باب:علی
علی بن ابی طالب (599ء –661ء) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ علی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔ حضرت علی پہلے بچے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریباً دس یا گیارہ سال تھی۔ مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا۔ بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں۔پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں، یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی، اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے کہ آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا، آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے۔ گو آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے، ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی۔ جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس لڑائی میں زیادہ رسول نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے۔ علی ابن ابو طالب علیہ السلام کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی بن ابی طالب کے سر رہا۔جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں علی بن ابی طالب نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے۔ تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی بن ابی طالب کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں علی بن ابی طالب نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا، اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر علی بن ابی طالب نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چنانچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل علی بن ابی طالب سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔ |
نہج البلاغہ (عربی: نهج البلاغة ) حضرت علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہہ کے خطبات اور خطوط کا ایک مجموعہ ہے جسے تیسری صدی ہجری میں سید شریف رضی نے مرتب کیا۔ سید شریف رضی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تمام خطبات اس میں شامل نہیں کیے بلکہ کچھ خطبات اور خطوط منتخب کیے تھے جن کی حیثیت مستند و مصدقہ تھی۔ سید شریف رضی نے انہیں منتخب کرتے ہوئے مذہبی حیثیت کی بجائے عربی ادب کو ملحوظ خاطر رکھا تھا۔ اس کتاب کا مقام عربی ادب اور صحافت و بلاغت میں بہت بلند ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے نزدیک اسے قرآن و حدیث کے بعد اعلیٰ مذہبی مقام حاصل ہے۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے 241 خطبات، 79 خطوط اور 489 مختلف چھوٹی تقریریں شامل ہیں۔ |
امام علی ابن ابی طالب کی شان میں قرآن میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں ، جن میں سے کچھ یہ ہیں :۔ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ * وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ سورة المائدة : آية 55 حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. سورة المائدة آیۃ 3 إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تطهيرا. سورة الاحزاب: الآية 33 ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔ سورة البينة آیة 7 |
علی بن ابی طالب کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب علی بن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں«۔کبھی یہ کہا کہ »میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا»علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔ کبھی یہ کہ» وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں،, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى۔۔۔ کلینی، الکافی، ص 294
|
|
|
اولاد آپ کے بچوں کی تعداد ٢٧ تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن ، امام حسن اور امام حسین ، جبکہ دو صاحبزادیاں حضرت زینب و حضرت ام کلثوم علیہما السّلام بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تھیں۔ باقی ازواج سے آپ کو جو اولاد ہوئی، ان میں حضرت حنفیہ، حضرت عباس بن علی شامل ہیں۔ علی ابن طالب علیہ السلام کی اولاد یہ ہیں : بیٹے
بیٹیاں
علی بن ابی طالب کے بیٹے جو واقعہ کربلا میں شہید ہوئے:۔
|
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔ |