نے ہمیں اس قابل بنا دیا کہ ہم اپنے کاغذی ڈالر کو مہنگا کر کے ایکسپورٹ کریں اور دنیا بھر کا سامان تجارت نہایت سستا خرید لیں۔
- This arrangement permitted us to “export” our inflated dollars and buy cheap imported goods from overseas.[311]
- 1980 کی دہائی سے امریکا کی سب بڑی ایکسپورٹ نہ بوئنگ ہوائی جہاز ہیں، نہ گندم اور نہ کمپیوٹرز۔ امریکا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ تو ڈالر ہیں۔
- Since the early ’80s, the major US export has not been Boeings or wheat, or computers. It’s been dollars.[385]
1966ء میں ایلن گرین اسپان (جو 1887ء سے 2006ء تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا) نے کہا تھا کہ “تجارتی خسارے کے باوجود اخراجات میں اضافہ ہونا دراصل دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنا ہے۔ سونا اس خفیہ طریقہ کار کے آڑے آتا ہے“۔
یورپی ممالک نے اپنی اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ڈالر سے سونا خریدنا شروع کر دیا جس پر امریکا کو آخیر کار گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔
1971ء میں جب امریکا نے اپنے تیزی سے سکڑتے ہوئے سونے کے ذخیرے کو بچانے کے لیے خود ہی بریٹن اوڈز کا یہ سسٹم توڑا تو اسے چند دوسری بڑی کرنسیوں کو بھی اپنی حکمرانی میں شریک کرنا پڑا۔ اس طرح SDR وجود میں آیا جس نے کرنسی کے ذریعے ہونی والی عالمی لوٹ کھسوٹ میں بڑے کھلاڑیوں کا حصہ طے کر دیا اور 25 مارچ 1973 میں G7 ممالک کا گروپ تشکیل دیا گیا[386]۔ اس کے بعد ان ممالک نے حکومتی سطح پر سونا خریدنا بند کر دیا۔[387] ایس ڈی آر ڈالر کی مدد سے آج کی آقا کرنسی ہے اور حکومتوں کی سطح پر استعمال ہوتی ہے مگر عوام کی سطح پربالکل استعمال نہیں ہوتی۔ دو ڈھائی سو سال قبل یورپ میں کاغذی کرنسی بھی حکومتوں کی سطح پر استعمال ہوتی تھی جبکہ عوام ہارڈ کرنسی استعمال کرتے تھے۔ خیال رہے کہ ایس ڈی آر کی لین دین آئی ایم ایف میں خفیہ طریقے سے انجام پاتی ہے۔[160]
بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے سے پہلے امریکا نے چھ بڑے صنعتی ملکوں (G7) سے یہ وعدہ لیا تھا کہ یہ ممالک بیرونی ممالک سے سونا نہیں خریدیں گے تاکہ سونے کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔[388]
1971ء میں ڈالر کا سونے سے ربط ٹوٹنے کے بعد ڈالر کی عالمی طلب تیزی سے گر رہی تھی۔ کاغذی کرنسی کے برعکس سونا ایک کموڈٹی کرنسی (commodity money) ہے۔ چونکہ معدنی تیل سونے سے بھی بڑی کموڈٹی ہے اس لیے ڈالر کی عالمی مانگ بڑھانے کے لیے سعودی عرب کو ہدایت کی گئی تھی کہ تیل صرف ڈالر کے عوض فروخت ہو گا اور حکومتی اخراجات کے بعد بچنے والے ڈالر صرف امریکی بینکوں میں سرمائیہ کاری کیے جائیں گے (Petrodollar Recycling system) تاکہ سعودی عرب بھی سونا نہ خریدے۔[389]
[390][391] اگر سعودی عرب آمادہ نہ ہوتا تو سعودی عرب پر حملے اور قبضے کا منصوبہ تیار تھا۔[392] اگر قیمت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر سال جتنا سونا نکلتا ہے اس کا دس گنا تیل نکلتا ہے۔[393] لیکن تیل اُسی سال استعمال ہو کر ختم ہو جاتا ہے جبکہ سونا ہزار سال بعد بھی زیر گردش رہتا ہے۔
- اگر پیٹروڈالر سسٹم نہیں اپنایا گیا ہوتا تو ڈالر کب کا مر چکا ہوتا۔
- "If it wasn’t for the Petrodollar, the US would have collapsed years ago."[394]
جنس (کموڈٹی) | تبصرہ |
---|---|
معدنی تیل | ایندھن |
قدرتی گیس | ایندھن |
سونا | صنعتی استعمال قیمت پر کم اثر انداز ہوتا ہے |
چاندی | صنعتی استعمال قیمت پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے |
تانبا | صنعت کا بہترین بیرومیٹر۔ ڈاکٹر کوپر |
کافی | دنیا میں روزانہ سوا دو ارب پیالے کافی پی جاتی ہے |
چینی | برازیل چینی سے الکحل بنا کر بطور ایندھن استعمال کرتا ہے[396] |
چاکلیٹ | Cocoa کی قیمت ڈالر کی بجائے برطانوی پونڈ میں طے ہوتی ہے |
روئی | روئی کے بیجوں سے کھانے کا تیل اور جانوروں کا چارہ نکلتا ہے |
اس طرح پیٹرو ڈالر کی مدد سے گولڈ اسٹینڈرڈ کی جگہ عملی طور پر بلیک گولڈ اسٹینڈرڈ یعنی کروڈ آئیل اسٹینڈرڈ اپنایا گیا۔
1977ء تک بیرون ملک ڈالر کی مانگ اتنی کم ہو چکی تھی کہ امریکی ٹریژری کو سوئیس فرانک میں بونڈز جاری کرنے پڑے جو "کارٹر بونڈز" کہلاتے تھے۔[397]
بیرون ملک ڈالر کی مانگ مزید بڑھانے کے لیے 1981 میں شکاگو مرکنٹائل ایکسچینج (CME) میں یورو ڈالر فیوچر کونٹریکٹ کا کاروبار شروع کیا گیا جو ایک کیش سیٹیلڈ ڈیریویٹو ہے اور LIBOR (لندن انٹر بینک آفرڈ ریٹ) پر انحصار رکھتا ہے۔[398] خیال رہے کہ LIBOR کے متعدد اسکینڈل فاش ہونے پر برطانیہ اعلان کر چکا ہے کہ LIBOR کو 2021ء تک بتدریج ختم کر دیا جائے گا اور 31 دسمبر 2021 کو لندن اور سوئزرلینڈ کے LIBOR ختم کر دیے گئے۔[399]۔ LIBOR ختم ہونے سے دنیا بھر میں 400,000 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کے مالیاتی اثاثے متاثر ہوں گے۔[400][401] LIBOR ختم ہو جانے کے بعد بینک آف انگلینڈ کی مشکلات میں بڑا اضافہ ہو گیا ہے۔[402]
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلو ٹی او (WTO) جیسے عالمی مالیاتی ادارے بریٹن اوڈز سسٹم کو چلانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بریٹن اوڈز سسٹم ٹوٹنے کے بعد ان اداروں کو بھی توڑ دیا جاتا۔[403] مگر تیسری دنیا کی دولت چوسنے والے یہ نجی ادارے کرنسی چھاپ چھاپ کر روزبروز طاقتور ہوتے چلے گئے۔ آئی ایم ایف میں امریکا وہ واحد ملک ہے جس کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔[404] عالمی مالیاتی اثاثوں کی منتقلی کا 80 فیصد ڈالر کی شکل میں ہوتا ہے اور SWIFT (Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication) کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اگرچہ SWIFT کا مرکزی دفتر برسلز (بلجئیم) میں واقع ہے مگر اس پر امریکا کا مکمل کنٹرول ہے۔
- "ڈالر کو اب تک نیٹ ورک کے اثر کا فائدہ ہوتا ہے"
- The dollar still benefits from what is known as the “network effect”[405]
- "The U.S. uses its influence at SWIFT, the central nervous system of global money transfer message traffic, to cut off nations it considers to be threats. From a financial perspective, this is like cutting off oxygen to a patient in the intensive care unit. Russia understands its vulnerability to U.S. domination and wants to reduce that vulnerability. Now Russia has created an alternative to SWIFT."[404]
2016 میں سویفٹ کی شہرت اس وقت متاثر ہوئی جب کسی ہیکر نے بنگلہ دیش کے اکاونٹ سے ہیک کر کے دس کروڑ ڈالر چُرا لیے۔
چونکہ امریکا کسی بھی ملک پر تجارتی پابندیاں عائید کرنے کے لیے SWIFT کو استعمال کرتا ہے اس لیے روس نے کسی ایسے خطرے سے بچنے کے لیے 2014ء سے اپنا الگ متبادل SWIFT نظام بنا کر تیار رکھا ہے جو عالمی سطح پر استعمال کیا جا سکتا ہے[406] اور SPFS کہلاتا ہے۔[407]
روس کے کئی بینکوں نے چین کا سویفٹ سسٹم (China International Payments System) استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔[408] اکتوبر 2019ء سے ترکی نے روس کا سویفٹ سسٹم (SPFS) استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔[409]
اگست 2018ء میں جرمنی نے بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکی ڈالر کی بالادستی کے خلاف ایک الگ یورپی مونیٹری فنڈ ہونا چاہیے اور اس کا اپنا آزادانہ سویفٹ سسٹم ہونا چاہیے۔[410]
31 جنوری 2019ء کو فرانس نے سوئفٹ کا متبادل INSTEX پیش کر دیا ہے تاکہ یورپی ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت جاری رکھ سکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اقدامات امریکا کے دشمنوں کی بجائے دوست کر رہے ہیں۔[411]یکم اپریل 2020ء سے انسٹیکس کی مدد سے یورپ اور ایران باہمی تجارت شروع کر چکے ہیں۔[412]
ایران نے بھی سوئفٹ کے ذریعے لگنے والی امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے اپنا سسٹم SEPAM بنا لیا ہے جو بینکوں کے درمیان ہونے والی ٹیلی کمیونیکیشن کنٹرول کرتا ہے۔ 29 جنوری 2023ء کو ایران کے SEPAM اور روس کے SPFS کو باضابطہ طور پر جوڑ دیا گیا ہے جس سے ایران اور روس SWIFT سے نجات حاصل کر لیں گے۔ چین کا ایسا ہی سسٹم CBIBPS (Cross-Border Inter-Bank Payments System) کہلاتا ہے اور بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے مگر امریکا نے چین کو واضح دھمکی دی ہے کہ اگر CBIBPS کو استعمال کیا گیا تو چین کے سارے بینکوں کو سوئفٹ سے کاٹ دیا جائے گا۔[413]
- تجارتی پابندیاں درحقیقت جنگی کارروائی ہوتی ہیں۔
- Sanctions are an act of war[414]
مارچ 2023ء میں سعودی عرب نے اعلان کر دیا کہ اب تیل خریدنے والوں کو امریکی ڈالر میں ادائیگی کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح امریکا کی مرضی کے خلاف پیٹرو ڈالر کی بجائے پیٹرو یوان میں تیل کی تجارت کا آغاز ہوا جو چین کی بڑی کامیابی ہے۔[303] اسی طرح یکم اپریل 2023ء کو فرانس نے چین سے 65 ہزار ٹن ایل این جی ڈالر کی بجائے یوان ادا کر کے خریدی۔[213]
2023ء کے آغاز میں سعودی عرب نے برازیل سے معاہدہ کر لیا ہے کہ برازیل تیل کی خریداری پر برازیل کی کرنسی میں ادائیگی کرے۔[414]
- وہ (غلام) لوگ جو اجناس کی پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں وہ بالآخر نیویارک، لندن اور زیورخ میں مالیاتی آقاوں کے ذریعے چلائی جانے والی دولت لوٹنے کی مالیاتی مکاریوں سے تھک جائیں گے۔[218]
2011ء کے اختتام پر دنیا بھر میں ریزرو کرنسی کی مقدار 12000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔[415] 1971ء تک کرنسی کا سونے سے ربط قائم تھا اور اُس وقت یہ مقدار ہزار گنا کم تھی۔
- متحدہ امریکا تاریخ کی پہلی سلطنت ہے جو عالمی سطح پر قائم ہے اور پہلی سلطنت ہے جو براہ راست فوجی طاقت کی بجائے معاشی (مراد کرنسی کی) طاقت پر قائم ہے۔
- the first truly global empire, and the first empire based on indirect economic rather than direct military power. [416]
- "امریکا ڈالر چھاپ کر قرضوں کی شکل میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور پھر انھیں واپس امریکا لے آتا ہے۔ امریکا کی تین بڑی منڈیاں ہیں، کموڈٹی مارکیٹ، ٹریژری بونڈ مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ۔ اس طرح امریکا کو افراط زر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور منافع ہوتا ہے۔ امریکا مالیاتی سلطنت بن چکا ہے۔"
- If they export dollars to the world, the whole world is helping the US deal with its inflation.... By issuing debt, the US brings a large amount of dollars from overseas back to the US’s three big markets: the commodity market, the Treasury Bills market, and the stock market. The US repeats this cycle to make money: printing money, exporting money overseas, and bringing money back. The US has become a financial empire.[417]
کرنسی | عوام کی معاشی حالت |
---|---|
سونے چاندی کے سکے | معاشی آزادی |
کاغذی کرنسی | آدھی غلامی |
کیش لیس اکنومی | مکمل غلامی[418][419] |
قابل تخلیق کرنسی | منسلک وعدہ[420] |
---|---|
امریکی ڈالر (1971ء سے قبل) | “I owe you something” |
امریکی ڈالر (1971ء کے بعد) | “I owe you nothing” |
یورو | “we owe you nothing” |
بٹ کوائن (کرپٹوکرنسی) | “no one owes you nothing.” |
ایس ڈی آر یعنی Special drawing rights میں چار کرنسیاں شامل تھیں۔ امریکی ڈالر کا حصہ 41.9 فیصد، یورو کا حصہ 37.4 فیصد، پاونڈ اسٹرلنگ کا حصہ 11.3 فیصد اور جاپانی ین کا حصہ 9.4 فیصد تھا۔ آخری تینوں کرنسیاں بہت بڑی حد تک ڈالرکی دوست کرنسیاں ہیں۔ بین الاقوامی تجارت میں چین کا بہت بڑا حصہ ہے مگر پھربھی چینی یوان کا ایس ڈی آر میں کوئی حصہ نہیں تھا۔[421] لیکن جب چین نے بھی بڑی مقدار میں سونا خریدنا شروع کر دیا تو 30 نومبر 2015 کو آئی ایم ایف نے یوان کو ایس ڈی آر میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا جس پر عمل درآمد یکم اکتوبر 2016 کو ہوا[422] یوان کا حصہ 10.92 فیصد ہے یعنی اسے پاونڈ اسٹرلنگ اور جاپانی ین سے بڑی کرنسی مانا گیا ہے۔[423]
اکتوبر 2016ء کے بعد چین نے بھی حکومتی سطح پر سونا خریدنا بند کر دیا۔ [424]
روس کی کرنسی روبل “ڈالر دشمن“ کرنسی ہے اور ایس ڈی آر کا حصہ نہیں بن سکتی۔
ڈالر کا کبھی سونے چاندی سے تعلق ہوا کرتا تھا۔ جب 1969 میں ایس ڈی آر پہلی دفعہ متعارف کیا گیا تو یہ بھی 0.888671 گرام سونے کے برابر تھا جو اس وقت ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ 1974 میں ایس ڈی آر کا تعلق سونے سے ختم کر کے 16 کرنسیوں کی باسکٹ سے کر دیا گیا۔[425] 1981 میں اس باسکٹ سے 11 کرنسیاں نکال دی گئیں اور صرف پانچ باقی بچیں۔1999 میں یورو بننے کے بعد جرمن مارک اور فرانسیسی فرانک کی جگہ یورو کو مل گئی۔ اب ایس ڈی آر صرف آئی ایم ایف کے ارکان ممالک کے “اعتبار“ پر انحصار رکھتا ہے۔[426][427]
ڈالر پر تھوڑا بہت امریکی حکومت کا عمل دخل ہے۔ لیکن ایس ڈی آر مکمل طور پر نجی ادارے کی جاری کردہ بین الاقوامی کرنسی ہے۔
آئی ایم ایف نے 1981 تک صرف 21.4 ارب ایس ڈی آر جاری کیے تھے۔2008 کے بڑے مالی بحران کے بعد 182.7 ارب ایس ڈی آر تخلیق کر کے مالی بحران کو سنبھالا دیا۔
اس کے جواب میں چین، روس، ہندوستان، میکسیکو اور ترکی نے بڑی مقدار میں سونا خریدنا شروع کر دیا ہے۔ چین کا تسلیم شدہ سونا 1٫823.3ٹن ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے پاس کم از کم اس کا دُگنا سونا ہے ۔[428][429]
- راتوں رات چین شائید اپنے سرکاری سونے کے ذخیرے کو 30 ہزار ٹن سے زیادہ کر سکتا ہے۔
- Overnight, China could probably increase her official reserves to a level in excess of 30,000 tonnes[181]
چار ممالک (امریکا، جرمنی، فرانس، اٹالی) اور آئی ایم ایف مل کر دنیا بھر کے بینکوں کے دوتہائی سونے کے مالک ہیں۔ انگریزی کہاوت ہے کہ جو سونے کا مالک ہوتا ہے وہی قانون بناتا ہے۔ (he who owns the gold make the rules) اور جو قانون بناتا ہے وہی اصل حکمران ہوتا ہے۔
اگر یونان کے لوگ اس بات سے واقف ہوتے کہ “کرنسی یونین“ دراصل ایک پھندا ہے [430] اور یورو میں شریک نہ ہوئے ہوتے[431] تو آج اتنی ابتر حالت میں نہ ہوتے۔
- Greece has no sovereignty left to speak of, despite the fact that it is guaranteed it in EU law. .... they are turned from sovereign citizens of their countries into lost souls in debt prisons.[432]
- "financial decentralization is the best way for nations to protect their own sovereign interests."[433]
جو کچھ آج یونان میں ہوا وہ کل بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی ہونے والا ہے[434]
- "آج کے دور میں آزادانہ حکومت صرف پریوں کی کہانی ہے جو عوام الناس کو حقیقت سے بے خبر رکھنے کے لیے سنائی جاتی ہے تاکہ بینک اور کارپوریشن کے مالکان عوام کا استحصال کر سکیں"
- "Corporations and banks are not limited by national borders, and neither are the oligarchs who own them. Nations and governments don’t exist anymore. Not in the sense that they used to, anyway. The notion of meaningfully separate, sovereign governments is at this time a fairy tale told to the masses to keep us from realizing that we’re all being thrown into the gears of an exploitative threshing machine that only exists to feed the avaricious agendas of a few ruling elites."[435]
فرانس نے اپنی سابقہ 14 افریقی نوآبادیوں کو مشترکہ کرنسی CFA franc کی مدد سے آج بھی اسی طرح جکڑ رکھا ہے جیسے نام نہاد آزادی سے پہلے جکڑا ہوا تھا۔[436]
- "ہم اپنی عالمی سیاسی طاقت زمین پر زبردستی قبضہ کر کے نہیں بڑھاتے۔ ہم اپنی طاقت بڑھانے کے لیے معاہدے کرتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں، نگرانی کے نظام، تجارت اورکارپوریشن کے معاہدے کرتے ہیں، خفیہ معاہدے طے پاتے ہیں اور اہم ترین جگہ پر دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے قبضہ کرتے ہیں۔ مہذب لوگوں کی طرح۔"
- "We don’t expand our geopolitical power by blatant land grabs, we expand it with treaties, alliances, intelligence/surveillance deals, trade agreements, corporate contracts, secret pacts, and occupations of key strategic locations under the pretense of fighting terrorism. Like civilized people."[435]
1980 کی دہائی میں جاپان تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور امریکا کو خطرہ ہونے لگا تھا کہ کہیں جاپان انڈسٹریل سُپر پاور نہ بن جائے۔ 1985 میں امریکا نے G5 ممالک کے ساتھ پلازا ایکورڈ (Plaza Accord) کا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد جاپان کی معیشت ڈوبتی چلی گئی اور آج تک نہ سنبھل سکی۔[437] [438]
- "امیر ترین طبقہ خفیہ طریقے سے ڈالر کی جگہ ایس ڈی آر کو عالمی ریزرو کرنسی بنانے میں مصروف ہے۔ اگلا مالیاتی بحران انھیں اپنے ہدف کے اور نزدیک لے آئے گا"
- "Elites are working behind the scenes to ultimately replace the dollar with SDRs as the leading reserve currency. A new crisis will bring that goal one step closer to reality.[439]
ایس ڈی آر کی تفصیلات کے لیے دیکھیے آئی ایم ایف اور ٹریفن کا مخمصہ
رتبہ | ملک/ادارہ | سونے کی مقدار (ٹن) |
زر مبادلہ کا حصہ جو سونے کی شکل میں ہے |
---|---|---|---|
1 | ریاستہائے متحدہ | 8٫133.5 | 74% |
2 | جرمنی | 3٫383.4 | 68% |
3 | آئی ایم ایف | 2٫814.0 | N.A |
4 | اطالیہ | 2٫451.8 | 67% |
5 | فرانس | 2٫435.4 | 65% |
6 | چین | 1٫677 | 1% |
7 | روس | 1٫250.3 | 13% |
8 | سویٹزرلینڈ | 1٫040.0 | 7% |
9 | جاپان | 765.2 | 2% |
10 | نیدرلینڈز | 612.5 | 57% |
11 | بھارت | 557.7 | 6% |
12 | ترکیہ[443] | 513.0 | 16% |
13 | یورپی سینٹرل بینک | 504.8 | 26% |
14 | تائیوان | 423.6 | 4% |
15 | پرتگال | 382.5 | 69% |
16 | وینیزویلا | 367.6 | 69% |
17 | سعودی عرب | 322.9 | 2% |
18 | مملکت متحدہ | 310.3 | 10% |
19 | لبنان | 286.8 | 21% |
20 | ہسپانیہ | 281.6 | 19% |
استحصال
"تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کاغذی دولت (کیپیٹل) بدترین استحصال کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ یورپ کے انڈیا، افریقہ اور جنوبی امریکا سے تعلقات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کاغذی دولت بے شمار موقعوں پر دوسرے ممالک کی ساری دولت ہتھیانے، انھیں معاشی طور پر کمزور کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب بہت منظم لوگ ایسے ممالک کے لوگوں سے ملتے ہیں جو کم تعلیم یافتہ اور کم ذہین ہوں۔"
- But history shows that capital may be used for purposes of exploitation in the worst sense of the word. European relations with India in earlier times, and in more recent years with parts of Africa and South America, are particularly flagrant examples.
- Capital has been employed in numerous instances to drain countries of their resources, to weaken them economically, and to degrade them morally. The danger is especially great when highly organised communities are brought into contact with primitive peoples of lower education and intelligence.[444]
تخلیقِ دولت
- کیا دولت تخلیق بھی کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے ہاں۔
بلا شُبہ سونا تخلیق نہیں کیا جا سکتا نہ چاندی تانبہ پیتل اور کانسی۔ مگر محنت کر کے اچھی فصل حاصل کی جا سکتی ہے جسے دھاتی کرنسی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کر کے ٹیکنالوجی (ٹیکنولوجی) میں ترقی کر کے ایسی اشیاء بنائ جا سکتی ہیں جو منڈی میں اچھی قیمت دے جائیں۔ محنت کر کے سونے چاندی وغیرہ کی کانوں سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی دولت محنت سے تخلیق ہوتی ہے[446] اور محنت کرنے والے مزدور ہی ہمیشہ سے دولت کے تخلیق کرنے والے رہے تھے کیونکہ ان کی محنت سے ہی خام مال قابل استعمال چیز کی شکل پاتا ہے اور استعمال کی جگہ تک پہنچتا ہے۔[447]
دولت سے جو بھی چیز خریدی جاتی ہے اس پر کوئی محنت کر چکا ہوتا ہے۔ مزدور کے لیے دولت خون پسینے کی کمائ یا خون جگر کی کمائی ہے۔ مگر ڈالر چھاپنے میں کوئی خاص محنت صرف نہیں ہوتی اور چھاپنے والوں کو یہ دولت بغیر محنت کے مل جاتی ہے۔ یعنی ہوا میں سے دولت تخلیق کی جا سکتی ہے۔[448]
محنت کر کے دولت حاصل کرنا دولت کمانا کہلاتا ہے اور یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ مگر بغیر محنت کے دولت تخلیق کرنے کا نا جائز حق محض چند لوگوں کو حاصل ہے جو بے حد امیر ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ مرکزی بینکوں کے مالکان ہیں۔[449][450]
آج کل مہذبانہ زبان میں تخلیقِ دولت کو فریکشنل ریزرو بینکنگ کہا جاتا ہے۔[451]
- "بینک جو رقم قرض دیتے ہیں اس کا تو وجود ہی نہیں ہوتا۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ دراصل بینکنگ اور فراڈ کا خوبصورت نیا نام ہے۔"
- they are “lending” what does not even exist: “fractional-reserve banking” – the ultimate euphemism of banking and fraud.[452]
تقریباً سو سال پہلے کسی مصنف نے بینک مالکان کے بارے میں لکھا تھا کہ (دنیا میں) "جتنا سونا ہے اس سے زیادہ کرنسی ہے اور جتنی کرنسی ہے اُس سے زیادہ دولت ہے۔ سونا کرنسی کی بنیاد ہے۔ کرنسی دولت کو منتقل کرتی ہے۔ جو کوئی بھی کرنسی کو تخلیق کرتا ہے وہ دنیا بھر کی دولت کی منتقلی کو کنٹرول کرتا ہے۔"(مثلاً بذریعہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر، SWIFT, INSTEX وغیرہ)[453]
2016ء کے اختتام پر صورت حال | |||
---|---|---|---|
خطہ | بینکوں کے اثاثے[455] | ملکی آمدنی (GDP)[456] | عالمی آبادی میں حصہ[457] |
چین | 33٫000 ارب ڈالر | 21٫300 ارب ڈالر | 18.5 % |
یورو زون | 31٫000 ارب ڈالر | 19٫200 ارب ڈالر | 6.7 % |
امریکا | 16٫000 ارب ڈالر | 18٫600 ارب ڈالر | 4.3 % |
جاپان | 7٫000 ارب ڈالر | 4٫900 ارب ڈالر | 1.7 % |
اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سالوں میں ابتدائی اٹھارہ سو سالوں تک دنیا کا سب سے امیر ملک ہندوستان رہا ہے[459][460][461]
اس کے بعد چین کا نمبر آتا تھا۔ ان ممالک میں محنت کرنے کے بھر پور مواقع موجود تھے اور خطیر مقدار میں پیداوار ہوتی تھیں۔[462] ان ممالک کا تجارتی سامان دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی دھاتی ہوتی تھی اور مرکزی بینکوں کا عالمی گروہ موجود نہیں تھا۔ کاغذی کرنسی کے نظام نے محنت کرنے والوں کو افراط زر اور شرح تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت غریب کر دیا ہے۔ جبکہ کاغذی کرنسی چھاپنے والے اور اس کے سہارے شرح تبادلہ کنٹرول کرنے والے ممالک نہایت ہی امیر ہو گئے ہیں۔[463] یہ تیسری دنیا سے دولت کی منتقلی تھی جس نے مغربی ممالک کو خوش حالی عطا کی۔[464][465]
[466]
ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ارجنٹینا دنیا کا امیر ترین ملک بن گیا تھا کیونکہ وہاں خطیر مقدار میں چاندی نکلتی تھی۔ (لاطینی زبان میں argentum کا مطلب ہے چاندی)[467] لیکن آج (یکم نومبر 2023ء) ارجنٹینا بری طرح قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور افراط زر (انفلیشن) کی وجہ سے وہاں شرح سود 133 فیصد ہو چکی ہے۔[382] کسی بھی ملک میں بینکوں کی تعداد میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اُتنا ہی اُس ملک پر قرضوں کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔
1883ء میں کسی مصنف نے لکھا کہ علم کو طاقت کہا جاتا تھا لیکن دراصل علم دولت ہے۔ ترکی، شام، مصر اور شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے امیر ترین علاقوں میں شمار ہوتے تھے لیکن اب ان کا حال قابل رحم ہے کیونکہ ان کے پاس علم کی کمی تھی۔[29]
اس کے بعد ہندوستان اور چین کا بھی یہی حال ہوا۔ حقیقت یہ تھی کہ انھیں یورپ میں تیزی سے ترقی کرتی کاغذی کرنسی کی اصلیت کا علم نہ تھا۔
- "اگر تمھیں خبر نہیں ہے کہ کریڈٹ (جاری کرنا) دولت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو تم بالکل جاہل ہو۔"
- If you were ignorant of this that Credit is the greatest Capital of all towards the acquisition of Wealth, you would be utterly ignorant.[468]
گوروں کی جاری کردہ یہ کاغذی دولت (کرنسی، ڈرافٹ، چیک، قرضہ، بل آف ایکسچینج، بونڈز، شیئرز وغیرہ) بے خبر تیسری دنیا کو کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی جبکہ گورا اس نئی دولت کے بل پر پوری دنیا کو غلام بنانے میں مصروف تھا۔
دیکھیے |
---|
|
|
|
یکم جنوری 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو نیشنالائز کر لیا[472] جسے عالمی بینکار کنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
- "پھر ہم تمھیں ایک دہشتناک مثال بنا دیں گے" ہنری کسنگر
- "Then we will make a horrible example of you!" (Henry Kissinger)[473]
اپنے دور اقتدار کے آخری حصہ میں جب صدر پرویز مشرف نے پاکستانی کرنسی خود چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کرنے شروع کیے تو انھیں آئی ایم ایف کی شدید ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اور اگست 2008ء میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ ہمیشہ کی طرح پاکستانی کرنسی اسٹیٹ بینک آف پاکستان چھاپے اور حکومت پاکستان اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر سود ادا کرے۔
1997ء میں ایک سازش کے تحت ملیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گر کر تقریباً آدھی رہ گئی۔[474][475]
اس پر ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سارے اسلامی ممالک سونے کا دینار خود بنائیں اور آپس کی لین دین کے لیے امریکی ڈالر کی بجائے سونے کا دینار استعمال کریں۔ مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا کہ 2003 کے وسط تک وہ یہ دینار جاری کر دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسی سونے کی کرنسی میں لین دین کا رواج آ گیا تو شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی ثروت کا انحصار ہے۔ اس لیے 2003 میں مہاتیر محمد کو 22 سالہ وزارتِ اعظمی سے ہٹا کر عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنایا گیا جس نے ملکی سطح پر دینار جاری ہونے رکوا دیے۔ ملیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کے دینار جاری کیے جن کا وزن 4.25 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔
صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ 2000ء میں اس نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ َ[287] یہ امریکی ڈالر کی مقبولیت پر براہ راست وار تھا۔ اس کا یہ ناقابل معافی جرم آخر کار اسے لے ڈوبا۔
لیبیا کے معمر قذافی نے صدام حسین کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور 2009ء میں افریقہ میں تجارت کے لیے سونے کا دینار اور چاندی کا درہم نافذ کرنے کا ارادہ کیا[476] اس لیے اس کا بھی وہی حشر کرنا پڑا۔[477][478][479]
[480]
2007 سے ایران نے بھی اپنے تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں وصول کرنا بند کر دی ہے[481][482] ایران یہ واضح کر چکا ہے کہ ہم پر حملہ ہونے کی صورت میں اسرائیل بھی میدان جنگ بن جائے گا۔[483]
ستمبر 2017ء میں وینیزویلا نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ تیل کی قیمت ڈالر میں قبول نہیں کرے گا۔[484]وینیزویلا سوئفٹ سسٹم استعمال نہیں کرتا۔[407]
روسی صدر پیوٹن نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ 2018ء سے روس کی کسی بندرگاہ پر ڈالر وصول نہیں کیے جائینگے۔[485] 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا جس کے جواب میں امریکا نے نیٹو ارکان کے ساتھ مل کر روس پر تجارتی پابندیاں لگا دیں (یعنی روس کو سوئفٹ سسٹم سے کاٹ دیا)۔ مارچ 2022ء میں روس نے اعلان کر دیا کہ روسی گیس اور دیگر اجناس کے خریدار ہمیں امریکی ڈالر کی بجائے لازماً روسی کرنسی روبل میں ادائیگی کریں۔[486] اس طرح روس نے پہلی دفعہ پیٹرو ڈالر سسٹم کو للکارہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی روس نے اپنے ملک میں سونے کی خرید و فروخت پر value added tax ختم کر دیا۔ 15 اگست 1971ء میں امریکی صدر نکسن نے دنیا کی مقبول ترین کاغذی کرنسی ڈالر کا سونے سے ربط توڑ ڈالا تھا۔ اب تقریباً 50 سال بعد روس وہ پہلا ملک ہے جس نے 28 مارچ 2022ء کو اپنی کاغذی کرنسی روبل کو دوبارہ سونے سے منسلک کر دیا ہے اور ایک گرام خالص سونے کو 5000 روبل کے برابر قرار دیا اور وعدہ کیا کہ 30 جون 2022ء تک اس قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس وقت لگتا تو یہ تھا کہ یہ آنے والے گولڈ اسٹینڈرڈ کی شروعات ہیں۔[487] مگر صرف دس دن بعد 7 اپریل کو روس نے روبل کا سونے سے ربط توڑ دیا۔[488]
- “It was once said that ‘gold and oil can never flow in the same direction’.”[487]
اگر آج بھی کاغذی کرنسی کی جگہ سونے چاندی کو خرید و فروخت کے لیے کرنسی کی طرح استعمال کیا جائے تو ہندوستان، چین اور تیل پیدا کرنے والے ممالک شائید امیر ترین ممالک بن جائیں۔ اس لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس بات کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ خیال رہے کہ آئی-ایم-ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) ایک نجی ادارہ ہے اور کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔
پاکستان کے پاس لگ بھگ 65 ٹن سونا ہے اور پاکستان پر آئی-ایم-ایف کا شدید دباو ہے کہ یہ سونا بیچ کر کاغذی فورین ریزرو میں اضافہ کیا جائے جبکہ اس وقت زیادہ تر ممالک اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب تک پاکستان اپنا سونا بیچنے پر آمادہ نہیں ہوا ہے۔[489] پاکستان اپنے بجٹ کا 52 فیصد قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔[490]
ہٹلر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ (اگر کرنسی آزاد ہو تو)کسی ملک کی دولت وہ سونا چاندی یا فورین ریزرو نہیں ہوتا جو مرکزی بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوتا ہے یا مرکزی بینکوں کی ضمانت سے جاری ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اصل دولت اس ملک کی پیداواری صلاحیت ہے۔ ملکی کرنسی کی قوت خرید اس وقت بڑھتی ہے جب تک پیداوار میں اضافہ ہوتا رہے۔ اور اس وقت گرتی ہے جب پیداوار میں کمی آتی ہے۔[491]
اگرچہ ہٹلر کو ہر لحاظ سے قابل تنقید سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا بھر کی حکومتیں ہٹلر کے معاشی پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ [492]
بریٹن اوڈز سسٹم بنا کر ڈالر نے دوسری کرنسیوں کی آزادی چھین لی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی آزاد ہوتی تو اپنی کثیر پیداواری صلاحیت کی وجہ سے آج ہندوستان بھی ایک امیر ملک ہوتا۔ چین کی ترقی کی یہی وجہ ہے کہ چین اپنی کرنسی خود کنٹرول کرتا ہے۔
امریکی منقولہ دولت بشمول قرض | ارب ڈالر[493] |
---|---|
سونا [494] | 291 |
کرنسی | 1٫360 |
بینک اکاونٹ | 10٫000 |
شیئر (اسٹاک) | 20٫000 |
ٹریژری بونڈ | 38٫000 |
Derivatives | 220٫000 |
ڈیری ویٹو ایکسپوزر[495] | |
---|---|
بینک | مقدار |
جے پی موگن چیز | 48,000 ارب ڈالر |
سٹی گروپ | 47,000 ارب ڈالر |
گولڈمین سیکس | 42,000 ارب ڈالر |
عالمی دولت | |
---|---|
مثال | مالیت[496] |
دنیا کی ساری کرپٹوکرنسیاں | 173 ارب ڈالر |
دنیا بھر کی چاندی( 571,000 ٹن)[497] | 312 ارب ڈالر |
ایپل کمپنی | 807 ارب ڈالر |
دنیا کے 50 امیر ترین افراد | 1900 ارب ڈالر |
کیلیفورنیا کی جی ڈی پی | 2900 ارب ڈالر |
فیڈرل ریزرو کی بیلنس شیٹ | 4500 ارب ڈالر |
دنیا بھر کے سکے اور بینک نوٹ | 7600 ارب ڈالر |
دنیا بھر کا سونا (187,200 ٹن) | 7700 ارب ڈالر |
دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ | 73,000 ارب ڈالر |
دنیا بھر کے قرضے | 215,000 ارب ڈالر |
دنیا بھر کی قابل استعمال جائیدادیں | 217,000 ارب ڈالر |
دنیا بھر کے ڈیریویٹو | 1,200,000 ارب ڈالر (تخمیناً) |
ٹائم میگزین کے مالک Marc Benioff نے 3 اکتوبر 2019ء کو ایک بیان دیا جس میں کہا کہ مجھے پوارا یقین ہے کہ ملٹن فرائڈمین کا دولت تخلیق کرنے والا کیپیٹلزم اب مر چکا ہے اور کوئی نیا نظام آنے والا ہے۔[498]
عالمی قرضے (یکم دسمبر 2019ء تک) | |
---|---|
شعبہ | قرضہ (ہزار ارب ڈالر)[499] |
گھریلو | 47.9 |
نون فائنینشیئل کارپوریشن | 75.7 |
حکومتیں | 70.0 |
فائنینشیئل کارپوریشن | 61.7 |
گروس ورلڈ پروڈکٹ
اسے دنیا بھر کی پیداوار کے برابر مانا جاتا ہے کیونکہ تمام ملکوں کی کل ایکسپورٹ دوسرے تمام ملکوں کی کل امپورٹ کے عین برابر ہوتی ہے۔ اسے گلوبل جی ڈی پی یا ورلڈ جی ڈی پی بھی کہتے ہیں۔
سال | گلوبل جی ڈی پی۔ ارب ڈالر[500] |
---|---|
2010 | 65٫339 |
2011 | 72٫423 |
2012 | 73٫777 |
2013 | 75٫467 |
2014 | 77٫269 |
2015 | 73٫507 تخمیناً |
2016 | 76٫321 تخمیناً |
ان اعداد سے پتہ چلتا ہے کہ صرف امریکا کی ڈیری ویٹو مارکیٹ پوری دنیا کی مجموعی پیداوار کا تین گنا ہو چکی ہے۔[501]
آبادی کا حصہ | آمدنی |
---|---|
امیر ترین 20% افراد | 82.70% |
دوسرے درجے کے 20% افراد | 11.75% |
تیسرے درجے کے 20% افراد | 2.30% |
چوتھے درجے کے 20% افراد | 1.85% |
غریب ترین 20% افراد | 1.40% |
کاغذی کرنسی اور جنگیں
"(امریکا میں) سو سالہ سینٹرل بینکنگ اور (دنیا میں) سو سالوں تک جنگوں کا ایک ساتھ واقع ہونا محض اتفاق نہیں ہے۔"
- Ron Paul warned us that, “It is no coincidence that the century of total war coincided with the century of central banking.”[503]
"امن کا سب سے بڑا دشمن امریکا ہے"
- AMERICA AS "GREATEST ENEMY TO PEACE"[504]
- (بریٹن ووڈز کے بعد) گولڈ اسٹیندرڈ سے آزاد ہو کر کاغذی کرنسی کی بے لاگ چھپائی نے حکومت امریکا کو دوسری جنگ عظیم اور بعد کی جنگوں کے اخراجات جھیلنے کے قابل بنایا۔۔۔۔ جب تک (امریکی) حکومت کرنسی چھاپ سکتی ہے تب تک بڑی جنگیں ختم نہیں ہو سکتیں۔
- With the ability to print fiat currency unconstrained by the discipline of a gold standard, the government financed World War II and subsequent conflicts through inflationary measures... The government’s ability to print endlessly has enabled endless war.[505]
"امریکی حکومت کو مقابلہ بازی بالکل پسند نہیں، خاص طور پر ڈالر کے معاملے میں۔ ہم بے شمار جنگوں پر کھربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں تاکہ اپنی کرنسی کو بچا سکیں۔"
- The U.S. government doesn’t like competition, especially when it comes to the U.S. dollar. We’ve spent trillions of tax dollars on countless wars and conflicts just to protect our currency.[506]
"ڈالر کو کرنسیوں میں سرفہرست رکھنے کے لیے سونے کی پشت پناہی، تحمل اور منظم سرپرستی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی بجائے، اس کے لیے فوجی مہمات اور مضبوط عالمی پولیس کے نظام کی ضرورت تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور شہری لین دین کے لیے ڈالر کا استعمال جاری رکھیں۔"
- Keeping the dollar at the top of the food chain no longer required restraint and good stewardship to ensure its backing in gold. Instead, it required military expeditions and strong policing to ensure global governments and citizens continued to use the dollar to transact.[507]
نوبل انعام یافتہ ادیب Ernest Hemingway نے لکھا تھا کہ "بدانتظامی کی شکار قوم کا پہلا حل کرنسی کا افراط زر اور دوسرا حل جنگ ہے۔ دونوں عارضی خوش حالی لاتے ہیں مگر دونوں ایک مستقل بربادی بھی لاتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں حل سیاست دانوں اور بینک کاروں کی پناہ گاہ ہیں۔"[40][508]
جنگ کا نام | جنگ کی مدت (مہینوں میں) |
---|---|
افغانستان کی جنگ (2001ء سے 2021ء) | 234
|
ویتنام کی جنگ (1965ء سے 1975ء تک) | 122
|
عراق کی جنگ (2003ء سے 2012ء تک) | 105
|
جنگ عظیم دوم (1941ء سے 1945ء تک) | 44
|
کوریا کی جنگ (1950ء سے 1953ء تک) | 37
|
فلیپائن امریکی جنگ (1899ء سے 1902ء تک) | 37
|
پہلی جنگ عظیم (1917ء سے 1918ء تک) | 19
|
اسپین امریکی جنگ (1898ء) | 8
|
- "چونکہ روس کے برخلاف امریکا نے اسلحہ سازی نجی کمپنیوں کے حوالے کر دی ہے جو میدان جنگ میں کسی حد تک ذاتی فوج بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے دوسرے ممالک پر حملے اور فوجی قبضے سے امریکی سرمایہ کاروں کو منافع ہوتا ہے۔"
- Because America (unlike Russia) privatized the weapons-industry (and even privatizes to mercenaries some of its battlefield killing and dying), there are, in America, profits for investors to make in invasions and in military occupations of foreign countries[510]
- "جنگ کے زمانے میں ہارڈ کرنسی ترک کرنی پڑتی ہے کیونکہ کرنسی کی گراوٹ بیشتر جنگوں کا لازمی جُز ہے۔"
- Hard money regimes are abandoned in wartime, because the debasement of money is a prerequisite of most wars.[42]
- "ابتدا میں بننے والے سینٹرل بینکوں کو بڑی جلدی معلوم ہو گیا کہ کریڈٹ کا جاری ہونا یا روک دیا جانا طے کرتا ہے کہ جنگ کون جیتے گا۔" کوئی بھی جیتے، کریڈٹ مہیا کرنے والے بینکار ہمیشہ منافع میں رہتے ہیں۔
- It did not take long for these nascent central bankers to realize the power that the extension or withholding of credit and setting of interest rates granted to those in control of credit... the power this credit held would be tantamount to the power to choose winners and losers in war[511][512]
- "یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ساری جنگیں ہمیشہ بینکاروں کی جنگیں ہوتی ہیں۔"
- It is important to remember that all wars are invariably banker wars[513][514]
یوکرین جنگ اور دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسٹاک[515] | ||
---|---|---|
کمپنی کا نام | ملک[516] | شیئرز کی قیمت 2022ء |
Lockheed_Martin | امریکا | 37 فیصد اضافہ |
Northrop Grumman | امریکا | 41 فیصد اضافہ |
Boeing | امریکا | |
Raytheon | امریکا | 17 فیصد اضافہ |
Dynamics | امریکا | 19 فیصد اضافہ |
1913 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے قیام سے آٹھ بینکار خاندانوں کا امریکی حکومت سے گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اب یہ بینکار اپنے غیر ملکی نادہندگان کے خلاف امریکی افواج استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔ مورگن، چیز اور سٹی بینک اب بین الاقوامی قرض جاری کرنے والے ادارے میں تبدیل ہو گئے۔[517]
اب یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ دونوں بڑی عالمی جنگوں کا مقصد برٹش پاونڈ کو بین الاقوامی ریزرو کرنسی کے درجے سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔[372][518]
پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ڈالر بین الاقوامی کرنسی کے میدان میں پاونڈ کا پہلا حریف بن کر اترا[519] اور پاونڈ کمزور ہوتا چلا گیا جبکہ ڈالر مضبوط ہوتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈالر نے پاونڈ کو پوری طرح برطرف کر دیا۔
[520]
جرمنی میں جب 1933 میں نازی پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو جرمنی کی معیشت بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری تاوان جنگ ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ بیرونی سرمائیہ کاری کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری نو آبادیاں اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد خودکشی کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔[521] لیکن صرف چار سال میں ہٹلر نے جرمنی کو دوبارہ یورپ کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی سونا تھا نہ کوئی قرض۔ جس وقت امریکا اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور بائیکاٹ کے باوجود جرمنی بارٹر سسٹم کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
ایک طرف جرمنی میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف جاپان میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی ۔[522] یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف دوسری جنگ عظیم شروع کی گئی۔[523] [491]
1945 میں جنگ عظیم دوم میں جاپان کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔[524] 1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔[525]
آج جاپان پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو جی ڈی پی کا 245 فیصد ہیں۔[526]
اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کے بعد امریکا وہاں اپنا کرنسی کا نظام لانا چاہتا تھا مگر روس آڑے آ گیا۔ اس لیے امریکا برطانیہ اور فرانس کے زیر کنٹرول جرمن علاقوں میں فیڈرل ریزرو کی طرز پر ایک نیا سنٹرل بینک Bank deutscher Länder بنایا گیا اور نئی کرنسی ڈوئچے مارک نافذ کی گئی[527] جبکہ روس نے اپنے زیر کنٹرول جرمن علاقے میں اپنی کرنسی نافذ کی۔[528]
اگر روس امریکا کا کرنسی پلان مان لیتا تو شائید نہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا نہ سرد جنگ شروع ہوتی۔[529]
دوسری جنگ عظیم کے دوران میں سوئیزرلینڈ کے ایک طرف جرمنی اور اس کے حامی تھے اور دوسری جانب اتحادی افواج۔ اس لحاظ سے سوئیزرلینڈ کو تو محاذ جنگ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب سارا یورپ جنگ کی آگ میں جل رہا تھا اس وقت سوئیزرلینڈ میں نہ صرف کوئی جنگ نہ ہوئی بلکہ وہ دونوں متحارب فوجوں کو سامان جنگ بھی فروخت کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اٹلی اور فرانس نے سوئیس نیشنل بینک کو 3.8 ارب سوئیس فرانک کا سونا بیچا یعنی لگ بھگ 784.4 ٹن۔[530] بیسل، سوئیزرلینڈ میں بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کا مرکزی دفتر تھا جو سارے بڑے مرکزی بینکوں کا محور تھا اور یہ بینک ہی دونوں طرف کی فوجوں کو سامان جنگ کی خریداری کے لیے کاغذی سرمایہ سود پر فراہم کر رہے تھے۔ 1940 سے 1950 کے دوران میں امریکا اور فرانس پر قرضے 600 گنا بڑھے جبکہ جاپان پر 1348 گنا بڑھے۔ اس طرح مرکزی بینکوں کا منافع بھی خوب بڑھا[531][532] اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں امریکا، جو ایک مقروض ملک تھا، وہ 1919ء تک نوٹ چھاپ چھاپ کر قرضہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد ایک سال کے اندر امریکی ایکسپورٹ میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا اور امریکی تجارتی منافع تاریخ میں پہلی بار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ خیال رہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کو اسلحہ اور دیگر سامان کاغذی کرنسی کی بجائے سونے چاندی کے عوض بیچ رہا تھا۔[533] اس طرح بڑی مقدار میں سونا یورپ سے امریکا منتقل ہوا۔
7 اکتوبر 2001 میں افغانستان میں جنگ شروع ہوئی۔ جنگ جب عروج پر تھی اس وقت بون جرمنی میں مغربی مرکزی بینکوں کے ایک اجلاس میں افغانستان کے لیے ایک نئی کاغذی کرنسی تجویز کی گئی اور صرف تین مہینوں کے اندر افغانستان میں ایک نیا مرکزی بینک بنا کر 2 جنوری 2002 تک اس نئی کرنسی کو پوری طرح نافذ کر دیا گیا۔ اسی طرح 20 مارچ 2003 کو عراق کی جنگ شروع ہوئی اور ایک سال کے اندر اندر عراق میں نیا مرکزی بینک بنا دیا گیا اور نئی کاغذی کرنسی نافذ کر دی گئی۔[534]
یہی سب کچھ لیبیا میں بھی ہوا۔ لیبیا میں 1956ء سے مرکزی بینک حکومت کی ملکیت میں تھا۔[535] جاہل "انقلابیوں" نے محض چند ہفتوں میں نیا مرکزی بینک بنا دیا جو نجی تھا اور امریکی فیڈرل ریزرو کے مالکان کی ملکیت میں تھا۔ لیبیا کے پاس 150 ٹن سونا تھا جو جنگ کے بعد غائب ہے۔[536][537]
[538]
[539] کرنل قذافی کے پاس 6 ارب امریکی ڈالر تھے جن کا جنگ بعد کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔[540]
جنگ اور کاغذی کرنسی کا یہ رشتہ بہت پرانا ہے۔[541][542] اگلا ہدف ایران اور شمالی کوریا ہوں گے تاکہ وہاں بھی کرنسی پر مغربی بینکار اپنا تسلط قائم کر سکیں۔[543]
چین کا سنٹرل بینک (پیپلز بینک آف چائنا) پرائیوٹ نہیں بلکہ حکومتی ملکیت میں ہے اور چین کو کرنسی چھپنے پر نہ قرض لینا پڑتا ہے اور نہ سود دینا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے چین پر آج کوئی قرضہ نہیں ہے اور اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اگر چین آئی ایم ایف کا مقروض ہوتا تو اسے بھی کئی ناجاِئز شرائط قبول کرنی پڑتیں۔ چین اپنی کرنسی کو float کرنے کا بھی شدت سے مخالف ہے کیونکہ بہت سے ممالک یہ غلطی کر کے کنگال ہو چکے ہیں۔[544]
اگر چین کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوتے تو عالمی بینکار چین کو بھی کسی تیسری عالمگیر جنگ برپا کر کے اسی طرح تہس نہس کر دیتے جس طرح کرنسی چھاپنے کے جرم میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کو کیا گیا تھا۔
امریکی بحریہ کے اعلیٰ ترین میجر جنرل اسمیڈلے بٹلر کو بحریہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اعزازات ملے۔ اس نے 1935 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھاWar Is a Racket۔ وہ لکھتا ہے "جنگ صرف ایک ریکٹ ہوتی ہے۔ ریکٹ سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جو ویسا نہیں ہوتی جیسا کہ اکثریت سمجھ رہی ہوتی ہے۔ صرف اندر کے چند لوگوں کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ دراصل کیا ہو رہا ہے۔ جنگ صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ اُن چند لوگوں کو فائدہ پہنچے اگرچہ اس میں لاکھوں لوگوں کا نقصان ہوتا ہے۔[545]
وہ لکھتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے ان چند لوگوں کو 16,000 ارب ڈالر کا منافع ہوا۔[546] جبکہ جنگ، قحط، بیماری اور سردی کی وجہ سے 20 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔
- "1919ء کے معاہدۂ ورسائے سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم قومیت کی خاطر نہیں تھی بلکہ سلطنت اور حاکمیت کی خاطر تھی۔"
- the پہلی جنگ عظیم کے اتحادی–German Treaty of Versailles (1919) as proofs that empire and hegemony—not nationalism—were the economic motivations for the First World War.[547]
- "جنگ بزنس کے لیے بڑی اچھی چیز ہے اور عالمی جنگ تو اور بھی بہتر ہوتی ہے"۔[548]
- War is also very good for business, and a world war is even better for business.
ملک کا نام | سینٹرل بینک کا نام | کب شروع ہوا | جنگ سے تعلق[549] |
سوئیڈن | Sverige Riksbank | 1688 | جنگ کے دوران میں بنا |
انگلینڈ | Bank of England | 1694 | جنگ کے دوران میں بنا |
فرانس | Banque de France | 1800 | جنگ کے دوران میں بنا |
فن لینڈ | Bank of Finland | 1811 | جنگ کے دوران میں بنا |
نیدرلینڈ | Nederlandsche Bank | 1814 | جنگ کے دوران میں بنا |
آسٹریا | Austrian National Bank | 1816 | جنگ کے فوراً بعد بنا |
ناروے | Norges Bank | 1816 | جنگ کے فوراً بعد بنا |
ڈنمارک | Danmarks Nationalbank | 1818 | جنگ کے فوراً بعد بنا |
پرتگال | Banco de Portugal | 1846 | جنگ کے دوران میں بنا |
بیلجیئم | Belgian National Bank | 1850 | |
اسپین | Banco de Espan˜a | 1874 | |
جرمنی | Reichsbank | 1876 | جنگ کے بعد بنا |
جاپان | Bank of Japan | 1882 | |
اٹلی | Banca D’Italia | 1893 | |
امریکا | فیڈرل ریزرو | 1913 | پہلی جنگ عظیم سے فوراً پہلے بنا |
پوری دنیا | آئی ایم ایف | 1946 | دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد بنا |
امریکا کے چوتھے صدر جیمز میڈیسن نے کہا تھا کہ "تاریخ میں محفوظ ہے کہ منی چینجروں نے کرنسی کو کنٹرول کر کے حکومت پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کا ظلم، سازش، دھوکا اور پُر تشدد کاروائ کا استعمال کیا ہے"
- "History records that the money changers have used every form of abuse, intrigue, deceit, and violent means possible to maintain their control over governments by controlling money and its issuance."
President James Madison
- "دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی کارپوریشنوں کے مالکان نے یہ سبق سیکھا کہ کاغذی کرنسی کے دور میں جتنا پیسہ جنگ سے بن سکتا ہے اتنا امن سے نہیں بن سکتا بشرطیکہ حکومت کا تعاون حاصل ہو۔"
- During the Second World War, the wealthy owners and top managers of the big corporations learned a very important lesson: during a war there is money to be made, lots of money. In other words, the arduous task of maximizing profits – the key activity within the capitalist American economy – can be absolved much more efficiently through war than through peace; however, the benevolent cooperation of the state is required.[550]
کاغذی کرنسی اور غربت
امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے1788ء میں کاغذی کرنسی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ محض غربت ہے، یہ صرف رقم کا بھوت ہے رقم نہیں ہے۔
Paper is poverty... it is only the ghost of money, and not money itself
—
امریکا کے ساتویں صدر اینڈریو جیکسن نے فروری 1834 میں ایک تقریر کے دوران میں کہا تھا "میں بڑے غور سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ کیا کر رہا ہے۔ میرے آدمی کافی عرصے سے تم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب میں قائل ہو چکا ہوں کہ تم لوگوں نے بینک میں جمع شدہ رقم سے اشیاء خور و نوش پر سٹہ کھیلا۔ جب تم جیتے تو تم نے منافع آپس میں بانٹ لیا۔ اور جب تمھیں نقصان ہوا تو تم نے اسے بینک کے کھاتے میں ڈال دیا۔ تم مجھے بتاتے ہو کہ اگر میں تمھارے بینک کا سرکاری اجازت نامہ منسوخ کر دوں تو دس ہزار گھرانے برباد ہو جائینگے۔ معززین، ہو سکتا ہے یہ درست ہو لیکن یہ تمھارا گناہ ہے۔ اور اگر میں نے تمھیں اسی طرح کام کرنے دیا تو تم لوگ پچاس ہزار خاندان تباہ کر دو گے اور یہ میرا گناہ ہو گا۔ تم لوگ زہریلے سانپوں اور چوروں کا گروہ ہو اور میں تمھیں ہر حال میں ختم کر کے رہوں گا"[552] اگرچہ کانگریس نے بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ کی دوبارہ بحالی کا بل منظور کر لیا تھا مگر بعد میں اینڈریو جیکسن نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ 30 جنوری 1835 کو اینڈریو جیکسن پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن اس پر چلائی گئی دونوں گولیاں اسے نہیں لگیں۔
امریکا کے بیسویں صدر جیمز گارفیلڈ نے کہا تھا کہ جو کوئی بھی کسی ملک میں کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ دراصل ساری معیشت اور ساری صنعت کا مالک ہوتا ہے۔ اس صدر کو صدارت کے ساتویں مہینے میں 2 جولائی 1881 کو گولی مار دی گئی تھی۔ کوئی بھی حکومت زرِ کثیف (hard currency) کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتی جبکہ کاغذی کرنسی کو کنٹرول کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔
کاغذی کرنسی نے تقسیم دولت کا توازن انتہائ حد تک بگاڑ کر غربت کو تیزی سے دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے۔[553] دولت بڑی سرعت سے محض چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے اور طبقۂ وسطیٰ (مِڈل کلاس) سکڑتا جا رہا ہے۔[554] امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے 21 نومبر 1864ء کو اپنے ایک خط میں عین اسی بات کی واضح پیشنگوئ کی تھی۔
"میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب ایک بڑا بحران آنے والا ہے جو مجھے پریشان کر دیتا ہے اور میں اپنے ملک کی حفاظت کے خیال سے لرزنے لگتا ہوں.... کارپوریشنوں کو بادشاہت مل گئی ہے اور اعلیٰ سطح پر کرپشن آنے والی ہے۔ اور دولت کی طاقت (رشوت) لوگوں کی سوچ پرحاوی ہو کر اپنا راج جاری رکھنے کی پوری کوشش کرے گی یہاں تک کہ ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اورجمہوریت تباہ ہو جائے۔ " چند ہی مہینوں بعد 1865ء میں ابراہم لنکن کو گولی مار دی گئی۔
—
"I see in the near future a crisis approaching that unnerves me, and causes me to tremble for the safety of our country. Corporations have been enthroned, an era of corruption will follow, and the money power of the country will endeavor to prolong its reign by working upon the prejudices of the people, until the wealth is aggregated in a few hands, and the republic is destroyed.
—
مارکو پولو نے کاغذی کرنسی کے بارے میں لکھا تھا کہ چین کی سلطنت کے بہترین خاندان تباہ و برباد ہو گئے اور عوام کے معاملات کنٹرول کرنے والے نئے لوگ آ گئے اور ملک قتل و غارت گری، جنگ اور انتشار کا شکار ہو گیا۔ چند صدیوں کے بعد کاغذی کرنسی کی وجہ سے ہندوستان، چین، ترکی، شام ،مصر اور تیسری دنیا کے دیگر خوش حال ممالک اسی طرح تباہ و برباد ہو گئے اور دنیا کے معاملات کنٹرول کرنے والے نئے لوگ (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) آ گئے۔
- "یہ نہایت حیرانی کی بات ہے کہ ذہین لوگ کرنسی کے بارے میں اتنے بے خبر اور بے حس ہیں کہ انھوں نے زیادہ تر ممالک میں کئی صدیوں سے اس ظالمانہ نظام کو اپنے استحصال کی اجازت دی۔"
- Bankers debt based money doesn’t serve local cities. Bankers debt- based interest bearing money doesn’t really save anyone but the bankers. This system is designed to oppress the poor, destroy the middle class, and keep everyone but themselves —the owners of the national bank —poor and in debt forever. The bankers’ money system does a very good job at this. It is amazing that intelligent people are so ignorant and apathetic about money that they have allowed the system to oppress them for hundreds of years in most countries.[556]
- پچھلی دہائی میں غربت کی سب سے بڑی وجہ (دنیا بھر کے) سینٹرل بینکرز کا 30,000 ارب ڈالر تخلیق کرنا ہے۔
- the biggest source of global inequality for the past decade: central banks that have injected over $30 trillion in liquidity in the past ten years (from 2010 to 2020)[557]
- دنیا کے ہر ملک کا بنیادی مسئلہ غیر مستحکم (کاغذی) کرنسی سسٹم ہے جو مہنگائی کو بڑھاتا ہے اور اسے بطور ترقی ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔ اس مہنگائی کے مجرم سینٹرل بینک ہیں جو بڑے پیمانے پر اسٹاک کی قیمتیں بڑھاتے اور گراتے ہیں۔
- The fundamental problem everywhere is an unsound currency system that promotes bubbles as a means of growth... Central banks everywhere are guilty of promoting bubbles and busts of increasing amplitude.[558]
- کرونا کی عالمی وبا (2020 اور 2021ء) کے دوران دنیا بھر میں گھریلو دولت کا اضافہ 100 ہزار ارب ڈالر کا تھا جو محض کاغذی تھا کیونکہ 39 ہزار ارب ڈالر تخلیق کیے گئے تھے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔
- Growth in the global balance sheet accelerated during the pandemic. In 2020 and 2021, the intense first two years of the pandemic when governments launched large-scale support for economic activity, households globally added $100 trillion to global wealth “on paper” as asset prices soared and $39 trillion in new currency and deposits were minted.[559]
- 2022ء کے اختتام پر عالمی منڈی کا سرمائیہ (کاغذی اور حقیقی) 266 ہزار ارب ڈالر تھا جس میں سونے کا حصہ صرف ایک فیصد تھا۔[560]
کاغذی کرنسی اور آزادی
بنیادی طور پر آزادی کی دو قسمیں ہوتی ہیں: معاشرتی اور معاشیاتی (یعنی اقتصادی)۔[561]
ہاورڈ بوفے (وارن بوفے کا باپ) امریکی کانگریس کا رکن تھا۔ 1948ء میں اس نے لکھا "کیا کاغذی کرنسی کا آزادی سے کوئی تعلق ہے؟ بظاہر کرنسی کا تعلق معاشیات سے ہے جبکہ آزادی کی نعمت سیاست سے وابستہ ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لینن، روزویلٹ، ہٹلر اور مسولینی نے عوام پر سونا رکھنے کی پابندی لگائی تھی۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سونے کے بغیر انسان اپنی بقا اور دوسرے مقامات پر منتقلی کے لیے سیاست دانوں کی مرضی کا محتاج ہو جاتا ہے"۔[200]
- جہاں بھی پارلیمانی حکومت ہوتی ہے وہاں کرنسی کنٹرول کرنے والے بادشاہ ہوتے ہیں۔۔۔۔ ذلت آمیز غربت اور حد سے زیادہ امیری دونوں ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
- Wherever there is Parliamentary Government, the Money power rules....abject poverty, and flaunting wealth are always found together.[562]
- کرنسی تخلیق کرنے والے اور کرنسی استعمال کرنے والے میں وہی رشتہ ہوتا ہے جو آقا اور غلام میں ہوتا ہے۔[52][563]
- میرا خیال ہے کہ ہمارا موجودہ کیپیٹل ازم کا سسٹم درحقیقت غلامی کا دوسرا نام ہے۔
- “I believe our current system of capitalism is slavery by another name...”[564]
- امریکی مالیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکی حکومت کو عوام کی آزادی کی بالکل پروا نہیں ہے۔
- US monetary history, makes clear that the state is not in the business of securing our liberty.[565]
- بے شک کرنسی بڑی طاقتور چیز ہے۔ کرنسی کا مطلب ہے کنٹرول۔
- No doubt, money is a powerful thing! Money means control,[566]
ہارڈ کرنسی سے فی ایٹ کرنسی تک
تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل کرنسی کے رواج کو ختم کر کے کاغذ کو کرنسی بنانے کے لیے بتدریج یہ مراحل اختیار کیے گئے تھے۔[335]
- لیگل ٹینڈر (قانونی کرنسی) کے قوانین بنائے گئے۔ یہ درحقیقت price control کی ابتدا تھی۔
- mintage monopoly یعنی ٹکسالوں پر اجارہ داری اختیار کی گئی۔ اس طرح کرنسی پر سے عوام کا عمل دخل ختم کر دیا گیا۔
- یونٹ آف اکاونٹ (unit of account) اختیار کیا گیا یعنی سکوں کے وزن کی بجائے ایک نام (روپیہ، ڈالر یا پاونڈ) کو معیار مقرر کیا گیا۔
- دو دھاتی نظام نافذ کیا گیا۔ یعنی متوازی نظام کی بجائے ان کی نسبت مقرر کر دی گئی جو بعد میں لازماً ناکام ہوجاتی ہے۔
- مقرر نسبت ناکام ہونے پر گولڈ اسٹینڈرڈ اپنایا گیا اور چاندی ترک کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کاغذی رسید کو بھی معروف کیا گیا۔
- سونے کو بھی ترک کر دیا گیا یعنی رسید کے بدلے سونا واپس کرنا (convertibility) ختم کر دیا گیا۔ اب کاغذی رسید ہی کرنسی کہلائی۔
فی ایٹ کرنسی کے نقصانات
سونے، چاندی، نکل، کانسی، تانبے وغیرہ کی کرنسی حکومت کو نوٹ چھاپنے کی ایک محدود حد تک کا پابند بنا دیتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی حکومت دھاتی کرنسی کو پسند نہیں کرتی۔
- academia and media hate gold... it limits the growth of government.[567]
- fiat کرنسی چاہے کاغذی ہو یا ڈیجیٹل، عوام کے لیے ہمیشہ نقصان دہ جبکہ حکومت اور سینٹرل بینک کے لیے فائیدہ مند ہوتی ہے۔
- فی ایٹ کرنسی کی وجہ سے ہمیشہ کرنسی کی قوت خرید گرتی ہے جس سے مہنگائی اور غربت جنم لیتی ہے۔ غربت سے جرائم بڑھتے ہیں۔ اگرچہ حکومت مہنگائی کا الزام منافع خور تاجروں پر ڈالتی ہے مگر مہنگائی کی اصل ذمہ دار خود حکومت ہوتی ہے۔
- price inflation and currency devaluation, it is ultimately the government’s fault.[568]
- The Fed's Fiat Money Is The Real Cause Of Price Inflation.[569]
- فی ایٹ کرنسی کی وجہ سے عوام اور حکومت دونوں پر قرضے بڑھتے ہیں۔ دنیا کے جس ملک میں بینکوں کی تعداد بڑھی وہاں قرضے بھی بڑھے۔
- Global debt has grown to $300 trillion, three times global GDP.[567]
- فی ایٹ کرنسی کی وجہ سے معیشت میں بڑے اتار چڑھاو آتے ہیں جو لوگوں کی دولت بینکوں اور اسٹاک مارکٹوں کو منتقل کرتے ہیں۔ (دیکھیے ادائیگی کا وعدہ)
- معیشت میں غلط سرمائیہ کاری (malinvestments) بڑھتی ہے جو عوام پر بوجھ بن جاتی ہے۔[567]
- فی ایٹ کرنسی کی وجہ سے جنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جنگ نوٹ چھپائی (تخلیق دولت) کا اچھا بہانہ ہوتی ہے۔[45][163]
- wars must be funded! ... If we truly desire peace and prosperity, we will wipe every trace of central banking and fiat money from the face of the earth. Fiat currencies always bring out the worst in government as it inflates us into war, economic ruin, and autocratic rule.[570]
- الیکشن کے بعد حکومت بدلتی ہے مگر نوٹ چھاپنے والے اصل بینکار (سینٹرل بینکرز) نہیں بدلتے۔[571] جس طرح کسی ملک میں دو بادشاہ نہیں ہو سکتے اسی طرح دنیا کے کسی بھی ملک میں دو سینٹرل بینک نہیں ہیں۔
- فی ایٹ کرنسی سے پوشیدہ ڈکٹیٹر (سینٹرل بینکرز) وجود میں آتے ہیں۔[572]
- امریکا کے ساتویں صدر اینڈریو جیکسن نے ایسی حکومت کو طوائف قرار دیا تھا جو نجی سینٹرل بینک کو نوٹ چھاپنے کی اجازت دے کیونکہ اس طرح لاکھوں لوگوں کا نقصان ہوتا ہے جبکہ اُن کی دولت چند سینٹرل بینکرز کو منتقل ہو جاتی ہے۔
- Andrew Jackson previously described the very notion of such a private central bank as the “prostitution of our government for the advancement of the few at the expense of the many.”[573]
امریکی ڈالر اور فیڈرل ریزرو
1694 سے پہلے انگلستان میں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنا (یعنی فریکشنل ریزرو بینکنگ) قانوناً جرم تھا۔ فرانس سے جنگ کی وجہ سے بادشاہ ولیم آف آرینج شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔ چند امیر سناروں نے بادشاہ کو 12 لاکھ پاونڈ کی خطیر رقم 8 فیصد سود پر اس شرط کے ساتھ قرض دینے کا وعدہ کیا کہ انھیں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ مالیت کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنے کا حق دیا جائے۔ اس طرح 1694 میں ولیم پیٹرسن کو بینک آف انگلینڈ بنانے کی اجازت ملی۔ یہ حکومت کی طرف سے جعلی نوٹ چھاپنے کا پہلا اجازت نامہ تھا۔ اسی طرز پہ مئی 1716میں فرانس میں جنرل بینک اور دسمبر 1913 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو (سینٹرل بینک) بنایا گیا۔
دنیا کے تقریباً ہر چھوٹے ملک میں وہاں کی کاغذی کرنسی وہیں کی حکومت جاری کرتی تھی تاکہ حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو مگر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کاغذی کرنسی یعنی امریکی ڈالر امریکی حکومت جاری نہیں کرتی بلکہ یہ ایک نجی ادارے کی طرف سے جاری ہوتا ہے۔ فیڈرل ریزرو کو عام طور پر حکومتی ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقتاً یہ ایک نجی ادارہ ہے جو ڈالر چھاپ کر حکومت امریکا کو نہ صرف قرض دیتا ہے بلکہ اس پر سود بھی وصول کرتا ہے۔[574] اپنی بے تحاشہ دولت کے باعث یہودیوں کا یہ ادارہ امریکی حکومت پر حکومت کرتا ہے۔[575][576][577] [578][579]
"there is no other agency of government which can overrule actions that we take" Alan Greenspan[580]
اس ادارے کے پس پردہ روتھشیلڈ خاندان کی دولت کا اندازہ پانچ ہزار ارب ڈالر ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین سمجھے جانے والے شخص بل گیٹس کی دولت صرف چالیس ارب ڈالر ہے۔[581]
اپنے نام فیڈرل ریزرو کے برعکس یہ ادارہ نہ تو فیڈرل ہے اور نہ ریزرو۔[582]
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ "میرے خیال میں بینکاری کے ادارے ہماری آزادی کے لیے زیادہ خطرناک ہیں بہ نسبت سر پہ کھڑی (دشمن کی) فوج کے"[584][585]
بینک آف انگلینڈ کے مالک ناتھن روتھشیلڈ کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی پروا نہیں کہ انگلستان کے تخت پر کون سا پُتلا بیٹھا سلطنت چلا رہا ہے۔....جو برطانیہ کی کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہی برطانوی سلطنت کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ کرنسی میں کنٹرول کرتا ہوں۔[586]
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کیسنگر کا کہنا تھا کہ جو خوراک کو کنٹرول کرتا ہے وہ لوگوں کو کنٹرول کرتا ہے، جو توانائی کو کنٹرول کرتا ہے وہ سارے براعظموں کو کنٹرول کرتا ہے اور جو کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ پوری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔[587]
صدر کینیڈی نے فیڈرل ریزرو کی اس اجارہ داری کو محسوس کر کے اس کے خلاف اقدام اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے 4 جون 1963 کو ایک فرمان[588] جاری کیا تھا جس کے مطابق امریکی حکومت اپنے پاس موجود چاندی کے عوض خود امریکی ڈالر چھاپہ کرے گی۔ امریکا کے ڈالر چھاپنے والے نجی ادارے کے کرتا دھرتاوں نے فوراً خطرہ بھانپ لیا اور 22 نومبر 1963 کو صدر کینڈی کو اس جسارت پر قتل کروا دیا گیا۔[589][590][591][592][593] [594]
قتل سے صرف چھ دن پہلے صدر کینیڈی نے محکمہ خزانہ کو امریکی ڈالر چھاپنے کاحکم دیا تھا۔[595] اس وقت پاکستانی نوٹوں کی طرح امریکی ڈالر پر بھی ادائیگی کا وعدہ لکھا ہوتا تھا۔[507] صدر کینیڈی کے قتل کے صرف چار دن بعد فیڈرل ریزرو نے جو نوٹ جاری کیے ان پر ایسا کوئی وعدہ نہ تھا۔ صدر کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کو جیک روبی نے سرعام قتل کر دیا اور بعد میں خود جیل میں بیمار ہو کر مرگیا۔( یا شائید زہر دے دیا گیا)
صدر کینیڈی کا وہ فرمان 9 ستمبر 1987 تک قانون کا حصہ رہا مگر اس پر عمل نہ ہوا۔ اس کے بعد صدر رونالڈ ریگن نے اسے منسوخ کر دیا۔ صدر کینیڈی کے قتل سے لگ بھگ سو سال پہلے مقبول امریکی صدر ابراہم لنکن کو 14 اپریل 1865 کو بھی اسی وجہ سے گولی مار دی گئی تھی کہ اس نے کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار نجی بینکوں سے لے کر حکومت کے محکمہ خزانہ کو دے دیا تھا۔[596]
ماضی میں لوگ کاغذی کرنسی کو کئی بار ڈوبتا دیکھ چکے تھے اور اس پر اتنا اعتبار نہیں کرتے تھے۔[597] لوگوں کو کاغذی کرنسی کی طرف راغب کرنے کے لیے با قاعدہ قوانین بنائے گئے جن کے مطابق کاغذی نوٹ وصول کرنے سے انکار کرنا یعنی دھاتی سکے طلب کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔[598] لگ بھگ ساڑھے سات سو سال قبل قبلائی خان نے بھی چین میں اپنی کاغذی کرنسی نافذ کرنے کے لیے ایسا ہی قانون بنایا تھا کہ جو کوئی بھی اس کے ملک میں یہ کرنسی قبول کرنے سے انکار کرے گا اسے قتل کر دیا جائے گا۔[110] امریکا کے اس متنازع قانون کو آٹھ سال بعد ہی 1870 میں چیف جسٹس سالمن چیز نے امریکی آئین کے خلاف قرار دیا۔ امریکی صدر الیسیز گرانٹ نے اسی دن دو نئے جج بھرتی کیے جنھوں نے مخالفت میں ووٹ دے کر چیف جسٹس کے فیصلے کو پلٹ دیا۔[599]
1930 میں امریکی معیشت سخت کساد بازاری کا شکار تھی۔ فیڈرل ریزرو نے کرنسی کی فراہمی بڑھانے کی بجائے کم کر دی تھی۔ ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے بینکوں سے کاغذی کرنسی کے بدلے اپنا سونا چاندی واپس لینے کا رجحان آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ امریکی صدر روزویلٹ، جو ایک بینکار خاندان سے تعلق رکھتا تھا، نے 4 مارچ 1933 کو امریکا میں اپنی صدارت کا آغاز کیا اور دوسرے ہی دن سے 9 دنوں کے لیے بینک کی تعطیلات کا اعلان کیا تا کہ لوگ فیڈرل ریزرو سے اپنا سونا نہ نکلوا سکیں۔ صدر روزویلٹ سونے کی قیمت بڑھانا چاہتا تھا لیکن اس طرح سارا منافع عوام کی جیب میں چلا جاتا اور حکومت کو کچھ نہ ملتا۔[600] اس لیے 5 اپریل 1933 کو، یعنی صرف ایک مہینے بعد روزویلٹ نے امریکی آئین کے خلاف[601] ایک صدارتی فرمان[602]
جاری کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کو 100 ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا رکھنے پر پابندی عائید ہو گئی اور وہ اپنا زائد سونا فیڈرل ریزرو (جو ایک پرائیوٹ ادارہ ہے) کو ایک مہینے کے اندر اندر بحساب 20.67 کاغذی ڈالر فی ٹرائے اونس بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ صدر روزویلٹ کا یہ قانون امریکی آئین کی کُھلی خلاف ورزی تھا۔[603] لیکن روزویلٹ کے اس قانون کی خلاف ورزی کی سزا دس ہزار ڈالر جرمانہ یا / اور دس سال قید مقرر کی گئی۔ لگ بھگ ساڑھے سات سو سال قبل قبلائی خان نے چین میں اور دو سو سال قبل جوہن لا نے فرانس میں[604] بھی ایسے ہی قوانین بناے تھے۔ اس زمانے کے دس ہزار ڈالر مئی ء2011 کے حساب سے سوا سات لاکھ ڈالر کے برابر تھے (بلحاظ سونے کی قیمت)۔ اس زمانے میں امریکا میں سونے کے سکّے چلتے تھے جنہیں لوگوں سے لے کر فیڈرل ریزرو نے کاغذ کے نوٹ تھما دیے۔ جب لوگوں کا سونا ہتھیا لیا گیا تو اگلے سال سونے کی سرکاری قیمت 20.67 سے بڑھا کر 35 ڈالر فی اونس کر دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح 8000 ٹن سونا لوگوں سے چھن گیا[605]۔
اس کے چند دن بعد 23 مئی 1933 کو کانگرس کے ایک رکن مک فیڈن نے فیڈرل ریزرو اور محکمہ خزانہ کے کئی اعلیٰ عہدے داران کے خلاف اربوں ڈالر کے غبن کے الزامات عائد کیے لیکن معاملہ دبا دیا گیا اور ان الزامات کا آج تک جواب نہیں دیا گیا ہے۔[595]
میک فیڈن پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر وہ بچ نکلا۔ 1936ء میں وہ پراسرار موت مارا گیا۔
سونے کی کرنسی ختم کر کے اور کاغذی کرنسی نافذ کر کے فرینکلن ڈی روزویلٹ اتنا طاقتور ہو گیا کہ وہ امریکا کی تاریخ کا وہ واحد صدر بن گیا جو مسلسل چار بار عہدہ صدارت پر برقرار رہا اور مرتے دم تک صدر تھا۔ دوسری جنگ عظیم اسی کی نگرانی میں ہوئی۔ اس کی موت کے بعد فوراً امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم کی گئی کہ کوئی شخص عہدہ صدارت پر تیسری دفعہ نہیں آ سکتا۔[606]
8 نومبر 2002 کو فیڈرل ریزرو کے گورنر بن برنانکے نے جامعہ شکاگو میں ایک تقریر کے دوران یہ تسلیم کیا کہ 1930 کے کساد عظیم کی اصل وجہ فیڈرل ریزرو تھا۔[607]
31 دسمبر 1974 کو امریکیوں کو سونا رکھنے کی اجازت دوبارہ دے دی گئی۔[608] اس کے ساتھ ہی کومکس (Comex) میں کاغذی سونے (گولڈ فیوچر) کے کاروبار کا آغاز ہوا۔[609] سونے کی قیمت گرانے کے میکینزم میں کاغذی سونے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔[610]
فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی پچھلے کئی سال سے کوئی قابل اعتبار جانچ پڑتال نہیں ہوئی ہے۔[611][612][613] اس میں سے 7,715 ٹن فورٹ ناکس میں رکھا ہوا ہے اور 418 ٹن نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں موجود ہے۔[614]
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سونے کے مالکان کون کون ہیں۔[615] کہا جاتا ہے کہ فیڈرل ریزرو میں موجود 5890 ٹن سونے میں سے 93 فیصد سونا غیر ملکیوں کا ہے۔ اسی طرح بینک آف انگلینڈ کے 5130 ٹن سونے کا صرف 6 فیصد برطانوی حکومت کی ملکیت ہے۔[616] جرمنی کا 1500 ٹن سونا فیڈرل ریزرو کے پاس بطور امانت رکھا ہوا ہے جسے اب فیڈرل ریزرو واپس کرنے پر آمادہ نہیں۔[617]
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کا بھی کم از کم 600 ٹن سونا فیڈرل ریزرو کے پاس محفوظ ہے۔[446] خیال رہے کہ نیویارک کا فیڈرل ریزرو بڑی مقدار میں سونا رکھوانے والوں سے کوئی فیس نہیں لیتا لیکن بعد میں انھیں اپنے سونے کی پڑتال کی اجازت بھی نہیں دیتا۔[618]
اسی طرح جب 2018ء میں وینیزویلا نے بینک آف انگلینڈ سے اپنا 14 ٹن سونا واپس طلب کیا تو بینک نے انکار کر دیا۔[619]
1981ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ایک گولڈ کمیشن تشکیل دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ امریکی حکومت کے پاس کتنا سونا موجود ہے۔ اس کمیشن نے تحقیقات کر کے بتایا کہ امریکی حکومت کے پاس کوئی سونا نہیں ہے۔ فورٹ نوکس میں محفوظ سونا تو فیڈرل ریزرو کے پاس رہن رکھا گیا ہے جو قرضہ واپس کرنے پر ہی ملے گا۔ [620]
شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کے پاس اب اتنا سونا نہیں بچا ہے جتنا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔[621][622][623][624]
فیڈرل ریزرو پہلے تو ہر سال ایسے اعداد و شمار جاری کرتا تھا جس سے پتہ چل سکے کہ اس نے کتنے ڈالر چھاپے ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار کبھی شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہے لیکن اب اس ادارے نے اعداد و شمار جاری کرنے سے ہی صاف انکار کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری مرضی ہم جتنے چاہیں ڈالر چھاپیں۔ تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟[625] شائید اسی وجہ سے اب تک کرنسی نوٹوں پر بار کوڈ (Barcode) نہیں ڈالا گیا۔
2007 کے بعد جب فیڈرل ریزرو کے اکاونٹ سے 9000 ارب ڈالر غائب ہوئے تو امریکی حکومت کوئی تفتیش نہیں کر سکی۔[626]
سنہ | جاری شدہ امریکی ڈالر M3 ارب ڈالر میں |
امریکی حکومت پر قرضہ ارب ڈالر میں[627] |
---|---|---|
1960 | 315.2 | 290.2 |
1970 | 677.1 | 389.2 |
1980 | 1995.5 | 930.2 |
1990 | 4154.6 | 3233.3 |
2000 | 7,117.7 | 5,674.2 |
2005 | 10٫191.4 | 8٫170.4 |
2007 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 10٫245.2 |
2010 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 14٫025 |
16 نومبر2011 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 15٫000 |
17 اکتوبر 2013 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 17٫040 |
3 فروری2016 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 19٫000 |
13 ستمبر 2017 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 20٫166 |
20 مارچ 2018 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 21٫036 |
12 فروری 2019 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 22,000 |
یکم نومبر 2019 | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 23,000 |
5 ستمبر 2020ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 26,700 |
10 نومبر 2021ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 28,955 |
یکم فروری 2022ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 30,000 |
پانچ اکتوبر 2022ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 31,000 |
ستمبر 2023ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 33,000 |
2جنوری 2024ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 34,000 |
29 جولائی 2024ء | اعداد جاری نہیں کیے گئے | 35,000[628] |
ستمبر 2017ء تک پچھلے 88 سالوں میں امریکی حکومت پر قرضوں میں 1200 گنا اضافہ ہوا۔ ستمبر 2023ء تک صرف تین مہینوں میں قرضے 32000 ارب ڈالر سے بڑھ کر 33000 ارب ڈالر ہو گئے۔[629]
جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اس وقت تک کسی ایک کی بچت کسی دوسرے کا قرض بنتی تھی۔ قابل تخلیق کرنسی نے ہزاروں سال پرانا یہ اصول توڑ دیا ہے۔ اب فریکشنل ریزرو بینکنگ کی مدد سے بینک کرنسی تخلیق کر کے قرضے جاری کرتے ہیں۔
- "جتنا امریکا قرض لیتا ہے اتنی بچت تو پوری دنیا میں نہیں ہوتی"
- U.S. Borrowing Faster Than the World Saves[630]
فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی کل مالیت 291.3 ارب ڈالر ہے (30 ستمبر 2015 کی قیمت) جبکہ صرف چین کے عوام کے پاس 1850 ارب ڈالر کے مساوی رقم بینکوں کے سیونگ اکاونٹ میں جمع ہو چکی ہے۔[631] کاغذی کرنسی کی گرتی ہوئی قوت خرید اور بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی وجہ سے اگر چینی عوام اپنی بچت کا صرف پانچواں حصہ سونے کی شکل میں محفوظ کرنے کا فیصلہ کریں تو امریکا اور برطانیہ کے سینٹرل بینک بالکل کنگال ہو جائیں گے۔
امریکی حکومت نے 8 جنوری 1835ء میں اپنے اوپر واجب الادا سارا قرضہ اتار کر حساب بے باق کر دیا تھا۔ لیکن اگلے 174 سالوں میں یعنی 2009ء تک امریکی حکومت پر 11000 ارب ڈالر کا قرض دوبارہ چڑھ چکا تھا۔ اور اس کے بعد صرف دس سالوں میں یہ قرض دو گنا ہو کر 22000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا[632] (یعنی ہر امریکی شہری پر 67,000 ڈالر کا قرض) جو عوام اور ان کے بچوں نے ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا ہے۔ جب کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوتی ہے تو بینکوں کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ حکومت اور عوام پر اتنا قرضہ چڑھا سکیں لیکن قابل تخلیق کرنسی نے حکومت اور عوام دونوں کو سینٹرل بینک کے مالکان کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا ہے۔ اگر اندرونی قرضے (جیسے میڈیک ایڈ، میڈیکیئر، سوشل سیکیورٹی) بھی شامل کر کے حساب لگایا جائے تو قرض کی یہ رقم 212٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتی ہے۔[633][634]
[635]
صاف ظاہر ہے کہ امریکی حکومت کبھی یہ قرض ادا نہیں کر سکتی (قرض کبھی مزید قرض سے ادا نہیں ہوتا[636]
[637]
[638])۔ اور نہ فیڈرل ریزرو کبھی اتنی رقم کا مالک رہا تھا جو اس نے قرض دی ہے۔ فیڈرل ریزرو نے تو یہ ساری رقم چھاپ کر قرض دی ہے۔[572]
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیڈرل ریزرو یہ ساری رقم چھاپ سکتا ہے تو امریکی حکومت خود کیوں نہیں چھاپ لیتی؟ اگر حکومت خود چھاپے تو نہ قرض ادا کرنا پڑے گا نہ سود دینا پڑے گا۔ اس کی وجہ سو سال پرانا اور دھوکے سے بنایا گیا ایک غلط قانون ہے جس کے مطابق صرف فیڈرل ریزرو کو کرنسی چھاپنے کا اختیار دیا گیا ہے(دیکھیے جزیرہ جیکل کا عفریت) اور جو کوئی بھی اس قانون کی منسوخی کی بات کرتا ہے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کالے قوانین برطانیہ فرانس اور اٹلی میں بھی پہلے ہی سے موجود ہیں جو صرف پرائیوٹ سینٹرل بینکوں کو نوٹ چھاپنے کا حق دیتے ہیں۔ کیپیٹل ازم اور جمہوریت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔[639] کیمونسٹ حکومتیں پرائیوٹ سینٹرل بینک کو کرنسی چھاپنے نہیں دیتیں اور اپنی کرنسی خود چھاپتی ہیں۔
- متحدہ امریکا پر 2000 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھنے میں 210 سال لگے۔ اس کے بعد (13 جون 2020ء تک) صرف دو مہینے اور دو دنوں میں مزید 2000 ارب ڈالر قرض لیے گئے (اور کل قرضہ 26,000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا)۔ (اگر 2000 ارب ڈالر پوری دنیا کی آبادی میں تقسیم کیے جائیں تو بچے بوڑھے سمیت ہر مرد عورت کے حصے میں 30،000 پاکستانی روپے آئیں گے۔ ریزرو کرنسی کا درجہ رکھنے کی وجہ سے جتنے ڈالر امریکا چھاپتا ہے اُتنی دولت دنیا بھر سے امریکا منتقل ہوتی ہے۔)[640]
- Peter Schiff tweeted: It took the nation 210 years to run the National Debt up to $2 trillion. It took exactly 2 months and 2 days to add the most recent $2 trillion.[641]
امریکی حکومت نے 2013ء میں اپنے اس سارے قرضوں پر 2.4 فیصد سود ادا کیا ہے یعنی 416 ارب ڈالر عوام سے بطور اضافی ٹیکس وصول کر کے فیڈرل ریزرو کے مالکان کو بطور ذاتی منافع ادا کیا ہے جبکہ اسی سال ڈیفنس کا بجٹ 640 ارب ڈالر تھا۔[642] یعنی اگر یہ صرف نوٹ چھاپنے کا معاوضہ ہے تو پھر یہ کروڑوں گنا زیادہ ہے۔ خیال رہے کہ 416 ارب ڈالر کی رقم پاکستان کے 2012–2013 کے بجٹ کا 6 گنا ہے۔[643] اس طرح عوام کی دولت کو امیر بینکاروں تک منتقل کرنے میں جمہوری حکومت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر سینٹرل بینک سرکاری ملکیت میں ہوں تو عوام اس اضافی ٹیکس سے با آسانی بچ سکتے ہیں۔
It is a conspiracy between the U.S. Treasury and the Federal Reserve to defraud the general public.[644]
فیڈرل ریزرو کا کہنا ہے کہ اب اس کے پاس جمع شدہ سونے کی مالیت کے اعتبار سے ڈالر چھاپنے کی ضرورت نہیں رہی ہے بلکہ وہ اقتصادی سرگرمی کے لحاظ سے ڈالر چھاپ رہا ہے۔
ڈالر چھاپ چھاپ کر ہوتی یہ عیاشی دیکھ کر یورپ والوں کو بھی مزے لوٹنے کا خیال آیا۔[389] چونکہ یورپ کا کوئی ملک اتنا مضبوط نہیں تھا کہ اکیلا امریکی ڈالر کا مقابلہ کر سکے اس لیے انھوں نے مل کر یورو جاری کیا جس کے بعد ڈالر کی اجارہ داری میں قدرے زوال آیا۔ یورو کو اصل سہارا جرمنی کے مضبوط مارک سے ملا ہے۔ یورپ کے صرف دو ممالک (ناروے اور برطانیہ) خاطر خواہ مقدار میں خام تیل کی پیداوار رکھتے ہیں اور ان دونوں ممالک نے یورو کرنسی نہیں اپنائی۔
'95 | '96 | '97 | '98 | '99 | '00 | '01 | '02 | '03 | '04 | '05 | '06 | '07 | '08 | '09 | |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
امریکی ڈالر | 59.0% | 62.1% | 65.2% | 69.3% | 70.9% | 70.5% | 70.7% | 66.5% | 65.8% | 65.9% | 66.4% | 65.7% | 64.1% | 64.1% | 61.5% |
یورو | 17.9% | 18.8% | 19.8% | 24.2% | 25.3% | 24.9% | 24.3% | 25.2% | 26.3% | 26.4% | 28.1% | ||||
برطانوی پاونڈ | 2.1% | 2.7% | 2.6% | 2.7% | 2.9% | 2.8% | 2.7% | 2.9% | 2.6% | 3.3% | 3.6% | 4.2% | 4.7% | 4.0% | 4.2% |
جاپانی ین | 6.8% | 6.7% | 5.8% | 6.2% | 6.4% | 6.3% | 5.2% | 4.5% | 4.1% | 3.9% | 3.7% | 3.2% | 2.9% | 3.1% | 3.0% |
جرمن مارک | 15.8% | 14.7% | 14.5% | 13.8% | |||||||||||
فرانسیسی فرانک | 2.4% | 1.8% | 1.4% | 1.6% | |||||||||||
سویس فرانک | 0.3% | 0.2% | 0.4% | 0.3% | 0.2% | 0.3% | 0.3% | 0.4% | 0.2% | 0.2% | 0.1% | 0.2% | 0.2% | 0.1% | 0.1% |
دیگر | 13.6% | 11.7% | 10.2% | 6.1% | 1.6% | 1.4% | 1.2% | 1.4% | 1.9% | 1.8% | 1.9% | 1.5% | 1.8% | 2.2% | 3.1% |
Sources: 1995-1999, 2006-2008 IMF: Currency Composition of Official Foreign Exchange Reserves Sources: 1999-2005 ECB: The Accumulation of Foreign Reserves |
مقداری تسہیل (Quantitative Easing)
2007 سے شروع ہونے والے زبردست مالی بحران[646] نے امریکا اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان ممالک کی معیشتوں کے بالکل بیٹھ جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔[647] ڈر اس بات کا بھی ہے کہ لوگوں کا کاغذی کرنسی سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے جیسا کہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ ستمبر 2008 کے وسط میں امریکا کے 13 بڑے مالیاتی اداروں میں سے 12ادارے صرف دو ہفتوں میں ڈوبنے کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔[648] حالانکہ صرف ایک سال پہلے فیڈرل ریزرو کے گورنر بن برنانکے نے بیان دیا تھا کہ رہن اور قرض کی کنگالی (mortgage defaults) سے امریکی معیشت کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔[649] اس بدترین بحران کے بعد امریکا میں فیڈرل ریزرو، انگلستان میں بینک آف انگلینڈ، یورپ میں یورپی مرکزی بینک، جاپان میں بینک آف جاپان اور چین میں پیپلز بینک آف چائنا [650] نے کاغذی کرنسی بڑی مقدار میں چھاپ کر قرض دینا اور دوسرے بینکوں سے مال خریدنا شروع کر دیا ہے تا کہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور معیشت رواں رہے۔[651] اس حکمت عملی کو نوٹ چھپائی کی بجائے "مقداری تسہیل" (QE) [652][653] قرار دیا گیا ہے۔[654][655] زیر گردش نوٹوں کی تعداد (لیکویڈیٹی liquidity) میں اضافہ مالیاتی منڈیوں کے لیے shock absorber کا کام کرتا ہے لیکن حقیقی منڈیوں کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔[656] مقداری تسہیل دراصل منفی شرح سود کا متبادل ہوتی ہے۔
- When accounting for quantitative easing, the"shadow" Fed Fund rate was actually negative from 2009 to 2015[657]
"جب حکومتی قرضے اور ڈالر دونوں ڈوبنے لگیں تو وہ واحد چیز جو شیئر مارکیٹ کو بچا سکتی ہے وہ مقداری تسہیل ہے"
- [658] When Bonds & The Dollar Sink, The Only Thing That Can Save Stocks Is QE
مقداری تسہیل (حالیہ نوٹ چھپائی)[659][660] | |||
---|---|---|---|
ملک | کب شروع ہوئی | کب ختم ہوئی[661] | امریکا میں کتنے ڈالر چھپے |
جاپان | 2001ء | ابھی جاری ہے | |
متحدہ امریکا (پہلی) | 26 نومبر 2008ء | 31 مارچ 2010ء | 201 ارب ڈالر |
متحدہ امریکا (دوسری) | 3 نومبر 2010ء | 29 جون 2011ء | 565 ارب ڈالر |
متحدہ امریکا (Operation Twist) | 21 ستمبر 2011ء | 20 جون 2012ء | 13 ارب ڈالر |
متحدہ امریکا (تیسری) | 12 ستمبر 2012ء | 29 اکتوبر 2014ء | 1663 ارب ڈالر |
یورپی سینٹرل بینک | 2015ء | ابھی جاری ہے | |
متحدہ امریکا ('Not QE') | ستمبر 2019ء | اگلی QE میں ڈھل گئی | |
متحدہ امریکا (چوتھی) | 11 مارچ 2020ء[662] جب اسٹاک مارکیٹ 40 فیصد ڈوب گئی |
27 مئی 2020ء | 2785 ارب ڈالر |
امریکا میں پہلی مقداری تسہیل نومبر 2008ء سے مارچ 2010ء تک جاری رہی۔ دوسری مقداری تسہیل نومبر 2010 سے جون 2011 تک جاری رہی۔ تیسری مقداری تسہیل 12 ستمبر 2012 سے شروع کی گئی ہے جس میں شروع میں ہر ماہ 40 ارب ڈالر چھاپے گئے لیکن دسمبر 2012ء سے[663] ہر ماہ 85 ارب ڈالر چھاپے جانے لگے۔[664] یعنی ہر گھنٹے میں ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر۔ یہ مقدار دنیا بھر میں ہر گھنٹے میں بازیاب ہونے والے سونے کی مالیت سے دس گنا زیادہ ہے۔ دنیا کی دوسری کاغذی کرنسیاں اس کے علاوہ ہیں۔ دسمبر 2008 سے دسمبر 2013 تک کے پانچ سالوں میں دنیا بھر میں کاغذی کرنسی میں ہونے والا اضافہ 35 فیصد سے زیادہ ہے۔[665] امریکا میں تیسری مقداری تسہیل 29 اکتوبر 2014 تک جاری رہی ۔
یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی ذخائر کی شرح سود (Federal Fund Rate) میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو ٹیلر کے اصول کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں5000 ارب ڈالر اس عرصہ میں مقداری تسہیل کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے[666]۔ 85 ارب ڈالر ماہانہ کی رقم سے دو کروڑ لوگوں کو سالانہ 50٫000 ڈالرتنخواہ دے کر کوئی ملازمت دی جا سکتی ہے اور بے روزگاری بڑی آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے مگر امریکا میں بے روزگاری میں پھر بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رقم سے امریکا کا ہر طالب علم چار سال یونیورسٹی میں پڑھ سکتا ہے یا دنیا سے بھوک 30 دفعہ ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ساری رقم عوام تک نہیں پہنچ رہی بلکہ بینکاروں کو مزید امیر بنا رہی ہے۔[667][668] مرکزی بینکوں کا تخلیق کردہ یہ سرمائیہ صرف اسٹاک مارکیٹ میں تیزی لا رہا ہے۔[669]
- "Central banks are ruling markets to a degree this generation has not seen."[670]
قانون کے مطابق متحدہ امریکا میں کسی کمپنی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی جاری کردہ شیئر (اسٹاک) خود ہی خرید لے کیونکہ اس طرح وہ اپنے شیئر کی قیمت بڑھا سکتی ہے۔ لیکن 1982ء میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔ 2008ء کے مالی بحران (کساد بازاری) کے بعد امریکا کی کمپنیوں نے دس سال میں 5000 ارب ڈالر سے خود اپنے شیئر خریدے اور بظاہر اسٹاک مارکیٹ کو مندی سے بچایا۔ [671][672]
[673]
نوٹ چھاپ کر سرمائیہ معیشت کو مہیا کرنے کی بجائے مالیاتی منڈیوں کو مہیا کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے گاڑی چلانے کے لیے پٹرول ٹینکی کی بجائے ریڈی ایٹر میں ڈالا جائے۔[674]
- "بینک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کھاتے داروں کی جمع کرائی ہوئی رقم سے قرضے جاری کرتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ 90 فیصد قرض دی جانے والی رقم صرف کھاتہ کرنسی سے تخلیق ہوتی ہے۔"
- "today about 90% of all the money is accounting money, created by loans the banks make to enterprises and private citizens. Pretending that banks use deposits to make loans, is not true.” [675]
اگر جی ڈی پی کی بجائے وصول ہونے والے ٹیکس سے موازنہ کیا جائے تو جاپان کے قرضے جی ڈی پی کا 9 گنا،یونان کے 5 گنا اور امریکا کے 4 گنا ہو چکے ہیں۔[676]
- "Centrals banks have become the world’s largest investors, mostly with printed money. This is inflating global asset prices at an unprecedent rate. Negative bond yields are just one consequence of this financial distortion."[677]
- “Dark Money” Runs the World[678]
منطقی بات یہ ہے کہ اگر زبوں حال معیشت کے لیے مقداری تسہیل اتنی ہی کارآمد چیز ہے تو اسے مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں اپنا لیا جاتا؟ صرف برے وقت میں ہی کیوں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ مقداری تسہیل سے ملنے والا سہارا عارضی ہوتا ہے اور بعد میں اس کی قیمت زبردست افراط زر ( مہنگائ ) کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔[679][680]
مقداری تسہیل سے اسٹیگفلیشن آتا ہے۔
- QE is a stagflation machine[681]
مقداری تسہیل (QE) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چور دروازے سے وال اسٹریٹ کو دولت منتقل کرنے کی سب سے بڑی اسکیم ہے۔
- the greatest backdoor Wall Street bailout of all time.”[682]
- تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک نے بجٹ کا بڑا خسارہ نوٹ چھاپ کر پورا کیا اور پھر مہنگائی سے بچ سکا۔
- Never in history has a country that financed big budget deficits with large amounts of central-bank money avoided inflation. Allen Meltzer, May of 2014[683]
جنوری 2023ء تک امریکی قرضوں (Treasury securities) کے غیر ملکی بڑے خریدار۔[684] | |||
---|---|---|---|
خریدار ملک یا علاقے کا نام | قرضہ (ارب ڈالر) (تخمیناً) |
ایک سال میں ہونے والی فیصد تبدیلی |
فی کس امریکی قرضہ (امریکی ڈالر) |
جاپان | 1,104.4 |
−15% |
8,871
|
چین | 859.4 |
−17% |
609
|
مملکت متحدہ | 668.3 |
+ 9% |
9,971
|
بلجئیم | 331.1 |
+36% |
28,225
|
لکسمبرگ | 318.2 |
+ 2% |
493,030
|
سوئٹزرلینڈ | 290.5 |
− 2% |
33,050
|
جزائر کیمین | 285.3 |
+ 5% |
4,012,376
|
کینیڈا | 254.1 |
+17% |
6,394
|
جمہوریہ آئرلینڈ | 253.4 |
−18% |
49,458
|
تائیوان | 234.6 |
− 5% |
10,063
|
بھارت | 232.0 |
+17% |
167
|
ہانگ کانگ | 226.8 |
+ 1% |
30,636
|
برازیل | 214.0 |
− 9% |
991
|
سنگاپور | 187.6 |
− 2% |
34,399
|
فرانس | 183.9 |
−21% |
2,703
|
دیگر ممالک | 1,758.9 |
+ 2% |
|
کل امریکی بیرونی قرضے | 7,402.5 |
− 3%
| |
بڑے ممالک امریکی قرضوں سے جان چھڑا رہے ہیں۔ فی کس امریکی قرضہ بھارت پر بہت کم جبکہ جزائر کیمین پر انتہائی زیادہ ہے۔ 2015ء سے امریکی قرضے امریکی آمدنی سے بڑھ چکے ہیں۔[685] |
نجی شعبے کے قرض نہ لینے کے باوجود امریکا قانونی ضرورت سے 15 گنا زیادہ اور جاپان 26 گنا زیادہ ریزرو بنا چکا ہے۔ [686] سوئزرلینڈ کا مرکزی بینک SNB ایک نجی ادارہ ہے اور اس کی بیلینس شیٹ جو 2008ء میں لگ بھگ 100 ارب فرانک تھی وہ 2017ء میں 800 ارب فرانک ہو چکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ بینک دنیا کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی ہے اور ایپل کمپنی کے 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کے شیئرز کی مالک ہے[687] سنہ 2008ء میں دنیا کے 6 بڑے مرکزی بینکوں کی آمدنی عالمی جی ڈی پی کا 17 فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ 40 فیصد ہو چکی ہے۔[688] دنیا کے بڑے بڑے مرکزی بینکوں کے مالکان حکومتوں کی مدد سے عوام کو نچوڑ رہے ہیں۔[534][689][690]
- "یہ جاپان یورپ اور برطانیہ کے سینٹرل بینکوں پر امریکی بالا دستی ہے جس نے امریکی پونزی اسکیم کو سہار رکھا ہے۔ جس دن کوئی سینٹرل بینک ڈالر کو سہارا دینا بند کر دے گا اس دن سارا پول کھل جائے گا"
"It is Washington’s hegemony over Japan, Europe, and the UK that protects the American Ponzi scheme. The moment one of these central banks ceases to support the dollar, the others would follow, and the Ponzi scheme would unravel."[691]
نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر معاشیات ملٹن فریڈمین کا کہنا تھا کہ آج کا ناقابل حل معاشی مسئلہ یہ ہے کہ فیڈرل ریزرو سے کیسے جان چھڑائی جائے۔
ایک بہت بڑے بینکار کا کہنا ہے کہ مقداری تسہیل صرف اس وقت کارآمد ہو سکتی ہے جب دنیا کا صرف ایک ملک اسے اپنائے۔ لیکن جب بہت سارے ممالک مقداری تسہیل شروع کر دیں تو اسے کرنسیوں کی جنگ یا beggar thy neighbor پالیسی کہا جاتا ہے۔
- "quantitative easing only works when you're the only country doing it."
مقداری تسہیل کے موجد پروفیسر رچرڈ ورنر کا بیان ہے کہ سینٹرل بینک جان بوجھ کر اپنے ملک میں غربت بڑھاتے ہیں تاکہ اُن قانونی اور معاشی تبدیلیوں کا جواز بن سکے جو غیر ملکیوں کو ملک لوٹنے دیں۔
- "central banks intentionally impoverish their host countries to justify economic and legal changes which allow looting by foreign interests."[692]
- "نتیجہ:سینٹرل بینکنگ کا میکینزم قصداً بربادی ہے۔ اور اس بربادی کا انجام عالمی حکمرانی ہے۔ فی الحال اس مقصد کو تدریسی لبادے میں چھپایا گیا ہے۔ لیکن طویل مدتی منصوبہ جو اب تیزی سے واضح ہو رہا ہے وہ ظالمانہ طریقے سے سات ارب لوگوں کی زندگی کو نچوڑ کر اعلیٰ طبقے کے مٹھی بھر لوگوں کو فائیدہ پہنچانا ہے۔"
- "Conclusion: The mechanism of central banking is purposeful ruin. The end-result of this ruin is global governance. In the short-term this goal is disguised by an academic patina. But the long-term goal, an increasingly apparent one, is a brutal restructuring of the lives of seven billion people to benefit a handful of elite controllers."[693]
- "نوٹ چھاپنا دراصل جعلسازی ہے اوراس کا شکار بننے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ مزید امیر ہو رہے ہیں۔"
- In fact, counterfeiting can create in its very victims the blissful illusion of unparalleled prosperity...Counterfeiting is evidently but another name for inflation...Inflation, therefore, lowers the general standard of living in the very course of creating a tinsel atmosphere of "prosperity."[335]
- "ہر بحران کی وجہ کرنسی کی بے لاگ تخلیق ہوتی ہے۔"
- The artificial creation of money without any support is always behind every crisis.[694]
جب کوئی شخص نوٹ چھاپتا ہے تو اسے جعلسازی کہا جاتا ہے۔ مگر جب سینٹرل بینک نوٹ چھاپتا ہے تواسے دولت کی توسیع (monetary expansion) کہا جاتا ہے جو درحقیقت ایک مخفی ٹیکس ہے۔
- "تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک کی معیشت اس لیے فیل ہوئی کیونکہ اس کی کرنسی بہت مضبوط تھی۔ یہ تصور کہ کرنسی کمزور ہونی چاہیے بالکل نامعقول ہے۔ یہ تصور صرف وہ لوگ بنا سکتے ہیں جو منصوبہ بندی کے تحت زوال کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔"
- “Never in the course of history has a country’s economy failed because its currency was too strong…The view that a weak currency is desirable is so absurd that it could only have been devised to serve the political agenda of those engineering the descent.[695]
- "لوگوں کا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ قرضہ دولت نہیں ہوتا اور کاغذ کرنسی نہیں ہوتا"
- It will be necessary that the people learn, or relearn, that debt is not wealth, paper is not money....The ability of the special interests to influence legislation to benefit from the distribution of newly created money, is legendary. [311]
- کاغذ کرنسی نہیں ہوتا، یہ فراڈ ہے۔
- "“Paper is not money, it’s fraud"..
... The Federal Reserve is the engine that drives the most powerful government in the history of the world."[696]
- قرض دینے کا بنیادی راز یہ ہے کہ قرضہ اس طرح دیا جائے کہ وہ اس وقت تک ادا نہ کیا جا سکے جب تک کہ نیا قرض نہ لیا جائے۔
- The true secret of money-lending is to lend in such a way that the debt can never be repaid except by contracting a new debt. That can only be accomplished if the price-level remains free to rise or fall as we may determine.[74]
فروری 2020ء کے اختتام پر دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں ڈوبنا شروع ہو گئیں۔ اگرچہ الزام کورونا وائرس پر لگایا گیا لیکن اس کی وجہ مالیاتی نظام کی بنیادی کمزوری تھی۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے فیڈرل ریزرو نے صرف ایک مہینے میں 2000 ارب ڈالر سے زیادہ رقم تخلیق کری۔ یہ رفتار سابقہ تین QE میں تخلیق کی جانے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ فیڈرل ریزرو کی بیلنس شیٹ اب 6100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔[697]
سینٹرل بینک | ملکی جی ڈی پی سے تناسب |
---|---|
یورپی سینٹرل بینک | جی ڈی پی کا 52 فیصد |
امریکی فیڈرل ریزرو | جی ڈی پی کا 32.6 فیصد |
بینک آف انگلینڈ | جی ڈی پی کا 31.1 فیصد |
سینٹرل بینک آف جاپان | جی ڈی پی کا 117 فیصد |
غیر مُنصفانہ تقسیم
رکارڈ کینٹیلون (Richard Cantillon) وہ پہلا آدمی تھا جس نے 300 سال پہلے لکھا کہ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے دولت تخلیق نہیں ہوتی۔ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے کسی کی دولت کرنسی اور شیئر کے تخلیق کنندہ کو منتقل ہوتی ہے۔[699] وہ لکھتا ہے کہ جب کاغذی کرنسی چھپتی ہے تو وہ لوگ زیادہ فائیدے میں رہتے ہیں جنہیں یہ کرنسی پہلے دستیاب ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ نقصان میں رہتے ہیں جن تک یہ کرنسی دیر سے پہنچتی ہے۔ اس طرح غریب کی دولت امیر بینکاروں کو منتقل ہوتی ہے۔[700][701] [702]
- Unjust redistribution (Cantillon effect): the effect describes the fact that newly created money is neither uniformly nor simultaneously distributed in the population. Monetary expansion is therefore never neutral. There is a permanent transfer of wealth from later to earlier receivers of new money.[703][704]
فیڈرل ریزرو کے سابقہ گورنر بن برنانکے نے اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ افراط زر سے غریب کی دولت منتقل ہوتی ہے۔
- Ben Bernanke warned of this when he wrote that inflation “induces redistribution of wealth” to the detriment of “less sophisticated investors” (Inflation Targeting, p.17)۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیادی وجہ اسٹاک (شیئرز) کی قیمتوں کا بڑھنا ہے جو مونیٹری پالیسی کا نتیجہ ہے۔[705]
- rising equity prices have been a key driver of inequality... this suggests that monetary policy may have added to inequality to the extent that it has boosted equity prices.[706]
"توقع کے مطابق اسٹاک (شیئر) کی قیمتوں کے بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔[707] لیکن مالیاتی ماہرین معاشیات ہمیشہ اسے نظر انداز کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔"
- the correlation between asset prices and income inequality has been, as expected, very strong....However, most monetary economists ignored — and continue to ignore — asset-price inflation and do not see it as a consequence of an inflated money supply.[708][247]
آج بھی 99 فیصد عام لوگوں کی دولت بڑے خفیہ طریقے سے چوٹی کے ایک فیصد بینکاروں اور سیاسی لیڈروں کو منتقل ہو رہی ہے۔ ٹیکس اصلاحات اس بدتری کا بڑا سبب ہیں۔
- “The share of the top 1 per cent of the population in the United States has grown steadily in recent years. In 2016 they owned 38.6 per cent of total wealth. In relation to both wealth and income the share of the bottom 90 per cent has fallen in most of the past 25 years. The tax reform will worsen this situation and ensure that the United States remains the most unequal society in the developed world. “[709]
بچت کی معاشی طاقت ختم ہو چکی ہے۔۔۔۔ نوٹ چھپائی کے ذریعے عام لوگوں اور پیداواری طبقے کی آمدنی اور دولت تیزی سے حکومت، بینک اور ان کے من پسند قرض داروں کو منتقل ہو رہی ہے۔
- savings as an economic force have virtually disappeared....Predominantly at the expense of ordinary people, wealth and real income have been increasingly transferred from productive individuals to governments, the banks and their favoured borrowers through monetary debasement.[710]
سوئزرلینڈ کے ایک بینک کریڈٹ سوئیس کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دولت کی تقسیم بگڑتی جا رہی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگ دنیا بھر کی نصف سے زیادہ دولت کے مالک بن چکے ہیں جبکہ باقی 99 فیصد آبادی نصف سے کم دولت کی مالک ہے۔ دنیا میں صرف 123٫800 لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک 5 کروڑ ڈالر سے زائد کا مالک ہے اور ان میں سے نصف امریکا میں رہتے ہیں۔ دنیا میں 5200 افراد ایسے ہیں جن کی انفرادی دولت 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔[711] یہ لوگ حکومتوں اور عالمی اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
- A new report issued by the Swiss bank Credit Suisse finds that global wealth inequality continues to worsen and has reached a new milestone, with the top 1 percent owning more of the world’s assets than the bottom 99 percent combined.
- "دنیا میں صرف آٹھ افراد ایسے بھی ہیں جن کی مجموعی دولت دنیا کے 3 ارب 60 کروڑ لوگوں کی دولت کے مساوی ہے (یعنی دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے برابر ہے)۔ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر نہیں ہوا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر لوگ نہیں سمجھتے کہ موجودہ مالیاتی نظام عین اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔"
- Eight men own the same wealth as the 3.6 billion people who make up the poorest half of humanity, according to a new report published by Oxfam ....This didn’t happen by accident. Sadly, most people don’t even understand that this is literally what our system was designed to do.[712]
دنیا کے بالغ افراد۔ فیصد | دنیا کی کل دولت میں ان کا حصہ۔[713] |
---|---|
غریب ترین افراد 71% ہیں | ان کے پاس صرف 3% دولت ہے |
غریب افراد 21% ہیں | ان کے پاس 12.5% دولت ہے |
امیر افراد 7.4% ہیں | ان کے پاس 39.4% دولت ہے |
امیر ترین افراد صرف 0.7% ہیں | ان کے پاس 45.2% دولت ہے |
"کرنسی کی تخلیق اورتقسیم کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے اور امیروں کو مزید امیر جبکہ غریبوں کو مزید غریب بناتا ہے۔ جب تک کرنسی کی تخلیق اور تقسیم کا نظام نہیں بدلے گا اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔"
- If We Don't Change the Way Money Is Created and Distributed, We Change Nothing...the money system itself is the source of inequality[714]
"بڑے بینک اور اُن کی بنائی ہوئی مالیاتی انڈسٹری آج کے معاشرے میں ناانصافی کی بنیادی وجہ ہے۔ چاہے یہ معاشرتی مساوات ہو یا آپ کی ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے تحفظ کا مسئلہ ہو، آپ کی روزمرہ کی زندگی ہو یا آپ پر لاگو قوانین کی دیانتداری ہو- ہماری قسمت اب ان بینکاروں کے کنٹرول میں ہے۔"
- "the financial industry – with the big banks at its core – as the root cause of injustice in today's society." Whether it's social equity, the security of your job or retirement, your day-to-day existence, or the fairness of the laws we live under – our fate is currently in the hands of the banks."[716]
- "یہ صرف بڑے لوگوں کا کلب ہے۔ آپ کا داخلہ ممنوع ہے۔"
- George Carlin - It's a big club and you ain't in it[717]
مقداری تسہیل یا آخری حربہ؟
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کبھی کرنسی چھاپنے والے مرکزی بینکوں کو یہ اندازہ ہو جائے کہ صورت حال بے قابو ہونے والی ہے اور ان کی کرنسی ڈوبنے والی ہے تو وہ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپ کر اور عوام کی بے خبری کا فائیدہ اٹھا کر اُس کرنسی کو اثاثوں میں تبدیل کر لیں گے تاکہ بحران گزرنے کے بعدجو بھی نیا مالیاتی نظام آئے، اپنے اثاثوں کی مدد سے وہ اُس نئے نظام پر بھی حاوی ہو سکیں۔[718] اور اِس وقت مقداری تسہیل کے نام پر عین یہی عمل جاری ہے۔[719][720]
- once the inflationary boom is triggered by credit expansion through monetary inflation by the banking system, the bust is inevitable.[721]
- آج حد سے زیادہ کرنسی کی تخلیق 150 سالوں کی مالیاتی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ اگلا انتظامی اور مالیاتی بحران غالباً کریڈٹ اور فی ایٹ کرنسی کا خاتمہ کر دے گا۔
- Today, we face infinite monetary inflation as a final solution to 150 years of monetary failures. The coming systemic and monetary collapse will probably mark the end of cycles of bank credit expansion as we know it, and the final collapse of fiat currencies.[722]
جاپان کا مرکزی بینک آدھا جاپان خرید چکا ہے اور باقی حصہ بھی خریدنا چاہتا ہے۔
- The Bank of Japan by now owns half the country, and they just want to do more.[723]
امریکی مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) بھی تیزی کے ساتھ جائداد خرید رہا ہے۔
- According to Bloomberg, the Fed is now the world’s largest investor and holds about one-third of all bonds backed by US home mortgages.[724]
یورپی سینٹرل بینک بھی محسوس کر رہا ہے کہ اب مونیٹری پالیسی کا اختتام نزدیک ہے۔۔۔۔حقیقتاً ہو یہ رہا ہے کہ یورپی سینٹرل بینک دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کر یورپی ریاستوں کی دولت چوس رہا ہے۔
- even the ECB feel we’re nearing the end game in terms of the limits of monetary policy....all that’s really happening is the ECB printing lots of money for European states to fiscally juice their economies[725]
اب اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ ڈالر پر قائم fiat کرنسی کی حکومت کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
- There is now little doubt that the fiat currency regime based on the dollar has run its course, leaving multiple debt traps to be sprung in the western alliance and an outlook of stagflation or worse.[726]
کاغذی کرنسی کا نام | عرصہ | گراوٹ |
---|---|---|
برطانوی پونڈ | 122 سال | 99 فیصد |
امریکی ڈالر | 122 سال | 97 فیصد |
جاپانی ین | 56 سال | 83 فیصد |
سوئیس فرانک | 56 سال | 78 فیصد |
2008ء میں وقوع پزیر ہونے والے مالیاتی بحران (GFC - great financial crisis) کی ایک بڑی وجہ 'شیڈو بینکنگ' تھی۔ ستمبر 2019ء میں فیڈرل ریزرو نے محسوس کر لیا کہ دوبارہ ویسا ہی بحران ہونے والا ہے اور دنیا کے بڑے Hedge Funds اب ڈوبنے کے نزدیک ہیں۔[728] اسے روکنے کے لیے 17 ستمبر 2019ء سے فیڈرل ریزرو نے تاریخ کا سب سے بڑا repo آپریشن (ری پرچیز ایگریمنٹ rehypothecation) شروع کر دیا اور 24 ستمبر 2019ء سے 14 دنوں کے term repo کا بھی آغاز کیا۔ فیڈرل ریزرو نے اگرچہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ چوتھی مقداری تسہیل (QE4) نہیں ہے مگر اپنی بیلنس شیٹ میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔[729] فیڈرل ریزرو نے یہ بتانے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ کرنسی چھاپ کر کن بینکوں کو دی جا رہی ہے۔[730] شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ کرنسی جرمنی کے سب سے بڑے بینک ڈوئیچے کو بچانے کے لیے خرچ ہو رہی ہے۔ 2007ء کے بعد ڈوئیچے بینک کی مارکیٹ ویلو 90 فیصد گر چکی ہے۔[731]
- کورونا کی وبا کے بہانے صرف چار مہینوں (مارچ تا جون 2020ء) میں امریکی حکومت نے 3000 ارب ڈالر قرض لیے۔[732] کس مائی کے لعل کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ یہ قرض دے سکے؟ نہیں جناب۔ یہ ڈالر تخلیق کر کے قرض دیے گئے ہیں۔ اگر کاغذ کی بجائے ڈالر ماضی کی طرح دھاتی ہوتا تو امریکا کا باجا بج چکا ہوتا۔[733]
- امیروں کو کرنسی مفت مل رہی ہے جبکہ غریبوں کو بالکل نہیں مل رہی۔۔۔۔ زیادہ تر لوگوں کو کیپیٹل ازم سے فائیدہ نہیں پہنچ رہا۔
- money is essentially free for those who have money and creditworthiness, it is essentially unavailable to those who don’t have money and creditworthiness,...the system of making capitalism work well for most people is broken.[734]
- مبارک ہو امریکیو، تمھیں تمھارے منتخب کردہ سیاست دانوں کی مدد سے چند گمنام بینکروں کو بیچ دیا گیا ہے۔
- So congratulations America, you were just bought by a group of anonymous bankers with your own elected politicians making it possible.[735]
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے بیان کے مطابق امریکی ڈالر اب ڈوبنے کے نزدیک ہے۔
- US Dollar Will Collapse Soon.[736]
ایسا ہی بیان نسیم طالب نے دیا ہے کہ ڈالر کا یہ فراڈ اب ختم ہونے کے نزدیک ہے۔
- “The US dollar Ponzi scheme is collapsing...the US exorbitant privilege to print endless amount of paper toilet currency is over.”[737]
پیوٹن نے 31 مارچ 2022ء کو حکم نامہ جاری کر دیا کہ یکم اپریل 2022ء سے روس اپنی ایکسپورٹ (تیل، گیس، دھاتیں، مصنوعی کھاد وغیرہ) کے بدلے میں صرف اپنی کرنسی روبل یا سونا وصول کرے گا۔[738] اس کے ساتھ ہی روس نے روبل کی قیمت (بلحاظ سونا) بڑھا دی۔ اس سے جرمنی بڑی مشکل میں گرفتار ہو گیا ہے کیونکہ وہ بڑی مقدار میں روس کی گیس کا خریدار تھا۔
کرنسی کی بے تحاشہ تخلیق اور حد سے زیادہ کریڈٹ کا جاری ہونا آگے چل کر جنگ اور انقلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے بعد نیا ورلڈ آرڈر بنتا ہے۔[739] اسی لیے پہلے سے ہی عالمی پیمانے پر لوک ڈاون جیسی غیر منصفانہ پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں تاکہ عوام پہ سخت کنٹرول باقی رہے۔[732]
[740]
[741]
- We need a world war, or a global lockdown, or a climate emergency to keep the rabble in line so that the people on top can finish sorting out the spoils.[742]
کرنسی اور بینک بطور ہتھیار
قابل تخلیق کرنسی صرف استحصال کا بہترین اوزار ہی نہیں بلکہ ایک مہلک ہتھیار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلے غلہ کی قلت قحط کا سبب بنتی تھی۔ کاغذی کرنسی کے دور میں افراط کے باوجود قحط آتا ہے۔ یہ قحط نہیں غربت ہے۔
- the issue and destruction of money by the money-lender is not a service, but a weapon which can be and has been used to perpetuate poverty amidst abundance,[743]
- "امریکا کا سب سے طاقتور ہتھیار گولی نہیں چلاتا، نہ اُڑتا ہے نہ پھٹتا ہے۔ یہ نہ آبدوز ہے نہ ہوائی جہاز ہے، نہ ٹینک ہے نہ لیزر۔ امریکا کا سب سے طاقتور جنگی ہتھیار آج ڈالر ہے۔ امریکا اسے مہارت سے استعمال کرتے ہوئے دوستوں کو نوازتا ہے اور دشمنوں کو سزا دیتا ہے۔۔۔۔ دنیا بھر کی بچت کا 60 فیصد، عالمی ادائیگیوں کا 80 فیصد اور تیل کی عالمی خریداری کا لگ بھگ سو فیصد امریکی ڈالر کی صورت میں انجام پاتا ہے۔"
- America’s most powerful weapon of war does not shoot, fly or explode. It’s not a submarine, plane, tank or laser. America’s most powerful strategic weapon today is the dollar.The U.S. uses the dollar strategically to reward friends and punish enemies....The dollar constitutes about 60% of global reserves, 80% of global payments and almost 100% of global oil transactions.[744]
مارچ 2022ء میں جب روس نے متعدد وارننگ کے بعد یوکرین پر حملہ کیا[745] تو امریکا نے یوکرین کا ساتھ دینے کے لیے روس کے 600 ارب ڈالر سے زائید کے اثاثے ضبط کر لیے اور اسے سوئفٹ سے منقطع کر دیا تاکہ روس دنیا بھر سے تجارت نہ کر سکے۔ مارچ 2012ء میں یہی سب کچھ ایران کے ساتھ کیا گیا تھا۔[746]
سال | شرح تبادلہ |
---|---|
2005 | 1.344
|
2006 | 1.428
|
2007 | 1.303
|
2008 | 1.302
|
2009 | 1.550
|
2010 | 1.503
|
2011 | 1.675
|
2012 | 1.796
|
2013 | 1.904
|
2014 | 2.189
|
2015 | 2.720
|
2016 | 3.020
|
2017 | 3.648
|
2018اگست | 6.1
|
2020اکتوبر | 8.36
|
2021دسمبر | 16.48
|
2022جون | 17.29
|
2023 اگست | 26.7
|
کرنسی کرائیسس | |
---|---|
علاقہ | دورانیہ |
یورپ | 1992–1993 |
لاطینی امریکا | 1994–1995 |
ایشیا | 1997–1998 |
روس | 1998 |
ارجنٹینا | 1999–2002 |
وینیزویلا | 2015–2018 |
ترکی | 2021-2018 |
- ستمبر 1992 میں برطانوی پاونڈ پر ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں 17 ستمبر 1992 کو بینک آف انگلینڈ کو کرنسی peg توڑنا پڑ گیا جس کی وجہ سے پاونڈ ڈالر کے مقابلے میں 25% گر گیا۔ اس حملے کا الزام جارج سوروس پر لگایا جاتا ہے جس نے ایک دن میں ایک ارب ڈالر منافع کمایا۔[748]
- 1994 میں میکسیکو کی کرنسی پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پیسو کی قدر آدھی رہ گئی اور ملک میں شرح سود 80 فیصد تک جا پہنچی۔
- ارجنٹینا کی کرنسی پر بھی حملہ کیا گیا مگر ارجنٹینا اپنا کرنسی پیگ بچانے میں کامیاب رہا۔ لیکن اسے بھاری قرضے لینے پڑے جس کے نتیجے میں 2018ء میں اس کی کرنسی ڈوب گئی اور شرح سود 60 فیصد تک جا پہنچی۔[749]
- 2 جولائی 1997 کو تھائی لینڈ کو ایسے ہی کرنسی حملے کے نتیجے میں کرنسی پیگ توڑنا پڑ گیا۔ جنوری 1998 تک تھائی کرنسی بھات کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 120 فیصد گر چکی تھی۔[750]
- جون 1997 سے جون 1998 کے دوران میں انڈونیشیا، فلیپائن، تائیوان، کوریا، ملیشیا اور ہندوستان کی کرنسیوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ چین کی مداخلت کی وجہ سے ہانگ کانگ کا ڈالر گرنے سے بچ گیا۔[751]
اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ "Soroi" کا اب سعودی عرب،عمان اور بحرین کی کرنسی پر حملہ ہو گا تاکہ ان کا ڈالر سے پیگ ٹوٹ جائے۔
- "معاشی مشکلات کسی ملک کوکمزور اورغیر مستحکم بھی کر سکتی ہیں اور اس کی سیاست کو تباہ بھی کر سکتی ہیں اور اس کی کرنسی پر حملہ کر کے ایسا بحران پیدا کیا جا سکتا ہے۔
- کرنسی توپ یا بم کی طرح نہیں ہوتی مگر بعض حالات میں یہ انتہائی کارآمد ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سستی ہونے کے باوجود نہایت موثر ہوتی ہے اور یہ دشمن کو اس حد تک کمزور یا معذور کر سکتی ہے کہ اپنی حفاظت کرنا تو درکنار، وہ اپنے معمول کے کام بھی انجام نہ دے سکے۔
- عین صحیح وقت پر کرنسی کا حملہ کسی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے یا پہلے سے نرغے میں آئے دشمن کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ اگرچہ کرنسی کا کوئی بھی حملہ انتشار پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ کسی کمزور اور ترقی پزیر معیشت والے ملک کی بقا کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔"
- A state may be compromised, destabilized, weakened, or even politically devastated by economic hardship, and an attack on its currency is one means of creating such turmoil....
- Currency is not like guns and bombs, but it can be an extremely useful weapon in certain circumstances. It is efficient and comparatively inexpensive, and it can weaken or cripple a targeted state in its ability to function, much less to maintain its own security.
- A currency attack at the precisely right (or wrong) moment may help push a state in a destructive direction, or may weaken an opponent already besieged.
- While any currency attack might be disruptive, in a vulnerable, emerging economy one could threaten a country's security.[752]
امریکا کا یہ پرانا حربہ رہا ہے کہ وہ پہلے ترقی پزیر منڈیوں میں ڈالر کی مقدار میں اضافہ کر دیتا ہے اور پھر بعد میں ڈالر کی مقدار کم کر کے منڈیوں کو ڈبو دیتا ہے۔ اس طرح اسے مہنگے اثاثے کوڑیوں کے دام مل جاتے ہیں۔(دیکھیے ادائیگی کا وعدہ)
- Yet money is power, and some critics allege the US has long manipulated the USD global liquidity cycle to first flood EM with liquidity, and then take advantage of the inevitable cyclical liquidity retreat to pick up assets at pennies on the dollar. Does it want to give that up?[753]
- "کسی بھی بین الاقوامی بینک کو امریکی حکومت بلیک میل کر سکتی ہے تاکہ وہ امریکی حکومت کے احکامات مانے کیونکہ امریکا میں بینکنگ کی اجازت کا لائسنس منسوخ کرنا یا امریکی ڈالر میں کاروبار سے روکنا اس بینک کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔ اور جس کے پاس یہ طاقت ہو کہ وہ بڑے ممالک کے بڑے بینکوں کو کنگال کر سکے وہ ان بڑے ممالک کی حکومت پر بھی حاکمیت رکھتا ہے۔" سوئزرلینڈ کے سب سے پرانے بینک Wegelin کی مثال بالکل واضح ہے۔ FATCA (Foreign Account Tax Compliance Act) وہ قانون ہے جو دنیا بھر کے بینکوں کو امریکا کا مالیاتی جاسوس بنا دیتا ہے۔ چونکہ امریکا خود اپنے بینکوں کو اس قانون سے آزاد قرار دیتا ہے اس لیے دنیا بھر کا کالا دھن (بلیک منی) اب صرف امریکا میں چھپانا ممکن رہ گیا ہے۔[754]
Every internationally active bank can be blackmailed by the U.S. government into following their orders, since revoking their license to do business in the U.S. or in dollar basically amounts to shutting them down.... If you have the power to bankrupt the largest banks even of large countries, you have power over their governments, too.[755]
کالے دھن کی امریکی ڈالر میں منتقلی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ ترقی پزیر ممالک کی کرنسیاں گر رہی ہیں۔ 16 اگست 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام دیا:
- "آج جس طرح ڈالر میں پیسہ آ رہا ہے اس طرح پہلے کبھی نہیں آیا"
- "Money is pouring into our cherished DOLLAR like rarely before."[756]
امریکا کی صدام حسین سے جنگ کے دوران امریکا نے عراق میں لگ بھگ 3 کروڑ ایسے کرنسی نوٹ ہوائی جہازوں سے گرائے جن کے ایک جانب عراقی کرنسی چھپی ہوتی تھی اور دوسری جانب عربی زبان میں پروپیگینڈا۔ اس عبارت میں لکھا ہوتا تھا کہ اس نوٹ بردار فوجی کو ہتھیار ڈالنے کے لیے امریکی افواج خوش آمدید کہے گی اور جینیوا کنونشن کے تحت کوئی گزند نہیں پہنچائے گی۔ اس پروپیگینڈے کے نتیجے میں محض چند دنوں میں ہزاروں عراقی فوجیوں نے امریکا کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ایسا ہی نفسیاتی جنگی حربہ امریکا ویتنام میں بھی استعمال کر چکا ہے۔[757] افغانستان کی جنگ کے بارے میں جنرل ڈے وڈ پیٹریاس کا کہنا تھا کہ کرنسی میرا سب سے اہم ہتھیار ہے۔
کاغذی کرنسی کا انجام
مشہور فرانسیسی فلاسفر وولٹیر نے 1729ء میں کہا تھا[394] کہ کاغذی دولت انجام کار اپنی اصلی قدر تک پہنچتی ہے جو صفر ہے۔[758][759] دنیا کی 775 کاغذی کرنسیوں میں سے 599 ڈوب چکی ہیں۔[760][761]
- "تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی ملک اپنے قرضوں کا سود ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تو اندازے لگا لیے گئے کہ اس کی کرنسی اب ڈوبنے والی ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مشکلات سے بچنے یا ٹالنے کے لیے اور بھی زیادہ کرنسی چھاپی جائے۔ اس سے صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔
- قرض جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ کرنسی چھاپنی پڑتی ہے۔ اور جتنی زیادہ کرنسی چھپتی ہے ہائیپر انفلیشن کا خطرہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت ہائیپر انفلیشن سے نہیں نمٹ سکتی۔ ایک دفعہ یہ شروع ہو جائے تو تیزی سے بڑھتا ہے اور انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے۔"
- Historically, when a nation’s debt exceeds its ability to repay even the interest, it can be assumed that the currency will collapse. Typically, governments exacerbate the situation by printing large amounts of currency notes in an effort to inflate the problem away, or at least postpone it.
- The greater the level of debt, the more dramatic the inflation must be to counter it. The more dramatic the inflation, the greater the danger that hyperinflation will take place. No government has ever been able to control hyperinflation. If it occurs, it does so quickly and always ends with a crash.[762]
سن 2008 میں آئس لینڈ کا سینٹرل بینک فیل ہو گیا جس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ میں ایک بڑا مالیاتی بحران آیا۔ بحران سے محض چند دن پہلے امریکی ٹریژری کے سیکریٹری ہنری پالسن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہماری معیشت کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ 2010 میں آئرلینڈ اور 2013 میں قبرص کے سینٹرل بینک فیل ہو گئے۔ فیل ہونے سے کچھ ہی دن قبل حکام نے stress tests کے بعد انھیں محفوظ قرار دیا تھا۔[763]
دسمبر 2014 کے وسط میں روس کے سینٹرل بینک نے اچانک اپنی شرح سود 10.5 سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی۔ سوئیڈن کو 1992ء کے آخر میں سخت مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اپنا کرنسی پیگ توڑنا پڑا تھا۔[764] سوئزرلینڈ کے سینٹرل بینک نے کئی یقین دہانیوں کے باوجود کہ وہ کرنسی peg نہیں ٹوٹنے دے گا، 15 جنوری 2015ء کو اچانک کرنسی پیگ توڑ دیا جس سے فرانک کی قیمت یکدم بڑھ گئی جس کی وجہ سے ہنگری اور آسٹریا کے بہت سے لوگ اپنے گھر کے قرضے کی قسطیں چُکانے کے قابل نہ رہے کیونکہ ان کا قرض سوئس فرانک میں لیا گیا تھا۔ 6 اپریل 2017ء کو چیک ریپبلک (Czech Republic) کے سینٹرل بینک نے اپنا کرنسی پیگ توڑ دیا جس سے کرونا کی قیمت یکدم بڑھ گئی۔ چین کے سینٹرل بینک نے 2015 میں اپنی کرنسی کی قیمت غیر متوقع طور پر 3 فیصد گرا دی۔ فیڈرل ریزرو نے 9 سالوں کے بعد آخر کار 16 دسمبر، 2015ء کو شرح سود میں اضافہ کیا مگر صرف 0.25 فیصد۔ جون 2014سے یورپیئن سینٹرل بینک نے شرح سود منفی کر رکھی ہے۔[765] ڈنمارک اور سوئزرلینڈ میں بھی شرح سود منفی ہو چکی ہے۔سوئیڈن نے 12 فروری 2015 کو شرح سود منفی کر دی اور 18 مارچ 2015 کو شرح سود منفی 0.1 سے گرا کر منفی 0.25 فیصد کر دی۔[766] جنوبی افریقا کے سینٹرل بینک نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ کرنسیوں کی جنگ (currency war) میں بے بس ہو چکا ہے۔ وینیزویلا میں آئی ایم ایف کے مطابق صرف 2015 میں 159 فیصد افراط زر ہوا[767] 17 فروری 2016 کو وینیزویلا میں پٹرول کی قیمت میں 60 گنا اضافہ کر دیا گیا۔ وہاں پٹرول کی سابقہ قیمت پچھلے 20 سال سے برقرار تھی۔ وینیزویلا میں اب خوراک کے لیے بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ وینیزویلا نے دس سال پہلے نہ صرف آئی ایم ایف سے اپنے روابط ختم کر دیے تھے [768] بلکہ اپنا سارا سونا (365 ٹن) بھی مغربی ممالک کے بینکوں سے نکلوا کر اپنی سرزمین پر منتقل کر لیا تھا۔ ایسے ناقابل معافی جرائم کی سزا تو اسے ہر صورت میں ملنی ہی تھی۔
جرمنی کے ڈوئیچے بینک کے پاس 55 ارب یورو کے derivatives جمع ہو چکے ہیں جو جرمنی کی جی ڈی پی سے بھی 20 گنا زیادہ ہیں۔ اگر یہ بینک فیل ہوتا ہے تو حکومت کے لیے اسے بیل آوٹ کرنا ناممکن ہے۔[769]
30 جون 2016 کو آئی ایم ایف نے ڈوئچے بینک کو مالیاتی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔
- Deutsche Bank appears to be the most important net contributor to systemic risks, followed by HSBC and Credit Suisse. Financial Times, 6/30/2016
ڈوئیچے بینک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے جو کالے دھن کو سفید کرتا ہے۔[770]
ڈوئیچے بینک کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ستمبر 2019ء میں یورپیئن سینٹرل بینک (ECB) نے نئے قاعدے قانون جاری کیے ہیں جو ڈوئیچے بینک کو استثنا عطا کرتے ہیں۔
[771]
تاریخ بتاتی ہے کہ 1922–1923 کے دوران میں جرمنی کے بونڈ پر منافع منفی ہو گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد جرمنی میں بد ترین افراط زر آیا تھا اور چیزوں کی قیمت کروڑوں گنا مہنگی ہو گئی تھی۔
- The last time the German bond slipped into negative return was between 1922 and 1923. At that time in Germany succumbed to hyperinflation[772]
یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ اب کنٹرول مرکزی بینکوں کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے[773]
۔[774]
2008-2009ء کے بحران کو گذرے 8 سال ہو چکے ہیں اور اب بھی دنیا بھر کے سینٹرل بینک ہر مہینے 200 ارب ڈالر چھاپ رہے ہیں۔[775]
2009ء سے اب تک 12000 ارب ڈالر کے مساوی رقم چھاپی جا چکی ہے۔[776][777] اگر اتنی ساری رقم چھاپی جا سکتی ہے تو پھر عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟[778][779][780]
[781]
- "کسی معیشت میں بینکوں کی بالا دستی صرف اس وقت تک برقرار رہ سکتی ہے جب تک معیشت کو بڑی مقدار میں قرضے دیے جا سکیں"۔ (اور جب بھی جنگ ہوتی ہے تو قرضوں کی طلب میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔)
- Banks are dominant forces in an economy only when that economy is creating an unhealthy amount of credit.
29 جنوری، 2016ء کو جاپان کے مرکزی بینک نے بھی شرح سود گرا کر منفی 0.1 فیصد کر دی ہے حالانکہ صرف آٹھ دن پہلے اس نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔[782] اس طرح دنیا کی 20 فیصد جی ڈی پی اب ایسے سینٹرل بینکوں کے کنٹرول میں ہے جہاں شرح سود منفی ہو چکی ہے۔[783] سنہ 2008 میں ڈوبنے سے پہلے بیئر اسٹرن، مورگن اسٹنلے اور لہیمن بردارز جیسے عظیم بینک بھی اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تھے۔[784]
لگزمبرگ کے وزیر اعلیٰ اور یورپی یونین کے پرانے لیڈر Jean-Claude Juncker نے واضح بیان دیا تھا کہ "جب معاملہ سنگین ہو تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے"۔
"When it becomes serious, you have to lie"[785]
یونان کی حکومت نے 2009ء میں تسلیم کر لیا تھا کہ وہ کئی سالوں سے جھوٹا بجٹ خسارہ ظاہر کر رہی تھی۔[786]
پچھلے چند سالوں میں کینیڈا، قبرص، نیوزی لینڈ، امریکا اور برطانیہ نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو بینکوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے کھاتے داروں کی جمع شدہ رقم منجمد کر دیں اور پھر ضبط کر لیں۔ حال ہی میں جرمنی نے بھی ایسے قوانین منظور کر لیے ہیں۔[787]
10 اپریل 2016 کو آسٹریا کے ایک بینک Heta Asset Resolution AG نے اپنے سینیئر کھاتے داروں کے اکاونٹ سے 54 فیصد کٹوتی (bail in) کا اعلان کیا ہے تا کہ بینک کو درپیش 8.5 ارب ڈالر کے خسارے کا ازالہ کیا جا سکے۔[788] جون 2016 میں جب بیلجیئم کا آپٹما بینک فیل ہوا تو نہ میڈیا میں کوئی خبر آئی نہ بیلجیئم کے ریگولیٹر اور ECB کی ویب سائٹ پر اس کا تذکرہ ہوا۔[789]
3 مئی 2017ء کو پورٹے ریکو (Puerto Rico) نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ پورٹے ریکو 34 لاکھ کی آبادی رکھنے والا امریکی حکومت کے ماتحت علاقہ ہے جس پر 74 ارب ڈالر کا قرضہ اور 49 ارب ڈالر کے پینشن واجبات ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی میونسپل بینک رپٹسی (bankruptcy) ہے۔ پورٹے ریکو کی بیشتر آبادی نہایت غریب ہے مگر اوسطاً ہر فرد پر 15٫637 ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہے جو امریکا کی 50 ریاستوں کے اوسط سے دس گنا زیادہ ہے۔[790]
- Puerto Rico's crisis shows that large governments can reach a point of no return, endangering investment principal.[791]
7 جون 2017ء کو اسپین کے چھٹے سب سے بڑے بینک Banco Popular کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا جس کی وجہ سے شیئر ہولڈروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا۔[792] 23 جون 2017 کو اٹلی کے دو بڑے بینکوں (Veneto Banca اور Banca Popolare di Vicenza) کو کنگال قرار دے دیا گیا حالانکہ صرف چند دنوں پہلے اٹلی کے وزیر معیشت Pier Carlo Padoan نے یقین دھانی کرائی تھی کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان دونوں بینکوں پر مجموعی طور پر 60 ارب یورو کے واجبات ہیں۔[793]
29 اگست 2017ء کو روس کا چوتھا سب سے بڑا بینک (Otkritie Bank) ڈوب گیا جسے سینٹرل بینک آف رشیا نے بیل آوٹ کر دیا۔[794] اس کے صرف تین ہفتوں بعد روس کا ایک دوسرا بینک (B&N Bank) بھی دیوالیہ ہو گیا۔[795] 2017ء کے اختتام تک روس کے سینٹرل بینک نے انھیں 15 کھرب روبل (25 ارب ڈالر) فراہم کیے مگر انھیں اب بھی مزید 10 کھرب روبل کی ضرورت ہے۔[796]
25 ستمبر 2018 کو اپنے شیئر ہولڈروں سے فراڈ کرنے کے جرم میں امریکا کے بینک Bankrate Inc. کے چیف فائینینشیئل آفیسر Edward DiMaria کو عدالت نے دس سال قید اور دو کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔[797]
21 فروری 2020ء کو امریکی عدالت نے Wells Fargo بینک پر تین ارب ڈالر کا جرمانہ کیا۔[798] یہ امریکا کا چوتھا سب سے بڑا بینک ہے۔[799]
5 مارچ 2020ء کو انڈیا کی حکومت نے ملک کے چوتھے سب سے بڑے نجی بینک 'یس بینک' کو اپنی تحویل میں لے لیا کیونکہ شیڈو بینکنگ بحران کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ اس بینک کے کھاتے دار اب 50 ہزار روپے سے زیادہ کی رقم نہیں نکال سکتے۔ انڈیا کی حکومت 2018ء میں IL&FS کو اور 2019ء میں دیوان ہاوسنگ فائنینس کارپوریشن کو کنگالی سے بچانے کے لیے اسی طرح کی مداخلت کر چکی ہے۔[800]
مارچ 2021ء کے آخری ہفتے میں Archegos Capital Management کو صرف چند دنوں میں 20 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ چونکہ اس ادارے میں Credit Suisse Group AG کی بڑی سرمائیہ کاری تھی اس لیے کریڈٹ سوئیس کو بھی لگ بھگ 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔[801]20 مارچ 2023ء تک کریڈٹ سوئیس بینک کو بونڈ مارکیٹ (Additional Tier 1 market) میں مزید 17 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا[802] اور اسے ایک دوسرے حریف سوئیس بینک UBS میں ضم کر دیا گیا۔ اس طرح سوئزرلینڈ کے 167 سالہ پرانے اور دنیا کے 30 اہم اور globally systematically important بینکوں میں سے ایک بینک کا اختتام ہوا۔[803]
8 مارچ 2023ء کو امریکا کا سلورگیٹ بینک کنگال ہو گیا۔[804] دو دن بعد جمعہ کو سلیکون ویلی بینک (SVB) ڈوب گیا[805] جب جمعرات کو صرف ایک دن میں کھاتہ داروں نے 42 ارب ڈالر بینک سے نکال لیے۔ یہ امریکی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا بینک رن تھا۔[806] اور اس کے دو دن بعد امریکی حکام نے سگنیچر بینک کو اتوار کے دن اپنی تحویل میں لے لیا۔[807] صرف ایک ہفتے میں تین امریکی بینکوں کے ڈوبنے کی وجہ سے کھاتے داروں کا بینکوں سے اپنی رقم نکالنے کا رجحان کم نہیں ہوا۔ اس لیے نئے قوانین بنائے گئے کہ ڈوبتے ہوئے بینک امریکی حکومت سے بونڈز کی face value پر قرض حاصل کر سکیں گے حالانکہ بونڈز کی مارکیٹ ویلو ہمیشہ فیس ویلو سے کم ہوتی ہے۔
15 مارچ 2023ء کو خبر آئی کہ کیلیفورنیا کے فرسٹ ریپبلک بینک کے شیئر کو کچرے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔[808] صرف دیڑھ مہینے بعد یکم مئی 2023ء کو کیلیفورنیا کا 38 سال پرانا فرسٹ ریپبلک بینک FRC اُس وقت ڈوب گیا جب بینک کے صارفین نے اس بینک سے اپنے 100 ارب ڈالر نکال لیے اور اس کے شیئر کی قیمت 97 فیصد گر گئی۔ حکام نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور پھر اسے جے پی مورگن بینک نے سب سے زیادہ بولی لگا کر خرید لیا۔ یہ امریکی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا بینک کا دیوالیہ پن ہے۔ FRC بینک اثاثوں کے لحاظ سے امریکی بینکوں میں 14 نمبر پر تھا۔ مارچ 2023ء کے اختتام پر اس کے اثاثے 233 ارب ڈالر تھے اور اس کی 84 برانچ تھیں۔[809][810]
2008ء میں بینکوں کے ڈوبنے کی بنیادی وجہ toxic assets اور کم شرح سود (ایک فیصد) تھے۔ اِس وقت بھی وجہ عین وہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت toxic assets سے مراد 'سب پرائم مارٹگیج' لون (subprime mortgage loan) تھے جبکہ اِس وقت خود حکومتی بونڈز (جنہیں ہمیشہ سے'محفوظ جنت' safe heaven کہا جاتا تھا) اب toxic assets میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ شرح سود بڑھنے سے ان کی قیمت تیزی سے گری ہے۔ اس وجہ سے خود فیڈرل ریزرو کو 330 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ اس کا کیپیٹل صرف 42 ارب ڈالر ہے۔[811] 2008ء کے بحران کو ٹالنے کے لیے فیڈرل ریزرو نے 12 سالوں تک شرح سود کو زبردستی صفر پر رکھا تھا۔[812]
24 مارچ 2023ء کو جرمنی کے بہت بڑے ڈوئیچے بینک کے شیئرز کی قیمت تھوڑی دیر کے لیے تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی[813] یعنی صرف 8 یورو تک۔[463] لیکن بعد میں یہ سنبھل کر 8.69 تک آگئی۔
امکان ہیں کہ ابھی مزید چھوٹے بینک ڈوبیں گے۔
24 اگست 2023ء کو ترکی نے شرح سود 17.5 فیصد سے بڑھا کر یکدم 25 فیصد کر دی۔ ترکی میں انفلیشن لگ بھگ 50 فیصد ہے۔[814]
سبق
- کرنسی (یا کریڈٹ یا بٹ کوائن) تخلیق کرنے کی صلاحیت درحقیقت جبری غلامی کو رضا کارانہ غلامی (نوکری) میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔[815] فریکشنل ریزرو بینکنگ اور شیئرز کا اجرا کرنسی تخلیق کرنے کے قانونی طریقے ہیں۔
- معیشت میں جتنی اہمیت کرنسی کی ہوتی ہے لگ بھگ اتنی ہی اہمیت کرنسی ٹرانسفر کرنے کے میکینزم کی ہوتی ہے (خصوصاً جب رقم بڑی ہو یا دوردراز بھیجنی ہو) جسے عموماً بینک انجام دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کرنسی کے متبادل بنے۔ اور اسی وجہ سے بینک اور حکومتیں جس طرح جعلی کرنسی چھاپنے کی سخت دشمن ہوتی ہیں اُسی طرح ہُنڈی اور حوالہ کے ذریعہ کرنسی ٹرانسفر کے کاروبار کی سخت دشمن ہوتی ہیں کیونکہ اگر ہنڈی اور حوالہ کا کاروبار عروج پا گیا تو بینکوں کی مارکیٹ پر گرفت کمزور پڑ جائے گی اور مارکٹیں دوبارہ آزاد ہو جائیں گی۔ بٹ کوائن کی تیزی سے مقبولیت کی ایک وجہ یہی تھی کہ یہ آسانی سے منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ چین، روس اور کئی ملکوں کی کرنسی کو اکثر ممالک کے بینک ٹرانسفر سسٹم (سوئفٹ) میں صرف اس لیے شامل نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ کہیں امریکی ڈالر سے زیادہ مقبول نہ ہو جائیں۔
- چھوٹے ڈرون کی ایجاد نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ سونا بطور کرنسی ڈرون سے ٹرانسفر کیا جا سکے۔ سونا کاغذی کرنسی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
- gold is the biggest threat to the dollar.[640]
- کسی ملک پر بینکوں کے ذریعے تجارتی پابندیاں عائید کرنے کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو قدیم زمانے میں کسی شہر یا قلعے کا جنگی محاصرہ کرنے سے حاصل ہوتا تھا۔ اگست 1991ء میں سویت یونین کو تجارتی پابندیوں کی مدد سے توڑا گیا تھا۔[816]
- “گولڈ اسٹینڈرڈ“ سے مراد سونے کی کرنسی نہیں تھی بلکہ کاغذی کرنسی تھی۔ ایسی کاغذی کرنسی جسے طے شدہ سونے کی مقدار میں تبدیل کیا جا سکے۔ [817] جاری کنندہ کا یہ وعدہ ہمیشہ جھوٹا ثابت ہوا۔[818]
- “paper promises." These promises are never fully honored[819]
- جب تک کرنسی سونے سے منسلک تھی اس وقت تک کریڈٹ کارڈ اور car loan کا وجود نہ تھا۔[820]
- اگر کوئی مُلک اپنی کرنسی کنٹرول نہیں کر سکتا تو وہ کسی طرح بھی اپنی معیشت (اکنومی) کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔[743][639]
- قرض لینے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر وقت کے ساتھ گر رہی ہو۔(دیکھیے ایسگناٹ) اور بچت کرنے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر بڑھ رہی ہو۔
- جب کوئی قوم ادائیگی کے وعدے کو ادائیگی سمجھنے لگے تو اُسے کوئی بھی زوال سے نہیں بچا سکتا۔ ادائیگی کا وعدہ ہارڈ کرنسی کا متبادل (money substitudes) ہوتا ہے جیسے کاغذی کرنسی، چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، بل آف ایکسچینج، بٹ کوائن وغیرہ۔ سلطنت عثمانیہ اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔[821]
- کرنسی قابل تخلیق نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ سونا چاندی انسان کے لیے قابل تخلیق نہیں ہوتا۔ جب کرنسی قابل تخلیق ہوتی ہے (جیسے کہ کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی e-money ہوتی ہے) تو تخلیق کنندہ نہایت امیر اور طاقتور ہو جاتا ہے[822] اور نہ صرف حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے (مثلاً جنگ[823])۔ قابل تخلیق کرنسی غریبوں کی دولت کو کرنسی تخلیق کرنے والے امیروں تک خاموشی سے منتقل کرنے کا موثر ترین حربہ ہے۔[824]
- A fiat monetary system allows power and influence to fall into the hands of those who control the creation of new money, and to those who get to use the money or credit early in its circulation. The insidious and eventual cost falls on unidentified victims who are usually oblivious to the cause of their plight. This system of legalized plunder (though not constitutional) allows one group to benefit at the expense of another. An actual transfer of wealth goes from the poor and the middle class to those in privileged financial positions. Rep. Ron Paul, MD[825]
- محنت محدود حد تک کی جا سکتی ہے جبکہ کرنسی لامحدود حد تک تخلیق کی جا سکتی ہے۔ محنت کبھی قابلِ تخلیق کرنسی کو شکست نہیں دے سکتی۔
- Our Time/Labor Is Finite, But Money Is Infinite...Once we understand this mechanism, we understand that labor can never get ahead.[826]
- جب تجارتی توازن میں خسارہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر گرتی ہے۔ جب فوجی فتوحات میں اضافہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر بڑھتی ہے۔ چونکہ ریزرو کرنسی جاری کرنے والے ملک کو لازماً تجارتی خسارہ ہوتا ہے اس لیے اپنی کرنسی کی قدر بچانے کے لیے اُسے جنگ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ (دیکھیے ٹریفن کا مخمصہ)[827][828]
- یورپ میں پہلے کاغذی کرنسی (اور بل آف ایکسچینج) کا انقلاب آیا جس کی دولت بعد میں صنعتی انقلاب کی وجہ بنی۔[829] (1784ء تک برطانیہ میں کاغذی کرنسی کی مقدار 60 لاکھ پونڈ سے کم تھی جو صرف 8 سال بعد دُگنی ہو چکی تھی۔[29])
- the evidence indicates that the supply of high-powered money started to grow at an accelerated rate at some point after 1630. Equally important was the emergence of nonmetallic money as a means of exchange. Here one should count as money not only the notes issued by the bank of Stockholm, the Bank of England, and the American Colonies, but also bills of exchange which were increasingly made negotiable. The latter, especially, provided a true source of “inside money," making the money supply more responsive to the needs of the economy.[830]
- دنیا بھر کی کانیں اتنی دولت پیدا نہیں کرتیں جتنی چند مرکزی بینکار اپنے صوابدیدی اختیارات سے پیدا کرتے ہیں۔[29] ان نجی بینکاروں کو یہ اختیارات (حق) جمہوری حکومت عطا کرتی ہے۔[831][565]
- یہ اولین ثبوت ہے کہ مغرب کی حکومتیں بنیادی طور پر بدعنوان ہیں۔ یہ ملکی قرضہ کم کرنے کی بجائے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔
- It is prima facie evidence that governments in the West are corrupt to the core.[402]
- "ہماری جمہوریت ہمیں نہیں بلکہ ہمارے لیڈروں اور امیر ترین لوگوں کو خوش کرنے کے لیے قائم ہے۔ اور یہ شائید اس وقت تک ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔"
- Our so-called democracies exist to please our leaders and elites, not ourselves. And we’re unlikely to figure that one out until it’s way too late.[832]
- بینکاروں اور سٹہ بازوں کی حکومت کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔
- The rule of the financiers and the speculators is called Democracy.[743]
- سٹہ عالمی معیشت کا ایک بڑا حصہ بن چکا ہے۔ ہم اب پیداواری معیشت نہیں رہے، امریکا محض ایک جوا خانہ ہے۔
- "The betting market becomes a bigger part of the economic system. We’re not a manufacturing economy anymore, the US is a casino.[833]
- اسٹاک مارکیٹ، بونڈ مارکیٹ، ڈیری ویٹو مارکیٹ اور فورین ایکسچینج مارکیٹ کاغذی کرنسی کی پیداوار ہیں[834] اور یہ معیشت میں کسی قابل استعمال چیز کا اضافہ نہیں کرتیں۔[835] جب کاغذی کرنسی نہیں تھی تو اسٹاک مارکیٹیں بھی نہیں تھیں۔ یہ محنت کرنے والوں کی کمائی محنت نہ کرنے والوں کو منتقل کرتی ہیں[836]۔ ناقابل تخلیق ہارڈ کرنسی میں اسٹاک مارکیٹ اور بونڈ مارکیٹ پنپ نہیں سکتیں۔[837]
- فورین ایکسچینج مارکیٹ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں روزانہ ہونے والی خرید و فروخت کا حجم 5000 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہوتا ہے۔[838][839]
اس کے برعکس پوری دنیا میں ایک سال میں بکنے والے 35 ارب بیرل معدنی تیل کی قیمت صرف 1750 ارب ڈالر ہوتی ہے۔[840]
- the people who earn the most money are not only not adding value to society, they’re in fact parasites feeding off the general public.[841]
جنس | عالمی کاروبار کا روزانہ حجم[842] |
---|---|
معدنی تیل (پیٹرولیئم) | 7 ارب ڈالر |
اسٹاک (شیئر) | 270 ارب ڈالر |
بونڈ (قرضے) | 835 ارب ڈالر |
کرنسی (فورین ایکسچینج) | 6,600 ارب ڈالر[843] |
- متحدہ امریکا میں 2010ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت نے Dodd-Frank Consumer Protection Act نامی قانون بنایا جو کنزیومر کو کوئی تحفظ نہیں دیتا بلکہ فورین ایکسچینج (فوریکس) کی مارکیٹ میں صرف بڑے بینکوں کی اجارہ داری کو یقینی بناتا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے فوریکس کا سٹہ کرنے والے چھوٹے تاجر لازماً نقصان اٹھاتے ہیں۔
- کاغذی سرمائے کی ایکسپورٹ نئے نوآبادی نظام کا بنیادی ہتھیار ہے۔[846]
- The export of capital is a primary economic tool utilized by neocolonialism.
- ہارڈ کرنسی (Hard currency) کے نظام میں سرمایہ محنت اور بچت سے تخلیق ہوتا تھا۔ فی ایٹ کرنسی (زر فرمان) کے نظام میں سرمایہ مرکزی بینک کے صوابدیدی اختیارات سے تخلیق ہوتا ہے اور capital کہلاتا ہے۔ مرکزی بینکار ہی کیپیٹل ازم کے موجد ہیں۔[847][848] کموڈٹی کے مقابلے میں کیپیٹل تخلیق کرنا اور ایکسپورٹ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کیپیٹل مارکیٹ نوآبادیاتی نظام کا نیا روپ ہے۔
- Even when the imperialist powers abandoned classical colonialism, they opted for the way of colonization through the export of capital.[849]
- جو ملک اپنی کرنسی کا کنٹرول کھو بیٹھتا ہے وہ اپنی حاکمیت (sovereignty) بھی کھو دیتا ہے (مثلاً یونان)۔ بادشاہ اور ڈکٹیٹر اپنی کرنسی کا کنٹرول کبھی کھونا نہیں چاہتے اس وجہ سے سینٹرل بینکرز ان کے دشمن بن جاتے ہیں[850] جبکہ جمہوری حکمران کم مدتی ہوتے ہیں اور اپنی کرنسی کا کنٹرول غیر ملکی عالمی بینکاروں کو بیچنے پر با آسانی تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بینکار اور ان کے ماتحت میڈیا جمہوریت کے قصیدے گاتا ہے اور آمروں کو بُرا کہتا ہے۔[851] تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت میں غربت بڑھتی ہے اور امیر غریب کی خلیج اور وسیع تر ہو جاتی ہے۔[852]
- ہارڈ کرنسی (زر کثیف) کا نظام شفاف ہوتا ہے۔ Fiat کرنسی (زر فرمان) کا نظام جان بوجھ کر نہایت پیچیدہ اور غیر شفاف بنایا گیا ہے۔ زر فرمان درحقیقت ایک پونزی اسکیم ہے۔[855] مالیات کی دنیا میں ہر مہینے چند نئی اصطلاحات کا اضافہ ہو جاتا ہے جن کا مطلب پوری طرح سمجھتے سمجھتے لوگوں کو کئی سال لگ جاتے ہیں۔
- "جب کرنسی سے متعلق قوانین غیر واضح ہوں اور بار بار تبدیل ہوتے رہیں تو ایسی کرنسی پنپ نہیں سکتی"
- money cannot manage itself under unstable and unclear terms. (Walter Bagehot)[856]
- سینٹرل بینکنگ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو قرض لے کر سب سے طاقتور فوج بنا سکتا ہے اُسے قرض واپس کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ متحدہ امریکا کا فوجی بجٹ چین، انڈیا، روس، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا اور برازیل کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔[857]
- ہارڈ کرنسی کے پیچھے کوئی دھونس دھمکی نہیں ہوتی اس لیے یہ دائمی ہوتی ہے۔ زر فرمان کے پیچھے ہمیشہ فوجی طاقت ہوتی ہے اس لیے یہ عارضی ہوتی ہے کیونکہ ہر فوج کو کبھی نہ کبھی زوال آتا ہے۔
- ہارڈ کرنسی کا نظام مرکزی بینکوں کو مفلس اور عوام الناس کو خوش حال بناتا ہے۔ زر فرمان (فی ایٹ کرنسی) کا نظام مرکزی بینکوں کے مالکان کو کھرب پتی بنا چکا ہے جبکہ آج کا مزدور اپنے دادا پردادا سے دگنا زیادہ کام کر کے بھی بدحال رہتا ہے۔[858][859] اگر آپ اپنے دشمن کو کنگال کر دیتے ہیں تو وہ آپ کا دشمن نہیں رہتا۔ وہ آپ کا نوکر بن جاتا ہے۔[860]
- زر فرمان کی وجہ سے جدید بینکاری نظام بچت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور قرض اور قرض در قرض کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ صرف امریکا کے اندرونی اور بیرونی قرضے 60٫000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔[861][862][863][864]
- اپریل 2018ء تک پوری دنیا پر قرضوں کی کل مقدار 247 ہزار ارب ڈالر ہو چکی تھی۔[865] اگر اس رقم کو دنیا کی کل آبادی (سات ارب) سے تقسیم کیا جائے تو دنیا کے ہر جوان بچے بوڑھے پر 33٫000 ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے جو اس کی اولادوں نے ادا کرنا ہے۔ یہ رقم پوری دنیا کی GDP کا لگ بھگ سوا تین گنا (325%) ہے۔[866]
- کاغذی کرنسی (زر فرمان) میں کی جانے والی بچت افراط زر کی وجہ سے تیزی سے سکڑتی جاتی ہے یعنی اس کی قوت خرید گرتی جاتی ہے۔ ہارڈ کرنسی کے نظام میں بچت کی قوت خرید وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہارڈ کرنسی قدر کی برقراری (store of value) ہے جبکہ کاغذی کرنسی قدر کی چوری (steal of value) ہے۔ یہی قدر کی چوری آج دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کی بنیادی وجہ ہے۔[576]
- ہارڈ کرنسی کا مطلب آزادی ہے۔ کاغذی کرنسی کا مطلب غلامی ہے۔ (اگرچہ ڈالر، پاونڈ، یورو اور ین کو اکثر ہارڈ کرنسی بتایا جاتا ہے مگر یہ کاغذی کرنسیاں ہیں)
- honest money and freedom are inseparable, as Mr. Greenspan argued, and paper money leads to tyranny"[867]
- اگر کرنسی hard ہو تو بھی بینک فریکشنل ریزرو بینکنگ کے ذریعے قرض دے کر اپنے کھاتوں میں حقیقی اثاثوں سے زیادہ مالیت کے اثاثے دکھا سکتے ہیں۔ اگر فریکشنل ریزرو کی حد 20 فیصد ہو تو جمع شدہ اثاثے پانچ گنا زیادہ تک ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح فرضی دولت پر بھی حقیقی منافع کمایا جا سکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو کو 'money multiplier' بھی کہتے ہیں۔
- یہ غلط ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ حکومت کے تین اہم ستون ہوتے ہیں۔ حکومت کا ایک چوتھا ستون بھی ہوتا ہے جو ان تینوں ستونوں کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ ہے کرنسی۔ اس لیے کرنسی کا کنٹرول حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔[13]
- گذشتہ تین سو سالوں میں ہر سامراجی طاقت (imperial power) درحقیقت ایک طاقتور کاغذی کرنسی سے مسلح تھی جبکہ ان کا شکار بننے والے ممالک اس مہلک ہتھیار سے محروم تھے۔
- all of the colonial powers of Europe are paper tigers.[218]
- اگر گوروں کی آمد سے قبل ہندوستان بھی ایک منظم بینکنگ سسٹم اور کاغذی کرنسی بنا چکا ہوتا تو ہرگز بھی برطانوی کالونی نہ بنتا۔
- "To preserve power, a sovereign needs not only to have an army but even more so issue a currency."[436]
- "دنیا پر حکمرانی کے لیے صرف فوج کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کریڈٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔"[868]
- جو پوری دنیا کو قرضے دے سکتا ہے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے۔[869]
- اپنی ملکیت میں موجود اثاثوں سے زیادہ قرض دینے کی صلاحیت درحقیقت دولت تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے (خواہ یہ قرضے بغیر سود کے ہی کیوں نہ ہوں)۔ یہی چیز فریکشنل ریزرو بینکنگ ہے۔[870]
- جو دولت تخلیق کر سکتا ہے وہ عالمی منڈی میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے (یا بڑھا سکتا ہے) کیونکہ وہ گھاٹے کا سودا بھی باآسانی کر سکتا ہے۔[871][872][873] کاغذی کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے نظام میں “فری مارکیٹ اکنومی“ ممکن نہیں۔ مارکیٹ فورس نامی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ اب صرف سینٹرل بینک فورس کا راج ہے۔[874]
- we have not had anything even remotely resembling free markets for more than a century.[875]
- "We have a dual system. Free markets for the poor and state socialism for the rich."نوم چومسکی[876]
- ...Thus, there is no real “market force” anymore – “just central banker force”.[877]
- ہارڈ کرنسی کے زمانے میں جنگیں ملک اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ کاغذی کرنسی کے دور میں جنگیں سینٹرل بینک پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد دنیا بھر سے نوآبادیاتی نظام (Colonialism) کا یک لخت خاتمہ اسی وجہ سے ہوا۔ کاغذی کرنسی کے نظام سے ہزاروں میل دور سے غلاموں کی دولت چوسنا ممکن ہو گیا ہے۔ اگست 2021ء میں امریکی فوجی انخلا کے بعد امریکی حکومت نے افغان حکومت کے ساڑھے نو ارب ڈالر واپس کرنے سے انکار کر کے نئی حکومت کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔[878] اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ افغانستان خود اپنی تانبے کی کرنسی[727] جاری کرے (بلحاظ وزن) جو اس کی گرتی معیشت کو فوراً سنبھال سکتی ہے۔ کاغذی کرنسی کے برعکس ڈالر کے مقابلے میں تانبے کے سکوں کی گراوٹ (devaluation) تقریباً ناممکن ہے۔[879]
- In this new form of corporate colonialism currency is used as the weapon in the war to control the world [880][361]
- بہت بڑے پیمانے پر آزادی سلب کرنے کی جتنی صلاحیت بینکنگ سسٹم میں ہے اتنی کسی اور میں نہیں۔ اگر کرنسی سونے چاندی پر مشتمل ہوتی (یعنی قابل تخلیق نہ ہوتی) تو بینکوں میں یہ طاقت نہ ہوتی۔
- The value of advocating for decentralized and physical alternatives to the banking system may not be easily grasped by the activists of today, but few other things have the potential to erode freedom on such a massive scale.[881]
- "In the last few decades, the role of central bankers changed from bit players in the economic realm to all-powerful stars on the global stage."[882]
- بینکاری نظام پر ضرب لگانے کے خواہش مند لیڈر مروا دیے جاتے ہیں۔[883][884]
- ترقی یافتہ ممالک میں بھی جمہوری حکومتیں عوام سے زیادہ مرکزی بینکوں کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔[885] پہلی دنیا (کیپیٹلسٹ ممالک) میں کرنسی تخلیق کرنے کا اختیار پرائیوٹ بینکوں کے ہاتھ میں ہوتاہے اور جمہوری حکومت پر قرضہ بڑھتا چلا جاتا ہے جس کا سود بلآخیر عوام کو بھرنا پڑتا ہے۔ دوسری دنیا (کیمونسٹ ممالک) میں کرنسی تخلیق کرنے کا اختیار براہ راست حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور حکومت نہ مقروض ہوتی جاتی ہے نہ اس کے عوام کو سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ تیسری دنیا میں وہ ممالک شامل ہیں جو کرنسی وار کے گیم سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ پہلی دونوں دنیا کے لیے شکار گاہیں ہیں۔
- جنگ عظیم اول اور دوم نے کاغذی کرنسی کو بڑا دوام بخشا اور اس طرح مرکزی بینکوں کی طاقت اور اقتدار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
- Money is the most important fuel for war and war is one of the great sources of debt imposed upon nations.[886]
- پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں جو حقیقتاً جیتا وہ امریکی ڈالر تھا اور جو ہارا وہ برطانوی پاونڈ اسٹرلنگ تھا۔[887][366]
- دوسری جنگ عظیم کے دو حریف کاغذی کرنسی اور سونے کی کرنسی تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں امریکی کاغذی ڈالر جیتا اور دنیا بھر سے سونے یا چاندی کا سکہ معدوم ہو گیا۔
- یورپ کی سب سے بڑی مالیاتی ایجاد یہ تھی کہ 1960 کی دہائی میں حکومتوں کو مالیاتی مارکیٹ (monetary market) سے بالکل جدا کر دیا جس سے بینکوں کو بڑی آزادی ملی۔ یہ صحیح معنوں میں گلوبلائزیشن کی ابتدا تھی۔[888]
- “Globalism” is not simply international trade or commerce. Globalism is global governance. Governance is rule.[889]
- Actual free trade is a good thing, unequivocally. Unfortunately, the globalization of the past four or five decades hasn’t been free trade.[890]
- غریب کبھی امیر پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔ [891] کاغذی کرنسی نے سینٹرل بینکرز کو دنیا کے امیر ترین افراد بنا دیا ہے۔ اب یہ دنیا کے پس پردہ حکمران ہیں۔[892][893] ہر جمہوریت کی آڑ میں کوئی ڈکٹیٹر چُھپا ہوتا ہے[894][895] (جیسے آئی ایم ایف)۔ برطانیہ پر دو سو سالوں سے بینک آف انگلینڈ کی حکومت رہی ہے۔[743] وہاں بادشاہ یا ملکہ محض نمائیشی ہوتے ہیں۔
- Where democracy had not fallen to dictatorship, it fell to the IMF[896]
- When the system is rigged, "democracy" is just another public-relations screen to mask the unsavory reality of Oligarchy.[897]
- “The shadow government controls the deep state and manipulates our elected government behind the scenes” [898]
- آج کل کے سیاست دان محض کٹھ پتلیاں ہیں جو گلوبلسٹ کے لیے کام کرتے ہیں۔
- [899]Ramaswamy: Today's Politicians Are "Hollowed Out Husks Serving As Puppets" To The Globalist Machine
- نظر آنے والا ڈکٹیٹر مار دیا جاتا ہے، لیکن جمہوریت کی آڑ میں چھپا ڈکٹیٹر آزادی سے حکومت کرتا ہے۔
- [900] Dictators in open control get assasinated, but dictators hidden behind democracy rule freely
- لا علمی ہمیشہ غلامی کی طرف لے جاتی ہے (ignorance is the surest path to slavery)۔ کاغذی کرنسی کی حقیقت سے لاعلمی بہت سے ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنا چکی ہے۔
- "دور جدید میں غلام زنجیروں میں نہیں بلکہ قرضوں میں جکڑے جاتے ہیں۔"
- "Modern slaves are not in chains, they are in debt.—Anonymous"[901]
- کرنسی کنٹرول کرو- عوام کنٹرول ہو جائیں گے۔
- کرنسی تباہ کر دو- عوام تباہ ہو جائیں گے۔
- کرنسی بحال کر دو- دنیا بحال ہو جائے گی۔
- Control the money, control the people. Break the money, break the people. Fix the money… Fix the world.[902]
مشہور ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز کا کہنا تھا کہ کاغذی کرنسی میں پوشیدہ عیاری اور مکاری کو دس لاکھ لوگوں میں ایک آدمی بھی سمجھ نہیں پاتا۔
- “There is no subtler, no surer means of overturning the existing basis of society than to debauch the currency. The process engages all the hidden forces of economic law on the side of destruction, and does it in a manner which not one man in a million is able to diagnose.
- Indeed, the world is ruled by little else. Practical men, ...... are usually slaves of some defunct economist.
– John Maynard Keynes[903]
- “(کاغذی) دولت کی طاقت نہ صرف حکمرانی اور غلام بنانے کی سب سے بڑی طاقت ہے بلکہ یہ دنیا کی بد ترین نا انصافی اور دھوکا دہی کی طاقت بھی ہے۔ یہ کروڑوں لوگوں کو سخت مشقت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، غربت پھیلاتی ہے اور محرومیاں بڑھاتی ہے جبکہ انھیں اپنی مصیبتوں کی اصل وجہ کبھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ان لوگوں کی خاموش رضامندی کی وجہ سے ان کی کمائی کا بڑا حصہ نہایت رازداری کے ساتھ ان مرکزی بینکاروں کو منتقل ہو جاتا ہے جنھوں نے کوئی محنت نہیں کی ہوتی۔ دولت کی اسی طاقت نے ہمارے استادوں کو بھی دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔“
- This money power is not only the most governing and influential, but it is also the most unjust and deceitful of all earthly powers. It entails upon millions excessive toil, poverty and want, while it keeps them ignorant of the cause of their sufierings ; for, with their tacit consent, it silently transfers a large share of their earnings into the hands of others, who have never lifted a finger to perform any productive labor. The same power has grossly deceived our public teachers[904]
مشہور جرمن فلسفی گوئٹے نے دو سو سال پہلے کہا تھا کہ “بد ترین غلامی وہ ہے جس میں غلاموں کو خوش فہمی ہو کہ وہ آزاد ہیں“۔[905]
کنٹرول اور پیداوار
درجہ | کرنسی | آیزو 4217 کوڈ |
کرنسی علامت یا مخفف |
یومیہ حجم کا تناسب | |
---|---|---|---|---|---|
اپریل 2019 | اپریل 2022 | ||||
1 | امریکی ڈالر | USD | امریکی ڈالر | 88.3% | 88.5% |
2 | یورو | EUR | € | 32.3% | 30.5% |
3 | جاپانی ین | JPY | ¥ / 円 | 16.8% | 16.7% |
4 | پاؤنڈ اسٹرلنگ | GBP | £ | 12.8% | 12.9% |
5 | رینمنبی | CNY | ¥ / 元 | 4.3% | 7.0% |
6 | آسٹریلوی ڈالر | AUD | آسٹریلوی ڈالر میں | 6.8% | 6.4% |
7 | کینیڈین ڈالر | CAD | C$ | 5.0% | 6.2% |
8 | سویس فرانک | CHF | CHF | 4.9% | 5.2% |
9 | ہانگ کانگ ڈالر | HKD | HK$ | 3.5% | 2.6% |
10 | سنگاپور ڈالر | SGD | S$ | 1.8% | 2.4% |
11 | سویڈش کرونا | SEK | kr | 2.0% | 2.2% |
12 | جنوبی کوریائی وان | KRW | ₩ / 원 | 2.0% | 1.9% |
13 | نارویجن کرون | NOK | kr | 1.8% | 1.7% |
14 | نیوزی لینڈ ڈالر | NZD | NZ$ | 2.1% | 1.7% |
15 | بھارتی روپیہ | INR | ₹ | 1.7% | 1.6% |
16 | میکسیکن پیسو | MXN | $ | 1.7% | 1.5% |
17 | نیو تائیوان ڈالر | TWD | NT$ | 0.9% | 1.1% |
18 | جنوبی افریقی رانڈ | ZAR | R | 1.1% | 1.0% |
19 | برازیلین ریال | BRL | R$ | 1.1% | 0.9% |
20 | ڈینش کرون | DKK | kr | 0.6% | 0.7% |
21 | پولش زووٹی | PLN | zł | 0.6% | 0.7% |
22 | تھائی بھات | THB | ฿ | 0.5% | 0.4% |
23 | جدید اسرائیلی شیقل | ILS | ₪ | 0.3% | 0.4% |
24 | انڈونیشیائی روپیہ | IDR | Rp | 0.4% | 0.4% |
25 | چیک کورونا | CZK | Kč | 0.4% | 0.4% |
26 | اماراتی درہم | AED | د۔إ | 0.2% | 0.4% |
27 | ترکی لیرہ | TRY | ₺ | 1.1% | 0.4% |
28 | ہنگری فورنٹ | HUF | Ft | 0.4% | 0.3% |
29 | چلین پیسہ | CLP | CLP$ | 0.3% | 0.3% |
30 | سعودی ریال | SAR | ﷼ | 0.2% | 0.2% |
31 | فلپائن پیسو | PHP | ₱ | 0.3% | 0.2% |
32 | ملائیشیائی رنگٹ | MYR | RM | 0.2% | 0.2% |
33 | کولمبین پیسو | COP | COL$ | 0.2% | 0.2% |
34 | روسی روبل | RUB | ₽ | 1.1% | 0.2% |
35 | رومانین لیو | RON | L | 0.1% | 0.1% |
36 | پیروئن سول | PEN | S/ | 0.1% | 0.1% |
37 | بحرینی دینار | BHD | ۔د۔ب | 0.0% | 0.0% |
38 | بلغاریائی لیو | BGN | BGN | 0.0% | 0.0% |
39 | ارجنٹائن پیسو | ARS | ARG$ | 0.1% | 0.0% |
… | دیگر | 1.8% | 2.3% | ||
کل[note 1] | 200.0% | 200.0% |
دنیا کی اہم ادائیگی کرنسیوں کی فہرست
مندرجہ ذیل جدول سوئفٹ کے ذریعے اپریل 2023ء میں دنیا کی ادائیگیوں میں 20 سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسیوں کا تخمینہ ہے۔ [907]
درجہ | کرنسی | اپریل 2023ء |
---|---|---|
دنیا | 100.00% | |
1 | امریکی ڈالر | 42.71% |
2 | یورو | 31.74% |
3 | پاؤنڈ اسٹرلنگ | 6.58% |
4 | جاپانی ین | 3.51% |
5 | رینمنبی | 2.29% |
6 | کینیڈین ڈالر | 2.20% |
7 | ہانگ کانگ ڈالر | 1.39% |
8 | آسٹریلوی ڈالر | 1.30% |
9 | سویس فرانک | 1.12% |
10 | سنگاپور ڈالر | 0.99% |
11 | تھائی بھات | 0.91% |
12 | سویڈش کرونا | 0.75% |
13 | نارویجن کرون | 0.63% |
14 | پولش زووٹی | 0.59% |
15 | ملائیشیائی رنگٹ | 0.40% |
16 | ڈینش کرون | 0.37% |
17 | نیوزی لینڈ ڈالر | 0.32% |
18 | میکسیکن پیسو | 0.26% |
19 | جنوبی افریقی رانڈ | 0.25% |
20 | ہنگری فورنٹ | 0.25% |
مزید دیکھیے
- کھاتہ کرنسی
- ادائیگی کا وعدہ
- کریڈٹ
- فریکشنل ریزرو بینکنگ
- سونے کی مارکیٹ
- لندن بلین مارکیٹ
- چاندی- پانچ ہزار سالہ کرنسی
- انسائڈ جوب 2007 کے مالی بحران کو بے نقاب کرنے والی ایک دستاویزی فلم
- اقتصادی غارت گر
- جوزف اسٹگلیز
- جان مینارڈ کینز
- جوہن لا (معاشیات دان)
- بین الاقوامی مالیاتی فنڈ
- سود خور کیپیٹلزم
- انفلیشن ٹیکس ایک خفیہ ٹیکس
- جزیرہ جیکل کا عفریت
- شرح سود
- انفلیشن اور ڈیفلیشن
- سونا دو پیسے لو
- کیش کے خلاف جنگ
- ٹریفن کا مخمصہ
حوالہ جات
- ↑ Money is the lifeblood of the powerful and the chains and key to human enslavement
- ↑ "Marco Polo and His Travels"
- ↑ Marco Polo - the man who brought China to Europe
- ↑ The Historical Evolution of Central Banking by Stefano Ugolini
- ^ ا ب پ ت History Of Fractional Reserve Banking Which Became Model For The Federal Reserve System, The Unbroken Record Of Fraud, Booms,Busts, Economic Chaos
- ↑ William N. Goetzmann، K. Geert Rouwenhorst (1 August 2005)۔ The Origins of Value: The Financial Innovations that Created Modern Capital Markets۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 94۔ ISBN 978-0-19-517571-4۔
The Mongols adopted the Jin and Song practice of issuing paper money, and the earliest European account of paper money is the detailed description given by Marco Polo, who claimed to have served at the court of the Yuan dynasty rulers.
- ↑ Marco Polo (1818)۔ The Travels of Marco Polo, a Venetian, in the Thirteenth Century: Being a Description, by that Early Traveller, of Remarkable Places and Things, in the Eastern Parts of the World۔ صفحہ: 353–355۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2012
- ↑ Welcome to the Crazed, Frantic Demise of Finance Capitalism
- ↑ Six Central Banks & The Ponzi Scheme That Will Bankrupt The World
- ↑ The Four Dimensions Of The Fake Money Order
- ↑ "An Empire of Fraud and Deception"۔ 18 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2013
- ↑ "جعلی دولت"۔ businessinsider۔ 13 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب "چند بینکار خاندان جو پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں"۔ wordpress
- ↑ "the money masters"۔ themoneymasters۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "paper money is fraud"۔ blogspot
- ↑ "paper money is fraud"۔ facebook
- ↑ "paper money is fraud"۔ ecclesia۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "فیڈرل ریزرو: صدی کا سب سے بڑا فراڈ"۔ 2006
- ↑ "فیڈرل ریزرو: صدی کا سب سے بڑا فراڈ"۔ 2006
- ↑ The Federal Counterfeiter
- ↑ John Maynard Keynes (1920)۔ Economic Consequences of the Peace۔ Gutenberg
- ↑ "بینکاری کے خفیہ راز"۔ 06 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب "united earth"۔ 29 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Infamous Quote from Mayer Amschel Rothschild"۔ liberty-tree.ca[مردہ ربط]
- ↑ "اسلام کا نظریہ زر اور کاغذی کرنسی کی حقیقت۔ اردو میں"۔ mohaddis۔ 13 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "THE EVOLUTION OF CASH" (PDF)۔ 22 فروری 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2017
- ↑ "دولت"۔ relfe۔ 04 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Mysteries of Money
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ THE THEORY AND PRACTICE OF BANKING, 1883
- ↑ "Money Is Just Mutually Shared Illusion"۔ 27 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2014
- ↑ Why Do People Assign Value To Paper Money?
- ↑ How Fiat Money Changes Culture
- ↑ Is A New Gold Standard Possible?
- ↑ John Law and the Système of 1720
- ↑ Currency Arrangements and Banking Legislation in the Arabian Peninsula[مردہ ربط]
- ↑ History of United States Currency
- ↑ A History of American Currency
- ↑ North America And Europe Lead Bitcoin ATM Charge
- ↑ What is Money?
- ^ ا ب پ Greyerz – What The World Is Facing Is Nothing Less Than Catastrophic
- ↑ “Before the leaves fall from the trees”
- ^ ا ب Debt without consent: The tragedy of monopolized fiat money
- ^ ا ب Gold Is Natural Money; Fiat Is Fake
- ↑ Here’s Why Our Monetary System is a Giant Ponzi Scheme
- ^ ا ب Is Hyper-Inflation That Destroys A Currency A "Solution"?
- ↑ Pakistan Government Debt to GDP 1994-2019 Data[مردہ ربط]
- ↑ Pakistan External Debt 1970-2021
- ↑ Pakistan Total External Debt[مردہ ربط]
- ↑ The World of Central Banker Asset Price Manipulation
- ↑ Zachary Macaulay - 1827 - Antislavery movements
- ↑ The Bitcoin Revolution & How Fiat Money Ruins Civilization
- ^ ا ب Corporations are currency issuers, governments are not, distinction between a currency user and a currency issuer.
- ↑ Central Banks Buying Stocks Have Rigged US Stock Market Beyond Recovery
- ↑ That is the reason the Plunge Protection Team (PPT) was created in 1987.
- ↑ Central banks are 'rigging and manipulating markets'-Business insider
- ↑ The Three Pillars
- ↑ This Curve Will Never Flatten Again: Fed Balance Sheet Hits $6.1 Trillion, Up $2 Trillion In 1 Month
- ↑ "ہٹلر کی خود نوشت" (PDF)۔ 09 نومبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2018
- ↑ The Great Story Never Told
- ↑ The Birth and Death of Money
- ↑ The Theory of Value and Surplus Value
- ↑ Why Don't the U.S. Dollar and Bitcoin Drop to Their Tangible Value, i.e. Zero?
- ↑ The Monetary Elite Vs. Gold's Honest Discipline By Vincent R. LoCascio
- ↑ "THE DOCTRINE OF MONEY by McNair Wilson"۔ 16 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2021
- ↑ Inflation as a Tool of the Radical Left
- ↑ "the illuminati and money"۔ 08 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2017
- ↑ The End Of Our Empire Approaches
- ↑ There Is Only One Empire: Finance
- ↑ "وہ 20 چیزیں جو رقم کے طور پر استعمال ہوتی تھیں"۔ smosh۔ 10 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "PEINA"۔ angelfire
- ↑ Larry Allen (1999)۔ The encyclopedia of money۔ ABC-CLIO۔ ISBN 1-57607-037-9
- ↑ جنگ اور معیشت کی تاریخ
- ↑ A Brief (and Fascinating) History of Money BRITANNICA
- ^ ا ب پ "Promise To Pay by Dr. R. McNair Wilson 1934"۔ 23 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2020
- ↑ Hedging The End Of Fiat
- ↑ "Consequences of Ignoring Economic Reality Are Dangerous"۔ 12 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2018
- ↑ gold is a barrier to debasement of fiat currencies
- ↑ Fed Will Raise Rates This Year to Save Capitalism
- ↑ خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار
- ↑ A Look At The Game Theory Of Bitcoin
- ↑ The world's first hack: the telegraph and the invention of privacy
- ↑ From Drafts to Checks: The Evolution of Correspondent Banking Networks and the Formation of the Modern U.S. Payments System, 1850-1914 by John A. James & David F. Weiman
- ↑ Breakthrough Banking: The Technology Is Here, the Revolution Has Begun
- ↑ The Telegraph and Modern Banking Development, 1881—1936*
- ↑ When China Confiscates Gold- Get Silver like JPM
- ↑ Russia Again Warns SWIFT Disconnection A Real Possibility In "Sanctions Spiral"
- ↑ What SWIFT is and why it matters in the US-Iran spat
- ↑ What happened to Iran when it was cut off from SWIFT in 2012?
- ↑ What Is the Iran Nuclear Deal?
- ↑ Rickards: Welcome To 1984
- ↑ "Worried About The Whole System Going Down" - Chris Martenson Fears "The Great Taking" Is Imminent
- ↑ The Puzzle of Electrum Coin
- ↑ Oxford English Dictionary
- ↑ "ریزرو بینک آف انڈیا کی تاریخ" (PDF)
- ↑ Journey of Pakistan Currency
- ↑ The Invention of Paper Money
- ↑ Does money means currency?[مردہ ربط]
- ↑ Bye, Bye Dollar – Buy, Buy Gold
- ↑ "You're Not Losing Your Mind... Everyone Else Is"
- ↑ مائیکل شومین (2009)۔ "کیا ڈالر ایک سست موت مر رہا ہے"۔ ٹائم ڈاٹ کام[مردہ ربط]
- ↑ "امریکی حکومت مر رہی ہے"۔ درحقیقت کیا ہوا
- ↑ "بین الاقوامی زرمبادلہ کے طور پر ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی متعارف کروانے کی ضرورت ہے"۔ معاشی تباہی۔ 29 اپریل 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ Pictorial: Global Reserve Currency Empires
- ↑ Money in the Western Legal Tradition: Middle Ages to Bretton Woods
- ↑ "Bank of England History – Intriguing History"۔ 07 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2024
- ↑ what is jokingly called the economy
- ↑ Honest Money
- ↑ "انجیل پر یقین کرنے والے"۔ biblebelievers.org.au۔ 13 اپریل 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ History of Indian Currency: 5 Periods
- ^ ا ب کرنسی کے بدلتے روپ
- ^ ا ب پ ت History of the Paper Currency in India: 3 Periods
- ↑ From Trade To Territory
- ↑ مشرق میں بینکنگ کے سو سال
- ↑ History And Problems Of Indian Currency 1835 1949
- ^ ا ب پ Indian Currency and Finance by John Maynard Keynes
- ↑ "British India Issues"۔ rbi.org.in۔ ریزرو بینک آف انڈیا۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Currnecy FAQ's"۔ rbi.org.in۔ ریزرو بینک آف انڈیا۔ 05 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب Macleod: Gold Is Replacing The Dollar
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Dickson H Leavens (1939)۔ "Silver Money" (PDF)۔ cowles.yale.edu۔ 18 دسمبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب پ The silver question
- ↑ INDIAN CURRENCY AND FINANCE BY JOHN MAYNARD KEYNES
- ↑ Masters and Slaves of Money
- ↑ What Have the "Experts" Gotten Right? In the Real Economy, They're 0 for 5
- ↑ The Occult Connection II: The Hidden Race
- ^ ا ب "William M. Stewart, 1888"۔ 24 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2017
- ↑ The Economy of Modern India, 1860–1970, Part 3, Volume 3 By B. R. Tomlinson
- ↑ The Economy of Modern India, 1860-1970
- ^ ا ب EXPORT OF CAPITAL
- ↑ "امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history" (PDF)۔ 14 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2014
- ↑ Parasite Logic
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Indian Currency Problems of the Last Decade by Andrew, A. Piatt
- ^ ا ب پ ت "pdf:ریزرو بینک آف انڈیا کی یاد داشت" (PDF)۔ rbidocs.rbi.org.in
- ↑ Modern India, by William Eleroy Curtis-1904
- ↑ پہلی جنگ عظیم کے ہندوستانی کرنسی پر اثرات
- ↑ Indian Currency and Finance by John Maynard Keynes
- ↑ "London Fix Historical Silver"
- ↑ "London Fix Historical Gold"
- ↑ "Silver Statistics and Information"۔ USGS
- ↑ "چاندی کی دانستہ تباہی"۔ 22 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2014
- ↑ "چاندی کے قتل عمد کا کبھی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا۔"۔ 12 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولائی 2014
- ↑ Crossed Wires[مردہ ربط]
- ↑ Can Silver Break Its Chains?
- ↑ "The Pilgrims Society"۔ 07 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2016
- ↑ Silver Fundamentals
- ↑ Uneasy Money: The Anatomy of a Misconception
- ^ ا ب پ Keith Weiner۔ "Monetary Metals"
- ↑ "گولڈ اسٹینڈرڈ"۔ wiki.mises.org۔ 29 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Expect A Paper Currency Collapse"۔ 15 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2016
- ↑ Doug Casey On Why Gold Is Money
- ^ ا ب "Rise and fall of the Gold Standard"۔ 04 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2014
- ↑ Money Does Matter: The End Of The Gold Standard Led To A Lower Standard Of Living
- ↑ "Gold and Economic Freedom by Alan Greenspan 1967"۔ 26 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2022
- ^ ا ب Evolution of International Monetary Systems
- ↑ [Routledge Encyclopedia of International Political Economy page 623]
- ↑ REPORT OF THE ROYAL COMMISSION ON INDIAN CURRENCY AND FINANCE, ستمبر، 1926
- ↑ "It's Not The Economy; It's The Central Banks, Stupid!"
- ↑ Why A Dollar Collapse Is Inevitable
- ↑ "THE COMING COLLAPSE OF THE INTERNATIONAL MONETARY SYSTEM" (PDF)۔ 09 جولائی 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولائی 2017
- ↑ کرنسی کی موت۔ جیمز رِکارڈز
- ^ ا ب As The Currency Reset Begins - Get Gold As It Is "Where The Whole World Is Heading"
- ↑ Bills of Exchange Act 1882
- ↑ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا[مردہ ربط]
- ^ ا ب They Want to Scare You with Myths of “Unhampered Capitalism”
- ↑ "سونے اور اکنومک کومن سینس کے خلاف سو سالہ جنگ/"۔ 21 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2014
- ↑ a financial black hole
- ↑ Fiat Money Is "A Large-Scale Fraud System"
- ↑ "The Classical Gold Standard: Some Lessons for Today" (PDF)۔ 08 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولائی 2015
- ↑ Nine Phases of Monetary Breakdown
- ↑ "The astounding rise of China's currency"۔ 29 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2015
- ↑ "پال واکر کا بیان"۔ 12 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2015
- ↑ The Case for Gold: A Minority Report of the U.S. Gold Commission
- ↑ Mises Wire
- ↑ Globalisation: the rise and fall of an idea that swept the world | World news | The Guardian
- ↑ Parlimentary Debates 1826
- ^ ا ب How A CBDC Created Chaos & Poverty In Nigeria
- ↑ Another Big CBDC Flop... Here's What Really Comes Next (And It's Not What The Elites Hoped For)
- ↑ WEF: Somebody Has To Be In Charge Of Rationing Freedom
- ↑ You can fool some people all the time
- ↑ Early American currency
- ↑ https://www.zerohedge.com/political/was-american-revolution-mistake
- ^ ا ب Macleod: The End Of The Road For The Dollar
- ↑ Real High Crimes And Misdemeanors
- ↑ Keith Weiner۔ "Monetary Metals"
- ↑ Gresham’s law-Encyclopaedia Britanica
- ↑ A Brief Overview of the American Civil War
- ↑ "Debt Slavery" Replaces Physical Slavery
- ↑ THE CONCISE ENCYCLOPEDIA OF ECONOMICS
- ↑ en:Coinage Act of 1873
- ↑ "Recapitulation of the Tables of Population, Nativity, and Occupation" (PDF)۔ U.S. Census Bureau۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2010
- ↑ Thirteenth Amendment to the United States Constitution
- ↑ 8 Things You May Not Know About American Money
- ↑ بہادر شاہ ظفر
- ↑ Nixon Closed the Gold Window and All I Got Was This Lousy National Debt
- ↑ Fixing FDR’s Biggest Blunder: From Gold Standard to Fiat Folly and Back
- ↑ 38 Incredible Facts About The Modern U.S. Dollar
- ↑ President Franklin D. Roosevelt: Architect of Monetary Madness and a U.S. Debt Default
- ↑ Franklin D. Roosevelt, Silver, and China
- ↑ Demonetization and Dehoarding of Chinese Silver
- ↑ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں روپے اور دولت کی قانونی چوری[مردہ ربط]
- ^ ا ب Buffett, Zimbabwe, & What You Must Know About 'Zeros' In The Years Ahead
- ↑ Gold & Silver Confiscation: Can the Government Seize Assets?
- ↑ "Is it illegal to own gold?"۔ 27 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2020
- ↑ Hyperinflation in Civil War China
- ^ ا ب "Preparing for a Potential Gold Confiscation"۔ 16 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2024
- ↑ Did ABN AMRO Default On Its Gold Obligations?
- ↑ کانگریس کی تحقیقاتی رپورٹ
- ↑ The Emperor Has No Clothes بادشاہ ننگا ہے
- ↑ Pimco Economist Has A Stunning Proposal To Save The Economy: The Fed Should Buy Gold
- ↑ "Zero interest rates and "gold back dollar" can not co-exist."۔ 09 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اگست 2019
- ↑ A collapsing dollar and China’s monetary strategy
- ↑ Gold To Be Revalued In New ‘De Facto’ Gold Standard
- ↑ The Dollar Is In Trouble! Here Are 7 Signs That Global De-Dollarization Has Just Shifted Into Overdrive
- ^ ا ب Are We Approaching The End Of The Dollar Reserve Currency System?
- ↑ Saudi Arabia Joins China-Led Economic And Security Bloc - Russia Also A Member
- ↑ China And Brazil Strike Deal To Ditch The US Dollar
- ↑ Pozsar's Warning Of Dollar's Waning Sway Comes True
- ↑ Why the dollar is finished
- ^ ا ب پ Luongo: BRICS Summit Proves Geography Trumps Currency
- ↑ The Start Of De-Dollarization: China's Move Away From The USD
- ↑ "Inside Look-Elliott wave"۔ 16 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2016
- ↑ Charles Hugh Smith Fears "Catastrophic Drop", Financial Markets "Definitely Destabilizing"
- ↑ Michael Hudson: De-Dollarizing The American Financial Empire
- ↑ The Road To A Trillion Dollars
- ↑ "Did Russia Intentionally Trigger A Monetary System Reset?"۔ 01 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اپریل 2022
- ↑ People Money: The Promise of Regional Currencies
- ↑ "سونے اور چاندی کی تاریخ"۔ 14 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2021
- ↑ Silver Moves to China